Ahmad Raza

Ahmad Raza Dispenser and pharmacy technician

تاریخ کو محفوظ کریں، یہ تاریخی ہو جائے گا!  8 اپریل 2024 کو مکمل سورج گرہن نظر آئے گا اور دن رات میں بدل جائے گا۔  درجہ ...
27/03/2024

تاریخ کو محفوظ کریں، یہ تاریخی ہو جائے گا! 8 اپریل 2024 کو مکمل سورج گرہن نظر آئے گا اور دن رات میں بدل جائے گا۔ درجہ حرارت گر جائے گا، جانور کیچڑ سے بھر جائیں گے اور اندھیرا سورج کی روشنی کو رات میں بدل دے گا۔ ہم 375 سال تک اس طرح کا دوسرا مکمل سورج گرہن نہیں دیکھیں گے۔💔😥

سانحہ لنجوٹ۔۔۔..!ایک  درد بھری قیامت خیز رات۔۔۔۔۔24 اور 25 فروری 2000 کی درمیانی شب آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیا...
27/02/2024

سانحہ لنجوٹ۔۔۔..!
ایک درد بھری قیامت خیز رات۔۔۔۔۔24 اور 25 فروری 2000 کی درمیانی شب آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال میں ایل او سی کے عین اوپر واقعہ گاوں لنجوٹ میں ابھی شام کو سالانہ ختم سے فارغ ہو کر گاوں کے لوگ گھروں کو روانہ ہوئے تھے جبکہ امام مسجد مولوی فیض محمد رات پڑنے کی وجہ سے اسی گھر میں رک گئے تھے۔ یہ علاقہ کا ایک بڑا گھر تھا اس رات گھر میں عورتوں بچوں سمیت کل 18 افراد قیام پذیر تھے۔ گھر کی خواتین گھر کے صحن میں بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں کہ انہیں گھر کے قریب جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ جنگلی جانور سمجھ کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ آہستہ آہستہ ہلکی ٹھنڈی شب کا اندھیرا گہرا ہوتا گیا اور گھر کے مکین کمروں میں چلے گئے۔ لائن آف کنٹرول پر حسب معمول کراس فائرنگ بھی جاری تھی۔ سب لوگ فائرنگ کی آوازوں میں سو گئے کہ یکایک فائرنگ کی آواز بہت تیز ہو گئی۔ بچے سوتے رہ گئے اور گھر میں موجود بڑے جاگ گئے۔ صحن میں کافی لوگوں کے بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں پھر اچانک دروازے پر فائر لگے اور دروازے کی چٹخنی ٹوٹ گئی۔ بھارتی فوجی وردی میں ملبوس کافی تعداد میں فوجی گھر کے اندر گھسے اور گھر میں موجود سوتے جاگتے سب افراد پر فائر کھول دیا۔ گھر کے اندر موجود افراد نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بے سود، گھر کے ایک جوان مرتضی کو دروازے میں لٹا کر زبحہ کیا گیا جبکہ بزرگ محمد عالم کا سر کاٹ کر انکی لاش کرسی پر بٹھا دی گئی۔ مرتضی کی نوبیاہتہ اہلیہ جو زخمی حالت میں نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھی اسے گھر سے کچھ فاصلے پر پکڑا گیا اور پتھر کی جائے نماز پر لٹا کر زبحہ کیا گیا۔ اسکی لاش قریب درخت کے ساتھ کھڑی کر کے اسکا سر اور بازو کاٹ کر بھارتی کمانڈوز اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ محمد اشتیاق اور محمد یونس گولیاں لگنے کے باوجود کھڑکی سے باہر نکلے اور قریبی پہاڑی سے چھلانگ لگا کر قریبی آبادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور قریبی آبادی کے مکینوں کو سانحہ کی اطلاع دی جس پر مقامی آبادی گھٹاٹوپ اندھیرے میں سانحہ کی جگہ پہنچ گئی تب تک درندے اپنا درندگی کی داستان رقم کر کے جا چکے تھے۔
اطلاع ملنے پر سب سے پہلے اس گھر میں پہنچنے والے محمد شوکت اعوان نے جو مناظر دیکھے وہ بیان کرتے ہیں کہ
"24 اور 25 فروری2000 کی درمیانی شب بارہ بجے بجلی بند ہو گئی۔بجلی بند ہونے کے چند لمحوں بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔جس سے درودیوار ہل گئے۔ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔۔۔
