04/07/2025
فارماسسٹ یا صرف گریجویٹ
فارمیسی کی تعلیم کا موجودہ نظام، خاص طور پر سمسٹر سسٹم، علم کا ذریعہ بننے کے بجائے اب صرف ڈگری حاصل کرنے کی دوڑ بن چکا ہے۔ دو ماہ میں مڈ ٹرم، اور جلد بازی میں فائنل — نہ وقت ہوتا ہے سمجھنے کا، نہ دہرائی کا، نہ سوال پوچھنے کا۔ طلباء چند دن میں سلائیڈز رٹتے ہیں، پیپر دیتے ہیں، اور پھر سب کچھ ذہن سے اتر جاتا ہے۔ اگلے سمسٹر میں پرانا سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں — اور یوں، پوری تعلیم صرف surface-level memory بن کر رہ جاتی ہے۔
پھر اگر کسی طالبعلم کو basic سی بات بھی یاد ہو — مثلاً کوئی دوا کس class سے ہے — تو اُسے اس انداز میں سراہا جاتا ہے جیسے اُس نے کوئی بہت بڑی achievement حاصل کر لی ہو۔ حالانکہ یہ تو ہر فارمیسی ٹیکنیشن کو بھی آنا چاہیے۔ مگر جب نظام صرف رٹا لگانے، نمبر لینے اور ہر صورت پاس کرانے پر مبنی ہو جائے، تو پھر quality pharmacist پیدا نہیں ہوتے، صرف کاغذی فارماسسٹ پیدا ہوتے ہیں۔
مگر سارا بوجھ نظام یا استاد پر ڈال دینا بھی انصاف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے طلباء خود بھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔
آج کے طالبعلم کا بڑا وقت سوشل میڈیا، موبائل، games، اور غیر ضروری relationships میں گزر جاتا ہے۔ ان کا focus نہ علم پر ہوتا ہے، نہ مستقبل پر۔ پھر یہی طلباء کہتے ہیں کہ ہمیں نوکری نہیں ملی، ہمیں سوسائٹی عزت نہیں دیتی۔
ارے بھائی، جو پڑھتے ہیں، وہی آگے نکلتے ہیں۔ انہی کے لیے نوکریاں ہیں، انہی کی وجہ سے کہیں کہیں فارماسسٹ کی عزت اب بھی قائم ہے۔
جو وقت ضائع کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں صرف پچھتاوا آتا ہے۔
اصل غلطی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایسے students کو بھی داخلہ دے دیا جاتا ہے جن کے پاس نہ aptitude ہوتا ہے، نہ سوچ۔ داخلہ صرف نمبروں کی بنیاد پر دے دیا جاتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ فارمیسی کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ اور جب وہ system میں آ جاتے ہیں، تو پھر انہیں ہر قیمت پر pass کرانے کی کوشش ہوتی ہے — چاہے وہ 50 میں سے 30 کیوں نہ ہوں۔
استاد دل سے چاہے کہ فیل کرے، مگر اُسے روکا جاتا ہے۔ کیونکہ complaint ہو جائے گی، reputation خراب ہو جائے گی، یا تنقید ہو گی۔
مگر اب وقت آ گیا ہے کہ سخت فیصلے کیے جائیں۔
فارمیسی جیسے critical شعبے میں داخلہ صرف انہی طلباء کو دیا جائے جنہیں علم سے لگن ہو۔
Aptitude test لازمی ہونا چاہیے۔ جو صرف نمبر لے آئے مگر دماغ خالی ہو، اُسے داخلہ نہ دیا جائے۔
اور جو داخل ہو بھی جائیں مگر پڑھنے سے جی چرائیں — انہیں پہلے سیمسٹر میں ہی صاف بتا دیا جائے کہ یہ میدان اُن کے لیے نہیں۔
چاہے 50 میں سے 40 طلباء فیل ہوں — کر دینا چاہیے! تاکہ وہ پہلے سال میں ہی سمجھ جائیں کہ یہ کھیل اُن کے بس کا نہیں۔
بچیں صرف وہی seats، جہاں بیٹھنے والے واقعی فارماسسٹ بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اس وقت استاد کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ lecture صرف پڑھانے نہ آئے — دل سے سمجھانے آئے۔
وہ خود تیاری کرے، full confidence کے ساتھ آئے، کلاس کو lively بنائے، طلباء کے names لے لے کر interact کرے،
ہر concept کو examples کے ساتھ explain کرے، اور سوالات کو discourage کرنے کے بجائے welcome کرے۔
کیونکہ آج کا student passive teaching سے bore ہو جاتا ہے —
آپ کو اُس کے دماغ تک پہنچنے کے لیے energy، creativity اور interaction کی ضرورت ہے۔
ورنہ ہم ہر سال ایسے graduates پیدا کرتے رہیں گے جن کے پاس ڈگری تو ہو گی، مگر علم نہیں۔
جو دوا کا نام تو لیں گے، مگر اُسے سمجھ نہ سکیں گے۔
جو مریض کا prescription تو دیکھ لیں گے، مگر اُسے explain نہ کر سکیں گے۔
اور پھر یہی شکایت کریں گے کہ “فارماسسٹ کی عزت نہیں ہے!”
عزت تب آئے گی، جب ہم عزت کے قابل بنیں گے —
اور وہ تب ممکن ہے، جب ہم فارمیسی کی تعلیم کو رٹا سے نکال کر فہم بنا دیں گے..