
12/08/2025
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین
أبو الحسن علي بن موسى الرضا علیہ السلام 17صفر المظفر یوم شہادت
امام علی رضا علیہ السلام امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ اور آپ آئمہ اہلبیت میں آٹھویں امام ہیں۔
نام لقب و کنیت ❣️
علی نام، رضا لقب او ر ابو الحسن کنیت، حضرت امام موسیٰ کاظم والد بزرگوار تھے اور اس لیے آپ کو پورے نام ولقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا کہا جائے گا، والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا۔ نہایت عبادت گزار بی بی تھیں۔
ولادت ❣️
11ذی القعدہ 148ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی۔ اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 15 شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق کی وفات ہو چکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًا گھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔
تربیت ❣️
آپ کی نشو و نما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی۔ اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کر رہے تھے مگر اس سے پہلے 82 یا 92 برس آپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
دور امامت ❣️
امام علی رضا کی پینتیس برس کی عمر جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے۔ اس نا خوشگوار ماحول میں حضرت نے خاموشی کے ساتھ شریعت ُ حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا۔
علمی کمال ❣️
آل محمد کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ , چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا ہیں۔ جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا الِ محمد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اکٹھے کیے تو اٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔
زندگی کے مختلف دور ❣️
حضرت امام موسیٰ کاظم کے بعد دس برس ہارون کادور رہا۔ یقیناً وہ امام رضا کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کر سکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گورا نہیں کیا۔ مگر یا تو امام موسیٰ کاظم کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے حکومت ُ وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہو ااور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی , یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنے کے بعداثرورسوخ کے بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ علی ابن موسیٰ بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ہیں تو ہارون نے جواب دیا کہ جو کچھ ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وہی کیا کم ہے جواب تم چاہتے ہو کہ میں اس نسل ہی کا خاتمہ کروں۔
پھر بھی ہارون رشید کااہل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور پر سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہل بیت کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے اسکتے تھے نہ حضرت کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔
ہارون کا اخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گذرا۔ امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ میں سے تھا۔ اس لیے درباد کاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا۔ دونوں کی اپس میں رسہ کشی ہارون کے لیے سوہانِ روح بنی رہتی تھی، اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کر دیا کہ دار السلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ،مصرحجاز، یمن وغیرہ محمد امین کے نام کیے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران , خراسان، ترکستان وغیرہ مامون کے لیے مقرر کیے گئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کار گاہو سکتا تھا جب دونوں فریق "جیو اور جینے دو" کے اصول پر عمل کرتے ہوتے۔
لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرماہووہاں اگر بنی عباس کے ہاتھوں بنی فاطمہ کے خلاف ہر طرح کے ظلم وتعدی کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے کے لیے تیارنظر اتے۔ اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باہم تصادم ہو جب ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کر لیا کرتے تھے۔ اسی کانتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی انکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم 891ھ میں تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پر قائم ہو گئی۔
اخلاق و اوصاف ❣️
مجبوری اور بے بسی کانام قناعت یا درویشی "عصمت بی بی از بے چادری" کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا شعار رہتا ہے مگر ثروت واقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنابلند مرتبہ مردانِ خدا کاحصہ ہے۔ اہل بیت معصومین میں سے جو بزرگوار ظاہری حیثیت سے اقتدار کے درجہ پر نہ تھے کیوں کہ ان کی فقیری کو دشمن بے بسی پر محمول کرکے طعن وتشنیع پر امادہ ہوتے اور حقانیت کے وقار کو ٹھیس لگتی مگر جو بزرگ اتفاقات روزگار سے ظاہری اقتدار کے درجہ پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اتنا ہی فقرا اور سادگی کے مظاہرہ میں اضافہ کر دیا تاکہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کاذریعہ بنے اور ان کے لیے نمونہ عمل ہو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی چونکہ شہنشاہ ُ اسلام مانے جا رہے تھے ا س لیے آپ کالباس اور طعام ویسا زاہدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین کے یہاں نہیں ملتی۔ یہی صورت حضرت علی رضا کی تھی، آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عہد بنائے گئے تھے جن کی وسعت ُ مملکت کے سامنے روم وفارس کاذکر بھی طاقِ نسیان کی نذر ہو گیا تھا۔ جہاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے اواز بلند ہوتی تھی کہ "جا جہاں تجھے برسنا ہو برس , بہتر حال تیری پیداواری کااخراج میرے پاس ہی ائے گا۔"
حضرت امام رضا کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ہوگا۔ یہاں امام رضا کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک ُ دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ علی رضا کے لباس میں علی المرتضی کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے اگئی۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔ داب واداب ُ شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ہوجایا کرے تو کیا حرج ہے? حضرت نے فرمایا خالق سب کاالله ہے۔ ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے ادم ہیں۔ جزاوسزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی , پھر دُنیا میں تفرقہ کس لیے ہو۔
اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جزوبن کرجہاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق ُ خدا پر حکمرانی کاحقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ہم کیسے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم وستم اور فسق وفجور میں بنی امیہ سے کم نہ رہے بلکہ بعض باتوں میں ان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ہو کرامام رضا کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نہیں اصل انسان کا عمل ہے بظاہر صرف ایک شخص کا اظہار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بہرحال ایک اچھی صفت ہے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ہوئی ذہنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کااعلان تھااور اس حیثیت سے بڑا اہم ہو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا۔ چنانچہ امام رضا کی سیرت میں اس کے مختلف شواہد ہیں , ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ »خدا کی قسم اباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت نے فرمایا۔ ,, میرے اباواجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ , پ رہی ز گاری اوراطاعتِ خداسے۔,, ایک شخص نے کسی دن کہا کہ، " والله آپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت نے فرمایا، "اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کاتقویٰ وپ رہی ز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"
ابراہیم بن عباس کابیان ہے کہ حضرت فرماتے تھے، "میرے تمام لونڈی اور غلام ازاد ہوجائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نہیں جانتا (حضرت نے اشارہ کیا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔"
یہ باتیں کو تاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار پر محمول کرلیتے ہوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روایقیناً اتنا کند ذہن نہ ہوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رہے تھے۔ اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لیے حضرت کو ولی عہد بنایا تھا مگر بہت جلد اسے محسوس ہوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رہی تو عوام کی ذہنیت میں یک لخت انقلاب ہو جائے گا اور عباسی سلطنت کاتخت ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گا
وفات ❣️
مامون کی توقعات غلط ثابت ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ اخر امام کی جان لینے کے درپے ہو گیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 17 صفر 302ھ میں حضرت نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت کا روضہ اج تاجدارانِ عالم کی جبیں سائی کا مرکز بناہوا ہے وہیں اپنے وقت کابزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
کثرت سے ایصالِ ثواب کریں اور حسبِ توفیق لنگر کا اہتمام کریں ۔
خاک پائے اہلبیت
ڈاکٹر محمد عامر طارقی
fans