Life Flo Healthcare

Life Flo Healthcare To provide information regarding company products & relative. Tablet GRAZE. For sexual asthenia and physical asthenia .

10/09/2022

سابق وزیراعظم عمران خان کا پنجاب کے شہر چشتیاں میں جلسہ عام سے خطاب
پنجاب میں حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے
مسٹر وائی اور مسٹر ایکس جا کر لوگوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں
مزید تفصیلات بی بی سی لائیو پیج پر : https://bbc.in/3RK4DMO

فائن ٹیوننگ دلیل / Fine-tuning argument، کائنات کا مقصد اور انسان:فائن ٹیوننگ دلیل:  ریڈیو کو مخصوص فریکوینسی پر ٹیون کر...
05/11/2021

فائن ٹیوننگ دلیل / Fine-tuning argument، کائنات کا مقصد اور انسان:
فائن ٹیوننگ دلیل:

ریڈیو کو مخصوص فریکوینسی پر ٹیون کرتے ہیں تو مخصوص چینل آجاتا ہے اسی جب ہم کسی
طرح کائنات کے قوانین کے پیرامیٹر کچھ اس طرح سے ٹیونڈ (Tuned) ہیں کہ اسی ٹیوننگ کی وجہ سے کائنات آج جیسی ہے ویسی بنی ۔ فائن ٹیوننگ مفروضے کے مطابق اگر یہ ٹیوننگ نہ ہوتی تو نہ کوئی مادی ذرہ بنتا، نہ ایٹم بنتا، نہ ستارے بنتے، نہ کہکشاں بنتی، اور نہ ہی حیاتیاتی زندگی اور انسانی شعور بنتا اور نہ انسان یہ سوال پوچھنے کے لیے وجود رکھتا ہوتا کہ یہ کائنات کیسے بنی۔ اسکو فائن ٹیوننگ پروبلم کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر فائن ٹیوننگ کے حق میں جو سائنس دان ہیں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر مضبوط نیوکلیائی قوت اپنی موجودہ قوت سے 2 فیصد زیادہ ہوتی (مثلا ً باقی کونسٹنٹس کو تبدیل کیے بغیر، کپلنگ کونسٹنٹ کو 2 فیصد بڑھا دیا جائے) تو ڈائی پروٹون متوازن ہوجائیں گے۔ ہائڈروجن، ہیلیم اور ڈیوٹریم میں بدلنے کی بجائے، ڈائی-پروٹون میں بدل جائے گی۔ جس کے نتیجے میں ستاروں کی طبیعات مکمل طور پر بدل جائے گی اور ممکنہ طور پر زندگی کے لیے تمام ضروری حالات ختم ہوجائیں گے۔ البتہ ڈائی-پروٹون آرگیومنٹ بہت سے طبیعات دانوں کے نزدیک متنازعہ اور کمزور ہے۔ انکے مطابق جب تک (پیرامیٹرز میں) یہ تبدیلی یا بڑھوتری 50 فیصد سے نیچے رہتی ہے تب تک متوازن ڈائی-پروٹونز کی موجودگی میں بھی سٹیلر فیوژن جاری رہتی ہے۔
پیرامیٹرز ہمیشہ “وضاحتی” ہوتے ہیں یعنی کائنات کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ پیرامیٹر سائنس دان اپنی سہولت کیلیے بناتے ہیں مگر کائنات کا ان پیرامیٹرز کے عین مطابق ہونا شرط لازم نہیں کیونکہ یہ پیرامیٹر کائنات نے ہم کو حکم نہیں کیے بلکہ ہم نے خود اخذ کیے ہیں۔ مشاہداتی معلومات کی تصدیق کیلیے ان پیرامیٹرز کو مخلتف موڈلز میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر پچھلے موڈل سے بہتر کوئی موڈل تیار کر لیا جائے تو پرانا موڈل ختم ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے پیرا میٹرز بھی۔
دوسری طرف سٹینڈرڈ موڈل ابھی تشریحی اعتبار سے نامکمل ہے (اس میں گریویٹی کی وضاحت موجود نہیں، نہ ہی ڈارک میٹر کے تمام پیرامیٹرز موجود ہیں، نہ ہی نیوٹرینو اوسیلیشنز کی تشریح ہوپاتی ہے)، لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسکو مکمل کرنے کے لیے مزید نئے پیرامیٹرز کی ضرورت ہے یا ممکنہ طور پر ایک نئے موڈل کی ضرورت ہے جو سٹینڈرڈ موڈل سے بھی زیادہ مکمل اور متواتر پیرامیٹرز رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر میکس ویل نے اپنے برقی مقناطیسی نظریہ کو مزید متواتر کرنے کیلیے مستعمل دو پیرامیٹرز (فری سپیس کی جاذبیت اور روشنی کی رفتار) کو گھٹا کر ایک پیرامیٹر کر دیا۔
فائن ٹیوننگ مفروضہ کے رد میں سب سے مشہور دلیل ملٹی ورس کائنات کی ہے جس میں ایسے پیرامیٹرز کی گنجائش موجود ہوسکتی ہے جو زندگی کو کسی اور نہج پر متمکن کریں ۔ فائن ٹیوننگ کا مفروضہ دو بڑے مغالطوں کا ارتکاب کرتا ہے جن میں سے ایک کمزور بشری اصول (جسے ویک انتھروپک پرنسپل کہتے ہیں) ہے اور دوسرا مغالطہ سیلیکشن بائیس ہے ۔ دونوں مغالطےایک سکے کے ہی دو پہلو ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کو کسی خدا نے منظم کیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انسان کا وجود ہے یعنی انسان کا موجود ہونا ہی کائنات کے کسی خدا کے ہاتھوں تخلیق کیے جانے کی دلیل ہے۔ یہ فلسیانہ دلیل بہرحال پسندیدہ فکریت ہے، اسکا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فائن ٹیوننگ دلیل / Fine-tuning argument، کائنات کا مقصد اور انسان:
فائن ٹیوننگ دلیل:
کائنات میں صرف زمین پر زندگی کے ظہور پزیر ہونے کو معجزہ سے کم نہیں مانا جاتا جس کی تعبیر خود کوسمولاجسٹ / فزسسٹس فائن ٹیوننگ کی دلیل سے کرتے ہیں۔ ان کوسمولاجسٹس میں جان ڈی بیرو اور فرینک ٹپلر کے نام سر فہرست ہیں۔ فائن ٹیوننگ یا جسے اینتھروپک پرنسپل / Anthropic principle سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، اس دلیل پہ کام کرتا ہے کہ کائنات میں یونیورسل کانسٹنٹس یا فزیکل کانسٹنٹس universal / physical constants جیسے کہ روشنی کی رفتار، الیکٹریکل چارجز وغیرہ کا یکساں ہونا کوئی اتفاق نہیں بلکہ یہ کسی باشعور ہستی کے مرتب کرنے کی نشانی ہے۔ مزید یہ کہ باقی سیاروں کے برعکس زمین کا سورج سےصرف اتنے ہی فاصلے پہ ہونا جہاں زندگی پیدا ہو اور پنپ سکے یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ صرف زمین پر ہی زندگی خاص کر انسانی نوع کا ظہور پزیر ہونا کسی مافوق الفطرت ہستی کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہی ہوسکتی ہے۔ یہ سائنس کی ایسی دلیل ہے جس کو مذہبی لوگ اپنے حق میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔
گوکہ فائن ٹیوننگ دلیل یا اینتھروپک پرنسپل بظاہر بڑا دلچسپ اور انسان کی نفسیاتی و جذباتی تسکین کرتا ہے مگر یہ کئی مشکلات کا شکار بھی ہے اور بڑے کوسمولاجسٹس کی تنقید کا شکار بھی۔ اس کے خلاف وزندار تنقیدی دلائل درج ذیل ہیں:
1. فائن ٹیوننگ دلیل / اینتھروپک پرنسپل کو ماننے والے صرف چند کوسمولاجسٹس ہیں جبکہ وہ نامور کوسمولاجسٹس اکثریت میں ہیں جو اس کو غیر سائنسی تشریح سے تعبیر کرتے ہیں ان کی نظر میں فائن ٹیوننگ دلیل / اینتھروپک پرنسپل سائنسی نہیں بلکہ فلسفیانہ نوعیت کا ہے جس کی سائنس میں کوئی حیثیت نہیں۔ بقول کوسمولوجسٹس، فائن ٹیوننگ دلیل یا اینتھروپک پرنسپل سائنس کے بھیس میں مذہب / Creationism ہے جس کی فلسفے میں تو گنجائش ہوسکتی ہے مگر سائنس میں نہیں۔
2. اوائل میں زمین سورج کے قریب تھی اور انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے زندگی کے لئے موزوں نہیں تھی۔ اس کے علاؤہ دن رات کے اوقات میں بہت فرق تھا یعنی آج کی طرح چوبیس گھنٹے کا دورانیہ نہیں تھا۔ کروڑوں سالوں کےارتقائی منازل طے کرکے زمین نے آج وہ مقام حاصل کیا ہے جہاں اس پر دن رات چوبیس گھنٹے کے ہیں، چار موسم ہیں، بایوسفیئر وغیرہ ہے جن کی وجہ سے زندگی کے لئے حالات سازگار ہوئے۔ اس کے علاؤہ کوسمولاجسٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ زندگی صرف ممکنات / اتفاق کا نتیجہ ہے کیونکہ بالفرض اگر کائناتی فلم کو واپس پیچھے کی طرف چلایا جائے یا روائنڈ کرکے پھر شروع سے چلایا جائے تو یہ ممکن ہے کہ کوئی اور طرح کی کائنات وجود میں آئے یعنی یہ ضروری نہیں کہ جو کائنات وجود میں آئے گی اس میں زمین جیسی چیز بھی ہو یا پھر اس میں زندگی کی کوئی شکل یا پھر انسان بھی پیدا ہو۔
3. کائنات کی عُمر تقریباً 13.8 ارب سال ہے، ہمارے سورج کی عمر 4.6 ارب سال ہے، زمین کی عمر 4.54 ارب سال ہے، زمین پر زندگی کی شروعات 3.5 ارب سال پہلے ہوئی اور اوائلی انسان تقریباً 20 لاکھ سال پہلے نمودار ہوا. اگر کائنات کا مقصد و منتہیٰ انسان ہی تھا تو انسان کی زندگی کی ابتدا اربوں سال کے بعد ہی کیوں ہوئی؟ زندگی کو انسان کی شکل و صورت میں ڈھلنے کے لئے اتنے کَٹھن اور جان لیوا مراحل سے ہی کیوں گُذرنا پڑا کہ بقائے حیات کی جدوجہد میں تقریباً %98 اَنواع اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا صفحہِ ہَستی سے مِٹ گئیں؟ باقی انواع کو چھوڑیں اگر صرف ہم جنہیں Homo sapiens sapiens کہا جاتا ہے، سے پہلے والے انسان جو Homo کی کیٹیگری میں آتے ہیں جیسے Homo habilus, Homo erectus, Homo neanderthal وغیرہ کی نظر سے اگر کائنات کو دیکھیں تو کیا وہ بھی ہماری طرح یہی سوچتے ہونگے کہ یہ کائنات اُن کے لئے بَنائی گئی تھی؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کائنات خود میں کوئی مَقصد نہیں رَکھتی بلکہ انسان ہی اُس میں مقصد ڈھونڈھتا ہے یا یوں کہیں کہ انسان ہی کائنات کو مَقصد دیتا ہے. اور اگر جواب نہیں میں ہے تب بھی اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کائنات اُن Homos یا ہم سے پہلے والے انسانوں کے لئے بَنائی گئی ہوتی تو زمین پر حالات زندگی کے لئے سازگار ہوتے اور یوں اپنی بَقا کی جَنگ لَڑتے لَڑتے وہ اَنواع صَفحہِ ہَستی سے نیست و نابود نہ ہوجاتیں. سَچ تو یہ ہے کہ کائنات یا زمین کے پیدا کرنے کا مقصد انسان کے وجود کو لانا نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو شروع میں ہی زمین پر زندگی کے لئے حالات سازگار رکھے جاتے مگر زندگی خاص کر انسان نے تو لڑکر حالات اور ماحول سے مطابقت رکھتے ہوئے خود کو بقا دی ہے کائنات یا زمین نے انسان پر احسان نہیں کیا۔
4. اگر کائنات کا مقصود و منتہی زمین پر انسانی نوع کا وجود تھا تو اتنی بڑی کائنات پیدا کرنے کی کیا وجہ تھی جو اربوں سالوں تک ارتقا کرکے آج یہاں تک پہنچی ہے؟ اگر زمین پر ہی انسان نے نمودار ہونا تھا تو پھر کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے پیدا کرنے کا کیا مقصد تھا؟ زندگی بشمول انسان کے پیدا کرنے کے لئے صرف زمین ہی پر کیوں نہ اکتفا کیا گیا؟ جبکہ باقی کائنات تو جیسے فضول ہی بنائی گئی ہو اور اسی وجہ سے کائنات کے بنانے والے کو کچھ کوسمولاجسٹس نے superfluous god یعنی غیر ضروری یا فضول چیزوں کو بنانے والی ہستی کہا ہے۔
5. اگر کائنات کا مقصد زندگی بشمول انسان ہی تھا تو پھر کائنات میں جبر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا کائنات کو انسان کی زندگی یا موت سے کوئی سروکار ہے؟ کیا کائنات انسان کی خوشی میں خوش اور دکھ میں غمگین ہوتی ہے؟ کیا کسی انسان چاہے وہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، اس کے مرنے پر رنجیدہ ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر کائنات انسان کے لئے بنی ہی نہیں ہے۔ کائنات تو انسان سے بے خبر اور اس کی خواہشات سے بے نیاز ہے۔ انسان بلکہ زندگی تو محض ممکنات / اتفاق کا نتیجہ ہے۔ کائنات کو انسان کے وجود خبر تو چھوڑیے وہ تو خود کے وجود سے لاعلم ہے۔

کینسر کی دریافت“تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے جب سے ہم کینسر کو میڈیکل پیشے میں جانتے ہیں۔ تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے ج...
03/11/2021

کینسر کی دریافت

“تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے جب سے ہم کینسر کو میڈیکل پیشے میں جانتے ہیں۔ تین ہزار سال سے زیادہ ہو چکے جب سے انسانیت میڈیکل کے پیشے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ اس کا علاج مل سکے”
فارچون ۔ مارچ 1937
ہم کینسر کو جدید بیماری کے طور پر تصور کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ استعارات ہیں جن سے اس بیماری کو سمجھا جاتا ہے۔ جدید بائیولوجی ہماری بتاتی ہے کہ خلیہ ایک مالیکیولر مشین ہے۔ کینسر وہ مشین ہے جو اپنے احکامات کو نظرانداز کر کے ایک نہ تباہ کئے جا سکنے والے خودکار آٹومیٹون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سوزن سونٹاگ نے کینسر کا موازنہ تپدق سے کیا تھا، “دونوں کا مطلب طویل اور مشکل تکلیف ہے جس کے آخری کنارے پر موت کھڑی ہے”۔
لیکن تپدق کسی اور صدی کی بیماری ہے۔ آج کا موذی کینسر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجن شرون نولینڈ اس کے بارے میں لکھتے ہیں،“کینسر کا خلیہ آج کے معاشرے کے فرد کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ انفرادیت پسند ہے اور باغی ہے۔ یہ نان کنفورمسٹ ہے”۔ میٹاسٹیسس (کینسر کا جسم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانا) کا مطلب سکون سے ماورا ہے۔
اور جدید معاشرے سے اس کی ایک اور مماثلت بھی ہے۔ تپدق پھیپھڑے کو کھوکھلا کر دیتا ہے جبکہ کینسر فراوانی کی بیماری ہے۔ یہ پھیپھڑے میں بہت سے خلیے بنا کر دم گھونٹ دیتا ہے۔ یہ توسیع پسند مرض ہے، جو ٹشوز پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اپنی کالونیاں بناتا ہے۔ کسی ایک عضو میں اپنے لئے محفوظ جگہ بنا لیتا ہے اور پھر کہیں اور ہجرت کر جاتا ہے۔ اپنی نشوونما کے لئے جدتیں ڈھونڈتا ہے، کبھی دفاعی انداز سے، کبھی نڈر ہو کر، کبھی شدت سے، کبھی ہوشیاری سے بڑھتا ہے۔ جیسے ہمیں سکھا رہا ہو کہ زندہ کیسے رہا جاتا ہے۔ اس کا سامنا کرنا ویسا ہے جیسے کسی الگ ہی نوع کا کیا جا رہا ہو جو زندہ رہنے میں ہم سے زیادہ مہارت رکھتی ہو۔
کینسر کا خلیہ عام خلیے کی بڑی حیران کن طور پر تبدیل شدہ شکل ہے۔ یہ انتہائی کامیاب حملہ آور ہے۔ اور یہ خوفناک اس لئے ہے کہ انہی خاصیتوں سے کامیابی حاصل کرتا ہے جنہوں نے ہمیں کامیاب نوع بنایا ہے۔
کسی عام خلیے کی طرح، کینسر کے خلیے کا انحصار بڑھنے پر ہے۔ خلیے کی ایک سے دو میں تقسیم پر۔ نارمل ٹشو میں یہ عمل بڑے نفیس طریقے سے ریگولیٹ ہوتا ہے۔ بڑھنے کے لئے اپنے خاص سگنل ہیں، رکنے کے اپنے خاص۔ کینسر میں بے قابو بڑھنا خلیوں کی نسلوں کی نسلیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ بائیولوجسٹ ایسے خلیوں کے لئے کلون کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کا مشترک جد ہو۔ کینسر کلون کی بیماری ہے۔ تقریباً تمام معلوم کینسر کا آغاز ایک مشترک جد سے ہوتا ہے جو بے حد تقسیم اور بقا کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس سے نکلنے والی ان گنت نسلیں کینسر ہے۔
لیکن کینسر صرف کلون کی بیماری نہیں۔ یہ ارتقا کی بیماری بھی ہے۔ اگر بڑھوتری ہو لیکن ارتقا نہیں تو کینسر کے خلیے حملہ آور ہونے، زندہ رہنے اور پھیلنے کی صلاحیت کبھی حاصل نہ کر سکتے۔ ہر نئی نسل میں چھوٹی سی تعداد جینیاتی طور پر اپنے والدین سے کچھ فرق ہوتی ہے۔ جب کیمیوتھراپی کی ڈرگ دی جائے یا ہمارا امیون سسٹم اس کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنے لگے تو یہ میوٹنٹ کلون بچ جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ فٹ کی بقا کی وجہ سے بڑی تعداد میں خلیوں کے مر جانے کے بعد بھی کینسر زندہ رہتا ہے۔ میوٹیشن، چناوٗ اور بڑھنے کا یہ تیز سائیکل بقا اور بڑھنے کے لئے مزید سے مزید فٹ ہوتا جاتا ہے۔ کئی بار میوٹیشن مزید میوٹیشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ یہ جینیاتی عدم استحکام مزید نئی جدتیں پیدا کرتا ہے۔ کینسر ارتقا کی بنیادی منطق سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی اور بیماری ایسا نہیں کرتی۔ اگر اس زمین پر ہماری اپنی بے مثال (اور کچھ کے خیال میں بے قابو) کامیابی ڈارونین چناوٗ کا شاخسانہ ہے، تو پھر ہمارے اندر گھات لگائے اس بیماری کا بھی۔ اور اس وجہ سے یہ بیماری موذیوں کی شہنشاہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار استعارے بات کو کہیں اور لے جاتے ہیں، لیکن ان سے بچا نہیں جا سکتا۔ کینسر کی تاریخ کے بارے میں کتاب لکھتے ہوئے میں مجھے بار بار ایسا لگا جیسے میں اپنے ہی جیسے کسی شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ آخر میں، یہ آئینے میں اپنا ہی بگڑا ہوا اور پرسرار عکس ہے۔
(جاری ہے)
یہ سیریز اس کتاب سے ہے
Emperor of all Maladies: A Biography of Cancer by Siddharta Mukherjee

کینسر کی دریافت
ورچو جب میڈیسن کے شعبے میں داخل ہوئے تھے، اس وقت ہر بیماری کا ذمہ دار کسی نہ نظر آنے والی فورس کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ میاسما، نیوروسس، فاسد مادے، ہسٹیریا۔ ورچو نہ نظر آنے والی وضاحتوں سے مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی توجہ ان چیزوں کی طرف کر لی جنہیں وہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ خوردبین سے نظر آنے والے خلیے تھے۔
جرمنی میں شوان اور شلائیڈن نے 1838 میں دعویٰ کیا تھا کہ تمام جاندار فنڈامنٹل بلڈنگ بلاک سے بنے ہیں جنہیں خلیے کہا جاتا ہے۔ ورچو انسانی بائیولوجی کی خلیاتی تھیوری تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ یہ دو اصولوں کی بنیاد پر تھی۔ پہلا یہ کہ انسانی جسم (اور باقی جانوروں اور پودوں کے جسم بھی) خلیوں سے بنے ہیں۔ دوسرا یہ کہ خلیہ صرف خلیے سے ہی بن سکتا ہے۔
یہ دو سادہ اصول لگتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ورچو کو وہ ہائپوتھیسس دینے کا موقع دیا جو کہ انسانی بائیولوجیکل بڑھوتری کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر خلیے صرف خلیوں سے بن سکتے ہیں تو صرف دو ہی طریقے سے بڑھا جا سکتا ہے۔ یا تو خلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ یا پھر خلیوں کے سائز میں۔ ورچو نے ان کو ہائپرپلاسیا اور ہائپرٹروفی کہا۔ ہاپئرٹروفی میں خلیات کی تعداد تبدیل نہیں ہوتی۔ ہر خلیہ سائز بڑھاتا ہے جیسے غبارہ پھول رہا ہو۔ ہائپرپلاسیا میں تعداد بڑھتی ہے، سائز نہیں۔
ہر بڑھتے انسانی ٹشو میں فیٹ یا پٹھے ہائپرٹروفی کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔ جبکہ جگر، خون، آنت، جلد ہاپئرپلاسیا کی وجہ سے۔ خلیے سے مزید خلیے بن جانے کی وجہ سے۔
اس وضاحت سے نہ صرف نارمل بڑھوتری دیکھی جا سکتی تھی بلکہ ایبنارمل بھی۔ جب دل کے مسل کو شریان میں رکاوٹ ہوتی ہے تو یہ اکثر پٹھے کے خلیے کو بڑا کر کے ایڈاپٹ کرتا ہے تاکہ زیادہ قوت لگا سکے۔ دل اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ نارمل کام نہیں کر پاتا۔ یہ ہائپرٹروفی کی بیماری ہے۔
اور اسی کی برعکس ورچو جلد ہی دوسری قسم کی بیماری تک پہنچ گئے جو ہائپرپلاسیا کی بیماری ہے۔ یہ کینسر ہے۔
کینسر کے خلیوں کا مائیکروسکوپ کے نیچے بڑھنا دیکھ کر ورچو نے ہائپرپلاسیا کو اپنی انتہا کی شکل میں دیکھ لیا۔ ورچو کینسر کے آرکیٹکچر کا تجزیہ کرنے لگے۔ یہ ایک ایسی بڑھوتری ہے جو اپنی ہی زندگی لے لیتی ہے۔ جیسے خلیوں نے بڑھنے کی نئی اور پرسرار خواہش حاصل کر لی ہو۔ یہ عام بڑھوتری نہیں۔ ایک نئی شکل میں ہے۔ ورچو نے اس کا نام نیوپلاسیا رکھا۔
جب تک ورچو کا 1902 میں انتقال ہوا، کینسر کی نئی تھیوری رفتہ رفتہ تشکیل پا چکی تھی۔ کینسر ہائپرپلاسیا کی بیماری تھی جس میں خلیات خود سے تقسیم ہونے لگتے تھے۔ قابو سے باہر ہو جانے والی خلیاتی تقسیم سے ٹشو کا بڑھنا ٹیومر تھا۔ یہ اعضاء پر قبضہ جما لیتا تھا اور نارمل ٹشو تباہ کر دیتا تھا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ اس کو میٹاسٹیسس کہتے ہیں۔ دور دراز کی جگہوں پر پہنچ جاتا تھا۔ ہڈیوں، دماغ یا پھیپھڑوں تک۔ کینسر بہت سی اقسام میں تھا۔ چھاتی، معدہ، جلد، سرویکل کینسر، لیوکیمیا، لمفووما۔ لیکن یہ تمام الگ لگنے والی بیماریوں کا گہرا تعلق خلیاتی سطح پر تھا۔ ہر ایک میں خلیات ویسے ہی خاصیتیں اپنا لیتے تھے۔ جو بے قابو خلیاتی تقسیم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار جب اس کو سمجھ لیا گیا تو پھر لیوکیمیا پر واپس آیا گیا۔ یہ خون کا نیوپلاسیا تھا۔ اس سے پہلے اس شعبے کے متعلق سائنسدان نت نئے خیالات پر تحقیق کی پٹاری کھول چکے تھے۔ طفیلیے اور بیکٹیریا ڈھونڈے جا رہے تھے۔ (اور مل بھی رہے تھے)۔ ایک مرتبہ یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ انفیکشن نہیں اور اس کو دیکھنے کا عدسہ تبدیل کیا گیا تو اس بیماری کی مماثلت دوسرے کینسر سے نظر آنے لگی۔ لیوکیمیا کے خلیے اور دوسرے کینسر کے خلیات کے درمیان واضح مماثلت تھی۔ یہ خون کے سفید خلیوں کا عارضہ تھا۔ یہ مائع شکل میں کینسر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہم دریافت کے ہو جانے کے بعد اس کی تحقیق میں درست سمت میں پیشرفت ہو سکی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ بیماری خود کئی شکلوں میں ہے۔ یہ سست رفتار ہو سکتی ہے اور آہستہ آہستہ ہڈیوں کے گودے اور تلی کو خراب کرتی ہے (کرونک لیوکیمیا) یا یہ انتہائی تیزرفتار ہو سکتی ہے۔ تیز بخار، دورے، خون بہنا اور تیزی سے ٹیومر بننا (اکیوٹ لیوکیمیا)۔
اکیوٹ لیوکیمیا کی آگے دو مزید بڑی قسمیں ہیں۔ خون کے سفید خلیوں کی مزید دو اقسام ہیں۔ مائیلوائیڈ خلیے اور لمفوائیڈ خلیے۔ کونسی قسم کے خلیے بے قابو تقسیم ہو رہے ہیں؟ ان کی بنیاد پر اکیوٹ مائیلوائیڈ لیوکیمیا اور اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا ہوتے ہیں۔ (ایک اور قسم لمفوما ہے)۔
بچوں میں تقریباً ہمیشہ اکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا ہوتا ہے اور یہ بہت جلد مار دیتا ہے۔ اس کا پہلی بار دریافت ورچو کے سٹوڈنٹ مائیکل بیرمر نے کی تھی۔ یہ ایک بڑھئی کی پانچ سالہ بیٹی ماریہ تھی۔ توانائی سے بھرپور شرارتی بچی کی پہلی علامت سے موت تک کا سفر تین روز میں ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سڈنی فاربر نیویارک میں 1903 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولینڈ سے آنے والے تارکِ وطن تھے۔ اپنی میڈیکل کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد انہوں نے بوسٹن میں بچوں کے ہسپتال میں کام شروع کیا۔ ان کی لکھی ہوئی “پوسٹ مارٹم کا تجزیہ” اس شعبے کی کلاسک کتاب سمجھی جاتی ہے۔
ان کو 1947 کی گرمیوں میں ایک خیال نے آن لیا۔ وہ بچوں کے لیوکیمیا کے علاج کے لئے قسمت آزمائی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس والے کینسر میں ایک فیچر ہے، وہ یہ کہ اس کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس گنتی سے شروع ہوتی ہے۔ کسی فینامینا کو بیان کرنے کے لئے سائنسدان کو اس کی وضاحت کرنا پڑتی ہے۔ معروضی طور پر اس کی وضاحت کرنے کے لئے پیمائش ضروری ہے۔ اگر کینسر میڈیسن کو سائنسی انداز سے دیکھنا ہے تو پھر کسی طریقے سے گنتی کی ضرورت ہے۔ ایسی گنتی جو قابلِ اعتبار ہو اور اس پر اتفاق کیا جا سکے۔
اور اس حوالے سے لیوکیمیا باقی کسی بھی کینسر سے مختلف ہے۔ جدید سکین والی مشینری سے پہلے یہ بتانا کہ پھیپھڑے یا چھاتی میں ٹیومر کا سائز کتنا ہے؟ سرجری کے بغیر ناممکن تھا۔ لیکن لیوکیمیا میں خون کے خلیوں یا ہڈی کے گودے سے خوردبین کے نیچے گنتی کی جا سکتی تھی۔
فاربر نے کہا کہ اگر لیوکیمیا کو گنا جا سکتا ہے تو پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی بھی علاج کا اثر ٹھیک طریقے سے معلوم کیا جا سکے گا۔ وہ خلیوں کو بڑھتے یا مرتے دیکھ سکتے تھے اور اس کی مدد سے ڈرگ کی کامیابی یا ناکامی دیکھی جا سکتی تھی۔ کینسر پر “تجربہ” کیا جا سکتا تھا۔
اس خیال نے فاربر کو جکڑ لیا۔ اس پیچیدہ بیماری کا سادہ ماڈل بنایا جا سکتا تھا۔ پیچیدگی نچلی سطح سے ابھرتی ہے۔ بیکٹیریا کے کام کرنے کا طریقہ کثیر خلوی زندگی کے راز بھی بتا سکتا ہے۔ ژاک منود نے بتایا کہ جو ای کولائی بیکٹیریا کے لئے ٹھیک ہے، وہ انسان یا ہاتھی کے لئے بھی۔ اور یہ فاربر کے لئے لیوکیمیا کے انتخاب کی کشش تھی۔ اور انہوں نے بڑا قدم لے لیا۔
نیویار سے آنے والا پیکج دسمبر کی صبح ان کے پاس پہنچا تھا۔ انہوں نے اس کو کھول کر اس میں سے شیشے کی ٹیوب نکالیں۔ انہیں ابھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کینسر کے بارے میں سوچنے کے لئے نئی راہیں کھول رہے ہیں۔

22/10/2021

Tomatoes were originally grown in South America and the Spaniards first introduced the plant to Europe in the early 16th century. But Europeans were doubtful to eat the fruit as Italian doctor and naturalist Pietro Andrea Mattioli believed that it was poisonous and a source of temptation. He identified tomato as nightshade, a poisonous family of Solanaceae plants. He also classified it as a mandrake, which was referenced in the Old Testament as the Hebrew word “dudaim,” which meant “love apple.”

The fear of eating tomato was heightened in England after John Gerard, a barber-surgeon, published “Herbal” in 1597. Gerard regarded the whole plant to be “of ranke and stinking savour.” He also believed that it was poisonous. Though many were influenced by his claims, one expert noted that Gerard’s work was poorly researched and largely plagiarized.

By the 18th century, the tomato was branded as “poison apple” after several members of upper social classes died from consuming it. The wealthy were unaware that they served the high acidic fruit in pewter plates which was abundant in lead content, resulting to lead poisoning.

Due to the invention of pizza in Naples, Italy in 1880, the fear of tomatoes was eased. Better agricultural technology also allowed farmers to research more about the plant.

26/08/2021
25/08/2021

Interstellar
انٹر سٹیلر کی کہانی Interstellar
21 سویں صدی کے مستقبل کا ایک زمانہ ہے۔ خاص ماحول اور بیماری کیوجہ سے زمین پر کاشت کاری اور نباتیاتی حیات کا وجود ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ خوراک کے ناپید ہونے کیوجہ سے نسل انسانی کا وجود خطرے میں ہے۔ جوزف کوپر Joseph Cooper ناسا NASA کا ایک ریٹائرڈ پائلٹ ہے جو ایک فارم ہاؤس پر اپنے سسر، بیٹے اور بیٹی مرفی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ اسکی بیٹی مرفی کو شک ہے کہ اس کے کمرے میں کوئی روح ghost رہتی ہے۔ ایک دن کافی تیز آندھی آتی ہے اور مرفی کے کمرے میں مٹی و گرد سے مخصوص لائینوں کا ایک پیٹرن pattern بنتا ہے۔
مرفی کا باپ کوپر اس پیٹرن کو دیکھتا ہے تو وہ یہ اندازہ لگاتا ہے کہ اسکی وجہ کوئی گھوسٹ نہیں ہے بلکہ کشش ثقل gravity ہے۔ وہ اس ڈسٹ پیٹرن سے بائینری کوڈ interpret کر کے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ ایک مخصوص زمینی طول و عرض بلد geographic coordinates کا پتہ دیتے ہیں۔ کوپر اور مرفی ناسا کی ایک خفیہ سائٹ پر جاتے ہیں اور کچھ واقعات سے گزرنے کے بعد انکی ملاقات کوپر کے سابقہ استاد ڈاکٹر برینڈ سے ہوتی ہے۔
ڈاکٹر برینڈ ان کو بتاتا ہے کہ سیارہ زحل Saturn کے قریب کوئی پچاس سال قبل ایک ورم ہول Wormhole ظاہر ہوا ہے۔
ورم ہول ایک دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم دور کہکشاؤں میں زمین کیطرح کے دوسرے سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر برینڈ کوپر کو بتاتے ہیں کہ 12 لوگوں کوپہلے ہی اس ورم ہول سے گزارا جا چکاہے جو کہ دوسری گلیکسیز میں موجود مختلف سیاروں کے ماحول کی suitability چیک کرنے کے لیۓ گئے تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر ملر، ڈاکٹر ایڈمنڈ اور ڈاکٹر مین Doc. Mann بھی تھے۔ ڈاکٹر مین اس وقت ایک بلیک ہول جسکا نام Gargantua ہے اس کے قریب کے سیاروں پر ڈیٹا کولیکشن کے سلسلے پر موجود ہیں اور ابھی تک ڈیٹا ٹرانسمٹ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر برینڈ، کوپر کو قائل کرتے ہیں کہ وہ مزید تحقیقات اور ڈیٹا کی خاطر ایک مشن لے کر جائیں۔ مرفی اپنے باپ کو جانے سے روکتی ہے مگر کوپر جانا ضروری سمجھتا ہے اور سپیس شپ Endurance لے کر روانہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر برینڈ کا پلان A یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی گریویٹیشنل تھیوری کو قابل عمل بنائے جس کے ذریعے زمین سے ایک propulsion کے ذریعے سب انسانوں کو لے جایا جا سکے جبکہ پلان B یہ ہوتا ہے کہ کوپر کو 5000 انسانی فروزن ایمبریوز بھی دیئے جاتے ہیں جنکا مسکن دوسرے زمین جیسے سیاروں پر بنانا ہوتا ہے تا کہ نسل انسانی کو یقینی بقاء حاصل رہے۔
کوپر کی ٹیم میں تین اور لوگ شامل ہوتے ہیں ڈوئل Doyle، رومیلے Romilly اور ڈاکٹر برینڈ کی بیٹی ایمیلئیا Amelia۔ اس کے علاوہ دو روبوٹس TARS اور CASE بھی ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ ورم ہول سے گزرنے کے بعد کوپر سب سے پہلے ڈاکٹر ملر کے دریافت کردہ سیارے پر جاتا ہے۔ یہ سیارہ ایک بہت بڑے اور وسیع سمندر پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلیک ہول Gargantua کے قریب ہونے کیوجہ سے اس سیارہ پر بہت زیادہ Time Dilation ہوتی ہے۔ یعنی اس سیارے کا ایک گھنٹہ زمین کے کئی سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ وہاں پہ کوپر کو ڈاکٹر ملر کے سپیس شپ کا ملبہ ملتا ہے۔ ڈوئل اورایمیلئیا ڈاکٹر ملر کا ڈیٹا اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طویل القامت سمندری موج tidal wave ان سے ٹکراتی ہے۔ اس حادثے میں روبوٹ CASE ایمیلئیا کو بچا لیتا ہے مگر ڈوئل مارا جاتا ہے۔ خیر کوپر اورایمیلئیا وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ واپس اپنے سپیس شپ endurance پر پہنچتے ہیں تو انکو معلوم پڑتا ہے وہ اس کچھ گھنٹوں کی مہم کے دوران زمینی حساب سے 23 سال گزارچکے ہیں اور انکا ساتھی رومیلے جو کہ سپیس شپ پر ہی انکا انتظار کررہا ہوتا ہے، بوڑھا ہو چکا ہوتاہے۔
دوسری طرف ان 23 سالوں میں مرفی اب بڑی ہو چکی ہوتی ہے اور ڈاکٹر برینڈ کی ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہی ہوتی ہے۔ وہ ایک ویڈیو میسیج بھیجتی ہے جس میں بتاتی ہے کہ ڈاکٹر برینڈ مر چکے ہیں اور انکا پلان A کام کرنے کے قابل نہیں ہے لہذا بقول ڈاکٹر برینڈ پلان B ہی آخری حل ہے۔ مرفی بتاتی ہے کہ وہ پلان A کو ابھی بھی قابل عمل سمجھتی ہے لیکن اسکو کچھ equations کے حل کے لیئے Gravitational Singularity سے متعلق مزید ڈیٹا درکار ہے۔
محدود ایندھن کیوجہ سے کوپر اگلا سیارہ وہ چنتا ہے جہاں ڈاکٹرمین موجود ہوتے ہیں کیونکہ وہاں سے ابھی تک ڈیٹا ٹرانسمٹ ہو رہاہوتا ہے۔ سیارے پر پہنچ کر انکی ملاقات ڈاکٹر مین سے ہوتی ہے۔ یہ ایک برفانی سیارہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مین انکو بتاتا ہے کہ یہ سیارہ قابل رہائش habitable ہے مگر اسکے کرہ ہوائی میں امونیا کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ سیارے پر سروے کے لیئے چہل قدمی کرتے ہوئے ڈاکٹر مین، کوپر پر حملہ آور ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر غلط ڈیٹا صحیح بتا کر ٹرانسمٹ کیا تاکہ کوئی تو یہاں آ کے اسکو ریسکیو کرے اس کو اس
کو ریسکیو کرے اس کو اس سیارے سے باہر نکالے۔ حملے کیوجہ سے کوپر کا سپیس ہیلمٹ کریک ہو جاتا ہے، اسی دوران ڈوئل ڈاکٹر مین کے روبوٹ سے ڈیٹا لینے کی کوشش کے دوران ایک دھماکے سے مر جاتا ہے جو کہ ڈاکٹر مین نے ہی پروگرام کیا ہوتا ہے۔ ایمیلئیا، کوپر کو ریسکئیو کرتی ہے۔ سپیس شپ endurance سے جڑنے کے دوران docking operation میں ڈاکٹر مین مس ہینڈلنگ کرتا ہے جسکی وجہ ایک دھماکہ ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر مین تو مارا جاتا ہے مگر دھماکے کیوجہ سے سپیس شپ کا spin کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے جسکی کوپر اپنی مہارت اور تکنیک کیوجہ سے stabilize کرتا ہے۔
روبوٹ CASE کوپر کو خبردار کرتا ہے کہ سپیس شپ بلیک ہول Gargantua کی جانب سلپ ہو رہا ہے۔ کوپر،ایروسپیس انجیئنرئینگ کی تکنیک gravitational slingshot استعمال کرتے ہوئے تیسرے سیارے جہاں پرڈاکٹر ایڈمنڈ گئے ہوتے ہیں وہاں سپیس شپ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ سپیس شپ کا وزن کنٹرول کرنے کے لیے کوپر اپنے آپ کو اور روبوٹ TARS کو سپیس شپ سے علیحدہ کر لیتا ہے اور دونوں کو بلیک ہول اپی جانب کھینچ لیتا ہے۔ ایمیلئیا اور CASE اکیلے رہ جاتے ہیں اور ڈاکٹر ایڈمنڈ کے سیارے کیطرف اپنا سفرجاری رکھتے ہیں۔
کوپر اور TARS بلیک ہول کے Event Horizon سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک Tesseract کے اندر پاتے ہیں۔ یہ tesseract یا four dimensional فزیکل سٹرنگز ایک کتابوں کی الماری کی شکل میں ہوتی ہے جہاں سے کوپر کو اپنی بیٹی مرفی کے کمرے کا عکس مختلف ادوارdifferent periods in her life میں نظر آتا ہے۔ کوپرسمجھتا ہے کہ اصل میں کہانی کے شروع میں مرفی جس چیز کو گھوسٹ سمجھ رہی ہوتی ہے وہ دراصل میں خود ہی ہوں۔ کوپر مرفی سے رابطہ کرنے کے لیئے ایک پرانی گھڑی جو اس نے اپنی بیٹی کو گفٹ کی ہوتی ہے اس کی سوئیوں کی حرکت کے کوڈ کی مدد سے مرفی کو وہ کوانٹم ڈیٹا ٹرانسمٹ کرتا ہے جو پلان A کے لیئے درکار ہوتا ہے۔
پھر ایک نامعلوم سی ایجکشن ہوتی ہے اور کوپر کی آنکھ ایک ایسے خلائی مسکن میں کھلتی ہے جو کہ سیارہ یورنیس کے پاس ہوتا ہے۔ وہاں اسکی بیٹی مرفی بوڑھی بستر مرگ پر لیٹی ہوتی ہے۔ مرفی کے کہنے پر کوپر اور TARS دوبارہ ایک نئے مشن پرروانہ ہو جاتے ہیں یہ مشن ڈاکٹر ایڈمنڈ کے سیارے پر جانے کا ہوتا ہے جہاں ایمیلئیا اور CASE ایک نئی انسانی کالونی بسانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔

انرشیل ماس،ریسٹ ماس اور ریلیٹوسٹک ماس*ماس کی تعریف:کیمسٹری میں بتایا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ماس اس میں موجود پارٹیکلز (ای...
24/08/2021

انرشیل ماس،ریسٹ ماس اور ریلیٹوسٹک ماس
*ماس کی تعریف:
کیمسٹری میں بتایا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ماس اس میں موجود پارٹیکلز (ایٹمز/مالیکیولز)کی مقدار کو کہتے ہیں۔کسی چیز کا ماس معلوم کرنا ہو تو آپ سمپلی اسے ترازو میں رکھیں گے اور بتا دیں گے یہ جی اتنا کلو گرام ہے۔لیکن اگر کوئی چیز حرکت کر رہی ہو مثلا" اپنے مداروں میں گھومتے الیکٹرونز تو آپ ان کا ماس کیسے معلوم کریں گے؟
فزکس میں ماس کو پارٹیکلز کی بجائے انرشیا کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔کسی جسم کی اپنی ایکسلریشن کے خلاف مزاحمت کو انرشیا کہتے ہیں۔انرشیا اور ماس ایک ہی چیز کہہ سکتے ہیں۔یا پھر اس کو انرشیل ماس کہہ سکتے ہیں۔انرشیا کا یونٹ کلو گرام ہے۔یہ طریقہ دوسرے سے جنرل ہے۔
انرشیل ماس اور گریوٹیشنل ماس میں کیا فرق ہے؟یہ ایک علیحدہ ٹوپک ہے۔جس پر ایک علحدہ پوسٹ کا ذکر بنتا ہے۔فی الحال ہم ان ماسز کا ذکر کریں گے۔
*ریسٹ ماس اور ریلیٹوسٹک ماس کے بارے میں عمومی غلط فہمی:
اس بارے عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ جوں جوں ولاسٹی بڑھاتے جائیں گے اک خاص تناسب سے اس کا انرشیل ماس بڑھتا جائے گا۔حتی کہ سپیڈ آف لائٹ تک پہنچتے پہنچتے اس کا ماس انفائینائیٹ ہو جائے گا۔
جی نہیں،کوئی مادی جسم سپیڈ اوف کازیلٹی سے سفر نہیں کر سکتا۔چونکہ اس رفتار سے سفر کرنے سے کائنات میں کاز اور ایفکٹ(علت اور معلول) کے تعلق کا ستیا ناس ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* کی وضاحت m=γm₀:
سپیشل ریلٹوٹی کی بیشتر ٹیکسٹ بکس میں (m)کو ریلیٹوسٹک ماس اور(m₀) کو ریسٹ ماس کہا جاتا ہے۔
m=m₀/√(1-v^2/c^2)
m=γm₀
ماس ولاسٹی کے ساتھ نہیں بڑھتا بلکہ ریلیٹوسٹک سپیڈ والے ماس کو ریسٹ پر پڑے ماس سے جدا کرنے کے لئے علیحدہ نام دیا گیا ہے۔نیوٹونین مکینکس میں
1)ٹائم اینڈ سپیس ایبسلیوٹ مانی جاتی ہے۔
2)اور فزیکل مقداریں انفائینائیٹ ہو سکتی ہیں۔مثلا" انفائینائیٹ فورس،ولاسٹی۔۔۔۔۔
3)گریوٹیشنل فورس یا سپیڈ اوف لائٹ آن" فان"(ایک ہی لمحے) ایک جسم سے دوسرے جسم تک سفر کرتی ہیں۔
مگراکسپیریمنٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریلیٹوسٹک ولاسٹیز پر نیوٹونین مکینکس بتدریج فیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔فیل کیوں ہوتی ہے؟اس کی تین وجوہات اوپر بیان کی گئی ہیں۔اس رفتار پر انرشیل ماس کو گیما فیکٹر (ˠ)سے ملٹی پلائی کر کے کرکشن کر لی جاتی ہے۔نوٹ یہ کریں کہ ماس بذات خود نہیں بدلا بلکہ نیوٹونین مکینکس کو بدلا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلیٹوسٹک ماس کےبارے انکل آئنسٹائن کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے:
“It is not good to introduce the concept of the mass of a moving body for which no clear definition can be given. It is better to introduce no other mass concept than the ‘rest mass’. “

شیزوفرینیا_کیا_ہے؟شیزوفرینیا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں اس سے متاثر ہوتے...
23/08/2021

شیزوفرینیا_کیا_ہے؟
شیزوفرینیا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح عورتوں اور مردوں میں برابر ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو اس بیماری کے ہونے کا امکان گاؤں میں رہنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے پہلے یہ بیماری ش*ذ و نادر ہی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔اس بیماری کے شروع ہونے کا امکان سب سے زیادہ پندرہ سے پینتیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
شیزوفرینیا_کی_علامات_کس_طرح_کی_ہوتی_ہیں؟
شیزوفرینیا کی علامات دو طرح کی ہوتی ہیں، مثبت علامات اور منفی علامات۔
1:مثبت_علامات (Positive symptoms)
ان علامات کو مثبت علامات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صحت کی حالت میں نہیں تھیں اور بیماری کی حالت میں نظر آنے لگتی ہیں۔ان میں مندرجہ ذیل علامات شامل ہیں۔
(i). ہیلوسینیشنز (Hallucinations)
اگر آپ کو کسی شےیا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تواس عمل کو ہیلوسی نیشن کہتے ہیں
۔شیزوفرینیا میں سب سے زیادہ مریض کو جس ہیلوسی نیشن کا تجربہ ہوتا ہے وہ اکیلے میں آوازیں سنائی دینا ہے۔ مریض کے لیے یہ آوازیں اتنی ہی حقیقی ہوتی ہیں جتنی ہمارے لیے ایک دوسرے کی آوازیں ہوتی ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ یہ آوازیں باہر سے آ رہی ہیں اور کانوں میں سنائی دے رہی ہیں، چاہے کسی اور کو یہ آوازیں نہ سنائی دے رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ آوازیں آپ سے بات کرتی ہوں یا آپس میں باتیں کرتی ہوں۔
بعض مریضوں کو چیزیں نظر آنے، خوشبوئیں محسوس ہونے یا ایسا لگنے کہ جیسے کوئی انھیں چھو رہا ہے ، کے ہیلوسی نیشن بھی ہوتے ہیں لیکن یہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
(ii). ڈیلیوزن (Delusions)
ڈیلیوزن ان خیالات کو کہتے ہیں جن پہ مریض کا مکمل یقین ہو لیکن ان کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ خیالات حالات و واقعات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مریض کو اپنے خیال پہ سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن اورتمام لوگوں کو لگتا ہے کہ اس کا خیال غلط ہے یا عجیب و غریب ہے۔
ڈیلیوزن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں، انھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیِں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو پہ ان کے لیے خاص پیغامات نشر ہو رہے ہیں۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی ان کے ذہن سے خیالات نکال لیتا ہے، یا ان کے ذہن میں جو خیالات ہیں وہ ان کے اپنے نہیں ہیں بلکہ کسی اور نے ان کے ذہن میں ڈالے ہیں۔بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی اور انسان یا غیبی طاقت ان کو کنٹرول کر رہے ہیں، ان سے ان کی مرضی کے خلاف کام کرواتے ہیں۔
خیالات کا بے ربط ہونا (Muddled thinking or Thought Disorder)
مریضوں کے لیے کاموں یا باتوں پہ توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مریض اخبار پڑھنے پہ یا ٹی وی دیکھنے پہ پوری توجہ نہیں دے پاتے، اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتے یا اپنا کام پوری توجہ سے نہیں کر پاتے۔مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خیالات بھٹکتے رہتے ہیں اور ان کے خیالات کے درمیان کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ایک دو منٹ کے بعد ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ چند لمحے پہلے کیا سوچ رہے تھے۔ بعض مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ ان کے دماغ پہ ایک دھند سی چھائی ہوئی ہے۔
2:منفی_علامات (Negative symptoms)
منفی علامات ان باتوں کو کہتے ہیں جو صحت کی حالت میں موجود تھیں لیکن اب بیماری کی حالت میں موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ منفی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں جتنی کہ مثبت علامات ہوتی ہیں لیکن مریض کی زندگی پہ یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مریضوں کو ایسا لگتا ہے کہ؛
ان کی زندگی میں دلچسپی، توانائی، احساسات سب ختم ہو گئے ہوں۔ مریضوں کو نہ کسی بات سے بہت خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔
ان کے لیے کسی بات یا کام پہ توجہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان میں بستر سے اٹھنے یا گھر سے باہر جانے کی خواہش بھی ختم ہو جاتی ہے۔
مریضوں کے لیے نہانا دھونا، صفائی ستھرائی رکھنا یا کپڑے بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
مریض لوگوں سے ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں، ان کے لیے کسی سے بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
کیا شیزوفرینیا کے ہر مریض میں یہ تمام علامات موجود ہوتی ہیں؟
ضروری نہیں کہ شیزوفرینیا کے ہر مریض میں تمام علامات موجود ہوں۔ بعض لوگوں کو صرف آوازیں آتی ہیں لیکن ان میں منفی علامات نہیں ہوتیں۔ بعض مریضوں کو صرف ڈیلیوزن ہوتے ہیں لیکن ان کے خیالات بے ربط اور الجھے ہوئے نہیں ہوتے۔ اگر کسی مریض کو صرف منفی علامات ہوں اور بےربط خیالات ہوں تو بعض دفعہ اس کے آس پاس کے لوگوں کو سالوں تک احساس نہیں ہوتا کہ اسے شیزوفرینیا کی بیماری ہے ۔
بیماری_ہونے_کا_احساس_نہ_ہونا (Insight)
شیزوفرینیا کے بہت سے مریضوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھیں کوئی بیماری ہے۔ وہ سمجھتے رہتے ہیں کہ باقی تمام لوگ غلط ہیں اور ان کی بات ہی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔
ڈپریشن
• جن لوگوں کو شیزو فرینیا پہلی دفعہ شروع ہوا ہو علاج شروع ہونے سے پہلے ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کو ڈپریشن ہوتا ہے۔
جن لوگوں میں شیزوفرینیا کی علامات چلتی رہتی ہیں اور پوری طرح ختم نہیں ہوتیں ان میں سے تقریباً پندرہ فیصد لوگوں کو ڈپریشن ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ڈاکٹر غلطی سے ان کو منفی علامات سمجھ لیتے ہیں اور ڈپریشن کی تشخیص نہیں کر پاتے۔
شیزوفرینیا_کیوں_ہو_جاتا_ہے؟
ابھی تک ہمیں یقین سے نہیں معلوم کہ شیزو فرینیا کیوں ہوتا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔
مختلف_لوگوں_میں_وجوہات_مختلف_ہوتی_ہیں۔
1:جینز (Genes)
کسی شخص کو شیزوفرینیا ہونے کا تقریباً پچاس فیصد خطرہ اس کی جینز کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سی جینز اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے خاندان میں کسی کو شیزوفرینیا نہ ہو ان میں اس بیماری کے ہونے کا امکان تقریباً ایک فیصد ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے والدین میں سے ایک کو شیزو فرینیا ہو ان کو اس بیماری ہونے کا خطرہ تقریباً دس فیصد ہوتا ہےاور ہمشکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو اگر یہ بیماری ہوتو دوسرے کو شیزوفرینیا ہونے کا امکان تقریباً پچاس فیصد ہوتا ہے۔
2:دماغی_کمزوری
دماغ کے سکین سے پتہ چلتا ہے کہ کہ شیزوفرینیا کے بعض مریضوں کے دماغ کی ساخت عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ مریضوں کے دماغ کی نشو ونما مختلف وجوہات کی بنا پہ صحیح نہیں ہوئی ہوتی مثلاً اگر پیدائش کے عمل کے دوران بچے کے دماغ کو آکسیجن صحیح طرح سے نہ مل پائےیا حمل کے شروع کے مہینوں میں ماں کو وائرل اینفیکشن ہو جائے۔
2:منشیات_اور_الکحل
بعض دفعہ شیزوفرینیا منشیات کے استعمال کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ ان منشیات میں ایکسٹیسی ، ایل ایس ڈی، ایمفیٹامین اور کریک کوکین شامل ہیں۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایمفیٹامین سے نفسیاتی بیماری پیدا ہوتی ہے جو اس کا استعمال بند کرنے سے ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں اب تک وثوق سے یہ تو نہیں معلوم کہ ایمفیٹامین سے لمبے عرصےتک چلنے والی نفسیاتی بیماری ہوتی ہے کہ نہیں لیکن جن لوگوں میں ایسی بیماری کا پہلے سے خطرہ ہو ان میں اس کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ جن لوگوں کو پہلے سے شیزوفرینیا کی بیماری ہو اگر وہ الکحل یا منشیات استعمال کریں تو ان کے مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔
اس بات کا قوی ثبوت ریسرچ سے موجود ہے کہ چرس کے استعمال سے شیزوفرینیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔اگر کسی نے کم عمری میں چرس استعمال کرنا شروع کی ہو تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
3:ذہنی_دباؤ
اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ ذہنی دباؤ سے شیزوفرینیا ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضرور دیکھنے میں آیا ہے کہ شیزوفرینیا کی علامات کی شدت بڑھنے سے فوراً پہلے اکثر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہوتا ہے۔یہ کسی ناگہانی واقعے مثلاً گاڑی کے ایکسیڈنٹ یا کسی کے انتقال کے صدمے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور یا کسی طویل المیعاد وجہ مثلاً گھریلو تنازعات اور جھگڑوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔
4:خاندانی_مسائل
خاندانی مسائل کی وجہ سے کسی کو شیزوفرینیا نہیں ہو تا، لیکن جس کو شیزوفرینیا ہو ان مسائل کی وجہ سے اس کی بیماری مزید خراب ضرور ہو سکتی ہے۔
5:
جن لوگوں کا بچپن بہت اذیت ناک اور محرومیوں سے بھرپور گزرا ہو اور دوسری نفسیاتی بیماریوں کی طرح ان لوگوں میں شیزوفرینیا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
کیا_یہ_بیماری_کبھی_ٹھیک_ہو_سکتی_ہے؟
شیزوفرینیا کے بہت سے مریضوں کو کبھی اسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش نہیں آتی، وہ کام کر سکتے ہیں اور اچھی گھریلو زندگی گزار سکتے ہیں۔
• تقریباً بیس فیصد لوگ بیماری کے پہلے دورے کے پانچ سال کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
• تقریباً ساٹھ فیصد لوگ بہتر ہو جاتے ہیں لیکن ان میں کچھ نہ کچھ علامات موجود رہتی ہیں۔کسی وقت ان کی یہ علامات اور بھی بگڑ جاتی ہیں۔
• بیس فیصد لوگوں میں شدید نوعیت کی علامات موجود رہتی ہیں۔
اگر_علاج_نہ_کرایا_جائے_تو_کیا_ہوگا؟
شیزوفرینیا کے مریضوں میں خود کشی کا امکان عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ جن مریضوں میں شیزوفرینیا کی شدید علامات موجود ہوں، جن کو ڈپریشن ہو گیا ہو، یا جو علاج چھوڑ چکے ہوں ان میں خودکشی کا خطرہ اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ شیزوفرینیا شروع ہونے کے بعد علاج میں جتنی تاخیر کی جائے اتنا ہی زندگی پہ اس کابرا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
اگر_تشخیص_جلدی_ہو_جائے_اور_بیماری_شروع_ہونے_ک_بعد_جلد_از_جلد_علاج_شروع_ہو_جائےتو:
• اسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پیش آتی ہے
• گھر میں انتہائی نگہداشت کی ضرورت کم پڑتی ہے
• اگر اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑے تو کم دن داخل رہنا پڑتا ہے
• اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ مریض کام کر سکے اور خود مختار زندگی گزار سکے۔
کیا_دوا_لینا_ضروری_ہے؟
دوا لینے سے:
• ہیلوسی نیشن اور ڈیلیوزن آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں۔ عام طور سے اس میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔
• سوچنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔
• زندگی میں امنگ اور دلچسپی بڑھتی ہے اور اپنا خیال خود رکھنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔
فیملی_کو_مریض_کے_علاج_میں_شریک_کرنا
اس کا مقصد خاندان میں کسی کو مریض کی بیماری کا ذمہ دار ٹھہرانا نہیں۔ مریض کے رشتہ داروں سے ملنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرٰیض اور اس کے گھر والوں کو بیماری کا مقابلہ کرنے میں مدد دی جا سکے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ گھر میں اگر کسی کو یہ بیماری ہو تو اس کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے اور بیماری کی علامات کی وجہ سے گھر میں جو مسائل کھڑے ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
اپنی_مدد_آپ
• یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کو بیماری کے شروع میں کس طرح کی علامات ہوتی ہیں مثلا
ً نیند یا بھوک خراب ہو جانا، گھبراہٹ رہنا، نہانا یا کپڑے بدلنا چھوڑ دینا ، تھوڑا بہت شک شبہ یا خوف پیدا ہو جانا اور کبھی کبھی اکیلے میں آوازیں سنائی دینے لگنا۔اگر شروع میں ہی ان علامات کو پہچان کر علاج شروع کر دیا جائے تو عموماً طبیعت جلدی بہتر ہو جاتی ہے اور دوا کا ڈوز بھی کم دینا پڑتا ہے۔
• ان وجوہات سے بچنا چاہیے جن سے طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہو مثلاً ایسی صورتحال جس میں ذہنی دباؤ بڑھ جائے جیسے لوگوں سے بہت زیادہ ملنا، منشیات یا الکحل کا استعمال ، گھر والوں، دوستوں یا پڑوسیوں سے جھگڑا کرنا۔
• یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کی آوازیں کن طریقوں سے کم ہوتی ہیں
مثلاً لوگوں سے ملنا جلنا، مصروف رہنا، اپنے آپ کو یاد دلانا کہ یہ آوازیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔
• کوئی ایسا بااعتماد شخص ذہن میں رکھیں جس کو بیماری شروع ہونے پر آپ یہ بتا سکیں کہ آپ کی طبیعت اب خراب ہو رہی ہے۔
• اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیں۔ اچھی غذا کھائیں جس میں پھل اور سبزیاں شامل ہوں۔ سگریٹ نہ پیئیں، اس سے آپ کے پھیپھڑے، آپکا دل،دوران خون کا نظام اور معدہ خراب ہوتے ہیں۔
• روزانہ کچھ نہ کچھ ورزش کریں چاہے یہ صرف بیس منٹ روزانہ پیدل چلنا ہی کیوں نہ ہو۔ باقاعدگی سے بھرپور ورزش کرنے سے انسان کا موڈ بھی بہتر ہوتا ہے۔
گھر_والوں_کے_لیے_ہدایات
اگر گھر میں کسی فرد کو شیزو فرینیا شروع ہو جائے تو باقی گھر والوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ان کے بچے، ان کے شوہر یا بیوی، یا ان کے بہن بھائی کو کیا ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی باتیں کہنا شروع کردیں جو باقی گھر والوں کو عجیب و غریب لگیں یا ان کی سمجھ میں نہ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا رویہ عجیب و غریب ہو جائے اور وہ ہر ایک سے بات کرنا بند کردیں۔ ہو سکتا ہے گھر والے ان علامات یا اس بیماری کے لیے اپنے آپ کو الزام دینے لگیں اور یہ سمجھیں کہ یہ میری غلطی سے ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ
آپ کو یہ فکر ہو کہ کہیں خاندان میں کسی اور کو یہ بیماری نہ ہو جائے ۔
Copied.

Address

Faisalabad
38000

Telephone

03216633138

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Life Flo Healthcare posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram