19/05/2025
"بائیک نامہ – ایک عشق، دو پہیے اور ہزاروں کہانیاں"
تحریر: ڈاکٹر احمد لغاری
کبھی کبھی زندگی ہمیں تحفے دیتی ہے…
ایسے تحفے جو پہلی نظر میں "کباڑ" لگتے ہیں،
مگر پھر دل میں ایسا گھر کر لیتے ہیں کہ سالوں ساتھ نبھاتے ہیں۔
میری زندگی کا وہ تحفہ،
ایک بائیک ہے…
جسے میں نے 36,000 روپے میں خریدا—وہ بھی قسطوں پر!
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بائیک بھی مجھے ملی ایک ڈاکٹر دوست سے،
جو اپنے تبادلے پر رحیم یار خان جا رہے تھے،
تو میں نے کہا:
"ڈاکٹر صاحب، آپ تو جا رہے ہیں، لیکن یہ بائیک میرے ساتھ چھوڑ جائیں… آخر یہ بھی تو کچھ دن آپ کے ساتھ ہسپتال جا چکی ہے!"
یوں، میرے اور اس بائیک کے درمیان ایک خاموش، زنگ آلود رشتہ بن گیا۔
عشق کا آغاز – دو پہیے اور ایک ڈاکٹر
وہ بائیک تھی… پرانی، ہانپتی ہوئی، جیسے ہر صبح مجھ سے کہتی ہو:
"بس آج آخری دن ہے، کل مجھے مت جگانا!"
اور میں کہتا:
"تیری قسمت میں تو ابھی کئی بار پینچر ہونا باقی ہے!"
تب سے لے کر آج تک، ہم نے دھوپیں، بارشیں، خرابیاں، لفٹس، پینچرز، چین ٹوٹنا، سائلنسر گرنا—سب کچھ ایک ساتھ جھیلا ہے۔
میری ماں کی "لفٹ والی سنت"
امی نے زندگی بھر مجھے ایک ہی بات سکھائی:
"بیٹا! جو بندہ راستے میں پیدل ملے، اس کو بٹھا لیا کرو۔"
تو بس… اسی دن سے، چاہے بائیک کی حالت کچھ بھی ہو،
میں ہر اجنبی کو بٹھا لیتا ہوں۔
ایک بار خود 90 کلو تھا، ایک سواری کو لفٹ دی جو شاید خود سے بھی زیادہ بھاری تھا،
جیسے ہی وہ بیٹھا، بائیک نے کانپتے ہوئے آواز نکالی:
"ڈاکٹر صاحب! میری سپائن سرجری کرا دیں!"
پینچر اور پینک
اب آؤ، ذرا اصل درد کی بات کریں:
پینچر!
بندہ کسی ویران جگہ پہ ہو، پینچر ہو جائے، تو انسان صرف بائیک کو نہیں، خود کو بھی گھسیٹتا ہے۔
اور جیسے ہی پینچر والے کے پاس پہنچیں، وہ کہتا ہے:
"ڈاکٹر صاحب! ٹیوب تو پھٹ گئی ہے، نئی ڈالنی پڑے گی!"
دل سے آواز آتی ہے:
"او بھائی! یہ 36 ہزار کی بائیک ہے، آپ 800 کی ٹیوب ڈال کر میرا پورا بجٹ اڑا رہے ہو!"
قسم سے، اس وقت بائیک کی حالت مجھ سے بہتر لگتی ہے۔
کیونکہ کم از کم وہ "چپ" رہتی ہے، اور میں اندر سے ٹوٹتا ہوں!
وہ دن جب چین ٹوٹا
ایک بار تو حد ہی ہو گئی—چین ٹوٹ گئی۔
میں بائیک کے ساتھ سڑک کنارے کھڑا، اداس، بالکل فلمی انداز میں۔
ایک بندہ آیا، بولا:
"ڈاکٹر صاحب! پریشان نہ ہوں، میرے گھر چلو!"
میں نے دل میں کہا:
"یااللہ! کہیں زبردستی شادی تو نہیں کروائے گا؟"
لیکن وہ نکلا انسانیت کی آخری نشانی!
مجھے اپنے گھر لے گیا، چین کھول کر دوبارہ ڈلوا دی۔
میں نے اس دن بائیک سے کہا:
"دیکھ لیا؟ تمہارے لیے لوگ کیا کچھ کر رہے ہیں، کبھی میرے لیے بھی دعائیں کیا کرو!"
ابو کا قلم والا قول
ابو ہمیشہ کہتے تھے:
"بیٹا! تم ڈاکٹر ہو، اور ڈاکٹر کا قلم بہت تیز ہوتا ہے، اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کے کرنا۔"
میڈیکو لیگل کیسز میں ایک دفعہ لگا دی تو بندہ سیدھا جیل۔
تو ہر بار دستخط سے پہلے ابو کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
کبھی کبھی لگتا ہے بائیک بھی یہ جملہ سن چکی ہے۔
کیونکہ جب میں اس پہ بیٹھتا ہوں تو وہ بولتی ہے:
"ڈاکٹر صاحب! اپنے وزن کا صحیح استعمال کریں، زور نہ لگائیں!"
سواری نہیں، سہیلی ہے
یہ بائیک اب میرے لیے سواری نہیں، ایک پرانی سہیلی ہے۔
جسے میں سروس نہیں کرواتا،
جسے میں نئی سیٹ نہیں دلواتا،
جسے میں کبھی ٹیوننگ پہ نہیں لے گیا—
مگر پھر بھی، وہ کبھی شکایت نہیں کرتی۔
جب دوست گاڑیوں میں بیٹھے، اور پوچھیں:
"تم ابھی تک بائیک پہ؟"
تو میں ہنستا ہوں،
اور دل میں کہتا ہوں:
"ہاں، میں بائیک پہ ہوں، کیونکہ میں وہ عزت کماتا ہوں جو اقساط پر نہیں ملتی!"
آخری پیغام
اگر آپ حلال کما رہے ہو،
تو زندگی آسان نہیں، لیکن سچی ضرور ہوتی ہے۔
گاڑی نہ ہو تو کوئی بات نہیں،
اگر آپ کے پاس ایک پرانی بائیک ہو، جو آپ کی سچائی کے ساتھ چل رہی ہو—
تو یقین جانیں، وہ آپ کی عظمت کا سب سے خوبصورت استعارہ ہے۔
تو سلام ہے اس بائیک کو،
جو دھواں چھوڑتی ہے،
آواز کرتی ہے،
روڈ پر کبھی ہنستی ہے، کبھی روتی ہے—
لیکن وفا میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی!
اور ہاں... MBBS کی زندگی میں دو اور بائیکس تھیں — ان کی کہانی پھر کبھی سناؤں گا،
آج کی پوسٹ اس عشق کے نام جو دو پہیوں پر قائم ہے!”