Dr J0J0

Dr J0J0 We Will Send All The Information About Medical And General Knowledge.Thank You All Of You💝 Dr J0J0

🥀
09/10/2024

🥀

🥀😘
08/10/2024

🥀😘

08/10/2024

08 اکتوبر 2005 زلزلہ💔😭
صبح 8 بج کر 52 منٹ
آپ کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے ؟؟

Today 🥀📱
07/10/2024

Today 🥀📱

18/07/2024

جس گاؤں کے بڑوں میں اتفاق ھو اس گاؤں کے چھوٹے بھی بڑا سوچنا شروع کر دیتے ہیں پھر وہ گاؤں ایک مثالی گاؤں بن جاتا ھے.
جب اتنے سالوں سے اس گاؤں کے بڑوں نے اتفاق نہیں کیا اور اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو پھر ہم جیسے چھوٹوں کی بات کون سنے گا۔
بہرحال میرا کام تھا اس ایشو کو Highlights کرنا
اب اس گاؤں کے بڑوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے جیسی مشکلات دیکھی ہیں ان کے بچوں نے بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا یا ان کے لیے کچھ بہتر کرنا ہے۔
واسلام

Dr Nisar ansar Abdali
Javed Iqbal Badhanvi(Official)
Choudhary Asif Hanif Kailvey - PTI official
Raja Ayaz Ahmed khan PML-N Khuiratta
Muhammad Waleed inqlabi media sell
Shaheen News شاہین نیوز
Dr J0J0

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی 💫الحمداللہ  نے میرپور بورڈ میں سے  1200/554 نمبرات حاصل کیئے ہیں۔ جو ادارہ ہذا   م...
15/07/2024

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی 💫
الحمداللہ
نے میرپور بورڈ میں سے 1200/554 نمبرات حاصل کیئے ہیں۔
جو ادارہ ہذا میں زیر تعلیم ہیں اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مدرسے میں رہتے ہوئے پاس ہونا بھی بڑی بات ہے کیونکہ وہاں پر کافی سارے مسائل کا آپ سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسرا جب آپ ایک وقت میں چار کورسز/ کلاسیں لے رہے ہوں۔
1️⃣پہلا دنیاوی تعلیم! یعنی میٹرک پاس کرنا۔
2️⃣دینی تعلیم! ماشاءاللہ سال دوم میں بھی تیسری پوزیشن حاصل کی اور وہ بھی اچھے نمبرز سے اور اب سال سوم میں پہنچ گئی ہیں۔
3️⃣ کمپیوٹر کورس! مدارسے میں ماشاءاللہ صاحب نے ایک کمپیوٹر لیب بنائی ہے جہاں پر مدارسے کی بچیوں کو کمپیوٹر کورس بھی کروایا جاتا ہے ۔ دینی، دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا کورس بھی کر رہی ہیں۔
4️⃣ قرآن پاک! ماشاءاللہ اریسہ ارشد نے قرآن پاک کا 30 پارہ بھی زبانی حفظ کر لیا ہے اب 29 پارہ خفظ کر رہی ہیں۔

بایک وقت 4 جگہوں سے کامیابی حاصل کرنا ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے

تو میں سب سے پہلے صاحب جو مدارسے کے انچارج بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سارے سٹاف کا شکریہ ادا کرتا ہو جنہوں نے اتنے محدود اور کم وسائل کے باوجود بھی مدارسے کا نظام اتنے احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔
ابھی بھی ان کو کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو تمام احباب سے گزارش ہے کہ مدارس میں زیادہ سے زیادہ عطیات کریں کیونکہ آپ لوگوں کے عطیات کی وجہ سے مدارس کا نظام چلتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور مدارسے کی تعمیر جاری ہے صاحب کی نگرانی میں اس کا کام بھی جاری ہے جس کی جتنی استطاعت ہے وہ اس کے مطابق عطیہ کریں تاکہ مدارسے کی جلد تکمیل ہو اور اس کو بھی جلد ازجلد فعال کیا جائے۔
واسلام
شکریہ
0152902010000522

03473174288
03557751260
محمد جنید الرحمن
بابو محمد صادق
Dr J0J0

_*`کیپٹن کرنل شیر خان شہید`*_کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا چوبیسواں یومِ شہادت 5 جولائی کو منایا گیا، وہ پاکستانی فوجی جس ک...
07/07/2024

_*`کیپٹن کرنل شیر خان شہید`*_

کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا چوبیسواں یومِ شہادت 5 جولائی کو منایا گیا، وہ پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا، پاکستان کے یہ درخشندہ ستارے جنہوں نے ملک کی آبرو کیلئے اپنی جان نچھاور کی، بِلاشُبہ عزت وتکریم کے مستحق ہیں۔ یہ بات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری کی قدر کی جانی چاہیے۔

سنہ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا ۔ جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ لڑی کہ انڈین فوج نے ان کی شجاعت، ہمت اور بہادری کا اعتراف کیا۔

اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے میڈیا کو بتایا کہ ’جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ میں سنہ 71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں۔ میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔‘

پاکستانیوں نے ٹائیگر ہل پر پانچ مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ پہلے آٹھ سکھ رجمنٹ کو ان پر قبضہ کرنے کا کام دیا گیا لیکن وہ یہ نہیں کر پائے۔‘ بعد میں جب 18 گرینیڈیئرز کو بھی ان کے ساتھ لگایا گیا تو وہ کسی طرح اس پوزیشن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے، لیکن کیپٹن شیر خان نے ایک جوابی حملہ کیا۔ پہلی بار ناکام ہونے کے بعد انھوں نے اپنے فوجیوں کو دوبارہ تیار کر کے حملہ کیا۔

’جو یہ جنگ دیکھ رہے تھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ ’خودکش‘ حملہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مشن کامیاب نہیں ہو گا، کیونکہ انڈین فوجیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے
*بریگیڈیئر باجوہ کہتے ہیں:*

کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑے۔ آخری میں ہمارا ایک نوجوان کرپال سنگھ جو زخمی پڑا ہوا تھا، اس نے اچانک اٹھ کر 10 گز کے فاصلے سے ایک 'برسٹ' مارا اور شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔‘

ان کے مطابق پاکستانی حملے کے بعد ’ہم نے وہاں 30 پاکستانیوں کی لاشوں کو دفنایا۔ لیکن میں نے پورٹرز بھیج کر کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھا۔‘

جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: '1’ این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔‘

کپیٹن کرنل شیر خان کا تعلق پاکستانی فوج کی سندھ رجمنٹ سے تھا اور کارگل کی لڑائی میں وہ ناردرن لائٹ انفنٹری سے منسلک تھے۔

کیپٹن کرنل شیر خان صوبہ خیبرپختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔

ان کے دادا نے کشمیر میں سنہ 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے ، چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔

یکم جنوری 1970 کو صوابی میں پیدا ہونے والے کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔

ان کے آخری سیشن میں ان سے دوبارہ کہا گیا کہ آپ کی کارکردگی اچھی رہی ہے، اگر آپ داڑھی صاف کر دیتے ہیں تو آپ کو اچھی پوسٹنگ مل سکتی ہے۔

لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ اس کے باوجود انھیں بٹالین کوراٹر ماسٹر کی پوزیشن دی گئی۔ پڑھائی کا شعبہ ہو یا حرب و ضرب کا فلسفہ، کھیل کا میدان ہو یا فائرنگ کا مقابلہ، کیپٹن کرنل شیر خان نے اپنی یونٹ کے لیے لا تعداد اعزازات حاصل کیے۔ ’ان کی انگلش بہت اچھی تھی، وہ دوسرے افسروں کے ساتھ ’سکریبل‘ کھیلا کرتے تھے اور اکثر جیتتے تھے۔ جوانوں کے ساتھ بھی وہ آسانی سے گھل مل جاتے تھے اور ان کے ساتھ لڈو کھیلتے تھے۔‘

کیپٹن شیر خان جنوری 1998 میں ڈومیل سیکٹر میں تعینات تھے۔ سردیوں میں جب انڈین فوجی پیچھے چلے گئے تو وہ چاہتے تھے ان کے ٹھکانے پر قبضہ کر لیں۔

اس سلسلے میں وہ اعلیٰ افسران سے ابھی اجازت لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کیپٹن شیر خان نے اطلاع بھیجی کہ وہ چوٹی پر پہنچ چکے ہیں۔

’كمانڈنگ افسر تذبذب میں تھے کہ کیا کریں۔ اس نے اپنے اعلیٰ حکام تک بات پہنچائی اور اس ہندوستانی چوکی پر قبضہ جاری رکھنے کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں دی گئی اور کیپٹن شیر سے واپس آنے کے لیے کہا گیا۔‘

’وہ واپس آ گئے لیکن آتے آتے ہندوستانی پوسٹ کی بہت سے علامتی چیزیں مثلا انڈین فوجیوں کی وردیاں، دستی بم، وائکر گن کے ميگزن، گولیاں اور کچھ سلیپنگ بیگ اٹھا لائے۔‘

4 جولائی 1999 کو کیپٹن کرنل شیر خان اور اُن کے 14 ساتھیوں کو دو کٹھن پوسٹوں کے درمیان موجود مزاحمتی ناکہ بندہ کو ختم کرنے کا مشن سونپا گیا۔۔ وہاں پاکستانی فوجیوں نے تین دفاعی لائنیں بنا رکھی تھی جنھیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔

انڈین فوجی 129 اے اور بی دفاعی لائن کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کیپٹن شیر شام کو چھ بجے وہاں پہنچے تھے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد دوسری صبح انھوں انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

’رات کو انھوں نے سارے سپاہیوں کو جمع کیا اور شہادت پر ایک تقریر کی۔ صبح پانچ بجے انھوں نے نماز ادا کی اور کیپٹن عمر کے ساتھ حملے پر نکل گئے۔ وہ میجر ہاشم کے ساتھ 129 بی پر ہی تھے کہ انڈین فوجیوں نے جوابی حملہ کر دیا۔‘

خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے میجر ہاشم اپنے توپ خانے سے اپنی پوزیشن پر ہی گولہ باری کی بات کہی۔ جب دشمن فوجی بہت قریب آتے ہیں تو فوجی ان سے بچنے کے لیے اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

پاکستانی اور انڈین جوانوں کی دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان نے متعدد آپریشنز کی قیادت کی اور دُشمن کے بہت سے حملوں کو پسپا کر کے انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔
اِس دوران کیپٹن کرنل شیر خان کو دشمن کی ایک اور مزاحمتی پوزیشن پوسٹ کی جانب بڑے حملے کی غرض سے آگے بڑھتی دُشمن کی سپاہ کی کثیر تعداد نظر آئی۔

سخت کٹھن حالات کے باوجود آپ نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ دُشمن پر بھرپور حملہ کر کے اُسے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ۔ تبھی ایک انڈین نوجوان کا برسٹ کیپٹن کرنل شیر خان کو لگا اور وہ نیچے گر گئے۔‘

اِس جرأت مندانہ معرکے میں آپ دشمن کے سنائپر فائر کی زد میں آگئے اور 5 جولائی 1999 کو شہادت کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔

باقی پاکستانی فوجیوں کو تو انڈین فوجیوں نے وہیں دفن کر دیا لیکن کیپٹن شیر خان کے جسد خاکی کو پہلے سرینگر اور پھر دہلی لے جایا گيا۔

کیپٹن شیر خان کو پاکستانی فوج کے سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

18 جولائی 1999 کی نصف شب کو ملیر چھاؤنی کے سینکڑوں فوجی کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچ گئے تھے جنھوں نے کیپٹن کرنل شير خان کی میت وصول کی۔ ان کے دو بھائی اپنے آبائی گاؤں سے وہاں آئے تھے۔

اس کے بعد کیپٹن شیر کی لاش ان کے آبائی گاؤں لے جائی گئی جہاں ہزاروں افراد نے پاکستانی فوج کے اس بہادر فوجی کو الوداع کہا۔ ان کے اس گاؤں کا نام اب ان کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎ چوہدری سکندر اعظم بنیالہ کوٹلہ والے اج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔نماز جن...
23/06/2024

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎
چوہدری سکندر اعظم بنیالہ کوٹلہ والے اج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔
نماز جنازہ کل دن 10 بجے ان کے آبائی قبرستان میں ادا کیا جاہیگا۔
اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند فرماہیں امین
پورے خاندان سے اظہار افسوس

Address

Kotli Sarsawa

Website

http://tiktok.com/@dr_jojo007, https://www.snapchat.com/add/danaish_mughal?share_id=owpYydAdx

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr J0J0 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category