Faith HuB

Faith HuB Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Faith HuB, Mental Health Service, Lahore.

This is an Islamic organization where special attention will be given to mental health along with Islam and the youth will be motivated to fight against diseases like depression, anxiety and depression.

Dua of the day 🤍۔_FaithHuB__islamic and Motivational point_ 💫۔
22/11/2022

Dua of the day 🤍۔

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫

۔

Hadith of the day 🤍۔_FaithHuB__islamic and Motivational point_ 💫۔
22/11/2022

Hadith of the day 🤍۔

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫

۔

Hadith of the day 🤍۔_FaithHuB__islamic and Motivational point_ 💫🧡۔
21/11/2022

Hadith of the day 🤍۔

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫🧡

۔

Dua of the day 🤍 (say Ameen ) ۔_FaithHuB__islamic and Motivational point_ 💫🧡۔
21/11/2022

Dua of the day 🤍 (say Ameen ) ۔

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫🧡

۔

*اَضْحَکَ اللّٰهُ سِنَّکَ ۔۔!!*اللّٰہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔۔!!✨💜_FaithHub_  _Islamic & Motivational_ _point_
08/11/2022

*اَضْحَکَ اللّٰهُ سِنَّکَ ۔۔!!*

اللّٰہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔۔!!✨💜

_FaithHub_
_Islamic & Motivational_ _point_

16/10/2022

اِستِبراء کیا ہںے...؟؟؟؟؟؟

👈🏻 نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ضرور پڑھیں

استبراء پیشاب کے مکمل خشک کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ واجب ہںے۔

جس طرح نماز میں کوئی واجب چھوٹ جاۓ تو نماز سجدہ سہو کے بنا مکمل نہی ہوتی ایسے ہی اگر پیشاب کرنے کے بعد اس کو مکمل خشک نہ کیا جائے تو طہارت کامل نہیں ہوتی۔

»طہارت کامل نہیں تو وضو کامل نہیں
»وضو کامل نہیں تو نماز نہیں ہوتی۔
»رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا کہ: "میری امت کے اکثر لوگوں کی عبادتیں ان کی طہارت کی وجہ سے منہ پر دے ماری جائیں گی، اکثر عذاب قبر پیشاب کی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوگا۔" اَوْکَمَاقَال

پرانے وقتوں میں لوگ خشک مٹی استعمال کرتے تھے پیشاب کو خشک کرنے کے لیے
آج کل %95 فیصد مرد وخواتین پیشاب بنا خشک کیے ہی جلد بازی میں پانی بہا کر کپڑے پہن لیتے ہیں وہی ناپاک پانی پھر کپڑوں کو لگتا ہے۔

جیسے، پانی کی ٹونٹی بند بھی کر دیں تو کچھ وقت تک تھوڑے تھوڑے قطرے نکلتے رہتے ہیں۔
بالکل
یہی حال انسانی جسم کے مثانے (Urinary Bladder) کا ہے۔

پیشاب کی نالی کے اندر کچھ قطرے رہ جاتے ہیں جیسے ہی مرد یا عورت کھڑے ہوتے ہیں تو پیشاب کے قطرے جو نالی میں تھے باہر کی طرف آتے ھیں لہٰذا جلد بازی نہ کریں فوراً کھڑے نا ہوں اس بات کا یقین کر لیں کہ آپ کا مثانہ مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے نالی میں پھنسے قطرے نکالنے کے لیے مصنوعی طور پر جان بوجھ کر کھانسی کریں (کھنگورا ماریں) اس سے مسلز ریلیکس ہوں گے اور بائیں پاوں پر زور دیں دو سے تین دفعہ، پھر ٹشو سے پیشاب خشک کر کے پانی استعمال کریں پھر دوبارہ ٹشو استعمال کرلیں تو بہتر، نہ کریں تو کوئی مضائقہ نہیں اب جو پانی کپڑے کو لگے گا وہ ناپاک نہیں ہوگا۔

ہم سب کم وقت اور جلد بازی اسی معاملے میں کرتے ہیں، جو بنیاد ہے روح کی پاکیزگی اور قلب کے سکون کی۔
پھر کہاں سے عبادتوں میں لذت اور سکون آئے جب طہارت ہی مکمل نہ ہو۔
آج کے دور میں خشک مٹی کی جگہ سوفٹ ٹشو استعمال کیا جا سکتا ھے لیکن یاد رہے پانی کا استعمال لازمی ہے صرف ٹشو سے خشک کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

اَللّٰه تعالٰی فرماتا ہے
وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّه‍ِّرِيْن
"اور اَللّٰه خوب پاک ہونے والوں سے محبت فرماتا ہے۔" (التوبہ۔۱۰۸)

یہی وجہ ہے کہ ہماری خواتین بچے مرد عورت سب پریشانیوں میں مبتلا ہیں، جنات شیاطین کے لیے پیشاب کی بُو اور آمیزش والے پانی کا ایک قطرہ بھی کافی ہوتا ہے جس پر وہ سارا دن جادُو پڑھ پڑھ انسان کے کانوں میں پھونکتے ہیں اور اس کی روح اور دل کو بےقرار رکھتے ہیں۔
غصہ، حسد اور بغض ان سب کی جڑ کامل طہارت کا نہ ہونا ہے ✨ اچھی بات کرنا بھی صدقہ ہے اور آگے شیئر کرنا اور بھی ثواب کا کام ہے
جزاک اللہ خیرا کثیرا✨

_FaithHub_
_Islamic and Motivational_ _Point_ 💫🧡

16/10/2022

*سیرت النبی ﷺ*
*(قسط نمبر 18)*

*حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی*
==========================

حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء میں پیدا ہوئے.. آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا.. آپ دینِ حنیف (دینِ ابراہیمی) پر قائم تھے اور ان کی بت پرستی اور کسی اخلاقی برائی (جو ان دنوں عرب میں عام تھیں) کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی.. حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ہوۓ اور سب کے سب نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.. اس واقعہ کی تفصیل بھی پچھلی اقساط میں گزر چکی ہے لہذہ
اس سے آگے کے واقعات کی طرف چلتے ہیں..

حضرت عبداللہ جب قربانی سے بچ نکلے تو حضرت عبدالمطلب نے ان کی شادی کا سوچا.. حضرت عبداللہ اپنے والد اور دادا کی طرح نہایت ہی حسین وجمیل اور وجیہہ انسان تھے.. مکہ کی کئی شریف زادیاں ان سے شادی کی خواہش مند تھیں مگر پیارے نبی *حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ بنت وہب* کی قسمت میں لکھی تھی..

ان شریف زادیوں کی اس خواہش کے پیچھے صرف حضرت عبداللہ کی ظاہری شخصیت ہی وجہ نہ تھی بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نور نبوت تھا جو ان کی پیشانی میں چاند کی طرح چمکتا تھا.. ان عورتوں میں ایک عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی چچا کی بیٹی اور مشہور "ورقہ بن نوفل" کی بہن "ام قتال" تھیں.. ان کے بھائی ورقہ بن نوفل انجیل و سابقہ صحائف آسمانی کے علوم کے ماہر تھے اور ان کی وجہ سے ام قتال جانتی تھیں کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں چمکنے والا نور , نور نبوت ہے اور اسی لیے ان کی خواہش تھی کہ یہ نور ان کے بطن سے جنم لے..

دوسری عورت ایک کاہنہ "فاطمہ بنت مرالخثعمیہ" تھیں جنہوں نے اپنی روحانی استعداد سے جان لیا تھا کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور دمکتا ہے وہ نور نبوت ہے اس لئے یہ بھی حضرت عبداللہ سے شادی کی خواہشمند تھیں تاہم حضرت عبدالمطلب کی نظر انتخاب *حضرت آمنہ* پر جاکر رکی جو قبیلہ زہرہ کے سردار "وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب" کی بیٹی تھیں اور قریش کے تمام خاندانوں میں اپنی پاکیزگی اور نیک فطرت کے لحاظ سے ممتاز تھیں.. اس وقت وہ اپنے چچا "وہیب بن عبدمناف بن زہرہ" کے پاس مقیم تھیں..

حضرت عبدالمطلب وہیب کے پاس گئے اور حضرت عبداللہ کے لئے حضرت آمنہ کا رشتہ مانگا جسے قبول کرلیا گیا اور یوں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے.. اس موقع پر خود حضرت عبدالمطلب نے بھی ایک کاہن کی کہنے پر وہیب بن عبدمناف کی بیٹی "ہالہ" سے شادی کرلی جن سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے جری شیر پیدا ہوۓ.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کے رشتے سے خالہ زاد بھائی بھی تھے کیونکہ جناب ہالہ اور حضرت آمنہ آپس میں چچازاد بہنیں بھی تھیں..

دوسری طرف جب اس شادی کا علم ام قتال اور فاطمہ بنت مرالخثعمیہ کو ہوا تو وہ بےحد رنجیدہ ہوئیں اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکامی پر رو پڑیں..

ان کا رونا واقعی میں حق بجانب تھا کہ *نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* کی والدہ ہونے کا اعزاز ساری دنیا کی قیمت سے بڑھ کر تھا اور یہ اعزاز اللہ نے حضرت آمنہ کے نصیب میں لکھ دیا تھا..

