02/09/2025
ہر معاشرے یا ادارے کو درست انداز میں چلانے کے لیے ضابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ ضوابط نہ ہوں تو معاشرے میں افراتفری پھیل جائے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ صرف ضابطے کافی نہیں ہوتے؛ ان کے ساتھ عقلِ عام اور انسانی سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ جب قوانین سخت، جامد یا عملی زندگی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو وہ مسائل حل کرنے کے بجائے خود ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
قوانین اور پالیسیز اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ زندگی کو آسان بنایا جائے، لیکن جب ان پر اندھی تقلید کی جائے تو وہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی اسپتال میں ایمرجنسی مریض سے علاج سے پہلے طویل کاغذی کارروائی کرائی جائے یا کسی اسکول میں بچوں کی تعلیم کے بجائے صرف نظم و ضبط پر زور دیا جائے تو یہ ادارے اپنے اصل مقصد میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ضابطوں کی سختی جدت اور مسائل کے حل کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں نتائج کے بجائے صرف طریقۂ کار کو فوقیت دی جائے، وہاں لوگ فیصلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نااہلی، بداعتمادی اور نظام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ کامیابی تب ہے جب کوئی نظام یا ادارہ خود سے منسلک افراد کے مسائل کو سہل انداز میں حل کرے، نہ کہ انہیں مزید پیچیدہ بنائے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی، تعلیمی اداروں، دفاتر اور حکومتی نظام میں قوانین کو انسان دوست اور عملی بنائیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصول اُس وقت تک کارآمد نہیں جب تک وہ انسان کی فلاح و بہبود کے ساتھ جُڑے نہ ہوں۔
قوانین کو مقصد کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ رکاوٹ۔ایسا قانون جو انسان کی ضرورت پوری نہ کرے، بے معنی ہے کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب نظام میں ضابطوں کے ساتھ ساتھ حکمت اور انسان دوستی کو بھی اہمیت دی جائے۔ یہی رویہ ترقی، انصاف اور انسانی وقار کی ضمانت ہے۔