
02/11/2022
"لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سرکاری ڈیوٹی پہ جب ہوتا ہے تو جلدی میں مریض دیکھتا ہے اور سہی سے نہیں بولتا ہے جب کلینک میں ہو تو میٹھا بولتا ہے۔"
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
سرکاری ہسپتالوں میں رش بہت ذیادہ ہوتا ہے ۔ایک ڈاکٹر 6 گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران تقریباً 2سو مریض کا روزانہ کے حساب سے علاج کرتا ہے۔ان میں ہر مریض جلدی میں ہوتا ہے۔۔۔ڈاکٹر ایک مریض کا معائنہ کرتا ہے تو دوسری سائڈ سے دوسرا مریض پرچی سامنے رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے ڈاکٹر ایک۔ مریض کو صرف 3-2 منٹ دے سکتا ہے اور اسی وجہ سے مریض کی تسلی نہیں ہوتی ۔۔
ڈاکٹر تھک جاتا ہے۔۔۔پانی پینے کیلئے اسے ٹائم نہیں ملتا،۔۔۔ اسی لئے جب انسان سے اسکی capacity سے زیادہ کام لویہ جاتا ہے تو وو چڑچڑا اور تھک جاتا ہے ۔ سرکاری ہسپتال میں چند ادویات کے علاوہ کوئی دوائی نہیں آتی اور جب مریض کو اندر سے دوائی نہیں ملتی تو وو آ کر ڈاکٹر سے لڑتا ہے ۔ ڈاکٹر کا کام مریض دیکھنا اور اسکو دوائی لکھنا ہے ۔دوائی دینا حکومت کا کام ہے
حدمت کا جزبہ لئے جو ڈاکٹر 25 سال محنت کر کے ڈاکٹر بنتا ہے وہ جزبہ روزانہ کے اس جھگڑے اور hectic routine کی وجہ سے کم ہوتا جاتا ہے
کلینک پرائیویٹ جگہ ہوتی ہے۔۔۔سب لوگ انتظار اور صبر کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر کو عزت سے سلام بھی کرتے ہیں۔۔۔اور جاتے جاتے احتراماً شکریہ بھی بولتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر بھی آرام آرام سے تسلی سے ہر مریض کو 10-5 منٹ معائنہ کرتا ہے اور صحیح ڈائگنوسز کیمطابق دوائی لکھ کے مریض کو سمجھاتا ہے اور گھر بھجتا ہے۔
ڈاکٹر اور مریض دونوں مطمئن اور آٹنڈنٹ خوش ہوتا ہے۔