Dr.Buraq medicare

Dr.Buraq medicare As to diseases, make a habit of two things — to help, or at least, to do no harm.
(2)

ایک شخص کا ایک بیٹا تھا،روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟ تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے س...
12/09/2025

ایک شخص کا ایک بیٹا تھا،
روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟
تو جھٹ سے کہتا کہ دوست کے ساتھ تھا. ایک دن بیٹا جب بہت زیادہ دیر سے آیا تو باپ نے کہا کہ بیٹا آج ہم آپ کے دوست سے ملنا چاہتے ہیں.
بیٹے نے فوراً کہا اباجی اس وقت؟
ابھی رات کے دوبجے ہیں کل چلتے ہیں.
نہیں ابھی چلتے ہیں.
آپ کے دوست کا تو پتہ چلے.
باپ نے ابھی پہ زور دیتے ہوئے کہا.
جب اس کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا.
بالآخر بالکونی سے سر نکال کہ ایک بزرگ نے جو اس کے دوست کا باپ تھا آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکے نے کہا کہ اپنے دوست سے ملنے آیا ہے.
اس وقت، مگروہ تو سو رہا ہے بزرگ نے جواب دیا.
چاچا آپ اس کو جگاؤ مجھے اس سے ضروری کام ہے،
مگر بہت دیر گزرنے کے بعد بھی یہی جواب آیا کہ صبح کو آجانا.
ابھی سونے دو،
اب تو عزت کا معاملہ تھا تو اس نے ایمرجنسی اور اہم کام کا حوالہ دیا مگر آنا تو درکنار دیکھنا اور جھانکنا بھی گوارا نہ کیا.
باپ نے بیٹے سے کہا کہ چلو اب میرے ایک دوست کے پاس چلتے ہیں.
جس کا نام خیر دین ہے.
دور سفر کرتے اذانوں سے ذرا پہلے وہ اس گاؤں پہنچے اور خیردین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا،
مگر جواب ندارد، بالآخر اس نے زور سے اپنا نام بتایا کہ میں الله ڈنو، مگر پھر بھی دروازہ ساکت اور کوئی حرکت نہیں.
اب تو بیٹے کے چہرے پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ آگئی.
لیکن اسی لمحے لاٹھی کی ٹھک ٹھک سنائی دی، اور دروازے کی زنجیر اور کنڈی کھولنے کی آواز آئی،
ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا جس نے لپٹ کر اپنے دوست کو گلے لگایا اور بولا کہ میرے دوست، بہت معذرت، مجھے دیر اس لیے ہوئی کہ جب تم نے 27 سال بعد میرا دروازہ رات گئے کھٹکھٹایا تو مجھے لگا کہ کسی مصیبت میں ہو،
اس لیے جمع پیسے نکالے کہ شاید پیسوں کی ضرورت ہے،
پھر بیٹےکو اٹھایا کہ شاید بندے کی ضرورت ہے،
پھر سوچا شاید فیصلے کےلیے پگ کی ضرورت ہو تو اسے بھی لایا ہوں.
اب سب کچھ سامنے ہے،
پہلے بتاؤ کہ کس چیز کی ضرورت ہے؟
یہ سن کر بیٹے کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ابا جی کتنا سمجھاتے تھے کہ بیٹا دوست وہ نہیں ہوتا جو رت جگوں میں ساتھ ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو ایک آواز پر حق دوستی نبھانے آجائے.
آج بھی کئی نوجوان ایسی دوستیوں پہ اپنے والدین کو ناراض کرتے ہیں، باپ کے سامنے اکڑجاتے ہیں.
ذرا دل تھام کر سوچیے.

*حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی**ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا...
11/09/2025

*حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی*
*ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔*
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کی تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ..
جزاک اللہ خیرا۔۔

منقول













رشتے سے انکار کی عظیم ترین وجہ««»»««»»««»»««»»««»»««»»««»»بہت دلچسب داستان ھے پڑھئے گا ضرور زندگی بھر کیلئے نصحیت ملے گی...
10/09/2025

رشتے سے انکار کی عظیم ترین وجہ
««»»««»»««»»««»»««»»««»»««»»

بہت دلچسب داستان ھے پڑھئے گا ضرور زندگی بھر کیلئے نصحیت ملے گی ۔۔انشا اللہ
میں اور میری بیوی سنار کی دوکان پر گئے سونے کی انگوٹھی خریدنے کیلئے ۔کچھ انگوٹھیاں دیکھنے کے بعد میری بیوی کو ایک انگوٹھی پسند آگئی ۔قیمت ادا کر کے جیسے ھی میں باہر نکلنے کیلئے مڑا تو ایک بارعب شخص سے ملاقات ھوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں انکو بھول چکاتھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی میں کبھی ان سے ملاقات ھوئی تھی ۔۔
یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پوچھنے لگے "بیٹا لگتا ھے پہچاننے کی کوشش کر رھے ھیں آپ "
میں نے کہا معزرت کیساتھ آپ کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا ھے لیکن یاد نہی آرہا کہ آپ سے کب ملاقات ھوئی تھی ۔۔
وہ تھوڑا سا مسکراے اور کہنے لگے میرا نام اقبال ھے ویسے لوگ مجھے بڑا بھائی کہتے ھیں ۔آج سے چند سال قبل آپ اپنی فیملی کیساتھ ھمارے گھر آے تھے گلبرگ میں ھمارا گھر ھے شاید آپ کو یاد آگیا ھو ۔۔

