Dr. Muhammad Ghayas

Dr. Muhammad Ghayas Muhammad Ghayas is a Muslim religious scholar and a former president of Jamiat.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس کے تقاضے۔آ
13/09/2025

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس کے تقاضے۔آ

09/09/2025

اللہ تعالٰی کی اطاعت،رسول اللہ ص کی اطاعت، اطاعتِ اولی الامر کی حقیقت اور اس کے تقاضے۔۔۔۔۔۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء 4:59)

قیامت کے دن ہر انسان سے کونسے پانچ سوالات ہوں گے؟۔۔۔آپ بھی سماعت فرمالیجئے۔
06/09/2025

قیامت کے دن ہر انسان سے کونسے پانچ سوالات ہوں گے؟۔۔۔آپ بھی سماعت فرمالیجئے۔

01/09/2025

کیا اسلام دینی اور دنیاوی علوم میں تفریق کرتا ہے؟۔۔قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جائزہ۔

اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ قرآن مجید میں بارہا علم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾(الزمر: 9)ترجمہ: "کہہ دیجئے! کیا علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں؟"یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ علم انسان کی عظمت اور برتری کا اصل معیار ہے۔ تاہم یہاں "علم" کو صرف عبادات یا فقہی مسائل تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ اس کا دائرہ کائنات کے تمام علوم پر محیط ہے، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔

دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم:
یہ تقسیم دراصل بعد کے ادوار میں مسلمانوں کے علمی زوال کے ساتھ پیدا ہوئی۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ایسا کوئی فرق موجود نہ تھا۔ مسلمان علما ایک ہی وقت میں قرآن و حدیث کے ماہر بھی تھے اور طب، فلکیات، ریاضی اور فلسفہ کے امام بھی۔ امام رازی، فارابی، ابنِ سینا، البیرونی اور ابن الہیثم اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات کے اسرار جاننا بھی "عبادت" تھا، کیونکہ اس کے ذریعے اللہ کی عظمت پہچانی جاتی ہے۔

قرآن کا تصورِ علم:
قرآن مجید نے جہاں وحی کے علوم کو اہم قرار دیا، وہیں کائنات پر غور و فکر کی بار بار دعوت بھی دی:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (آل عمران: 190)ترجمہ: "بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کے ادل بدل میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔" اس سے واضح ہوتا ہے کہ طبیعیات، فلکیات اور دیگر سائنسی علوم کو سمجھنا بھی قرآن کی ہدایت کے مطابق ہے۔

حاصل کلام:
اسلام کے نزدیک "دینی" اور "دنیاوی" علوم کی تقسیم حقیقت میں مصنوعی ہے۔ ہر وہ علم جو انسانیت کی بھلائی اور اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہو، وہ دینی ہے۔ البتہ فضیلت اس علم کو ہے جو براہ راست انسان کو اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ اس لیے اصل فرق "نافع اور غیر نافع علم" کا ہے، نہ کہ "دینی اور دنیاوی علم" کا۔یوں قرآن کی اس آیت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علم کی ہر قسم انسان کے شرف کا سبب ہے، اور اسلام دونوں کو ایک ہی مقصد، یعنی بندگیٔ رب اور خدمتِ انسانیت، کی طرف لے جاتا ہے۔

29/08/2025

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم،بسم الله الرحمن الرحيم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ (البقرہ: 208)
کیا دینِ اسلام صرف نماز، روزہ اور دیگر عبادات تک محدود ہے، یا یہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے؟ قرآن ہمیں یہ حقیقت بتاتا ہے کہ اسلام ایک ہمہ گیر نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ آیت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اسلام کو جزوی طور پر نہیں بلکہ مکمل طور پر اپنایا جائے، اور اپنی فکری، عملی اور اخلاقی زندگی کو اسی کے مطابق ڈھالا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ جزوی اور کلی اسلام کا مفہوم کیا ہے؟ اس کو کس طرح سمجھا جائے؟ اور اصلاح کا مطلب رد نہیں بلکہ دراصل صحیح رخ پر لانا ہے، تو اس کی عملی صورت کیا ہوگی؟
ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے اس ویڈیو کلپ کو ضرور ملاحظہ کیجیے۔

18/08/2025
24/11/2024
14/10/2024

*تفرقہ بندی، پارٹی بازی، اور قوم پسندی: اسلام کا جامع نظریہ*

اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنی بنیادوں میں اتحاد اور یکجہتی کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں بار بار مسلمانوں کو باہمی اتحاد، بھائی چارے، اور اختلافات سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ دین اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ فرقہ واریت، گروہ بندی، اور پارٹی پرستی نہ صرف امت کو تقسیم کرتی ہے بلکہ دین کی اصل روح کو مجروح کرتی ہے۔

*تفرقہ کی مذمت قرآن کی روشنی میں*
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفرقہ اور اختلاف کی ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
(سورة آل عمران، 3:103)
(اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت کرو)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور اختلافات سے بچیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
"مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ"
(سورة الروم، 30:32)
(وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقوں میں بٹ گئے، ہر جماعت اپنے پاس جو ہے اس پر خوش ہے)

یہ آیات ہمیں اس بات کی وضاحت دیتی ہیں کہ دین اسلام میں مطلقٍ فرقہ واریت اور مطلقِ گروہ بندی کی کوئی جگہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کہا ہے کہ جو لوگ دین کو تقسیم کرتے ہیں (یعنی ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ جس کے نتیجے میں مسلمان تقسیم ہو جائے) اور اپنی اپنی راہوں پر چلتے جائیں، وہ غلطی پر ہیں۔

*احادیث کی روشنی میں اتفاق کی اہمیت*

نبی کریم ﷺ نے متعدد احادیث میں مسلمانوں کو "امتی اجتماعیت" کے ساتھ رہنے اور تفرقہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"تم پر مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ رہنا لازم ہے اور تفرقہ سے بچو، کیونکہ شیطان تنہا انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوتے ہیں تو ان سے دور ہوتا ہے۔"
(سنن ترمذی)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شیطان ان لوگوں کو اپنے چنگل میں لے لیتا ہے جو مسلمانوں کی اجتماعیت سے ہٹ کر الگ رہتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا كہ فرقوں کی صورت اختیار کرنا یا پھر الگ تلگ رہنا دونوں غلط ہے۔
اسی طرح، نبی ﷺ نے فرمایا:
"بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں ہو گا اور باقی جہنم میں۔"
(سنن ترمذی)
یہ حدیث ہمیں خبردار کرتی ہے کہ امت محمدیہ ص بھی تفرقہ میں مبتلا ہو سکتی ہے،بلکہ م تلا ہے، لیکن نجات اسی اجتماعیت کی ہو گی جو نبی ﷺ اور صحابہ ض کے طریقے پر ہوگی(کہ جس پر کسی فرقے کا اطلاق نہ ہوتا ہو یہاں فرقہ مطلق مذکور ہے اس سے مراد ہر قسم فرقہ واریت ہے صرف مسلکی اور مذہبی فرقہ واریت مراد نہیں)۔

*قوم پسندی اور قوم کے ساتھ محبت*
اسلام ایک جامع دین ہے جو انسانیت کی بھلائی اور اتحاد کو فروغ دیتا ہے۔ قوم سے محبت اور اپنی قوم کے ساتھ وفاداری فطری عمل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف قبائل اور قوموں کے بارے میں فرمایا:
"وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا"
(سورة الحجرات، 49:13)
(اور ہم نے تمہارے اندر قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو) یہاں مراد تعارف شخصی نہیں فقط بلکہ اجتماعی بھی مراد ہے۔
یہ آیت قوموں کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مختلف قوموں کا ہونا انسانوں کے درمیان پہچان کے لئے ہے، نہ کہ تفرقہ اور برتری کے لئے۔

البتہ، قوم پرستی کو معیار حق بنانا، یا قوم کی بنیاد پر دوسروں کو کم تر سمجھنا، اسلام میں سختی سے منع ہے۔ قوم پرستی اس وقت نقصان دہ ہوتی ہے جب اسے حق و باطل کا معیار بنا لیا جائے، اور قوم کو دین اور حقائق سے اوپر سمجھا جائے۔

*قومیت کی بنیاد پر اصلاح*
قومیت کی بنیاد پر خیر خواہی یا اس کی بنیاد پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجانا تو موسی علیہ السلام کی سنت ہے۔جس کا قرآن کریم میں جگہ جگہ ذکر موجود ہے۔اگر قوم کے اندر ہی کوئی ظلم کریں تو سورہ الحجرات آیت نمبر 9 میں اس حوالے سے واضح راہنمائی موجود ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ظالم کو روکا جائے یا پھر مظلوم کا ساتھ دیا جائے یہاں تک کہ ظالم راہ راست پر آجائیں۔تو جب وہ راہ راست پر آجائیں تو پھر تمھارے دینی بھائی ہیں آپس میں صلح کرائے۔
اسلام ہمیں ہر قسم کی فرقہ واریت، گروہ بندی اور پارٹی بازی سے بچنے کا حکم دیتا ہے تاکہ ہم ایک مضبوط اور متحد امت بن سکیں۔
علامہ اقبال نے اس موضوع پر خوبصورت الفاظ میں فرمایا:

خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سُود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

یہ اشعار ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرواتا ہیں کہ چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، ہمارا اصل پیغام اور مقصد صرف توحید ہے اور اس کی بنیاد پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا ہے جس میں سب برابر ہو۔ اسلام میں حق کا معیار قرآن اور سنت ہے، نہ کہ کوئی جماعت، یا گروہ۔
الغرض اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہمیں محبت، اتحاد، اور یکجہتی کی تعلیم دیتا ہے۔ تفرقہ بندی، پارٹی بازی، اور گروہ پرستی اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ قوم سے محبت جائز ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں حق کا اتباع کرنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی،ملکی اور امت مسلمہ کی وحدت کے لئے کام کرنا چاہیے۔

آج 4 اکتوبر 2024 ہے۔14 سال پہلے اس دن (4 اکتوبر 2024) انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ایک ملاق...
03/10/2024

آج 4 اکتوبر 2024 ہے۔14 سال پہلے اس دن (4 اکتوبر 2024) انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔میں نے ان کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی تو انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ٹلیفونک خطاب پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بھی مشکل ہے۔البتہ اب حالات بدل گئے ہیں۔انھوں نے ہندوستان سے ملائشیا ہجرت کی ہے۔اب وہ جہاں چاہے تو جاسکتے ہیں۔آج کل وہ پاکستان میں موجود ہے۔میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں۔اللہ تعالی دین کے لئے ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔اُس دن کی اِس تصویر پر تاریخ بھی نقش ہے۔

28/09/2024

Address

Peshawar Rd، Near Hajj Complex،, I-14
Islamabad
46000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Muhammad Ghayas posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Muhammad Ghayas:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category