PSI Pakistan

PSI Pakistan PSI PAKISTAN is Pakistan’s 1st Center of Clinical Psychology & Counseling Interventions! PSI Pakistan is a Psychological consultation.

Cont'd-4...👆🏼مندرجہ بالا قرآنی رسمہ کی وضاحت:👇 سوشل میڈیا پر لاحاصل سرگرمیاں اور ہماری ذہنی صحت ــــــــــــــــــــــــ...
28/10/2024

Cont'd-4...👆🏼

مندرجہ بالا قرآنی رسمہ کی وضاحت:👇

سوشل میڈیا پر لاحاصل سرگرمیاں اور ہماری ذہنی صحت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی کی ایک تحقیق میں پانچ ہزاردو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ مارچ 2018 میں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ جنریشن زیڈ کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ سوشل میڈیا ترک کر رہا ہے جبکہ کہ 41 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بے چینی، اداسی اور دباؤ کی وجہ بن رہا تھا۔ اس سروے میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔

ہیلتھسٹا کے ڈاکٹر ٹم بونو جو ’وین دا لائیکس آر ناٹ انف‘ کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں: ’جب ہم اس بات کا موازنہ کرتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘اس بارے میں خبردار رہنا کہ دوسروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹائم گزارنے سے گریز کرنے اور خود پر توجہ دینے سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر بونو کے مطابق ’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‘ خود پر تھوڑی سختی کریں اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔ ‘

گذشتہ 5برسوں میں سکاٹ لینڈ میں ذہنی امراض کے حوالے سے رجوع کرنے والے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تعداد میں دو تہائی اضافہ ہوا ہے۔ 2012میں 7ہزار طلبہ نے ذہنی امراض کے علاج میں معاونت مانگی۔2016ء میں یہ تعداد 1170 ہوگئی ۔گلاسگو یونیورسٹی میں مذکورہ عرصے میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں75فیصد،گلاسگو سکول آف آرٹس میں 72فیصد اور یونیورسٹی آف سڑلنگ میں دباؤ کا شکار طلبہ کی تعداد میں 74فیصد اضافہ ہوا ۔ایڈنبرا یونیورسٹی میں بھی ذہنی امراض میں مبتلا طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گلاسگو شیل ڈونین یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس افئیر کے ڈائریکٹرجے کی مین کے مطابق یہ مسئلہ یک جہتی نہیں ،بلکہ اس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں ۔ہمارے ہاں طلبہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر24گھنٹے تنقید،گالی ، دھمکیاں اور دھونس چلتی ہے،جس کے باعث سوشل میڈیا بھیانک میدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہے ۔وہاں 24گھنٹے پائی جانے والی تلخی اور کشیدگی نے نوجوانوں کا ذہن مفلوج کردیا ہے ۔

ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی نے اسی موضوع پر کئی برس پر مشتمل تحقیق سے سوشل میڈیا اور نشے کا باہمی تعلق بھی دریافت کیا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا انسانی ذہن پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کرتا ہے جو نشہ سے ہوتے ہیں!۔تمام سائنسدان اس سے متفق نہیں۔مگر سب کا اتفاق کرنا ضروری یالازمی بھی نہیں۔ نوٹنگھم یونیورسٹی کی رپورٹ کا ٹائٹل (FaceBook Addiction Disorder) ہی اس کی تحقیق کی تصدیق کرتا ہے۔ انہوں نے اسے ڈس آرڈر یعنی دماغی خلل سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی مدد سے نوجوان عملی زندگی سے فرار حاصل کرتا ہے،وہ معاشرے سے کٹ جاتا ہے،ذہن ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا رہتا ہے۔ اس سے قوت برداشت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ nucleus accumbens متحرک ہوجاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو کہ کوئی نشہ (جیساکہ کوکین وغیرہ کا استعمال) کرتے ہوئے متحرک ہوتا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ایک ایسا نشہ ہے، جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ صارفین اس ذریعہ کو استعمال کرنے کے بجائے خود استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ لت ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے اور ہمیں خیالی دنیا کا مسافر بنا دیتی ہے۔

اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو، کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا، کیا خریدا، کیا پہنا، کہاں گھومنے گئے، کس سے ملے، کس کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جیتے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے، جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں، کتنے لائیکس، کتنے کمنٹس، کتنے شئیرز کی گنتی میں الجھ کر اپنی اصل قیمت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔

حوالہ جات:
1. https://www.independenturdu.com/node/18176
2. https://urdu.geo.tv/latest/208393-
3. https://www.dw.com/ur/a-55915178

تحقیقی مقالہ:
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4183915/

سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے عالمی آبادی کبھی بھی ایک دوسرے سے اس حد تک رابطے میں نہیں تھی۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس درجہ انحصار نے ہمارے دماغی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کیے...

28/10/2024
11/08/2024

For the only therapy is life. The patient must learn to live, to live with his split, his conflict, his ambivalence, which no therapy can take away, for if it could, it would take with it the actual spring of life.

01/05/2024

ڈیجیٹل فاسٹنگ
مجھے تیسرے دن ان کا فون آیا، وہ شرمندہ تھے اور بار بار معذرت کر رہے تھے، میں نے عرض کیا، میں حیران تھا آپ نے کبھی رنگ بیک میں تاخیر نہیں کی، میں نے کال کی، آدھ گھنٹے میں آپ کا جواب آ گیا۔
ہمارے تعلقات میں پہلی بار میں نے آپ کو آٹھ فون کیے اور آپ کا تین دن تک جواب نہیں آیا لہٰذا میں پریشان ہوگیا تھا، اللہ کرم کرے آپ خیریت سے ہوں، وہ ہنس کر بولے، میں آپ سے شرمندہ ہوں تاہم میں اللہ کے کرم سے ٹھیک ٹھاک ہوں، صحت مند بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی پریشانی اور تکلیف سے بھی بچا رکھا ہے بس میں تین دن کے لیے "ڈیجیٹل فاسٹنگ" پر تھا
اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں دے سکا، ڈیجیٹل فاسٹنگ کا لفظ میرے لیے اجنبی تھا لہٰذا میں نے رک کر پوچھا "کیا مطلب، آپ نے رمضان میں کس قسم کے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں؟" وہ ہنسے اور پھر مطمئن آواز میں بولے" جاوید صاحب میں ہر پندرہ دن بعد تین دن کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن بند کر دیتا ہوں، یہ میرا ڈیجیٹل فاسٹ ہوتا ہے۔
میں ان دنوں میں ٹیلی فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کرتا ہوں، میں ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتا اور اخبار بھی نہیں پڑھتا" یہ بات میرے لیے حیران کن تھی چناں چہ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سننا شروع کر دی، یہ بولے، میں ان تین دنوں میں صرف کتابیں پڑھتا ہوں، مارننگ واک کرتا ہوں
پہاڑوں میں چلا جاتا ہوں، سڑکوں اور پارکس میں گھومتا ہوں، سموسمہ چاٹ کھاتا ہوں، عام چائے خانوں میں بینچ پر بیٹھ کر دودھ پتی پیتا ہوں، پرندوں کو دانا ڈالتا ہوں، خرگوشوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، صبح جلدی اٹھ کر سورج کو نکلتے اور شام کے وقت ڈوبتے دیکھتا ہوں، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لیکچر دیتا ہوں۔
اپنے پرانے کپڑے اور جوتے نکال کر تقسیم کرتا ہوں، بیگم کے ساتھ واک کرتا ہوں، اس کے ساتھ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتا ہوں، چائے کافی پیتا ہوں، تصویروں کی نمائش پر جاتا ہوں، کتابوں کی دکانوں کا چکر لگاتا ہوں اور ناراض دوستوں کے گھر جا کر انھیں راضی کرتا ہوں، میں ان تین دنوں میں وہ سارے کام کرتا ہوں جو میں عام دنوں میں ڈیجیٹل وال کی وجہ سے نہیں کر پاتا"
میں نے ہنس کر پوچھا "اور جناب یہ ڈیجیٹل وال کیا ہوتی ہے؟" وہ بھی ہنس پڑے اور بولے "ڈیجیٹل ورلڈ نے ہمارے اور فطرت کے درمیان اور ہم اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے، ہم اب گلہری کو بھی انسٹا گرام اور ٹویٹر پر دیکھتے ہیں، ہم دوستوں، رشتے داروں اور دشمنوں سے بھی فیس بک پر ملاقات کرتے ہیں۔
ہم اپنے چاہنے والوں سے بھی واٹس ایپ پر بات کرتے ہیں، اب تو انجینئر، ڈاکٹر، استاد اور قاری سے ملاقات بھی وڈیو کال پر ہوتی ہے اور ہم مولوی صاحب کا خطبہ بھی یوٹیوب لائیو پر سنتے ہیں۔
یہ تمام گیجٹس اچھے اور مفید ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے لیے تباہ کن بھی ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ ہم اور زندگی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ہیں اور اس دیوار کی وجہ سے ہم آج کے انسانوں کو فرسٹریشن بھی ہو رہی ہے، ٹینشن بھی اور اینگزائٹی بھی، ہم بلڈ پریشر، شوگر اور کینسر کے مریض بھی بن رہے ہیں۔
یہ درست ہے ہم آج کے دور میں ڈیجیٹل ورلڈ سے الگ نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ایک آدھ دن کا ڈیجیٹل فاسٹ رکھ کر خود کو اصل زندگی سے کنیکٹ تو کر سکتے ہیں اور میں یہ کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہا ہوں۔
میں پندرہ دن بعد تین دن کا فاسٹ لے لیتا ہوں" میں نے پوچھا "آپ کواس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟" یہ بولے "میری ٹینشن، ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول فوراً نیچے آ جاتا ہے، میرا بلڈ پریشر اور شوگر بھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور مجھے دکھائی اور سنائی بھی دینے لگتا ہے، مجھے اپنی بیوی، اپنے بچے اور پوتے پوتیاں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
مجھے کیاریاں اور کیاریوں کے پھول اور ان پر چڑیاں اور درختوں میں چھپی کوئل بھی دکھائی دینے لگتی ہے، میری ٹیسٹ بڈز بھی امپروو ہو جاتے ہیں اور میں گاجر اور مولی کا ذائقہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔
مجھے کافی اور چائے بھی بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میں عام نارمل دنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہو جاتا ہوں اور میرے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں - ان کا کہنا تھا موبائل فون ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ہم جوں ہی اسے ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہماری زندگی، ہماری زندگی نہیں رہتی، یہ سوشل میڈیا، واٹس ایپ، کالز، ایس ایم ایس، ای میلز اور ٹینشن اور ڈپریشن سے بھری ہوئی آڈیوز اور وڈیوز کے رحم و کرم پر چلی جاتی ہے اور ہم اس کے بعد اندر سے فوت ہونے لگتے ہیں۔
لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی زندگی میں کوئی ایک دن موبائل اور ٹیلی ویژن کے بغیر رہ کر دیکھیں آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے گا، آپ کو چند لمحوں میں سامنے بیٹھے لوگ دکھائی اور سنائی دینے لگیں گے۔
آپ کو چند لمحوں میں ماں کے چہرے کی جھریاں دکھائی اور چھوٹے بچے یا بچی کے قہقہے سنائی دینے لگیں گے، آپ کو چہرے پر سکون اور دماغ میں ٹھنڈک محسوس ہوگی اور آخری بات " وہ رکے، لمبی سانس لی اور بولے " اور آخری بات آپ کا دن لمبا اور رات پرسکون ہو جائے گی، آپ یقین کرو ہمارا 60 فیصد دن سوشل میڈیا کھا جاتا ہے۔
آپ جس دن اس کا روزہ رکھ لو گے اس دن آپ کا 60 فیصد دن آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اس دن وہ سارے کام نبٹا لو گے جن کے بارے میں آپ کو سوچنے کی فرصت نہیں ملتی تھی، ہم کیوں کہ بستر میں بھی موبائل فون لے کر لیٹتے ہیں چناں چہ ہماری نیند بھی ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔
آپ جس دن موبائل کا روزہ رکھو گے اس دن نیند اور آپ کے درمیان سوشل میڈیا نہیں ہوگا، آپ اس رات اپنی نیند کی کوالٹی چیک کر لینا، آپ زیادہ دیر سوئیں گے اور صبح فریش اٹھیں گے"۔*
میں نے ان سے پوچھا "آپ کو یہ گیدڑ سنگھی کہاں سے ملی؟" وہ ہنس کر بولے "میں ڈپریشن اور انسومنیا کا مریض تھا، مجھے صرف تین چار گھنٹے نیند آتی تھی چناں چہ اگلے دن تھکا رہتا تھا، میری شوگر اور بلڈ پریشر بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔
میری ادویات بڑھتی جا رہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا میری زندگی کا سفر تمام ہو چکا ہے لیکن پھر میں نے کسی فلائٹ میں آسٹریا کے ایک ویل نیس سینٹر کا اشتہار دیکھا، کمپنی کا دعویٰ تھا آپ ہمیں دس دن دے دیں ہم آپ کو آپ کا صحت مند جسم، روح اور دماغ واپس کر دیں گے، میں نے یہ ٹرائی کرنے کا فیصلہ کیا اور میں سالس برگ پہنچ گیا۔
وہ سینٹر پہاڑوں کے درمیان دریا کے کنارے تھا اور بہت ہی خوب صورت تھا، میں جوں ہی وہاں پہنچا، انتظامیہ نے مجھ سے میرا فون لے لیا، ان کا کہنا تھا آپ کا فون اب آپ کو واپسی کے ٹائم ملے گا اور مجھے اس کے بعد ایک ایسی ڈار میٹری میں بھجوا دیا گیا جس میں ہم چار لوگ رہ رہے تھے، ہمیں واش روم کے لیے بھی برآمدے کی دوسری سائیڈ پر کامن ٹوائلٹ میں جانا پڑتا تھا، میں یہ سسٹم دیکھ کر بہت مایوس ہوا لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے۔
میں دو دن بعد مکمل طور پر مختلف انسان تھا، میری روم میٹس کے ساتھ گہری دوستی ہوگئی، میں دریا کے کنارے واک بھی کرنے لگا اور مجھے سینٹر کا پھیکا کھانا بھی اچھا لگنے لگااور یوں میں سات دن بعد واقعی تبدیل ہوگیا، میں یوگا سیکھ چکا تھا۔
میں رات کا کھانا سات بجے کھا لیتا تھا اور ٹھیک آٹھ بجے سو جاتا تھا اور صبح پانچ بجے اٹھ کر دوسروں کے ساتھ جاگنگ بھی کرتا تھا , میں دوسروں کے ساتھ گپ بھی لگاتا تھا اور قہقہے بھی اور آپ یقین کریں میں نے مدت بعد اپنے قہقہوں کی آواز سنی تھی، ہمارا کورس مکمل ہوا تو ہمارے مینٹور نے بتایا، آپ کی زندگی میں دو کمیاں اور دو زیادتیاں تھیں، ہم نے یہ دونوں نکال دیں اور آپ لوگ نارمل ہو گئے۔
دو کمیاں، لوگوں سے رابطہ اور قہقہے تھے، یہ یاد رکھیں انسان جب تک انسان سے نہیں ملتا یہ خوش نہیں ہو سکتا اور آپ انسانوں سے دور ہو گئے تھے، دوسرا ہماری خوشی کا قہقہے کے ساتھ گہرا تعلق ہے، آپ جوں ہی ہنستے جائیں گے آپ خوش ہوتے چلے جائیں گے، ہم نے آپ کے قہقہے واپس کر دیے اور یوں آپ لوگ فریش ہو گئے اور آپ کی زندگی کی دو زیادتیاں کھانا اور موبائل فون تھیں، آپ کھاتے بھی زیادہ تھے اور موبائل بھی زیادہ استعمال کرتے تھے۔
ہم نے یہ دونوں چیزیں کم کر دیں اور یوں آپ بدل گئے لہٰذا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں ڈیجیٹل فاسٹنگ بھی کرتا ہوں، جسمانی روزے بھی رکھتا ہوں، نئے لوگوں سے بھی ملتا ہوں اور ہنسنے اور قہقہے لگانے کا کوئی موقع بھی ضایع نہیں کرتا، آپ بھی جسمانی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل فاسٹنگ کیا کرو، آپ کا ٹینشن لیول بھی نیچے آ جائے گا"۔

08/04/2024

کثرت مت مانگئے، برکت مانگیے، کثرت آزمائش ہے، جبکہ برکت ایک نعمت کثرت نصیب ہے اور برکت خوش نصیبی کثرت آپ کا اندازہ ہے کہ اس قدر ہو تاکہ آپ کی ضروریات پوری ہوں اور برکت اللہ تعالی کی گارنٹی ہے کہ جو ملے اس میں ضروریات لازماً پوری ہوں. کثرت والے حساب میں پھنس گئے اور برکت والے پار لگ گئے. دعا ہے کہ آپ جن دعاؤں کی لیے ہاتھ اٹھائیں وہ دعائیں قبول ہو جائیں. اللہ آپ کی سب پریشانیاں دور فرمائے آمین
یا رب العالمین

16/02/2024

ڈپریشن سے نکلنے کا ایک حل آوارہ گردی بھی ہے۔ کسی ایک جگہ بیٹھ کر زندگی کا انتظار نہ کریں۔ نکل جائیں کھلی ہوا میں سانس لیں، آسمان کو چھوئیں۔ اپنی پسند کی چیزوں میں اپنے آپکو غرق کریں اور پھر دیکھئے زندگی کتنی بڑی نعمت ہے☺
دنیا میں آوارہ گردی سے بڑھ کر کوئی مسرت نہیں!

~فریڈرک نطشے

02/02/2024

In our modern culture, this means we often act to justify our projections as being “logical,” “normal,” “right,” “rational,” etc. alll the while refusing to recognize such attributes for what theyare: the biases, defenses, and rationalizations of an often unsure and embattled ego. Projection of this kind amounts to a sophisticated form of narcissistic entitlement.

https://youtu.be/EHJO4UX1m9Q?feature=shared
30/12/2023

https://youtu.be/EHJO4UX1m9Q?feature=shared

Let's be honest, how are you really feeling today? Do you feel calm, peaceful, and harmonic with yourself or do you feel stressed and anxious? Whatever your ...

Address

Lifeline Specialty Clinics
Islamabad

Opening Hours

Tuesday 14:00 - 20:00
Wednesday 14:00 - 20:00
Thursday 14:00 - 20:00
Friday 10:00 - 20:00
Saturday 10:00 - 20:00
Sunday 11:00 - 18:00

Telephone

+923005543856

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when PSI Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to PSI Pakistan:

Share