22/06/2025
عوام کی توقعات اور حقیقت کے درمیان ایک گہرا فاصلہ ہے، خاص طور پر ڈاکٹروں کے حوالے سے۔
لوگ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر مفت میں سب کچھ کریں !
فون پر بلا معاوضہ بیماری کی پوری کہانی سنیں، انکے لیے دعا بھی کریں اور دوا بھی تجویز کریں، سائیکل پر ہسپتال پہنچیں، ایمرجنسی میں فوراً اٹھ کر اے سی والے کمرے میں لٹا کر طاقت کی بوتلیں لگائیں۔ ڈسچارج کرتے وقت ہزاروں روپے مفت دیں، بوری بھر ادویات دیں، رات کو گھر گھر جا کر پوچھیں کہ کوئی مسئلہ تو نہیں۔
اگر آپ یہ سب نہیں کر رہے تو آپ “قصائی” ہیں۔
یہی نہیں، اکثر لوگ بڑی بے شرمی سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اپنی تنخواہ "ہمارے" ٹیکس کے پیسوں سے لیتا ہے، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر نے زندگی میں کبھی ٹیکس دیا ہی نہیں، نہ فائلر بنے، اور ان کے آباؤ اجداد نے بھی کبھی ایسا گناہ نہیں کیا۔ وہ ڈاکٹروں سے ایسی توقعات رکھتے ہیں جو اہل اقتدار سے رکھنی چاہیے۔
اب ذرا غور کریں!
ایک وکیل، ایک ڈیزائنر، ایک اکاؤنٹنٹ یا کوئی بھی پیشہ ور اپنی مہارت کے مطابق اپنی محنت کی اجرت لیتا ہے۔
کیا وہ بھی مفت میں کام کرے؟
کیا وہ بغیر مناسب معاوضہ کے دن رات اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر کام کرے؟
پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والا ہر شخص اپنی محنت کی قیمت لیتا ہے، لیکن ڈاکٹر سے لوگ مفت علاج اور ان گنت قربانیوں کی توقع رکھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں، خاص طور پر پاکستان جیسے ماحول میں جہاں وسائل کم، مریض زیادہ، اور سہولیات نا کافی ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹروں کا ماحول نہایت مشکل ہے: بیمار لوگ، بدتمیز مریض، کم تنخواہ، غیر محفوظ ہسپتال، کبھی کبھار تشدد کا سامنا۔ پھر بھی وہ ہر روز مریضوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں۔
یہ کہنا کہ ڈاکٹر مفت کام کرے اور سب کی خدمت کرے، یہ نہ صرف ان کی محنت کا مذاق اڑانا ہے بلکہ ان کی عزت اور جان کی قدر نہ کرنا ہے۔
کیا ہم اپنی توقعات کو حقیقت کے قریب لائیں گے؟
یا بس الزام تراشی جاری رکھیں گے؟
ڈاکٹر بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، ان کی بھی زندگی ہے، اور ان کی بھی محنت کا معاوضہ ملنا چاہیے۔ یہی انصاف ہے۔ یہی حقیقت ہے.