Dr Asif Ahmad /Cupping or Hijama Therapy /Practical Site

Dr Asif Ahmad /Cupping or Hijama Therapy /Practical Site Prof.Dr Asif Ahmed - MBBS, PhD (HOD at Medical University ) promoting integrated medicine (Energ

18/01/2023
18/01/2023

واشنگ مشین میں دھلے ہوئے کپڑوں کو پاک کرنے کا طریقہ

سوال

واشنگ مشین میں سرف ڈال کر کپڑے دھوئے جائیں اور پھر اس پانی کو ڈرین کردیا (بہا دیا ) اور پھر دوبارہ پانی ڈال کر ڈرین کا بٹن بھی دبا دیا یعنی چلتا پانی کردیا کہ پانی آ بھی رہا ہے اور جا بھی رہا ہے تو ایسے کرنے سے کپڑے پاک ہوجائیں گے؟ نیز کپڑے پاک کرنے کا درست طریقہ بتا دیں؟

جواب

۱)سوال میں مذکور طریقے سے کپڑے پاک ہوجائیں گے۔
۲)ناپاک کپڑے دھونے کا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ اچھی طرح (حتی الوسع) نچوڑ لیا جائے، لیکن اگر واشنگ مشین(Washing Machine) میں کپڑے دھونے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھوئے جانے والے کپڑے اگر پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو ان کے دھونے کے تین طریقے ہیں:
ایک یہ کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو کپڑے ناپاک ہیں ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر ، یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے ، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھولیے جائیں ، اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161)
"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة.
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331)
'' (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.
۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق''. فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143909201383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

17/01/2023

( عن عبدالله بن عمر رضي الله تعالى عنهما ) : مَن فُتِحَ لهُ منكم بابُ الدَّعاءِ فُتحِتْ لهُ أبوابُ الرَّحمةِ، وما سُئلَ اللهُ شيئًا يعني أحبَّ إليه من أن يُسألَ العافيةَ...
( أخرجه الترمذي رح : (٣٥٤٨) واللفظ له ، والحاكم رح : (١٨٣٣) باختلاف يسير.)
اللہ تعالی کے پاک اور پیارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ وصحبہ وبارک وسلم نے ارشاد فرمایا : " تم میں سے جس شخص کے لئے دعاء کا دروازہ کھول دیا گیا ، ( گویا )اس کے لئے رحمتوں کے دروازے کھول دئیے گئے ، اور جو بھی دعائیں اللہ تعالی سے مانگی جاتی ھیں ان میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عافیت کا مانگنا ھے ۔"

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Asif Ahmad /Cupping or Hijama Therapy /Practical Site posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Asif Ahmad /Cupping or Hijama Therapy /Practical Site:

Share