Prof. Dr. Syed Asadullah Arslan Gilani

Prof. Dr. Syed Asadullah Arslan Gilani Prof.

Dr. Syed Asadullah Arslan Gilani
Dean, Faculty of Rehabilitation Sciences, UBAS, LMDC
Former Head, Physical Therapy Department, University of Health Sciences, Lahore
Former Head, Physical Therapy Department, University of Lahore

02/09/2025

ہر معاشرے یا ادارے کو درست انداز میں چلانے کے لیے ضابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ ضوابط نہ ہوں تو معاشرے میں افراتفری پھیل جائے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ صرف ضابطے کافی نہیں ہوتے؛ ان کے ساتھ عقلِ عام اور انسانی سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔ جب قوانین سخت، جامد یا عملی زندگی سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو وہ مسائل حل کرنے کے بجائے خود ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
قوانین اور پالیسیز اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ زندگی کو آسان بنایا جائے، لیکن جب ان پر اندھی تقلید کی جائے تو وہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی اسپتال میں ایمرجنسی مریض سے علاج سے پہلے طویل کاغذی کارروائی کرائی جائے یا کسی اسکول میں بچوں کی تعلیم کے بجائے صرف نظم و ضبط پر زور دیا جائے تو یہ ادارے اپنے اصل مقصد میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ضابطوں کی سختی جدت اور مسائل کے حل کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں نتائج کے بجائے صرف طریقۂ کار کو فوقیت دی جائے، وہاں لوگ فیصلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نااہلی، بداعتمادی اور نظام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ کامیابی تب ہے جب کوئی نظام یا ادارہ خود سے منسلک افراد کے مسائل کو سہل انداز میں حل کرے، نہ کہ انہیں مزید پیچیدہ بنائے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی، تعلیمی اداروں، دفاتر اور حکومتی نظام میں قوانین کو انسان دوست اور عملی بنائیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصول اُس وقت تک کارآمد نہیں جب تک وہ انسان کی فلاح و بہبود کے ساتھ جُڑے نہ ہوں۔
قوانین کو مقصد کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ رکاوٹ۔ایسا قانون جو انسان کی ضرورت پوری نہ کرے، بے معنی ہے کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب نظام میں ضابطوں کے ساتھ ساتھ حکمت اور انسان دوستی کو بھی اہمیت دی جائے۔ یہی رویہ ترقی، انصاف اور انسانی وقار کی ضمانت ہے۔

30/08/2025

قدرتی آفات انسان کی زندگی میں اچانک آتی ہیں اور کئی بار ایسی آزمائشیں ساتھ لاتی ہیں جن سے سنبھلنے کے لیے ہمت، صبر اور اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیلاب بھی انہی آفات میں سے ایک ہے جو محض پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ بستیوں کے بکھرنے، گھروں کے گرنے، کھیتوں کے ڈوبنے اور انسانی زندگیوں کے متاثر ہونے کی علامت ہے۔
پاکستان میں آنے والے سیلاب بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سبب بن رہے ہیں۔ کھیت تباہ، مکانات منہدم، سڑکیں اور پل ٹوٹ رہے ہیں۔ مگر ان نقصانات سے بڑھ کر وہ دکھ ہے جو متاثرہ خاندان اپنی زندگی کے خواب بکھرتے دیکھ کر برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومتی اداروں اور مخیّر حضرات کے ساتھ ساتھ ہر عام شہری پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق متاثرین کی مدد کرے۔
سیلاب ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہم نے فطرت کے ساتھ کھیلنے کی قیمت ادا کرنی ہے۔ درختوں کی کٹائی، ندی نالوں پر ناجائز تعمیرات اور نکاسی آب کے ناقص انتظامات سیلاب کے اثرات کو دوگنا کر دیتے ہیں۔ اگر ہم مستقبل میں ان نقصانات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ماحول دوست پالیسیاں اپنانا ہوں گی، مضبوط ڈیم اور حفاظتی بند بنانے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ سمجھنا ہوگا کہ فطرت کے اصولوں کے خلاف جانے کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
سیلاب خواہ کتنا ہی بڑا ہو، اگر ہم صبر، عزم اور اتحاد کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ہم نہ صرف اپنی بستیوں کو دوبارہ آباد کر سکتے ہیں بلکہ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل بھی بنا سکتے ہیں۔

29/08/2025

پاکستان میں حالیہ سیلاب اس صدی کا تباہ کن ترین سیلاب ہے جو اپنے ساتھ ہمارے کھیت، روزگار، تعلیم، صحت اور معاشرتی ڈھانچے تک بہا کر لے جا رہا ہے ۔ ہزاروں خاندان بے گھر، لاکھوں افراد بے روزگار، بچے تعلیم سے محروم اور بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں ۔
سیلاب صرف آج کا نہیں بلکہ آنے والے برسوں کا بھی بحران ہے۔ اس کے اصل اور دیر پا نقصانات برسوں تک غربت، غذائی عدم تحفظ، تعلیمی رکاوٹ اور معاشرتی عدم استحکام کے طور پر ظاہر ہوتے رہیں گے ۔ اس تباہ کن سلسلے کو روکنے کے لیے پاکستان کو ماحول موافق ڈھانچوں، موثر سیلابی نظام اور مضبوط سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ بصورتِ دیگر، یہ آفات ترقیاتی ثمرات کو بار بار ضائع کرتی رہیں گی اور لاکھوں افراد کو غیر یقینی کے جال میں جکڑے رکھیں گی۔
🙏 آئیں! ہم سب مل کر متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں اور ایک محفوظ، مضبوط اور پائیدار پاکستان کے لیے کردار ادا کریں۔ ✨
#سیلاب #پاکستان #مدد #معاشی-بحالی

26/08/2025

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار وہاں کے افراد کے رویوں اور طرزِ عمل پر ہوتا ہے۔ معاشرہ تبھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جب اس کے باسی اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ ایک فرد کی اخلاقی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ خود برائی سے بچے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ برائی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو اور ظلم و ناانصافی کا ساتھ نہ دے۔ خاموش رہ کر برائی کو پنپنے دینا دراصل اس کے فروغ میں شریک ہونا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ برائی ہمیشہ اس وقت پروان چڑھی جب اچھے لوگ خاموش رہے۔ جب معاشرے میں ناانصافی، ظلم، دھوکہ دہی یا بدعنوانی کو برداشت کر لیا جائے تو یہ بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں اور پورے نظام کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اس سوچ کو ترک کرے کہ "یہ میرا مسئلہ نہیں"۔ کیونکہ آج جو ظلم دوسروں پر ہو رہا ہے، کل وہ آپ کے دروازے پر بھی دستک دے سکتا ہے۔ برائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے۔ یہ جرات ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر اکثر لوگ خوف، مفاد یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہ جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا بھی ظلم کی حمایت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ سچ بولنا، انصاف کا ساتھ دینا اور کمزوروں کی مدد کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھے اور اسے ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے تو ایسا معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ لیکن جب ہر فرد یہ سوچ لے کہ "اگر میں نہ کروں تو کیا ہوگا؟" تو پھر پورا معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔جب ہر کوئی اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتا ہے تو اجتماعی ناکامی یقینی ہو جاتی ہے۔ہم اکثر اپنے معاشرتی مسائل جیسے گندگی، بدعنوانی، ناانصافی یا قانون شکنی کو دیکھ کر کہتے ہیں "اس سے میرا کیا تعلق؟" یا "اگر میں اکیلا یہ کام نہ کروں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ یہ سوچ دراصل اپنے وجود کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد کی موجودگی اور اس کا عمل معاشرے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
یاد رکھیے! معاشرے کو بدلنے کے لیے بڑے انقلابات کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ چھوٹے چھوٹے انفرادی کردار مل کر بڑے اجتماعی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اندھیرا ایک چھوٹی سی شمع سے بھی ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر ہم سب اپنے حصے کی شمع جلائیں تو معاشرہ روشنی اور انصاف سے بھر سکتا ہے۔

25/08/2025

آج کا پاکستانی معاشرہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں معمولی جھگڑوں پر انسان ایک دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ذرا سی تلخ کلامی، راستے میں گاڑی آگے پیچھے ہونے کا تنازع، جائیداد یا ذات پات کا مسئلہ، یا سوشل میڈیا پر اختلافِ رائے۔ہر جگہ ہمیں عدم برداشت، انتہاپسندی اور تشدد کی خبریں ملتی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہا ہے بلکہ پورے ملک میں خوف، بداعتمادی اور بدامنی کی فضا قائم کر رہا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
برداشت اور صبر کا فقدان: ہم نے اختلاف رائے کو دشمنی سمجھ لیا ہے۔
انتقامی سوچ کا غلبہ: معاف کرنے کو کمزوری اور بدلہ لینے کو بہادری سمجھا جا رہا ہے۔
اخلاقی و مذہبی تعلیمات سے دوری: ہماری تعلیم اور تربیت میں برداشت اور عفو و درگزر کے اصول کمزور ہو چکے ہیں۔
اگر آج ہم بھی دوسروں کی غلطیوں کو "ریت پر" لکھنا سیکھ لیں اور دوسروں کی بھلائی کو "پتھر پر" محفوظ کر لیں تو نہ صرف معاشرے میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ رشتے مضبوط اور دل قریب ہو سکتے ہیں۔
ہمیں بطور معاشرہ چند باتوں کو اپنانا ہوگا:
برداشت پیدا کریں: ہر اختلاف پر غصہ اور تشدد کے بجائے مکالمے اور سمجھ بوجھ سے کام لیں۔
معاف کرنا سیکھیں: معافی دینے والا ہمیشہ اخلاقی طور پر اونچا رہتا ہے۔
مثبت اقدار کو اجاگر کریں: خاندان، تعلیمی اداروں اور میڈیا میں صبر، برداشت اور محبت کے پیغام کو عام کیا جائے۔

قانون کی پاسداری: جو لوگ ظلم اور تشدد پر اتر آئیں انہیں قانون کے مطابق سخت سزا ملے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔
اگر ہم نے آج اس راستے کو نہ اپنایا تو یہ عدم برداشت اور تشدد ہمیں مزید تباہی کی طرف لے جائے گا۔

پاکستانی معاشرے میں دکھ اور ہمدردی کے اظہار کا رجحان عام ہے۔ کسی حادثے، غربت یا مظلومیت کی خبر سن کر ہم روتے ہیں، افسوس ...
23/08/2025

پاکستانی معاشرے میں دکھ اور ہمدردی کے اظہار کا رجحان عام ہے۔ کسی حادثے، غربت یا مظلومیت کی خبر سن کر ہم روتے ہیں، افسوس کا اظہار کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر تعزیتی پوسٹ لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے انسانیت کا حق ادا کر دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے یہ آنسو کسی بھوکے کے پیٹ کو بھر سکتے ہیں؟ کیا ہماری تعزیتی تقریریں کسی یتیم کی تعلیم کا انتظام کر سکتی ہیں؟ کیا ہمارے جذباتی بیانات کسی مریض کو دوا فراہم کر سکتے ہیں؟
ہم آنسو بہانے اور دعائیں دینے میں تو سب سے آگے ہیں، لیکن عملی قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کتنے بچے ہیں جو اسکول جانے کے بجائے چوراہوں پر بھیک مانگتے ہیں؟ کتنے مریض ہیں جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں؟ کتنی بیوائیں اور یتیم ہیں جن کے دروازے پر کوئی دستک نہیں دیتا؟ ہم ان سب پر بات کرتے ہیں، افسوس کرتے ہیں، لیکن عمل کم ہی کرتے ہیں۔
ہمارے ملک کو جذباتی تقریروں، لمبے جلسوں اور دکھاوے کے آنسوؤں کی ضرورت نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی روٹی میں سے دوسروں کے لیے حصہ نکال سکیں۔ جو صرف مسئلے کا رونا نہ روئیں بلکہ حل کا حصہ بنیں۔ جو دکھاوے کی ہمدردی کے بجائے عملی خدمت کو ترجیح دیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویے بدلیں۔ اگر ہم سچے مسلمان اور باشعور شہری ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انسانیت صرف احساس کا نام نہیں بلکہ قربانی اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ دینا، کسی غریب طالبعلم کی فیس ادا کرنا، کسی بے سہارا مریض کے لیے دوا خریدنا، کسی یتیم کے سر پر سایہ بننا۔یہ سب وہ عملی اقدامات ہیں جو نہ صرف جذبہ اخوّت کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو مضبوط بناتے ہیں۔
یاد رکھیں! نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا چھوٹا سا عمل ہزار آنسوؤں سے زیادہ قیمتی ہے۔ ہمیں وہ قوم بننا ہے جو جذبات کے اظہار سے آگے بڑھ کر عمل پر ایمان رکھتی ہو، کیونکہ ملک اور معاشرہ الفاظ سے نہیں بلکہ اقدامات سے بنتے ہیں۔

21/08/2025

مشکل حالات، ناکامیاں، محرومیاں اور بار بار کی آزمائشیں ہر انسان کے حصے میں آتی ہیں۔ لیکن فرق صرف سوچ کا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ان حالات کو اپنی کمزوری اور تھکن کا سبب بنا لیتے ہیں اور ہمیشہ اداس و دل شکستہ رہتے ہیں۔ وہ اپنے دل میں یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ زندگی اُن کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو انہی حالات کو ایک موقع سمجھتے ہیں۔ وہ ہر مشکلات کو اپنی شخصیت کو نکھارنے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر ناکامی دراصل ایک نیا سبق ہے اور ہر آزمائش اُنہیں پہلے سے زیادہ مضبوط بنا دیتی ہے۔
ہمارے معاشرے کے کئی افراد غربت، بیماری، بے روزگاری یا خاندانی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں۔ مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اصل طاقت حالات میں نہیں بلکہ ہمارے اندر کے زاویۂ نظر میں ہے۔ اگر کوئی یہ سوچ لے کہ " وہ ہر بار نئے حوصلے کے ساتھ اٹھے گا، خالی نہیں بلکہ تجربے اور ہمت سے بھرا ہوا لوٹے گا " تو یقیناً زندگی آسان اور پرسکون ہو جائے گی۔
یاد رکھیے! خوشی کا تعلق دولت یا سہولتوں سے نہیں بلکہ اُس سوچ سے ہے جو ہم اپناتے ہیں۔ مثبت سوچ والا انسان اندھیروں میں بھی روشنی ڈھونڈ لیتا ہے اور منفی سوچ والا انسان روشن دن میں بھی اندھیرا تلاش کرتا ہے۔
لہٰذا مشکلات کو بوجھ نہیں بلکہ ایک موقع سمجھیں۔ ہر دن کو امید کے ساتھ شروع کریں اور ہر آزمائش کو صبر و شکر کے ساتھ قبول کریں۔ تبھی ہم اپنی ذات کو خوشی اور اپنے معاشرے کو امید و حوصلے سے بھر سکتے ہیں۔

11/01/2025

انسان کی موت ایک اٹل حقیقت ہے، بہتر یہی ہے کہ حاصل زندگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اچھے اعمال کرتے جائیں کیونکہ اسی میں فلاح دنیا اور آخرت ہے











Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈

❤❤❤❤❤


iew

Today the best ⚡❤‍🩹










Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈

❤❤❤❤❤












Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈

❤❤❤❤❤


iew

‏‎إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعین
Today the best ⚡❤‍🩹










Actres # jamilanagudu with and also known as in movie📽📺👈

❤❤❤❤❤


20/08/2024
05/09/2023

Heel pain usually affects the bottom or back of the heel. Heel pain is rarely a symptom of something serious. But it can get in the way of activities, such a...

Address

Model Town
Lahore
5400

Opening Hours

Monday 10:00 - 22:00
Tuesday 10:00 - 22:00
Wednesday 10:00 - 22:00
Thursday 10:00 - 22:00
Friday 10:00 - 22:00
Saturday 10:00 - 22:00
Sunday 10:00 - 22:00

Telephone

+923001760117

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Prof. Dr. Syed Asadullah Arslan Gilani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Prof. Dr. Syed Asadullah Arslan Gilani:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category