اس دھماکے کیساتھ ہی۔۔۔۔گولہ باری اور شدید فائرنگ کا ایسا طوفان برپا ہوا۔۔۔کہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک ہمیں اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔بظاہر جنگ کا ماحول ہی لگ رہا تھا۔اور ہم خوف میں ذہنی طور پر تیار تھے کہ دشمن پیش قدمی کر رہا ہوگا۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہم نچلے محلے والے اپنی محدود حکمت عملی میں مصروف تھے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔۔۔بھاگ سکتے نہیں تھے۔اس لئے یہ کیا کہ گھروں سے نکل کر دائیں بائیں کچھ عارضی پناہ گاہوں میں چھپ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔۔۔۔۔اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔۔۔
اسی خوفناک صورتحال میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔پھر اچانک گولہ باری کا طوفان بالکل تھم گیااور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔
خاموشی کے اولین لمحے میں ہمارے عقب سے کراہنے کی خوفناک آوز آئی۔تو ہم ڈر گئے۔۔لیکن ہمت کر کے پکارا۔۔۔
کون ہے؟؟ کون ہے؟؟؟
"میں اشتیاق ہوں۔مجھے گولی لگی ہے۔مجھے بچاو۔۔۔"
(اشتیاق عبد الحمید کا نواسہ تھا جو فوج میں تھا اور چھٹی پر تھا)
ہم بھاگ کر اشتیاق کی پاس پہنچے۔اسے چادر میں لپیٹا۔اور نیچے گھرلائے۔کپڑے سے اس کا خون بند کیا۔اتنی دیر میں شور بلند ہونے لگا تھا۔ایک اور فوجی نوجوان جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔۔وہاں سے زخمی حالت میں بھاگنے میں کامیاب ہو چکا تھا ورایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔
اشتیاق نے مختصرا بتایا کہ نانا جان کے گھر انڈین کمانڈوز نے سب کو ماردیا ہے۔۔۔۔
وہ پھر بےہوشی میں چلا گیا۔۔بہت شدید زخمی تھا۔سینے میں خوفناک سوراخ ہو چکا تھا۔اور سردی سے ٹھٹھر چکا تھا۔ہم نے اسے چادروں میں لپیٹااور چند ساتھیوں کےحوالے کیا کہ اسکو خاموشی کیساتھ فائرنگ رینج سے نکالو۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔اوپر والے گھر پہنچنا تھا۔ایک دو نوجوان کمر بستہ ہو گئے۔ اور اوپر کی طرف چل پڑے۔۔جب قریب پہنچنے لگےتو ہماری پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے۔انہوں نے آگے جانے سے روکنا چاہا۔۔لیکن ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کور فائر دیں۔ہم آگے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم فائر نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوزیشن لے لی ہے۔آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔فائر کیا تو واپس نکلنا مشکل ہو جائے گا۔انتہائی ضرورت میں فائر کر کے نیچے ہو جائیں گے۔۔۔آپ اپنے رسک پر جا سکتے ہیں۔
ہمیں خدشہ تھا کہ دشمن آس پاس ہوا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔ بہرحال ہمت کر کے کچھ آگے بڑھے۔مکان کے بلکل قریب سے جائزہ لیا۔بلکل خاموشی تھی۔یعنی کسی کے زندہ بچنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔۔
ہم نے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کیا۔کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ آنے والی خواتین چیخ و پکار کرنے لگی۔مرد حضرات انکو چپ کرا رہے تھے۔بہرحال۔۔
یہ ایک خود کش ہمت والی بھرپور کوشش تھی کہ ہم تین چار لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔
مکان کے لکڑی کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ہمارے پاس ٹارچ تھی۔اندر داخل ہوتے ہی بارود کی بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔اوپر سے دشمن یقینا ہمیں مانیٹر کر رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ٹارچ جلائی تو سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی۔اسکی گردن ساتھ نہیں تھی۔پاس میں ایک چارپائی ٹوٹی ہوئی تھی جو اسکی طرف سے کی گئ مزاحمت کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہم نے غور کیا تو یہ حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا نوجوان مرتضی تھا۔کچھ کاغذات وغیرہ اسکے سینے پر پڑے ہوئے تھے۔جو اسکی جیب سے نکلے تھے۔۔لیکن اسکی بیوی ہمیں نہ مل سکی۔
۔یہ مکان کا داخلی حصہ تھا جسکو اپنی زبان میں" پسار" کہتے ہیں۔وہاں ہمیں دو تین لاشیں اور بھی ملیں۔لیکن پہچان نہ ہو سکی۔جب ہم نے باتیں کرنا شروع کیں اور لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔تو نیچے سے ہمیں دو بچیاں زندہ سلامت مل گئیں۔انہیں بال برابر زخم نہیں تھا لیکن وہ شاک میں تھیں۔جب ہم نے ہلایا تو وہ چیخ پڑیں۔انکو اٹھا کر ہم نے نیچے بھیجا وہاں سے ہمیں دوبچے بھی زندہ ملے جو زخمی تھے اور شاک میں تھے۔بعد ازاں ہاسپٹل میں انکی بھی شہادت ہو گئی۔۔۔
اب ہم ایک اور کمرے میں داخل ہوئے۔اس کمرے میں دونوں بزرگ تھے۔90 سالہ بابا محمد عالم۔ اور انکے ہم عمر مولوی فیض۔
بابا عالم ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن انکی گردن ساتھ نہیں تھی۔۔۔
ساتھ ہی دوسری کرسی پر سفید ریش مولوی فیض۔۔۔
ایسا لگا وہ بلکل زندہ سلامت ہیں۔لیکن خاموس تھے۔ہم نے ہلایا تو انکی گردن دوسری طرف ڈھلک گئی۔وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔۔۔
اب تیسرے کمرے کی طرف بڑھے۔۔وہاں دو معصوم بچے فریاد اور عماد۔۔اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ چکے تھے فریاد کا آدھا چہرہ اڑ چکا تھا اور اسکی والدہ کو کئی گولیاں لگی تھی۔وہ تینوں دم توڑ چکےہوئے تھے۔
ہم کسی شہید کو نہیں اٹھا رہے تھے۔بلکہ زندہ اور زخمیوں کو تلاش کر رہےتھے۔
اب آخری کمرے میں داخل ہوئے۔تو ایک خاموش زخمی خاتون نے اچانک چیخ ماری۔ہم پاس پہنچے۔اسکی 8 سالہ بچی اسکے پاس شہید پڑی تھی۔۔ہم نے اس خاتون کو اٹھانے کی کوشش کی۔تو اسنے بتایا کہ میرا پیٹ کٹا ہوا ہے۔مجھے نہ اٹھانا۔
دل دہلا دینےوالا منظر تھا۔وہ خاتون حاملہ تھی۔اسکا پیٹ پھاڑا ہوا تھا۔وہ زندہ تھی۔لیکن اس کی انتڑیاں باہر تھیں۔اسکو ایک چادر میں لپیٹا اور کچھ لوگ اسکو لیکر بھاگتے ہوئے فائرنگ رینج سے نکلنے لگے۔۔۔
اب زخمی اور زندہ لوگوں کو نکال چکے تھے۔یہ زخمی خاتون ۔۔۔زخمی نوجوان یونس کی اہلیہ تھی۔اسکو جب لیکر ہم تھوڑے نیچے پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے آگے نہ لے جاو۔ اپنے اکلوتے بچےسے ملوا دو۔ لیکن زخمی بچے کو ہم پہلے ہی روانہ کر چکے تھے۔
یہ خاتون چند لمحے زندہ رہی۔پھر اپنے زخمی خاوند کیساتھ باتیں کرتے کرتے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی۔۔۔
اب ہم نے جو گنتی کی تھی اسکے مطابق ہمیں مرتضی کی
نو بیاہتا بیوی نہیں مل رہی تھی۔
جس کھڑکی سے اشتیاق اور یونس نکل کر بھاگے تھے۔اور بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اسی کھڑکی سے وہ خاتون بھی نکلی اور چیخ و پکار کرتے جب بھاگی تو بھاگتےہوئے پہلے اسکو گولیاں ماری گئی۔پھر ادھر نماز کے لئے پتھروں سے ایک جگہ بنائی ہوئی تھی۔وہا اسکو ذبح کیا گیا اور دایاں بازوں اور گردن لیکر دشمن فرار ہو گیا۔اسکی لاش صبح کے وقت ملی۔"
اس سانحہ میں گھر میں موجود 18 افراد میں سے 14 کی شہادت ہو گئی۔ 2 بچیاں جو لاشوں کے نیچے تھیں اور بھارتی فوجی انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے

آج اس سانحہ کو بیتے 24 سال پورے ہو چکے ہیں۔ شروع میں تو اس سانحہ کو سرکاری سطح پر یاد کیا جاتا تھا تاکہ نئی نسلوں کو پتہ چلے کشمیریوں نے خونی لکیر میں کس قدر خون کی ندیاں بہائی ہیں مگر پھر روایتی بے حسی حکمرانوں پر غالب آ گئی۔ شہداء کو ڈبسی کے مقام پر سپردخاک کیا گیا جہاں ایک صف میں 14 قبریں اور قبرستان کے دروازے پر لکھی عبارت اس داستان کو زندہ رکھے ہوئے ہے جبکہ لنجوٹ ہائی سکول اور گراونڈ کو شہدائے لنجوٹ سے منسوب کیا گیا۔ 24 سال گزر جانے کے باوجود حکومت پاکستان نے ان سرکٹی لاشوں کے سر اور بازو بھارت سے واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔

Copied

درحقیقتپاکستان میں حلوہ بس کھا سکتے ہیں پہن نہیں سکتے آج کے بعد یہ بھی حلوے والے لباس کی نمائش نہیں کرے گی۔ دعا دے پولیس...
26/02/2024

درحقیقت
پاکستان میں حلوہ بس کھا سکتے ہیں پہن نہیں سکتے
آج کے بعد یہ بھی حلوے والے لباس کی نمائش نہیں کرے گی۔ دعا دے پولیس کو جو وقت پر آ گئی نہیں تو اس وحشی قوم نے اس کا کنیادان کر دیا ہوتا اب تک
زیر نظر تصویر میں نظر آنے والی خاتون کو ہجوم نے اس لئے گھیر رکھا تھا کہ انہیں لگتا تھا کہ اس خاتون نے قرآنی آیات والا لباس زیب تن کررکھا ہے اور اگر پولیس موقع پر نا پہنچ پاتی تو شاید اب تک اس خاتون کو مار بھی چکے ہوتے مگر کسی کو یہ توفیق نا ہوئی کہ معلومات کرلے کہ یہ سوٹ دراصل قرآنی آیات نہیں بلکہ عربی کیلیگرافی والا ڈیزائن ہے جو سعودیہ میں عام ملتا ہے اور اس کے اوپر عربی لفظ حلوہ لکھا ہوا ہے جس کے معنی حسین، خوبصورت اور سویٹ ہے۔

"غیرت" اتنی کہ عربی رسم الخط میں لکھا 'حلوہ' بھی برداشت نہیں۔۔😬اور "علم" اتنا کہ قرآن اور غیرِ قرآن میں فرق بھی معلوم نہ...
26/02/2024

"غیرت" اتنی کہ عربی رسم الخط میں لکھا 'حلوہ' بھی برداشت نہیں۔۔😬
اور "علم" اتنا کہ قرآن اور غیرِ قرآن میں فرق بھی معلوم نہیں ! 😔
حقیقی گستاخ یہ ہیں جو قرآن کریم کی اصل آیات اپنی چادروں پر لکھوا کر برہنہ جسم کے اوپر لیتے ہیں اور مریدین کے مال اور عزتوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں،🤫
اس ملک میں جاہلوں کی کمی نہیں ہے،
نہ بھی ڈھونڈو تو ہزار ملتے ہیں،🤷

غریب اب کہاں جائیں ۔ ظالمو 10 نہیں 20 نہیں پورے 200 سو روپیہ ریٹ ایک ہی دفعہ بڑھا دیا گیا۔ میرا اللّه غریبوں پر رحم فرما...
22/02/2024

غریب اب کہاں جائیں ۔
ظالمو 10 نہیں 20 نہیں پورے 200 سو روپیہ ریٹ ایک ہی دفعہ بڑھا دیا گیا۔
میرا اللّه غریبوں پر رحم فرما۔ آمین

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنمیرے چاچو جان کی بیٹی اج وفات پا گئی ہے 😥 نماز جنازہ اج دن کے 11:30 بجے نناه کے...
20/02/2024

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
میرے چاچو جان کی بیٹی اج وفات پا گئی ہے 😥
نماز جنازہ اج دن کے 11:30 بجے نناه کے مقام پر ادا کی جائے گی

20/10/2022
20/10/2022

اوور سیز پاکستانیوں کوہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہوں٬ اپنے دلوں کا سکون اپنے گھروں میں تلاش کریں۔جس طرح جنگل کا جانور چڑیا گھرمیں اکیلا جلد ختم ہوجاتا٬اسی طرح اوورسیز بھی فیملی لاٸف کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ہر ممکن کوشش کریں٬ پاکستان ہو یا بیرونِ ملک اپنی فیملی کو اپنے ساتھ رکھیں۔

Ahmad Raza

آزاد کشمیر کا علاقہ تیتری نوٹ عباس پور ۔گزشتہ ہفتے کے دوران دو بچوں کی وفات ۔انتہائی دکھ کی بات ہے سانپ کے ڈسنے کی وجہ س...
19/10/2022

آزاد کشمیر کا علاقہ تیتری نوٹ عباس پور ۔
گزشتہ ہفتے کے دوران دو بچوں کی وفات ۔
انتہائی دکھ کی بات ہے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے یہ اموات ہوئی ۔
المیہ یہ ہے ہمارے ہسپتالوں میں سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہی نہیں حالانکہ کشمیر پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں سانپ کے ڈسنے کا چانس زیادہ ہی رہتا ہے ۔
مگر ابھی تک کسی بھی مقامی ہسپتال میں اس کا علاج نہیں ہو رہا ہے کیونکہ غریب لوگ کام کرتے ہیں اس لیے سہولت موجود نہیں ہے اللہ پاک ہم سب کو ایمانداری سے کام کرنے والوں میں شامل کرے آمین
Ahmad Raza

Address

Gam Kotli

Telephone

+923475433139

Website

https://www.youtube.com/@AhmadMedicalChannel

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ahmad Raza posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Ahmad Raza:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram