Psychology with Aftab Ahmad

Psychology with Aftab Ahmad In clinical setting, dealing with patient’s psychological issues

Being clinical psychologist helping patients in momentous way as listening their concerns, conflicts and helping them overcoming their mental, emotional and behavioral problems.

پری بورڈ اور پری او لیول پروگرام: بچوں کا تعلیمی مستقبل محفوظ بنانے کا طریقہہمارے بچے جب پہلی بار میٹرک یا او لیول کے بو...
22/09/2025

پری بورڈ اور پری او لیول پروگرام: بچوں کا تعلیمی مستقبل محفوظ بنانے کا طریقہ
ہمارے بچے جب پہلی بار میٹرک یا او لیول کے بورڈ امتحان کے سامنے آتے ہیں تو اچانک ایک ایسے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک وہ عام انداز میں پڑھتے ہیں، لیکن جیسے ہی بورڈ کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو نیا پیپر پیٹرن، وقت کی پابندی اور مارکنگ کا نظام ان کے لیے ایک بھاری بوجھ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ذہین بچے اپنی اصل صلاحیت کے مطابق نتائج نہیں دے پاتے۔
سقراط کا قول ہے
Education is the kindling of a flame, not the filling of a vessel.
"تعلیم کسی برتن کو بھرنے کا نام نہیں بلکہ ایک شعلے کو روشن کرنے کا عمل ہے۔"
پری بورڈ / پری او لیول پروگرام کیا ہے؟
یہ پروگرام بچوں کو چھٹی جماعت سے ہی اس انداز میں تیار کرتا ہے کہ ان کی روزانہ پڑھائی اسکول کے کورس پر مبنی ہو لیکن ٹیسٹ اور امتحانی مشق بالکل بورڈ پیٹرن کے مطابق ہوں۔
اس طرح بچہ چھوٹی عمر سے ہی پیپر کے انداز اور وقت کے انتظام کو سمجھ لیتا ہے۔
بورڈ امتحان کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔
اعتماد اور کارکردگی میں واضح اضافہ ہوتا ہے۔
کیرئیر کونسلنگ کا ساتھ
تعلیم کے ساتھ ساتھ اس پروگرام میں بچوں کو کیرئیر کونسلنگ بھی فراہم کی جائے۔ اکثر بچے صرف رواج یا دباؤ میں مضامین کا انتخاب کرتے ہیں جس کا نتیجہ آگے جا کر مشکلات کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر چھٹی سے ہی رہنمائی دی جائے تو
بچہ اپنی دلچسپی اور صلاحیت کو پہچان لے گا۔
مضامین کا انتخاب درست وقت پر ہو جائے گا۔
مستقبل کے فیصلے آسان اور پُراعتماد ہوں گے۔
فرض کیجیے آپ کا بچہ ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا، لیکن چھٹی جماعت سے اس نے "پری بورڈ پروگرام" میں حصہ لیا۔ ہر ٹیسٹ اور پریکٹس پیپر بورڈ کے پیٹرن پر تھا۔ جب وہ نویں جماعت میں پہنچا تو اس کے لیے بورڈ امتحان ایک مانوس چیز تھی، نہ کہ کوئی نیا خوف۔ ساتھ ہی کیرئیر کونسلنگ نے اسے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی کہ وہ سوشل سائنسز میں بہتر ہے، نہ کہ بایولوجی میں۔ یہی بروقت رہنمائی اس کے اعتماد اور کامیابی کی بنیاد بنی۔
اس ماڈل کے فوائد
بورڈ امتحانات کا خوف ختم ہو جائے گا۔
بچوں کا تعلیمی اعتماد بڑھے گا۔
والدین کو جلد ہی اپنے بچے کی اصل صلاحیت کا علم ہو جائے گا۔ مضامین کا درست انتخاب ہو گا، جس سے مستقبل کے فیصلے آسان ہوں گے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ میٹرک یا او لیول کے دباؤ کا شکار نہ ہو تو چھٹی جماعت سے ہی "پری بورڈ اور پری او لیول پروگرام" میں اس کی رہنمائی کیجیے۔ یہ پروگرام صرف امتحانی تیاری نہیں بلکہ ایک مکمل حکمتِ عملی ہے، جو بچے کو نہ صرف بہتر گریڈ دلوائے گی بلکہ اس کے مستقبل کے سفر کو بھی روشن کرے گی۔
مزید معلومات اور رہنمائی کے لیے ابھی رابطہ کرںں
Aftab Ahmad
Clinical psychologist and career counselor
0300-4264393

تعلیم: حقیقت یا دکھاوا؟مولانا رومیؒ اور ان کے مرشد حضرت شمس تبریزؒ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ کہتے ہیں ایک دن شمسؒ نے اپنے ش...
19/09/2025

تعلیم: حقیقت یا دکھاوا؟
مولانا رومیؒ اور ان کے مرشد حضرت شمس تبریزؒ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ کہتے ہیں ایک دن شمسؒ نے اپنے شاگرد کو بازار بھیجا اور کہا
جاؤ شراب لے آؤ
جی ہاں شراب لے آؤ

مولانا رومؒ حیران تو ضرور ہوئے لیکن مرشد کی اطاعت میں بازار چلے گئے۔ ہاتھ میں صراحی لیے واپس آ رہے تھے کہ لوگوں نے دیکھ
کیا سب ہکا بکا رہ گئے کہ یہ بڑے عالم اور فقیہ، جو روز و شب دین کی خدمت کرتے ہیں، ہاتھ میں شراب کی بوتل کیوں اٹھائے
ہوئے ہیں؟ لوگوں نے طعنے دیے، برا بھلا کہا، حتیٰ کہ مارنے لگے۔ لیکن جیسے ہی شمس تبریزؒ نے آ کر صراحی کھولی تو اس میں شراب نہیں بلکہ سرکہ نکلا۔ سب لوگ شرمندہ ہو گئے۔
یہ واقعہ ایک عظیم سبق دیتا ہے
دنیا کی عزت و شہرت محض ظاہر اور گمان پر قائم ہے۔
ایک لمحے میں لوگ تمہیں آسمان پر چڑھا دیتے ہیں، اور اگلے لمحے زمین پر گرا دیتے ہیں۔ اصل عزت وہ ہے جو حقیقت اور سچائی پر قائم ہو، نہ کہ لوگوں کے خیال پر۔
آج کی تعلیم اور ڈگریاں
آج کی تعلیم بھی اسی نکتے پر کھڑی ہے۔ ڈگری کا ہونا صرف ایک "صراحی" ہے، جسے لوگ دور سے دیکھ کر تعریف بھی کرتے ہیں اور شک بھی۔لیکن اگر اس صراحی کے اندر علم، کردار اور عمل نہ ہو تو وہ محض ایک خالی بوتل ہے۔
ہم اکثر سنتے ہیں
فلاں ڈاکٹر ہے
فلاں انجینئر ہے
فلاں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے
فلاں CSS آفیسر ہے
یہ سب بڑے اور بھاری ٹائٹلز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
کیا ڈاکٹر واقعی انسانیت کا درد رکھتا ہے؟
کیا انجینئر اپنی مہارت کو معاشرے کی بھلائی میں استعمال کرتا ہے؟
کیا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ دیانت دار ہے؟
کیا CSS آفیسر انصاف پسند ہے؟

اگر جواب "نہیں" ہے، تو پھر یہ سب ڈگریاں اور ٹائٹلز محض دکھاوا ہیں۔
جیسا کہ امریکی فلسفی رالف والڈو ایمرسن نے کہا تھا:

“The secret of education lies in respecting the pupil.”
(تعلیم کا اصل راز شاگرد کے احترام میں پوشیدہ ہے۔)
اصل تعلیم وہ ہے جو انسان کو عمل، کردار اور سچائی سے جوڑ دے۔ورنہ ڈگری تو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، جو بظاہر عزت تو دے سکتا ہے، لیکن حقیقت میں انسان کے اندر کوئی روشنی پیدا نہیں کرتا۔

سوچنے کا مقام
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم "سرکہ" لے کر آ رہے ہیں یا "شراب
یعنی ہماری ڈگری کا اندرون علم و عمل سے بھرا ہوا ہے یا صرف دکھاوے کی بوتل ہے؟
دنیا کے لوگ تمہیں تمہارے عہدوں اور ڈگریوں پر پرکھیں گے
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ
کیا تمہارے علم نے تمہیں حقیقتاً ایک بہتر انسان بنایا؟

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ یا آپ کے بچے کی تعلیم صرف ایک ڈگری نہ ہو بلکہ ایک حقیقی کامیابی میں بدلے، تو مجھ سے رابطہ کریں۔
Aftab Ahamd
Clinical psychologist and career counselor

تعلیم کے تین ستون: والدین، استاد اور طالبِ علممیٹرک اور(O level) طلبہ کے لیے سبجیکٹ سلیکشن سے کیریئر کامیابی تک مکمل رہن...
18/09/2025

تعلیم کے تین ستون: والدین، استاد اور طالبِ علم

میٹرک اور(O level) طلبہ کے لیے سبجیکٹ سلیکشن سے کیریئر کامیابی تک مکمل رہنمائی
کامیاب تعلیم صرف کتابوں اور گریڈز کا نام نہیں، بلکہ تین ستونوں پر کھڑی ہے: والدین، استاد اور طالب علم۔
والدین جب بچوں کو صرف مارکس کی دوڑ میں دھکیلتے ہیں تو اکثر وہ بیزاری اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
استاد اگر محض پڑھانے تک محدود رہے تو طلبہ کے اندر سیکھنے کا شوق ختم ہو جاتا ہے۔
اور طالب علم اگر اپنی محنت اور نظم و ضبط کھو دے تو خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔
میٹرک اور O لیول کا فرق:
میٹرک کے طلبہ پر یادداشت اور امتحانی دباؤ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ O لیول طلبہ کو تنقیدی سوچ اور رائٹنگ اسکلز میں مشکلات آتی ہیں۔ دونوں کو سبجیکٹ سلیکشن اور کیریئر پلاننگ کے موقع پر سخت الجھنوں کا سامنا ہوتا ہے۔
بچوں کی دلچسپی ختم کیوں ہوتی ہے؟
اکثر بچے یہ سوچ کر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں کہ "یہ سب میرے کام کا نہیں"۔ نفسیاتی طور پر یہ مسئلہ تب حل ہوتا ہے جب پڑھائی کو زندگی کے مقصد سے جوڑا جائے اور ان کے خوابوں کو حقیقت سے ملایا جائے۔
نفسیاتی مسائل اور ان کا حل
امتحانی دباؤ اور پریشانی ٹائم مینجمنٹ اور مثبت سوچ۔
ناکامی کا خوف → بچوں کو سمجھایا جائے کہ غلطی سیکھنے کی پہلی سیڑھی ہے۔
سوشل میڈیا اور موبائل کی لت ریگولر پلاننگ اور فیملی سپورٹ۔

سبجیکٹ سلیکشن: مستقبل کا فیصلہ
میٹرک کے بعد F.Sc, ICS یا I.Com… اور O لیول کے بعد A لیول یا مقامی بورڈ… یہ فیصلے کبھی بھی رواج یا دباؤ پر نہ چھوڑیں۔ ہر بچہ اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق بہتر راستہ منتخب کرتا ہے، اور یہی انتخاب آگے جا کر اس کے کیریئر کو کامیاب بناتا ہے۔
یہ صرف ایک جھلک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت، مسائل اور خواب مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے بروقت اور پروفیشنل رہنمائی آپ کے بچے کو کامیابی کی صحیح راہ دکھا سکتی ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ اپنی دلچسپی کے مطابق سبجیکٹ سلیکشن کرے، پڑھائی میں دل لگائے اور مستقبل کے لیے اعتماد کے ساتھ تیار ہو، تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں۔

صحیح رہنمائی، کامیاب مستقبل — اپنے بچے کا کیریئر آج ہی سنواریں"
Aftab Ahmad
Clinical Psychologist & Career Counselor
0300-4264393

تعلیم کے تین ستون: والدین، استاد اور طالبِ علم میٹرک اور او لیول طلبہ کے لیے سبجیکٹ سلیکشن سے کیریئر کامیابی تک مکمل رہن...
16/09/2025

تعلیم کے تین ستون: والدین، استاد اور طالبِ علم میٹرک اور او
لیول طلبہ کے لیے سبجیکٹ سلیکشن سے کیریئر کامیابی تک مکمل رہنمائی
کامیاب تعلیم صرف کتابوں اور گریڈز کا نام نہیں، بلکہ تین ستونوں پر کھڑی ہے: والدین، استاد اور طالب علم۔
والدین جب بچوں کو صرف مارکس کی دوڑ میں دھکیلتے ہیں تو اکثر وہ بیزاری اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
استاد اگر محض پڑھانے تک محدود رہے تو طلبہ کے اندر سیکھنے کا شوق ختم ہو جاتا ہے۔
اور طالب علم اگر اپنی محنت اور نظم و ضبط کھو دے تو خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔
میٹرک اور او لیول کا فرق:
میٹرک کے طلبہ پر یادداشت اور امتحانی دباؤ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ O لیول طلبہ کو تنقیدی سوچ اور رائٹنگ اسکلز میں مشکلات آتی ہیں۔ دونوں کو سبجیکٹ سلیکشن اور کیریئر پلاننگ کے موقع پر سخت الجھنوں کا سامنا ہوتا ہے۔
بچوں کی دلچسپی ختم کیوں ہوتی ہے؟
اکثر بچے یہ سوچ کر پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں کہ "یہ سب میرے کام کا نہیں"۔ نفسیاتی طور پر یہ مسئلہ تب حل ہوتا ہے جب پڑھائی کو زندگی کے مقصد سے جوڑا جائے اور ان کے خوابوں کو حقیقت سے ملایا جائے۔

نفسیاتی مسائل اور ان کا حل

امتحانی دباؤ اور پریشانی ٹائم مینجمنٹ اور مثبت سوچ۔

ناکامی کا خوف بچوں کو سمجھایا جائے کہ غلطی سیکھنے کی پہلی سیڑھی ہے۔

سوشل میڈیا اور موبائل کی لت ریگولر پلاننگ اور فیملی سپورٹ۔

سبجیکٹ سلیکشن: مستقبل کا فیصلہ
میٹرک کے بعد F.Sc, ICS یا I.Com… اور O لیول کے بعد A لیول یا مقامی بورڈ… یہ فیصلے کبھی بھی رواج یا دباؤ پر نہ چھوڑیں۔ ہر بچہ اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق بہتر راستہ منتخب کرتا ہے، اور یہی انتخاب آگے جا کر اس کے کیریئر کو کامیاب بناتا ہے۔
یہ صرف ایک جھلک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت، مسائل اور خواب مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے بروقت اور پروفیشنل رہنمائی آپ کے بچے کو کامیابی کی صحیح راہ دکھا سکتی ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ اپنی دلچسپی کے مطابق سبجیکٹ سلیکشن کرے، پڑھائی میں دل لگائے اور مستقبل کے لیے اعتماد کے ساتھ تیار ہو، تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں۔

صحیح رہنمائی، کامیاب مستقبل — اپنے بچے کا کیریئر آج ہی سنواریں

Psychology with Aftab Ahmad
Aftab Ahmad
Clinical psychologist and career counselor

15/09/2025

ہر انسان تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم یافتہ ہونا چاہتا ہے تعلیم کو معاشرتی پہلؤں کا ایک بنیادی عنصر کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک comprehensive عمل ہے جسے ہر انسان نظریہ ضرورت کے تحت تعریف کرتا ہے۔ اگر ہم حقیقی تعریف کی طرف جائیں تو۔۔۔
لغوی اعتبار سے: "تعلیم" کا مطلب ہے کسی کو علم دینا یا سکھانا۔
اصطلاحی اعتبار سے: تعلیم وہ مسلسل عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنی عقل، کردار اور صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے تاکہ وہ خود کو اور معاشرے کو بہتر بنا سکے۔
اب اگر جامع تعریف کریں تو۔۔۔
تعلیم صرف کتابی علم یا ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت (comprehensive) عمل ہے جس میں انسان اپنی شخصیت، سوچ، علم، ہنر، اقدار اور رویّوں کو سنوارتا ہے۔
تعلیم کے بنیادی پہلو: اوپر کی گی جامع تعریف سے تعلیم کےندرجہ ذیل پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔
1. علمی پہلو – حقائق، معلومات اور نظریات حاصل کرنا۔
2. عملی پہلو – ہنر، قابلیت اور روزمرہ زندگی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت۔
3. اخلاقی و سماجی پہلو – اچھے کردار، ذمہ داری اور دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات۔
4. روحانی پہلو – اپنی اصل، مقصدِ حیات اور خالق کی پہچان حاصل کرنا۔
مشہور ماہرِ تعلیم جان ڈیوئی (John Dewey) کے مطابق
Education is not preparation for life education is life itself.
"تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ خود زندگی ہے۔"
لیکن نظریہ ضرورت نے تعلیم کی اس جامع تعریف کو محدود کر دیا جس کے پیش نظر لوگوں کی تعلیم کو لے کر تعریف بھی سوچ بھی اور عمل بھی محدود ہو کر رہ گیا۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو پہلی وحی علم ہی کی اہمیت پر
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (العلق: 1)
"پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔" (ابن ماجہ)
اس کے لحاظ سے مقصد حیات کو تعلیم کہہ سکتے تعلیم حاصل کرنا فرض ہے اور تعلیم کیا اس پر مکمل قرآن ایک باضابط سلیبس ہے۔ محبوب کائنات کی ذندگی ایک باضابطہ عمل ہے۔
اس کے بعد تعلیم کی جزوی تعریف پھر صرف بدیانتی اور تعلیم سے روح گردانی ہے تعلیم نہی۔
Ahmad
Clinical psychologist and career counselor

30/08/2025

I got over 10 reactions on one of my posts last week! Thanks everyone for your support! 🎉

29/08/2025

تغیر: ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل
کائنات میں کوئی شے مستقل نہیں۔ ہر لمحہ انسان، وقت، حالات اور جذبات تغیر یعنی تبدیلی سے دوچار ہیں۔ یہ تبدیلی محض جسمانی یا مادی نہیں بلکہ فکری، روحانی اور نفسیاتی سطح پر بھی واقع ہوتی ہے۔ مذہب اور نفسیات دونوں اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ جمود موت ہے اور تغیر زندگی۔
مذہبی پہلو
قرآن کا پیغام
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ
(سورۃ الرعد: 11)
ترجمہ: بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل ڈالے۔
یہ آیت اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے کہ اجتماعی اور انفرادی ترقی و زوال کا انحصار انسان کے اپنے اندرونی تغیر پر ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
خوش قسمت ہے وہ شخص جس کے آج کا دن کل سے بہتر ہے، اور بدقسمت ہے وہ جس کا آج کا دن کل سے بدتر ہے۔
(جامع ترمذی، کتاب الزہد)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جو ہر دن اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے تبدیلی لاتا ہے۔
اسلامی مفکرین کی آراء
امام غزالیؒ اپنی کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں
انسان کی اصل کامیابی اس کے باطن کی اصلاح اور نفس کی تبدیلی میں ہے، اگر اندرون درست ہو جائے تو ظاہر خود بخود درست ہو جاتا ہے۔
مولانا رومیؒ نے کہا:
کل میں چالاک تھا، اس لیے دنیا کو بدلنا چاہتا تھا۔ آج میں دانا ہوں، اس لیے خود کو بدل رہا ہوں۔
نفسیاتی پہلو
جدید ماہرینِ نفسیات
کارل راجرز (Carl Rogers) لکھتے ہیں:
The good life is a process, not a state of being. It is a direction, not a destination."
یعنی اچھی زندگی جامد نہیں بلکہ ایک مسلسل تغیر اور ارتقا کا سفر ہے۔
وکٹر فرانکل (Victor Frankl) اپنی شہرہ آفاق کتاب Man’s Search for Meaning میں کہتے ہیں:
When we are no longer able to change a situation, we are challenged to change ourselves."
یعنی اگر ہم حالات کو نہیں بدل سکتے تو ذہنی صحت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلیں۔
نفسیاتی اصول
ماہرینِ نفسیات کے نزدیک تبدیلی کے بغیر شخصیت میں جمود اور ذہنی بیماری جنم لیتی ہے۔ Cognitive Behavioral Therapy (CBT) کا بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ انسان اپنی سوچ میں تبدیلی لا کر اپنے رویوں اور جذبات کو بہتر بنا سکتا ہے۔
فلسفیانہ و فکری زاویہ
یونانی فلسفی ہیرقلیطس (Heraclitus) نے کہا تھا:
Change is the only constant in life.
یعنی زندگی میں واحد مستقل حقیقت تغیر ہے۔

قرآن اس کو یوں بیان کرتا ہے:
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ"
(الرحمٰن: 29)
ترجمہ: وہ (اللہ) ہر دن ایک نئی شان میں ہے۔
یہی کائناتی تغیر انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت اور عمل کو بہتر سمت میں ڈھالتا رہے۔

تغیر زندگی کی روح ہے۔ مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ تغیر کو خیر اور رضا الٰہی کی سمت میں لے جایا جائے۔ نفسیات یہ بتاتی ہے کہ تبدیلی سے گھبرانے کے بجائے اسے قبول کریں، ورنہ ذہنی جمود اور بیماری پیدا ہوگی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی اصل کامیابی اس میں ہے کہ وہ اپنی ذات اور حالات میں مثبت تبدیلی لائے۔ کیونکہ تبدیلی ناگزیر ہے، لیکن اس کا رخ ہمارے اختیار میں ہے۔
Aftab Ahamd,
Clinical psychologist and career counselor.

(Emotional Intelligence )کی عصری ضرورت اور سیرتِ نبوی ﷺ کا عملی نمونہآج کے دور میں انسان بظاہر ترقی یافتہ ہے لیکن اندر س...
26/08/2025

(Emotional Intelligence )کی عصری ضرورت اور سیرتِ نبوی ﷺ کا عملی نمونہ

آج کے دور میں انسان بظاہر ترقی یافتہ ہے لیکن اندر سے وہ اضطراب، ذہنی دباؤ اور تعلقات کی پیچیدگیوں میں الجھا ہوا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کے مطابق کامیابی کے لیے صرف علمی قابلیت (IQ) کافی نہیں بلکہ جذبات کو سمجھنا، قابو پانا اور مثبت استعمال کرنا یعنی Emotional Intelligence (EI) بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے (Daniel Goleman, Emotional Intelligence, 1995)۔

دماغ، جذبات اور انسانی رویّے

انسانی دماغ کا حصہ hippocampus اور prefrontal cortex یادداشت، فیصلہ سازی اور جذباتی توازن میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے تو انسان جلد مشتعل ہو جاتا ہے۔ لیکن جذباتی ذہانت کے ذریعے انسان اپنی توانائی کو مثبت رخ پر استعمال کر سکتا ہے (Mayer, Salovey & Caruso, 2008)۔

قرآن و سنت کی روشنی میں جذباتی نظم و ضبط

قرآن مجید بار بار صبر، برداشت اور غصے پر قابو پانے کی تعلیم دیتا ہے:

اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے، اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔"
(آل عمران: 134)
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو تو تمہارے اور اس کے درمیان جس کے ساتھ دشمنی ہے، ایسا ہوجائے گا جیسے گہرا دوست ہو۔"
(حم السجدہ: 34)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اصل کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے جذبات پر قابو رکھ کر مثبت ردعمل دے۔

سیرتِ نبوی ﷺ: جذباتی ذہانت کا کامل نمونہ
رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی جذباتی ذہانت کا عملی مظہر ہے۔
طائف کا واقعہ: جب لوگوں نے پتھر مارے تو آپ ﷺ نے بد دعا دینے کے بجائے یہ دعا کی: "اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔" (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق)
فتح مکہ: دشمنوں کو معاف کر کے آپ ﷺ نے یہ اعلان فرمایا: "آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔" (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ)
روزمرہ زندگی میں: آپ ﷺ ہمیشہ دوسروں کے جذبات کو سمجھتے اور نرم مزاجی کا مظاہرہ کرتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے: "تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔" (سنن ترمذی، کتاب المناقب)
یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ آپ ﷺ جذبات پر قابو پا کر انہیں رحمت، صبر اور حکمت کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔
عصرِ حاضر میں Emotional Intelligence کی ضرورت
ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے کامیاب ترین لیڈرز، اساتذہ، والدین اور پروفیشنلز کی سب سے بڑی طاقت جذباتی ذہانت ہوتی ہے۔
Goleman (1998) کے مطابق 80% کامیابی جذباتی ذہانت کی بدولت حاصل ہوتی ہے، صرف 20% IQ کا کردار ہوتا ہے۔
آج کی تعلیم، کارپوریٹ لیڈرشپ اور ذاتی تعلقات میں EI کو بنیادی مہارت (core skill) سمجھا جاتا ہے۔

Emotional Intelligence آج کے دور میں کامیاب اور خوشحال زندگی کا لازمی جز ہے۔ لیکن اگر اس کو کسی زندہ اور کامل مثال کے ساتھ سمجھنا ہو تو ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ اصل لیڈر وہی ہے جو اپنے جذبات پر قابو رکھے، دوسروں کے احساسات کو سمجھے اور رحمت و حکمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سیرتِ نبوی ﷺ کے اس پہلو کو اپنائیں تو معاشرہ امن، محبت اور سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
Psychology with Aftab Ahmad
Aftab Ahamd
Clinical psychologist and career counselor

ریورس انسیکیورٹی امپلانٹڈ: دماغ میں شک کے بیج بونے کی نفسیاتانسانی ذہن کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں دوس...
20/08/2025

ریورس انسیکیورٹی امپلانٹڈ: دماغ میں شک کے بیج بونے کی نفسیات
انسانی ذہن کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں دوسروں کی رائے کو نظرانداز نہیں کر پاتا۔ چاہے وہ ایک مثبت تبصرہ ہو یا ایک ہلکا سا سوال دماغ فوراً اس پر ری ایکٹ کرتا ہےاسی فطری کمزوری کو بعض لوگ ریورس انسیکیورٹی امپلانٹڈ” کے طور پر استعمال کرتے ہیں، یعنی براہِ راست تنقید یا حکم دینے کے بجائے ایک چھوٹا سا “شک” ڈال دینا، جو دوسرے کے لاشعور کو آپ کی طرف متوجہ کر دیتا ہے
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
جب آپ کسی کو
casually
کہتے ہیں
آج تم کچھ تھکے ہوئے لگ رہے ہو، سب ٹھیک ہے نا؟
آج تم مجھے کچھ زیادہ چپ لگ رہے ہو، کوئی پریشانی ہے؟
آپ نے کوئی برا جملہ نہیں کہا، لیکن آپ نے ایک ایسا سوال کھڑا کر دیا جس کا جواب ان کے اپنے ذہن کو ڈھونڈنا ہے۔ اس کے بعد دماغ کے اندر یہ
chain
شروع ہوتی ہے
1. Self-Monitoring:
وہ شخص سوچنے لگتا ہے، کیا واقعی میں تھکا ہوا لگ رہا ہوں؟ کیا باقی بھی یہی سوچ رہے ہوں گے؟
2. Attention Shift:
اب اس کی توجہ اپنی حالت سے زیادہ آپ کی
observation
پر ہے
3. Indirect Control:
وہ لاشعوری طور پر اپنی
personality
کو آپ کے معیار کے مطابق
adjust
کرنے لگتا ہے۔
ریسرچ اور فیکٹس
ماہرِ نفسیات ڈینیل کانمین (Daniel Kahneman)
نے اپنی کتاب Thinking, Fast and Slow (2011)
میں لکھا کہ انسانی دماغ
ambiguity (ابہام)
کو زیادہ دیر
tolerate
نہیں کر پاتا،
وہ فوراً
meaning ڈھونڈنے لگتا ہے۔
Social Comparison Theory (Festinger, 1954) بتاتی ہے کہ لوگ اپنی قدر اور شخصیت دوسروں کی نظر سے measure کرتے ہیں، خاص طور پر جب کوئی subtle اشارہ دیا جائے۔
ایک مطالعے کے مطابق (PsycNET, 2017) چھوٹے casual comments بھی انسان کے mood، self-image اور اعتماد پر گہرے اثرات چھوڑ سکتے ہیں، چاہے وہ براہِ راست تنقید نہ بھی ہوں۔
ڈارک سائیڈ
اس تکنیک کو بار بار استعمال کرنا micro-manipulation کہلاتا ہے۔ یہ دوسرے شخص کو:
Restlessness اور Overthinking کی عادت
Self-Doubt اور Anxiety
Emotional Dependence
کا شکار بنا دیتا ہے۔ یعنی وہ آپ کی validation کے بغیر secure نہیں رہ پاتا۔ لانگ ٹرم میں یہ رشتہ اعتماد کی بجائے کمزوری اور شک پر مبنی ہو جاتا ہے۔
مثبت رخ
اگر یہی تکنیک مثبت انداز میں استعمال کی جائے تو healing اور motivation کے لیے طاقتور آلہ بن سکتی ہے:
“آج تم زیادہ confident لگ رہے ہو، کیا خاص وجہ ہے؟”
“تمہارا انداز آج professional لگ رہا ہے، impressive!”
اس طرح آپ کسی کے ذہن میں insecurity کے بجائے self-belief کا بیج بوتے ہیں۔
نفسیات کہتی ہے کہ settled doubt زیادہ گہرا چھبتا ہے۔ اس لیے “ریورس انسیکیورٹی امپلانٹڈ” بظاہر ایک سادہ جملہ ہے، لیکن یہ انسانی دماغ کو اندر تک متاثر کر سکتا ہے۔ فرق صرف نیت کا ہے—آپ اسے manipulation کے لیے استعمال کریں گے یا motivation کے لیے؟
Aftab Ahmad
Clinical psychologist and career counselor

Address

Faisalabad
38000

Opening Hours

Monday 10:00 - 19:00
Tuesday 10:00 - 19:00
Wednesday 10:00 - 19:00
Thursday 10:00 - 19:00
Friday 10:00 - 19:00
Saturday 10:00 - 19:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Psychology with Aftab Ahmad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Psychology with Aftab Ahmad:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram