
09/08/2025
ازدواجی زندگی: ایک نفسیاتی، روحانی اور سماجی مطالعہ
ڈاکٹر ابرار عمر
ازدواجی زندگی کی خوبصورتی محض ایک سماجی معاہدے یا قانونی بندھن کا نام نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کے باہمی التقاء اور ایک ایسے جذباتی و فکری ربط کا اظہار ہے جو اگر حسنِ تدبر اور شعورِ قلب کے ساتھ پرورش پائے تو نہ صرف انفرادی وجود میں سکون اتارتا ہے بلکہ ایک متوازن، مہذب اور روشن معاشرے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ اس تعلق کی نزاکت کو اگر کسی نے بہترین الفاظ میں بیان کیا ہے تو وہ قرآن حکیم ہے، جو میاں بیوی کو ایک دوسرے کا "لباس" قرار دیتا ہے۔ یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس رشتے کے اسلوب، قربت، حفاظت، پردہ پوشی اور توازن کی علامت ہے۔ لباس وہ ہے جو انسان کو نہ صرف موسموں کے جبر سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اسے حیا عطا کرتا ہے، اس کے عیبوں کو چھپاتا ہے اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جو اگر ازدواجی زندگی میں صادق آئیں تو یہ بندھن سراپا راحت اور رحمت بن جاتا ہے۔
عالمی سطح پر کی گئی تحقیقات اور نفسیاتی مطالعات نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی صرف محبت کے ابتدائی جذبات پر نہیں بلکہ ایک مستقل شعوری عمل، جذباتی ذہانت، فکری ہم آہنگی اور باہمی رفاقت پر قائم ہوتی ہے۔ معروف امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جان گوٹمن (Dr. John Gottman)، جنہوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ ازدواجی تعلقات پر تحقیق کی، اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ جوڑے جو ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی جذباتی پکاروں کو پہچان لیتے ہیں، ان کے تعلقات میں دیرپائی، استحکام اور خوشی کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا رشتہ صرف بڑے لمحوں سے نہیں بلکہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی توجہات، ہمدردیوں، اور احساسات کے تبادلوں سے پروان چڑھتا ہے۔
محبت ایک سادہ لفظ ہے، مگر ازدواجی زندگی میں یہ سادہ لفظ ایک پیچیدہ اور تہ دار مفہوم رکھتا ہے۔ یہاں محبت صرف جذبہ نہیں بلکہ عمل ہے، خدمت ہے، برداشت ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ جب ایک شوہر بیوی کی تھکن کو اس کی آنکھوں سے پڑھ لیتا ہے، جب ایک بیوی شوہر کی خاموشی میں چھپے اضطراب کو محسوس کر لیتی ہے، تب محبت صرف ایک جذبہ نہیں رہتی بلکہ ایک زندہ حقیقت بن جاتی ہے۔ یہ حقیقت نہ شور مچاتی ہے، نہ دعوے کرتی ہے، بلکہ خامشی میں اپنا آپ رقم کرتی ہے۔ ڈاکٹر گوٹمن کے مطابق جو جوڑے ایک دوسرے کے احساسات کی قدر کرتے ہیں اور "turning toward each other’s bids for attention" کے عمل کو معمول بناتے ہیں، ان کی ازدواجی زندگی خوشحال تر ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح گوٹمن نے اُن چھوٹے لمحوں کے لیے استعمال کی ہے جب ایک فریق دوسرے سے غیر محسوس طور پر توجہ، دلچسپی یا قربت کی امید رکھتا ہے، اور دوسرا فریق اگر اُس لمحے میں ردِ عمل دے، تو تعلق مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔
محبت کے ساتھ ساتھ افہام و تفہیم ازدواجی زندگی کا دوسرا ستون ہے۔ یہ صرف گفتگو یا مشورے کا نام نہیں بلکہ ایک باطنی استعداد ہے، جس کے ذریعے انسان دوسرے کی بات کو صرف سنتا نہیں، سمجھتا بھی ہے۔ افہام و تفہیم اس وقت وجود میں آتی ہے جب فریقین اپنی ذات سے بلند ہو کر دوسرے کے زاویۂ نظر کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔ مشہور امریکی مصنف اور ماہرِ قیادت اسٹیفن کووی (Stephen R. Covey) نے کہا تھا: “Most people do not listen with the intent to understand; they listen with the intent to reply.” یعنی اکثر لوگ سننے کے لیے نہیں سنتے بلکہ جواب دینے کے لیے سنتے ہیں۔ مگر وہ رشتے جو سننے کو عبادت، اور سمجھنے کو فرض جانتے ہیں، وہی رشتے دیرپا ہوتے ہیں۔ ایک خوبصورت ازدواجی زندگی میں فریقین ایک دوسرے کی بات کاٹتے نہیں، بلکہ اس میں اپنا درد اور نرمی شامل کر دیتے ہیں۔
یہی وہ فضا ہے جہاں رفاقت پنپتی ہے۔ رفاقت کوئی رسمی قربت نہیں، بلکہ ایک گہرا نفسیاتی اور جذباتی اشتراک ہے، جہاں "میں" اور "تم" کا امتیاز ختم ہو کر "ہم" کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ مغربی محققین کا کہنا ہے کہ جو جوڑے ایک ساتھ ہنستے ہیں، اُن کی ازدواجی زندگی زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ ہنسی ایک مشترکہ تجربہ بن جاتی ہے، جو زندگی کی تلخیوں کو نرم کرتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا، محض وقت کا ضیاع نہیں بلکہ رشتہ کی آبیاری ہے۔ جب دونوں فریق ایک ساتھ کسی تفریح، کسی دعا، کسی مصروفیت یا کسی خاموشی میں شریک ہوں، تو رشتہ جسمانی سطح سے اٹھ کر روحانی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
تاہم رفاقت تبھی پائیدار ہو سکتی ہے جب اس میں باہمی احترام موجود ہو۔ یہ احترام محض رسمی ادب یا القاب کا استعمال نہیں بلکہ ایک دوسرے کی رائے، جذبات، حدود، اور حتیٰ کہ خامیوں کو قبول کرنے کا رویہ ہے۔ عزت کا یہ تصور مشرقی تہذیبوں میں کچھ زیادہ ہی لطیف ہے۔ یہاں عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے، اور مرد کو خاندان کا سائبان۔ اگرچہ اس تفریق پر تنقید بھی کی جاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کے مقام اور کردار کو عزت دیں، تو رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ مرد اگر عورت کی نرمی کو کمزوری نہ سمجھے، اور عورت اگر مرد کی سنجیدگی کو بے حسی نہ جانے، تو دونوں مل کر ایسا توازن پیدا کر سکتے ہیں جو کسی بھی طوفان کو سہہ سکتا ہے۔
معروف فرانسیسی دانشور سیمون دی بوووار (Simone de Beauvoir) نے ایک جگہ لکھا کہ “Marriage must be a mutual education, a dialogue between two growth-oriented minds.” یعنی شادی کو دو ایسے ذہنوں کے درمیان مکالمہ ہونا چاہیے جو ارتقاء کے لیے آمادہ ہوں۔ یہی وہ مکالمہ ہے جو رفاقت، افہام و تفہیم، اور احترام کو ایک دھاگے میں پرو دیتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں اکثر لڑائیاں وہاں سے جنم لیتی ہیں جہاں مکالمہ ختم ہو جاتا ہے، اور مفروضے اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ مگر جہاں دل کھلے ہوں، زبان نرم ہو، اور نیت صاف ہو، وہاں اختلاف بھی ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بن جاتا ہے، نہ کہ دوری کا سبب۔
ایک پہلو جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ ہے جذباتی قربت کی زبان۔ ہر فرد محبت کے اظہار کا ایک مخصوص انداز رکھتا ہے۔ کسی کے لیے محبت کا مطلب وقت دینا ہے، کسی کے لیے تعریف کرنا، کسی کے لیے تحائف، تو کسی کے لیے خدمت یا جسمانی قربت۔ ماہرِ نفسیات گیری چیپ مین (Gary Chapman) نے اپنی کتاب "The Five Love Languages" میں ان مختلف زبانوں کا ذکر کیا ہے۔ اگر ازدواجی رشتے میں دونوں فریق ایک دوسرے کی محبت کی زبان کو پہچان لیں اور اُس کے مطابق اظہار کریں، تو بہت سی غلط فہمیاں جنم ہی نہیں لیتیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو تحائف دے کر محبت کا اظہار کرتا ہے، مگر بیوی چاہتی ہے کہ وہ کچھ وقت اس کے ساتھ گزارے۔ نتیجتاً وہ تحائف بھی بوجھ محسوس ہوتے ہیں اور وقت کی کمی بھی شکایت کا باعث بنتی ہے۔ لیکن جب دونوں ایک دوسرے کے جذبے کی زبان سمجھنے لگیں، تو تعلق میں ایک فطری روانی اور گہرائی آ جاتی ہے۔
ازدواجی زندگی میں ایک اور عنصر جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے، وہ ہے "presence" — یعنی محض جسمانی موجودگی نہیں بلکہ شعوری موجودگی۔ آج کی تیز رفتار، ڈیجیٹل دنیا میں اکثر جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، پیشہ ورانہ مصروفیات اور ذہنی انتشار اس قربت کو کھا جاتے ہیں جو رشتے کو زندگی بخشتی ہے۔ گوٹمن کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسے جوڑے جو دن میں صرف پندرہ سے بیس منٹ بھی مکمل توجہ اور شعور کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے ہیں، وہ زیادہ مطمئن اور مستحکم ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ازدواجی زندگی کی خوبصورتی کسی سحر، کسی اچانک معجزے یا کسی مثالی حالات کی مرہون منت نہیں بلکہ ایک مسلسل شعوری مشق ہے۔ یہ رشتہ اُس وقت نکھرتا ہے جب محبت عمل میں ڈھلے، افہام و تفہیم سماعت سے آگے بڑھے، رفاقت صرف ساتھ گزارنے کا نہیں بلکہ ساتھ نبھانے کا جذبہ بنے، اور احترام محض الفاظ نہیں بلکہ رویوں میں ڈھلا ہوا ہو۔ یہ سب کچھ جب دل کی گہرائی، ذہن کی وسعت اور روح کی شفافیت سے آراستہ ہو، تو ازدواجی زندگی صرف خوبصورت نہیں بلکہ با معنی، بامقصد، اور دائمی سکون کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔
ازدواجی زندگی کی اصل خوبصورتی اس وقت آشکار ہوتی ہے جب انسان ظاہری قربت سے نکل کر باطنی ہم آہنگی، روحانی ربط، اور داخلی تہذیب کی سطح پر پہنچتا ہے۔ جہاں دل و دماغ کی یکجائی جسمانی تعلق سے آگے بڑھ کر روحوں کے درمیان ایک خاموش مکالمے کا در کھولتی ہے، وہیں رشتہ ایک ایسی شکل اختیار کر لیتا ہے جو وقت، حالات، محرومیوں اور اختلافات کی گرد سے آلودہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ازدواجی بندھن صرف ایک معاشرتی فریم نہیں رہتا بلکہ ایک روحانی تربیت گاہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ باطن کی دنیا ہے جو ازدواجی زندگی کے ظاہری تضادات، معمولی الجھنوں اور وقتی شکایات کو ایک وسیع تر تناظر میں رکھ کر معنی خیز بناتی ہے۔
روحانی ہم آہنگی ایک نازک مگر نہایت قیمتی پہلو ہے۔ یہ ہم آہنگی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب دونوں فریق زندگی کو صرف دنیاوی کامیابی یا جسمانی آسائش کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ ایک دوسرے کو اپنی روحانی اور اخلاقی تعمیر کا رفیق تصور کرتے ہیں۔ مشرقی صوفیانہ روایت میں ازدواجی زندگی کو سلوک کا ایک درجہ تصور کیا گیا ہے۔ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں: "محبت وہ آتش ہے جو نی کے اندر پڑ جائے تو ہر ساز اُس کے نالہ سے جنم لیتا ہے"۔ ازدواجی محبت بھی اسی ساز کی مانند ہے، اگر اس میں صداقت، ضبط، اور قربانی کی آتش شامل ہو جائے تو رشتہ صرف رفاقت نہیں بلکہ معرفت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہ رشتہ دونوں کو اُن کی حدود سے آگے لے جاتا ہے، جہاں فرد کی انا، ضد، اور خود پسندی تحلیل ہو کر ایک نئے شعور میں ڈھلتی ہے۔
اس باطنی حسن کا ایک لازمی جزو خود آگہی ہے۔ جب تک فرد خود کو نہیں پہچانتا، اپنی خامیوں، کمزوریوں، نفسیاتی ساخت اور لاشعوری محرکات کو تسلیم نہیں کرتا، تب تک وہ دوسرے کے ساتھ سچا تعلق قائم نہیں کر سکتا۔ ازدواجی زندگی ایک آئینہ ہے، جس میں ہم اپنی جھلک دیکھ سکتے ہیں — بشرطیکہ ہم دیکھنے کی جرأت رکھتے ہوں۔ مشہور ماہرِ نفسیات کارل راجرز (Carl Rogers) نے کہا تھا: “The curious paradox is that when I accept myself just as I am, then I can change.” یعنی جب انسان خود کو ویسا ہی مان لیتا ہے جیسا وہ ہے، تبھی وہ بدلنے کے قابل ہوتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں یہ قبولیت نہ صرف خود کے لیے ضروری ہے بلکہ دوسرے کے لیے بھی۔ جب ایک شوہر اپنی ناکامی، جھنجھلاہٹ یا خوف کو چھپانے کے بجائے اس کا اعتراف کرتا ہے، اور جب بیوی اپنی غیر یقینی، عدم تحفظ یا غصے کی جڑ کو پہچان لیتی ہے، تب دونوں ایک ایسی سطح پر پہنچ جاتے ہیں جہاں تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔ یہی خود آگہی ازدواجی رشتے کو بوجھ سے بدل کر عطیہ بنا دیتی ہے۔
اس سطح پر ایک اور عنصر جو رشتے کو گہرائی عطا کرتا ہے، وہ معافی اور درگزر ہے۔ ہر انسانی تعلق میں خطائیں ہوتی ہیں، مگر ازدواجی رشتہ اُن خطاؤں کی مسلسل قربت میں پروان چڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں معافی کی گنجائش زیادہ اور انا کی گنجائش کم ہونی چاہیے۔ معافی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ دوسرے کو بری الذمہ قرار دے دیا جائے، بلکہ یہ ایک داخلی فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے دل میں کسی کے لیے بوجھ نہیں رکھیں گے، ہم اپنے جذبات کے زہر کو تحلیل کر کے محبت کو ایک نئی سانس لینے کا موقع دیں گے۔ عیسائی مفکر ہنری ناؤوین (Henri Nouwen) کہتے ہیں: “Forgiveness is the name of love practiced among people who love poorly.” یعنی معافی اُس محبت کا نام ہے جو اُن لوگوں کے درمیان بروئے کار آتی ہے جو محبت کرنا ابھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب ناکامل ہیں، اور جب ہم اس ناکامی کو انسانی فطرت کا جزو مان لیتے ہیں، تب ہم معاف بھی کر سکتے ہیں، اور قبول بھی۔
درگزر کے بغیر کوئی رشتہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔ اگر ہر بات پر گرفت ہو، ہر غلطی پر بدلہ ہو، ہر تلخی پر فاصلے پیدا ہوں، تو ازدواجی رشتہ ایک عدالت بن جاتا ہے، جہاں محبت، نرمی، اور الفت کو کوئی جگہ نہیں ملتی۔ مگر جہاں ایک فریق دوسرے کی غلطی کو اُس کے پس منظر، اُس کے نفسیاتی دکھ، اُس کی انسانی کمزوری کے ساتھ دیکھے، وہاں معافی کسی عظیم قربانی سے کم نہیں ہوتی۔ یہی قربانی اس رشتے کو تقدس بخشتی ہے۔ بعض اوقات ہم جس بات پر خفا ہوتے ہیں، وہ بات خود ہماری کسی لاشعوری کمی کی پیداوار ہوتی ہے۔ مثلاً جب ایک بیوی شوہر کی بے توجہی پر غصے میں آ جائے، تو عین ممکن ہے کہ وہ دراصل اپنے اندر کے کسی پرانے زخم سے لڑ رہی ہو، جو آج کے واقعے نے جگا دیا ہے۔ شوہر اگر اس زخم کو سمجھے اور اُسے اپنی ذات پر حملہ نہ سمجھے، تو وہی لمحہ علاج بن سکتا ہے۔
ازدواجی زندگی میں درحقیقت دو مخلوقات ایک دوسرے کو صرف برداشت نہیں کر رہیں، بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے، مکمل کرنے، اور بیدار کرنے کے سفر میں شریک ہو رہی ہیں۔ یہ سفر اُس وقت کمال کو پہنچتا ہے جب دونوں روحیں ایک دوسرے کی خاموشیوں میں ایک دوسرے کو سننے لگیں۔ یہ ہم آہنگی صرف مذہبی روایت کا نتیجہ نہیں بلکہ دنیا کی جدید سوشیالوجی اور نفسیات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ مثلاً معروف شادی و خاندانی معالج ٹیرنس ریئل (Terrence Real) لکھتے ہیں: “True intimacy is not possible without vulnerability.” یعنی سچی قربت ممکن ہی نہیں جب تک انسان کمزور ہونے کا حوصلہ نہ رکھے۔ مگر ہمارے معاشرتی سانچے نے مرد کو مضبوط اور عورت کو صابر بنانے پر زور دیا ہے، یہاں کمزوری کو عیب، اور جذباتی نرمی کو شکست سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ رکاوٹ ہے جو ازدواجی رشتے کو بے جان کر دیتی ہے۔
ازدواجی زندگی کی خوبصورتی اسی وقت ابھرتی ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے اپنے زخموں، اپنے خوف، اپنی خواہشات اور اپنی امیدوں کو بے دھڑک بیان کر سکیں۔ جب بیوی کہہ سکے کہ وہ تھک گئی ہے، اور شوہر کہہ سکے کہ وہ ٹوٹ رہا ہے، تب ہی وہ ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہیں۔ یہ سہارے صرف مالی یا جسمانی نہیں ہوتے، بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور روحانی ہوتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رشتہ محض ایک ساتھ رہنے کا بہانہ نہیں بلکہ ایک ساتھ جینے کی قوت بن جاتا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں انسان خود غرضی، عدم تحفظ، مادہ پرستی اور فوری تسکین کی طلب میں جکڑا ہوا ہے، وہاں ازدواجی زندگی ایک مزاحمت ہے۔ یہ رشتہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ محبت ایک عمل ہے، ایک مشق ہے، ایک جدوجہد ہے، جس میں ہم روز کچھ کھوتے ہیں اور کچھ پاتے ہیں۔ کبھی اپنی انا، کبھی اپنی ضد، کبھی اپنی ترجیحات — اور اس کے بدلے ہمیں جو سکون، تحفظ، اور تکمیل کا احساس ملتا ہے، وہ کسی بھی دنیاوی کامیابی سے کہیں بلند ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خوبصورت ازدواجی زندگی کا راز صرف ظاہری باتوں میں نہیں، بلکہ اُس خاموش وفا، اُس بے نام قربانی، اور اُس بےشرط قبولیت میں چھپا ہوتا ہے جو نہ دعوے کرتی ہے، نہ نمائش، بلکہ دل کے نہاں خانوں میں چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے۔ یہ چراغ اگر مسلسل جلتا رہے تو ہر اندھیرا رخصت ہو جاتا ہے، اور زندگی ایک ایسا سفر بن جاتی ہے جہاں دو وجود مل کر ایک نئی کائنات خلق کرتے ہیں