Bhatti Hospital

Bhatti Hospital Built to serve all the possible med/surg/investigation facilities under one roof as a dream to make it a state of the art hospital in our hometown.

خاتون کے ٹیسٹبانجھ پن ۔ قسط نمبر 2تحریر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ٭عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ ا...
06/11/2023

خاتون کے ٹیسٹ
بانجھ پن ۔ قسط نمبر 2

تحریر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

٭عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ اس کی بیضہ دانیاں صحت مند بیضے پیدا کریں۔ اس کا تولیدی نظام اس انڈے کو بیضہ نالیوں سے گزرنے اور مردانہ خلیے سے ملنے کی سہولت مہیا کرے، بارآور انڈہ ٹیوب سے رحم تک جانے اور رحم کی اندرونی جھلی سے چپکنے کے لیے آزاد ہو، عورت کے ٹیسٹ اسی عمل میں موجود کسی بھی رکاوٹ یا مشکل کو جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور گائناکالوجیکل معائنے کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ یہ ہیں:
1 ۔ انڈے کے اخراج کی جانچ: خون کے معائنے سے ہارمونز کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ مناسب مقدار میں انڈے بن اور خارج ہو رہے ہیں یا نہیں۔
2۔ ٹیوبز کا ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے رحم اور اس سے ملحقہ ٹیوبز کی شکل صورت اور ان میں موجود کسی رکاوٹ یا خرابی کا پتا چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ایک دوا/کنٹراسٹ (جو سیاہ ایکسرے پر سفید رنگ کی تصویر بناتی ہے) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا ایک نرم لچکدار نالی کے زریعے رحم میں داخل کی جاتی ہے، اس دوران ایکسرے یا فلوروسکوپی کی جاتی ہے۔ فلوروسکوپی یا سیلائن انفیوژن سونوگرافی کا آج کل زیادہ شہرہ ہے جس میں کنٹراسٹ کی بجائے نارمل سیلائن اور ایکسرے کی بجائے فلوروسکوپی یا الٹراساونڈ کیا جاتا ہے۔
ان تمام صورتوں میں دوا رحم سے گزر کر ٹیوب کے زریعے پیٹ میں جا گرتی ہے جہاں یہ قدرتی طور پر جذب ہو جاتی ہے اور نقصان دہ نہیں۔ اس سارے عمل کے دوران رحم میں موجود رسولی یا ٹیوب میں رکاوٹ واضح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ ٹیوب بلاک ہونے کی صورت میں دوا آگے نہیں جاتی بلکہ واپس آنا شروع کر دیتی ہے۔
3 ۔اوویرین ریورس ٹیسٹنگ: اس ٹیسٹ کے ذریعے بیضہ دانی میں موجود قابل اخراج بیضوں کا معیار اور مقدار جانچی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہارمون ٹیسٹ کے ساتھ مہینے کے آغاز میں ہی کر لیا جاتا ہے۔
4 ۔ہارمون ٹیسٹ: انڈوں کی پرورش اور پیدائش کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کے ساتھ ساتھ نظام تولید کو کنٹرول کرنے والے پیچوٹری ہارمونز کو پرکھا جاتا ہے۔
5 ۔امیجنگ ٹیسٹ : اندرونی الٹرا ساؤنڈ کے زریعے رحم بیضہ دانی اور ٹیوبز کی صورتحال دیکھی جاتی ہے۔ ہیسٹیرو سونوگرافی میں ایک کیمرے کے ذریعے رحم اور ٹیوب کے اندرونی خلا کا باریکی سے معائنہ کیا جاتا ہے جو عام الٹراساؤنڈ سے ممکن نہیں۔ خصوصی حالات میں ہسٹیرو سکوپی، لیپروسکوپی اور جینیاتی جانچ بھی کی جا سکتی ہے۔
ہر مریض کو ہر ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اور آپ کا معالج باہم مشورے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ٹیسٹ کب کروایا جانا چاہیے۔
علاج
٭بانجھ پن کے علاج کا دارومدار مندرجہ ذیل چار نکات پر ہے:
1۔ بانجھ پن کی وجہ کیا ہے؟ 2 ۔بانجھ پن کا دورانیہ کتنا ہے؟ 3۔ زوجین کی عمر کتنی ہے؟ 4 ۔زوجین کی ذاتی خواہش کیا ہے؟
یاد رکھیے! بانجھ پن کی کچھ وجوہات ناقابل علاج ہیں جب بھی بنا علاج کے خودبخود حمل نہیں ٹھہرتا تب مدد لی جانا چاہیے۔ بانجھ پن کا علاج معاشی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر مشکل اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ نیز دوران علاج زوجین کے وقت ، عزم اور بلندحوصلہ کی بے حد اہمیت ہے۔
مرد کا علاج
٭مرد کے علاج میں ازدواجی تعلق سے متعلق مشکلات کا حل اور مردانہ تولیدی خلیوں کی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔
1۔ لائف اسٹائل تبدیل کریں: زندگی کے معمول کا جائزہ لیجیے۔ اسے بہتر بنانے سے بانجھ پن پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے مثلاً غیر ضروری ادویات و منشیات کا استعمال ترک کر دیں، مضر صحت اشیا مثلاًاسگریٹ اور انرجی ڈرنک سے پرہیز کیجیے، پابندی سے کھلی فضا میں ورزش اور چہل قدمی معمول بنایے، زوجین کی قربت میں اضافہ اور وقت کی بہتری (ہفتے میں 2 سے 3 بار ) ،ایسی عادات سے پرہیز جو زرخیزی میں کمی کا باعث ہوں۔ مثلا ًبسیار خوری،موٹاپا،رات دیر تک جاگنا ،سموکنگ ڈرنکنگ وغیرہ۔
2 ۔ادویات: ایسی ادویات موجود ہیں جو تولیدی جرثومہ کی مقدار اور معیار میں بہتری لاتی ہیں اور خصیے کی کارکردگی بڑھاتی ہیں۔ آپ کا معالج آپ کی تشخیص کے مطابق ایک یا زیادہ ادویات تجویز کرتا ہے۔
3 ۔سرجری: چند کیسز میں سرجری کے زریعے سپرم کے بہاؤ میں رکاوٹ دور کر دی جاتی ہے یا پیشاب میں سپرم کا اخراج کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔
4 ۔سپرم ری ٹریول (تولیدی خلیوں کا حصول ): سپرم کے اخراج میں رکاوٹ یا مادہ منویہ میں سپرم بے حد کم تعداد میں ہوں تو مرد کے خصیہ سے سپرم حاصل کیے جاتے ہیں۔ عموماً یہ سپرم اسسٹڈ ری پروڈکشن میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اسسٹڈ ری پروڈکشن کے لیے ایسے مرد مریض جن میں سپرم کی مقدار بہت کم ہو ان کے دو سے تین نمونے مناسب وقفے سے حاصل کر کے فریز کر لیے جائیں۔ جس روز پروسیجر کرنا ہو ان تمام نمونوں کو ملا کر ان نمونوں سے بہتر مقدار میں سپرم حاصل کیے جا سکتے ہیں ،اس طرح اس کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
خاتون کا علاج
٭عموماً ایک مریضہ کو ایک سے دو طریقہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے لیکن کبھی کبھار کسی خاتون مریض میں مثبت نتیجے کے لیے مختلف تکانیک استعمال کی جاتی ہیں۔
1۔ بیض ریزی کی ادویات: بانجھ پن کی ادویات ان خواتین کے لیے تیار کی جاتی ہیں جن میں انڈے کی تیاری یا اخراج میں مسائل درپیش ہوں۔ یہ ادویات انڈہ بننے (بیض ریزی ) کے عمل کو مہمیز دیتی اور ریگولیٹ کرتی ہیں اور اس کے اخراج کو یقینی بناتی ہیں۔ علاج کے آغاز سے پہلے اپنے معالج سے ان ادویات کے استعمال اور فوائد و نقصانات پر گفتگو کرلی جائے تو بہتر ہے۔
2 ۔دوسرے نمبر پر آتا ہے IUI /IUTPI. ، رحم کے اندر سیمن پہنچانا یا رحم کے اندر پیٹ کی جھلی تک سیمن پہنچانا۔ اس طریق علاج میں صحت مند جرثومے سیدھے سبھاؤ مریض کے رحم میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔ اس طریقہ علاج کا فائدہ ایسی خواتین کو ہے جن کے اندام نہانی میں موجود مائعات سپرم کش ثابت ہوتے ہیں یا جن کے شوہر کا سپرم کاؤنٹ (جراثیم کی مقدار) بہت کم ہے۔
اس پروسیجر کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے جب انڈے خارج ہونے کا وقت قریب ہو یعنی زرخیزی کی کھڑکی کے دوران ( 12 سے 36 گھنٹے انڈہ خارج ہونے یا ایل ایچ سرج سے پہلے )۔ مریضہ کی بانجھ پن کی وجوہات ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی بیض ریزی کا وقت اور IUI /IUTPIکرنے کا وقت مریضہ کے روٹین ماہانہ نظام سے یا زرخیزی بڑھانے والی ادویات سے متعین کیا جا سکتا ہے۔
3۔ سرجری: رحم میں موجود رسولی پردے یا کسی قسم کے زخم کا علاج بذریعہ کیمرہ (ہسٹیرو سکوپ یا لیپروسکوپ)۔
4۔ اسسٹڈ ریپروڈکشن ٹیکنالوجی: اس میں ہر وہ طریقہ علاج شامل ہے جس میں سپرم اور بیضے کو جسم سے باہر ہینڈل کیا جاتا ہے۔ اے آر ٹی کی ٹیم میں فزیشن، ماہر نفسیات، ایمبریالوجسٹ، لیب ٹیکنیشن، نرسز اور متعلقہ شعبے کا ٹرینڈ اسٹاف شامل ہوتے ہیں جو ایک ساتھ کام کر کے ایک بانجھ جوڑے کو اولاد کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی سب سے مشہور ہے۔ اس میں بیوی کی بیضہ دانی سے ادویات کے ذریعے زیادہ مقدار میں انڈے حاصل کیے جاتے ہیں، ان انڈوں کو شوہر کے جرثومے کے ساتھ ایک لیبارٹری ڈش میں ملایا جاتا ہے۔ بارآوری کے 3 سے 5 روز بعد اس بارآور انڈے کو رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ 3 سے 5 روز کا وقفہ بارآوری کی کامیابی کنفرم کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔
آئی وی ایف کے دوران استعمال کی جانے والی دیگر تکانیک میں پہلی اکسی (icsi ) ہے۔ اس تکنیک میں ایک صحت مند جرثومے کو ایک میچور انڈے میں انجیکٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ایسے جوڑے کے لیے مفید ہے جہاں مادہ منویہ کی مقدار یا معیار کم ہے مثلا ًسست جرثومے کا کیس یا جس جوڑے میں روٹین آئی وی ایف ناکام ہو چکی ہو۔
دوسرے نمر پر اسسٹڈ ہیچنگ ہے اس تکنیک میں بارآور انڈے کی بیرونی جھلی کھول کر (ہیچنگ ،انڈے نکالنا) اسے رحم کی جھلی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
تیسرے نمبر پر ڈونر بیضہ یا سپرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ تکنیک پاکستان میں صرف ایک خاوند کی دو بیویوں کی صورت میں استعمال کی جا سکتی ہے جس میں بانجھ بیوی کو صحت مند بیوی اپنا انڈہ دینے پر رضامند ہو جائے۔ یہ طریقہ مغرب میں عام مستعمل ہے اور اس کے ذریعے مکمل بانجھ مرد و زن جن کے سپرم یا بیضے میں شدید خرابی موجود ہو وہ اپنی کمی دور کر رہے ہیں۔ اس طریقے میں ڈونر سے انڈہ سپرم یا ایمبریو (بارآور انڈہ)حاصل کیا جاتا ہے اور ریسیپئینٹ کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے۔
چوتھے نمبر پر حمل کیرئیر کا نمبر آتا ہے۔ فرض کریں ایسی خاتون جس کا انڈہ مکمل طور پر صحت مند ہے لیکن اس کے رحم میں ایسا مسئلہ ہے کہ رحم، حمل ٹھہرانے کے لیے مناسب نہ ہو یا حمل کا ٹھہرنا اس خاتون کی زندگی کے لیے خطرناک ہو۔ ایسی خاتون ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اپنے شوہر سے بارآور اپنے انڈے /حمل کو ایک کیرئیر خاتون میں رکھوا سکتی ہے۔ یہ طریقہ بھی پاکستان میں مستعمل نہیں۔ مغرب میں بانجھ جوڑے ،معمر بے اولاد جوڑے اور ہم جنس پرست اس طریقے سے اولاد حاصل کر رہے ہیں۔

