
14/01/2024
ڈپریشن مٹ سکتا ہے، بس تمہیں 'مایوسی' کے آگے بند باندھنا ہے۔
عمرفاروق
ڈپریشن کوئی ایسا ذہنی عارضہ نہیں کہ جسے روکا نہ جاسکے۔ جس کے آگے بند نہ باندھا جاسکے۔ دنیا بھر میں کڑوروں افراد ڈپریشن کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ قریباً ہر انسان کی زندگی میں ایک بار ضرور چکر لگاتا ہے۔ غیر معمولی انسانوں اور آرٹسٹوں کے ساتھ تو اس کا خاص یارانہ ہے مگر وہ لوگ فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ میرا موضوع عام نارمل انسان ہیں۔ میرا موضوع تم ہو۔ دنیا میں اگر کڑوروں افراد اس مرض کا شکار ہیں تو یہ صرف تمہارے ساتھ ہونے والی خاص چیز نہیں ہے۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اگر ڈپریشن میں ہو تو تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے بس تمہیں اس کو سمجھنا ہے۔ پھر تم اس سے باہر نکل سکتے ہو۔ تمہارا سائیکالوجسٹ تمہیں اس سے باہر نکال لائے گا تم بس اس پر یقین کرو۔ اس کے پاس جاؤ۔ اکیلے مت بیٹھو۔ تمہیں سارا دن بستر سے چپکے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ بعض ماہرین نفسیات کا خیال رہا ہے کہ جانوروں کے مطالعہ سے ڈپریشن کو بہتر انداز سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر چوہوں اور بندروں پر مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں مگر 1967 میں مارٹین سیلگمین اور پروفیسر اسٹیون کا کتوں پر کیا گیا تجربہ سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ جس کی بنیاد پر پروفیسر سیلگمین نے Theory of learned helplessness پیش کی۔ سیلگمین یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے نفسیاتی شعبہ کے نہ صرف پروفیسر ہیں بلکہ امریکن سائیکالوجیکل ایسوسیشن کے 1998 میں صدر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ 1942 میں نیویارک میں یہودی خاندان کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1964 میں فلسفہ میں پرنسٹن یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور ڈگری کے فوراً بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسکالر شپ پر 'تنقیدی فلسفہ' پڑھنے کا موقع ہونے کے باوجود یونیورسٹی آف پنسلوینیا چلے گئے جہاں 'حیوانوں کی عملی اور تجرباتی نفسیات' میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ 1967 میں جب سیلگمین نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تو یہی وہ سال تھا جب اس نے ڈپریشن، سٹریس اور انسانی افعال کو سمجھنے کے لئے کتوں پر ایک تجربہ کیا۔ تجربہ انتہائی سادہ شکل میں کچھ یوں تھا کہ: کتوں کو ایک باکس میں بند کر کہ بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ تکلیف کی وجہ سے کتوں نے اچھل کود کی اور بچنے کی راہ تلاش کرتے رہے مگر بچتے کیسے۔ کوئی رستہ تھا ہی نہیں۔ یہ جھٹکے ایک خاص شدت اور مقدار کے ساتھ دیے جاتے رہے جنھیں کنٹرول کرنا یا ان بجلی کے جھٹکوں سے بچ پانا کتوں کے لئے ناممکن تھا۔ ایک خاص مدت تک جھٹکے دینے کا سلسلہ جاری رہا اور صورت حال نے کچھ ایسا رنگ اختیار کیا کہ کتوں نے ڈپریشن اور اینگزائٹی کی علامات ظاہر کرنا شروع کردیں۔ چند ناکام کوششوں کے بعد کتوں نے بجلی کے جھٹکوں کو حقیقت تسلیم کرلیا اور یہ سیکھ لیا کہ ہم بے بس ہیں اور کسی بھی طرح کے حالات میں بچاؤ کی کوشش ترک کردی حالانکہ اگر وہ چاہتے تو باکس پھلانگ کر دوسری جانب جاسکتے تھے۔ جہاں بجلی کا نام ونشان بھی موجود نہیں تھا مگر وہ ہار مان چکے تھے۔ وہ مایوس ہوچکے تھے اور اسی مایوسی کے سبب ڈپریشن ان سے چمٹا رہا۔ انسان بھی ایسے ہی ہیں۔ جلدی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ درد سے دور بھاگتے ہیں۔ جب ماحول کا غیر معمولی دباؤ ہم انسانوں کو جکڑ لیتا ہے تو ہم ایک خاص ذہنی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ سب اختیار سے باہر ہونے لگتا ہے۔ دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مایوسی اور ناامیدی جنم لینے لگتی ہیں اور ہم اپنی ہی ذات میں دفن ہونے لگتے ہیں اور یوں ہماری زندگی جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ سب وہی رک جاتا ہے۔ کیوں تم خود ٹھہر جاتے ہو۔ تم اپنی ہی ذات کے خ*ل میں سمٹنے لگتے ہو لیکن اس سے کیا ہوگا؟ کچھ بھی تو نہیں۔ تمہیں اگر آگے بڑھنا بے تو تمہیں اٹھ کر قدم بڑھانے کی ہمت بھی کرنی ہوگی۔ ہم ماہرین نفسیات تمہارا ہاتھ پکڑنے کے لئے موجود ہیں۔ تم خود ہی ڈرے اور سہمے بیٹھے ہو۔ اٹھو۔ یہ ڈپریشن مٹ سکتا ہے۔ بس تمہیں اپنی 'مایوسی' کے آگے بند باندھنا ہے۔