انکی بات سن کر میرا تو سر ھی چکڑا گیا ۔اور میرا رویہ بالکل مودبانہ ھو گیا اور میں بے اختیار بول پڑا سب یاد آگیا بڑے بھائی سب یاد آگیا ۔۔۔
میں نے سوال کیا آپ اکیلے ھی ھیں یا آنٹی بھی آئیں ھے ۔
بڑے بھائی نے جواب دیا جی آنٹی بھی آئیں ھیں اور دوسرے بھائی بھی آئیں ھیں وہ بیٹھے ھیں آپ ان سے مل سکتے ھیں ۔۔۔
ایک سائید پر دیکھا تو آنٹی برقعہ پہنے بیٹھی تھی اور ساتھ میں ھی دوسرے بھائی بھی کھڑے چہرے پر مسکراہٹ سجاے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔۔
میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ انٹی کو سلام کرو اور بعد میں انکا تعارف کرواتا ھوں ۔۔
میری بیگم گئی آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت ھی اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بہت ھی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعائیں دیں ۔
میں نے آنٹی کو بتلایا کہ یہ میری بیوی ھے اور یہ میرا 3سال کا بیٹا ھے ۔آنٹی بہت خوش ھوئیں اور اپنے بیٹے کیطرف آنکھوں ھی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں 1000 کا نوٹ ڈال دیا ۔میں نے بہت اسرار کیا کہ یہ غلط ھے لیکن آنٹی نہ مانیں ۔
کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں آنٹی سے آنے کا مقصد پوچھا تو آنٹی کہنے لگیں کہ اللہ نے میری بیٹی کو بیٹے کی نعمت سے نوازا ھے اسلئے بیٹی کیلئے اور انکے اہل خانہ کیلئے کچھ تحائف خریدنے آئیں ھیں ۔۔
میں نے پوچھا آنٹی کونسی بیٹی آپکی تو تمام بیٹیاں شادی شدہ تھیں صرف ایک۔کنواری تھی جسکے رشتہ کیلئے ھم لوگ آے تھے اور آپ لوگوں نے کہا تھا کہ ابھی 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہی ھے ۔۔حالانکہ مجھے حیرانگی ھوئی تھی کہ گھر پر رشتے کیلئے بلوا کر پھر کہہ دینا کہ 5 یا 10 سال تک شادی کا کوئی پروگرام نہی کتنی غلط بات ھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کو جیسے ایک جھٹکا لگا ۔۔لیکن وہ ایک سمجھدار خاتون تھیں فورا ھی سمجھ گئیں کہ بات کچھ اور ھے پوچھنے لگی کہ یہ بات آپکو کس نے کہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا والد صاحب نے کہا تھا ۔۔تو وہ کہنے لگی نہی ۔۔بات دراصل کچھ اور تھی لیکن آپ کے والد صاحب نے آپ کا پردہ رکھا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔میرے اندر ایک تجسس پیدا ھو گیا کہ میرے والد صاحب ھم سے کیسے غلط بیانی کر سکتے ھیں اور میرے والد صاحب نے کبھی بھی جھوٹ نہی بولا تھا ۔۔
آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کیساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہا کہ تم تھوڑا سا وقت مجھے دو بچے کو کچھ کھلاو پلاو۔۔
آنٹی کہنے لگی بیٹا جس دن تم اور تمہارے اہل خانہ ھمارے گھر ھماری بیٹی کا رشتہ لینے آے تھے میں نے اسی دن تمھارے رشتہ سے انکار کر دیا تھا جو کہ شاید تمھارے والدین نے تمہیں نہی بتلایا ۔۔۔
تم ایک پڑھے لکھے اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص ثابت ھو سکتے ھو مجھے پہلے ھی علم تھا ۔۔
اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے ۔۔
لیکن نئے لوگوں سے رشتہ جوڑنے کیلئے صرف لڑکے کو ھی نہی دیکھا جاتا بلکہ۔اسکے مکمل خاندان کو دیکھا جاتا ھے ۔کیونکہ ھم نے مستقبل میں آپس میں میل جول رکھنا ھوتا ھے اسلئے لڑکے یا لڑکی کے گھرانے والوں کو دیکھ کر مستبقل کا تعین کیا جاتا ھے کہ یہ گھرانہ مستقبل میں کتنا کامیاب رشتہ نبھا سکتا ھے کیونکہ۔زندگی میں اتار چڑھاو آتے رھتے ھیں اور ان حالات میں ھمکو کسی اپنے کی ضرورت ھوتی ھے اسلئے ھم کسی ایسے سے رشتہ نہی جوڑتے جو خوشیوں میں ھمارے ساتھ ھو لیکن حالات کے خراب ھوتے ھی وہ ھم سے جدا ھو جاے ۔۔
اسلئے میں نے اس دن آپکے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو صاف صاف انکار کر دیا تھا ۔۔ھو سکتا ھے کہ انہوں نے آپ کو درست بات نہ بتلائی ھو۔۔
۔۔۔۔۔آنٹی کی باتیں سن کر میں مزید پریشان ھو گیا اور میں نے کہا کہ آنٹی ھم بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتیں ھیں خوشی اور غم میں برابر کے شریک ھوتے ھیں کبھی ایسا نہی ھوا کہ ھم میں سے کسی کو ایک۔دوسرے سے کوئی۔شکایت ھو ۔۔۔اگر آپ برا محسوس نہ کریں تو میں 100فیصد درست ھوں کہ آپکو ھمارے خاندان کو پرکھنے میں غلطی ھوئی ھے ۔۔
آنٹی نے ایک سرد آہ لی اور کہا بیٹے ابھی تم بہت چھوٹے ھو جو چیزیں میں دیکھ سکتی ھوں تم انکیطرف کبھی سوچ بھی نہی سکتے ۔۔۔
میرے استفسار پر آنٹی نے کہا کہ میرا اندازہ کبھی غلط نہی ھوتا ۔۔
چلو میں تمکو بتلاتی ھوں ۔۔۔
میں نے اپنی بیٹی کیلئے جتنے بھی رشتے دیکھے ھیں ان سے کچھ شرائط رکھی ھیں جو بھی میری بیٹی کو دیکھنے آے ۔
وہ اپنے تمام بیٹوں اور انکی بیگمات کو ساتھ لائیں ۔۔
جو سب سے اچھے کپڑے ھوں وہ زیب تن کر کے آئیں ۔
گھر کی عورتیں اپنے مکمل زیورات سے سج کر آئیں ۔
اگر گھر میں ھر فرد کی اپنی اپنی گاڑی ھے تو وہ اپنی اپنی گاڑی میں آئیں ۔۔۔
یہ شرائط بہت عجیب تھیں ۔۔لیکن بعض لوگوں نے اسکا یہ۔مطلب لیا کہ شاید ھم لڑکے والوں کی مالی حالت دیکھنا چاھتے ھیں ۔۔لیکن ایسی بات نہی ھے ۔۔۔
اب جب آپ کے اہل خانہ ھمارے گھر تشریف لاے تھے تو میں نے سب سے پہلے تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیاں دیکھیں جو کہ قدر مہنگی تھی جبکہ تمھارے والد صاحب کی گاڑی کی مالیت اتنی نہی تھی جتنی تمھارے دونوں بھائیوں کی گاڑیوں کی قیمت تھی ۔۔
اسیطرح پھر میں نے تمھارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے محسوس ھوا کہ تمھارے بھائیوں کے جسموں پر سجے ھوے کپڑے زیادہ مہنگے ھیں اور یہی حال تمھارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا ۔۔
جب میں نے تمھاری ماں کے زیورات دیکھے تو انکی مقدار بہت ھی کم۔تھی جبکہ تمھاری دونوں بھابھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے سجے ھوے تھے ۔۔۔
پھر میں نے جب تمھاری بھابھیوں سے پوچھا کہ گھر کا کھانا کون پکاتا ھے تو تمھاری بھابھئوں نے کہا کہ ھم سب علیحیدہ علیحیدہ پکاتے ھیں اور تمھارے والدین کا کھانا تمھاری بہن پکاتی ھے ۔۔
اسی طرح میں نے جب پوچھا کہ بچوں کو سکول کون چھوڑتا ھے تو مجھے پتہ چلا کہ تمھارے دونوں بھائی اپنے بچوں کو خود چھوڑتے ھیں جبکہ تمھاری بہن کو تمھارے والد صاحب کالج لے کر جاتے ھیں۔
جب میں نے یہ حالات دیکھے اور سنے تو مجھے افسوس ھوا ان بیٹوں پر جنکو پڑھانے کیلئے باپ نے اپنی ساری زندگی گنوا دی اور اس اولاد کو معاشرے کا کامیاب فرد بنایا لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد والد کا سہارا ببنے کی بجاے اپنی زندگی گزارنے پر رضامند ھو گئی ۔۔
تمھارے باپ نے تمھارے لئے بھوک افلاس بھی دیکھا ھو گا ۔
پیدل سفر بھی کیا ھو گا ۔
تمھارے منہ میں نوالہ ڈالنے کیلئے بھوک بھی برداشت کی ھو گی۔
تمہیں اچھا پہنانے کیلئے خود دو تین سال ایک ھی جوڑے میں بھی گزارے ھو نگیں ۔۔
لیکن جب اولاد کی باری آئی تو اولاد باپ کو بھول گئی اور اپنی دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ھو گئی ۔۔
تمھارے بھائیوں نے خود تو نئی گاڑی لے لی لیکن انکو خیال نہ آیا کہ ھمارا باپ آج بھی اسی پرانی گاڑی میں سفر کیوں کرتا ھے کیونکہ اس پر ابھی بھی تمھاری بہن کی اور تمھاری زمہ داری ھے ۔۔
اسکا بھی دل کرتا ھو گا نئے جوتے اور نئے کپڑے پہننے کو لیکن ھو سکتا ھے اسکی جیب اس چیز کی اجازت نہ دیتی ھو ۔۔لیکن تمھارے بھائیوں کی جیب تو اجازت دیتی تھی کہ اپنے باپ کیلئے اچھا لباس اچھا جوتا پہلے خریدتے اور اپنے لئے بعد میں کیونکہ یہ رویہ تمھارے باپ کا تھا جب بھی اس نے کوئی چیز خریدنا چاھی پہلے اپنی اولاد کا خیال کیا بعد میں اپنا سوچا ۔۔
اسی لئے میں نے یہ ساری باتیں اسی دن تمھارے والد سے کر دیں تھیں ۔ھمیں دنیا کی مال و دولت نہی چاھئیے ھمیں تو ایسے رشتہ۔دار چاھئیں جو اپنے سے بڑھ کر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیں تاکہ کل کو جب ھم نیچے گریں تو ھمکو مزید نیچے دبانے کی بجاے اوپر کو اٹھائیں تاکہ کل کو جب وہ نیچے گریں تو ھم انکو بھی سہارا دیں سکیں ۔۔۔
مال و دولت اعلی عہدہ یا مرتبہ تو ھمیشہ نہی رھتا ۔۔
ھمیشہ جو ساتھ چلتے ھیں وہ سچے رشتے چلتے ھیں اور اگر رشتے بنانے میں ھم سے تھوڑی سی بھی غلطی ھو جاے تو ساری زندگی بھی تباہ ھو سکتی ھے اور نسلیں بھی تباہ ھو جایا کرتی ھیں ۔۔۔
مجھے فخر ھے آپ کے والد صاحب پر کہ انھوں نے آپ کو حقیقت سے آگاہ نہی کیا اور پھر بھی آپ لوگوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رھے لیکن دیکھنا یہ ھے کہ اولاد اپنے والدین کا کتنا خیال رکھتی ھے والدین تو ھمیشہ سے ھی اولاد کیلئے قربانیاں دیتے آئے ھیں ۔۔
ابھی اولاد کی باری ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد پر کہ آج کچھ بھی ھو جاے میری اولاد مجھے ھمیشہ ترجیح دیتی ھے میرے لئے پہلے خریدتی ھے بعد میں اپنے بیوی بچوں کیلئے کچھ خریدا جاتا ھے اور مجھے فخر ھے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ھے اور ھمارا پورا خاندان ایک جان کی مانند ھے اگر کسی کو کسی بھی چیز کی۔ضرورت پڑ جاے تو پیٹھ دیکھا کر نہی بھاگتے بلکہ ضرورت سے زیادہ لے کر آتا ھے ۔۔۔۔
اس لئے میرے بیٹے رشتے بنانا بہت آسان ھے لیکن کامیاب رشتے چننا اور انکو نبھانا بہت مشکل ھے ۔۔کہیں ایک نا اہل رشتہ آپ کو اتنا بڑا نقصان دے سکتا ھے کہ ساری عمر کی۔خوشیاں غموں میں تبدیل ھو سکتی ھیں اور کامیاب رشتہ آپکو ایسا سہارا دے سکتا ھے کہ تمام زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ھو سکتے ھیں۔۔۔
اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی اٹھ کر چلی گئیں ۔۔اور میری آنکھوں کے سامنے میرے والدین کا چہرہ گھومنے لگا ۔میری گاڑی میرے والد کی گاڑی سے بہتر تھی ۔میرا لباس میرے والد کے لباس سے بہتر تھا ۔میرے گھر کی زیب و زینت کا سامان میرے والد کے گھر سے بہتر تھا ۔میری بیوی ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور کنگن تھے جو میں نے خرید کر دئیے تھے لیکن میری ماں کا سارا زیور بک چکا تھا میں آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر لیکن میرا باپ آج بھی اولاد کی زمہ داریاں نبھا رہا تھا ۔۔
میں نے آج بھی اپنی بیوی کیلئے سونے کی انگھوٹھی خریدی لیکن میرے ذھن میں میری ماں کا خیال کیوں نہ آیا جس نے میری شادی کیلئے اپنا زیور بیچ دیا ۔۔
مجھے افسوس ھوا اپنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر انکو خالی کر دیا لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی گلہ یا شکوہ نہی کیا ۔۔۔
میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی عظیم ھیں اور
میں کل بھی ناکام تھا اور آج بھی ناکام ھوں۔

ิดค่าการมองเห็น




゚viralシfypシ゚viralシalシ











゚viralfbreelsfypシ゚viral

“شیرنی جن لمبے نوکیلے دانتوں سے اپنا تین سو کلو کا شکار کرتی ہے، اُنہی دانتوں سے اپنے بچے کو بغیر خراش کے محفوظ جگہ پر م...
09/09/2025

“شیرنی جن لمبے نوکیلے دانتوں سے اپنا تین سو کلو کا شکار کرتی ہے، اُنہی دانتوں سے اپنے بچے کو بغیر خراش کے محفوظ جگہ پر مُنتقل کرتی ہے۔”

“تقدیر بھی جب آپ کو گردن سے دبوچ لے تو کُچھ دیر صبر سے کام لیجیے گا، ہوسکتا ہے وہ آپ کو خطرے سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر لے جا رہی ہو۔”❤️‍🩹

شہد کی مکھی کا زہر (bee venom) اور اس میں موجود ایک اہم جزو میلیٹن (melittin) حالیہ برسوں میں کینسر کے علاج کے حوالے سے ...
09/09/2025

شہد کی مکھی کا زہر (bee venom) اور اس میں موجود ایک اہم جزو میلیٹن (melittin) حالیہ برسوں میں کینسر کے علاج کے حوالے سے سائنسی تحقیق کا ایک دلچسپ موضوع بن گیا ہے، خاص طور پر چھاتی کے کینسر (breast cancer) کے علاج کے لیے۔ یہاں جو معلومات فراہم کی جا رہی ہیں، وہ حالیہ تحقیق اور سائنسی شواہد پر مبنی ہیں۔

*شہد کی مکھی کا زہر اور میلیٹن کیا ہے؟*
شہد کی مکھی کا زہر ایک پیچیدہ کیمیائی مرکب ہے جو متعدد پروٹینز، پیپٹائڈز، اور انزائمز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا سب سے اہم جزو میلیٹن ہے، جو زہر کا تقریباً 50 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ میلیٹن ایک چھوٹا سا پیپٹائڈ ہے جو خلیوں کی جھلیوں (cell membranes) کے ساتھ تعامل کرتا ہے اور ان میں سوراخ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے خلیات تباہ ہو سکتے ہیں۔ اس خاصیت کی وجہ سے سائنسدانوں نے اسے کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک ممکنہ علاج کے طور پر جانچنا شروع کیا۔

حالیہ تحقیق کے اہم نتائج
2020 میں شائع ہونے والی ایک اہم تحقیق، جس کا حوالہ جریدے Nature Precision Oncology میں دیا گیا، نے شہد کی مکھی کے زہر اور میلیٹن کے چھاتی کے کینسر کے خلیوں پر اثرات کا جائزہ لیا۔ اس تحقیق کی سربراہی ڈاکٹر کیرا ڈفی (Dr. Ciara Duffy) نے کی، جو آسٹریلیا کے ہیری پرکنز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ اس تحقیق کے اہم نتائج یہ ہیں:
چھاتی کے کینسر کے خلیوں پر اثر:
تحقیق میں پایا گیا کہ شہد کی مکھی کا زہر اور اس کا جزو میلیٹن ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر (TNBC) اور HER2-positive breast cancer جیسے جارحانہ چھاتی کے کینسر کے خلیوں کو بہت تیزی سے تباہ کر سکتا ہے۔ ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کو علاج کے لیے سب سے مشکل اقسام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے روایتی ہارمون تھراپی یا ٹارگٹڈ علاج کم موثر ہوتے ہیں۔
تجربات سے معلوم ہوا کہ میلیٹن نے کینسر کے خلیوں کی جھلیوں کو صرف 60 منٹ کے اندر مکمل طور پر تباہ کر دیا، جس سے خلیات مر گئے۔
صحت مند خلیوں پر کم اثر:
اہم بات یہ ہے کہ میلیٹن نے کینسر کے خلیوں کو ہدف بناتے ہوئے صحت مند خلیوں کو نسبتاً کم نقصان پہنچایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلیٹن کا عمل سلیکٹو (selective) ہے، جو اسے ایک ممکنہ علاج کے طور پر مزید پرکشش بناتا ہے۔
کیموتھراپی کے ساتھ امتزاج:
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ میلیٹن کو روایتی کیموتھراپی کی دوا ڈوکیٹاکسل (Docetaxel) کے ساتھ ملانے سے چوہوں میں ٹیومر کے بڑھنے کو روکنے میں بہتر نتائج ملے۔ یہ امتزاج کینسر کے علاج کی افادیت کو بڑھا سکتا ہے۔
طریقہ کار:
میلیٹن کینسر کے خلیوں کی جھلیوں میں سوراخ بناتا ہے، جس سے خلیات کا مواد باہر نکل جاتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ کینسر کے خلیوں کی نشوونما کے لیے ضروری سگنلنگ پاتھ ویز (signaling pathways) کو بھی بلاک کرتا ہے، جو ٹیومر کی افزائش کو روکتا ہے۔
تحقیق کا دائرہ کار
تجرباتی بنیاد: یہ تحقیق بنیادی طور پر لیبارٹری میں خلیوں (in vitro) اور چوہوں (in vivo) پر کی گئی۔ اس میں 312 شہد کی مکھیوں اور بھنوروں کے زہر کا تجربہ کیا گیا۔
شائع شدہ نتائج: اس تحقیق کے نتائج Nature Precision Oncology نامی جریدے میں شائع ہوئے، جو کینسر کے شعبے میں ایک معتبر سائنسی جریدہ ہے۔
محدودیت: اگرچہ نتائج بہت امید افزا ہیں، لیکن یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ انسانی مریضوں پر اس کے اثرات جانچنے کے لیے مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہے۔

مستقبل کی امیدیں اور چیلنجز
امکانات:
محققین کا خیال ہے کہ شہد کی مکھی کا زہر یا مصنوعی طور پر بنایا گیا میلیٹن مستقبل میں کینسر کے علاج کے لیے ایک نئی تھراپی کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اسے کیموتھراپی یا دیگر علاج کے ساتھ ملا کر زیادہ موثر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
چونکہ میلیٹن صحت مند خلیوں کو کم نقصان پہنچاتا ہے، اس سے کیموتھراپی کے مضر اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
چیلنجز:
کلینیکل ٹرائلز: لیبارٹری کے نتائج کو انسانوں پر آزمانے کے لیے وسیع پیمانے پر کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
زہر کی مقدار اور حفاظت: شہد کی مکھی کا زہر بعض افراد میں الرجک ردعمل (allergic reactions) کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اس کی محفوظ مقدار اور ترسیل کا طریقہ کار تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
اخلاقی اور عملی مسائل: شہد کی مکھیوں سے زہر حاصل کرنا مہنگا اور وقت طلب ہو سکتا ہے۔ اس لیے مصنوعی میلیٹن بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے، لیکن اس کی پیداوار کے پیمانے کو بڑھانا بھی ایک چیلنج ہے۔
دیگر امراض کے لیے شہد کی مکھی کا زہر
شہد کی مکھی کے زہر کو کینسر کے علاوہ دیگر امراض کے علاج کے لیے بھی جانچا جا رہا ہے، جیسے کہ:
ایپی تھراپی (Apitherapy): یہ شہد کی مکھی کے زہر کو گٹھیا، اعصابی درد، ذیابیطس، اور دیگر دائمی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا ایک روایتی طریقہ ہے۔ تاہم، اس کی سائنسی توثیق محدود ہے، اور کچھ ماہرین اسے غیر سائنسی سمجھتے ہیں۔
مدافعتی نظام کی بہتری: کچھ مطالعات میں دعویٰ کیا گیا کہ شہد کی مکھی کا زہر مدافعتی نظام کو مضبوط بنا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
تنقیدی جائزہ
اگرچہ شہد کی مکھی کے زہر کے فوائد کے بارے میں دعوے بہت دلچسپ ہیں، لیکن کچھ تنقیدی نکات بھی ہیں:
سائنسی ثبوت کی کمی: کینسر کے علاج کے لیے شہد کی مکھی کے زہر کے استعمال کی حمایت کرنے والے زیادہ تر شواہد ابتدائی ہیں۔ امریکن کینسر سوسائٹی نے واضح کیا ہے کہ اس کے طبی فوائد کے لیے ٹھوس سائنسی ثبوت موجود نہیں ہیں۔
الرجی کا خطرہ: شہد کی مکھی کا زہر بعض افراد میں شدید الرجک ردعمل (anaphylaxis) کا باعث بن سکتا ہے، جو جان لیوا ہو سکتا ہے۔
غیر مصدقہ دعوے: کچھ روایتی علاج (جیسے ایپی تھراپی) کے دعووں کو سائنسی برادری نے "اتائی" یا غیر مصدقہ قرار دیا ہے۔
نتیجہ
شہد کی مکھی کا زہر اور اس کا جزو میلیٹن چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے ایک امید افزا امکان پیش کرتے ہیں، خاص طور پر اس کی جارحانہ اقسام جیسے ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کے لیے۔ لیبارٹری اور جانوروں پر کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ میلیٹن کینسر کے خلیوں کو تیزی سے تباہ کر سکتا ہے جبکہ صحت مند خلیوں کو کم نقصان پہنچاتا ہے۔ تاہم، اسے عملی علاج کے طور پر استعمال کرنے سے پہلے مزید کلینیکل ٹرائلز اور حفاظتی جائزوں کی ضرورت ہے۔ شہد کی مکھیاں واقعی قدرت کا ایک عجوبہ ہیں، اور ان کا زہر مستقبل میں کینسر کے علاج میں انقلاب لا سکتا ہے، لیکن ابھی اس راہ میں کئی سائنسی اور عملی چیلنجز موجود ہیں۔
PHPS STUDY GROUP
#قراةالعین




゚viralシfypシ゚viralシalシ


゚viralfbreelsfypシ゚viral










ایک جوہری کے ساتھ ایک چور ہمسفر ہو گیا۔چور نے دیکھا کہ جوہری کے پاس ایک قیمتی ہیرا ہے،دل ہی دل میں کہنے لگا کہ جب رات کے...
08/09/2025

ایک جوہری کے ساتھ ایک چور ہمسفر ہو گیا۔چور نے دیکھا کہ جوہری کے پاس ایک قیمتی ہیرا ہے،دل ہی دل میں کہنے لگا کہ جب رات کے کہیں یہ جوہری سویا تو میں اس کے اسباب سےیہ ہیرا نکال کر فرار ہو جاؤں گا۔ جوہری اپنے ہمسفر چور کی نیت سے آگاہ ہو چُکا تھا جب رات آئی تو سونے سے پہلے جوہری نے اپنا ہیرا چور کے اسباب میں رکھ دیا اور بے فکر ہو کر سو گیا۔
چور رات بھر جوہری کے اسباب میں ہیرا تلاش کرتا رہا مگر حیران تھا کہ نہ جانے جوہری نے ہیرا کہاں چُھپا دیا ہے؟ چور کی مسلسل تین راتیں اسی طرح مایوسی کے عالم میں گزر گئی۔ آخر چور نے جوہری سے کہا کہ "دن کے وقت تو ہیرا تمھارے پاس ہوتا ہے، رات کو کہاں جاتا ہے۔مجھے تین راتیں جاگتے ہوئے گزر گئیں، مگر رات کو ہیرا کہیں نہیں ملتا"۔
جوہری نے کہا ۔"تم میرے اسباب میں ہیرا تلاش کرتے رہے ہو، کاش! کبھی اپنے اسباب میں بھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تو تمھیں مل جاتا"۔
سمجھنے کی بات یے ہے کہ
اللہ عزوجل کو اِدھر اُدھر ڈھونڈنے سے بھتر ہے ہم اللہ کو اپنے اندر ڈھونڈے...!!!
#قراةالعین زینب ایڈووکیٹ

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹ...
07/09/2025

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!
یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے
اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔

لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا، اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟

استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا: سب لڑکوں کو چھٹی، تم سب لوگ جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو، اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔

ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کو کہاں خرچ کیا ہے کا حساب دے گا۔

پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو دہم کیسے خرچ کیئے تھے۔

جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیئے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پاچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔

اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے،
حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔

استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔ لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی، اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔

استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو: یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔

لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلٰی و ارفع ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور

ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین
゚viralシfypシ゚viralシalシ






゚viralfbreelsfypシ゚viral









>دو منٹ پہلے میرا انتقال ہوگیا تھا، میں نے خود کو تنہا فرشتوں کے گروہ کے درمیان پایا، اور کچھ اور لوگوں کے ساتھ جن کو می...
06/09/2025

>
دو منٹ پہلے میرا انتقال ہوگیا تھا، میں نے خود کو تنہا فرشتوں کے گروہ کے درمیان پایا، اور کچھ اور لوگوں کے ساتھ جن کو میں نہیں جانتا تھا.
میں نے ان کی منت سماجت کی کہ وہ مجھے دوبارہ زندہ کرکے زمین پر بھیج دیں کیونکہ میری بیوی ابھی کمسن ہے، میرے بچے نے ابھی روشنی بھی نہیں دیکھی. کیونکہ میری بیوی حاملہ ہے اور یہ اس کا تیسرا ماہ ہے. کئی منٹس گزر گئے تب ایک فرشتہ میرے پاس آیا. اس کے پاس کوئی ایسی چیز تھی جو ٹیلی-ویژن کی طرح تھی. اس نے مجھے بتایا کہ زمین اور یہاں کے وقت میں بہت زیادہ فرق ہے. یہاں کے چند منٹس زمین پر کئی دنوں کے برابر ہیں. آپ اپنے پیاروں کو یہاں سے چیک کرسکتے ہیں اور اس نے ٹیلیویژن سکرین آن کردی. میری بیوی سکرین پر نظر آئی اس نے ایک چھوٹا بچہ اپنی گود میں اٹھایا ہوا تھا. پکچر بہت تیزی سے گزر رہی تھی، ہر منٹ بعد وقت تبدیل ہورہا تھا. میرا بچہ بڑا ہوتا جارہا تھا اور سب کچھ بدل چکا تھا. میری بیوی نے فرنیچر تبدیل کرلیا اور اس نے میری پینشن لینا شروع کردی. میرے بیٹے نے سکول جانا شروع کردیا. میرے بھائی، ایک کے بعد ایک نے شادی کرلی. ہر کسی کی اپنی زندگی تھی. کئی حادثات رونما ہوئے.
لوگوں کے رش میں اور بلرڈ پکچر میں، میں نے کسی چیز کو بیگروانڈ میں ساکن دیکھا. یہ سیاہ سائے کی مانند تھا. کئی منٹس گزر گئے مگر یہ سایہ تمام تصویروں میں وہیں پر موجود رہا. کئی سال گزر گئے یہ سایہ چھوٹا ہوتا گیا اور بے جان ہوتا گیا. میں نے ایک فرشتے کو بلایا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس سائے کو میرے قریب کردے تاکہ میں اس کو آسانی سے دیکھ سکوں. وہ ایک ہمدرد فرشتہ تھا. اس نے نہ صرف پکچر کو میرے لیے زوم کردیا بلکہ ساتھ زمین کے اوقات کے حساب سے پکچر سیٹ کردی.
میں پندرہ سالوں سے یہاں اس سکرین کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس سائے کو دیکھ رہا ہوں، جب وہ روتا ہے تو میں بھی رو پڑتا ہوں. یہ سایہ کوئی اور نہیں
"میری ماں ہے!"
゚viralシfypシ゚viralシalシ







゚viralfbreelsfypシ゚viral

06/09/2025
یقین، صبر، اور شکر—یہ تین چیزیں زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ جو شخص ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے، اسے اللہ ہر حال میں خو...
05/09/2025

یقین، صبر، اور شکر—یہ تین چیزیں زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہیں۔ جو شخص ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے، اسے اللہ ہر حال میں خوش رکھتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، اچھا کرتے ہیں، تو قدرت ہمارے لیے بھی راستے آسان کر دیتی ہے

آپ نے کبھی بڑے بڑے اور مینا کاری سے مزین ٹرکوں کو دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ان خوبصورت ٹرکوں میں بسا اوقات ایک...
05/09/2025

آپ نے کبھی بڑے بڑے اور مینا کاری سے مزین ٹرکوں کو دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ان خوبصورت ٹرکوں میں بسا اوقات ایک کم سن بچہ بھی ہوتا ہے۔۔۔ یہ بچہ کون ہے ؟ کیا وہ ڈرائیور کا بیٹا ہے یا رشتہ دار؟ یا کوئی کام سیکھنے والا apprentice؟ آخر اس کا یہاں کام کیا ہے۔
ٹرک ڈرائیورز اور کنڈکٹرز اکثر ان بچوں کو لمبے سفر پر اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ یہ وہی غریب اور بے سہارا بچے ہیں جو چند پیسوں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہاں ان کی ضرورت ایک سیکس پارٹنر کے طور پر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر مجال ہے جو کوئی اس پر بات کرے۔ سب جانتے بوجھتے اس موضوع کو ٹیبو یا شجر ممنوعہ بنا کر آنکھیں بند کیے رہتے ہیں؟ رفتار چینل پہ دکھائی گئی ڈاکومنٹری میں ایک بدبخت ڈرائیور کےمطابق “لڑکوں کے ساتھ سونا ان کا واحد ’’سورس آف انٹرٹینمنٹ‘‘ ہے۔
"ٹرک میں بچہ ساتھ ہوتا ہے،اپنا ہاتھ ہے، جو دل چاہے اس سےکام لیں، بوسہ لے لیا یا کچھ اور۔۔ہم تو مہینہ مہینہ گھر نہیں جاتے، دل بھر جاتا ہے۔۔بیوی کو ساتھ رکھنا اسلام میں جائز نہیں، پردے کا حکم ہے،اسےگھر میں ہونا چاہیے"

بچوں کے ساتھ اس زبردستی کے پیچھے کیا سوچ ہے؟ ذرا اس سے اندازہ لگائیے:

دریا کے اُس پار ایک لڑکا مجھے بالکل آڑو جیسا دکھتا ہے، افسوس کہ میں تیرنا نہیں جانتا۔
زخمی سندارا نامی ایک پشتو گانے میں یہ شعر بار بار آ تا ہے، یہ گانا پاکستان بننے سے بھی پہلے کا ہے اور ایک روایت کے مطابق یہ بول پشتو زبان کے مشہور
شاعر خوشحال خان خٹک کے ہیں۔ کم عمر بچوں سے جنسی خواہش پوری کرنے کی تاریخ، افغانستان اور وسط ایشیا میں ایک ہزار سال سے بھی پہلے ملتی ہے۔ جرمن ایتھنو گرافک ریسرچ کے مطابق پہاڑوں میں رہنے والے بڑی عمر کے شادی شدہ مرد بھی چھوٹے لڑکوں کو چائلڈ پروسٹیٹیوشن یا سیکس سلیو کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔

دل کی حالت یہ ہے کہ خون کھول رہا ہے اور ضبط مشکل ہے۔
یہ انسان نہیں، حیوان بھی نہیں… یہ درندے ہیں جو معصوم بچوں کی مسکراہٹ، ان کے خواب اور ان کا بچپن نوچ کے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ افغانستان میں تو یہ ناسور “کلچر” کے نام پر جیتا جاگتا پھوڑا ہے جو گُھلنے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔طاقتور اور دولت مند لوگ غربت کا فائدہ اٹھا کر والدین کے بچوں کو خرید لیتے ہیں یا زبردستی اٹھا لیتے ہیں۔ ان بچوں کو محفلوں میں عورتوں کے کپڑے پہنا کر نچایا جاتا ہے، ان کی عزت پامال کی جاتی ہے اور ان کی معصوم آنکھیں ہمیشہ کے لیے بجھ جاتی ہیں۔

جس معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کر دینا ایک عام سی بات ہو، وہاں اس کھلی بے غیرتی کا بھلا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو دین سے دوری اور کلچر کے ڈبل اسٹینڈرڑز کو ظاہر کرتی ہے۔ جہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا جرم سمجھا جائے، وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کا یہ اوپن سیکریٹ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یہ ظلم صرف ایک لمحے کا نہیں یہ نسلوں کی بربادی ہے۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس فعل کا باقاعدہ مربوط نظام ہے جو قبائلی معاشرے، خصوصاً خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے بیشتر حصے میں عام ہے۔ 6/7 سال کا بچہ اپنی کسٹڈی میں لے کر اسے پہلے ٹرین کیا جاتا ہے اور پھر اگلے 10/15 سال اس کو ہر طرح سے نوچ کھاتے ہیں یہ بیغرت ، اسلام کے نام لیوا جاہل اور گھناؤنے لوگ۔ اوپر اوپر سے نماز اور دینی شعائر کے پابند، عورتوں کو پردہ کے نام پہ قید کر کے مردوں سے خواہش پوری کرتے نظر آتے ہیں۔

جبکہ اسلام نے ایسے گھناؤنے فعل کے بارے میں نہایت سخت حکم دیا ہے۔ قرآن و سنت میں لواطت اور بدکاری کرنے والے کے لیے واضح کیا گیا ہے کہ:

“جو بھی یہ فعل کرے، خواہ فاعل ہو یا مفعول، دونوں کو قتل کیا جائے۔” (ترمذی، ابوداؤد)

یہ اعلان ہے کہ اس درندگی کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ زمین پر فساد ہے اور اس کے مجرم واجب القتل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی فرمایا: “زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔”

اب سوچو، جب عام زنا کو اللہ نے اتنی بڑی فحاشی کہا، تو معصوم بچوں کے ساتھ یہ ظلم کتنا بڑا جرم ہوگا؟
سب سے بڑی لعنت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان طاقتور ہاتھوں سے ہوتا ہے جن کے آگے قانون بے بس ہو جاتا ہے۔ جیسے بچوں کی عزت اور ان کا مستقبل کوئی قیمت ہی نہیں رکھتے۔ لیکن یاد رکھو! اللہ کے ہاں کوئی سفارش، کوئی رشوت، اور کوئی طاقت نہیں چلے گی۔ ان درندوں کو دنیا میں قانون سے شاید ریلیف مل جائے، مگر آخرت میں جہنم ان کا مقدر ہے۔

——-


゚viralシfypシ゚viralシalシ





゚viralfbreelsfypシ゚viral

Address

Faisalabad

Telephone

+923170757893

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr.Buraq medicare posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr.Buraq medicare:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram