Dr Ahmad Leghari

Dr Ahmad Leghari Doctors life

26/05/2025

🤣🤣

اور پھر پینٹ پہن کے خچروں کا گوشت کھانے والوں نے بڑی شلوار پہن کے بکری کا گوشت کھانے والوں کے ساتھ لو لو پپو کر دیا۔یہ ہ...
25/05/2025

اور پھر پینٹ پہن کے خچروں کا گوشت کھانے والوں نے بڑی شلوار پہن کے بکری کا گوشت کھانے والوں کے ساتھ لو لو پپو کر دیا۔
یہ ہے وہ بشیر جس کے بارے میں سب پوچھ رہے تھے کہ "بشیر کون ہے؟"

**عنوان:** **"انسان کی بے بسی — جب زندگی صرف ایک سانس کی محتاج ہو جائے"**  **تحریر:** **ڈاکٹر احمد لغاری**  --- # # # **...
25/05/2025

**عنوان:** **"انسان کی بے بسی — جب زندگی صرف ایک سانس کی محتاج ہو جائے"**
**تحریر:** **ڈاکٹر احمد لغاری**

---

# # # **تمہید**
کچھ دن پہلے تک جو شخص مہنگی گاڑی، ترقی یافتہ نوکری، اور اپنے خوابوں کی عورت کے بارے میں سوچ رہا تھا، آج وہ ایک پتھر پر بیٹھا اپنی ہی لاش کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر چیخیں ہیں جو سننے والا کوئی نہیں، ہاتھ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں سے بے کار ہو چکے ہیں، اور آنکھیں مدد کے لیے کسی اجنبی کی راہ تک رہی ہیں۔ مگر ویرانے میں صرف پتھر ہیں جو اس کی بے بسی کے گواہ بنے ہوئے ہیں۔ یہی **انسانی بے بسی** کی انتہا ہے — جب ہماری تمام "خواہشات" ایک لمحے میں **صرف ایک تمنا** میں سمٹ جاتی ہیں: **"کوئی میری زندگی بچا لے!"**

---

# # # **وہ لمحہ جب سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے**
کچھ دن پہلے، 4 دوست شمالی علاقوں میں سیر کو نکلے۔ ایک حادثہ، پھر 4 دن تک گمشدگی۔ پھر پتا چلا کہ تین دوست گاڑی میں ہی جان کی بازی ہار گئے، اور چوتھا شخص — زخموں سے چور — گاڑی سے نکل کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ شاید اس نے سوچا ہو گا کہ یہ پتھر اس کی مدد کرے گا، شاید اس نے اسے سہارا سمجھ لیا ہو گا۔ مگر وہ پتھر بھی بے حس تھا۔ وہ وہیں بیٹھا رہا — ٹوٹی ہڈیوں، بہتے خون اور موت کے درمیان — اور اپنی ہی سانسیں گنتا رہا۔

**کیا اس لمحے وہ شخص اپنی نوکری، گاڑی، یا رومانوی تعلقات کے بارے میں سوچ رہا ہو گا؟** نہیں۔ اس کے دماغ میں صرف **زندہ رہنے کی جبلت** تھی۔ وہ پتھر جس پر وہ بیٹھا تھا، وہ اس کی زندگی کا آخری سہارا بن گیا تھا۔ یہی **انسانی فطرت** کی عکاسی ہے — ہم سب اپنی بے بسی میں ایک جیسے ہیں۔

---

# # # **انسانی تکبر کا المیہ**
ہم روزانہ **"میں، میرے، میرا"** کے جال میں الجھے رہتے ہیں۔ مال و دولت، رتبے، اور تعلقات کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مگر جب موت سامنے کھڑی ہوتی ہے، تو یہ سب **کاغذ کے محل** ثابت ہوتے ہیں۔ وہ شخص جس نے کبھی اپنی گاڑی پر فخر کیا ہو گا، آج اسی گاڑی کے سامنے ایک پتھر پر بیٹھا اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا۔

---

# # # **پیغام: عاجزی اور حقیقت پسندی**
1. **زندگی غیر یقینی ہے:** آج ہم ہیں، کل نہیں۔ اس لیے تکبر چھوڑیں۔
2. **دوسروں کی مدد کریں:** اگر آپ کسی کی چیخ سنیں تو اسے "ڈرامہ" نہ سمجھیں۔
3. **خواہشات پر قابو پائیں:** جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہ کسی کے لیے خواب ہو سکتا ہے۔

---

# # # **اختتام**
اس واقعے نے مجھے یاد دلایا کہ **انسانی زندگی کتنی نازک ہے**۔ ہم سب اپنی بے بسی میں ایک جیسے ہیں، مگر پھر بھی غرور سے اندھے ہوئے ہیں۔ آج اپنے پیاروں کو گلے لگائیں، اور ان چیزوں کی قدر کریں جو **حقیقی معنوں میں قیمتی** ہیں: **صحت، محبت، اور انسانیت**۔

---
**✍️ ڈاکٹر احمد لغاری**
*(میڈیکل پریکٹیشنر اور سماجی موضوعات پر قلم کار)*

عنوان:"سفید کوٹ میں چھپا بھیڑیا: جب مسیحا ہی قصائی بن جائے"تحریر: Dr. Ahmad Leghariمرحلہ اول: خواب اور عقیدتجب میں ایم ب...
23/05/2025

عنوان:
"سفید کوٹ میں چھپا بھیڑیا: جب مسیحا ہی قصائی بن جائے"
تحریر: Dr. Ahmad Leghari

مرحلہ اول: خواب اور عقیدت
جب میں ایم بی بی ایس کا طالبعلم تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ ڈاکٹر وہ ہستی ہے جو زمین پر اللہ کے بعد سب سے بڑی امید ہے۔
جو زندگی بخشتا ہے، تکلیف دور کرتا ہے، اور موت کے منہ سے واپس کھینچ لاتا ہے۔
میرے دل میں ڈاکٹر کے لیے جو عزت تھی، وہ کسی ولی، کسی پیر، کسی مسیحا سے کم نہ تھی۔

لیکن… وقت کے ساتھ… کچھ سچائیاں بےنقاب ہوئیں۔

مرحلہ دوم: سفید کوٹ کے پیچھے کی حقیقت
صرف دو سال کا تجربہ کافی تھا مجھے یہ دکھانے کے لیے کہ
آج کا ڈاکٹر — بطور مجموعی — "مریض" سے زیادہ "منافع" کو دیکھتا ہے۔
ہم نے مسیحائی چھوڑ کر تجارت کو اپنا لیا ہے۔
پہلے اضافی اور غیر ضروری ٹیسٹ لکھوائے جاتے ہیں تاکہ لیبارٹری سے کمیشن حاصل ہو۔
لیکن یہ بھی کافی نہ ہوا، تو اب بات یہاں تک آ گئی ہے کہ
ہم خود لیبارٹری والوں سے کہتے ہیں کہ:

> “فلاں ٹیسٹ میں کچھ نہ کچھ مثبت نکال دو — چاہے وہ ہو یا نہ ہو۔”
مثلاً پلیٹ لیٹس کم کر دو، سی آر پی یا ای ایس آر بڑھا دو، یا ڈینگی/ملیریا کو پازیٹو لکھ دو۔

اس کے بعد مریض کو اینٹی بایوٹک کی ایسی مہنگی دوا لکھ کر دیتے ہیں، جس سے ہمیں دوا سے بھی کمیشن ملے۔
پھر ساتھ الٹراساؤنڈ، ایکس رے، اور مزید ٹیسٹ — سب کچھ کمیشن کے لیے۔
ہمیں "مسیحائی" سے زیادہ "کمیٹمنٹس" ہیں:
حج بھی کرنا ہے، والدین کو عمرہ بھی کروانا ہے،

مرحلہ سوم: چاقو کہاں چلتا ہے؟
بڑے شہروں کے نجی ہسپتالوں میں جائیں، تو چھوٹے سے مرض پر بھی
ایسا خوفناک تشخیص سننے کو ملتا ہے کہ دل دہل جائے۔
نیورولوجسٹ، اسپائن سرجن، اور گائناکالوجسٹ —
ان میں سب سے زیادہ خطرناک وہ ہیں جو مریض کو فوراً آپریٹ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

گائنی کلینکس میں تو "نارمل ڈیلیوری" اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
ایک دم مریض کے لواحقین کو سنایا جاتا ہے:

> “ماں اور بچہ دونوں خطرے میں ہیں! 30 منٹ میں سی سیکشن ضروری ہے!”

حالانکہ اکثر کیسز میں ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں ہوتی۔
یہ سب صرف اس لیے کہ "سرجری" میں سب سے زیادہ کمائی ہے۔

مرحلہ چہارم: بڑے شہر، بڑے قصائی
اسلام آباد، لاہور، کراچی، راولپنڈی — جتنا بڑا شہر، اتنا بڑا نقاب پوش قصائی۔
ڈاکٹر کا لباس، لیکن دل بےرحم تاجر کا۔
سفید کوٹ میں بھیڑیا — جو خون چوستا ہے، نہ کہ خون بچاتا ہے۔

مرحلہ پنجم: میری دو سادہ گزارشات

1. جب بھی کوئی بیماری ہو، پہلے اپنے قریبی سرکاری ہسپتال سے رجوع کریں۔

2. کسی قابلِ اعتماد، دیانتدار رشتہ دار یا جاننے والے ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر
کبھی کوئی بڑا طبی فیصلہ نہ لیں — خاص طور پر آپریشن یا مہنگے علاج کا۔

"بائیک نامہ – ایک عشق، دو پہیے اور ہزاروں کہانیاں"تحریر: ڈاکٹر احمد لغاریکبھی کبھی زندگی ہمیں تحفے دیتی ہے…ایسے تحفے جو ...
19/05/2025

"بائیک نامہ – ایک عشق، دو پہیے اور ہزاروں کہانیاں"
تحریر: ڈاکٹر احمد لغاری

کبھی کبھی زندگی ہمیں تحفے دیتی ہے…
ایسے تحفے جو پہلی نظر میں "کباڑ" لگتے ہیں،
مگر پھر دل میں ایسا گھر کر لیتے ہیں کہ سالوں ساتھ نبھاتے ہیں۔

میری زندگی کا وہ تحفہ،
ایک بائیک ہے…
جسے میں نے 36,000 روپے میں خریدا—وہ بھی قسطوں پر!
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بائیک بھی مجھے ملی ایک ڈاکٹر دوست سے،
جو اپنے تبادلے پر رحیم یار خان جا رہے تھے،
تو میں نے کہا:
"ڈاکٹر صاحب، آپ تو جا رہے ہیں، لیکن یہ بائیک میرے ساتھ چھوڑ جائیں… آخر یہ بھی تو کچھ دن آپ کے ساتھ ہسپتال جا چکی ہے!"

یوں، میرے اور اس بائیک کے درمیان ایک خاموش، زنگ آلود رشتہ بن گیا۔

عشق کا آغاز – دو پہیے اور ایک ڈاکٹر

وہ بائیک تھی… پرانی، ہانپتی ہوئی، جیسے ہر صبح مجھ سے کہتی ہو:
"بس آج آخری دن ہے، کل مجھے مت جگانا!"
اور میں کہتا:
"تیری قسمت میں تو ابھی کئی بار پینچر ہونا باقی ہے!"

تب سے لے کر آج تک، ہم نے دھوپیں، بارشیں، خرابیاں، لفٹس، پینچرز، چین ٹوٹنا، سائلنسر گرنا—سب کچھ ایک ساتھ جھیلا ہے۔

میری ماں کی "لفٹ والی سنت"

امی نے زندگی بھر مجھے ایک ہی بات سکھائی:
"بیٹا! جو بندہ راستے میں پیدل ملے، اس کو بٹھا لیا کرو۔"
تو بس… اسی دن سے، چاہے بائیک کی حالت کچھ بھی ہو،
میں ہر اجنبی کو بٹھا لیتا ہوں۔

ایک بار خود 90 کلو تھا، ایک سواری کو لفٹ دی جو شاید خود سے بھی زیادہ بھاری تھا،
جیسے ہی وہ بیٹھا، بائیک نے کانپتے ہوئے آواز نکالی:
"ڈاکٹر صاحب! میری سپائن سرجری کرا دیں!"

پینچر اور پینک

اب آؤ، ذرا اصل درد کی بات کریں:
پینچر!

بندہ کسی ویران جگہ پہ ہو، پینچر ہو جائے، تو انسان صرف بائیک کو نہیں، خود کو بھی گھسیٹتا ہے۔
اور جیسے ہی پینچر والے کے پاس پہنچیں، وہ کہتا ہے:
"ڈاکٹر صاحب! ٹیوب تو پھٹ گئی ہے، نئی ڈالنی پڑے گی!"
دل سے آواز آتی ہے:
"او بھائی! یہ 36 ہزار کی بائیک ہے، آپ 800 کی ٹیوب ڈال کر میرا پورا بجٹ اڑا رہے ہو!"

قسم سے، اس وقت بائیک کی حالت مجھ سے بہتر لگتی ہے۔
کیونکہ کم از کم وہ "چپ" رہتی ہے، اور میں اندر سے ٹوٹتا ہوں!

وہ دن جب چین ٹوٹا

ایک بار تو حد ہی ہو گئی—چین ٹوٹ گئی۔
میں بائیک کے ساتھ سڑک کنارے کھڑا، اداس، بالکل فلمی انداز میں۔
ایک بندہ آیا، بولا:
"ڈاکٹر صاحب! پریشان نہ ہوں، میرے گھر چلو!"
میں نے دل میں کہا:
"یااللہ! کہیں زبردستی شادی تو نہیں کروائے گا؟"

لیکن وہ نکلا انسانیت کی آخری نشانی!
مجھے اپنے گھر لے گیا، چین کھول کر دوبارہ ڈلوا دی۔
میں نے اس دن بائیک سے کہا:
"دیکھ لیا؟ تمہارے لیے لوگ کیا کچھ کر رہے ہیں، کبھی میرے لیے بھی دعائیں کیا کرو!"

ابو کا قلم والا قول

ابو ہمیشہ کہتے تھے:
"بیٹا! تم ڈاکٹر ہو، اور ڈاکٹر کا قلم بہت تیز ہوتا ہے، اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کے کرنا۔"
میڈیکو لیگل کیسز میں ایک دفعہ لگا دی تو بندہ سیدھا جیل۔
تو ہر بار دستخط سے پہلے ابو کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔

کبھی کبھی لگتا ہے بائیک بھی یہ جملہ سن چکی ہے۔
کیونکہ جب میں اس پہ بیٹھتا ہوں تو وہ بولتی ہے:
"ڈاکٹر صاحب! اپنے وزن کا صحیح استعمال کریں، زور نہ لگائیں!"

سواری نہیں، سہیلی ہے

یہ بائیک اب میرے لیے سواری نہیں، ایک پرانی سہیلی ہے۔
جسے میں سروس نہیں کرواتا،
جسے میں نئی سیٹ نہیں دلواتا،
جسے میں کبھی ٹیوننگ پہ نہیں لے گیا—
مگر پھر بھی، وہ کبھی شکایت نہیں کرتی۔

جب دوست گاڑیوں میں بیٹھے، اور پوچھیں:
"تم ابھی تک بائیک پہ؟"
تو میں ہنستا ہوں،
اور دل میں کہتا ہوں:
"ہاں، میں بائیک پہ ہوں، کیونکہ میں وہ عزت کماتا ہوں جو اقساط پر نہیں ملتی!"

آخری پیغام

اگر آپ حلال کما رہے ہو،
تو زندگی آسان نہیں، لیکن سچی ضرور ہوتی ہے۔
گاڑی نہ ہو تو کوئی بات نہیں،
اگر آپ کے پاس ایک پرانی بائیک ہو، جو آپ کی سچائی کے ساتھ چل رہی ہو—
تو یقین جانیں، وہ آپ کی عظمت کا سب سے خوبصورت استعارہ ہے۔

تو سلام ہے اس بائیک کو،
جو دھواں چھوڑتی ہے،
آواز کرتی ہے،
روڈ پر کبھی ہنستی ہے، کبھی روتی ہے—
لیکن وفا میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی!

اور ہاں... MBBS کی زندگی میں دو اور بائیکس تھیں — ان کی کہانی پھر کبھی سناؤں گا،
آج کی پوسٹ اس عشق کے نام جو دو پہیوں پر قائم ہے!”

عنوان: "اک پرندہ، اک تنہائی... اور میرا خدا"تحریر: ڈاکٹر احمد لغاریتاریخ: 17 مئی 2025تین ماہ پہلے کی بات ہے، جب میں نے ا...
17/05/2025

عنوان: "اک پرندہ، اک تنہائی... اور میرا خدا"
تحریر: ڈاکٹر احمد لغاری
تاریخ: 17 مئی 2025
تین ماہ پہلے کی بات ہے، جب میں نے اسپتال کی چھت پر ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش اختیار کی۔ تنہائی میرے اردگرد یوں لپٹی ہوئی تھی جیسے سانسیں بھی خاموش چل رہی ہوں۔ تبھی ایک دن، شام کے وقت، میری کھڑکی کے پاس ایک چھوٹا سا پرندہ آ کر بیٹھ گیا۔ وہ روز آتا، گارڈر پر بیٹھ کر مجھے چپ چاپ دیکھتا، جیسے میرا حال جانتا ہو۔
اُس پرندے سے ایک خاموش دوستی ہو گئی۔
کبھی وہ میری تنہائی کا ساتھی لگتا، کبھی وہی تنہائی کا حصہ۔
پھر ایک دن اُس نے آنا شروع کر دیا، جب میں کسی کتاب میں گم ہوتا یا رات کو سناٹے میں بیٹھا ہوتا، وہ اچانک ظاہر ہو جاتا۔
پریشان ہو گیا، اور آخرکار اسٹاف سے کہا کہ کھڑکی بند کروا دیں۔
لیکن اُس کی ضد کچھ اور تھی۔
اس نے راستہ بدلا، اور اب وہ مغرب کے وقت میرے واش روم کی کھڑکی سے آتا، صبح واپس چلا جاتا۔
کچھ دن بعد، میں نے دیکھا کہ وہ اندر ہی گھونسلا بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایک ایسی جگہ جہاں گھونسلا بنانا ممکن نہ تھا — مگر وہ ہارا نہیں۔
دو ماہ تک وہ تنکے، کاغذ، پتھر لا کر جمع کرتا رہا۔
میرا واش روم اُس کے لیے ورکشاپ بن چکا تھا۔
اور پھر ایک دن، اُس نے واقعی ایک مکمل گھونسلا بنا لیا۔
میں حیران ہوا۔
یہ پرندہ وہ کام کر گیا جو اکثر ہم انسان نہ کر سکیں —
یعنی ہار نہ ماننا۔
میں نے اُس گھونسلے کو، اُس جدوجہد کو دل سے سلام کیا۔
پھر اس نے انڈے دیے، اور خود کو گھونسلے میں قید کر لیا۔
اب میری ہر پرائیویسی اُس کی نظروں میں تھی —
میں نہاتا، شیو کرتا، اور وہ مجھے تکتے رہتا۔
میں ہنستا، کبھی کہتا: “یار! میری تو زندگی reality show بن گئی ہے!”
پھر... ایک دن صبح، میں واش روم گیا —
اور وہاں دو ننھے، بےجان پرندے بچے فرش پر پڑے تھے۔
میرا دل بیٹھ گیا۔
تین مہینے کی محنت، انتظار، قربانی — اور یہ انجام؟
اللہ سے شکوہ کیا۔
ہاں، میں مسجد کم جاتا ہوں،
لیکن اللہ روز میرے کمرے آتا ہے۔
ہم دیر تک باتیں کرتے ہیں۔
میں تنہائی میں بس اُسی کو آواز دیتا ہوں،
اور وہ فوراً آ جاتا ہے۔
جمعہ، 16 مئی 2025 کی صبح —
کچھ پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا۔
جیسے ہی دل سے اللہ کو پکارا،
وہ ایک سیکنڈ میں میرے کمرے آ گیا۔
ہماری اُس دن 30 منٹ کی ملاقات ہوئی۔
میری آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔
میں نے وعدہ کیا کہ اگلے جمعے کو، میں اُس کے گھر ضرور جاؤں گا۔
(بس اُس سے کہیں کہ اُس دن ضد نہ کرے، میری حالت وہی جانتا ہے۔)
اُس ملاقات میں ہم نے بہت باتیں کیں،
لیکن اُس پرندے کا ذکر اُس دن نہ ہوا۔
شاید وہ باتیں اُس نے پہلے ہی سن لی تھیں۔
آج صبح — 17 مئی — میں پھر واش روم گیا۔
فضا عجیب تھی۔
فرش پر بکھری اشیاء، دیواروں پر لڑائی کے نشانات،
اور فلیش کے اندر... ایک اور بچہ — شاید تیسرا — مردہ پڑا تھا۔
وہ شاید اب اُڑنے کے قابل ہو رہا تھا،
لیکن ماں باپ کی کوشش کے باوجود، وہ خود کو آزاد نہ کر سکا۔
اور اڑنے سے پہلے، گر کر مر گیا۔
اب میں پھر تنہا ہوں۔
پرندے چلے گئے۔
گھونسلا ویران ہو گیا۔
اور میں... پھر سوالوں میں گم ہوں۔
کیا مقصد تھا اس سب کا؟
کیا تین مہینے کی جدوجہد، صرف یہ دکھانے کے لیے تھی کہ کبھی کبھی سب کچھ کرنے کے باوجود، نتیجہ آپ کے بس میں نہیں ہوتا؟
یا پھر اللہ مجھے کچھ سکھانا چاہتا تھا؟
ہو سکتا ہے، اگلی ملاقات میں، میں اُس سے پوچھ لوں۔
شاید یہ کہانی کسی پرندے کی نہ ہو — بلکہ ہم سب کی ہو۔

کبھی سوچا تھا کہ فورٹ منرو جیسے خوبصورت علاقے میں ہمارے اپنے نوجوان نشے میں ڈوب رہے ہوں گے؟منرو میں نشے کی لعنت: ایک نوج...
15/05/2025

کبھی سوچا تھا کہ فورٹ منرو جیسے خوبصورت علاقے میں ہمارے اپنے نوجوان نشے میں ڈوب رہے ہوں گے؟

منرو میں نشے کی لعنت: ایک نوجوان کی آنکھوں دیکھی داستان

تحریر: [dr ahmad Leghari]

پس منظر: لاک ڈاؤن کے دوران ایک تلخ مشاہدہ
تین سے چار سال قبل جب کورونا کی وجہ سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند ہو چکے تھے، میں بھی کچھ وقت کے لیے فورٹ منرو واپس آ گیا۔ روزمرہ کی مصروف زندگی یکدم رُک گئی تھی، اور ہر طرف ایک خاموشی سی چھا گئی تھی۔ طبیعت اُکتاہٹ کا شکار ہوئی تو میں نے رات کے وقت سیر کا معمول بنا لیا۔ ایک رات جب میں اوپر سے نیچے واپس آ رہا تھا اور پیٹرول پمپ کے قریب پہنچا، تو میں نے پانچ چھ نوجوانوں کو نشے کی حالت میں سڑک کنارے بیٹھے دیکھا۔ یہ منظر میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فورٹ منرو جیسے سادہ علاقے میں نوجوان اس قدر گہری گمراہی میں جا سکتے ہیں۔

تحقیق: نشے کا پھیلاؤ اور اس کے عوامل
اس واقعے کے بعد میرے ذہن میں کئی سوالات جنم لینے لگے۔ میں نے خود تحقیق شروع کی، مشاہدہ کیا، اور کچھ قابلِ اعتماد ذرائع سے بات کی۔ تب جا کر حقیقت واضح ہونے لگی کہ فورٹ منرو میں نشہ نہ صرف دستیاب ہے بلکہ منظم انداز میں پھیلایا جا رہا ہے۔ ایک قریبی دوست جو بارڈر ملٹری پولیس (BMP) میں ہے، اس نے اعتراف کیا کہ اکثر جب منشیات پکڑی جاتی ہیں، تو یا تو رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے، یا پھر آدھی مقدار سرکاری طور پر ظاہر کر کے باقی مقامی ڈیلرز کو فروخت کر دی جاتی ہے۔ یہ ڈیلرز پھر وہی زہر نوجوانوں تک پہنچاتے ہیں۔

کوشش: نوجوانوں کی بیداری اور مزاحمت
میں نے خاموش رہنے کے بجائے آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فورٹ منرو کے چند باشعور نوجوانوں کو اکٹھا کیا، جن میں یونس قائمانی پیش پیش تھا۔ ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ظلم کو بے نقاب کیا۔ صرف دو دن کے اندر لوگوں کے فون آنا شروع ہو گئے۔ میرے والد اور بھائی تک کو پیغامات ملنے لگے کہ ڈاکٹر سے کہیں اس مہم کو بند کرے۔

ایک شام والد صاحب نے مجھے نرمی سے کہا:
"بیٹا، یہ سب چھوڑو اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔"
پھر انہوں نے ایک قوم کا قصہ سنایا جو کبھی فورٹ منرو میں بہادری کی علامت تھی، لیکن نشے نے اُنہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔

نتیجہ: اندرونی عوامل اور مستقبل کی راہ
میں نے اس سب کو سن کر خاموشی اختیار کی، مگر دل میں یہ بات پختہ ہو چکی تھی کہ فورٹ منرو کے نوجوانوں کو نشے کی دلدل میں دھکیلنے والے کوئی باہر سے نہیں، بلکہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ نہ کوئی پٹھان یہاں نشہ بیچنے آتا ہے، نہ کوئی پنجابی۔ یہ سب کچھ ہمارے اپنے "معزز" افراد کے ہاتھوں ہو رہا ہے، اور بدقسمتی سے فورسز کی سرپرستی میں۔

حل: اجتماعی کوشش اور بیداری
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف تماشائی نہ بنیں۔ اگر ہم واقعی اپنی نسل کو بچانا چاہتے ہیں، تو ہمیں متحد ہو کر اس لعنت کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ آواز بلند کرنا ہوگی، اور نوجوانوں کو شعور دینا ہوگا۔ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل شاید ہمارے اپنے بچے بھی اس اندھیرے میں ڈوب جائیں، اور تب صرف افسوس باقی رہ جائے گا۔

یار ہمارا ایک زمین گرم کرنے والا مشین ہوا کرتا تھا، وہ پوری جنگ میں کہیں بھی نظر نہیں آیا۔زندہ بھی ہے؟ اگر ہے تو کسی کو ...
12/05/2025

یار ہمارا ایک زمین گرم کرنے والا مشین ہوا کرتا تھا، وہ پوری جنگ میں کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
زندہ بھی ہے؟ اگر ہے تو کسی کو کوئی اندازہ ہے کہ آج کل کہاں ہے؟

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Ahmad Leghari posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category