
21/04/2025
قوموں میں انقلاب ایک دن میں نہیں آیا کرتے۔۔۔
یہ کسی ایک فرد، یا کسی ایک گروہ کے بس کے بات نہیں۔۔۔
مگر جب ایک سلسلہِ عذاب سے پوری قوم تنگ آ چُکی ہوتی ہے ، اور ان کی مزمت مزاحمت میں بدل جاتی ہے ، تب آتا ہے انقلاب۔۔۔
ہم آج جو کچھ اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں، یہ کسی ایک دن کی کہانی نہیں۔۔۔ یہ ایک طویل جدوجہد، نسل در نسل قربانیوں اور ناانصافیوں کے خلاف چلتی ہوئی تحریکوں کا حاصل ہے ۔۔۔
برسوں کی حق تلفیوں کے بعد آج وہ وقت آ پہنچا ہے جب ہم اِس ریاست سے حساب مانگ رہے ہیں— ایک ایسی ریاست جس کی بنیاد ہی قوموں کے استحصال پر رکھی گئی۔۔۔ ایک ایسی ریاست، جس کے حاکم ہمارے وسائل کو فروخت کر کے خود امیر تر ہوتے گئے، اور ہمیں کیا مِلا؟ اپنے ہی وسائل کی بربادی پر نوحہ کناں رہنے کی اذیت!
لیکن اب! کئی دہائیوں کے بعد یہ قوم ایک آواز بن کر، ایک دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے۔۔۔ سڑکوں پر ہجوم ہیں ۔۔۔ ہر مکتبِ فکر کے لوگ سراپہ احتجاج ہیں ۔۔۔ ہماری مائیں، بہنیں، بچے ، جوان، بزرگ— سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔۔۔ تو ایسے وقت میں، میں کیسے جا کر 23 اپریل کو لطیف ہال میں اس ریاست کی قصیدہ گوئی سننے جا بیٹھوں؟ اور اِس نوازش کے لئے فیس بھی دوں اِن کو! بلکل نہیں۔۔۔
میں کیسے وہاں جا کر بیٹھوں، جہاں ہرے جھنڈے کے سائے تلے وہ نغمے گائے جائیں جن پر قوموں کی نسل کُشی کے خون کے چھینٹے لگے ہوں؟ میں کیسے اس تپتی دھوپ میں اپنے لوگوں کے دکھوں کو چھوڑ کر، کسی کنسرٹ میں جا کر جھوموں، تالیاں بجاؤں اور سیٹیاں ماروں؟ وہ بھی اُن نغموں پر، جِن کی آڑ میں ہم سے ہمارا سب کچھ چھینا جا رہا ہے؟
شاید ہم اپنی تاریخ کے سب سے فیصلہ کُن دور سے گزر رہے ہیں۔۔۔ اگر ہم نے اس وقت بھی خود کو "ایکسائیٹنگ اناؤنسمنٹس"، "ایکسائیٹنگ اناؤنسمنٹس" کے پوسٹرز کے پیچھے لگا رکھا، اور اپنی انفرادیت کو لُبھانے میں لگے رہے، تو ہم تاریخ کے سب سے بڑے المیے کا حصہ بن جائیں گے۔۔۔ پھر کل کو ہمیں ضرور ندامت ہوگی— کہ ہماری ماں، ہماری سندھو، ہمیں پکارتی رہی، مگر ہم اُس کی کوکھ پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے گیت گاتے رہے، اُن کے قدموں میں بیٹھے رہے۔۔۔
یونیورسٹی کی اِس قسم کی تنظیموں (جو طلبہ کی نہیں، ایڈمنسٹریشن کی پیدائش ہیں) سے صرف یہی سوال ہے، جب پوری سندھ سڑکوں پر ہے، جب سندھو میں پانی کے بجائے مٹی اُڑ رہی ہے، تب کیا تم نے ایک پروگرام تک کیا اس سلسلے میں؟ نہیں۔ کیونکہ ایسی تنظیمیں صرف دلالی کے سہارے زندہ رہتی ہیں۔۔۔ اگر وہ صدائے حق بلند کریں، تو ریاست، سرکار، اور یونیورسٹی کی انتظامیہ ان کا حشر وہی کرے گی جو ہر سچ بولنے والے کا ہوتا ہے— اسی لئے۔۔۔۔۔!
میں اُن تمام دوستوں سے بھی سوال کرتا ہوں، جو ایسی تنظیموں میں شمولیت کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں، آپ کو شرم نہیں آتی؟ اُن کی واہ واہ کرتے، جو تمہاری ماں کی کوکھ کو نوچتے رہے؟ جو اب سندھو کے ساتھ بدترین سلوک کی تیاریوں میں مصروف ہیں؟
سندھو — وہی سندھو جس نے ہماری تہذیب کو جنم دیا۔۔۔ سندھو — جو ہمیں زندگی عطا کرتی ہے۔۔۔ آج وہ سامراجی یلغار کا شکار ہے۔۔۔ اگر آج بھی تم خاموش رہے تو یقین جانو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔
اگر مزاحمت کے ان قیمتی لمحوں میں بھی ہم دلالی کرتے رہے، تو ہم سے بدبخت کوئی نہیں ہوگا۔۔۔
شاہد اکبر جنجھی۔۔۔