17/03/2023
وٹامن ڈی کی کہانی
ہماری ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے کیلشیم ایک ناگزیر عنصر ہے۔جس طرح ایک عمارت پلسٹر کے بغیر مضبوط نہیں ہوسکتی بالکل اسی طرح ہماری ہڈیاں فاسفورس اور کیلشیم کے بغیر مضبوط اور سخت نہیں ہوسکتی۔ہڈیاں بنانے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے مگر ان ہڈیوں کو مضبوطی اور سختی دینے کے لیے کیلشیم اور فاسفورس کے کرسٹلز موجود ہوتے ہیں۔کیلشیم کے حصول کے بہترین ذراٸع میں دودھ اور اس سے بنی اشیاء ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی غذاٶں میں کیلشم پایا جاتا ہے۔ایک بالغ انسان کو روزانہ 2500 سے 3000 ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک
70 کلوگرام شخص میں دو سے تین کلو کیلشیم پایا جاتا ہے۔کیلشیم زیادہ تر(نناوے فیصد) ہڈیوں میں پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ کیلشیم خلیوں(Cells) میں پایا جاتا ہے,کچھ دانتوں میں اور کچھ کیلشیم خون میں ہر وقت موجود رہتا ہے۔خون میں کیلشیم کی مقدار کو متوازن رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔خون میں موجود کیلشیم بہت سے افعال سرانجام دیتا ہے جیسے اعصاب کی بہتر کارکردگی,پھٹوں کو سکڑنے,خون جمنے اور دل کو صحیح طریقہ سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔جب خون میں کیلشیم کی مقدار نارمل حد سے تجاوز کرنے لگتی ہے تو ہمارے جسم کا ایک حصہ جو گلے میں پایا جاتا ہے (یعنی تھاٸ راٸیڈ گلینڈ) خون کی نالیوں میں کیلسی ٹونن نامی ایک کیمکل(ہارمون) خارج کرتا ہے جو خون میں کیلشیم کی مقدار کم کر کے نارمل سطح تک لے آتا ہے۔اسی طرح جب خون میں کیلشیم کی مقدار نارمل حد سے کم ہونے لگتی ہے تو ہمارے جسم کا پیرا تھاٸ راٸیڈ گلینڈ(گلے میں پایا جانے والا غدود) ایک کیمکل خارج کرتا ہے یعنی پیراتھاٸ راٸیڈ ہارمون خارج کرتا ہے جو ہڈیوں اور گردوں سے کیلشم لے کر خون میں اسکی مقدار کو بڑھا کر نارمل سطح تک لے آتا ہے۔اس کے علاوہ وٹامن ڈی(Calcitriol) گردے خون میں خارج کرتے ہیں جو خون کی نالیوں سے ہوتا ہوا چھوٹی آنت کی طرف جاتا ہے۔یہاں پر یہ ایسی پروٹینز(Calcium binding protein) بناتا ہے جو چھوٹی آنت سے خون کی نالیوں میں کیلشیم کے انجذاب کو بڑھاتی ہیں۔یہ پروٹینز اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ جسم سے کیلشم (فضلہ کی صورت میں)کا اخراج کم سے کم ہوسکے۔
فرض کریں آپ ایک طالب علم ہیں جو امتحان دینے کے لیے کمرہ امتحان میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔آپ مکمل تیاری کے ساتھ امتحان دینے کے لیے نکلتے ہیں۔بدقسمتی سے جیسے ہی آپ کمرہ امتحان میں داخل ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس رول نمبر سلپ نہیں ہے۔اس سے آپ کو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ آپ کی ساری محنت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔بالکل اسی طرح بعض اوقات ایک فرد مناسب مقدار میں کیلشیم والی غذاٸیں تو باقاعدگی سے استعمال کررہا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسکا جسم اس کیلشیم کو استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے یعنی کیلشیم جسم سے ضاٸع ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ جسم میں وٹامن ڈی کی کی کمی ہے۔وٹامن ڈی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کیلشیم کا جسم سے اخراج کم سے کم ہو۔جب ہم کیلشیم والی غذاٸیں لیتے ہیں تو یہ غذا معدہ میں جاتی ہے,اس کے بعد چھوٹی آنت میں جاتی ہے۔غذا میں موجود کیلشیم چھوٹی آنت سے خون میں جذب ہونا ضروری ہوتا ہے وگرنہ یہ کیلشیم جسم سے(فضلہ کی صورت میں)ضاٸع ہوجاۓ گی۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کیلشیم جسم سے ضاٸع نہ ہو,وٹامن ڈی(Calcitriol جو کہ ایک فعال وٹامن ڈی ہے)گردوں سے خون کی نالیوں میں خارج ہوتا ہے۔اس کے بعد یہ چھوٹی آنت کی طرف جاتا ہے اور ایسی پروٹینز کی تیاری کرتا ہے جو کیلشیم کے ساتھ جڑ کر ان کو خون کی نالیوں میں جذب ہونے کی اجازت دیتی ہیں۔کیونکہ کیلشیم ایک ایسا منرل ہے جو خون میں ان پروٹینز کی مناسب مقدار کے بغیر جذب نہیں ہوسکتا۔اس کے علاوہ وٹامن ڈی گردوں میں بننے والا پیشاب میں کیلشیم کی مقدار کو کم کردیتے ہیں اور خون میں اس کے انجذاب کو بڑھاتے ہیں تاکہ پیشاب کے ذریعے کیلشیم کا اخراج کم سے کم ہوسکے۔
ہمارے جسم کو وٹامنز کی بہت کم مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔یہ وٹامنز مختلف غذاٶں میں پاۓ جاتے ہیں۔وٹامنز دو طرح کے ہوتے ہیں;پانی میں حل شدہ وٹامنز( Water Soluble Vitamins) اور چربی میں حل شدہ وٹامنز۔پانی میں حل شدہ وٹامنز میں وٹامنز C اور وٹامنز B کمپلکس شامل ہیں۔ایسے وٹامنز کو خوراک سے روزانہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسے وٹامنز جسم میں سٹور نہیں رہ سکتے اور جسم سے خارج ہوتے ہیں۔جبکہ فیٹ سولیبل وٹامنز سے مراد ایسے وٹامنز ہیں جو چربی میں حل ہوجاتے ہیں اور ایسے وٹامنز کو روزانہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ کٸ عرصہ تک جسم میں سٹور رہ سکتے ہیں۔انہی وٹامنز میں سے ایک فیٹ سولوبل وٹامن ڈی ہے۔ہمیں روزانہ وٹامن ڈی لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔وٹامن ڈی حاصل کرنے کے تین ذراٸع ہیں جن میں سوج کی روشنی,غذاٸیں اور سپلیمنٹس شامل ہیں۔دوسرے وٹامنز کے برعکس وٹامن ڈی قدرتی غذاٶں میں بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے لہذا وٹامن ڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے صرف غذاٶں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔دوسرے وٹامنز کی طرح وٹامن ڈی کو وٹامنز کے زمرے میں عموماً نہیں لیا جاتا کیونکہ وٹامن ڈی کو ہماری جلد خود بناسکتی ہے جبکہ وٹامنز سے مراد ایسے غذاٸ اجزا ہیں جنہیں ہمارا جسم خود نہیں بنا سکتا بلکہ ان کے حصول کے لیے غذاٶں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
دھوپ وٹامن ڈی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔جب سورج کی روشنی ہماری جلد پر پڑتی ہے تو ہماری جلد کے نیچے پایا جانے والا ایک کیمکل(7 ڈی ہاٸیڈو کولیسٹرول) وٹامن D3(کولے کیلسیفیرول) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ وٹامن ڈی ایک غیر فعال وٹامن ہوتا ہے یعنی اسکو یوں سمجھیے کہ جس طرح اگر گاڑی میں ڈیزل نہ ہو تو وہ نہیں چل سکتی بلکہ اسی طرح یہ وٹامن جسم میں کوٸ افعال سرانجام نہیں دے سکتا ہے۔جلد کے نیچے بننے والا وٹامن D3 خون کی نالیوں کے ذریعے جگر میں جاتا ہے۔جگر اسے وٹامن ڈی کی ایک اور حالت 25,ہاٸیڈروآکسی وٹامن ڈی(جسے کیلسی ڈاٸیول بھی کہتے ہیں) میں تبدیل کردیتا ہے۔جگر میں یہ وٹامن سٹور رہ سکتا ہے۔فعال حالت میں تبدیل ہونے کے لیے یہ خون کی نالیوں کے ذریعے گردوں میں جاتا ہے۔گردے 25,ہاٸیڈوآکسی وٹامن ڈی کو فعال وٹامن ڈی(Active Vitamin D) یعنی 1,25 ڈاٸ ہاٸیڈروآکسی وٹامن ڈی میں تبدیل کردیتا ہے۔اس وٹامن ڈی کو Calcitriol بھی کہتے ہیں۔یہی وہ وٹامن ڈی ہے جو جسم میں مختلف فنکشنز جیسے جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کو ریگولیٹ کرتا ہے۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے گردوں کے علاوہ بھی کچھ ایسے ٹشوز ہیں جو وٹامن ڈی(Calcitriol) بناسکتے ہیں۔یاد رہے کہ سورج کی روشنی جب تک آپ کی جلد پر براہ راست نہیں پڑے گی آپ کی جلد وٹامن ڈی نہیں بناسکتی۔
جو وٹامن ڈی(وٹامن D3) ہماری جلد سورج کی روشنی کی مدد سے بناتی ہے وہی وٹامن حیوانی غذاٶں جیسے انڈوں کی زردی اور مچھلی وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔جبکہ وٹامن D2 نباتاتی غذاٶں سے حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہے۔
لوگوں میں وٹامنز کی کمی وجہ سے ہونے والی کمی میں سے وٹامن ڈی کی کمی سرفہرست ہے۔ویکی پیڈیا کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔دنیا کی کل آبادی 8 ارب ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر آٹھواں فرد وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو سرد علاقوں میں رہتے ہیں۔اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دوسرے وٹامنز کے مقابلے میں وٹامن ڈی غذاٶں میں بہت کم مقدار میں پایا جاتا ہے۔چونکہ سورج بھی وٹامن ڈی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔مگر مسٸلہ یہ ہے کہ ہر کوٸ سورج کی مدد سے اتنا وٹامن ڈی بنانے سے قاصر ہوتا ہے جو اسکے جسم کی ضروریات کو پوار کرسکے۔وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے تمام افراد کی جلد سورج کی روشنی سے مناسب مقدار میں وٹامن ڈی نہیں بناسکتی چلیے ڈسکسکس کرتے ہیں:
)جیوگرافیکل لوکیشن
آپ کیسے علاقے میں رہتے ہیں یہ بہت میٹر کرتا ہے,جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں انکو ضرورت کے مطابق وٹامن ڈی پیدا کرنے کے لیے کم وقت کے لیے دھوپ میں رہنا ہوتا ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو سرد علاقوں میں رہاٸش پذیر ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ سرد علاقوں میں وٹامن ڈی کی زیادہ کمی ہوتی ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جو گرم علاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔
2)عمر
تحقیق سے واضع ہوتا ہے کہ چھوٹی عمر کے لوگوں کی بہ نسبت بڑی عمر کے لوگوں کی جلد کے نیچے 7-ڈی ہاٸیڈروکولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ اس کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔جب جلد کے نیچے اس کولیسٹرول پر سورج کی الٹراواٸیلٹ شعاعیں(UVB) پڑتی ہیں تو یہ وٹامن ڈی(D3) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔لہذا اسکی مقدار جتنی زیادہ ہوگی ہماری جلد اتنا ہی زیادہ وٹامن ڈی پیدا کرے گی۔
3)جلد کی رنگت
آپ کی جلد کی رنگت وٹامن ڈی کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر ایک کالی رنگت والے شخص کو دھوپ میں ادھا گھنٹہ دھوپ سیکنے کے لیے بٹھایا جاۓ تو اسکی جلد اس شخص کی نسبت کم وٹامن ڈی پیدا کرے گی جس کی رنگت گوری ہوگی۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری جلد کے نیچے ایک پگمنٹ ہوتا ہے جسکا کام ہماری جلد کو رنگ دینا ہوتا ہے۔اس پگمنٹ کو میلانن کہتے ہیں۔اسکی مقدار جتنی زیادہ ہوگی جلد کا رنگ اتنا ہی گہرا یعنی سیاہ ہوگا۔یہ پگمنٹ ایک سنسکرین یعنی بلاکنگ کا کام کرتا ہے۔اس لیے جب ایک کالی رنگت والے شخص کی جلد پر سورج کی UVB ریز پڑتی ہیں تو یہ پگمنٹ ان کو بلاک کردیتا ہے یعنی اتنی آسانی سے ان کو جلد کے اندر داخل نہیں ہونے دیتا۔جبکہ ایک گورے رنگ کے شخص کی جلد میں چونکہ اسکی مقدار کم ہوتی ہے لہذا سورج کی UVB ریز باآسانی گزر جاتی ہیں جس سے جلد کے نیچے موجود 7 ڈی ہاٸیڈوآکسی کولیسٹرول کو وٹامن ڈی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔لیکن قدرت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی کیونکہ اگرچہ ایک کالی رنگت والے شخص کی جلد زیادہ وٹامن ڈی پیدا تو نہیں کرتی مگر دوسری طرف اسکو جلد کے کینسر سے بچاتی بھی ہے کیونکہ الٹرواٸلٹ ریڈی ایشنز اسکی جلد میں اتنی زیادہ آسانی سے نہیں گزر پاتیں۔سو اگر کوٸ بندہ بہت زیادہ وقت دھوپ سینکتا ہے تو اس میں جلد کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہوگا اگر اسکی جلد گوری یا سفید ہوگی۔
ماہرین کے مطابق ہے ایک شخص کو ہفتہ میں دو مرتبہ دس پندرہ منٹ دھوپ میں گزارنے سے وٹامن ڈی کی ضرورت کو پوار کیا جاسکتا ہے۔وٹامن ڈی کے حصول کے لیے دھوپ میں گزارنے کا وقت 10 سے 3 بجے کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔اگر آپ کا تعلق ایک گرم علاقے سے تو پھر تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کا تعلق سرد علاقے سے ہے تو پھر آپ کو ہفتہ میں تین یا چار دن پندرہ بیس منٹ دھوپ میں گزارنے چاہیے(وہ بھی اس وقت جب دھوپ کی شدت زیادہ ہو جیسے دوپہر کے وقت)۔البتہ یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ دھوپ میں زیادہ وقت گزارنے سے اجتناب کیا جاۓ کیونکہ اس سے آپ کو جلد کے کینسر کا خطرہ ہوسکتا ہے۔جو لوگ غذاٶں یا دھوپ سے مناسب مقدار میں وٹامن ڈی حاصل نہیں کرسکتے انہیں سپلیمنٹسں لینی چاہیے۔مگر یاد رہے کہ زیادہ مقدار میں سپلیمنٹس لینے سے اجتناب کیا جاۓ۔وٹامن ڈی کی سپلیمنٹس لینے سے پہلے کسی مستند معالج سے لازمی مشورہ کریں۔
وٹامن ڈی کی لمبے عرصہ تک کمی سے بچوں اور بڑوں میں ہڈیوں کے متعلق متعدد مساٸل جنم لیتے ہیں۔بچوں میں وٹامن ڈی کی شدید کمی سے ایک مرض لاحق ہوتا ہے جسے رکٹس یا سوکھا پن کہا جاتا ہے۔یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں بچوں کی ہڈیاں کیلشیم کی کمی سے کمزور ہوجاتی ہیں۔کمزور ہڈیاں ٹیڑھی بھی ہوسکتی ہیں۔اس مرض میں بالخصوص پیروں کی ہڈیاں سیدھا رہنے کی بجاۓ کمان کی شکل میں مڑ جاتی ہیں۔وٹامن ڈی کی کمی غذا میں مناسب مقدار میں وٹامن ڈی نہ لینا,دھوپ میں بہت کم وقت گزارنا یا کسی دوسرے مرض کے سبب ہوسکتی ہے جس کے نتیجہ میں جسم میں مناسب مقدار میں کیلشیم اور فاسفورس جذب نہیں ہوپاتے۔
بڑوں میں وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ایک مرض لاحق ہوتا ہے جسے اوسٹیوملیشیا کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی حالت میں جس میں متاثرہ شخص کی ہڈیاں نرم پڑ جاتی ہیں۔جس میں ہڈیوں میں درد,کمزوری اور ہڈیاں ٹوٹنے کا شکار ہوسکتی ہیں۔
جہاں وٹامن ڈی کی کمی سے ہڈیوں کے امراض پیدا ہوتے ہیں وہیں وٹامن ڈی کی زیادتی بھی نقصان دہ ہے۔وٹامن ڈی کی زیادتی یعنی Hypervitamonisis D کی حالت میں خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے جو دل اور گردوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔خون میں موجود زاٸد کیلشیم مختلف بافتوں(ٹشوز) میں بھی جذب ہونے لگتا ہے۔...