
11/07/2025
خوبصورتی اب احساس نہیں، ایک مجبوری ہے۔ آئینہ ہمیں سنوارنے کے بجائے توڑنے لگا ہے، اور سوشل میڈیا نے سادہ چہروں کو بدصورتی کا نام دے دیا ہے۔ جھریاں عیب، دھبے جرم، اور عمر ایک داغ بن چکی ہے۔ حسن اب اپنی پہچان کھو چکا ہے — یہ شخصیت کی جھلک نہیں رہا، بلکہ ایک خوفناک مقابلہ بن گیا ہے۔
روزانہ لاکھوں خواتین کسی نئی کریم، نئی سرجری یا مہنگے انجکشن کی تلاش میں ہیں۔ ناک کو تراشنا، ہونٹوں کو پھلانا، چہرے کو کھینچنا اب معمول بن چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ سب کر لینے کے بعد بھی سکون مل جاتا ہے؟ کیا اندر کی اداسی، خالی پن اور عدم اطمینان ختم ہو جاتا ہے؟
جواب ہے: نہیں۔
یہ خلا، یہ ویرانی اب ظاہری تبدیلی سے نہیں بھرتی۔ اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے اب مارکیٹ میں پلاسینٹا اور امیونک فلوئڈ جیسے جسمانی اجزاء کو بھی بیوٹی پراڈکٹس میں شامل کیا جا رہا ہے۔
پلاسینٹا، یعنی وہ عضو جو بچے کو ماں کے رحم میں زندگی دیتا ہے — اور امیونک فلوئڈ، جو بچے کے گرد موجود قدرتی مائع ہے — اب فیس ماسک، انجکشنز اور سیرمز میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اور ان کی قیمت لاکھوں میں ہے۔
یہ اجزاء کہاں سے آتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تکلیف دہ ہے۔
کچھ ممالک میں خواتین سے اجازت لی جاتی ہے، کچھ میں خاموشی سے یہ مادہ اسپتالوں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور بدترین پہلو یہ ہے کہ اسقاط حمل، مردہ بچوں یا سروگیسی جیسے معاملات کے بعد امیونک فلوئڈ اور پلاسینٹا اکٹھا کیا جاتا ہے — یعنی ایک ایسی زندگی، جو جینے سے پہلے ہی ختم ہو گئی، اس کا بھی سودا ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں کئی کلینکس بند ہو چکے ہیں جہاں غیر معیاری سرجریز نے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ کچھ خواتین اپنی بینائی کھو بیٹھیں، کچھ چہرے مفلوج ہو گئے، اور کئی اپنی جان سے گئیں۔
بہت سے معروف چہرے آج اس دوڑ میں اپنی شناخت گنوا چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے چہرے ایک جیسے، جذبات سے خالی، اور بے روح دکھائی دیتے ہیں — جیسے سب ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہوں۔
ایک فلم یشودھا نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا، جہاں خواتین کو سروگیسی کے ذریعے استعمال کر کے ان کے بچوں کا پلاسینٹا چوری کیا جاتا ہے — خوبصورتی کے نام پر۔ ہم نے اسے افسانہ سمجھا، لیکن سچ تو اس سے بھی زیادہ تلخ ہے۔
کاسمیٹک انڈسٹری نے انسانیت کے تقدس کو پامال کر کے خوبصورتی کا معیار طے کیا ہے۔ اور ہم — جو صرف ایک اچھے چہرے کے خواہشمند تھے — آج سوچے بغیر اپنی روح اور ضمیر کو نیلام کر چکے ہیں۔
چمکتا چہرہ چاہیے، لیکن کس قیمت پر؟
ایک جان؟
ایک نومولود کی حرارت؟
ایک ماں کا جزو؟
اور آخر میں، یہ سب کچھ حاصل کر کے بھی،
کیا ہم واقعی خوبصورت ہو جاتے ہیں؟
یا صرف ایک اور نقاب اوڑھ لیتے ہیں؟