HomeoPathic Dr Mohammad Amjad Malik

HomeoPathic Dr Mohammad Amjad Malik Welcome to the official Page of Dr Mohammad Amjad Malik,Dr Mohammad Amjad Malik is One of Gujranwala Premier Specialist harble& Homeopathy Consultant .

Thanks for messaging NOT TREATMENT PAGE ONLY Medical INFORMATION PAGE ﺻﺮﻑ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺗﯽ ﭘﯿﺞ ﮬﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﯽ ﻭ ﻧﺎﺻﺮ ﮨﻮ

ذیابیطس ایک لائف سٹائل بیماری ہے۔✍️روبینہ یاسمین  لائف سٹائل بدل لیں تو یہ بیماری نہیں رہتی۔ یہ بیماری ہمیں بتاتی ہے کہ ...
14/09/2025

ذیابیطس ایک لائف سٹائل بیماری ہے۔
✍️روبینہ یاسمین

لائف سٹائل بدل لیں تو یہ بیماری نہیں رہتی۔ یہ بیماری ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ضرورت سے زیادہ ریفائنڈ اور پراسیسسڈ چیزیں کھا رہے ہیں۔۔

ہم اناج کو مکمل حالت میں نہیں لے رہے۔ ہماری غذا میں پروٹین اور ڈائٹری فائبرز کی کمی ہے۔ فائبر روز کے ٹاکسنز کو اپنے ساتھ لے کر جسم سے خارج ہو جاتا ہے یعنی ایک ٹرانسپورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔

پروٹین ، فائبرز بڑھانے اور اناج کو مکمل حالت میں کھانے سے بلڈ شوگر کو اعتدال میں رکھا جا سکتا ہے۔ اب کچھ لوگوں کا سوال یہ ہوتا ہے کہ پروٹین سے یورک ایسڈ بڑھتا ہے۔

پروٹین کا بریک ڈاؤن کرنے میں جسم کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس محنت کی وجہ سے زیادہ کیلوریز استعمال ہوتی ہیں اور زیادہ کیلوریز جلنے سے وزن بڑھنے کا معاملہ بھی کنٹرول ہو جاتا ہے۔

پروٹین بریک ڈاؤن کے اینڈ رزلٹ پر بننے والی ٹاکسنز کو جسم سے نکالنے کے لئے غذا میں فائبر کا ہونا لازمی ہے۔ اس لئے جب بھی پروٹین کھائیں ساتھ میں فائبر والی سبزی کھائیں ۔

اسپغول ، ستو، السی کے پسے ہوئے بیج (فلیکس سیڈ) بھی فائبر بڑھانے کا آ سان طریقہ ہیں ۔۔سلاد میں تھوڑا سا دہی اور اوپر یہ چیزیں چھڑک کر کھائی۔۔تو آ پکا کھانا بالکل صحیح رزلٹ دیتا ہے۔


05/09/2025

بڑھاپا ٹانگوں سےاوپر کیطرف شروع ہوتا ہے۔ اپنی ٹانگوں کو متحرک اور مضبوط رکھیں ۔۔۔۔۔ !@@@@@

▪️ جیسے جیسے ہم سالوں میں آگے بڑھتے ہیں، ہماری ٹانگیں ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہنی چاہیے۔ جیسا کہ ہم مسلسل بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں اپنے بالوں کے سرمئی ہونے (یا) جلد کی جھریوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
▪️لمبی عمر کی علامات میں، ٹانگوں کے مضبوط پٹھے سب سے اہم اور ضروری ہیں۔
▪️اگر آپ دو ہفتے تک اپنی ٹانگیں نہیں ہلائیں گے (واک نہیں کریں گے) تو آپ کی ٹانگوں کی طاقت 10 سال تک کم ہو جائے گی۔
ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بوڑھے اور جوان دونوں، دو ہفتوں کی غیر فعالیت کے دوران، ٹانگوں کے پٹھوں کی طاقت ایک تہائی تک کمزور ہو سکتی ہے، جو کہ 20-30 سال کی عمر کے برابر ہے۔
▪️جیسے جیسے ہماری ٹانگوں کے پٹھے کمزور ہوتے جائیں گے، انہیں ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا، چاہے ہم بعد میں بحالی اور ورزشیں کریں۔
▪️اس لیے چہل قدمی جیسی باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے۔
▪️جسم کا سارا وزن ٹانگوں پر ہوتا ہے۔
▪️ پاؤں ایک قسم کے ستون ہیں جو انسانی جسم کا سارا وزن اٹھاتے ہیں۔
▪️دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی 50% ہڈیاں اور 50% پٹھے دونوں ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔
▪️انسانی جسم کے سب سے بڑے اور مضبوط جوڑ اور ہڈیاں بھی ٹانگوں میں ہوتی ہیں۔
▪️مضبوط ہڈیاں، مضبوط پٹھے اور لچکدار جوڑ "آئرن ٹرائی اینگل" بناتے ہیں جو انسانی جسم کا سب سے اہم بوجھ اٹھاتا ہے۔
▪️ انسان کی زندگی میں 70% سرگرمیاں اور توانائی کو جلانا دونوں پاؤں سے ہوتا ہے۔
▪️کیا آپ یہ جانتے ہیں؟ جب ایک شخص جوان ہوتا ہے تو اس کی رانوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ 800 کلو وزنی گاڑی اٹھا سکے!
▪️ ٹانگ جسم کی حرکت کا مرکز ہے۔
▪️دونوں ٹانگوں میں انسانی جسم کے 50% اعصاب، 50% خون کی شریانیں اور 50% خون ان سے بہتا ہے۔
▪️یہ سب سے بڑا گردشی نیٹ ورک ہے جو جسم کو جوڑتا ہے۔
▪️جب ٹانگیں صحت مند ہوتی ہیں تو خون کا بہاؤ آسانی سے ہوتا ہے اس لیے جن لوگوں کی ٹانگوں کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ان کا دل ضرور مضبوط ہوتا ہے۔
▪️ بڑھاپا پاؤں سے اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔
▪️جیسے جیسے کوئی شخص بڑا ہوتا جاتا ہے، دماغ اور ٹانگوں کے درمیان ہدایات کی ترسیل کی درستگی اور رفتار کم ہوتی جاتی ہے، اس کے برعکس جب کوئی شخص جوان ہوتا ہے۔
▪️اس کے علاوہ، نام نہاد بون فرٹیلائزر کیلشیم جلد یا بادیر وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جائے گا، جس سے بوڑھوں کو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ ہو گا۔
▪️بزرگوں میں ہڈیوں کا ٹوٹنا آسانی سے پیچیدگیوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر مہلک بیماریاں جیسے دماغی تھرومبوسس۔
▪️کیا آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر 15% عمر رسیدہ مریض، ران کی ہڈی کے فریکچر کے ایک سال کے اندر مر جاتے ہیں؟
▪️ ٹانگوں کی ورزش، 60 سال کی عمر کے بعد بھی کسی صورت نہیں چھوڑنی چاہیے۔
▪️اگرچہ ہمارے پاؤں/ٹانگیں وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بوڑھے ہوں گے، لیکن ہمارے پیروں/ٹانگوں کی ورزش کرنا زندگی بھر کا کام ہے۔
▪️صرف ٹانگوں کو مضبوط کرنے سے ہی کوئی شخص مزید بڑھاپے کو روک یا کم کر سکتا ہے۔

▪️براہ کرم روزانہ کم از کم 60 منٹ چہل قدمی Walk کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کی ٹانگوں کو کافی ورزش مل رہی ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کے ٹانگوں کے پٹھے صحت مند رہ

03/09/2025

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ M سیدھا لیکن W الٹا کیوں ہوتا ہے؟
کیونکہ Man (آدمی) کی سوچ سیدھی لیکن Women (عورت) اکثر الٹا ہی سوچتی ہیں،
ایسا ہی ایک تازہ ترین واقعہ میرے ساتھ ہوا

میں چوتھی منزل پر جانے کے لیئے لفٹ میں سوار ہوا تو ساتھ ہی ایک جوان عورت گود میں بچہ اٹھائے لفٹ میں داخل ہوئی
میں نے لفٹ کا بٹن دباتے ہوئے اُس سے پوچھا
"فرسٹ" یا "سیکنڈ" ؟؟
عورت منہ پھلاتے ہوئے غصے سے بولی
یہ میرا نہیں ہے 😡
پھپھو ہوں اسکی..
😂😂😂

31/08/2025

بچے دانی فورا نکلوا دیں !

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

کچھ دن پہلے فون پہ میسج کی گھنٹی بجی ۔ اٹھا کر دیکھا تو ایک الٹرا ساؤنڈ رپورٹ تھی اور ایک میسج ۔

“ میں فلاں کی بہن ہوں ، آپ کو فالو کرتی ہوں ۔ میں نے الٹرا ساؤنڈ کروایا تھا، رپورٹ آپ کو بھیج رہی ہوں ۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے “

یوں تو رہنمائی فرمانے کے لیے ہمہ وقت ہم تیار رہتے ہیں مگر اس کے لیے بیک گراؤنڈ جاننا ازحد ضروری ہوتا ہے ۔حکیم صاحب تو ہم ہیں نہیں کہ پردے کے پیچھے بیٹھی خاتون کی کلائی پہ بندھا دھاگہ پکڑ کر تشخیص کر ڈالیں ۔

ساتھ میں کچھ نازک مزاج بھی ہیں سو عام حالات میں ادھورے پیغام پہ طبعیت برہم ہو جاتی ہے مگر یہاں معاملہ شناسا کی بہن کا تھا سو مزاج پہ قابو پاتے ہوئے پانچ چھ سوال لکھے ۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دیکھنے کی زحمت ہم نے نہیں کی ۔ وہ بعد کی بات ہے ، دیکھ لیں گے ۔

عمر ؟
ازدواجی حثیت ؟
بچے ؟
تکلیف ؟

جواب ملا ؛ عمر بیالس برس ہے ۔ شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہوں ۔ تین چار ماہ پہلے ماہواری کا انداز کچھ بدل گیا ۔ ایک مہینے کی بجائے ڈیڑھ مہینے بعد آنے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر کو چیک کروایا ۔ انہوں نے دوا کھانے کو دی ۔ ماہواری پھر سے نارمل ہو گئی ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہی مجھے الٹرا ساؤنڈ کروانے کا کہا تھا۔ الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا بچے دانی فورا نکلوا دیں ۔

اب رپورٹ دیکھنے کی باری تھی ۔

بچے دانی کی دیواروں میں تین رسولیاں نظر آئی ہیں ۔ ایک کا حجم 4*3.1 سینٹی میٹر ہے ، دوسری 3.5*2.5 سینٹی میٹر اور تیسری 1.7*1.6 سینٹی میٹر ہے ۔
بچے دانی کی اندرونی جھلی نارمل ہے ، دونوں بیضہ دانیاں نارمل ہیں ۔

رپورٹ پڑھ کر ہم کچھ چکرائے ۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر ہم نے پھر سے پوچھا ، آپ کو تکلیف کیا ہے ؟
جواب ملا ؛ کچھ نہیں ۔

کیا ماہواری زیادہ آتی ہے ؟
نہیں ۔

کیا بار بار آتی ہے ؟
نہیں ۔

کیا پیٹ کے نچلے حصے میں مثانے پر بوجھ پڑتا ہے ؟
نہیں ۔

جی چاہا قہقہہ لگا کر ہنسیں اور پھرجا کر ڈاکٹر صاحبہ سے دست بستہ ملاقات کی جائے اور ان سے ڈاکٹری کی تعلیم ہی لے لی جائے ۔

ہمارا جواب تھا؛ بچے دانی نکلوانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

پھر کیا کروں ؟ حیرت بھرا سوال ۔

کچھ نہیں … ہمارا جواب ۔

کیا کسی دوا کا استعمال کرنا ہو گا ؟ ان کا اگلا سوال ۔

آپ کو کیا تکلیف ہے ؟ ہمارا سوال ۔

کچھ نہیں … ان کا جواب ۔

پھر کس بات کی دوا دوں آپ کو ؟ ہمارا سوال۔

پھر یہ .. یہ الٹراساؤنڈ رپورٹ .. وہ ہکلاتے ہوئے بولیں ۔

بھول جائیں اسے .. ہم نے کہا ۔

وہ .. وہ رسولیاں …

جی ہیں .. دیکھ لی ہم نے رپورٹ .. ہمارا جواب ۔

ان کا کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے پوچھا ۔

کچھ نہیں .. بس سال چھ مہینے بعد ایک الٹرا ساؤنڈ دوبارہ کروا لیجیے گا ..حجم اور ماہیت دیکھنے کے لیے … ہم نے سمجھایا ۔

پھر .. پھر .. ڈاکٹروں نے کیوں کہا کہ بچے دانی نکلوا دو ؟ انہوں نے بے چینی سے پوچھا ۔

کیونکہ آپ مریض نہیں ، کلائنٹ ہیں .. تو کچھ تو بیچا جائے گا نا آپ کو .. ہم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

صاحب اگر آپ پڑھتے پڑھتے یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو آپ کو ان رسولیوں کے بارے میں بتاتے چلیں ۔

بچے دانی خاص قسم کے مسلز سے بنی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ مسلز آپ ہی آپ ضرورت سے زیادہ پھلنا پھولنا اور بڑھنا شروع کرتے ہیں اور پتھر جیسی سخت رسولیاں بنا دیتے ہیں ۔ بچے دانی میں بننے والی ان رسولیوں کو فائبرائڈ کہتے ہیں ۔

فائبرائڈ ز کا حجم ایک بیر سے لے کر تربوز کے سائز تک کا ہو سکتا ہے۔ جیسے ان صاحبہ کی پہلی رسولی ڈیڑھ انچ کی ، دوسری ایک انچ کی اور تیسری آدھے انچ کی تھی ۔ ماپنے والی ٹیپ پہ دیکھ لیں کہ ایک انچ کتنا بڑا ہوتا ہے اور پھر خود فاصلہ کریں کہ کھجور ، جامن اور بیر کے سائز کی رسولیوں والی بچہ دانی کو فورا نکلوانے کا مشورہ کیوں ؟ جب کہ خاتون کو کوئی تکلیف ہی نہیں ۔

رسولی نامی لفظ کا فوبیا ہمارے معاشرے میں اس قدر ہے کہ ہر رسولی کینسر سمجھی جاتی ہے جبکہ پچانوے فیصد رسولیاں عام سی ہوتی ہیں جیسے کسی عضو میں کوئی گٹھلی بن جائے ۔

اب آپ بتائیں کہ جب کوئی تکلیف نہیں ، درد نہیں ، ماہواری میں زیادہ خون نہیں پھر آپریشن کس چیز کا کیا جائے — چھوٹی یا درمیانے سائز کے لیموں جیسی رسولیوں کا جو رگ پٹھے سے بنی گھٹلیاں ہیں ۔

آپریشن تب کیا جاتا ہے جب یہ رسولی خربوزے جتنی بڑی ہو جائے، درد ہونے لگے یا ماہواری کا خون کوئی ندی نالہ بن جائے۔

لیکن جناب ہمارے ہاں پرائیویٹ ہسپتالوں کی روزی روٹی چونکہ انہی آپریشنز پر ہوتی ہے سو وہاں بیر جتنے فائبراؤڈ کے لیے مشورہ یہی دیا جاتا ہے کہ آپریشن کروائیں اور نکلوا دیں ۔

لوگ رسولی کا نام سنتے ہی اتنے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کچھ سوال جواب کیے بنا آپریشن پر رضا مند ہو جاتے ہیں ۔ جان لیجیے ، چھوٹے چھوٹے فائبراؤڈ اور جن کے ساتھ ماہواری نارمل ہو ، نکلوا نا دانش مندی نہیں ۔ ہاں ہر چھ مہینے بعد الٹرا ساؤنڈ کروا لینا چاہئے وہ بھی اس لیے کہ اگر فابراؤڈ نامی رسولی میں کوئی تبدیلی آنے لگے تو اسے حل کیا جائے ۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ ایسی بہت سی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں جن میں بچے دانی نکلوانا ہی آخری حل ہوتا ہے ۔ پھر کیسے جانا جائے کہ بچے دانی کب نکلوانی ہے اور کب نہیں ؟

صاحب ، ڈاکٹری ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں ہر مریض دوسرے سے مختلف ہے اور ہر کسی کا علاج بھی اس کے جسم کے مطابق کیا جانا چاہئے ( مالی فائدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ، مگر پھر پرائیویٹ ہسپتال کیسے چلیں گے ؟ ) ۔

کب ؟ کیسے ؟ کیوں ؟ کا آرٹ خواتین کو سیکھنا چاہیے، جیسے ایک لباس ہر کسی کو پورا نہیں آ سکتا بالکل ویسے ہی ایک طریقہ علاج سب کے لیے نہیں ہوتا ۔

پڑھیے ، جانیے ، سمجھیے اور حفاظت کیجیے اپنے جسم کی …
یہی ہے گائنی فیمنزم !

کالی کارب پوٹاشیم اور کاربن کا ایک سفید رنگ کا مرکب ہے جو پہلے وقتوں میں لکڑی پتوں اور سمندری پودوں کی راکھ سے نکالا جات...
31/08/2025

کالی کارب پوٹاشیم اور کاربن کا ایک سفید رنگ کا مرکب ہے جو پہلے وقتوں میں لکڑی پتوں اور سمندری پودوں کی راکھ سے نکالا جاتا تھا ۔ پوٹاشیم کلورائیڈ کے بعد یہ دوسرا اہم مرکب تھا جو تجارتی مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا تھا ۔ بعد ازاں یہ پودوں کی راکھ سے بنانے کی بجائے معدنی ذخائر سے نکالا جانے لگا . اس کا سب سے بڑا ماخذ جرمنی کی نمک کی کانیں تھیں ۔ آجکل پوٹاشیم صنعتی پیمانے پر کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے ۔
ہومیوپیتھی میں پوٹاشیم کاربونیٹ کے سفوف کی بہت ہلکے محلول کی صورت میں پوٹینسی بنا کر استعمال کی جاتی ہے ۔ اس دوا کا گہرائی میں سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں کئی تضادات پائے جاتے ہیں ۔ گرمی اور سردی دونوں کے لیے مریض زود حس ہوتا ہے ۔ اس کا مزاج بہت الجھا ہوا ہوتا ہے اگر دوا کی تشخیص صحیح بھی ہو لیکن مریض کا مزاج اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
عموما اگر دوا غلط ہو تو نقصان پہنچاتی ہے لیکن کالی کارب وہ دوا ہے جو صحیح بھی ہو تو نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ جیسے سلیشیا اگر صحیح بھی ہو لیکن بعض صورتوں میں اگر مزاج کے مطابق نہ ہو اور اونچی طاقت میں دے دی جائے تو شدید نقصان پہنچاتی ہے ۔
گاؤٹ Gout یعنی نقرس میں انگلیوں اور ہاتھوں کے جوڑوں میں گانٹھیں بن جاتی ہیں اور ہاتھوں کی شکل بگڑ جاتی ہے انگلیاں ٹیڑھی ہونے لگتی ہیں ۔ ایسی صورت میں کالی کارب کو اونچی طاقت میں دینا جبکہ وہ مریض کے مزاج کے عین مطابق بھی ہو ' بہت خطرناک ہے اور مریض کو سخت تکلیف میں مبتلا کرکے جان سے مارنے کے مترادف ہے ۔
گاؤٹ یعنی نقرس کی علامات میں اگر صحیح تشخیص کے بعد کالی کارب دوا تجویز ہو تو کچھ احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
کالی کارب کے استعمال سے پہلے ہمیشہ کاربویج دیں ۔
کاربوویج مریض کو کالی کارب کے لیے تیار کر دیتی ہے اور اس کے بعد کالی کارب دینے سے سخت رد عمل نہیں ہوتا نیز کالی کارب کو شروع میں تیس طاقت سے اونچا نہیں دینا چاہیے جب مریض اس کا عادی ہو جائے تو پھر بے شک طاقت بڑھا دیں ._
کالی کارب کی مزید تفصیل بہت جلد انشاءاللہ اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو کے ذریعے سمجھا دی جائے گی ۔

تحریر _____ ہومیوپیتھک ڈاکٹر محمد رضوان _

28/08/2025

کیس ٹیکنگ کے پانچ سنہری اصول
ڈاکٹر بنارس خان اعوان
کیس ٹیکنگ کے حوالہ سے عالم ہومیوپیتھی ک پچاس معتبر ناموں کو سٹڈی کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار اور مختلف اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھنے والے نمایاں ہومیوپیتھس ہانیمن سے لے کر جدید معالجین تک سبھی کیس ٹیکنگ کے بنیادی اصولوں پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے اندازِ بیان اور عملی طریقے جدا جدا ہیں، مگر جو نچوڑ حاصل ہوتا ہے وہ پانچ ایسے نکات ہیں جو ہر معالج کی رہنمائی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
سب سے پہلے، مریض کو کھل کر بولنے دینا ضروری ہے۔ جب مریض کو آزادی ملتی ہے تو وہ اپنے اندر کا سچ اور علامات کی اصل کیفیت بیان کرتا ہے۔
دوسرا اصول ہے سبجیکٹو اور آبجیکٹو علامات پر یکساں توجہ دینا۔ مریض کا ذاتی تجربہ اور معالج کا مشاہدہ دونوں مل کر بیماری کی مکمل تصویر بناتے ہیں۔
تیسرا اصول ہے انفرادیت کو بنیاد بنانا۔ ہومیوپیتھی میں علاج کسی بیماری کے نام پر نہیں بلکہ ہر مریض کی انوکھی علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔
چوتھا اصول ہے مکمل اور تفصیلی ریکارڈ رکھنا، کیونکہ ادھورا نوٹ مستقبل میں دوا کے درست انتخاب میں رکاوٹ بنتا ہے۔ آخر میں،
پانچواں اصول ہے ہمدرد مگر غیر جانبدار رویہ اختیار کرنا۔ معالج کو بیک وقت مریض کے درد کو محسوس بھی کرنا ہے اور اپنی رائے کو غیر جانبداری کے ساتھ الگ بھی رکھنا ہے۔
یہ پانچ ستون اس بات کا ثبوت ہیں کہ چاہے صدیوں کا فاصلہ ہو یا جغرافیائی سرحدیں، ہومیوپیتھی کی اصل روح میں کیس ٹیکنگ کا یہی مشترکہ تصور زندہ و جاوید ہے۔
میری کتاب آرٹ آف کیس ٹیکنگ سے اقتباس)

27/08/2025

صنعتی علاقوں میں جہاں پر ماحول کی آلودگی کے باعث نزلہ ، زکام اور دیگر ماحولیاتی امراض پیدا ہو جائیں ان امراض کو ختم کرنے لئے اور ان امراض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کیلئے
(sulphur )
کو ضرور استعما ل کرنا چاہئے -
ایسے صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی والے علاقوں میں رہنے والے مریضوں میں جو علامتیں پائی جاتی ہیں ان میں سائنوسائٹس ، ناک کا بند رہنا ، جلندار دکھن والے زخمی نتھنے ، چھاتی میں دباو اور کھانسی جس کی زیادتی صبح اور شام کو ہوتی ہے ، آنسوں کا بلا ارادہ اخراج اور چہرے سے حرارت کا نکلنا وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام مشاہدات صنعتی کارکنوں اور کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جن کے ابتدائی طور پر پھیپھڑے بیرونی زرات مثلاً ریت گردو غبار اور کاربن کے زرات وغیرہ سے متاثر ہوتے ہیں بشمول ریلوے کے کارکن کیمیائی صنعت کے کارکن ایسے تمام مریضوں کو ہومیوپیتھک دوائی (SULPHUR)
دینی چاہئے تاکہ وہ ان زہریلے اثرات سے محفوظ رہ سکیں
(ڈاکٹر بیکوب گینس)
کہتے ہیں کہ سلفر حفظ ماتقدم کے طور پر 200 کی ایک ہی خوراک کافی ہوتی ہے
ہومیوپیتھک ڈاکٹر امان اللہ بھدر

17/08/2025

ایک انرجی ڈرنک کے قیمت پر ایک کلو سیب اور ایک کلو انگور خرید سکتے ہوں جسمیں سو گنا زیادہ انرجی ہے جو کہ پانچ افراد کے لئے کافی ہے

12/08/2025

ہومیوپیتھی کی اصل بنیاد ۔مریض کا علاج۔
ڈاکٹر بنارس خان اعوان
ہومیوپیتھی کی اصل بنیاد “مریض کا علاج، نہ کہ مرض کا” ہے۔ ہانیمن نے آرگینن آف میڈیسن میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ معالج کو مرض کے نام یا تشخیص پر انحصار کرنے کے بجائے مریض کی مکمل انفرادی علامات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ افورزم 6 میں وہ واضح لکھتے ہیں:
"معالج کو مریض کی تمام قابلِ مشاہدہ علامات اور شکایات کو یکجا کر کے ایک مکمل صورتِ حال سامنے لانی چاہیے، یہی بیماری کی حقیقی تصویر ہے۔"
ملیریا کی مثال لیجیے۔ اگر ہمارے پاس ملیریا کا تشخیص شدہ مریض آتا ہے تو روایتی سوچ یہی کہے گی کہ تجربے کے مطابق فلاں دوا دے دی جائے۔ ایک معالج چائنا دے گا، دوسرا آرسینک البم، تیسرا اپی کاک اور چوتھا کچھ اور۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ اکثر معالجین اپنی سابقہ کامیابیوں کے تجربے کو معیار بنا لیتے ہیں اور مکمل کیس ٹیکنگ کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ بعض اوقات "تکا" لگنے سے مریض ٹھیک ہو جاتا ہے، اور کبھی علاج ناکام ہو کر سپریشن یا پیچیدگی میں بدل جاتا ہے۔
ہانیمن نے افورزم 82 اور 83 میں کہا کہ ہر مریض کی حالتِ مرض ایک انفرادی کیفیت رکھتی ہے، اور علاج اسی انفرادیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ بیماری کا نام صرف ایک مجموعی شناخت ہے، مگر اس کے پیچھے بے شمار مختلف صورتیں چھپی ہوتی ہیں، جو ہر مریض میں الگ شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر ہم صرف نام کے پیچھے دوڑتے رہیں تو یہ وہی مثال ہے جیسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔منزل کبھی نہ ملے اور ہم سڑکوں پر بھٹکتے رہیں۔
ہومیوپیتھک فلسفہ ہمیں شارٹ کٹ سے بچاتا ہے۔ جب ہم مکمل کیس ٹیکنگ کرتے ہیں جسمانی، ذہنی اور جذباتی علامات سمیت تو ہم ایک مخصوص، انفرادی دوا تک پہنچتے ہیں جو صرف اس مریض کے لیے موزوں ہوتی ہے، چاہے اس کا مرض ملیریا ہو یا کوئی اور۔ یہی اصل ہومیوپیتھک علاج ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس میں ہماری کامیابی، مریض کی عافیت، اور پیشے کی بقا ہے۔
جیسا کہ ڈاکٹر جارج وتھالکس کہتے ہیں:
"جب تک آپ مریض کی اصل تصویر نہیں دیکھیں گے، آپ محض بیماری کے پیچھے بھاگتے رہیں گے، اور یہ ہومیوپیتھی نہیں، محض تقلید ہے۔"
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم آرگینن اور کلاسیکل اصولوں سے جڑے رہیں، کیونکہ اسی میں ہمارا سائنسی معیار، پیشہ ورانہ عزت، اور حقیقی شفا کا راز پوشیدہ ہے۔

۔

12/08/2025

کلینکل ٹپس کا جادو اور ہومیوپیتھی کا انفرادی سفر
(ڈکٹر بنارس خان اعوان)
ہومیوپیتھی کی دنیا میں ایک عام رجحان یہ ہے کہ لوگ کلینکل ٹپس، یعنی بیماری کے نام پر مخصوص دواؤں کی فہرستیں، بڑے شوق سے پوچھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، “کھانسی میں کون سی دوا دیں؟” یا “شوگر کے لیے بہترین ہومیو دوا کون سی ہے؟”۔ یہ رویہ بظاہر سہولت پسند نظر آتا ہے، لیکن دراصل یہ محنت سے جی چرانے کی ایک شکل ہے۔
ڈاکٹر ہانیمن، بانیٔ ہومیوپیتھی، نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب Organon of Medicine میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ دوا کا انتخاب مریض کی مکمل، انفرادی علامات کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ محض مرض کے نام پر۔ ان کے نزدیک ہر مریض ایک الگ کہانی ہے—ایک الگ جسمانی، ذہنی اور جذباتی تصویر کے ساتھ۔ یہ انفرادیت ہی ہومیوپیتھی کا قلب و روح ہے۔
ہانیمن نے Aphorism 6 میں واضح لکھا ہے۔
"The unprejudiced observer… perceives in each individual disease nothing but changes in the health of the body and of the mind, which can be perceived externally by means of the senses."
یعنی غیر جانب دار معالج ہر مریض کو ایک منفرد مجموعہ علامات کے طور پر دیکھتا ہے، اور انہی علامات کی بنیاد پر علاج تجویز کرتا ہے۔
اس اصول کے مطابق، کوئی دو مریض اگر وہ ایک ہی نام کی بیماری میں مبتلا ہوں،ایک جیسی دوا کے حق دار نہیں ہو سکتے، جب تک ان کی مجموعی علامات ایک جیسی نہ ہوں۔ مثال کے طور پر دو مریض جنہیں “نمونیا” ہو، ایک کو Bryonia کی ضرورت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ خشک کھانسی، کمزوری اور حرکت سے تکلیف محسوس کرتا ہے، جبکہ دوسرے کو Phosphorus چاہیے کیونکہ وہ گہری سانس لینے سے درد محسوس کرتا ہے، تھکاوٹ اور گھبراہٹ کا شکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھی بیماری کے نام پر دوا دینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ہر مریض کے انفرادی دوا تلاش کرنے کے لیے معالج کو وقت، محنت اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمل کیس ٹیکنگ، علامات کی گہرائی میں اترنے، ذہنی و جسمانی پہلوؤں کا تجزیہ کرنے اور ریپرٹری کے ذریعے دوا منتخب کرنے پر مشتمل ہے۔
کلینکل ٹپس وقتی طور پر دل کو بہلا سکتی ہیں، لیکن وہ ہومیوپیتھی کے بنیادی فلسفے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ وہ ہمیں آسان لیکن غلط راستے پر لے جاتی ہیں، جہاں مریض کے اصل مزاج، اس کی زندگی کی کہانی، اور اس کے جسم و ذہن کی پیچیدگی نظرانداز ہو جاتی ہے۔
خوش رہیں۔
ہانیمن نے ہمیں یاد دلایا کہ "علاج کا مقصد صرف مرض کو دبانا نہیں بلکہ مریض کی مکمل صحت بحال کرنا ہے۔" اور یہ مقصد صرف تب حاصل ہو سکتا ہے جب ہم ہر مریض کو اس کے منفرد روپ میں دیکھ کر، اس کی انفرادی دوا تک پہنچیں۔ یہی ہومیوپیتھی کا حسن اور اصل طاقت ہے۔

10/08/2025

پروونگ، کسان اور کھیت
ڈاکٹر بنارس خان
DrWali Khan Bajor) دیکھیے، ہومیوپیتھی میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ جو دوا کسی صحت مند شخص کو دی جائے وہ کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈالتی ہے اور اگر وہی دوا کسی مریض کو صحیح طریقے سے دی جائے تو بیماری کو دور کر دیتی ہے، لیکن اگر یہی دوا بلا وجہ اور بار بار دیتے رہیں تو وہ اپنی نئی علامات پیدا کر دے گی، اسے پروونگ کہتے ہیں یعنی دوا کی ضرورت ختم ہونے کے بعد بھی اس کا اثر زبردستی چلتا رہے۔ اس کو یوں سمجھ لیں جیسے کسان کھیت میں پانی دیتا ہے، زمین جتنا پانی چاہتی ہے اتنا ہی جذب کر لیتی ہے لیکن اگر کسان ضرورت سے زیادہ پانی ڈالتا رہے تو اضافی پانی کھیت سے باہر بہنے لگتا ہے اور سب سمجھ جاتے ہیں کہ اب کھیت کی پیاس بجھ چکی ہے، اسی طرح جب کسی مریض کو دوا کی ضرورت نہیں رہتی اور ہم پھر بھی دیتے رہتے ہیں تو جسم میں اس دوا کے اثرات صاف ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں، یہی دوا کا "باہر آنا" یا پروونگ ہے۔ اس کا سب سے آسان علاج یہ ہے کہ دوا فوراً بند کر دی جائے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مصنوعی بیماری خود ہی ختم ہو جاتی ہے اور ہانیمن بھی یہی کہتے ہیں کہ جب دوا بند کی جائے تو وائیٹل فورس اپنی اصل حالت میں واپس آ جاتی ہے۔ اگر دوا بند کرنے کے بعد بھی علامات برقرار رہیں تو مریض کی موجودہ حالت کو غور سے دیکھنا چاہیے اور جو دوا اس وقت کی علامات سے سب سے زیادہ ملتی ہو وہ بطور انٹی ڈوٹ دی جاتی ہے، یہ دوا علاج کے لیے نہیں بلکہ صرف پچھلی دوا کے بد اثرات ختم کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ نچلی پوٹنسی کے اثرات کو اسی دوا کی اونچی پوٹنسی اور اونچی پوٹنسی کے بد اثرات کو اسی دوا کی نچلی پوٹنسی ختم کر سکتی ہے کیونکہ پوٹنسی بدلنے سے دوا کا اثر جسم پر مختلف سطح پر ہوتا ہے اور وائیٹل فورس دوبارہ متوازن ہو جاتی ہے۔ چند سال پرانا واقعہ ہے کہ کرم ایجنسی کے ایک حکیم صاحب سے غلطی ہو گئی، انہوں نے ایکونائٹ خام حالت میں کھا لی( وہ اس کا کشتہ بنا رہے تھے) جس سے پروونگ کی شدید علامات پیدا ہو گئیں، میں نے انہیں ایکونائٹ 10 ایم دی اور اللہ کے کرم سے ساری تکلیف ختم ہو گئی، یہ اس اصول کی زبردست مثال ہے کہ بعض اوقات وہی دوا لیکن مختلف پوٹنسی میں اپنے ہی بد اثرات کو ختم کر دیتی ہے

Address

G. T. Road. Gujranwala
Gujranwala

Opening Hours

09:00 - 17:00

Telephone

+923006437077

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when HomeoPathic Dr Mohammad Amjad Malik posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category