Dr. Muhammad Ghayas

Dr. Muhammad Ghayas Muhammad Ghayas is a Muslim religious scholar and a former president of Jamiat.

29/11/2025

عربی خطبہ جمعہ

31/10/2025

عنوان: مساجد میں تنخواہیں دینے کا خیرمقدم

اگر مذہبی شخصیات اسمبلیوں میں خدمات سرانجام دے کر تنخواہیں حاصل کرتی ہیں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں، بلکہ ایک منصفانہ اور جائز عمل ہے۔ پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب مساجد و مدارس میں علما اپنی زندگیاں دینی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں تو وہاں ان کے لیے تنخواہیں مقرر کرنے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ کہنا کہ “ہم حکومت کی تنخواہ نہیں لیں گے” اُس زمانے کا نعرہ تھا جب انگریزی غلامی کا خاتمہ مقصود تھا۔انگریز کے اقتدار سے پہلے معاملہ اس کے برعکس تھا۔مگر پاکستان کے قیام کے بعد، جب یہ ایک خودمختار اسلامی ریاست بن چکی ہے، تو اپنے ہی نظام کے تحت تنخواہیں لینا عین فطری اور جائز عمل ہے۔ علما کو چاہیے کہ وہ اپنی خدمات کا درست معاوضہ لینے کو معیوب نہ سمجھیں بلکہ اسے دینی خدمت کے تسلسل کا حصہ سمجھیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد و مدارس کے خادمین کو معاشی طور پر باعزت مقام دیا جائے تاکہ وہ بے فکری سے دین کی خدمت انجام دے سکیں۔ ان کے لیے مستقل تنخواہوں کا نظام قائم کرنا نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ یہ دین و ملت دونوں کے مفاد میں ہے۔آپ جیسی روشن فکر شخصیات کو اس مثبت اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور ان تمام کاوشوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو دینی خدمت گاروں کے معاشی استحکام کی ضامن ہوں۔
✍️🏻ڈاکٹر محمدغیاث

30/10/2025

اگر مذہبی شخصیات اسمبلی میں تنخواہیں نہیں لیتے تو پھر یہ بات بھی ٹھیک ہوگی۔اسمبلیوں میں آپ کی خدمات تو زیادہ ہے مدارس کی بنسبت تو اس میں کیوں تنخواہیں لی جاتی ہیں۔یہ تو انگریز کے خلاف نعرہ تھا کہ ہم تمہاری تنخواہیں نہیں لیں گے۔پاکستان بننے کے بعد تو تنخواہیں لینے اور دینے چاہئیں تھیں۔مطالبہ یہ ہو کہ اس میں اضافہ کیا جائے۔علماء کی قسمت کو کیوں محترمہ کے منہ مبارک پر مارنا چاہتے ہیں۔اب ان مذہبیات کے کنٹرول کے چکر سے نکلنا ہوگا۔آپ جیسے شخصیت کو تو محترمہ کو داد اور شاباش دینا چاہیے۔

پیغامِ قرآن سیریز — حصہ دوم،تخلیقِ کائنات: چھ دنوں کی حکمت قرآنِ حکیم انسان کو بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ یہ آ...
29/10/2025

پیغامِ قرآن سیریز — حصہ دوم،تخلیقِ کائنات: چھ دنوں کی حکمت قرآنِ حکیم انسان کو بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ یہ آسمان و زمین کس تدبیر سے وجود میں آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:“هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍعَلِيمٌ” (البقرہ: 29)یعنی وہی ہے جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمان بنا دیا۔قرآن نے مختلف جگہوں پر یہ بتایا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ارشاد ہے:“إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ” (الأعراف: 54)اور فرمایا:“وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ” (ق: 38)یعنی ہمیں ذرا سی بھی تھکاوٹ نہیں پہنچی۔یہ چھ دن دراصل چھ مراحلِ تخلیق ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ایک منظم ترتیب کے ساتھ وجود میں آئی۔تورات کے مطابق بھی کائنات چھ دنوں میں بنی: پہلے دن روشنی، دوسرے دن آسمان، تیسرے دن زمین اور پودے، چوتھے دن سورج چاند ستارے، پانچویں دن پرندے و مچھلیاں، چھٹے دن حیوانات اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا۔قرآن نے اس تصور کو تو برقرار رکھا مگر تورات کے اس حصے کو رد کر دیا جس میں ساتویں دن کے “آرام” کا ذکر ہے، اور فرمایا کہ “ہمیں ذرا سی بھی تھکاوٹ نہیں پہنچی”۔قرآن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تخلیق ایک تدریجی حکمتِ الٰہی کا مظہر ہے۔اللہ چاہتا تو ایک لمحے میں سب کچھ پیدا کر دیتا، مگر اس نے چھ مراحل اختیار کیے تاکہ انسان سیکھے کہ ہر بڑا کام صبر، ترتیب اور تدبیر سے انجام پاتا ہے۔یوں تخلیقِ کائنات کا یہ بیان نہ صرف اللہ کی قدرت کا مظہر ہے بلکہ انسان کے لیے ایک عملی سبق بھی ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں نظم و حکمت کو اپنائے، کیونکہ اللہ کا نظام ہی اصل میں نظم اور حکمت کا نظام ہے۔
✍️ ڈاکٹر محمد غیاث

22/10/2025
19/10/2025

Center of Attention, Ignore and Invisible
مرکزِ نگاہ، نظروں سے دور ، نظروں سے اوجھل
مجھے ایک صاحب سےچند الفاظ سننے کو ملے، وہ کچھ یوں تھے: "ignore" اور "Invisible"۔ میں نے اس میں تیسرا لفظ بھی اضافہ کیا:Center of Attention۔
یہ تین الفاظ دراصل زندگی کے تین مراحل کو ظاہر کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ "مرکزِ نگاہ" کا ہوتا ہے، دوسرا نظروں سے دور اور تیسرا، نظروں سے اوجھل
یہ سمجھیں کہ ہماری زندگی کے تین اہم ادوار ہیں۔ پہلا وہ جب انسان مرکزِ نگاہ ہوتا ہے — توجہ کا مرکز، یعنی
Center of Attention۔
یہ آپ کا بچپن اور جوانی کا دور ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ہر شخص ہمارا خیال کرتا ہے، سب ہمیں پیار کرتے ہیں، ہمیں بہت توجہ ملتی ہے۔ ہماری ہر بات مانی جاتی ہے، ہماری خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے، شادی ہوتی ہے، بچے پیدا ہوتے ہیں، اور ہر چیز کسی نہ کسی طرح ہم پر منحصر ہوتی ہے۔ ہماری بات سنی بھی جاتی ہے، مانی بھی جاتی ہے۔ اگر کھانے کے وقت ہم نہ ہوں تو انتظار کیا جاتا ہے۔ ہماری پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے، ہماری دوا کا انتظام ہوتا ہے، ہمیں وقت دیا جاتا ہے، اگر ہم ناراض بھی ہوں تو برداشت کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری زندگی کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
پھر زندگی کا دوسرا مرحلہ آتا ہے۔ جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں، تقریباً پچاس سال کے قریب پہنچتے ہیں۔ بچے بڑے ہو جاتے ہیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں چلے جاتے ہیں، دوستوں میں مشغول ہو جاتے ہیں، اپنی مصروفیات میں گم ہو جاتے ہیں۔ اب ہم آہستہ آہستہ نظرانداز ہونے لگتے ہیں۔ ابو نہیں آئے تو کوئی بات نہیں، بعد میں آ جائیں گے۔ اگر ناراض ہوں تو کہا جاتا ہے، "بعد میں منا لیں گے۔" یوں آہستہ آہستہ ہم نظروں سے پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔ پہلے بچوں کو تیار کرو، ابو کی بات بعد میں کر لیں گے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب ہماری آمد و رفت سے گھر میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ تھوڑا بہت تو اثر ضرور ہوتا ہے، مگر ہم مرکز سے ہٹنے لگتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔
پھر زندگی کا تیسرا مرحلہ آتا ہے ، جب ہم بالکل کسی کام کے نہیں سمجھے جاتے۔ ریٹائر ہو جاتے ہیں، ہماری آمدنی ختم ہو جاتی ہے، گھر ہمارا محتاج نہیں رہتا۔ اب ہمیں ایک الگ کمرہ دے دیا جاتا ہے، یا برآمدے میں بستر لگا دیا جاتا ہے، یا درخت کے نیچے بٹھا دیا جاتا ہے۔ اب فیصلے ہماری مرضی کے بغیر ہوتے ہیں، مشورے ہم سے نہیں لیے جاتے۔ کہا جاتا ہے، "ضرورت نہیں ان سے پوچھنے کی۔" یہ وہ وقت ہے جب ہم اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اسی مرحلے میں ہمارے اندر نفسیاتی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ احساسِ تنہائی ہمیں جسمانی بیماریوں تک لے جاتا ہے۔ اب ہمیں کوئی نہیں دیکھتا، تو ہم خود کو دیکھنے لگتے ہیں ، کبھی آئینے میں، کبھی پرانی کتابوں میں، کبھی اپنی پرانی تصویروں میں۔ ہم خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں، بچوں سے اپنی مشکلیں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اب ہم نظروں سے اوجھل ہو چکے ہوتے ہیں۔
درخت کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے ۔ جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو ہم اس کا بہت خیال کرتے ہیں، اسے پانی دیتے ہیں، دھوپ سے بچاتے ہیں، جب وہ پھل دیتا ہے تو فائدہ اٹھاتے ہیں، اور جب پھل دینا بند کر دیتا ہے تو ہم اسے کاٹ کر باہر پھینک دیتے ہیں، اور اس کی جگہ نیا درخت لگا دیتے ہیں۔
یوں زندگی ایک دائرہ ہے۔ کبھی ہم اس کے مرکز میں ہوتے ہیں، سب کی نگاہیں ہم پر ہوتی ہیں، پھر ہم آہستہ آہستہ کنارے پر چلے جاتے ہیں، اور ایک دن مکمل طور پر دائرے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں مرکزِ نگاہ وہ لوگ ہیں جو کما کر لاتے ہیں، بچے اور نوجوان، اور عورتیں انھیں پسند کرتی ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوں۔ لیکن جب ہم کسی کام کے نہیں رہتے، تو ہمیں کونے میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ فطری عمل ہے، ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس سے بچیں کیسے؟ میرے خیال میں اس کا حل یہ ہے کہ جب تک آپ مرکزِ نگاہ ہیں، اسی دوران سوچ لیجیے کہ جب آپکی پرواہ ہونا کم ہوجائے ، تو فوراً کوئی نیا کام شروع کریں ۔ ایسا کام جو آپ کو دوبارہ مرکزِ نگاہ بنا دے۔ کسی تنظیم سے وابستہ ہو جائیں، اپنے علاقے کی عبادت گاہ یا کالج میں خدمات انجام دیں۔ کسی سرگرمی کا حصہ بنیں۔
جب آپ سرگرم رہیں گے، تو آپ کسی نہ کسی جگہ اہم رہیں گے۔ یوں آپ کے جسمانی امراض اور نفسیاتی مسائل دونوں کم ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ آپ بہت بڑا کام کریں ، چھوٹا کام بھی کافی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ مرکزِ نگاہ رہیں۔ جیسے ہی آپ محسوس کریں کہ آپ نگاہوں سے دور ہو رہے ہیں، تو اپنی جگہ بدل لیجیے، نئی سرگرمی اختیار کیجیے۔ ورنہ اگر آپ نے خود کو محدود کر لیا، تو وہ دن دور نہیں جب آپ نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گے اور یہ اوجھل ہونا انسان کو نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
یہاں میں ایک اور بات بھی کہنا چاہوں گا۔
جو بڑے لوگ ہوتے ہیں، جن کی عمر زیادہ ہوتی ہے، جن کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے، اگر آپ انہیں وقت سے پہلے ایک سائیڈ پر کر دیں، اور نظروں سے دور کر دیں، یعنی اگنور کرنا شروع کر دیں، تو اس کا نقصان نہ صرف آپ کو بلکہ پورے خاندان یا کاروبار کو بھی ہوتا ہے، کیونکہ باقی لوگوں کے پاس اتنا تجربہ نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں پنجابی میں کہا جاتا ہے:
"بابے دے بغیر بکریاں نہیں چَرن دیاں"یعنی بزرگوں کے بغیر قافلہ درست سمت میں نہیں جا سکتا۔
اسی وجہ سے میری ان تمام لوگوں سے درخواست ہے جو اپنے بڑوں کو وقت سے پہلے اگنور کر دیتے ہیں، کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں۔آپ ان کو عملی کاموں یا روزمرہ آپریشن سے دور رکھ سکتے ہیں، لیکن ان کی رائے کو ہرگز نظرانداز نہ کریں۔میں نے خود بہت سے خاندانوں میں دیکھا ہے کہ جب انہوں نے اپنے بڑوں کی بات نہیں مانی اور کہا کہ "آپ کو کچھ پتہ نہیں، ہم زیادہ اچھا کام کر سکتے ہیں"، تو بعد میں وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ٹھیک ہے، وقت کے ساتھ نئی نسل زیادہ تعلیم یافتہ اور ہوشیار ہو سکتی ہے، لیکن تجربے سے فائدہ نہ اٹھانا بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
میں نے جرمنی کی ایک بڑی کمپنی کے بارے میں پڑھا کہ وہ سال میں چند دن اپنے سارے اسٹاف کو کسی دور دراز مقام پر لے جاتی ہے۔اس پروگرام میں وہ تمام ریٹائرڈ ملازمین کو بھی واپس بلاتے ہیں۔وہ موجودہ اسٹاف کو ہدایت دیتے ہیں کہ ان بزرگ ساتھیوں سے بیٹھ کر بات کریں، ان سے جانیں کہ ماضی میں حالات کیسے تھے اور انہوں نے چیلنجز کا سامنا کیسے کیا۔اس طرح وہ نئی نسل ان کے تجربے سے سیکھتی ہے، اور ادارہ اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
میں یہ بھی کہوں گا کہ بزرگوں کو بھی بلاوجہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے،لیکن جو لوگ ان کی جگہ لے رہے ہیں ، چاہے وہ گھر میں ہوں، کاروبار میں، سیاسی جماعت میں یا کسی تنظیم میں انہیں اپنے بڑوں کی بات کو بلکل رد نہیں کرنا چاہیے۔
آخر میں یہی کہنا مناسب ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان توازن ضروری ہے۔
نہ بزرگوں کو ہر بات میں دخل دینا چاہیے،
اور نہ نئی نسل کو ان کے تجربے کو نظرانداز کرنا چاہیے۔
اسی توازن سے ہی خاندان، ادارے اور معاشرے ترقی کرتے ہیں۔
اگر یہ بات آپ کو اچھی لگے تو دوسروں تک پہنچانے میں میری مدد کریں۔

میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون و ترقی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس کے تقاضے۔آ
13/09/2025

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس کے تقاضے۔آ

09/09/2025

اللہ تعالٰی کی اطاعت،رسول اللہ ص کی اطاعت، اطاعتِ اولی الامر کی حقیقت اور اس کے تقاضے۔۔۔۔۔۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء 4:59)

قیامت کے دن ہر انسان سے کونسے پانچ سوالات ہوں گے؟۔۔۔آپ بھی سماعت فرمالیجئے۔
06/09/2025

قیامت کے دن ہر انسان سے کونسے پانچ سوالات ہوں گے؟۔۔۔آپ بھی سماعت فرمالیجئے۔

Address

Peshawar Rd، Near Hajj Complex،, I-14
Islamabad
46000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Muhammad Ghayas posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Muhammad Ghayas:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category