Taha Khan

Taha Khan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Taha Khan, Psychologist, Karachi.

08/08/2024
24/05/2024

Taha Nawab Khan.
(Psychologist)

M.phil Scholar (Psychology)
PMD (Assessment, Counselling & Psychotherapy)
M.A (Psychology)

-Days-
Monday to Saturday 🗓️
Timings: 3pm to 7pm 🕰️

Book your appointment now ⬇️
0332-7888370 ☎️

Address: A 293 Gulshan e Iqbal block 5, Sardar Ali Sabri Road 📍

https://jssrp.org.pk/index.php/jssrp/article/view/8
21/02/2024

https://jssrp.org.pk/index.php/jssrp/article/view/8

Perceived Stigma Impacts on the Mental Wellbeing of Drug Addicts: A Study of Drug Rehabilitation Centers in Karachi, Pakistan Authors Taha Nawab Khan MPhil Scholar, Department of Psychology, University of Karachi Kishwar Jahan Government Girls Degree College, Jandool, Dir Lower, Khyber Pakhtunkhwa,....

30/01/2024

‏"معاملات کو سر پر سوار کرنا اور پریشان ہونا چھوڑ دو؛
ہر دوست ایک نہ ایک دن بدل جاتا ہے، انسانوں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے!"

امام محمود شاکر رحمه الله
(طبقات فحول الشعراء : 633/2)

16/11/2023

مصنف: طہٰ نواب خان
عنوان: آسان بائیکاٹ
فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کوئی عام زمینی جنگ کی مانند نہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر مذہبی پہلو رکھتی ہے. مسلمان اور یہودی ہی نہیں عیسائی بھی اس زمین کو بہت مقدس مانتے ہیں مگر وہ ابھی جاری جنگ میں اتنے متحرک نظر نہیں آتے یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اجتمائی طور پر کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں رکھتے. ایک گروہ یہودوں کے ساتھ ہے تو ایک مسلمانوں کی حمایت میں بولتا ہے اور ایک گروہ ایسا بھی ہے جو نہ اس پار نہ اس پار. خیر یہ تو تین ابراہیمی مذاہب کی بات ہوئی مگر ہندوستان جو ہندو اکثریت کا ملک ہے وہ بھی بیگانی شادی میں عبدللہ دیوانہ بن کر اسرائیل کے مظالم کی بھرپور حمایت کر رہا ہے جو کہ ماضی میں فلسطین کا ہمدرد بنتا تھا. خیر اسکی بھی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ ہندوستان کے آج کل امریکا سے تعلقات بہت پروان چڑھ رہے ہیں اور امریکا اسرائیل کا حامی ہے. دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہندوستان میں جو حکومت ابھی موجود ہے وہ اسلام دشمنی کی تاریخ رکھتی ہے اور کچھ عرصہ قبل ہی کشمیر پر بری طرح جابرانہ پنجے گاڑھ کر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر چکی ہے. تو یہاں بھی اپنی اسلام دشمن ذہنیت کے پیش نظر اسرائیل کے مظالم کو حق بجانب گردانتی پھرتی ہے. وہ کہتے ہیں نہ کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے.
اب بات ہوجاۓ مسلم ممالک کی کہ وہ اس صورت حال میں کیا کر رہے ہیں تو جناب جو ممالک اس جنگ کے لپیٹے میں آئے وہ ممالک جنگ کر رہے ہیں جیسے فلسطین اور لبنان وغیرہ، جب کہ طاقت اور وحشت میں اسرائیل کے کوئی مقابل نہیں. اور جو ممالک کچھ دور ہیں وہ محض دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں جیسے ایران اور ترکی وغیرہ، کچھ امداد کرتے نظر آتے ہیں جیسے عرب ممالک اور کچھ اپیل کرتے جیسے ہمارا وطن پاکستان. ہمارا ملک معاشی قرض اور عالمی دباؤ کے ہوتے اسے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہے. پر کیا ہم واقعی کچھ نہیں کرسکتے؟ تو اسکے جواب میں اسرائیل اور یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ سے بہتر کچھ نظر نہیں آتا جو کہ ایک عام شہری بھی کرسکتا ہے اور اسکے ذریعے ہم ان کی معاشی ترقی میں اپنا حصّہ ڈالنے سے بچ سکتے ہیں. یہ اگر بڑی عوامی سطح پر ہوجاۓ تو اس سے اسرائیل کو بڑا معاشی دھچکا لگ سکتا ہے. مگر کیا ہم یہ بائیکاٹ کرنا بھی چاہتے ہیں؟
آج کل بائیکاٹ کا کافی چرچہ ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اس میں اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں. خاص کر مکڈونلڈ کی اسرائیلی فوج کو خوراک فراہمی کے عمل کے بعد سے عوام کی ایک بڑی تعداد نے وہاں کا رکھ کرنا چھوڑ دیا جو کہ ایک قابل تحسین عمل ہے. مگر صرف ایک مکڈونلڈ ہی نہیں اسرائیلی اور یہودی مصنوعات ہمارے بازاروں میں بھری پڑی ہیں جن کا بائیکاٹ بھی ضروری ہے. یہاں ہماری عوام آسان راہ اختیار کرتی ہے یعنی آسان بائیکاٹ، جس چیز کا آسانی سے ممتبادل مل جاۓ لے لو ورنہ جو لیتے تھے وہی لیتے رہو. اب کون ڈھونڈنے جاۓ اور کون مشقت اٹھاۓ؟ پیپسی اور کوکا کولا کے بغیر کھانا کیسے ہضم کیا جاۓ؟
ہمارے یہاں کے دکاندار بھی یہودی مصنوعات کی خرید و فروخت میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیوں کہ ایسا کرینگے اور ان مصنوعات کا بائیکاٹ کر دینگے تو کاروبار میں فرق آئیگا نہ. جب کہ قولی حد تک اسرائیل کے پوری طرح خلاف ہیں پر کیا کریں دھندہ ہے. یہاں میں امام احمد بن حمبل کا قول ذکر کرنا چاہونگا کہ ان سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو دشمن سے کوئی چیز خریدتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے خرید و فروخت نہ کی جاۓ جو مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کو مضبوط اور طاقتور بناۓ.
اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں تو ہم اپنے معملات میں اس بات کا کتنا خیال رکھتے ہیں؟ اور کتنے ظالم کے مددگار بنتے ہیں؟ اس تحریر کا اصل مقصد کسی ملک کی معاشی تباہی نہیں بلکہ اس ظلم کو روکنے میں جس حد تک ممکن ہو اپنا حصّہ ڈالنا ہے جو اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے. کہیں یہ نہ ہو کہ ہم آسان بائیکاٹ کرکے مطمئن ہوجاۓ اور ہماری دی ہوئی رقم کسی بےگناہ کی جان لینے میں شامل ہوجاۓ.

10/11/2023

مصنف: طہٰ نواب خان
عنوان: اقبال کے شاہین
آج ایک طویل عرصے بعد قلم کشائی کی جسارت کر رہا ہوں. اسکی وجہ شدت کے ساتھ ایک کمی کا محسوس ہونا ہے جو مثل ہے پانی کے اس اک قطرے کے جو آتش نمرود میں ایک پرندے کی جانب سے ڈالا گیا تھا. جس سے اس آگ پر تو شاید فرق بھی نہ پڑا ہو پر اس پرندے نے اپنا کام کیا. میری اب تک کی لکھی تحریروں سے بھی شاید معاشرے میں بدلاؤ تو دور کی بات، کان پر جوں تک نہ رینگی ہوگی. پر پھر بھی چند علم و ادب سے تعلق رکھنے والے احباب اور اساتذہ کے کہنے پر اپنے قلبی اور قلمی تسکین کے لیے تحریر کا سلسلہ پھر سے شروع کرنے کا ارادہ کیا.
کل ٩ نومبر کو 'اقبال ڈے' کے نام سے سرکاری ملازمین نے چھٹی کر کے منایا اور نجی اداروں کے ملازمین اور کاروباری حضرت اپنے روز مرہ کے معملات میں مشغول رہے. جن کو اس بات کی پرواہ بھی نہیں کہ کل کونسا ڈے یعنی دن ہے. ہاں شاید اس وجہ سے یاد ہوکہ اس دن سری لنکا اور نیوزی لینڈ کا میچ تھا. جس کی ہار یا جیت پر اقبال کے شاہینوں کا کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں رسائی تک کی امیدوں کا دارومدار تھا. خیر میچ کے فیصلے کے بعد یہ امیدوں کا چراغ بھی بجھ ہی گیا سمجھے.
اگر دیکھیں تو جیسی حالت ہماری ٹیم کی ہے ویسی ہی ملک کی بھی ہے. ہماری ٹیم کی مانند ہی ہمارے ملک کا بھی حال ہے. یہاں بھی عالمی اداروں کے آگے اقبال کے شاہین اپنی ساخت کو بچانے کے لیے دوسرے ممالک سے امداد یا قرض ملنے کی امید میں نظر آتے ہیں. ملک کے اہم اداروں میں بھرتیاں شفارش اور رشوت کی بنا پر ہونے کی خبریں تو عام ہیں پھر خیر کی امید رکھیں بھی تو کس سے؟ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا کیا وہ ایسا تھا جو دوسروں کا محتاج ہو؟ جس میں انصاف کے لیے طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والا انتظار ہو؟ جس میں قابلیت کے آگے خوشامد، رشوت اور شفارش کا گرم بازار ہو؟ جس میں چھوٹے چور بینڈ اور بڑے چوروں کا راج ہو؟ جس ملک میں رہنے والوں کا دل ملک سے بھاگ جانے کو بیقرار ہو؟ اور جس کے حکمرانوں کو محض اسکو کھانے کا اشتیاق ہو؟
خیر یہ سارے سوالات جو کہ بڑے اہم ہیں پوچھے جاسکتے تھے اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو. پر اب کیا کر سکتے ہیں سواۓ چھٹی کرنے کے. ویسے اقبال کا ایک مشہور زمانہ شعر
'نہيں تيرا نشيمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہيں ہے ، بسيرا کر پہاڑوں کی چٹانوں ميں'
ہمارے حکمران کچھ یوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ انہوں نے عوام کی بنیادی ضروریات جو شہر تو کیا گاؤں میں بھی میسر ہوتی ہیں وہ اس قدر مہنگی کردی گئی ہیں کہ عوام کو اب پہاڑوں پر ہی جاکر بسیرہ کرنا ہوگا. روزگار کا حصول مشکل اور اگر مل جاۓ تو تنخواہ اور اخراجات کے بچ بڑا منفی فرق آجاتا ہے. بجلی اپنی لکا چھپی کے باوجود بہت مہنگی، گیس جو بقدر سستی مل رہی تھی پر اب وہ بھی مہنگی ہونے کو ہے اور سردوں میں غایب ہونے کے بھی انتہائی قوی امکانات ہیں. پیٹرول کے ریٹ بھی بڑھنے کو بیقرار ہیں. باقی کراۓ، خوراک، دوا وغیرہ کی بات کو تو جانے دیں. تو لب لباب یہ کہ اب پہاڑوں پر رہنا عوام کی اک بڑی تعداد کے لیے برا آپشن نہیں رہا. چلیں ہم اپنے حکمرانوں سے بدگمان نہیں ہوتے بلکہ اگر اسکا مثبت پہلو دیکھیں تو اس سے وہ قدرت کے قریب بھی رہیں گے اور ذہنی و جسمانی صحت بھی بہتر ہوگی.

Address

Karachi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taha Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category