
06/11/2023
خاتون کے ٹیسٹ
بانجھ پن ۔ قسط نمبر 2
تحریر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
٭عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ اس کی بیضہ دانیاں صحت مند بیضے پیدا کریں۔ اس کا تولیدی نظام اس انڈے کو بیضہ نالیوں سے گزرنے اور مردانہ خلیے سے ملنے کی سہولت مہیا کرے، بارآور انڈہ ٹیوب سے رحم تک جانے اور رحم کی اندرونی جھلی سے چپکنے کے لیے آزاد ہو، عورت کے ٹیسٹ اسی عمل میں موجود کسی بھی رکاوٹ یا مشکل کو جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور گائناکالوجیکل معائنے کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ یہ ہیں:
1 ۔ انڈے کے اخراج کی جانچ: خون کے معائنے سے ہارمونز کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ مناسب مقدار میں انڈے بن اور خارج ہو رہے ہیں یا نہیں۔
2۔ ٹیوبز کا ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے رحم اور اس سے ملحقہ ٹیوبز کی شکل صورت اور ان میں موجود کسی رکاوٹ یا خرابی کا پتا چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ایک دوا/کنٹراسٹ (جو سیاہ ایکسرے پر سفید رنگ کی تصویر بناتی ہے) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا ایک نرم لچکدار نالی کے زریعے رحم میں داخل کی جاتی ہے، اس دوران ایکسرے یا فلوروسکوپی کی جاتی ہے۔ فلوروسکوپی یا سیلائن انفیوژن سونوگرافی کا آج کل زیادہ شہرہ ہے جس میں کنٹراسٹ کی بجائے نارمل سیلائن اور ایکسرے کی بجائے فلوروسکوپی یا الٹراساونڈ کیا جاتا ہے۔
ان تمام صورتوں میں دوا رحم سے گزر کر ٹیوب کے زریعے پیٹ میں جا گرتی ہے جہاں یہ قدرتی طور پر جذب ہو جاتی ہے اور نقصان دہ نہیں۔ اس سارے عمل کے دوران رحم میں موجود رسولی یا ٹیوب میں رکاوٹ واضح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ ٹیوب بلاک ہونے کی صورت میں دوا آگے نہیں جاتی بلکہ واپس آنا شروع کر دیتی ہے۔
3 ۔اوویرین ریورس ٹیسٹنگ: اس ٹیسٹ کے ذریعے بیضہ دانی میں موجود قابل اخراج بیضوں کا معیار اور مقدار جانچی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہارمون ٹیسٹ کے ساتھ مہینے کے آغاز میں ہی کر لیا جاتا ہے۔
4 ۔ہارمون ٹیسٹ: انڈوں کی پرورش اور پیدائش کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کے ساتھ ساتھ نظام تولید کو کنٹرول کرنے والے پیچوٹری ہارمونز کو پرکھا جاتا ہے۔
5 ۔امیجنگ ٹیسٹ : اندرونی الٹرا ساؤنڈ کے زریعے رحم بیضہ دانی اور ٹیوبز کی صورتحال دیکھی جاتی ہے۔ ہیسٹیرو سونوگرافی میں ایک کیمرے کے ذریعے رحم اور ٹیوب کے اندرونی خلا کا باریکی سے معائنہ کیا جاتا ہے جو عام الٹراساؤنڈ سے ممکن نہیں۔ خصوصی حالات میں ہسٹیرو سکوپی، لیپروسکوپی اور جینیاتی جانچ بھی کی جا سکتی ہے۔
ہر مریض کو ہر ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اور آپ کا معالج باہم مشورے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ٹیسٹ کب کروایا جانا چاہیے۔
علاج
٭بانجھ پن کے علاج کا دارومدار مندرجہ ذیل چار نکات پر ہے:
1۔ بانجھ پن کی وجہ کیا ہے؟ 2 ۔بانجھ پن کا دورانیہ کتنا ہے؟ 3۔ زوجین کی عمر کتنی ہے؟ 4 ۔زوجین کی ذاتی خواہش کیا ہے؟
یاد رکھیے! بانجھ پن کی کچھ وجوہات ناقابل علاج ہیں جب بھی بنا علاج کے خودبخود حمل نہیں ٹھہرتا تب مدد لی جانا چاہیے۔ بانجھ پن کا علاج معاشی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر مشکل اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ نیز دوران علاج زوجین کے وقت ، عزم اور بلندحوصلہ کی بے حد اہمیت ہے۔
مرد کا علاج
٭مرد کے علاج میں ازدواجی تعلق سے متعلق مشکلات کا حل اور مردانہ تولیدی خلیوں کی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔
1۔ لائف اسٹائل تبدیل کریں: زندگی کے معمول کا جائزہ لیجیے۔ اسے بہتر بنانے سے بانجھ پن پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے مثلاً غیر ضروری ادویات و منشیات کا استعمال ترک کر دیں، مضر صحت اشیا مثلاًاسگریٹ اور انرجی ڈرنک سے پرہیز کیجیے، پابندی سے کھلی فضا میں ورزش اور چہل قدمی معمول بنایے، زوجین کی قربت میں اضافہ اور وقت کی بہتری (ہفتے میں 2 سے 3 بار ) ،ایسی عادات سے پرہیز جو زرخیزی میں کمی کا باعث ہوں۔ مثلا ًبسیار خوری،موٹاپا،رات دیر تک جاگنا ،سموکنگ ڈرنکنگ وغیرہ۔
2 ۔ادویات: ایسی ادویات موجود ہیں جو تولیدی جرثومہ کی مقدار اور معیار میں بہتری لاتی ہیں اور خصیے کی کارکردگی بڑھاتی ہیں۔ آپ کا معالج آپ کی تشخیص کے مطابق ایک یا زیادہ ادویات تجویز کرتا ہے۔
3 ۔سرجری: چند کیسز میں سرجری کے زریعے سپرم کے بہاؤ میں رکاوٹ دور کر دی جاتی ہے یا پیشاب میں سپرم کا اخراج کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔
4 ۔سپرم ری ٹریول (تولیدی خلیوں کا حصول ): سپرم کے اخراج میں رکاوٹ یا مادہ منویہ میں سپرم بے حد کم تعداد میں ہوں تو مرد کے خصیہ سے سپرم حاصل کیے جاتے ہیں۔ عموماً یہ سپرم اسسٹڈ ری پروڈکشن میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اسسٹڈ ری پروڈکشن کے لیے ایسے مرد مریض جن میں سپرم کی مقدار بہت کم ہو ان کے دو سے تین نمونے مناسب وقفے سے حاصل کر کے فریز کر لیے جائیں۔ جس روز پروسیجر کرنا ہو ان تمام نمونوں کو ملا کر ان نمونوں سے بہتر مقدار میں سپرم حاصل کیے جا سکتے ہیں ،اس طرح اس کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
خاتون کا علاج
٭عموماً ایک مریضہ کو ایک سے دو طریقہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کبھی کبھار کسی خاتون مریض میں مثبت نتیجے کے لیے مختلف تکانیک استعمال کی جاتی ہیں۔
1۔ بیض ریزی کی ادویات: بانجھ پن کی ادویات ان خواتین کے لیے تیار کی جاتی ہیں جن میں انڈے کی تیاری یا اخراج میں مسائل درپیش ہوں۔ یہ ادویات انڈہ بننے (بیض ریزی ) کے عمل کو مہمیز دیتی اور ریگولیٹ کرتی ہیں اور اس کے اخراج کو یقینی بناتی ہیں۔ علاج کے آغاز سے پہلے اپنے معالج سے ان ادویات کے استعمال اور فوائد و نقصانات پر گفتگو کرلی جائے تو بہتر ہے۔
2 ۔دوسرے نمبر پر آتا ہے IUI /IUTPI. ، رحم کے اندر سیمن پہنچانا یا رحم کے اندر پیٹ کی جھلی تک سیمن پہنچانا۔ اس طریق علاج میں صحت مند جرثومے سیدھے سبھاؤ مریض کے رحم میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کا فائدہ ایسی خواتین کو ہے جن کے اندام نہانی میں موجود مائعات سپرم کش ثابت ہوتے ہیں یا جن کے شوہر کا سپرم کاؤنٹ (جراثیم کی مقدار) بہت کم ہے۔
اس پروسیجر کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے جب انڈے خارج ہونے کا وقت قریب ہو یعنی زرخیزی کی کھڑکی کے دوران ( 12 سے 36 گھنٹے انڈہ خارج ہونے یا ایل ایچ سرج سے پہلے )۔ مریضہ کی بانجھ پن کی وجوہات ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی بیض ریزی کا وقت اور IUI /IUTPIکرنے کا وقت مریضہ کے روٹین ماہانہ نظام سے یا زرخیزی بڑھانے والی ادویات سے متعین کیا جا سکتا ہے۔
3۔ سرجری: رحم میں موجود رسولی پردے یا کسی قسم کے زخم کا علاج بذریعہ کیمرہ (ہسٹیرو سکوپ یا لیپروسکوپ)۔
4۔ اسسٹڈ ریپروڈکشن ٹیکنالوجی: اس میں ہر وہ طریقہ علاج شامل ہے جس میں سپرم اور بیضے کو جسم سے باہر ہینڈل کیا جاتا ہے۔ اے آر ٹی کی ٹیم میں فزیشن، ماہر نفسیات، ایمبریالوجسٹ، لیب ٹیکنیشن، نرسز اور متعلقہ شعبے کا ٹرینڈ اسٹاف شامل ہوتے ہیں جو ایک ساتھ کام کر کے ایک بانجھ جوڑے کو اولاد کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی سب سے مشہور ہے۔ اس میں بیوی کی بیضہ دانی سے ادویات کے ذریعے زیادہ مقدار میں انڈے حاصل کیے جاتے ہیں، ان انڈوں کو شوہر کے جرثومے کے ساتھ ایک لیبارٹری ڈش میں ملایا جاتا ہے۔ بارآوری کے 3 سے 5 روز بعد اس بارآور انڈے کو رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ 3 سے 5 روز کا وقفہ بارآوری کی کامیابی کنفرم کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔
آئی وی ایف کے دوران استعمال کی جانے والی دیگر تکانیک میں پہلی اکسی (icsi ) ہے۔ اس تکنیک میں ایک صحت مند جرثومے کو ایک میچور انڈے میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ایسے جوڑے کے لیے مفید ہے جہاں مادہ منویہ کی مقدار یا معیار کم ہے مثلا ًسست جرثومے کا کیس یا جس جوڑے میں روٹین آئی وی ایف ناکام ہو چکی ہو۔
دوسرے نمر پر اسسٹڈ ہیچنگ ہے اس تکنیک میں بارآور انڈے کی بیرونی جھلی کھول کر (ہیچنگ ،انڈے نکالنا) اسے رحم کی جھلی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
تیسرے نمبر پر ڈونر بیضہ یا سپرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ تکنیک پاکستان میں صرف ایک خاوند کی دو بیویوں کی صورت میں استعمال کی جا سکتی ہے جس میں بانجھ بیوی کو صحت مند بیوی اپنا انڈہ دینے پر رضامند ہو جائے۔ یہ طریقہ مغرب میں عام مستعمل ہے اور اس کے ذریعے مکمل بانجھ مرد و زن جن کے سپرم یا بیضے میں شدید خرابی موجود ہو وہ اپنی کمی دور کر رہے ہیں۔ اس طریقے میں ڈونر سے انڈہ سپرم یا ایمبریو (بارآور انڈہ)حاصل کیا جاتا ہے اور ریسیپئینٹ کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔
چوتھے نمبر پر حمل کیرئیر کا نمبر آتا ہے۔ فرض کریں ایسی خاتون جس کا انڈہ مکمل طور پر صحت مند ہے لیکن اس کے رحم میں ایسا مسئلہ ہے کہ رحم، حمل ٹھہرانے کے لیے مناسب نہ ہو یا حمل کا ٹھہرنا اس خاتون کی زندگی کے لیے خطرناک ہو۔ ایسی خاتون ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اپنے شوہر سے بارآور اپنے انڈے /حمل کو ایک کیرئیر خاتون میں رکھوا سکتی ہے۔ یہ طریقہ بھی پاکستان میں مستعمل نہیں۔ مغرب میں بانجھ جوڑے ،معمر بے اولاد جوڑے اور ہم جنس پرست اس طریقے سے اولاد حاصل کر رہے ہیں۔
جاری ہے
تیسری قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818411298449229&id=1500174830272879
چوتھی اور آخری قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818565661767126&id=1500174830272879