جاری ہے

تیسری قسط کا لنک

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818411298449229&id=1500174830272879

چوتھی اور آخری قسط کا لنک

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818565661767126&id=1500174830272879

بانجھ پن، 15 باتیں جاننا بہت ضروری ہیںڈاکٹر رابعہ خرم درانی  اتوار 5 نومبر 2017قسط نمبر 1ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس ...
06/11/2023

بانجھ پن، 15 باتیں جاننا بہت ضروری ہیں
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی اتوار 5 نومبر 2017
قسط نمبر 1

ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے ۔ فوٹو : فائل
ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے ۔ فوٹو : فائل
اس پر ہمیشہ میرا دل کڑھتا ہے کہ بچہ پیدا کرے عورت، زچگی کا درد سہے عورت!
بچے پیدا کرنے سے بچنا ہے تو فیملی پلاننگ کے لیے گنی پگ بنے عورت!
حمل ٹھہر گیا ،ضائع کروانے کے لیے بھی تکلیف اٹھائے عورت !
ابارشن کروا کر خدا کی بھی مجرم، قانون کی بھی مجرم اور ذہنی عذاب سہے عورت!
بچہ نہیں ہو رہا تو قصور وار کون؟ پھر وہی عورت!
ہند و پاک معاشرے میں بانجھ کا لقب عورت کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے جوقطعی غلط ہے۔ اگر مرد بانجھ ہو تب بھی معاشرے کو یہی بتایا جائے گا کہ عورت بانجھ ہے اور مرد اس کی محبت میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اس کیس میں بھی عظمت کا تاج مرد کے سر پر سجا دیا جاتا ہے۔ اگر بانجھ مرد مزید شادی بھی کرلے تب بھی تشخیص اور علاج کے نام پر عموماً قربانی کا جانور عورت ہی کو بنایا جاتا ہے۔
ایک مزیدار لطیفہ ’دبئی انفرٹیلیٹی سنڈروم‘ بھی پڑھ لیجئے۔ شوہر شادی کے دس پندرہ روز بعد ملازمت کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ بہو سسرال میں اجنبی رشتوں میں دن گزار رہی ہوتی ہے۔ شوہر کو کبھی ویزہ نہیں ملتا تو کبھی ملک کا چکر لگانے کے لیے رقم کا انتظام نہیں اور کبھی نوکری سے رخصت نہیں۔ اس دوران شوہر مرد ہونے کی وجہ سے کم از کم ایک امتحان سے بچا رہتا ہے یعنی ’’اتنے سال گزر گئے بچہ نہیں ہوا؟‘‘ کا جملہ سننے سے۔ بہو،سسرال اور معاشرہ شادی کے سال گنتے ہیں جبکہ شادی وہی شروع کے دس پندرہ دن رہی جو دعوتوں میں گزر گئے۔ حمل ٹھہرگیا تو عورت بخشی گئی، نہیں ٹھہرا تو ایک ایسے کولہو میں پلوا دی جائے گی جس سے اس کی امنگوں کا تیل نکلے تو نکلے، ایسے میں بچہ کہاں سے آئے!
٭جب بھی ایسی خاتون اپنی ساس کے ساتھ حمل کے لیے دوا لینے آتی ہے تو سب سے پہلے میں ساس کو باکردار، صابرہ بہو ملنے کی مبارک دیتی ہوں۔ پھر شوہر اور بیوی کے ساتھ رہنے کا وقت گنتی ہوں جو عموماً ایک سال کے وقفے سے پندرہ دن یا دو سال کے وقفے کے بعد دو یا تین ماہ کا ہوتا ہے۔ شادی کا عرصہ برسوں پر محیط ہو تب بھی حمل ٹھہرنے کا ممکنہ وقفہ ان گنے چنے دنوں پر محیط ہوتا ہے جو معاشرے اور سماج سے چرا کر میاں بیوی ساتھ گزار لیتے ہیں۔
حمل کب ٹھہرتاہے؟
٭عورت کے تولیدی نظام کا سیٹ اپ ایسا ہے کہ ایک تاریخ سے دوسری تاریخ تک کے درمیانی28 سے30 روز میں سے کسی ایک دن انڈہ خارج ہوتا ہے۔ یہ دن عموماً اگلی ممکنہ تاریخ سے ٹھیک چودہ دن پہلے ہوتا ہے۔ یہ انڈہ بارہ سے چوبیس گھنٹے کے لیے نظام تولید میں زندہ رہتا ہے جس کے بعدگر جاتا/ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے ان چوبیس گھنٹے میں زوجین کے مابین دوری قائم رہے تو باقی تمام ماہ میں حمل ہونے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے اسے ذہن میں رکھیں تو عورت کے حساب سے ایک سال میں صرف بارہ دن حمل کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔
٭مرد کے تولیدی جراثیم زنانہ نظام تولید میں چند منٹ سے لے کر پانچ دن تک زندہ رہ سکتے ہیں، یعنی رحم میں جرثومے کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ روز ہے۔ مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا کہ زیادہ تر حمل انڈے کے اخراج سے ایک سے دو روز پہلے کئے گئے ملاپ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل چند حمل ایسے بھی تھے جو انڈے کے اخراج سے پانچ روز پہلے کے ملاپ کے نتیجے میں وقع پذیر ہوئے۔ جرثومے کی پانچ روزہ زندگی میں ان جراثیم نے اندام نہانی، رحم کی لمبی گردن، رحم اور فیلوپئین ٹیوبز سے انڈے دانی اور انڈے سے ملاپ کے بعد ٹیوبز کے رستے واپس رحم تک کا سفر بھی طے کرنا ہوتا ہے۔
٭اسی طرح خاتون کے انڈے خارج ہونے کا دن ہمیشہ سوفیصد درستگی سے بتانا ممکن نہیں ہوتا، اس لئے اسے بھی احتیاطاً ممکنہ دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد تک سمجھ لیجیے یعنی ان مخصوص 24 گھنٹوں کو مزید 48 گھنٹے کے حفاظتی حصار میں لے آئیے تاکہ حمل کا چانس مس نہ ہو۔ سائنس اس وقفے کو زرخیزی کی کھڑکی یا ’فرٹیلیٹی ونڈو‘ کہتی ہے اور اس کا قطعی وقت بیضے کے اخراج سے پہلے کے 12 سے 36 گھنٹے مانتی ہے۔ اب اس مخصوص وقفے میں حمل کا خواہشمند جوڑا کوئی پکنک یا دعوت قبول نہ کرے یعنی گھر پر رہے اور حمل کی خواہش نہ رکھنے والے زوجین ان مخصوص دنوں میں خاص پرہیز رکھیں۔ مردانہ جراثیم کی زنانہ نظام تولید میں 5 روز کی ممکنہ زندگی کے پیش نظر حمل کے لیے مفید تین روز سے بھی 5 دن کا فاصلہ رکھیں۔ اس طرح کے بچاؤ سے زوجین میں سے ہر دو کا کسی بھی تکلیف دہ اور مضر صحت مانع حمل ادویات اور سرجریز سے بچاؤ ممکن ہے۔
٭میں اپنی مریضہ کو ہمیشہ علاج کے آغاز میں ایک تین لفظی موٹو لکھ کر دیتی ہوں’ صبر، حوصلہ، تعاون‘۔ ہر ماہ جب امید بندھ کر ٹوٹ جائے تو صبر کیجیے، حوصلے سے کام لیتے ہوئے علاج جاری رکھیے اور ڈاکٹر سے دوران علاج مکمل تعاون کیجیے۔ وہ ساس جو پوتے کھلانے کی خواہشمند ہے وہ دل بڑا کرے، بیٹا آپ ہی کا ہے، بیوی پا کر ان شاء اللہ بدلے گا نہیں۔ پوتا چاہیے تو بہو کو شوہر کے پاس بھجوانے کا انتظام کریں ،غیرضروری ٹیسٹوں اور علاج سے اس نئے نویلے جوڑے کو بچائیں اور دعائیں سمیٹیں۔ ہاں! اگر ایک نیا شادی شدہ جوڑا ایک سال کا عرصہ بنا کسی دوری کے، ایک ساتھ گزارتا ہے لیکن حمل قرار نہیں پاتا، ایسی صورت میں اس جوڑے کے فریقین کو گائناکالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے اور ابتدائی ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہیں۔ اگر دونوں کے ٹیسٹس درست آئیں تو کسی علاج اور ٹینشن کے بنا مزید ایک سال کا ہنی مون پریڈ مزیدگزاریں۔
اس دوران اگر حمل نہیں ٹھہرتا تو اب وقت ہے کہ ’اسپیشلائزڈ‘ ٹیسٹس کرائے جائیں اور باقاعدہ تشخیص کے بعد متعلقہ کمی/کمزوری/بیماری کا علاج کیا جائے۔ یاد رہے کہ میں یہ تمام ٹائم پریڈ ایک نوجوان جوڑے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتا رہی ہوں۔ اگر فریقین میں سے ایک کی یا دونوں کی شادی لیٹ عمر میں ہوئی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا اس شادی سے پہلے پچھلی شادی میں حمل ہونے یا نہ ہونے کا تجربہ موجود ہے یا آپ کے خاندان خصوصاً بہن بھائیوں میں بانجھ پن موجود ہے تو ایسی صورت میں جوڑے کا وقت قیمتی ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایے۔ جلد از جلد اسپیشلسٹ گائناکالوجسٹ سے رابطہ کیجیے۔
٭یاد رکھیے! بانجھ پن کے علاج کے آغاز میں ڈاکٹر زوجین کا ایک انٹرویو کرتا ہے جس میں جوڑے کی ازدواجی روٹین اور طریق کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر طریقہ علاج طے کیا جاتا ہے۔ بہت سے جوڑوں میں بانجھ پن کی کوئی وجہ تشخیص نہیں کی جا سکتی۔ ایسے جوڑے کے مسئلے کو غیر واضح بانجھ پن ( unexplained infertility ) کہا جاتا ہے۔ بانجھ پن کا علاج مہنگا، طویل اور بسا اوقات تکلیف دہ ہوتا ہے اور آخر میں اس علاج کی کامیابی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی جا سکتی۔
مرد کے ٹیسٹ
٭مرد کی زرخیزی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خصیے مناسب مقدار میں صحت مند تولیدی خلیے پیدا کر رہے ہوں اور یہ خلیے کارگر طور پر اندام نہانی میں داخل کیے جائیں جہاں سے یہ بیضے تک کا سفر اچھے طریقے سے مکمل کر سکیں۔ مرد کے تمام تر ٹیسٹ اس سارے عمل کے دوران درپیش کسی بھی رکاوٹ اور مشکل کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور تولیدی اعضاء کی جانچ کے بعد مندرجہ ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں:
1 ۔ مادہ منویہ کی جانچ : ایک مرد سے 1 سے 2 مختلف اوقات میں حاصل شدہ نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ نمونے کے حصول کا طریقہ متعلقہ ڈاکٹر یا لیب اسسٹنٹ سمجھاتا ہے۔ مخصوص حالات میں پیشاب میں منی کی موجودگی کی پڑتال بھی کی جا سکتی ہے۔
2 ۔ ہارمون ٹیسٹ: خون کے معائنے سے مختلف مردانہ ہارمونز مثلاً ٹیسٹوسٹیرون اور دیگر مثلاً تھائیرائڈ ، پرولیکٹن یا ایل ایچ وغیرہ کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ کسی کمی بیشی کو دور کیا جا سکے۔
3 ۔جینیاتی ٹیسٹ : یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں بانجھ پن کسی موروثی مرض کا شاخسانہ تو نہیں۔
4 ۔خصیے کی بائیوپسی: چنیدہ کیسز میں خصیے کی کچھ حصے کا نمونہ بذریعہ سرجری حاصل کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف بانجھ پن کی تشخیص کی جاسکے بلکہ خصیے میں موجود زندہ تولیدی خلیے حاصل اور محفوظ /فریز کیے جا سکیں جنہیں بعد میں اسسٹڈ ری پروڈکشن مثلا ٹیسٹ ٹیوب میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
5۔ امیجنگ اسٹڈیز: کچھ خاص کیسوں میں دماغ کی ایم آر آئی، کھوپڑی کا ایکسرے (پرانا طریقہ) ، بون منرل ڈینسٹی ، سکروٹل (خصیہ دانی کا) الٹرا ساؤنڈ یا واس ڈیفرنس(خصیے کی رگوں) میں رکاوٹ جانچنے کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔
6 ۔ مزید خصوصی ٹیسٹ: انتہائی خاص کیسز میں چند مخصوص ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ہیں مثلاً تولیدی خلیے کی صحت اور کوالٹی چیک کرنے کے لیے یا ڈی این اے میں کوئی ایبنارمیلٹی کنفرم کرنے کے لیے۔

خاتون کے ٹیسٹ

*پہلی قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818040708486288&id=1500174830272879
*دوسری قسط کالنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818135631810129&id=1500174830272879
٭تیسری قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818411298449229&id=1500174830272879

*چوتھی اور آخری قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1818565661767126&id=1500174830272879

07/10/2023

ایسے مریض جو بالکل آخری لمحے ایمرجنسی میں آپ کے پاس پہنچتے ہیں، پریشان بھی ہوتے ہیں، تھکے ہوئے بھی، خوفزدہ بھی اور غصے میں بھی۔ انھیں اس لمحے ایک پروفیشنل، کام سے کام رکھنے والے ڈاکٹر سے زیادہ ایک ہمدرد مسیحا کی طلب ہوتی ہے جو اپنے کام کے ساتھ ساتھ سائیکالوجی کی بھی ماہر ہو۔
ڈاکٹر اس وقت تک اچھا معالج نہیں بن سکتا جب تک اس نے اپنی ذاتی یا کسی انتہائی قریبی رشتہ دار کی بیماری نہ جھیلی ہو۔ میرے والد کے کینسر کی تشخیص کے بعد ملنے والی 59 دنوں کی مہلت نے مجھے مریض اور اس کے عزیزوں پر گزرنے والی کیفیات، امید و بیم، رنج و الم، دکھ درد اور غم سے روشناس کرایا۔ مجھے مریض کی آنکھ میں موجود خلا اور اس کی بیٹی کی آنکھ میں موجود پانی کے قطرے کی اہمیت سمجھ آنے لگی۔ معالج کے نرم رویے سے ملنے والی تسلی سے دکھ میں کمی کیسے آتی ہے یہ سمجھ آیا۔ مریض کو اپنی بات کہنے کا موقع دینے کا کیا مطلب ہے اور بھڑاس نکل جانے کے بعد اسے کیسا سکون ملتا ہے۔ جب مریض کی محبت میں کوئی درد کا مارا دکھ سے چلاتا ہے تو دراصل وہ بے بسی کی کس اسٹیج پر ہوتا ہے، میں جان گئی۔

کسی ڈاکٹر کے اختیار میں ہوتا تو اس کا کوئی پیارا کبھی نہ مرتا۔ اس کا کوئی عزیز کبھی نشتر کے نیچے نہ آتا۔ ڈاکٹر بھی گوشت پوست کا انسان ہے اور وہ انسانی زندگی بچانے کے لیے مریض کے فائدہ اور نقصان کو میڈیکل کے اصولوں کے ترازو میں تولتے ہوئے مریض کے نارمل کیس یا آپریشن کا فیصلہ کرتا ہے۔بعض مریضوں کے عزیز اتنے سمجھدار ہوتے ہیں کہ انہیں آپریشن کی درست وجہ بتائی جائے تو وہ اسے مان لیتے ہیں لیکن سب ایسا نہیں کرتے۔

چار بچے نارمل پیدا کرنے کے بعد پانچویں بچے کے لئے آپریشن کیوں کرنا پڑا؟ کیا ماں کی شوگر، بچے کے سائز اور وزن میں اضافے کا باعث بنی؟ جس سے نارمل ڈلیوری ناممکن ہو گئی یا ماں کا تیز بلڈ پریشر زچہ اور بچہ کے لیے خطرناک تھا یا چار بیٹیوں کے بعد ملنے والا پہلا بیٹا اتنا قیمتی تھا کہ اس کے لیے نارمل ڈلیوری کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا گیا؟ ان تمام وجوہات کو سمجھنے کا درست وقت ایمرجنسی نہیں ہوتا، تب صرف عمل کا وقت ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں بیشتر ڈاکٹرز "بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہے "اور "بچے کی جان خطرے میں ہے" کہتی ہیں اور آپریشن کردیتی ہیں۔ اس وقت بھی مقصد ماں اور بچے کی بہتری ہوتا ہے نا کہ پیسہ ۔ یہ غلط العام خیال اتائی، نیم حکیم اور غیر تعلیم و ببا تربیت دائیوں کا پھیلایا ہوا ہے۔۔۔۔
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

پیڈز،وارڈ میو اسپتال میں ہاوس جاب کے دوران بچوں کی آنکھ کے عقبی حصے کا معائنہ کرنا معمول تھا۔ ایک چھوٹی سی انسانی آنکھ ک...
11/10/2022

پیڈز،وارڈ میو اسپتال میں ہاوس جاب کے دوران بچوں کی آنکھ کے عقبی حصے کا معائنہ کرنا معمول تھا۔ ایک چھوٹی سی انسانی آنکھ کے عقب میں ایک وسیع و عریض صحرا نما میدان ہوتا ہے جس میں سرخ خون کی ندیاں اور سفید برف /ریت کی رگیں راستوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں ۔ کہیں ٹیلے کہیں گھاٹیاں نظر آتے ہیں ۔ آنکھ کے اندر جانے اور واپسی کا سفر بھی کئی تہوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اور یونہی لگتا ہے کہ یہ محض بصارت کا سفر نہ تھا بلکہ فزیکل تھکن اور ذہنی تحیر و مسرت کی ملی جلی کیفیت ہوتی ہے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

13/09/2022

40+ دوست متوجہ ہوں۔ مضمون قدرے طویل لیکن بہت اہم ہے۔ کافی محنت سے ترجمہ کیا ہے، ایک بار پڑھ لیجیئے۔

*******

سارکوپینیا (Sarcopenia) کیا ہے؟

سارکو پینیا: بڑھتی عمر کے نتیجے میں انسان کے ڈھانچے کے اطراف میں گندھے ہوئے پٹھوں کے کمزور پڑنے کے نتیجے میں ہونے والی بے طاقتی کا نام ہے۔ اور یہ ایک انتہائی خوفناک حالت ہے۔ آئیے "سارکوپینیا" کے بارے میں بعنوان "اپنے جسم کے فنکشنل پٹھوں کو آہستہ آہستہ استعمال کیجیئے" کو پڑھ کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1: اپنے اندر کھڑے ہونے کی عادت کو استوار کیجیئے، ٹک کر نہ بیٹھے رہیئے۔ اور اگر آپ کے اندر اب محض بیٹھنے کی ہی ہمت رہ گئی ہے تو لیٹے نہ رہیئے۔
2: یاد رکھیئے 50سے لیکر 60 کی عمر کے بعد وزن کم کرنا ناممکن کام ہوتا ہے۔ اور ان حالات میں تو خاص طور پر جب آپ کی وزن کم کرنے کی ضد کا دارومدار ورزش پر بالکل نہ ہو، اور آپ یہ یقین کیئے بیٹھے ہوں کہ کم کھا لینے سے آپ کا وزن کم ہو جائیگا: یاد رکھیئے کہ اپ کی کسی ایسی حرکت سے اگر پٹھوں کا نقصان ہو جاتا ہے تو یہ ناقابل تلافی اور بہت برا نقصان ہوگا۔

3: کیا اپ کو دوڑنے، سائیکلنگ کرنے یا اونچائی پر چڑھنے سے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے؟
اگر آپ نے پہلے کبھی کوئی ورزش نہیں کی اور اب آپ کے خیال میں ایسا کوئی دوڑنے، سائیکلنگ کرنے یا چڑھائی چڑھنے جیسا کام کرنے سے آپ کے گھٹنوں میں تکلیف ہو جائیگی تو:
اپنے پٹھوں کی مضبوطی یا بگڑ چکی حالت کے مطابق اپنے آپ میں آہستہ آہستہ دوڑنے، سائیکل چلانے یا چڑھائی چڑھنے کی عادت اپنا کر اپنے پٹھوں کو مضبوطی دینے کی کوشش کیجیئے۔ اس عمر میں یہ ایک بہترین کوشش ہوگی اور آپ کے گھٹنے درد وغیرہ نہیں کریں گے۔ یاد رکھیئے گھٹنے میں درد ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار اپ کے پٹھوں کی حالت اور مضبوطی پر ہے۔

4: اگر آپ کا کوئی مہربان یا جاننے والا بزرگ ہسپتال تک کی نوبت میں جا چکا ہے تو اُسے زیادہ آرام کرنے، بہت زیادہ لیٹے رہنے یا سوئے رہنے سے روکیئے۔

ایک ہفتے تک لیٹے رہنے سے پٹھوں کو 5٪ تک نقصان پہنچتا ہے۔ اور بزرگ اس پہنچ چکے نقصان کا کبھی بھی دوبارہ ازالہ نہیں کر سکتے۔

5: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے گھر کے بزرگوں کو کوئی کام کرتا دیکھ کر منع کیا ہے تو آپ بہت زیادہ تابعدار بن گئے ہیں یا پھر آپ نے ملازمہ کو ڈانٹ کر بزرگ کی یہ ذمہ داری اٹھانے کا پابند کیا ہے تو آپ بزرگ کے بہت زیادہ احساس کرنے والے بن گئے ہیں! تجربات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایک بزرگ جن کی خدمت کا ذمہ ملازمین کے ذمہ ہوتا ہے اپنے عضلات اور پٹھوں سے بہت جلدی محروم ہو جاتے ہیں۔

6: جب بھی کبھی پارک میں جائیے تو ہمیشہ ایک ہی قسم کی ورزشی مشق نہ کیا کیجیئے۔
صرف ہاتھوں کو ہلانے پر ہی اکتفاء نہ کیجیئے اگر آپ کے پاس ٹانگوں کو ہلا لینے کی استطاعت موجود ہے تو۔ متوازن صحت کیلیئے آپ کو کچھ افقی ورزش بھی کرنا ہوگی اور ورزش کے دیگر اوزاروں کو بھی کچھ حرکت دینا ہوگی۔

کیونکہ جو شخص جس قدر حرکت کرتا ہے اسی حساب سے اس کے جسم کے سارے عضلات اور پٹھے بھی متحرک ہوتے ہیں۔

کئی کئی سن رسیدہ لوگوں کو چیزیں نگلنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتا پایا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں ان کا مختلف قسم کی اقسام سے ورزش سے دوری تھی۔ ایسے لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ کھانسنے تک سے معذور تھے اور کھانس کر بلغم نہ تھوک پانے کی وجہ سے ہی مر گئے۔

7: سارکوپینیا "اوسٹیوپوروسس-ھڈیوں کا کمزور اور جلدی ٹوٹ جانے کے خطرات کا شکار ہوجانا" سے زیادہ خطرناک ہے۔

اوسٹیوپوروسس مرض کا شکار ہو کر آپ کو بس اتنا دھیان دینا ہوتا ہے کہ کہیں گر نہ پڑیں۔ جبکہ سارکوپینیا کا شکار ہو کر آپ نہ صرف زندگی کی رنگینی کھوتے ہیں بلکہ عضلات کی ناقص اور نہ ہونے کے برابر مقدار یا کارکردگی کی وجہ سے بلڈ شوگر کا شکار ہو جاتے ہیں۔
8: سارکوپینیا میں سب سے پہلے ٹانگوں کے مسلز ختم ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی شخص بیٹھنے یا سوتے رہنے پر اکتفاء کرتا ہے تو اس کی ٹانگوں کی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ٹانگوں کے مسلز کی گرفت اور سختی متاثر ہوتی ہے اور حقیقت میں یہی خامی سب سے اہم ہوتی ہے۔

****
اپنے ہیروں کو نازک اندام نہ بنائیے۔ انہیں دن میں 20 سے 30 مرتبہ زمیں کو چھونے (squat) دیجیئے۔ اس چھونے کا مطلب یہ نہیں کہ زمین پر پاؤں رکھ دیئے۔ بلکہ اس سے مراد ویسا چھونا ہے جیسے زمینی ٹوائلٹ پر پاؤں کے بل بیٹھتے ہیں۔ اس ورزش کو آپ اپنی کرسی پر بیٹھے یوں کر سکتے ہیں کہ کرسی سے اٹھیئے اور دوبارہ اس طرح بیٹھیئے کہ جیسے ہی اپ کے کولہے کرسی کو چھونے لگیں تو دوبارہ سے کھڑے ہو جائیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ تائیوان نے صحت کے شعبے میں اپنی عوام کو بیمہ کے ساتھ بہترین خدمات دی ہیں مگر اس کے باوجود بھی ایک اوسط تائیوانی بڑھاپے میں مرنے سے پہلے کم از کم 8 سال وہیل چیئر پر بیٹھ کر گزارتا ہے اور اس کے بعد کے مرحلے میں صاحب فراش ہو کر موت کو گلے لگاتا ہے۔
آپ اپنی حکومت کی آپ کو دی گئی صحت کی مراعات کا موازنہ اور مواخذہ کر لیجیئے کہ آپ کے پاس بڑھاپے میں 8 سال وہیل چیئر پر گزرنے کا بیمہ یا ضمانت ہے؟ جبکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے ہاں صحت کا معیار اور ضمانتیں ناقابل بیان حد تک ناقص ہیں۔ بس حل یہی ہے کہ اپنے آپ کو سارکوپینیا کا شکار ہونے سے بچائیے۔
سیڑھیوں سے اترئیے چڑھیئے، بھاگیئے دوڑیئے، سائیکلنگ کیجیئے، چڑھائی چڑھیئے اور ہر ایسی ورزش کو اپنائیے جو آپ کے مسلز کو بتدریج کمزور ہونے یا مرنے سے بچائے رکھے۔

ہر وہ ذی شور جو اپنے بڑھاپے کو بہتر اور معیاری صحت کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے:
حرکت میں رہیئے، اپنے مسلز کو ضائع ہونے سے بچائیے۔
بڑھاپا پیروں سے شروع ہوتا ہے اور اوپر کو آتا ہے۔
اپنی ٹانگوں کو ہمیشہ حرکت میں رکھیئے، انہیں ہمیشہ مضبوط بنا کر رکھیئے۔
جب ہماری عمر روز کی بنیاد پر بڑھ رہی ہو اور ہم روزانہ کی بنیاد پر بوڑھے سے بوڑھے تر ہو رہے ہوں تو ہمیں اپنے پیروں کو لازمی طور پر ہمیشہ اور ہر حال میں مضبوط، متحرک اور توانا رکھنا ہوگا۔

جب ہماری عمر بڑھ رہی ہو اور بوڑھے ہو رہے ہوں تو اس بات کی ہرگز ہرگز فکر نہیں کرنی چاہیئے کہ ہمارے بال کیوں سفید ہوتے جا رہے ہیں یا ہماری جلد کیوں ڈھلتی جا رہی ہے یا ہمارے چہرے پر جھریاں کیوں پڑ رہی ہیں۔

"لمبی عمر" کی علامات میں سے، لمبی اور فٹ زندگی کیسی ہو کے بارے میں مشہور امریکی میگزین "پری ونشن" نے یہ خلاصہ کیا ہے کہ ٹانگوں کے مضبوط پٹھے سب سے اہم اور ضروری ہیں۔ مہربانی کیجیئے روزانہ کی بنیاد پر چلنے رہیئے

اگر آپ اپنی ٹانگوں کو صرف دو ہفتے کیلیئے بالکل حرکت نہ دیں تو آپ کی ٹانگوں کی مضبوطی میں دس سال کے برابر کمی واقع ہوتی ہے۔ آپ نے بس صرف چلنا ہے۔

ڈنمارک کی کوپن ھیگن میں ایک یونیورسٹی کی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بوڑھے اور جوان دونوں طرح کے لوگوں کی ٹانگوں کو دو ہفتے کیلیئے کوئی حرکت نہ دی جائے تو ان کی کارکردگی میں ایک تہائی کمی واقع ہو جاتی ہے جو کہ علمی لحاظ سے 20 سے 30 سال کے بڑھاپے کے برابر ہے۔ اس کیلیئے آپ نے صرف چلنا ہے۔

ٹانگوں کے مسلز کمزور ہونے پر، ان کی دوبارہ بحالی اور صحت کیلیئے بھلے جتنے علاج کر الیئے جائیں یا ورزشیں کی جائیں، ان کو تندرست یا بہتر ہونے کیلیئے ایک وقت لگے گا۔ بس چلتے رہیئے۔ ورزش صرف چلنا ہے، چلنا بہت اہم ہے، چلنا بہت ضروری ہے۔

سارے جسم کا وزن اور بوجھ ٹانگوں پر لدا رہتا ہے اور ٹانگوں کا محتاج ہے۔ پاؤں بھی ستون ہوتے ہیں، آخر وہ بھی تو سارا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ آپ نے بس روزانہ کی بنیاد پر چلنا ہے۔

آپ کی دلچسپی کیلیئے: کسی بھی شخص کے مسلز یا ہڈیوں کا 50٪ اس کی دونوں میں ٹانگوں ہوتا ہے۔ آپ نے ان تانگوں کو حرکت دے کر رکھنی ہے۔

انسانی جسم میں سب سے بڑے جوڑ اور مضبوط ترین ہڈیاں بھی ٹانگوں میں ہی ہوتی ہین۔ 10 ہزار قدم روز چلنے کو معمول بنائیے۔

مضبوط ترین ہڈیاں، لمبے ترین پٹھے اور آہنی ٹرائی اینگل کے لچکدار جوڑ ہی وزن اٹھانے کا اہم ترین کردار ہیں۔

انسانی جسم کی 70٪ سرگرمیاں اور حرارے جلانے کا کام انسانی جسم کے دونوں پیروں کا محتاج ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں؟ ایک جوان لڑکا یا لڑکی کی رانیں ایک 800 کلو گرام تک کی چھوٹی کار کو اٹھا لینے کیلیئے کافی ہوتی ہین۔
پاؤں انسانی جسم کی حرکت کا مرکز ہیں۔

انسان کی دونوں ٹانگوں میں انسانی جسم کے 50% اعصاب، 50% خون کی شریانیں اور 50% خون کا بہاؤ ہوتا ہے۔

اور یہ خون کی فراہمی کا سب سے بڑا گردشی نیٹ ورک ہے جو جسم کو جوڑتا ہے۔ آپ بس روزانہ کی بنیاد پر چلتے رہیئے۔

جب پاؤں صحت مند ہوں تب ہی خون کا بہاؤ آسانی سے ہوتا ہے، اس لیے جن لوگوں کے پیروں کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ان کا دل ضرور مضبوط ہوتا ہے- آپ بس چلتے رہیں۔ ایک بار پھر سے سن لیں کہ بڑھاپا پیروں سے اوپر کی طرف چلتا ہے۔

جیسے جیسے ایک شخص بوڑھا ہوتا جاتا ہے، دماغ اور ٹانگوں کے درمیان ہدایات کی ترسیل کی درستگی اور رفتار کم ہوتی جاتی ہے، یہ اس کے بالکل برعکس ہے جب کوئی شخص جوان ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ، نام نہاد "بون فرٹیلائزر کیلشیم" جلد یا بدیر وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جائے گا، جس سے بوڑھوں کو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ لاحق ہو گا۔ چلتے رہیئے۔

بزرگوں میں ہڈیوں کا ٹوٹنا آسانی سے پیچیدگیوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر مہلک بیماریاں جیسے دماغی تھرومبوسس۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر 15% سے زیادہ عمر رسیدہ لوگ ران کی ہڈی کے فریکچر کے بعد ایک سال کے اندر مر جاتے ہیں! روزانہ کی بنیاد پر چہل قدمی کریں-

60 سال کی عمر کے بعد بھی ٹانگوں کی ورزش کرنے کے معاملے میں بالکل ہی کوئی دیر لگائیں۔

اگرچہ ہمارے پاؤں/ٹانگیں بھی وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بوڑھے ہوں گے، لیکن ہمارے پیروں/ٹانگوں کی ورزش کرنا اور ورزش جاری رکھنا زندگی بھر کا کام ہے۔10000 قدم روزانہ چلنا اپنا معمول بنائیے۔

صرف ٹانگوں کو باقاعدگی سے مضبوط کرنے سے، کوئی شخص مزید بڑھاپے کو روک یا کم کر سکتا ہے۔ چہل قدمی کو سال میں 365 دن لازم بنائیے-

براہ کرم روزانہ کم از کم 30-40 منٹ چہل قدمی کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کی ٹانگوں کو کافی ورزش مل رہی ہے اور یہ معلوم رہ سکے کہ آپ کے ٹانگوں کے پٹھے صحت مند رہیں۔

بڑھاپے سے مفر نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی روزانہ کی بنیاد پر بوڑھا ہو رہا ہے- تاہم ایک اچھے اور صحتمند بڑھاپے کیلیئے ان اہم معلومات کو اپنے تمام 40+ سال کے دوستوں اور خاندان کے اراکین کے ساتھ شیئر کیجیئے۔

شکریہ
ترجمہ۔ڈاکٹر سعید اقبال صاحب

نوزائیدە  بچے کو سانس لینے میں دقت اور اس کا حلنوزائیدہ بچے کو سانس لینے میں دقت کے مسئلہ کا حل بے حد مہنگے ٹیکے کی صورت...
03/09/2022

نوزائیدە بچے کو سانس لینے میں دقت اور اس کا حل

نوزائیدہ بچے کو سانس لینے میں دقت کے مسئلہ کا حل بے حد مہنگے ٹیکے کی صورت مین موجود ہے لیکن اس دوا کی قیمت ادا کرنے کی سکت ہر کسی کی جیب میں نہیں ہوتی.

