Rising Life Clinical and Counseling Services Pakistan

Rising Life Clinical and Counseling Services Pakistan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Rising Life Clinical and Counseling Services Pakistan, Mental Health Service, Shadab Mor Jhang Road, Faisalabad.

We are providing following services
Psychological assessment
Psychotherapy and counsling
Familly counsling
Career counsling
Addiction Counsling
Child related psychological disorder
Learning Disorder
Speach related issues

26/10/2025
26/10/2025

A common situation many parents face, when a child asks for something, we say no, the child cries, and finally we give in.
Without realizing it, this teaches the child that crying can get them what they want.

In behaviour therapy, this pattern is explained through the ABC model, what happened before (Antecedent), what the child did (Behaviour), and what we did after (Consequence).

If we understand this pattern, we can handle such moments better, staying calm, setting limits gently, and helping the child learn the right way to ask.
It’s not about being strict or giving in, it’s about finding balance and staying consistent.





























انٹیلیکچوئل ڈس ایبلٹی (Intellectual Disability) ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں بچے کی سیکھنے، سمجھنے اور روزمرہ زندگی کے ...
25/10/2025

انٹیلیکچوئل ڈس ایبلٹی (Intellectual Disability) ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں بچے کی سیکھنے، سمجھنے اور روزمرہ زندگی کے کام انجام دینے کی صلاحیت عمر کے لحاظ سے کم ہوتی ہے۔ ایسے بچے عام بچوں کے مقابلے میں نئی چیزیں سیکھنے، بولنے، سمجھنے اور خود انحصاری اختیار کرنے میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔ یہ کیفیت مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہو سکتی ہے، جیسے جینیاتی یا کروموسومل مسائل، دماغی چوٹ، پیدائش کے وقت آکسیجن کی کمی، یا بعض مخصوص بیماریوں کی موجودگی
ایسے بچوں میں کچھ عام علامات دیکھی جاتی ہیں جن میں بولنے یا زبان سیکھنے میں تاخیر، سیکھنے اور سمجھنے میں مشکلات، یادداشت کی کمزوری، روزمرہ کے کاموں میں دوسروں پر انحصار، اور سماجی تعلقات قائم کرنے میں دشواری شامل ہیں۔ ان بچوں کو خصوصی توجہ، اسپیشل ایجوکیشن، اسپیچ اور آکیوپیشنل تھیراپی، والدین کی رہنمائی اور جذباتی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اعتماد اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔
اس معاونت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایسے بچوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختار، پُراعتماد اور سماجی طور پر فعال بنایا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کر سکیں۔ رائزنگ لائف آٹزم سینٹر فیصل آباد میں ایسے بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام، تھیراپی سیشنز اور پیشہ ورانہ کونسلنگ فراہم کی جاتی ہے تاکہ ہر بچہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھار سکے اور معاشرے کا فعال اور خوشحال فرد بن سکے۔
علی شیر رجوکہ
کلینیکل سائیکالوجسٹ
اسپشل ایجوکیشنست



















Many children with Autism show fixation or repetitive behaviours, like holding the same object again and again.These are...
24/10/2025

Many children with Autism show fixation or repetitive behaviours, like holding the same object again and again.
These are called stereotypical behaviours, and they often serve as a way for the child to self-soothe or feel secure.

Such behaviours cannot be stopped immediately. Instead of forcing or taking the object away, introduce meaningful engagement step by step.
With patience, consistency, and positive direction, these behaviours slowly reduce and improve over time.
👇




























24/10/2025

اے ڈی ایچ ڈی (ADHD) یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں بچہ توجہ کی کمی کا شکار ہوتا ہے یا پھر حد سے زیادہ ایکٹیویٹی میں پایا جاتاہے۔ یہ ایک اعصابی و نفسیاتی عارضہ ہے جو عموماً بچپن میں ظاہر ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں بلوغت یا جوانی تک برقرار رہتا ہے۔ یہ عارضہ دماغ کے اُن حصوں کے غیر متوازن عمل سے پیدا ہوتا ہے جو توجہ، ضبطِ نفس، فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی جیسے بنیادی افعال کو منظم کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس کیفیت کی وجوہات میں موروثی عوامل، دماغی کیمیائی تبدیلیاں، قبل از پیدائش پیچیدگیاں اور ماحولیاتی اثرات شامل ہو سکتے ہیں۔

اے ڈی ایچ ڈی کے شکار بچے عموماً کسی کام پر توجہ برقرار نہیں رکھ پاتے، بات سنتے ہوئے آسانی سے دھیان بٹا لیتے ہیں، غیر معمولی طور پر متحرک رہتے ہیں، حد سے زیادہ بولتے ہیں اور بسا اوقات بغیر سوچے سمجھے ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ان رویوں کے باعث ان کی تعلیمی کارکردگی، سماجی تعلقات اور جذباتی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہ کوئی ناقابلِ علاج مسئلہ نہیں ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی کے علاج میں بروقت تشخیص، بہویور تھراپی، سائیکو ایجوکیشن، مثبت تربیت، اور بعض اوقات ادویات شامل ہوتی ہیں۔ بچے کے لیے ایک منظم روزمرہ معمول، حوصلہ افزا ماحول، اور والدین و اساتذہ کا تعاون نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے بچے میں خود اعتمادی، توجہ اور رویّے میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔
اے ڈی ایچ ڈی کوئی کمزوری یا کمی نہیں بلکہ ایک نیورولوجیکل کنڈیشن ہے، جس میں سمجھ بوجھ، صبر، اور مستقل رہنمائی کے ذریعے بچہ اپنی مکمل صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے اور ایک کامیاب و پُراعتماد زندگی گزار سکتا ہے۔

علی شیر رجوکہ
کلینیکل سائیکالوجسٹ │ ماہرِ خصوصی تعلیم

رائزنگ لائف آٹزم سینٹر فیصل آباد
0300 7609681






























بچوں میں بولنے اور زبان سمجھنے کی صلاحیت ایک تدریجی اور فطری عمل ہے جو پیدائش سے شروع ہو کر ابتدائی بچپن تک جاری رہتا ہے...
23/10/2025

بچوں میں بولنے اور زبان سمجھنے کی صلاحیت ایک تدریجی اور فطری عمل ہے جو پیدائش سے شروع ہو کر ابتدائی بچپن تک جاری رہتا ہے۔ زندگی کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچہ اپنے اردگرد کی آوازوں، خاص طور پر والدین کی آواز کو پہچاننا شروع کرتا ہے اور "آہ" یا "اوہ" جیسی آوازوں کے ذریعے اپنی موجودگی ظاہر کرتا ہے۔ یہ مرحلہ بچے کی سماعت اور آواز کے ردِعمل کی بنیاد رکھتا ہے۔
چھ سے بارہ ماہ کے عرصے میں بچہ ببلنگ (Babbling) کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے، جس میں وہ “با با” یا “ما ما” جیسی آوازوں کو دہرانا سیکھتا ہے۔ اسی دوران وہ لہجے اور آواز کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے لگتا ہے اور سادہ اشاروں یا احکامات پر ردِعمل دینے لگتا ہے۔
بارہ سے اٹھارہ ماہ کے دوران بچہ اپنے پہلے معنی خیز الفاظ بولنا شروع کرتا ہے، جیسے “ماما”، “بابا” یا “پانی”۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ اپنے اردگرد کی اشیاء اور افراد کے نام سیکھتا ہے اور سادہ بات چیت کے قابل بنتا ہے۔
اٹھارہ سے چوبیس ماہ کے دوران بچے کے الفاظ کا ذخیرہ تیزی سے بڑھتا ہے، اور وہ دو لفظی جملے جیسے “امی دو” یا “بابا آؤ” استعمال کرنے لگتا ہے۔
دو سے تین سال کی عمر میں بچہ مکمل جملے بولنے اور اپنے احساسات یا ضروریات کا اظہار کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی مرحلے میں وہ سوال پوچھنے اور سادہ گفتگو میں حصہ لینے لگتا ہے۔ تین سے پانچ سال کی عمر تک پہنچ کر بچے کی گفتگو میں روانی آجاتی ہے، گرامر بہتر ہوتی ہے، اور وہ کہانیاں سنانے یا روزمرہ کے واقعات بیان کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ بچے سے بات کریں، کہانیاں سنائیں، اور اس کی گفتگو پر حوصلہ افزائی کریں۔ اس کے ساتھ ہی سکرین ٹائم محدود رکھنا نہایت اہم ہے تاکہ بچہ انسانی آوازوں اور حقیقی ماحول سے سیکھ سکے۔ اگر بچہ دو سال کی عمر تک بولنے کے قابل نہ ہو تو فوری طور پر کسی ماہرِ اسپیچ تھیراپسٹ یا ماہرِ نفسیاتِ اطفال سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ تاخیر کی بروقت نشاندہی اور علاج ممکن ہو سکے۔
علی شیر رجوکہ
کلینکل سائیکالوجسٹ
سپیشل ایجوکیشنٹ
رائزنگ لائف پاکستان





















بچوں میں اسپیچ یا بولنے کی صلاحیت ایک قدرتی مگر مرحلہ وار عمل ہے جو دماغ، سماعت، ماحول، اور سیکھنے کے تجربات سے مل کر بن...
22/10/2025

بچوں میں اسپیچ یا بولنے کی صلاحیت ایک قدرتی مگر مرحلہ وار عمل ہے جو دماغ، سماعت، ماحول، اور سیکھنے کے تجربات سے مل کر بنتا ہے۔ پیدائش کے بعد بچہ سب سے پہلے اپنے اردگرد کی آوازوں کو محسوس کرتا ہے۔ دماغ کے مخصوص حصے، خاص طور پر Broca’s area اور Wernicke’s area، بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جب بچہ مختلف آوازیں سنتا ہے، تو اس کا دماغ ان آوازوں کو پہچاننا، محفوظ کرنا اور ان کی نقل کرنا شروع کرتا ہے۔ اسی عمل کے ذریعے بچہ پہلے بے معنی آوازیں نکالتا ہے جیسے "آ آ" یا "با با"، اور بعد میں یہ آوازیں بامعنی الفاظ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ سماعت اس عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، کیونکہ اگر بچہ ٹھیک طرح نہیں سن سکتا تو وہ الفاظ سیکھنے اور دہرانے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔
والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کا رویہ اور ان کا بچے سے بات کرنے کا انداز بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ جب بچہ اپنے والدین کو بولتے، گاتے یا کہانیاں سناتے سنتا ہے تو وہ الفاظ کے معنی، آوازوں کے فرق، اور جملوں کے استعمال کو سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح روزمرہ کے تعاملات جیسے آنکھ سے رابطہ، مسکراہٹ، اور اشارے بچے کو بولنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بچے کی زبان کی نشوونما ایک تدریجی عمل ہے جو عام طور پر ایک سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور چار سے پانچ سال کی عمر تک واضح اور مکمل بولنے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
اگر کسی بچے کی اسپیچ تاخیر کا شکار ہو جائے تو یہ مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے، جیسے سماعت میں کمی، آٹزم، ذہنی نشوونما میں سستی، یا ایسا ماحول جہاں بات چیت کم ہوتی ہو۔ بعض اوقات زبانی عضلات کی کمزوری بھی بولنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ایسے حالات میں بچے کو نظرانداز کرنے کے بجائے ماہرِ اسپیچ تھراپسٹ سے مشورہ لینا بہت ضروری ہے تاکہ بروقت مدد اور تربیت کے ذریعے بچے کی بولنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
علی شیر رجوکہ
کلینکل سائیکالوجسٹ
ماہر خصوصی تعلیم






























آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی بچوں میں پایا جانا مسئلہ ہے ۔دونوں ہی دماغی نشوونما سے متعلق عارضے ہیں، مگر ان کی نوعیت اور اثرات ...
21/10/2025

آٹزم اور اے ڈی ایچ ڈی بچوں میں پایا جانا مسئلہ ہے ۔
دونوں ہی دماغی نشوونما سے متعلق عارضے ہیں، مگر ان کی نوعیت اور اثرات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ اے ڈی ایچ ڈی میں بنیادی طور پر توجہ کی کمی، حد سے زیادہ سرگرمی، اور جلد بازی یا بے قابو رویہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آٹزم میں بنیادی مسئلہ سماجی رابطے، بات چیت، اور دوسروں کے جذبات یا اشاروں کو سمجھنے میں دشواری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اے ڈی ایچ ڈی والے بچے عام طور پر بہت متحرک اور باتونی ہوتے ہیں لیکن توجہ برقرار نہیں رکھ پاتے، جبکہ آٹزم والے بچے محدود دلچسپیوں کے حامل ہوتے ہیں۔
اور معمول میں تبدیلی سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ علاج کے لحاظ سے بھی دونوں میں فرق ہے؛ اے ڈی ایچ ڈی میں توجہ اور خود نظم و ضبط کو بہتر بنانے پر کام کیا جاتا ہے، جب کہ آٹزم میں سوشل اسکلز، اسپیچ تھراپی اور رویہ جاتی تربیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے زیادہ تر توجہ اور کنٹرول کا مسئلہ ہے، جب کہ آٹزم بنیادی طور پر سماجی فہم اور رابطے سے متعلق ایک پیچیدہ عارضہ ہے ۔
علی شیر رجوکہ
کلینکل سائیکالوجسٹ
رائزنگ لائف پاکستان






























آج کے جدید دور میں اسکرین کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی موج...
20/10/2025

آج کے جدید دور میں اسکرین کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی موجودگی میں والدین کا رویہ اُن کے سیکھنے اور عادات پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ جب والدین ہر وقت موبائل، ٹی وی یا کمپیوٹر میں مصروف نظر آتے ہیں، تو بچہ بھی لاشعوری طور پر انہی عادات کو اپناتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے اسکرین کے استعمال کو محدود کریں اور اُن کے ساتھ باہمی گفتگو، کھیل اور کہانیوں کا وقت بڑھائیں۔ یہ عمل نہ صرف بچے کے جذباتی ربط کو مضبوط کرتا ہے بلکہ اُس کی زبان، توجہ اور سماجی مہارتوں کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یاد رکھیں، بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ آپ کی ایک مثبت مثال اُن کے روشن مستقبل کی بنیاد بن سکتی ہے۔
علی شیر رجوکہ
کلینکل سائیکالوجسٹ
اسپشل ایجوکیشنٹ



























ہم اپنے بچے کو بہترین زندگی تب دے سکتے ہیں جب ہم اُس کی جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی ضروریات کو محبت اور سمجھ بوجھ کے ...
19/10/2025

ہم اپنے بچے کو بہترین زندگی تب دے سکتے ہیں جب ہم اُس کی جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی ضروریات کو محبت اور سمجھ بوجھ کے ساتھ پورا کریں۔ بہترین زندگی صرف اچھی تعلیم یا مالی سہولتوں سے نہیں بنتی، بلکہ بچے کو محبت، تحفظ، حوصلہ افزائی اور قبولیت دینے سے بنتی ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کی بات غور سے سنیں، اس کے احساسات کو اہمیت دیں، اور اس کی کامیابیوں پر تعریف کریں۔ بچے کے ساتھ وقت گزارنا، اُس کے مشاغل میں دلچسپی لینا، اور اُسے اپنی پسند کے کام کرنے کی آزادی دینا اُس کے اعتماد اور شخصیت کو مضبوط بناتا ہے۔ اگر بچہ کسی خاص ضرورت یا چیلنج کا سامنا کر رہا ہے، تو اُسے تنقید یا موازنہ کرنے کے بجائے حوصلہ، علاج، اور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں، بہترین زندگی وہی ہے جہاں بچہ خود کو محفوظ، محبت بھرا اور قابلِ قدر محسوس کرے۔
علی شیر رجوکہ
کلینکل سائیکالوجسٹ
سپیشل ایجوکیشنٹ

Autism is not something to be feared—it is something to be understood. Too often, people see difference and mistake it f...
04/10/2025

Autism is not something to be feared—it is something to be understood. Too often, people see difference and mistake it for distance, when in truth, it is an invitation to come closer, to listen deeper, and to learn more. If we take the time to see the world through the eyes of someone with autism, we discover a beauty that goes far beyond stereotypes or assumptions. Every unique perspective, every special interest, and every heartfelt connection paints a picture of humanity in its most authentic form.

Understanding autism means realizing that every individual’s journey is valuable, even if it doesn’t look like the one we expected. It means honoring strengths while offering compassion for struggles, and celebrating victories both big and small. “Mental health is not measured by fitting into society’s mold, but by embracing who we are, learning to carry both light and shadows, and knowing that being different does not make us broken—it makes us whole in another way.” Autism reminds us that the world doesn’t need more copies of the same—it needs the courage of diversity.

So let us choose kindness over judgment, patience over frustration, and acceptance over ignorance. Let us see autism not as a limitation, but as another way of experiencing life’s richness. The more we open our hearts, the more we realize that beauty is not found in perfection, but in diversity. “The strongest people are not those who hide their struggles, but those who use them as bridges of connection, teaching the world that true strength is found in love, compassion, and understanding.”

With love and light,

Address

Shadab Mor Jhang Road
Faisalabad

Telephone

+923467757166

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rising Life Clinical and Counseling Services Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Rising Life Clinical and Counseling Services Pakistan:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram