Psychology with Aftab Ahmad

Psychology with Aftab Ahmad Clinical Psychologist | Mental Health, Therapy & Career Counseling | Helping people heal, manage stress, and grow personally & professionally.

Promoting emotional resilience and mental health awareness across Pakistan and beyond.

“کامیاب بچے وہ نہیں ہوتے جن کے نمبر زیادہ ہوں، بلکہ وہ جنہیں والدین نے سیکھنے کی آزادی دی ہو۔ جانئے وہ 5 عام تعلیمی غلطی...
28/10/2025

“کامیاب بچے وہ نہیں ہوتے جن کے نمبر زیادہ ہوں، بلکہ وہ جنہیں والدین نے سیکھنے کی آزادی دی ہو۔
جانئے وہ 5 عام تعلیمی غلطیاں جن سے بچ کر آپ اپنے بچے کے سیکھنے کا سفر خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ 👇”

📘 والدین کی 5 عام تعلیمی غلطیاں | Parental 5 Common Mistakes in Child Education
ہم میں سے اکثر سمجھتے ہیں کہ بچے اسکول میں سیکھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا پہلا اور سب سے مضبوط ادارہ گھر ہوتا ہے۔
والدین کے رویّے، باتیں اور توقعات بچے کی سوچ پر وہ اثر ڈالتی ہیں جو کوئی نصاب نہیں دے سکتا۔
محبت اور فکر کی شدت میں والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کامیاب ہوں، مگر نادانستہ طور پر وہ ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جو بچے کی خود اعتمادی، سیکھنے کی لگن اور تخلیقی صلاحیت کو متاثر کر دیتی ہیں۔
یہ مضمون ان پانچ عام والدینی غلطیوں پر روشنی ڈالتا ہے جو بچوں کی تعلیم اور تربیت پر گہرا اثر ڈالتی ہیں تاکہ تعلیم دباؤ نہیں بلکہ خوشی کا ذریعہ بن سکے۔

1️⃣ نمبروں پر ضرورت سے زیادہ زور دینا
جب والدین تعلیم کو صرف اچھے نمبروں تک محدود کر دیتے ہیں تو بچے کی دیگر صلاحیتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔
ہر وقت امتحان اور نتائج پر بات کرنا بچے کے ذہن میں ناکامی کا خوف پیدا کرتا ہے۔
یوں بچہ علم کو شوق یا تجسس کے بجائے دباؤ کے طور پر محسوس کرنے لگتا ہے۔

"Education is not the learning of facts, but the training of the mind to think."
Albert Einstein

2️⃣ دوسرے بچوں سے موازنہ کرنا 💭
“دیکھو، علی تو فرسٹ آیا ہے، تم کیوں نہیں؟” یہ جملہ بظاہر حوصلہ افزائی لگتا ہے مگر دراصل بچے کے اعتماد کو توڑ دیتا ہے۔
موازنہ احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے، جبکہ ہر بچہ اپنی صلاحیتوں میں منفرد ہوتا ہے۔
"ولا تلمزوا أنفسکم" (الحجرات: 11)
"آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو" — یعنی عزتِ نفس کو مجروح نہ کرو۔

"Comparison is the thief of joy.
Theodore Roosevelt

3️⃣ بچے کی دلچسپیوں کو نظر انداز کرنا
اکثر والدین اپنی ناتمام خواہشات بچوں کے ذریعے پوری کرنا چاہتے ہیں۔
بچے کی فطری صلاحیتوں کو دیکھے بغیر فیصلہ کر لینا کہ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے، اس کی شخصیت کو محدود کر دیتا ہے۔
آرٹ، کھیل یا موسیقی جیسے شعبوں کو “غیر اہم” سمجھنا دراصل creativity کو دبانے کے مترادف ہے۔
“The only person who is educated is the one who has learned how to learn and change
Carl Rogers

4️⃣ ہوم ورک میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کرنا

والدین محبت میں اکثر بچے کا ہوم ورک خود کر دیتے ہیں۔
یہ عادت بظاہر مددگار لگتی ہے مگر دراصل بچے کی ذمہ داری، خود اعتمادی اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔
بچے کو موقع دیں کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کیونکہ غلطی سیکھنے کا پہلا قدم ہے۔
"Let your child make mistakes, because learning hides within errors."

5️⃣ تعلیم کو صرف کتابوں تک محدود سمجھنا
تعلیم صرف نصاب یا اسکول کا نام نہیں — یہ زندگی سمجھنے کا عمل ہے۔
جب والدین کھیل، سماجی سرگرمیوں اور عملی تجربات کو غیر ضروری سمجھتے ہیں تو بچے کی تخلیقی اور سماجی ذہانت متاثر ہوتی ہے۔
حقیقی تعلیم وہ ہے جو انسان کے کردار اور عمل میں ظاہر ہو۔

“Knowledge is not power until it becomes character.”
Herbert Spencer
اگر والدین ان پانچ غلطیوں سے بچ جائیں تو تعلیم دباؤ نہیں بلکہ خوشی اور شعور کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
بچے کتابوں سے نہیں، والدین کے روئیے، الفاظ اور توجہ سے سیکھتے ہیں۔
لہٰذا نمبرات کے بجائے سیکھنے کا شوق پیدا کیجیے،
کیونکہ تعلیم کا مقصد کامیابی نہیں، بلکہ انسانیت ہے۔

27/10/2025
27/10/2025

گھر پر بچوں کو سکھانے کے 7 مؤثر طریقے | Psychology with Aftab Ahmad

کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ بچہ سب سے زیادہ کہاں سیکھتا ہے؟
نہ اسکول کی کتابوں سے، نہ کلاس روم کے لیکچر سے بلکہ وہ گھر کے ماحول، ماں باپ کے رویّے اور روزمرہ تجربات سے سیکھتا ہے۔
ایک ماہرِ نفسیات کارل ینگ (Carl Jung) اسے یوں بیان کرتے ہیں:
“Children are educated by what the grown-up is and not by his talk.”
Carl Jung
قرآنِ حکیم میں بھی فرمایا گیا:
"قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا" (التحریم:6)
یعنی “اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (برائی سے) بچاؤ۔”
یہ آیت دراصل تربیت کی ذمہ داری کا اعلان ہے۔
آج ہم بات کریں گے: گھر پر بچوں کو سکھانے کے 7 مؤثر طریقے
جنہیں ہر والدین اپنی روزمرہ زندگی میں آسانی سے اپنا سکتے ہیں۔

1. سوال کرنے کی آزادی دیں
بچے کے سوالات کو دبائیں نہیں۔ اگر وہ پوچھے “اللہ کہاں ہیں؟ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟” یا “ہم روزہ کیوں رکھتے ہیں؟” تو ناراض نہ ہوں۔
یاد رکھیے، بچہ ابھی شعور کی منزل پر ہے۔ محبت سے جواب دیں یا اس کے ساتھ مل کر جواب تلاش کریں۔
“Curiosity is the wick in the candle of learning.”
William Arthur Ward

2. کہانیوں کے ذریعے سکھائیں
کہانی صرف تفریح نہیں بلکہ تربیت کا فن ہے۔
رات سونے سے پہلے ایک چھوٹی اسلامی یا اخلاقی کہانی سنائیں جیسے “حضرت عمرؓ کا انصاف” یا “سچ بولنے والے لڑکے کی کہانی”۔
قرآن نے بھی “قصص الانبیاء” کے ذریعے تعلیم کا یہی انداز اپنایا۔

3. روزمرہ کے کاموں میں شامل کریں
تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں۔
روزمرہ کے کام نظم و ضبط، خود انحصاری اور شکر گزاری سکھاتے ہیں۔
مثلاً سبزی کاٹتے وقت رنگوں کے نام پوچھیں یا خریداری میں چھوٹا حساب کروائیں۔
یہ life skills بچے میں اعتماد پیدا کرتی ہیں۔

4. مطالعے کا وقت طے کریں
روز 15 سے 20 منٹ مطالعہ چھوٹا قدم، بڑی تبدیلی۔
چھوٹے بچے تصویری کہانیاں پڑھیں، بڑے اسلامی یا سائنسی مضامین۔
ٹی وی یا موبائل کے بجائے کتاب کا اصول اپنائیں۔
“A reader today, a leader tomorrow.”

5. تعریف اور حوصلہ افزائی کریں
ڈانٹ کے بجائے حوصلہ افزائی زیادہ اثر کرتی ہے۔
اگر بچہ نماز کے لیے خود اٹھ گیا یا بہن کی مدد کی، فوراً تعریف کریں۔
“وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا” (البقرہ:83)
یعنی “لوگوں سے اچھے الفاظ میں بات کرو۔”

6. کھیل کے ذریعے تعلیم
کھیل سیکھنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔
جب تعلیم کو کھیل بنا دیا جائے تو بچہ خوشی سے سیکھتا ہے۔
“الفاظ پہچانو”، “رنگوں کی تلاش”، یا “اردو-انگلش ترجمہ گیم” جیسے کھیل کھیلیں۔
“Play is the highest form of research.”
Albert Einstein

7. خود ایک مثال بنیں
ماں باپ کا کردار بچے کی آنکھوں میں سب سے بڑی کتاب ہے۔
اگر آپ جھوٹ نہیں بولتے، نماز پڑھتے ہیں، تو یہی عمل اخلاقی معیار بن جاتا ہے۔
“Children are great imitators. So give them something great to imitate.”

یاد رکھیے گھر دراصل ایک چھوٹا مدرسہ ہے،
جہاں محبت استاد ہے، مشاہدہ نصاب ہے، اور ماں باپ معلم ہیں۔
اگر ہم تعلیم کو روزمرہ زندگی میں شامل کر لیں
تو ہمارے بچے کتابی علم کے ساتھ کردار کی روشنی بھی حاصل کریں گے۔

“انسانیت کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔”
امام غزالیؒ

Aftab Ahmad
Clinical Psychologist & Career Counselor
Founder – Psychology with Aftab Ahmad

آپ کے خیال میں گھر میں بچوں کی تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ کون سا ہے؟
اپنی رائے کمنٹس میں ضرور شیئر کریں تاکہ دوسرے والدین بھی سیکھ سکیں۔

25/10/2025

"تعلیم یا تجارت؟ جدید تعلیمی اداروں کی اصل سمت کیا
نوٹ اس مضمون کا مقصد کوئی تنقید برائے تنقید نہی ایک بگڑتی ہوئی اور بے عمل تعلیم کی سمت کی نشان دہی ہے۔
آج کے دور میں تعلیم ایک مقدس مشن سے زیادہ ایک منافع بخش صنعت بنتی جا رہی ہے۔
وہ ادارے جو کبھی علم، تحقیق اور تربیت کے مراکز سمجھے جاتے تھے، اب مارکیٹنگ، فیس اسٹرکچر اور برانڈ ویلیو کے حساب سے پہچانے جاتے ہیں۔
یہی رجحان آج کل بڑے شہروں میں عام ہو چکا ہے، خاص طور پر فیصل آباد جس میں میں عملی طور پر عینی شاہد ہوں اس کے تعلیمی مراکز میں کھل کر سامنے آ رہا ہے۔
تعلیم کے نام پر انٹرپرینیورشپ کا پھیلاؤ
گزشتہ چند برسوں میں درجنوں نئے تعلیمی ادارے وجود میں آئے ہیں۔ جن میں مذہبی ادارے بھی پیچھے نا رہنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔
ان کی عمارتیں شاندار، بورڈز رنگین، اور تشہیر کے نعرے دلکش ہیں، مگر ان کے مقاصد میں علم کا فروغ نہیں بلکہ سرمایہ کا اضافہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ ادارے اپنے آپ کو اسلامی، قرآنی یا ترقی یافتہ اسکول کہہ کر والدین کو متاثر کرتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کی بنیاد تعلیمی انٹرپرینیورشپ (Educational Entrepreneurship)
پر رکھی گئی ہے
جہاں تعلیم ایک پیداواری پراڈکٹ اور طالب علم ایک کسٹمر بن چکا ہے۔
مدارس اور روایتی اداروں کی کشمکش
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب روایتی مذہبی مدارس بھی اسی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ جو پرانے مدارس ہیں وہ تو اپنے پرانے انداز سے کام کر رہے لیکن انہی مدارس سے نکلے عالم اس جدید تعلیمی نعرے کی فلاسفی پر عمل پیرا ہیں۔ غلط نہی ہے لیکن نظام میں کوئی بہتری کسی لحاظ سے بھی نہی کیوں کہ کہیں نا کہیں پر ادارے کا الٹی میٹم گول ایک ہی بن جاتا۔
مزہبی ادارے میرا تنقیدی پہلو کیوں ہے کیوں کہ وہ خالص تربیت اور اخلاق و ایمان کے داعی بن کہ آتے ہیں تعلیم تو ہر جہت میں اخلاقی اور تربیتی انسانی پہلوؤں کا ہی منبہ ہوتی ہے
یہ حفظ+ اسکول ایجوکیشن" جیسے ماڈلز متعارف کروا رہے ہیں تاکہ والدین کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔
اگرچہ بظاہر یہ امتزاج برا نہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان اداروں کا اصل مقصد تعلیم نہیں بلکہ مارکیٹ میں جگہ بنانا بن گیا ہے۔
نعرے قرآن و سائنس کا امتزاج کے لگائے جاتے ہیں، مگر نصاب، اساتذہ، اور ماحول سب محض کاروباری حکمتِ عملی کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں۔
نتائج اور اثرات
یہ رجحان نوجوان نسل میں علم کے احترام کو کم اور مادی کامیابی کے جنون کو بڑھا رہا ہے۔اساتذہ اب مربی نہیں بلکہ سیلز ریپریزنٹیٹو بنتے جا رہے ہیں
اور طلبہ کو علم کے بجائے گریڈز اور سرٹیفیکیٹس کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
یوں تعلیم اپنی روح کھو رہی ہے وہ روح جو تربیت، کردار سازی اور شعورِ ذات پر مبنی تھی۔
اسلام میں تعلیم کا مقصد تزکیۂ نفس اور خدمتِ خلق ہے
نہ کہ دولت یا شہرت۔ ہو سکتا ہے میری بات محض میری سوچ ہو میرا تجزیہ ہو لیکن
قرآن میں ارشاد ہے
"یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ"
(سورۃ المجادلہ: 11)
یعنی “اللہ ایمان لانے والوں اور علم والوں کے درجے بلند کرتا ہے۔”
افسوس کہ آج علم کی بلندی کو فیس اور برانڈ کے ترازو میں تولا جا رہا ہے۔
باقی پرائیویٹ سیکٹر تو اب انٹرپرینیورشپ سے نکل کر انٹرا پرینیورشپ کے ماڈل کی طرف گامزن ہے جن کا مقصد تعلیم اور تربیت بس ایک خوبصورت نعرے کے سوا کچھ نہی
آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا وہ علم کے امین ہیں یا منافع کے تاجر؟
کیا وہ طلبہ کی تربیت کر رہے ہیں یا مارکیٹ کی ضروریات پوری کر رہے ہیں؟
اگر یہ رجحان یونہی چلتا رہا تو تعلیم اپنی روح کھو دے گی
اور ہمارے تعلیمی ادارے محض کاروباری کمپنیوں میں بدل جائیں گے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم تعلیم کو دوبارہ فکر، تربیت، اور کردار سے جوڑیں
تاکہ استاد پھر سے معلمِ اخلاق بنے،
اور ادارہ پھر سے روشنی کا مینار بن سکے
نہ کہ صرف ایک کاروباری برانڈ
Aftab Ahmad
Clinical psychologist and career counselor

24/10/2025

اردو کہانیوں اور نظموں کی اہمیت
ہم سب کے بچپن کی یادوں میں وہ شامیں آج بھی تازہ ہیں جب امی یا دادی کی آواز میں کہانیاں سننے کا ایک اپنا ہی مزہ تھا۔ کبھی پریوں کا ذکر، کبھی کسی نیک دل بادشاہ کا قصہ، اور کبھی کسی غریب کی دعاؤں کا کرشمہ۔ آج جب میرا پانچ سالہ بیٹا انہی کہانیوں کو انہماک سے سنتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وقت بدل گیا، لیکن کہانی کی تاثیر آج بھی ویسی ہی ہے۔ کہانی صرف الفاظ نہیں، یہ احساسات، تعلقات اور تربیت کی وہ زنجیر ہے جو نسلوں کو جوڑے رکھتی ہے۔
اردو ادب میں کہانی اور نظم دو ایسے روشن چراغ ہیں جنہوں نے صدیوں سے انسان کے دل و دماغ کو منور رکھا ہے۔ کہانی زندگی کے حقائق کو کرداروں کے آئینے میں دکھاتی ہے، جب کہ نظم جذبات کو نغمگی میں ڈھال کر احساس کی گہرائی پیدا کرتی ہے۔ دونوں انسان کو سوچنے، محسوس کرنے اور سمجھنے کی قوت عطا کرتی ہیں۔
قرآنِ حکیم نے بھی حکایت اور قصہ گوئی کو ایک تعلیمی و اخلاقی ذریعہ قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
“لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ”
(یعنی ان کے قصوں میں اہلِ عقل کے لیے عبرت ہے۔
سورۃ یوسف: 111)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کہانیاں صرف تفریح نہیں بلکہ فہم و تربیت کا ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعے بچے اور بڑے دونوں کردار سے سیکھتے، غلطی سے بچتے، اور سچائی کی قدر سمجھتے ہیں۔
اقبال نے شاعری کے ذریعے خواب دیکھنے، خودی پہچاننے اور کردار کو بلند کرنے کی دعوت دی۔ حالی نے اصلاحِ اخلاق کی بات کی، فیض نے انسان کی آزادی کا نعرہ دیا۔ جیسا کہ اقبال نے فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔
اور ایک مغربی مفکر Carl Jung نے کہا تھا
“Stories are the mirrors of the human soul.”
(کہانیاں انسانی روح کا آئینہ ہوتی ہیں۔)
نفسیات کے مطابق کہانی اور شاعری
catharsis یعنی "باطنی جذبات کی صفائی" کا ذریعہ بنتی ہیں۔ انسان جب کسی کہانی سے جڑتا ہے تو وہ اپنے اندر کے دبے جذبات کو سمجھنے لگتا ہے۔ یہی عمل ذہنی سکون اور توازن پیدا کرتا ہے۔
تعلیمی لحاظ سے بھی کہانیاں اور نظمیں بچوں میں زبان، تخیل، ہمدردی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ جدید تعلیم میں "Story-based learning" کو مؤثر ترین تدریسی طریقہ مانا جاتا ہے۔ کیونکہ جب علم احساس کے ساتھ جڑتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے دل میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
اردو کہانیاں اور نظمیں ہماری تہذیب، نفسیات اور تعلیم کی بنیاد ہیں۔ یہ انسان کو سوچنا، محسوس کرنا اور بہتر بننا سکھاتی ہیں۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو ان سے جوڑیں، تو ہم صرف زبان نہیں، بلکہ کردار، وجدان، اور ایمان کو بھی زندہ رکھیں گے۔
کیونکہ
جیسا کہ William Wordsworth نے کہا تھا
“Poetry is the breath and finer spirit of all knowledge.”

Aftab Ahmad
Clinical psychologist and careere counselor

Address

Faisalabad
38000

Opening Hours

Monday 10:00 - 19:00
Tuesday 10:00 - 19:00
Wednesday 10:00 - 19:00
Thursday 10:00 - 19:00
Friday 10:00 - 19:00
Saturday 10:00 - 19:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Psychology with Aftab Ahmad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Psychology with Aftab Ahmad:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram