میرا دیس این اے 51 مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلر سیداں

  • Home
  • Pakistan
  • Islamabad
  • میرا دیس این اے 51 مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلر سیداں

میرا دیس این اے 51 مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلر سیداں میرا خواب پاکستان کو خوشحال اسلامی فلاحی ریاست بنانا

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷🌹25 جولائی،29 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹📕سورة بنی اسرائیل آیت 85-86📕...
25/07/2025

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷

🌹25 جولائی،29 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹

📕سورة بنی اسرائیل آیت 85-86📕

وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾
وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ﴿ۙ۸۶﴾

یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے ۔ 103
اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے ، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے ۔
*They ask you about ""the spirit"". Say: ""The spirit descends by the command of my Lord but you have been given only a little knowledge.""*
*Had We willed We could take away what We have revealed to you then you would find none to help you in recovering it from Us.*

*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*

🤲🏿یارب العالمین، اور انسان جو روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے,اور اگر ہم چاہیں تو ضرور واپس لے جائیں جو وحی ہم نے آپ کی طرف فرمائی ہے پھر آپ اس بارے میں ہمارے مقابلہ میں اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پائیں گے۔یارب ہمیں کٹھ حجتی سے بچا،علم دے کے ہم جاہل نہ کر دینا، جو علم تو نے دیا اس میں اپنے خاص کرم سے اضافہ فرما،ہمیں اپنا فرمانبردار اور تابعدار بنا آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿

*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹

*O Almighty ALLAH, and they ask you (O Prophet) about the soul. Say, 'The soul is by the command of my Lord, and you have been given but little knowledge.' And if We willed, We could surely take away that which We have revealed to you, then you would not find for yourself any advocate against Us. O ALLAH, save us from futile arguments. Grant us knowledge and do not make us ignorant. Increase the knowledge You have given us from Your special bounty, and make us obedient and submissive to You.Ameen."🤲🏿*

📖🔎تفہیم القرآن🔎📖

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :103
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے ، یعنی لوگوں نے نبی ﷺ سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے ، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جب کہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے ۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آ گیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے ؟
ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد ’’ وحی ‘‘ یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ یہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو ؟ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ ! تم سے یہ لوگ روح ، یعنی ماخذ قرآن ، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کم بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعے سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے ۔
یہ تفسیر نہ صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ مومن میں ارشاد ہوا ہے : «یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ( آیت 15 )» ’’ وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کر دے ۔“ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا : «وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ ( آیت 52 )» ’’ اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی ۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ۔‘‘

سلف میں سے ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے ۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالے سے ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا ہے ، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے ۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ روح سے مراد جبرائیل ہیں ، اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی ﷺ کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ۔‘‘
«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :104
خطاب بظاہر نبی ﷺ سے ہے ، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی ﷺ کا اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا درپردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے ، اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لا سکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے ۔
🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹

📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕

🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷🌹21 جولائی،25 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹📕سورة بنی اسرائیل آیت 81-82📕...
20/07/2025

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷

🌹21 جولائی،25 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹

📕سورة بنی اسرائیل آیت 81-82📕

وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ﴿۸۲﴾

اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے ۔ 101

ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے ، مگر ظالموں کےلیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا ۔
102

*And proclaim: ""The Truth has come and falsehood has vanished. Surely falsehood is ever bound to vanish.""*
*What We are sending down in the course of revealing the Qur''an is a healing and a grace for those who have faith; but it adds only to the ruin of the wrong-doers.*

*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*

🤲🏿یارب العالمین، آپ نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو کہا فرما دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا بےشک باطل مٹنے ہی والا ہے۔اور آپ نے قرآن میں وہ احکام نازل فرمائے جو ایمان والوں کے لئے شِفا اور رحمت ہیں اور وہ ظالموں کے نقصان ہی میں اضافہ کرتے ہیں۔یارب ہمیں حق پر قائم رکھ اور حق والوں کا ساتھ نصیب فرما،ہمیں قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما کر اس سے رہنمائی لینے والا بنا دے بیشک قرآن نہ ماننے والے ظالموں کے خسارے کو بڑھا دیتا ہے،ہمیں ایسے ظالم منکرین میں شامل نہ فرمانا آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿

*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹*

*O Almighty ALLAH, You commanded Your beloved Prophet Muhammad (peace be upon him) to say, 'The truth has come and falsehood has vanished; indeed, falsehood is bound to vanish.' And You revealed in the Quran commands that are healing and mercy for the believers but only increase the loss for the wrongdoers. O ALLAH, keep us steadfast on the truth and grant us the company of those who stand for truth. Grant us the ability to understand the Quran and be guided by it. Indeed, the Quran increases the loss of those who disbelieve and are unjust; do not make us among such wrongdoers.Ameen."🤲🏿*

📖🔎تفہیم القرآن🔎📖

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :101

یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین تھی ، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی ﷺ کی جان ہر وقت خطرے میں تھی ۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے ۔ مگر اسی حالت میں نبی ﷺ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا ۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اڑا دیا ۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی ﷺ اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ : «جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔ جآء الحق ومایُبدءُ الباطل ومایُعید» ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :102

یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا راہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ، ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام ذہنی ، نفسانی ، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے ۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی راہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ، ان کو یہ قرآن اس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے ، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے ، بلکہ یہ انہیں الٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا ، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے ، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا ۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آ گیا اور اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہو گئی ۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں ۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق ، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے ۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار ، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں ۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے ، جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے ۔ یہ بات ہے جو نبی ﷺ نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ «القراٰن حجة لک او علیک» ، یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف جحت ۔

🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹

📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕

🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷🌹19 جولائی،23 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹📕سورة بنی اسرائیل آیت 80📕وَ ...
18/07/2025

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷

🌹19 جولائی،23 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹

📕سورة بنی اسرائیل آیت 80📕

وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾

اور دعا کرو کہ پروردگار ، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال ، 99 اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے ۔ 100
*And pray: ""My Lord! Cause me to enter wherever it be with Truth and cause me to exit wherever it be with Truth and support me with authority from Yourself."*

*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*

🤲🏿یارب العالمین، آپ نے اپنے پیارے محبوب کو خوبصورت دعا سکھائی،دعا کرو کہ پروردگار ، ہم کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو ہمارا مددگار بنادے ۔یارب ہماری بھی دعاء سن لے ہمیں ہر حال میں سچائی پر قائم رکھ اور زمین پر اقتدار سونپ دے تاکہ تیرے دین کے نفاذ کی عملی جدوجہد آسان ہو.آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿

*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹*

*O Almighty ALLAH, You taught Your beloved Prophet a beautiful prayer: 'Wherever You take us, take us with truth, and wherever You bring us out, bring us out with truth, and grant us an authority from Yourself as our helper.' O ALLAH, hear our prayer too. Keep us steadfast on truth in every circumstance and grant us authority on earth so that the practical struggle for the implementation of Your Deen may become easier.Ameen."🤲🏿*

📖🔎تفہیم القرآن🔎📖

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :99
اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا ۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے ، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو ، اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :100
یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر ، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے ، تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں ، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں ، اور تیرے قانون عدل کو جاری کر سکوں ۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ نے کی ہے ، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور اسی کی تائید نبی ﷺ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ «اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ» ، یعنی ’’ اللہ تعالی حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی ، بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے ۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالی نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو ۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا ، تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے ۔ اگر جہاد کے لیے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا ؟

🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹

📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕

🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷🌹18 جولائی،22 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹📕سورة بنی اسرائیل آیت 79📕وَ ...
17/07/2025

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷

🌹18 جولائی،22 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹

📕سورة بنی اسرائیل آیت 79📕

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا ﴿۷۹﴾

اور رات کو تہجد پڑھو ، 96 یہ تمہارے لیے نفل ہے97 ، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود 98 پر فائز کر دے ۔

*And rise from sleep during the night as well- this is an additional Prayer for you. Possibly your Lord will raise you to an honoured position.*

*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*

🤲🏿یارب العالمین، آپ کا حکم ہے کہ رات کے کچھ حصّے میں تہجد پڑھا کیجئے جو ہمارے لئے زائد (عبادت) ہے اُمید ہے کہ آپ ہمیں مقامِ محمود پر فائز فرمائیں گے۔یارب ہمیں راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے اور تجھ سے مانگنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دنیا و آخرت میں مقام محمود سے سرفراز فرما آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿

*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹*

*O Almighty ALLAH, Your command is to pray Tahajjud in parts of the night, an additional prayer for us, hoping that You will raise us to the Praiseworthy Station. O ALLAH, grant us the ability to rise for Tahajjud prayer and to supplicate to You in the nights, and bless us with the Praiseworthy Station in this world and the Hereafter.Ameen."🤲🏿*

📖🔎تفہیم القرآن🔎📖

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :96
تہجد کے معنی ہیں نیند توڑ کر اٹھنے کے ۔ پس رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اٹھ کر نماز پڑھی جائے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :97
نفل کے معنی ہیں :’’ فرض سے زائد ‘‘۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکل آیا کہ وہ پانچ نمازیں جن کے اوقات کا نظام پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا ، فرض ہیں ، اور یہ چھٹی نماز فرض سے زائد ہے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :98
یعنی دنیا اور آخرت میں تم کو ایسے مرتبے پر پہنچا دے جہاں تم محمود خلائق ہو کر رہو ، ہر طرف سے تم پر مدح و ستائش کی بارش ہو ، اور تمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے ۔ آج تمہارے مخالفین تمہاری تواضع گالیوں اور ملامتوں سے کر رہے ہیں اور ملک بھر میں تم کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے ، مگر وہ وقت دور نہیں ہے جب کہ دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اٹھے گی اور آخرت میں بھی تم ساری خلق کے ممدوح ہو کر رہو گے ۔ قیامت کے روز نبی ﷺ کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اسی مرتبہ محمودیت کا ایک حصہ ہے ۔

🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹

📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕

🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷🌹17 جولائی،21 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹📕سورة بنی اسرائیل آیت 78📕اَق...
16/07/2025

🌷السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُہ🌷

🌹17 جولائی،21 محرم الحرام صبح شام بخیرزندگی🌹

📕سورة بنی اسرائیل آیت 78📕

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾

نماز قائم کرو 91 زوال آفتاب 92 سے لے کر رات کے اندھیرے93 تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو 94 کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے ۔ 95

*Establish Prayer from the declining of the sun to the darkness of the night; and hold fast to the recitation of the Qur''an at dawn for the recitation of the Qur''an at dawn is witnessed.*

*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*

🤲🏿یارب العالمین، آپکا حکم ہے کہ سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ظہر عصر مغرب وعشا کی نماز قائم کرو اور فجر کے وقت قرآن (پڑھا کیجئے) بےشک فجر کے قرآن (نماز پڑھنے) میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے۔ یارب،ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور فجر میں خوب قرآن کی تلاوت کی توفیق عطا فرما آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿

*🌹🤲🏼Prayer🤲🏼🌹*

*O Almighty ALLAH, Your command is to establish prayer from the decline of the sun till the darkness of night (Zuhr, Asr, Maghrib, and Isha) and recite the Quran at dawn (Fajr), for indeed the dawn prayer is witnessed (by angels). O ALLAH, make us among those who establish the five daily prayers and grant us the ability to recite the Quran abundantly during Fajr. Ameen."🤲🏿*

📖🔎تفہیم القرآن🔎📖

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :91

مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فوراً ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالی نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے ، اقامت صلوۃ سے حاصل ہوتی ہے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :92

”زوال آفتاب“ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے ۔ اگرچہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے ، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جانا ہے ۔ حضرت عمر ، ابن عمر ، انس بن مالک ، ابوبرزة الاسلمی ، حسن بصری ، شعبی ، عطاء ، مجاہد ، اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس بھی اسی کے قائل ہیں ۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے بھی یہی قول مروی ہے ۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی ﷺ سے بھی دلوک شمس کی یہی تشریح منقول ہے ، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں ہے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :93

غسق اللیل بعض کے نزدیک ” رات کا پوری طرح تاریک ہو جانا “ ہے ، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں ۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہو گا ، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشاء کے آخر وقت کی طرف ہے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :94

فجر کے لغوی معنی ہیں : ” پو پھٹنا “ ۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے ۔
فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے ۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے ، مثلاً تسبیح ، حمد ، ذکر ، قیام ، رکوع ، سجود وغیرہ ۔ اسی طرح یہاں فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں ، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اس طریقے سے قرآن مجید نے ضمناً یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے ۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی ﷺ نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے ۔

«سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل» حاشیہ نمبر :95

قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں ، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے ۔ اگرچہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں ، لیکن جب خاص طور پر نماز فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا ، اور اسی کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا ۔
اس آیت میں مجملاً یہ بتایا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز ، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی ، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے ۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے ، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمت شب تک پڑھی جائیں ۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے ، جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی ﷺ کو دی ۔ چنانچہ ابوداؤد اور ترمذی میں ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
” جبریل نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی ۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا ، پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا ، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی ، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ۔:: دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا ، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا ، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزر جانے پر ، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر ۔ پھر جبریل نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد ﷺ ! یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں ، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ۔“ ( یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتائی گئی ہے ۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے ۔ )
قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں ۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا :
«اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ( آیت ١١4 )»
نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر ( یعنی فجر اور مغرب ) اور کچھ رات گزرنے پر ( یعنی عشاء ) ۔ اور سورۂ طہ میں ارشاد ہوا :
«وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ( آیت ١30 )»
اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے ( فجر ) اور غروب آفتاب سے پہلے ( عصر ) ، اور رات کے اوقات میں ، پھر تسبیح کر ( عشاء ) اور دن کے سروں پر ( یعنی صبح ، ظہر اور مغرب ) ۔
پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا :
«فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ( آیات ١7 ۔ ١8 )»
پس اللہ کی تسبیح کرو جب کہ تم شام کرتے ہو ( مغرب ) اور جب صبح کرتے ہو ( فجر ) ۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں ۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں ( عصر ) اور جب کہ تم دوپہر کرتے ہو ( ظہر ) ۔
نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات عبادت سے اجتناب کیا جائے ۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا ، یا بہت بڑا معبود رہا ہے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر ان کے اوقات عبادت رہے ہیں ، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے ، لہذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو ۔ اس مصلحت کو نبی ﷺ نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ نے فرمایا :
«صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار ۔»
صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رک جاؤ ، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے ۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔
«ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار ( رواہ مسلم )»
پھر نماز سے رک جاؤ ، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جاۓ ، کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔
اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے ۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے ۔ اس استعارے کی گرہ حضور ﷺ نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہے کہ ” اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔“

🌹نماز نیند سے بہتر ہے🌹

📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕

🤲🏻طالب دعاء 🤲🏻

Address

Islamabad

Telephone

+923109545142

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when میرا دیس این اے 51 مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلر سیداں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to میرا دیس این اے 51 مری،کہوٹہ،کوٹلی ستیاں،کلر سیداں:

Share