
25/07/2025
🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷
🌹25 جولائی،29 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹
📕سورة بنی اسرائیل آیت 85-86📕
وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾
وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ﴿ۙ۸۶﴾
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے ۔ 103
اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے ، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے ۔
*They ask you about ""the spirit"". Say: ""The spirit descends by the command of my Lord but you have been given only a little knowledge.""*
*Had We willed We could take away what We have revealed to you then you would find none to help you in recovering it from Us.*
*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*
🤲🏿یارب العالمین، اور انسان جو روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے,اور اگر ہم چاہیں تو ضرور واپس لے جائیں جو وحی ہم نے آپ کی طرف فرمائی ہے پھر آپ اس بارے میں ہمارے مقابلہ میں اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پائیں گے۔یارب ہمیں کٹھ حجتی سے بچا،علم دے کے ہم جاہل نہ کر دینا، جو علم تو نے دیا اس میں اپنے خاص کرم سے اضافہ فرما،ہمیں اپنا فرمانبردار اور تابعدار بنا آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿
*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹
*O Almighty ALLAH, and they ask you (O Prophet) about the soul. Say, 'The soul is by the command of my Lord, and you have been given but little knowledge.' And if We willed, We could surely take away that which We have revealed to you, then you would not find for yourself any advocate against Us. O ALLAH, save us from futile arguments. Grant us knowledge and do not make us ignorant. Increase the knowledge You have given us from Your special bounty, and make us obedient and submissive to You.Ameen."🤲🏿*
📖🔎تفہیم القرآن🔎📖
«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :103
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے ، یعنی لوگوں نے نبی ﷺ سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے ، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جب کہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے ۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آ گیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے ؟
ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد ’’ وحی ‘‘ یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ یہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو ؟ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ ! تم سے یہ لوگ روح ، یعنی ماخذ قرآن ، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کم بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعے سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے ۔
یہ تفسیر نہ صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ مومن میں ارشاد ہوا ہے : «یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ( آیت 15 )» ’’ وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کر دے ۔“ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا : «وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ ( آیت 52 )» ’’ اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی ۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ۔‘‘
سلف میں سے ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے ۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالے سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے ، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے ۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ روح سے مراد جبرائیل ہیں ، اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی ﷺ کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ۔‘‘
«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :104
خطاب بظاہر نبی ﷺ سے ہے ، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی ﷺ کا اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا درپردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے ، اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لا سکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے ۔
🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹
📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕
🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