
14/06/2025
ایک مرتبہ ذکر کیا تھا اس ارادے کا کہ مریض اور معالج کے درمیان تعلق کی مختلف جہات پر اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں کچھ لکھا جائے شاید کہ اس سے مجھے بھی اور دوسروں کو بھی کچھ سیکھنے کو ملے۔
یہ سلسلہ ایک بے ربط سا سلسلہ معلوم ہو شاید آپ کو کیونکہ اس کی کوئی ترتیب نہیں ہو گی۔ ہوسکتا ہے کبھی کسی قسط میں آپ کو مریض اور اس کے لواحقین کے نکتئہ نظر کا بیان نظر آئے اور اگلی قسط میں معالج کا اور کبھی میری میڈیکل لائف کی بہت ابتدائی بات اور کبھی موجودہ یا ماضی قریب کی۔
یہ جاننا بھی اہم ہے کہ چونکہ یہ سب میرے ذاتی تجربات اور آراء ہوں گی جو میں نے بطور مریض اور بطور معالج دیکھ رکھے ہیں تو ان کے نتائج سے اختلاف بھی آپ میں سے بہت سے لوگ کریں گے تو یہ ایک عین ممکن بات ہو گی۔
اس سلسے کی پہلی قط میں مجھے جو سب سے اہم بات لگتی ہے ان میں سے ایک کا تذکرہ کروں گا۔
گزشتہ برس ایک بزرگ میرے کلینک پر تشریف لائے وہ اکیلے ہی تھے اورتعارف کے بعد جب میں نے ان سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے بیٹا مجھے Addison's disease ہے ۔
میں ان کی اس بات سے چونکا اور میرے چہرے کے تاثرات سے انہوں نے اسے فورا"بھانپ لیا کہ میں کیوں حیران ہوا۔ کہنے لگے مجھے تقریبا" چالیس سال قبل ٹی بی ہو گئی تھی اور ساتھ یہ addison's کی بیماری تو میں اس وقت سے deltacortil (یہ ایک سٹیرائیڈ دوا ہے ) لے رہا ہوں۔
وہ میرے اگلے سوال کیلئے پہلے سے ہی تیار تھے لہذا سوال کا انتظار کیے بغیر انہوں نے اپنی جیب سے ایک نسخہ (Prescription ) نکالا کہ یہ دیکھیں بیٹا. یہ میو ہسپتال کا پینتیس سال پرانا نسخہ تھا جس پر ان کی تشخیص اور علاج لکھا گیا تھا۔
میں اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا ۔ یہ میری زندگی کا واحد کیس تھا جس میں ایک انتہائی پرانا نسخہ جو کہ مریض نے سنبھال کے رکھا ہوا تھا میں نے دیکھا۔ اس سے پرانا نسخہ فی الحال کسی مریض کے ہاتھ میں نے نہیں دیکھا۔
بحرحال اس وقت تو معاملہ یہ تھا کہ ان کی شوگر ذراخراب تھی جس کیلئے وہ میرے پاس تشریف لائے تھے۔
لیکن اس کیس میں اصل اہیمت بحرحال اسی نسخے کی تھی۔اگر وہ یہ نسخہ ساتھ نہ لاتے تو میرے لیے بہت مشکل تھا کہ میں ان کی بات کا یقین کر پاتا کہ وہ کیوں پینتیس برس سے سٹیرائیڈز استعمال کر رہے تھے۔ بحرحال ان کی اس حیران کن عادت نے بہت سے معاملات ان کیلئے اور میرے لیے آسان کر دیے۔ کیونکہ اگر وہ یہ نسخہ نہ دکھاتے تو یا تو معالج ان کی بات پہ یقین نہ کرتے ہوئے steroids بند کرنے کا سوچتا جو جان لیوا بھی ہو سکتا تھا یا پھر دوسری صورت میں steroids کو جاری رکھتا بغیر ثبوت کے اور یہ سوچتا کہ عین ممکن ہے مریض بغیر ضرورت کے یہ دوا استعمال کر رہا تو پھر اس بیماری کی نئے سرے سے تشخیص کرنا پڑتی جو کہ اس کیس میں آسان نہ ہوتا۔
ان کی اجازت سے نسخے کی تصویر لی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔
اس ساری کہانی میں سبق یہی ہے کہ اپنا میڈیکل ریکارڈ ہمیشہ سنبھال کر رکھیں۔یہ بہت اہم ریکارڈ ہوتا ہے جو بارہا مریض کی بیماری کی درست تشخیص میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ درست علاج کے علاوہ ، نئے ٹیسٹ کروانے سے بچت اور بہت سا پیسہ بچ جاتا ہے۔ تشخیص آسان ہوجاتی ہے اور زندگی آسان ، نہ صرف مریض کی بلکہ معالج کی بھی۔
~ڈاکٹر ارسلان نواز