14/10/2024
*تفرقہ بندی، پارٹی بازی، اور قوم پسندی: اسلام کا جامع نظریہ*
اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنی بنیادوں میں اتحاد اور یکجہتی کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں بار بار مسلمانوں کو باہمی اتحاد، بھائی چارے، اور اختلافات سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ دین اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ فرقہ واریت، گروہ بندی، اور پارٹی پرستی نہ صرف امت کو تقسیم کرتی ہے بلکہ دین کی اصل روح کو مجروح کرتی ہے۔
*تفرقہ کی مذمت قرآن کی روشنی میں*
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تفرقہ اور اختلاف کی ممانعت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"
(سورة آل عمران، 3:103)
(اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت کرو)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور اختلافات سے بچیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
"مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ"
(سورة الروم، 30:32)
(وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقوں میں بٹ گئے، ہر جماعت اپنے پاس جو ہے اس پر خوش ہے)
یہ آیات ہمیں اس بات کی وضاحت دیتی ہیں کہ دین اسلام میں مطلقٍ فرقہ واریت اور مطلقِ گروہ بندی کی کوئی جگہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کہا ہے کہ جو لوگ دین کو تقسیم کرتے ہیں (یعنی ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ جس کے نتیجے میں مسلمان تقسیم ہو جائے) اور اپنی اپنی راہوں پر چلتے جائیں، وہ غلطی پر ہیں۔
*احادیث کی روشنی میں اتفاق کی اہمیت*
نبی کریم ﷺ نے متعدد احادیث میں مسلمانوں کو "امتی اجتماعیت" کے ساتھ رہنے اور تفرقہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"تم پر مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ رہنا لازم ہے اور تفرقہ سے بچو، کیونکہ شیطان تنہا انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور جب دو ہوتے ہیں تو ان سے دور ہوتا ہے۔"
(سنن ترمذی)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شیطان ان لوگوں کو اپنے چنگل میں لے لیتا ہے جو مسلمانوں کی اجتماعیت سے ہٹ کر الگ رہتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا كہ فرقوں کی صورت اختیار کرنا یا پھر الگ تلگ رہنا دونوں غلط ہے۔
اسی طرح، نبی ﷺ نے فرمایا:
"بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں ہو گا اور باقی جہنم میں۔"
(سنن ترمذی)
یہ حدیث ہمیں خبردار کرتی ہے کہ امت محمدیہ ص بھی تفرقہ میں مبتلا ہو سکتی ہے،بلکہ م تلا ہے، لیکن نجات اسی اجتماعیت کی ہو گی جو نبی ﷺ اور صحابہ ض کے طریقے پر ہوگی(کہ جس پر کسی فرقے کا اطلاق نہ ہوتا ہو یہاں فرقہ مطلق مذکور ہے اس سے مراد ہر قسم فرقہ واریت ہے صرف مسلکی اور مذہبی فرقہ واریت مراد نہیں)۔
*قوم پسندی اور قوم کے ساتھ محبت*
اسلام ایک جامع دین ہے جو انسانیت کی بھلائی اور اتحاد کو فروغ دیتا ہے۔ قوم سے محبت اور اپنی قوم کے ساتھ وفاداری فطری عمل ہے اور اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف قبائل اور قوموں کے بارے میں فرمایا:
"وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا"
(سورة الحجرات، 49:13)
(اور ہم نے تمہارے اندر قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو) یہاں مراد تعارف شخصی نہیں فقط بلکہ اجتماعی بھی مراد ہے۔
یہ آیت قوموں کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مختلف قوموں کا ہونا انسانوں کے درمیان پہچان کے لئے ہے، نہ کہ تفرقہ اور برتری کے لئے۔
البتہ، قوم پرستی کو معیار حق بنانا، یا قوم کی بنیاد پر دوسروں کو کم تر سمجھنا، اسلام میں سختی سے منع ہے۔ قوم پرستی اس وقت نقصان دہ ہوتی ہے جب اسے حق و باطل کا معیار بنا لیا جائے، اور قوم کو دین اور حقائق سے اوپر سمجھا جائے۔
*قومیت کی بنیاد پر اصلاح*
قومیت کی بنیاد پر خیر خواہی یا اس کی بنیاد پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجانا تو موسی علیہ السلام کی سنت ہے۔جس کا قرآن کریم میں جگہ جگہ ذکر موجود ہے۔اگر قوم کے اندر ہی کوئی ظلم کریں تو سورہ الحجرات آیت نمبر 9 میں اس حوالے سے واضح راہنمائی موجود ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ظالم کو روکا جائے یا پھر مظلوم کا ساتھ دیا جائے یہاں تک کہ ظالم راہ راست پر آجائیں۔تو جب وہ راہ راست پر آجائیں تو پھر تمھارے دینی بھائی ہیں آپس میں صلح کرائے۔
اسلام ہمیں ہر قسم کی فرقہ واریت، گروہ بندی اور پارٹی بازی سے بچنے کا حکم دیتا ہے تاکہ ہم ایک مضبوط اور متحد امت بن سکیں۔
علامہ اقبال نے اس موضوع پر خوبصورت الفاظ میں فرمایا:
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
کِیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سُود و زیاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ اشعار ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کرواتا ہیں کہ چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، ہمارا اصل پیغام اور مقصد صرف توحید ہے اور اس کی بنیاد پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا ہے جس میں سب برابر ہو۔ اسلام میں حق کا معیار قرآن اور سنت ہے، نہ کہ کوئی جماعت، یا گروہ۔
الغرض اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہمیں محبت، اتحاد، اور یکجہتی کی تعلیم دیتا ہے۔ تفرقہ بندی، پارٹی بازی، اور گروہ پرستی اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ قوم سے محبت جائز ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں حق کا اتباع کرنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی،ملکی اور امت مسلمہ کی وحدت کے لئے کام کرنا چاہیے۔