عامل پیر باوا

عامل پیر باوا اللہ اکبر

30/08/2025

-یوگ سوتر (قسط 2)

پتنجلی یوگ فلسفہ اور آشتانگ یوگ

یوگ کا مفہوم اور ویدک بنیاد سمجھنے کے بعد، یوگ کی سب سے منظم اور مفصل تشریح قدیم ہندوستانی رشی مہارشی پتنجلی نے کی، جنہیں یوگ کا باقاعدہ معمار (Father of Yoga) بھی کہا جاتا ہے۔

💠 پتنجلی اور یوگ سوتر

پتنجلی نے یوگ کے اصولوں کو مختصر مگر جامع aphorisms (سوتر) کی شکل میں بیان کیا، جنہیں "یوگ سوتر" کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 195 مختصر اقوال یا سوترز پر مشتمل ہیں۔ یہ اقوال یوگ کی تھیوری، پریکٹس اور روحانی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔

پہلا اور بنیادی سوتر کہتا ہے:

> "یوگش چتّ ورتّی نروودھ"
یعنی: "یوگ کا مطلب ہے ذہن کی لہروں یا خیالات کے بہاؤ کو روکنا یا قابو میں رکھنا۔"

پتنجلی کے مطابق، یوگ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اپنے اصل، خالص اور روحانی وجود کا ادراک کرواتا ہے۔

🕉 آشتانگ یوگ – یوگ کے آٹھ اجزاء

پتنجلی نے یوگ کے آٹھ مراحل یا اجزاء (آشتانگ یوگ) بیان کیے، جو روحانی ترقی کی سیڑھی کے درجے ہیں:

1. یَم (Yama) – اخلاقی بندشیں (سماجی رویے)

اہنسا (عدم تشدد)

ستیا (سچ بولنا)

استیہ (چوری نہ کرنا)

برہمچریہ (جذبات پر قابو)

اپریگراہ (لالچ نہ کرنا)

2. نِیَم (Niyama) – ذاتی اصول و ضبط

شَؤچ (پاکیزگی)

سنتوش (قناعت)

تپس (روحانی مشق)

سوادھیائے (خود کا مطالعہ)

ایشور پرنیدھان (اللہ یا دیو پر بھروسہ)

3. آسن (Asana) – جسمانی پوزیشنز یا پوسچر
جسم کو ایسے مقام پر لانا جو مراقبے کے لیے پرسکون اور مستحکم ہو۔

4. پرانایام (Pranayama) – سانس کی تربیت
سانس کو قابو میں رکھنا، تاکہ توانائی کا بہاؤ درست ہو۔

5. پرتیہار (Pratyahara) – حواس کا قابو
بیرونی دنیا سے حواس کو ہٹا کر اندر کی طرف متوجہ کرنا۔

6. دھارنا (Dharana) – ارتکاز
کسی ایک نقطے یا شے پر ذہن کو مرکوز کرنا۔

7. دھیان (Dhyana) – مراقبہ
بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل دھیان۔

8. سمادھی (Samadhi) – روحانی یکجائی
وہ کیفیت جس میں نفس، خدا یا کائنات کے ساتھ مکمل اتحاد پا لیتا ہے۔ یہ یوگ کی معراج ہے۔

---

🌿 یوگ کا مقصد: آزادی اور روشنی

پتنجلی کے مطابق یوگ کا حتمی مقصد ہے:
کلیش (دکھ)، آوِدیا (جہالت)، اور سمسکارا (نفسیاتی تاثر) سے نجات حاصل کرنا۔

یوگ انسان کو صرف جسمانی تندرستی نہیں دیتا، بلکہ:

ذہنی سکون

جذباتی توازن

روحانی بیداری

عطا کرتا ہے، تاکہ وہ موکش (نجات) یا کیولیہ (مکمل آزادی) کی طرف سفر کر سکے۔

30/08/2025

یوگ سوتر (قسط 1)

یوگ کا مفہوم اور ویدوں میں یوگا کی بنیاد

"یوگ" سنسکرت کے لفظ "یُج" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "باہم ملانا " یا "اتحاد قائم کرنا"۔ یوگ دراصل انسانی ذات کا ا ذات اعلی یا کُل کائنات سے وصال یا ڈیوائن کانشئسنیس سے رابطے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ یوگ کا اصل مقصد ذہن کی مختلف کیفیتوں کو قابو میں رکھنا ہے، تاکہ انسان اندرونی سکون اور روحانی بیداری حاصل کر سکے۔

یوگ کی کئی مختلف طرزیں آج دنیا بھر میں رائج ہو چکی ہیں، جن میں جسمانی حرکات یا آسن کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام طرزوں کی جڑ ایک ہی ہے، ذہن پر قابو اور خودی کی پہچان۔

یوگ کا آغاز صدیوں پہلے وادی سندھ کی تہذیب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں آئیں اور آج جو یوگ دنیا میں مشہور ہے، وہ اپنے اصل ویدک تصور سے خاصا مختلف ہے۔

ویدوں میں یوگ کو ایک روحانی ریاضت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس کا مقصد انسان اور اس کے خالق یا کائنات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ یوگ محض جسمانی ورزش نہیں بلکہ ایک نفسی، جسمانی اور روحانی تربیت کا راستہ ہے۔

ویدوں میں یوگ کے مختلف مقاصد بیان کیے گئے ہیں ۔

ویدوں کے مطابق یوگ انسان کے اندر موجود نفس کو کائنات کے سب سے اعلیٰ حقیقت یعنی برہمن سے جوڑنے کا ذریعہ ہے۔

یہ خود پر قابو، ضبطِ نفس اور فہم و ادراک کے ذریعے اعلیٰ شعور کی طرف سفر ہے۔

ویدوں میں یوگ کو حواس، سانس اور ذہن کو باندھنے (یعنی قابو میں کرنے) کی ایک ریاضت قرار دیا گیا ہے، جیسے ایک رتھ کو قابو میں رکھنے کے لیے لگامیں ہوتی ہیں۔

یوگ کو سمجھانے کے لیے ویدوں میں خوبصورت علامتی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً

جسم یا بدن کو رتھ کہا گیا ہے اور روح رتھ کا سوار بتائی گئ ہے ۔ عقل ایک رتھ بان ہے اور ذہن ایک لگام ہے، جبکہ حواس اس رتھ کے گھوڑے ہیں ۔

یوگ کا ذکر سب سے پہلے رِگ وید میں ملتا ہے، جو چاروں ویدوں میں سب سے قدیم ہے۔

یوگ کا حتمی مقصد ہے دکھوں سے نجات اور سکون و مسرت کی حالت کا حصول۔

یوگ /یوگا بنیادی طور پر بدن اور کائناتی تخلیق کے مادے میں موجود پانچ عناصر کی اہمیت بیان کرتا ہے ۔

یوگ کے مطابق جسمانی پیکر پانچ عناصر (پنج مہابھوت) پر مشتمل ہے

پرتھوی (زمین) مضبوطی، ٹھہراؤ، استحکام کی علامت ہے ۔

اپس (پانی) روانی، لچک، تبدیلی کی علامت ہے۔

اگنی (آگ) توانائی، جوش، تبدیلی کی طاقت کی علامت ہے ۔

وایو (ہوا) حرکت، پھیلاؤ، رابطہ کی علامت ہے ۔

آکاش (آسمان/فضا) وسعت، شعور، وجدان کی علامت ہے ۔

یہ پانچ عناصر جسم کے مختلف پہلوؤں میں شامل ہوتے ہیں۔ زمین، پانی اور آگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مادی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ ہوا اور آکاش نظر نہیں آتے، مگر پھر بھی ہر جگہ موجود ہیں۔

ان پانچوں عناصر میں سے کوئی بھی دوسرے سے کم اہم نہیں۔ ہر عنصر کا اپنا کردار ہے اور یہ آپ میں جُڑے ہوئے ہیں۔ یوگ ان عناصر کے درمیان توازن پیدا کر کے روح، جسم اور ذہن کو ہم آہنگ بناتا ہے۔

روح کی حکمت "آپ وہ نہیں ہیں جو آپ کے  خیالات  ہیں بلکہ آپ اپنے خیالات کے خالق ہیں۔"یہی ہے مشاہدہ کرنے والا شعور یعنی اپن...
29/08/2025

روح کی حکمت

"آپ وہ نہیں ہیں جو آپ کے خیالات ہیں بلکہ آپ اپنے خیالات کے خالق ہیں۔"

یہی ہے مشاہدہ کرنے والا شعور یعنی اپنے خیالات کو دیکھنا، ان میں گم ہو جانا نہیں

راجا یوگ کے مطابق

"آتما" (روح) ایک باشعور توانائی ہے جو اس جسم کے ذریعے تجربات سے گزرتی ہے۔
روح ابدی، پاکیزہ، پرامن، اور طاقتور ہے۔خیالات روح میں پیدا ہوتے ہیں، دماغ میں نہیں۔ دماغ ہارڈویئر ہے، روح اُس کی صارف ہے۔



آئیے زندگی کے بہاؤ کو سمجھیں

خیالات احساسات پیدا کرتے ہیں احساسات، جو رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ رویے جو عادات بناتے ہیں، عادات، جو وقت کے ساتھ شخصیت کا حصہ بنتی ہیں اور آخرکار ہمارا مقدر تشکیل دیتی ہیں۔

اگر میں اپنے خیالات بدل دوں، تو میں پوری زندگی کی سمت بدل سکتا/سکتی ہوں۔

مائنڈفلنیس ہمیں ردِعمل سے پہلے "ٹھہرنے" کی طاقت دیتی ہے۔ اور ردِعمل کی بجائے شعوری جواب دینے کا اختیار۔

29/08/2025

انسان ہمیشہ سے فطرت کا حصہ رہا ہے ۔ ہم جو سانس لیتے ہیں، جو پانی پیتے ہیں، جو اناج کھاتے ہیں، اور جو روشنی ہمیں توانائی دیتی ہے، وہ سب براہِ راست فطرت کی عطا ہے۔ لیکن جدید طرزِ زندگی نے انسان کو فطرت سے کاٹ دیا ہے۔ اسی کٹاؤ کی وجہ سے جسمانی، ذہنی اور روحانی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

فطرت سے جڑنا صرف جسمانی صحت کے لیے نہیں بلکہ روحانی سکون اور زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لیے بھی لازمی ہے۔

آیوروید میں یت پنڈے تت برہمانڈ کا اصول ہے، جس کے مطابق انسان کائنات کا عکس ہے۔ جو عناصر کائنات میں ہیں، وہی عناصر ہمارے جسم میں بھی ہیں:

آکاش یعنی اسپیس یا خلاء، وایو یعنی ہوا، آگنی یعنی آگ /حرارت، اپ یعنی پانی اور پرتھوی یعنی زمین یا خاک

فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا دراصل اپنے اندر موجود ان عناصر کو متوازن رکھنا ہے۔ یہی توازن اندرونی سکون اور روحانی ترقی لاتا ہے۔

فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے یعنی سبزے، درختوں اور پانی کے قریب وقت گزارنے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے

سورج کی روشنی وٹامن دیتی ہے، تازہ ہوا آکسیجن فراہم کرتی ہے، جو جسم کو بیماریوں سے بچاتی ہے۔

فطرت خاموش استاد ہے؛ یہ ہمیں صبر، برداشت اور عاجزی سکھاتی ہے۔

فطرت کے قریب بیٹھ کر ہم وحدت کا تجربہ کرتے ہیں، جہاں انسان اور کائنات ایک ہو جاتے ہیں۔

فطرت سے جڑنے کے مختلف طریقے ہیں ۔۔۔

روزانہ کم از کم 20 منٹ پارک یا باغ میں چلیں۔ چلتے وقت درختوں کو محسوس کریں، پرندوں کی آوازیں سنیں، اور ہر قدم پر شکر ادا کریں

ننگے پاؤں زمین پر چلیں۔ یہ جسم میں جمع اضافی توانائی کو خارج کرتا ہے اور اعصابی سکون دیتا ہے۔

اپنے گھر میں چھوٹا سا باغ یا گملے لگائیں۔ پودوں کی پرورش روحانی سکون دیتی ہے۔

رات کو ستاروں کو دیکھنا یا صبح سورج طلوع ہوتے وقت اس کی روشنی محسوس کرنا انسان کو اپنے خالق سے جوڑ دیتا ہے۔

درختوں یا پہاڑوں کے درمیان بیٹھ کر خاموش مراقبہ کریں۔

فطرت کے ہر جزو میں الٰہی حکمت پوشیدہ ہے۔

پانی کی روانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کے بہاؤ کو قبول کریں۔

درخت ہمیں صبر اور مضبوطی سکھاتے ہیں۔

سورج روشنی اور امید کی علامت ہے۔

یہ سب علامات انسان کو اپنے خالق کی یاد دلاتی ہیں۔

قرآن کریم میں بار بار فطرت کی نشانیوں (آیات) پر غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صوفیاء نے بھی قدرت کو "کتابِ فطرت" کہا ہے جو انسان کو قربِ الٰہی کی طرف لے جاتی ہے۔

🌸 روحانیت اور فطرت کے درمیان گہرا تعلق ہے

انسان جب فطرت کےعناصر کو غور سے دیکھتا ہے تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہر تخلیق
ایک پیغام دیتی ہے۔

پانی ہمیشہ بہتا رہتا ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں جمود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مشکلات کے باوجود آگے بڑھنا ہے۔

درخت زمین میں جڑیں مضبوط رکھتے ہیں لیکن شاخیں آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں، یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دنیاوی ذمہ داریاں بھی پوری کریں یعنی نیچے زمین سے جڑے رہیں اور ساتھ ساتھ روحانی بلندی کی طرف بھی بڑھیں۔

سورج روز طلوع ہوتا ہے اور روشنی بانٹتا ہے، چاہے بادل ہوں یا اندھیرا، یہ ہمیں امید اور ایثار کی علامت دکھاتا ہے۔

پرندے صبح کے وقت چہچہا کر اپنے رب کی حمد بیان کرتے ہیں، یہ ہمیں فطری عبادت اور شکر گزاری کی یاد دلاتے ہیں۔

قرآن کریم کتاب حکمت کہتی ہے ۔۔
“زمین و آسمان کی ہر چیز میں اللہ کی نشانیاں ہیں، مگر اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔”
یعنی فطرت محض زمین، پانی اور آسمان کا مجموعہ نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کی زندہ آیات ہیں۔

صوفیاء نے فطرت کو خاموش استاد کہا ہے۔ ان کے نزدیک کائنات کی ہر شے “ذکر” میں مصروف ہے

ہوا کی سرسراہٹ تسبیح ہے۔

پرندوں کی آواز نعت ہے۔

بارش اللہ کی رحمت کا پیغام ہے۔

صوفیوں کاب فلسفہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ فطرت میں ڈوب کر ہم اپنے خالق کے قریب ہو سکتے ہیں کیونکہ فطرت ایک “آئینہ” ہے جو ہمیں اللہ کی صفات دکھاتی ہے۔

روحانیت کا مطلب صرف عبادت خانہ یا مراقبہ نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کا ہر لمحہ ہے جس میں انسان اپنے اندر اور باہر کے ربط کو سمجھتا ہے۔

جب ہم درخت کے نیچے بیٹھتے ہیں اور خاموشی سے سانس لیتے ہیں تو وہ صرف ایک جسمانی آرام نہیں بلکہ روحانی تجربہ ہوتا ہے۔

فطرت ہمیں عاجزی سکھاتی ہے۔ پہاڑوں کو دیکھ کر ہم اپنی چھوٹی سی ہستی کو پہچانتے ہیں اور اللہ کی عظمت کو مانتے ہیں۔

سمندر کی لہر ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی میں سکون اور طوفان دونوں آتے ہیں، لیکن اصل مقصد ہے رب پر بھروسہ رکھنا۔

روحانیت کا ایک بڑا مقصد ہے وحدت کا احساس یعنی یہ جاننا کہ ہم الگ وجود نہیں بلکہ پوری کائنات کا حصہ ہیں۔

جب ہم جنگل میں چلتے ہیں اور پرندوں، ہوا، پانی اور زمین کے ساتھ جُڑتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سب ایک ہی نظام کا حصہ ہیں۔

یہ وحدت ہمیں ایگو (انا) سے آزاد کرتی ہے اور عاجزی پیدا کرتی ہے۔

یہی وحدت انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی ہے کیونکہ سب مخلوقات کا رب ایک ہے اور سب اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔

Address

Jhang

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when عامل پیر باوا posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram