Sukhan saraey سُخن سرائے

Sukhan saraey سُخن سرائے شاعری جذبات کے اظہار کا سب سے موثر اور خوبصورت ذریعہ ہے ۔یہ پیج اسی اظہار کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔

22/03/2024

صد شکر کہ افلاس کی یلغار میں دانشؔ
فاقہ کوئی توہینِ ہنر تک نہیں پہنچا

22 مارچ 1982ء
یومِ وفات
جناب احسان الحق دانشؔ مرحوم و مغفور

16/02/2024

انتہائی شفیق استادِ محترم پروفیسر اسلم ورک صاحب سے سنا ہوا موجودہ حالات کی ترجمانی کرتا ہوا تلمیحی شعر دوستوں کی نذر

یزیدیت نے اُٹھایا ہے سر زمانے میں
کوئی حُسین کو آواز دے خدا کے لیے

13/02/2024

حاضر جوابی مہذب گستاخی ہے۔
ارسطو

وِچ کعبے ہاتھی مر گئے ابابیلاں ہتھیتقدیراں اگے باز بُوز کُجھ نہیں ہوندےوچ  زبانو  جے  کڈ  بیٹھا  ایںفیر راز رُوز کچھ نہی...
31/01/2024

وِچ کعبے ہاتھی مر گئے ابابیلاں ہتھی
تقدیراں اگے باز بُوز کُجھ نہیں ہوندے

وچ زبانو جے کڈ بیٹھا ایں
فیر راز رُوز کچھ نہیں ہوندے

عزیز

30/01/2024

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی

فردوس گیاوی

بُتوں کے شہر میں لُٹتے تو کوئی بات نہ تھی،خدا گواہ ہے لُٹے ہیں خدا کی بستی میں۔۔۔
24/01/2024

بُتوں کے شہر میں لُٹتے تو کوئی بات نہ تھی،

خدا گواہ ہے لُٹے ہیں خدا کی بستی میں۔۔۔

23/01/2024

من نَدیدَم ہِیچ جائے یَک درختے، چار گُل۔
زُلف سُنبل، چَشم نرگس، لَعل لب، رُخسار گُل۔

(ترجمہ)
(اپنے محبوب کے سوا تو) میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ درخت تو ایک ہو اور اس پر چار قسم کے پھول ہوں۔
(میرے محبوب کی) زلف تو مانندِ سنبل ہے' آنکھ گلِ نرگس ہے' لب مثلِ یاقوت ہیں اور رخسار مثالِ گُل ہیں۔

از جلوۂ علم بے نیازمسوزم، گریم، تپم، گدازماقبال  (پیامِ مشرق)میں علم کے جلووں اور چمک دمک اور بکھیڑوں سے بے نیاز ہوں، (م...
17/01/2024

از جلوۂ علم بے نیازم
سوزم، گریم، تپم، گدازم

اقبال (پیامِ مشرق)

میں علم کے جلووں اور چمک دمک اور بکھیڑوں سے بے نیاز ہوں، (میں تو بس) جلتا ہوں، گریہ و زاری کرتا ہوں، تڑپتا ہوں، پگھلتا ہوں۔

16/01/2024

دُنیا میں دِل لگی کا مزہ ، دِل لگی سے ھے
آئے نہ جو کسی پہ ، وہ دوزخ میں جائے دِل

"نُوح ناروی"

16/01/2024

ایسی تلاش و تجسس میں کھو گیا ہوں میں
اگر ہوں تو کیوں' جو ہوں تو کیا ہوں میں

13/01/2024

‏جو قوتیں آپکے مجموعی پیداواری وسائل پر قابض ہیں، وہی قوتیں آپکے دماغ اور زبان پر بھی قابض رہینگی

کارل مارکس

09/01/2024

جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے

عدم

رقیب سے!فیض احمد فیضسیالکوٹ کے جس مکان میں فیض صاحب رہتے تھے اس کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی ۔ فیض اس کے عشق میں بھی مبتلا...
06/01/2024

رقیب سے!
فیض احمد فیض

سیالکوٹ کے جس مکان میں فیض صاحب رہتے تھے اس کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی ۔ فیض اس کے عشق میں بھی مبتلا تھے ، لیکن ایک دن کالج سے جب واپس گئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سال بعد جب فیض ، مشہور ہو گئے اور واپس اپنے شہر آئے تو وہ لڑکی بھی کہیں سے آئی ہوئی تھی ،اس کا شوہر بھی فیض سے ملنے کا مشتاق تھا ۔ ،فیض کہتے ہیں کہ میں ان سے ملا، تو لڑکی مجھ سے کہتی ہے 'مرا شوہر کتنا خوبصورت ہے' ۔اس موقع پر یہ نظم لکھی گئی تھی۔

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے

دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر

اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے

کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے

جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں

اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے

تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور

جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ

زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں

تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے

اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے

جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی

یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے

زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا

سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے

اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں

نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب

بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت

شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے

آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ

اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

31/08/2023
اس سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار طبقہ ایک طفیلیے کی طرح ہے جو غرباء کو اتنا کھانا کھلاتے ہیں جس سے اُس کا وہ خون بن ...
27/08/2023

اس سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار طبقہ ایک طفیلیے کی طرح ہے جو غرباء کو اتنا کھانا کھلاتے ہیں جس سے اُس کا وہ خون بن سکے جو انہوں نے چوسنا ہے ۔نہ تو وہ غریب کو اچھے سے زندہ رہنے دیتے ہیں اور نہ ہی مرنے دیتے ہیں

26/08/2023

ہم کو اُس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو تُن دیتے ہیں پریوار کے ساتھ

----احمد ناراض۔---

Address

Gujranwala
Gujranwala
52250

Telephone

+923006561963

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sukhan saraey سُخن سرائے posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Sukhan saraey سُخن سرائے:

Share