
29/07/2025
اکمل نے اپنے کزن سے گاڑی لی اور مکمل رقم کی ادائیگی کر دی لیکن اپنے نام نہیں کروائی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اکمل کا انتقال ہوگیا تو وہی کزن اس کی تدفین وغیرہ کے دوران وہ گاڑی چلاتا رہا۔ اور پھر اپنے گھر لے گیا۔ اکمل کے بچے چھوٹے تھے اور بیوہ کو چلانی نہیں آتی تھی۔ کچھ دن گاڑی اسی کزن کے پاس کھڑی رہی۔ اکمل کی بیوہ جب اس صدمے سے سنبھلی تو گاڑی کو واپس منگوا کر بیچنے کی بات کی تو اکمل مرحوم کے کزن نے کہہ دیا کہ میں نے تو بیچی ہی نہیں تھی، نہ اس نے مجھے کوئی رقم ادا کی۔ گاڑی ابھی بھی میرے نام ہے اور ادائیگی کی کوئی رسید یا کوئی ثبوت یا رقم دیتے وقت کا کوئی گواہ ہے تو پیش کریں۔ اب یہ سب کچھ “اپنے گھر کی بات ہے، کوئی مسئلہ نہیں”کہہ کر ہوا تھا تو صرف گھر والوں کو ہی پتہ تھا لیکن کیش ادائیگی کے وقت نہ کوئی لکھت پڑت کی گئی نہ کوئی گواہ بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی گاڑی نام کروائی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم بیرون ملک کما رہا تھا۔ وہ اپنے بھائی کو رقم بھیجتا رہا کہ میرے لیے پلاٹ خریدو۔ بھائی نے کہا کہ ابھی آپ باہر ہیں تو میں اپنے نام پر لے لیتا ہوں، جب آپ واپس آئیں گے تو آپ کے نام کردونگا۔قسطیں پوری ہونے پر سلیم نے جب بھی اپنے نام کروانے کی بات کی بھائی ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ بوڑھا ہونے پر جب بیرون ملک سے اپنا سب کچھ ختم کر کے جب وہ واپس آیا تو بھائی صاف مکر گیا کہ یہ تو ہیں ہی میرے۔ تب و ہ خالی ہاتھ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
علی فوج میں تھا جب اسے ایک بین الاقوامی امن مشن پر کئی ماہ کے لیے بیرون ملک جانے کا موقع ملا۔ اس میں تنخواہ کافی زیادہ ملی۔ واپس آکر زمین خریدی اور اپنے نام کروانے کی بجائے والد کے نام کروا دی حالانکہ والد کے نام پہلے ہی کافی زمین تھی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ علی فوت ہوگیا۔ فوت ہونے کے بعد اس کے والد نے علی کی بیوہ اور اس کی معذور بیٹی کو گھر سے اور اس زمین سے ہی نکال دیا کہ میرے نام پر ہے، میر ی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے محبت کی شادی کی۔ شادی کے بعد بیوی نے مکان اس کے نام کرنے کی فرمائش کی جسے اس نے محبت کے نام پر پورا کر دیا۔ کچھ عرصے بعد اختلافات ہوئے، بیوی نے خلع لی اور اسے اس کے ہی مکان سے بیدخل کر دیااور پھر کسی اور سے شادی کر کے اسی مکان میں رہنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چند ایک مثالیں ہیں جو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ چکا ہوں۔ کسی بھی عدالت میں چکر لگائیں تو ایسے ہی معاملات آپ کو ہزاروں یا شاید لاکھوں میں ملیں گے۔ اس کے لیے شریعت میں بہترین حکم دیا ہے کہ اس طرح کے معاملات کو لکھ لیا کریں اور اس پر گواہ لازمی بنائے جائیں۔ جب بھی کبھی گاڑی، زمین وغیرہ خریدیں تو اپنے نام لازمی کروائیں۔ لیکن بعض دفعہ اندھے اعتماد کی وجہ سے، بعض دفعہ ٹیکس سے بچنے کے لیےاور بعض دفعہ صرف سستی کی وجہ سے یہ اپنے نام نہیں لگوائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اگر اچانک وفات ہو جائے تو بہت زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔
جس کی چیز ہو اسے اپنے نام لگوانی چاہیے تاکہ خدانخواستہ اس کی اچانک موت ہو جائے تو اس کے وارثوں کو جائز حق مل سکے۔ جب کوئی اپنی بجائے کسی اور کے نام کر رہا ہوتا ہےتو وہ اپنے جائز وارثوں کو ان کے حق سے محروم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہم سے بہت بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملنا چاہیے۔ کسی کا خیال رکھنا، اس کی ضرورت پوری کرنا، اس سے محبت جتانا اور چیز ہے لیکن اپنے اثاثے کسی کے نام کر دینے سے دنیا میں بھی مسائل ہیں اور ایسا جان بوجھ کر کرنے پر آخرت میں بھی حساب دینا پڑ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