Dr.Aamir Tariqi Clinic

Dr.Aamir Tariqi Clinic Doctor/Spiritual healer/Islamic Scholar

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم    ھوالقادر ھوالحق ھوالمعینأبو الحسن علي بن موسى الرضا علیہ السلام  17صفر المظفر یوم شہادت امام ...
12/08/2025

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

أبو الحسن علي بن موسى الرضا علیہ السلام 17صفر المظفر یوم شہادت

امام علی رضا علیہ السلام امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ اور آپ آئمہ اہلبیت میں آٹھویں امام ہیں۔

نام لقب و کنیت ❣️

علی نام، رضا لقب او ر ابو الحسن کنیت، حضرت امام موسیٰ کاظم والد بزرگوار تھے اور اس لیے آپ کو پورے نام ولقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا کہا جائے گا، والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا۔ نہایت عبادت گزار بی بی تھیں۔

ولادت ❣️

11ذی القعدہ 148ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی۔ اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 15 شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق کی وفات ہو چکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًا گھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔

تربیت ❣️

آپ کی نشو و نما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی۔ اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کر رہے تھے مگر اس سے پہلے 82 یا 92 برس آپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔

دور امامت ❣️

امام علی رضا کی پینتیس برس کی عمر جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے۔ اس نا خوشگوار ماحول میں حضرت نے خاموشی کے ساتھ شریعت ُ حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا۔

علمی کمال ❣️

آل محمد کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ , چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا ہیں۔ جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا الِ محمد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اکٹھے کیے تو اٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔

زندگی کے مختلف دور ❣️

حضرت امام موسیٰ کاظم کے بعد دس برس ہارون کادور رہا۔ یقیناً وہ امام رضا کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کر سکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گورا نہیں کیا۔ مگر یا تو امام موسیٰ کاظم کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے حکومت ُ وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہو ااور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی , یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنے کے بعداثرورسوخ کے بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ علی ابن موسیٰ بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ہیں تو ہارون نے جواب دیا کہ جو کچھ ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وہی کیا کم ہے جواب تم چاہتے ہو کہ میں اس نسل ہی کا خاتمہ کروں۔
پھر بھی ہارون رشید کااہل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور پر سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہل بیت کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے اسکتے تھے نہ حضرت کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔
ہارون کا اخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گذرا۔ امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ میں سے تھا۔ اس لیے درباد کاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا۔ دونوں کی اپس میں رسہ کشی ہارون کے لیے سوہانِ روح بنی رہتی تھی، اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کر دیا کہ دار السلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ،مصرحجاز، یمن وغیرہ محمد امین کے نام کیے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران , خراسان، ترکستان وغیرہ مامون کے لیے مقرر کیے گئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کار گاہو سکتا تھا جب دونوں فریق "جیو اور جینے دو" کے اصول پر عمل کرتے ہوتے۔
لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرماہووہاں اگر بنی عباس کے ہاتھوں بنی فاطمہ کے خلاف ہر طرح کے ظلم وتعدی کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے کے لیے تیارنظر اتے۔ اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باہم تصادم ہو جب ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کر لیا کرتے تھے۔ اسی کانتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی انکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم 891ھ میں تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پر قائم ہو گئی۔

اخلاق و اوصاف ❣️

مجبوری اور بے بسی کانام قناعت یا درویشی "عصمت بی بی از بے چادری" کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا شعار رہتا ہے مگر ثروت واقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنابلند مرتبہ مردانِ خدا کاحصہ ہے۔ اہل بیت معصومین میں سے جو بزرگوار ظاہری حیثیت سے اقتدار کے درجہ پر نہ تھے کیوں کہ ان کی فقیری کو دشمن بے بسی پر محمول کرکے طعن وتشنیع پر امادہ ہوتے اور حقانیت کے وقار کو ٹھیس لگتی مگر جو بزرگ اتفاقات روزگار سے ظاہری اقتدار کے درجہ پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اتنا ہی فقرا اور سادگی کے مظاہرہ میں اضافہ کر دیا تاکہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کاذریعہ بنے اور ان کے لیے نمونہ عمل ہو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی چونکہ شہنشاہ ُ اسلام مانے جا رہے تھے ا س لیے آپ کالباس اور طعام ویسا زاہدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین کے یہاں نہیں ملتی۔ یہی صورت حضرت علی رضا کی تھی، آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عہد بنائے گئے تھے جن کی وسعت ُ مملکت کے سامنے روم وفارس کاذکر بھی طاقِ نسیان کی نذر ہو گیا تھا۔ جہاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے اواز بلند ہوتی تھی کہ "جا جہاں تجھے برسنا ہو برس , بہتر حال تیری پیداواری کااخراج میرے پاس ہی ائے گا۔"
حضرت امام رضا کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ہوگا۔ یہاں امام رضا کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک ُ دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ علی رضا کے لباس میں علی المرتضی کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے اگئی۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔ داب واداب ُ شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ہوجایا کرے تو کیا حرج ہے? حضرت نے فرمایا خالق سب کاالله ہے۔ ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے ادم ہیں۔ جزاوسزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی , پھر دُنیا میں تفرقہ کس لیے ہو۔
اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جزوبن کرجہاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق ُ خدا پر حکمرانی کاحقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ہم کیسے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم وستم اور فسق وفجور میں بنی امیہ سے کم نہ رہے بلکہ بعض باتوں میں ان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ہو کرامام رضا کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نہیں اصل انسان کا عمل ہے بظاہر صرف ایک شخص کا اظہار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بہرحال ایک اچھی صفت ہے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ہوئی ذہنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کااعلان تھااور اس حیثیت سے بڑا اہم ہو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا۔ چنانچہ امام رضا کی سیرت میں اس کے مختلف شواہد ہیں , ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ »خدا کی قسم اباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت نے فرمایا۔ ,, میرے اباواجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ , پ رہی ز گاری اوراطاعتِ خداسے۔,, ایک شخص نے کسی دن کہا کہ، " والله آپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت نے فرمایا، "اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کاتقویٰ وپ رہی ز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"
ابراہیم بن عباس کابیان ہے کہ حضرت فرماتے تھے، "میرے تمام لونڈی اور غلام ازاد ہوجائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نہیں جانتا (حضرت نے اشارہ کیا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔"
یہ باتیں کو تاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار پر محمول کرلیتے ہوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روایقیناً اتنا کند ذہن نہ ہوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رہے تھے۔ اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لیے حضرت کو ولی عہد بنایا تھا مگر بہت جلد اسے محسوس ہوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رہی تو عوام کی ذہنیت میں یک لخت انقلاب ہو جائے گا اور عباسی سلطنت کاتخت ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گا

وفات ❣️

مامون کی توقعات غلط ثابت ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ اخر امام کی جان لینے کے درپے ہو گیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 17 صفر 302ھ میں حضرت نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت کا روضہ اج تاجدارانِ عالم کی جبیں سائی کا مرکز بناہوا ہے وہیں اپنے وقت کابزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔

کثرت سے ایصالِ ثواب کریں اور حسبِ توفیق لنگر کا اہتمام کریں ۔

خاک پائے اہلبیت
ڈاکٹر محمد عامر طارقی

fans


12/08/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

*ان شاءاللہ تعالٰی*
ماہانہ محفل 17ویں شریف ختم خواجگان ذکر اذکار و دعا،
*12 اگست 2025* بروز *منگل* رات 9:00 بجے ہوگی۔

*خصوصی آمد*
ولی کامل شیخ المشائخ حکیم صوفی شیخ طارق احمد شاہ عارف عثمانی حسنی قادری سہروردی چشتی قلندری ابوالعلائی جہانگیری شطاری مداروی شاذلی دامت برکاتہم العالیہ

*تمام احباب باوضو ہو کر اور سلسلے کا لباس زیب تن کر کےتشریف لائیں۔ بحکم میاں حضور*
اللہ تعالٰی ہمیں اخلاص کے ساتھ اس محفل میں شرکت کی توفیق عطاء فرمائے،

آمین یارب العالمین

ایڈریس
پلاٹ نمبر B49 سیکٹر 5A سرجانی ٹاؤن کراچی،
https://goo.gl/maps/mb8zCgGL7URKMyBk9
Contact for any information
03306981717
03056981717
03246981717
03076981717

09/08/2025

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شجرہ معرفت انٹرنیشنل کا تعارف

آپ تمام خواتین ؤ حضرات سے گزارش ہے اس نیک کام میں ہمارا ساتھ دیں ۔
مندرجہ ذیل فارم کا لنگ موجود ہے اسکو جلد سے جلد بھر کے جمع کرا دیں آپ کی عین نوازش ہوگی

اللّٰہ تعالیٰ آپ کی حاجات کو پورا فرمائے ۔امین یارب العالمین

https://docs.google.com/forms/d/e/1FAIpQLSdUhJ2529FZy94OKLMvmCo3-ErR1vyCufR9OPi_TlO9kO2sNA/viewform

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم     ھوالقادر ھوالحق ھوالمعینشاعر محبت و عظیم صوفی                                    ❣️    بزرگ ...
09/08/2025

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

شاعر محبت و عظیم صوفی

❣️ بزرگ عرس مبارک ❣️

"حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ"

* تاریخ پیدائش:

جمعۃ المبارک، 18 نومبر 1689ء (بمطابق 6 صفر1101ھ)
سوئی قندر (بھٹ شاہ) ہالا , سندھ (پاکستان)

* تاریخ وفات :

ہفتہ، 1جنوری, 1752ء (بمطابق 14 صفر 1165ھ)
بھٹ شاہ

* مؤثر شخصیات:

انبیائے کرام, جلال الدین رومی, فرید الدین عطار, شیخ سعدی

* متاثر شخصیات:

بیشمار پاکستانی صوفی شعراء بشمول سچل سرمست

* اصناف:

صوفی شاعری

* ولادت:



شاعر محبت و عظیم صوفی بزرگ "حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ" 1106ھ (بمطابق 1689ء) میں ہالہ حویلی "ضلع حیدرآباد" میں پیدا ہوئے-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے والد " حضرت حبیب ﷲ رحمۃ اللہ علیہ (المعروف شاہ حبیب)" کے نام سے معروف تھے۔

* خاندان:



حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے آباؤ اجد اد کا تعلق "افغانستان" کے صوبے "ہرات" سے تھا جب "امیر تیمور" ہندوستان پر حملہ آور ہونے کیلئے ہرات سے گذرا تو شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے جد امجد "سید میر علی" نے امیر تیمو ر اور اسکے لشکر کی دعوت کا اہتمام کیا اور سپائیوں کی تعداد کے برابر رقم نذر کی ۔امیر تیمور ان کی میزبانی سے بہت متاثر ہوا-

ہندوستان کی فتح کے بعد سید میر علی کے چاروں فرزندوں کوبالترتیب اجمیر، ملتان، بکھر، سہون کا حاکم مقر رکیا-

جبکہ سید میر علی اور ان کے ایک بیٹے" سید حیدر شاہ" کو اپنے ہمراہ "ہرات" میں رکھا

حیدر شاہ کچھ عرصہ بعد والد "سید میر علی" اور امیر تیمو ر کی اجازت لے کر ہالا سندھ میں آکر آباد ہو گیا-

سندھ کی معروف شخصیت "شاہ محمد" کی بیٹی سے آپکا نکاح ہوا والد کے انتقال کی خبر آنے پر آپ دوبارہ ہرات افغانستان گئے ان کی بیوی امید سے تھیی- ایک بیٹے کو جنم دیاجس کا نام دادا کے نام پر "میر علی" رکھا گیا "سید میر علی" نے دوشادیا ں کیں ایک ہالا خاندان میں اور دوسری ایک ترک خاتون سے کی دونوں سے صاحب اولاد ہوئے دونوں کے یہاں بیٹے پید اہوئے- ہالا خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون کے بیٹے کا نام "سید شرف الدین" اور ترک خاتون سے تولد ہونے والے کانام "سید احمد" رکھا ، "شرف الدین" کی اولاد "شرف پوٹرا" اور سید احمد کی اولاد "میرن پوٹرا" سے مشہور ہوئی-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق "شرف پوٹرا" خاندان سے ہے- آپ کا "خاندان سادات" سے تعلق ہے-

23 واسطوں سے آپ کا شجرہ نسب "حضرت موسیٰ کاظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ" سے جا ملتا ہے-

* تحصیل علم:



حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق واضح معلومات دستیاب نہیں بعض مورخین نے لکھا آپ کو "علم لدنی" حاصل تھا آپ کی شاعری سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو قرآن وحدیث کے علوم پرعبور حاصل تھا-

سیروسیاحت اور سفر میں بزرگوں کی کتب اور "مثنوی مولانا روم" ہمراہ ہوتی تھی-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم سے متعلق ایک واقعہ کتب میں موجو د ہے- حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے والد نے آپ کو "آخوند نور محمد بھٹی" کے مکتب میں بھیجا استاد نے کہا کہ پڑھو بیٹا الف شاہ صاحب نے دھرایا "الف" جب استاد نے کہا کہ ’’ب‘‘ شاہ صاحب نے پڑھنے سے انکا ر کردیا اور لفظ ’’ب‘‘ کی ادائیگی سے انکار کردیا استاد نے "شاہ حبیب" سے حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت کی شاہ حبیب جو خود بھی تصوف کے رمو ز جانتے تھے- سمجھ گئے کہ’’الف‘‘ ﷲ کی ذات پر دلالت کر تا ہے اور اس کے بعد تمام حرف ماسواء ہیں- جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں اس مو قع پر "حضرت شاہ حبیب رحمۃ اللہ علیہ" نے کہا اس میں کلام نہیں جو تم نے کہا صحیح کہا لیکن ظاہری تعلیم بھی ضروری ہے -


* سلسلۂ طریقت:



حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ "سلسلۂ عالیہ قادریہ" سے منسلک تھے- لیکن آپ نے چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندی سلسلوں سے بھی فیض پایا-

اس کے علاوہ فلسفہ "وحدت الوجود" سے بھی متاثر تھے-

آپ اکثر مزارات کی زیارت پرجاتے- جن میں مخدوم نوح رحمۃ اللہ علیہ، مخدوم بلاول رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے پر دادا شاہ عبد الکریم بلڑی والے رحمۃ اللہ علیہ ،آپ صوفی شاہ عنایت رحمۃ اللہ علیہ(جھوک ) سے بھی متاثر تھے- ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے شاہ عنایت رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ قادریہ میں "مخدوم عبدالملک برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ " سے بیعت تھے- شاہ عنایت کی شہادت نے حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی متاثر کیا, جس کا اظہار حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔

علاوہ ازیں خطے کے سیاسی حالات ،داخلی ،خارجی,
کمزوریوں اور ایران و افغانستان کی یلغار مغلیہ حکومت کا زوال پذیر ہونا-

ان عوامل نے بھی حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کو متاثر کیا جس کا اظہار آپ کے کلام میں نظر آتا ہے ۔

* حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کا فلسفہ حیات:


حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تزکیہ نفس اور روحانی تکمیل پرزور دیا رنگ اور نسل وطن و مذہب اور قوم سے بالاتر ہوکر انسان دوستی کا بلند معیار پیش کیا-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فلاح کی صرف ایک صورت ہے کہ انسان اپنی اصل منزل کو پیش نظر رکھے وہ ہے معرفت الٰہی کا حصول ہے انسان کی زندگی اس کیلئے آزمائش ہیں اس کے پا س کچھ بھی تو اپنا نہیں ہے- پھر غرور کس بات کا ہے-

انسانی عظمت کا معیار اس بات پر نہیں ہے کہ وہ کس قوم وقبیلے سے تعلق رکھتا ہے, کون سی زبان بولتا ہے, کس نظریئے کا حامل ہے بلکہ اس کی حقیقی بڑائی اس میں ہے کہ وہ دوسروں کے کس قدر کام آتا ہے-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کا مرکز و محور ہے کہ انسان دوسرے انسان سے محبت کریں ،ایثار ،مروت ،منکسر مزاجی کوپروان چڑھائے شاہ صاحب نے اپنی فکروخیالات کو اشعار کے ذریعے بیان کیا-

* حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سندھی شاعری کی عالمگیر شہرت و پذیرائی:

اگرچہ سندھی شاعری کی ابتداء سومرو دور کے آغاز (1032/1350) میں ہوئی-

711؁ھ میں محمد بن قاسم کی آمد اور عرب حکومت کے قیام سے سندھ کی سرکا ری زبان عربی ہوگئی-

غزنوی اور غوری ادوار میں فارسی نے سندھ میں ترقی پائی-

عربی فارسی کے باوجود سومرو اور سمہ دور میں سندھی زبان کی حوصلہ افزائی کی گئی-

سندھی زبان کے پہلے شاعر "شاہ لطیف اﷲ قادری" کو شمار کیا جاتا ہے-

لیکن جو شہرت و پذیرائی حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی-

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہو ر زمانہ دیوان "شاہ جو رسالو" جسے عالمگیر شہرت حاصل ہے- دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں, اور ہورہے ہیں-

* حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں موجود پیغام:

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا تمام تر پیغام قرآن ،حدیث اور فکر اولیاء پر مرکوز کیا آپ کا تمام کلام الہامی ارشادات کے گرد گھو متا ہے ۔

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں!

"یہ جو تم اشعار سمجھتے ہو یہ دراصل قرآنی آیات کی تفسیر ہیں اگر تم ان پر غورفکر کروگے تو رب سے مل جاؤ گے-"





* ذوق سماع:

شاہ صاحب کو "سماع" سے بھی شغف تھا-

* کلام حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ پر مقالات, علمی و ادبی کام:

پی ایچ ڈی (P.H.D) اور ایم فل کے مقالے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں-

* وفات:

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ 1752ء بمطابق 14 صفر المظفر 1165ھ میں 63 سال کی عمر میں "بھٹ شاہ" میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئ ۔

کلام

آپ کے کلام کو "شاہ جو رسالو" کا نام دیا گیا ہے
شاہ جو رسالو

شاہ جو رسالو کی مختلف چیپٹر (جنہیں سُر کہا جاتا ہے) ہے
سر کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے

سر یمن کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے

سر کھنبھاٹ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر سریراگ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر سامونڈی، اس سر میں ملاحوں کی ہمت حوصلہ بیان کیا گیا ہے

سر سھنی، اس سر میں سھنی میھار کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر سسئی آبری، اس سر میں سسئی پُنوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر معذوری، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر دیسی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر کوهیاری، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر حسینی، اس سر میں حضرت حسین کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر لیلا چنیسر، اس سر میں لیلا چنیسر کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر مومل رانو، اس سر میں مومل رانو کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر مارئی، اس سر میں عمر مارئی (ماروی) کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر کاموڈ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر گھاتو، اس سر میں ملاحوں کی ہمت حوصلے کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر سورٹھ، اس سر میں سورٹھ اور بادشاہ رائے ڈیاچ کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر آسا، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر رپ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر کھاھوڑی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر بروو سندھی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر رامکلی، اس سر میں جوگی فقراء کا قصہ بیان کیا گیا ہے

سر کاپائتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر پورب، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر کارایل، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر پربھاتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر ڈهر، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

سر بلاول، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کیا گیا ہے

ایک مرتبہ جرمن اسکالر اور ماہر لسانیات "ڈاکٹر این میری شمل" نے کہا تھا کہ انگریزی کلاسیکی شاعری کی بہت بڑی شخصیات کو میں نے پڑھا ہے وہ لوگ کسی طرح لطیفؒ سے بڑے کلاسیکل شاعر نہیں ہیں اور "ڈاکٹر شمل" نے کہا تھا کہ سندھی سیکھنے کی میری سب سے بڑی وجہ "کلام حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ" کو سمجھنا تھا-

خاک پائے اہلبیت
ڈاکٹر محمد عامر طارقی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ تمام مریدین محبین و معتقدین سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ شجرہ معرفت انٹرنیشنل کے اغرا...
08/08/2025

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

آپ تمام مریدین محبین و معتقدین سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ شجرہ معرفت انٹرنیشنل کے اغراض و مقاصد پر میرا تفصیلی بیان سن کر جلد سے جلد تمام خواتین ؤ حضرات اوپر دیا ہوا ممبرشپ فارم بھر کر جمع کرا دیں ۔ فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ10 اگست ہے ۔ رقم جمع کرانے کی صورت میں online جو رسید ملتی ہے اسکو میرے واٹس ایپ نمبر پر بھیج دیں بہت مہربانی ہوگی ۔

آپ کے تعاون کا طالب گار ۔

قبلہء میاں حضور دامت برکاتہم العالیہ کا خلیفہ
ڈاکٹر محمد عامر طارقی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم     ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین 13 صفر المظفر 61 ہجریشہادتِ بی بی سکینہ بنتِ  حسین سلام اللہ علیہٰ۔...
08/08/2025

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

13 صفر المظفر 61 ہجری
شہادتِ بی بی سکینہ بنتِ حسین سلام اللہ علیہٰ۔

حبیبِ خدا، رحمت العالمین، خاتم المرسلین فخرِ انبیأ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، علی و فاطمہ (س) کے دل کا چین، نورِ عین شافیِ
محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔

پیدائش ❣️

24 ذوالحجہ 56ھ (بروز جمعہ بمطابق 7 نومبر 676ء) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور جس وقت آپ اپنی مادرگرامی رباب علیہ السلام کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ ہوئیں اس وقت آپ کی عمر 3 سال 7 ماہ 4 یوم تھی اور آپ کے بھائی شہزادہ علی اصغر علیہ السلام 18 دن کے تھے۔
بعض کی روایت کے مطابق جناب سکینہ علیہ السلام کی ولادت 20 رجب 57ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ لیکن معتبر روایت یہی ہے کہ آپ 24 ذوالحجہ کو متولد ہوئیں

مصائب کمسن بچی ❣️

سکینہ کے معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی نازونعم سے پلی، باپ کے سینے پر سونے والی اپنی پھوپیوں کی چہیتی پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیمہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کربلا کا ذکر ہو اور سکینہ کا ذکر نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ ھمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشور کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو پانی لائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو (عباس علمدار علیہ السلام) تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عصرِ عاشور سے پہلے جنابِ عباس (ع) کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہوگئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی ہانی لائیں گے تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار (ع) کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔مقتل میں لکھا ہے کہ جب ۱۱محرم 61 ھجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قیدخانہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک روز جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔۔۔۔۔ تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی (ع) کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین (ع) زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ،
پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں سید سجاد ، عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے
سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بیچینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔۔۔۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔۔۔۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا ھمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج ھم ہوتی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایاانا للہِ وانا الیہِ راجوں
سکینہ ھمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی
شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں
یارب کوئی معصومہ زنداں میں نہ تنہا ہوپابند
نہ ہوں اہیں رونے پہ نہ پہرا ہو
اے پروردگار اس معصوم سکینہ (س)کی یتیمی کے صدقے کسی بچی کو اس کم سنی میں یتیم نہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کثرت سے اس معصوم بچی کے لئے ایصال ثواب کریں اور حسبِ توفیق لنگر کا احتمام کریں ۔

خاک پائے اہلبیت
ڈاکٹر محمد عامر طارقی

fans

https://www.youtube.com/live/VElWR4HiYl4?si=778vJuguUTRS2DDT
07/08/2025

https://www.youtube.com/live/VElWR4HiYl4?si=778vJuguUTRS2DDT

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ھوالقادر۔ ھوالحق۔ ھوالمعین۔ *جوانی غنیمت ہے اسے اللہ تعالی کی بندگی میں لگا بڑھاپے میں یہ قوت نہ ہوگی (بوستانِ سعدی)* پُر خلوص...

بسم اللہ الرحمٰن الرحیمھوالقادر ھوالحق  ھوالمعینذکر اللّٰہ اور ہفتہ وار تربیتی نشست انشاءاللہ تعالٰی 7 اگست 2025 کو ہوگی...
06/08/2025

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

ذکر اللّٰہ اور ہفتہ وار تربیتی نشست انشاءاللہ تعالٰی 7 اگست 2025 کو ہوگی.

Time 🇵🇰 9:00 PM || 🇮🇳 9:30 PM || 🇺🇸 12:00PM || 🇬🇧 4:00PM 🇸🇦 7:00PM

اس بابرکت روحانی محفل میں ضرور شرکت کر یں۔

خلیفہ میاں حضور دامت برکاتہم العالیہ
حضرت ڈاکٹر محمد عامر طارقی
عثمانی حسنی قادری سہروردی چشتی قلندری ابوالعلائی نقشبندی مجددی جہانگیری شطاری مداروی شازلی دامت برکاتہم العالیہ

ایڈریس :
مکان نمبر سی119/1 بلاک 14 گلستان جوہر کراچی
House # C119/1 Block 14 Gulistan-e-Jauhar, Karachi
📍https://maps.app.goo.gl/j7wN35kNsbCpEPmg7

👇🏻👇🏻👇🏻 *Social Media* 👇🏻👇🏻👇🏻

YouTube
https://www.youtube.com/.MuhammadAamirTariqi

Whatsapp Group Link
https://chat.whatsapp.com/DkEh7vIPuekAuQ8kjFbTP5

Whatsapp channel link
https://whatsapp.com/channel/0029VaCPjReGehEM5XrzMT1K

X [Twitter]
https://x.com/aamirqasmi?s=08

Tiktok
https://vt.tiktok.com/ZSjLcEVVo/

Instagram
https://www.instagram.com/dr.muhammadaamirtariqi/

وظائف کی اجازت کے لیے whatsapp پر رابطہ فرمائیں
Whatsapp : +923003390563

ںںبسم اللہ الرحمٰن الرحیمھوالقادر ھوالحق ھوالمعین ❣️ عاشق ِ رسو لؐ  حضرت اویس قرنیؓ ❣️نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم...
06/08/2025

ںںبسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھوالقادر ھوالحق ھوالمعین

❣️ عاشق ِ رسو لؐ حضرت اویس قرنیؓ ❣️

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے لیکن اس محبت کا صرف زبانی اظہار کافی نہیں بلکہ مذہب اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمان اپنے آقا ومولیٰ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت میں اتنے سرشار ہو جائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت تمام محبتوں پر غالب آ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد محبت فرماتا ہے اور انہی لوگوں کو عزیز رکھتا ہے جو اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کا درجہ و مرتبہ تو اس کی بارں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جب اس کی تعمیر کے سلسلہ میں کھدائی کی گئی تو زمین سے گائے کا ایک سینگ نکلا۔ عربی میں سینگ کو قرن کہتے ہیں اس لیے گا ؤں کا نام قرن مشہور ہو گیا۔ آپؓ کی پیدائش اس گاؤں میں ہوئی اس لیے آپؓ کے نام کے ساتھ قرنی پکارا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپؓ کے جسم مبارک پر کافی زیادہ بال تھے اس لیے ان کوقرنی کہا جاتاہے اور قرن کے معنی بال بھی ہے۔
(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشقِ رسولؐ،محمد الیاس عادل)

حلیہ مبارک ❣️

حضرت عبد الوہاب الشعرانی قدس سرہٗ کے مطا بق آپؓ کا حلیہ مبارک اس طرح ہے کہ آنکھوں کا رنگ سرخی مائل زرد اور رنگت گہری گندمی تھی۔ چہرے مبارک جھکائے رکھتے اور نظر سجدہ کے مقام کی طرف ہوتی اور اپنے بائیں ہاتھ پراپنا دایاں ہاتھ رکھے ہوتے۔حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا ہے کہ:’’ میں نے حضرت اویس قرنیؓ کو اون کاکمبل لیے دیکھا ہے جس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔‘‘
( بحوالہ کتاب: سیرت حضرت خواجہ اویس قرنیؓ، محمد حسیب القادری)

’’فصل الخطاب‘‘ کتاب کے مصنف حضرت محمد پارسا رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف میں حضرت حسن بصریؓ کے حوالے سے روایت لکھتے ہیں کہ حضرت حسن بصریؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو پیوند لگے ہوئے کمبل میں اور حضرت اویس قرنیؓ کو اونٹ کی کھال کے پیوند لگے ہوئے لباس میں دیکھا ہے۔حضرت اویس قرنیؓ لباس کے معاملے میں اس قدر کفایت شعار تھے کہ روایات میں آتا ہے کہ آپؓ کے پاس بالوں کی ایک چادر اور ایک پاجامہ تھا۔ ’مستدرک‘ میں ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ وہ کھانا جو پیٹ کے اندر موجود ہ ہوتا اور وہ لباس جو پہنے ہوئے ہوتے تھے‘ کے علاوہ کوئی بھی چیز اپنے پاس نہ رکھتے تھے اورفرمایا کرتے تھے :’’اے اللہ! میں تجھ سے بُھوکے پیٹ اور ننگے بدن کی معذرت چاہتا ہوں، وہ لباس جو میرے بدن پر ہے اور وہ غذا جو میرے پیٹ میں ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
(بحوالہ کتاب: سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشقِ رسولؐ،محمد الیاس عادل)

ذریعہ معاش اور بود وباش ❣️

مجالس المومنین میں درج ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ شتربانی کیا کرتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ اس سے ملنے والی مزدوری سے اپنے اور اپنی والدہ ماجدہ کے خورد و نوش کا انتظام کرتے تھے اور قرن میں آپؓ جیسا کوئی مفلس اوربے نوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ جس گلی کوچے سے گزرتے لوگ آپؓ سے گھن کرتے اور آپؓ پر پتھر پھینکتے اور سر پر خاک اچھالتے تھے۔حضرت اصمع رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں ـ’’جو کچھ رات کو آپؓ کے ہاں باقی بچتا تو آپؓ سب خیرات کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ’’یاالٰہی ! اگر کوئی بھوکا پیاسا مرگیا تو مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔‘‘( بحوالہ کتاب: سیرت حضرت خواجہ اویس قرنیؓ، محمد حسیب القادری)حضرت اویس قرنیؓ عشق ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اس قدر مستورالحال تھے کہ لوگ آپؓ کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ عشق ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ مطہر جذبہ جو اویس قرنیؓ کے قلب ِ اطہر میں موجزن تھا تاریخ ِانسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپؓ عشق کے جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز تھے اسے دیکھ کر صحابہ کرامؓ نے بھی رشک کیا۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باطنی فیض سے حضرت اویس قرنیؓ کا سینہ منور و تاباں تھا۔ یہ پروردگار ِ عالم کا آپ ؓپر خصوصی فضل وکرم تھاکہ اس نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت وعشق کی دولت سے آپؓ کے قلب کو مالا مال کر دیا تھا۔ اس باطنی فیض کے نور سے آپؓ نے حقیقت ِ محمدیہ کی معرفت حاصل کی۔ و ہ سر ِ الٰہی جسے ہر کوئی نہیں پا سکتااُسے آپؓ نے مدینہ طیبہ سے دور قرن میں بیٹھ کر پالیا۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آپؓ پر خصوصی نگاہِ کرم تھی۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کی جو تڑپ ولگن حضرت اویس قرنیؓ کے د ل میں موجود تھی حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ عشق ِ مصطفیؐ نے آپ ؓکے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مابین ایک مضبوط باطنی و روحانی تعلق قائم کردیا۔

شانِ حضرت اویس قرنیؓ احادیث کے آئینہ میں❣️

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ’’تابعین میں سب سے بہتر ایک شخص ہے جس کا نام اویسؓ ہے اس کی ضعیفہ ماں ہے۔ اویسؓ کے ہاتھ پر برص کا نشان ہے۔ تم جب اُس سے ملوتو اسے کہنا کہ امت کے حق میں دعائے مغفرت کرے۔
(مسلم 6491)
حضرت ابن سعد ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنیؓ ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم۔ابن ِسعد)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص میری اُمت میں ہو گا جس کو لوگ اویس قرنیؓ کہتے ہیں اس کی مغفرت کی دعا سے قبیلہ ربیع اور قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت بخش دی جائے گی۔‘‘
(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشقِ رسولؐ،محمد الیاس عادل)

فرید الدین عطارؒ اپنی کتاب ’’تذکرۃ الاولیا‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثر اوقات غروبِ آفتاب کے وقت صحابہ کرامؓ کے ہمراہ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور یمن کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے ’’مجھے یمن کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی خوشبو آتی ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ محشر کے روز ستر ہزار ملائکہ کے جلو میں اویس قرنیؓ جنت میں داخل ہو ں گے اور وہ ستر ہزار ملائکہ آپؓ کے ہم شکل ہوں گے تاکہ حضرت اویس قرنیؓ کی شناخت نہ ہو سکے۔ صرف اُس شخص کو ان کی شناخت ہو گی جس کو اللہ تعالیٰ اُن کے دیدار سے مشرف کرنا چاہے گا۔ یہ اس وجہ سے ہو گا کہ آپؓ نے اپنی ساری زندگی خلوت نشین ہو کراور مخلوق سے پردہ پوشی اختیارکر کے محض اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت و ریاضت میں صَرف کی۔
(بحوالہ کتاب: سیرت حضرت خواجہ اویس قرنیؓ، محمد حسیب القادری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں ایسے برگزیدہ بندوں کو دوست رکھتا ہے جو دُنیا داروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ ان کے چہروں کے رنگ سیاہ، پیٹ ساتھ لگے ہوئے، کمریں پتلی ہوتی ہیں اور وہ ایسے لاپروا ہوتے ہیں اگر بادشاہ بھی ملے اور ان سے ملاقات کی اجازت طلب کرے تو وہ اجازت نہ دیں، اگر مالدار عورتیں نکاح کرنا چاہیں تو نکاح نہ کریں، اگر گُم ہو جائیں تو کوئی اُن کی جستجو نہ کرے، اگر مر جائیں تو ان کے جنازے پر لوگ شریک نہ ہوں، اگر ظاہر ہوں تو ان کو دیکھ کر کوئی خوش نہ ہو اوراگر بیمار ہوں تو کوئی مزاج پُرسی نہ کرے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! فرمائیے وہ کون ہے؟فرمایا: وہ اویس قرنیؓ ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیاکہ یہ اویس قرنیؓ کون ہے؟ فرمایا: اس کا حلیہ یہ ہے کہ اس کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی، قد درمیانہ ہو گا اور دونوں کانوں کے مابین خاصا فاصلہ ہوگا۔ دایاں ہا تھ بائیں ہاتھ پر رکھا ہوگا۔ آنکھیں سجدہ گاہ پر لگی ہوئی ہوں گی، ٹھوڑی سینے کی جانب جھکی ہوئی ہوگی۔ جسم پر پرانے کپڑے ہوں گے جو پہنے ہوئے ہو گا ایک پاجامہ اور دوسری چادر،دنیا میں کوئی بھی اسے نہیں جانتا لیکن آسمانوں پر بڑی شہرت ہے اگر وہ کسی بات پر قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو سچ کر دے۔‘‘
(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشق ِ رسولؐ،محمد الیاس عادل، کتاب: حضرت اویس قرنیؓ اور ہم،ڈاکٹر سید محمد عامر گیلانی)

عبادات و مجاہدات کا ذوق و شوق ❣️

مولانا معین الدین ندوی اپنی کتاب سیرت الصحابہ میں رقم کرتے ہیں ’’آپؓ ساری رات قیام میں گزار دیا کرتے تھے۔‘‘ دوسری رات آپؓ رکوع میں گزار دیتے تھے اور اسی طرح تیسری رات سجدہ میں گزار دیتے تھے۔‘‘ جب لوگوں نے آپؓ سے پوچھا کہ کیا آپؓ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ روزانہ ایک ہی حالت میں دراز رات گزار دیتے ہیں۔ آپؓ نے جواب میں فرمایا ’’دراز راتیں کہاں ہیں؟ کاش ازل سے ابد تک ایک ہی رات ہوتی جس سے ایک سجدہ کر کے گریہ بسیار کرنے کا موقع نصیب ہوتا مگر افسوس کہ راتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ صرف ایک ہی مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے پاتا ہوں کہ دن طلوع ہوجاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے عبادت کرو ں جیسے فرشتے عبادت کرتے ہیں۔‘‘ آپؓ کو نماز سے بہت زیادہ محبت تھی کیونکہ آپ کے محبوب تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی نماز سے بہت زیادہ محبت تھی۔( بحوالہ کتاب: سیرت حضرت خواجہ اویس قرنیؓ، محمد حسیب القادری)

ترکِ دنیا ❣️

حضرت اویس قرنیؓ کی توجہ دنیا سے ہٹ کر آخرت کی طرف مائل ہو چکی تھی۔آپؓ دنیا سے صرف اس قدر ہی واسطہ رکھتے تھے جس قدر زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آپؓ گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے اسی لیے آبادی سے دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے اس کی خاطر آبادی سے دور ایک مکان میں مقیم تھے۔ جب اُس مکان تک بھی لوگوں کی رسائی ہو گئی اور آپ ؓکی عبادت میں خلل پیدا ہونا شروع ہوا تو آپ نے وہ مکان کو چھوڑ دیا اور جنگل کی جانب نکل گئے اور یکسوئی کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔
آپؓ فجر کی اذان کے وقت گھر سے نکلتے اور نمازِ عشا پر واپس تشریف لاتے تھے۔ اپنے کھانے سے زیادہ جو خوراک آپؓ کے پاس ہوتی وہ غریبوں میں بانٹ دیتے،آپ ؓ کو دنیاوی چیزوں سے قطعاً محبت نہ تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک بھی یہی ہے کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے (اس لیے دنیا سے محبت نہ رکھو۔)
یہی وجہ تھی کہ حضرت اویس قرنیؓ بھی دنیا کی پروا نہ کرتے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رکھا ہوا تھا۔ آپؓ جانتے تھے کہ دنیا سے محبت رکھنے کا مقصد اپنی آخرت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
اس ترکِ دنیا پر آپؓ کو بہت مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگ آپؓ کو تنگ کرتے مگر آپ نے کسی کے لیے بددعا نہ فرمائی۔ جب کبھی آبادی کی طرف آتے تو ناسمجھ لوگ اور بچے آپؓ کی حالت دیکھ کر ہنستے اور آپؓ کو دیوانہ سمجھتے اور تنگ کرنے کی غرض سے آپؓ پر پتھر پھینکتے تو آپؓ ان سے مخاطب ہو کر فرماتے:
’’لوگو! چھوٹی کنکریاں مارا کرو، بڑے بڑے پتھر مارنے سے میرا خون بہہ جاتا ہے اور میرا وضو جاتارہتا ہے ،تمہارے ایسا کرنے سے میری نماز قضا ہو جاتی ہے۔‘‘
(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشقِ رسولؐ،محمد الیاس عادل)

درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری❣️

امام التابعین حضرت اویس قرنیؓ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ پایا اور غائبانہ اسلام قبول کیا لیکن عہد ِ رسالت میں موجود ہونے کے باوجود ظاہری ملاقات سے محروم رہے۔ آپؓ نادیدہ جمالِ نبویؐ کے پروانوں میں سے تھے۔ آپ ؓ کا شمار ان برگزیدہ وارفتگانِ محبت میں ہوتا ہے جن کی تخلیق ہی عشق ومحبت کے خمیر سے ہوئی تھی۔ بندگانِ خدا مقربین ِخدا ہوتے ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آپؓ کا تعارف سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کرادیا تھا۔ محب اور محبوب کے درمیان ظاہری نہیں بلکہ باطنی طور پر ربط وتعلق تھا۔ غلبہ ٔحال اور استغراق کے باعث آپؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شرفِ دیدار سے محروم رہے۔ دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر نہ ہونے کی ایک وجہ آپؓ کی والدہ ماجد ہ بھی تھیں جو ضعیفہ اور نابینا تھیں اور آپؓ کو خود سے جدا نہ ہونے دیتی تھیں۔ آپؓ دن رات ان کی خدمت و اطاعت میں رہتے تھے۔ قرآنِ کریم میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کے بعدوالدین کی اطاعت و خدمت کاحکم اکثر ملتا ہے۔ اس لیے آپؓ حکم ِ ربانی کے پیش ِنظر والدہ کی خدمت میں رہنا ضروری سمجھتے تھے۔آپؓ استطاعت نہ رکھتے تھے کہ والدہ کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں پیش ہو سکیں اورنہ ہی اُن کو ایک لمحہ کے لیے تنہا چھوڑ سکتے تھے۔اس لیے آپؓ زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محروم رہے۔
دیدارِ جما ل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شوق اور عشق ِ حبیبؐ خدا نے حضرت اویس قرنیؓ کو انتہائی بے قرار کردیا۔آپؓ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے تو ایک دن ہمت کرکے والدہ ماجدہ سے رخصت کی اجازت طلب کرہی لی۔والدہ نے اجازت دیتے وقت فرمایا کہ جلد واپس آ جانا۔ آپؓ نے ضرورت کی چند چیزیں لیں اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ننگے پائوں بے تابی سے بھاگے چلے گئے۔ قرن سے مدینہ کا طویل سفر پا پیادہ طے کر کے دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچے۔ حضرت عائشہؓ کے حجرہ پر تشریف لے گئے اور دریافت کرنے پر پتہ چلاکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لے گئے ہیں تو آپؓ نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے میرا سلام عرض کر دیجئے گا۔ والدہ ماجدہ کے حکم کے مطابق آپؓ انتظار کیے بغیر واپس لوٹ آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر تشریف لائے تو ایک نور کا ہالہ دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ یہاں کون آیا تھا، انہوں نے کہا کہ ایک شتر بان تھا جو سلام کہہ کر چلا گیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاتحقیق یہ نور اویس قرنی کا ہے۔
(بحوالہ کتاب: سیرت حضرت اویس قرنیؓ،پروفیسر محمد طفیل چوہدری)

سفرمدینہ ❣️

حضرت اویس قرنیؓ نے والدہ ماجدہ کی وفات کے بعدکئی بار مدینہ طیبہ کا سفر کیا۔ مدینہ طیبہ میں درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حاضری کے بارے میں حضرت سلطان ولد نے اپنی کتاب ـ’’ مثنوی‘‘ میں لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد آپؓ کو روضہ مقدسہ کی زیارت کا شوق غالب آیا۔آپؓ مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔صحابہ کرام ؓ نے آپؓ سے سوال کیا کہ آپؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں زیارت کا شرف کیوں نہ حاصل کیا۔آپؓ نے فرمایا کہ میری والدہ بیمار رہتی تھی اورمجھے اپنے پاس سے کہیں جانے نہیں دیتی تھیں۔صحابہ کرامؓ نے فرمایا ہم نے تواپنے مال و متاع اور ماں باپ کو بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور شوق میں قربان کر دیا اور آپؓ فقط اپنی ماں کو چھوڑ کر نہ آسکے۔آپؓ نے فرمایاکہ آپ حضرات کو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت اور خدمت میں رہنے کا شرف حاصل رہا ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلیہ مبارک تو بیان فرمائیے۔ صحابہ کرام ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری صورت اور دیگر اعضا مبارک کی بعض نشانیاں اور کچھ معجزات بیان فرمانے لگے۔ حضرت اویس قرنیؓ نے فرمایا میری مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری شکل و صورت سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی شکل و صورت اور معنوی جمال دریافت کرنا چاہتا ہوںوہ بیان فرمائیے۔صحابہ کرامؓ نے فرمایا ہمیں جس قدر معلوم تھا بیان کر دیا اگر اس سے زیادہ آپؓ کو معلوم ہو تو بیان فرمائیں۔ اس پر حضرت اویس قرنیؓ نے عشق ِ مصطفی میں سرشار ہو کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال و کمال، عادات وخصائل اور حلیہ مبارک کا اس طرح سے بیان فرمایا کہ صحابہ کرامؓ پر بے خودی اور جذب کی کیفیت طاری رہی پھرجب حالت سنبھلی تو صحابہ کرامؓ کو حضرت اویس قرنیؓ پر بہت رشک آیا اور محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر آپؓ کے ہاتھوں کے بوسے لیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ؓ کوسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کس قدر عشق تھا اور کتنا قربِ باطنی حاصل تھا۔ (بحوالہ کتاب: سیرت حضرت اویس قرنیؓ،پروفیسر محمد طفیل چوہدری ،
بحوالہ کتاب: سیرت حضرت خواجہ اویس قرنیؓ، محمد حسیب القادری)

حضرت اویس قرنیؓ کی تلاش ❣️

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وصا ل سے پہلے صحابہ کرامؓ کو وصیت فرمائی کہ میرا جبہ مبارک میرے اویس قرنیؓ کے پاس لے جانا اور میرا سلام پہنچانا اور میری اُمت کے لیے دعا طلب کرناکیونکہ اویسؓ کی دعا میری اُمت کے لیے مقبول ہو گی جب آپ لوگ یمن جاؤ گے تو اویسؓ کو شتربانوں کے درمیان بیٹھا پاؤ گے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت عمرفاروقؓ دونوں قرن تشریف لے گئے اور لوگوں سے اویس قرنیؓ کے بارے میں پوچھا، لوگوں نے بتا یا کہ ہاں ایک دیوانہ شخص لوگوں سے الگ بیٹھا رہتا ہے۔ وادی عرفہ میں شتربانی کرتا ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ وادی عرفہ تشریف لے گئے اور حضرت اویس قرنیؓ کو نماز میں مصروف دیکھا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت علیؓ اورحضرت عمرؓ دونوں آپؓ کے سامنے بیٹھ گئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سلام پہنچایا اور جبہ مبارک پیش کیا اور اُمت ِ محمدیہ کے لیے دعائے مغفرت طلب کی۔ حضرت اویس قرنیؓ نے جبہ مبارک چوما اور سر بسجود ہو گئے اور روتے ہوئے مناجات کی ’’یا اللہ!تیرے محبوب کا جبہ مبارک اس وقت تک نہ پہنوں گا جب تک اُمت ِمحمدیہ بخشی نہ جائے۔ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کام میرے ذمہ لگایا ہے ۔ غیب سے آواز آئی کہ اتنے ہزار لوگوں کو بخش دیا ہے۔آپؓ نے کہا میں نے تو سب کی مغفرت طلب کی ہے۔آواز آئی اتنے ہزار مزید بخش دئیے ہیں۔ آپؓ اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ آواز آئی کہ اتنی اُمت محمدیہ بخش دی گئی جتنی تعداد میں قبیلہ ربیع اور قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے جسموں پر بال ہیں۔ یہ بشارت پا کر آپؓ نے اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور جبہ مبارک پہنا اور حضرت علیؓ اور حضرت عمر ؓکو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آگاہ کیا۔

حضرت اویس قرنیؓ ایک عاشق رسولؐ ❣️

حضرت اویس قرنیؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار سے مشرف نہ ہو سکے مگر اتباعِ رسالت کا مکمل حق ادا کر کے دنیا کو درسِ ادب دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ عشق کے اظہار کا یہ ایک ایسا منفرد انداز تھا جو صرف آپؓ ہی کا خاصہ تھااور آپؓ کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق درجہ کمال تک پہنچا ہواتھا۔

حضرت اویس قرنیؓ کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں بہت بلند تھا۔ آپؓ سچے عاشق رسول تھے یہی وجہ تھی کہ آپ ؓ کا شمار اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں میں کیا۔ آپؓ ذاتِ واحد کا راز پا چکے تھے اور ہر وقت اللہ پا ک کے اسرار اور مشاہدہ میں مستغرق رہا کرتے تھے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ولی ٔخاص اور خیر التابعین حضرت اویس قرنیؓ کی شخصیت عشق ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپؓ کی سیرتِ طیبہ عاشقانِ رسولؐ کے لیے ایک عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ ؓ متلاشیانِ حق کے لیے منبع ِہدایت ہیں۔

وصال ❣️

مسلم شریف کی شرح اور تذکرۃ الاولیا میں درج ہے کہ حضرت اویس قرنیؓ حضرت علیؓ کی حمایت میں جنگ صفین میں شریک ہوئے اور لڑتے لڑتے شہادت کا مرتبہ پایا۔ حضرت موسیٰ راعیؒ بموجب وصیت آپؓ کے جسد مبارک کوقرن میں لائے اس لیے مزار شریف قرن میں ہے۔ (بحوالہ کتاب: سیرت حضرت اویس قرنیؓ عاشقِ رسولؐ،محمد الیاس عادل)

منزل عشق کا مینار اویس قرنیؓ
عاشق ِ سید الابرار اویس قرنیؓ
ظاہری آنکھوں کو دیدارِ محمدؐ نہ ہوا
پھر بھی کرتے تھے بہت پیار اویس قرنیؓ
دل کے آئینے میں حبیبؐ ِ حق کاروز
کر لیتے تھے دیدار اویس قرنیؓ

کثرت سے ایصالِ ثواب کریں اور حسبِ توفیق لنگر کا اہتمام کریں

خاک پائے اہلبیت
ڈاکٹر محمد عامر طارقی

fans

Address

Baro, Street. Block 14 Gulistan E Joher Karachi
Karachi
75300

Opening Hours

Monday 17:00 - 19:00
Tuesday 17:00 - 19:00
Wednesday 17:00 - 19:00
Sunday 11:00 - 13:00

Telephone

+923003390563

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr.Aamir Tariqi Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr.Aamir Tariqi Clinic:

Share

Category