اس مسئلے سے بچنے کا دوسرا سستا اور بہتر حل بہترین دوران حمل معائنہ ( اینٹی نیٹل چیک اپ ) میں سستے ترین انجکشن لگوانے میں پوشیدہ ہے. یہ اینا بولک اسٹیرائیڈز ڈیکسا میتھا سون anabolic steroid dexa methason انجکشن ہیں جو WHO سے ریکمینڈڈ ہیں.گورنمنٹ آف پاکستان نے اس کی قیمت انتہائی کم رکھی ہوئی ہے کیونکہ یہ جان بچانے والی ادویات میں شامل ہیں . اور با آسانی کسی بھی میڈیکل اسٹور سے خریدے جا سکتے ہیں . 34 ہفتے کے حمل سے پہلے اورساتویں ماہ سے آغاز کر کے ہر ہفتے بعد بارہ گھنٹے کے وقفے سے حاملہ عورت کو لگوائے جانے والے دو شاٹس بچے کی جان بچانے میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں.. کم از کم بھی آٹھویں ماہ میں ایک دفعہ دو ڈوزز تو ضرور لگوایے. .

■○■ انتہائی اہم ●●● تیز بلڈ پریشر اور شوگر کی مریض حامل خواتین اسے اپنے متعلقہ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال مت کریں . اس کا استعمال ان بیماریوں میں مبتلا خاتون کے بچے کے لیے بے حد ضروری ہونے کے باوجود ماں کے لیے خطرناک بھی پو سکتا پے . اس ٹیکے کو لگوانے سے پہلے بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کا مکمل کنٹرول ہونا اور ٹیکے کو اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی میں استعمال کروایا جائے. ●●●

مریض اور اس کے لواحقین ایمرجنسی بننے پر تو بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن وقت سے پہلے ایمرجنسی کی روک تھام میں دلچسپی نہیں رکھتے . یہ ایک انتہائی افسوسناک رویہ ہے.

دوران حمل لگوائے جانے والے ٹیکے کی قیمت سو روپے سے کم ہے جبکہ پیدائش کے بعد پیچیدگی میں لگائے جانے والے ٹیکے کی قیمت پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے جو غریب پہلے لگوا سکتا ہے بعد میں نہیں اور یقین کیجیے وقت پر لگا ایک ٹانکا بےوقت کے نو ٹانکوں سے بہتر اور مفید ہوتا ہے.
دوسرے گورنمنٹ نے یہ ٹیکے سستے کیے ہیں اور گورنمنٹ اسپتالوں میں دوران حمل معائنہ اور ڈلیوری سب مفت ہے سو اسے افورڈ نہ کر سکنے کا تو سوال ہی نہیں. لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر مسیحا ہے تو مفت علاج کیوں نہیں کرتا شعبہ طب سے متعلق افراد اپنی جیب کی وسعت تک ضرور انسانی ہمدردی کر سکتے ہیں . لیکن اس سے زیادہ توقع غیر انسانی ہو گی.
میرے ایک محترم استاد عظیم سرجن سید طاہر احمد شاہ صاحب سالانہ 50 لاکھ روپیہ لاہور کے ایک پسماندہ علاقے میں غریبوں کے مفت علاج پر صرف کرتے ہیں اور اس کا کبھی کوئی اعلان کہیں نہیں کیا جاتا.
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب عوام کے دل سے اسپتال کا خوف نکالا جائے اور اس کیٹیگری کو اسپتال آنے پر آمادہ کیا جائے
It has to be be given as a routine to every pregnant woman , still there are cases which need that lung chemical but giving anabolic steroids preemptively markedly reduces the number of patients who shall be needing that lung chemical.

It's not only premature Labour protocol. it has to be observed in all the cases especially high risk cases including PIH , GDM , precious pregnancy and preterm Labour or fear of preterm birth

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1047067302047042&id=100002313464787
زچگی کا بڑا آپریشن کیوں کیا جاتا ہے..

Cloud burst in Daska yesterday 20th june 2022 at 5:22am Pc Dr Rabia Khurram Durrani
21/06/2022

Cloud burst in Daska yesterday 20th june 2022 at 5:22am
Pc Dr Rabia Khurram Durrani

جب ایک دوست مریضہ نے پوسٹ میں موجود تصویری سوال واٹس ایپ کیا۔۔۔۔ اے رب تعالی تو ہمارے سب مریضوں کو شفا دے ۔ ہمارے دست شف...
31/05/2022

جب ایک دوست مریضہ نے پوسٹ میں موجود تصویری سوال واٹس ایپ کیا۔۔۔۔

اے رب تعالی تو ہمارے سب مریضوں کو شفا دے ۔ ہمارے دست شفا میں خیر و برکت عطا فرما ۔ اے رب جس کسی کو ہماری ضرورت ہو اسے ہماری راہ دکھا دے ۔ ہمیں ان کا مددگار بنا دے اے رب ہمارے علم و عمل کو اور ہمارے ہنر کو ہمارے لیے وجہءفضیلت و عافیت اور وجہءمغفرت بنا دے۔

اے رب تعالی جو بھی ضرورتمند ہم سے جیسی بھی ضرورت یا تکلیف میں رابطہ کرے اے مالک اپنی جناب سے اس کی حاجت روائی فرمانا اور ہمیں اپنے کنبے کی نظر میں باعزت رکھنا۔

اے میرے مالک ہمیں رزق حرام سے بچاتے ہوئے اپنے خزانوں سے رزق حلال کی برکت و فراوانی عطا فرمانا ۔ ہم اور ہمارے اہل خاندان کے جسموں میں رزق حرام کا ذرہ بھی شامل ہونے سے بچانا ۔ اے مالک ہمیں اپنا محتاج رکھتے ہوئے اپنے ماسوا کی محتاجی سے مامون رکھنا ۔ آمین ثم آمین

کل عالم کو شفا عطا فرما اور اگر کسی کی شفا کے لیے ڈاکٹری کو وسیلہ بنانا منظور ہے تو ہمیں وہ وسیلہ بنا دے

اے مالک دو جہاں ہمیں علم و عمل نافع سے نواز اور ہمارے ذریعہءمعاش کو ہمارے لیے باعث عز و شرف بنا دے ۔ ہمارے کیے تمام اعمال کو ہمارے بعد بھی ہمارے لیے صدقہء جاریہ ٹھہرا دے ۔

یا رحمن و رحیم ہمیں ہمارے زندگی میں اور ہمارے جانے کے بعد بھی ہمیں ہمارے اخلاص ، پیشہ وارانہ مہارت، مسیحائی ، محبت و نرم خوئی اور اچھی عادات و بہترین علاج کی نسبت سے پرخلوص دعاوں میں یاد رکھا جائے ۔

اے رب ہمیں اور ہماری آل اولاد کو ایسا بنا دے کہ تو ہم سے راضی ہو جائے ۔ ہم تیرے حبیب ص اور آل حبیب ص کے پسندیدہ امتیوں کی حیثیت سے جانے جائیں دنیا میں بھی اور روز قیامت میں بھی ۔ اے محبوب_ حبیب اکرم ص ہم پر کرم فرمانا اے کریم ہم پر کرم فرمانا اے کریم ہم پر کرم فرمانا۔

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

Address

Afshan Road Daska
Daska
151510

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bhatti Hospital posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Bhatti Hospital:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category