============(باقی آئندہ ان شآءاللہ)

_FaithHub_
_Islamic and Motivational_ _Point_ 💫🧡

15/10/2022

*سیرت النبی ﷺ*
*(قسط نمبر 17)*
==========================

پچھلی قسط میں آپ ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے بچپن اور پھر قریش مکہ کا سردار بننے کا ذکر کیا گیا.. اس قسط میں ان کی زندگی میں پیش آنے والے دو اہم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جاۓ گا جن میں سے ایک واقعہ "عام الفیل" ہے.. جب یمن کا حکمران "ابرھہ بن اشرم" ایک لشکرجرار کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے کی نیت سے مکہ پر چڑھ دوڑا تھا مگر اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اسے عبرت ناک انجام تک دوچار کیا.. (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سابقہ اقساط میں بیان ہوچکا ہے)

دوسرا اہم واقعہ چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائی تھی.. دراصل مدتوں پہلے جب مکہ پر قبیلہ بنو جرہم قابض تھا تو چاہ زمزم پر ملکیتی جھگڑے کی وجہ سے اسے مٹی سے پاٹ دیا گیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کنویں کا بظاہر نشان تک باقی نہ رہا..
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت ابوطالب سے سن کر بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز جب حضرت عبدالمطلب اپنے حجرے میں سوئے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی جوکہ حرم کعبہ کے اندر عین اس جگہ تھی جہاں "اساف و نائلہ" کے بت نصب تھے..

جب حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ اور دوسرے قبائل مکہ کے آگے اس قصے کا ذکر کیا تو ان کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا اور نہ ہی کھدائی کے اس کام میں ان کی کسی نے مدد کی.. اس وقت حضرت عبدالمطلب کے صرف ایک ہی بیٹے "حارث" تھے جن کے ساتھ مل کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا جہاں خواب کے ذریعے رہنمائی ہوئی تھی.. چار دن کے بعد پانی ظاہر ہو گیا اور زم زم کا کنواں مل گیا جس میں سے مسلسل پانی ملنے لگا جو آج تک جاری ہے..

چونکہ یہ کنواں بنیادی طور پر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے قدموں سے جاری ہوا تھا اس لئے قریش کے باقی قبائل نے اس کی ملکیت میں حصہ دار بننا چاہا.. حضرت عبدالمطلب کا خیال تھا کہ زمزم اللہ نے ان کو عطا کیا ہے.. اس جھگڑے کو نمٹانے کے لئے عرب کے دستور کے مطابق کسی باعلم اور دانش مند شخص پر فیصلہ چھوڑا گیا.. قبائل کے مختلف نمائندے جن میں حضرت عبدالمطلب شامل تھے , شام کو روانہ ہوئے تاکہ وہاں کی ایک مشہور کاہنہ (روحانی علوم کی ماہر عورت) سے مشورہ کیا جائے.. اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب لوگ کاہنوں کی بات کو اہمیت دیتے تھے..

یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی مکہ سے کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ سواۓ حضرت عبدالمطلب کے تمام لوگوں کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور شدت پیاس سے سب مرنے والے ہوگئے.. باقی قبائل نے ان کو پانی دینے سے انکار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے ساتھیوں نے کچھ قبریں بھی کھود لیں تاکہ جو پہلے مر جائیں ان کو دوسرے دفنا دیں.. اگلے دن حضرت عبدالمطلب نے فیصلہ کیا کہ موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور سفر جاری رکھنا چاہئیے.. وہ اپنے اونٹ پر بیٹھنے لگے تو اونٹ کا پاؤں زمیں پر ایک جگہ زور سے پڑا اور کچھ زیر زمین پانی نظر آیا.. وہاں ایک چشمہ برآمد ہو گیا جس سے انہوں نے اور دوسرے تمام قبائل نے استفادہ کیا..

یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر سب تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ضرور کوئی غیبی طاقت حضرت عبدالمطلب کے ساتھ ہے.. اس وقت دوسرے تمام قبائلی نمائندوں نے فیصلہ کیا کہ زم زم کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ نے اسی جگہ حضرت عبدالمطلب کے حق میں یہ پانی جاری کرکے کیا ہے اس لئے واپس مکہ جایا جائے..

یہی موقع تھا جب حضرت عبدالمطلب نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کئے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کردیں گے۔۔۔۔۔۔

============(باقی آئندہ ان شآءاللہ)

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

11/10/2022

*سیرت النبی ﷺ:*
*(قسط نمبر 16)*
==========================

*تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. (حصہ دوم)*

3.. حضرت عبد المطلب..

پچھلی قسط میں حضرت ہاشم کے سفر شام , یثرب (مدینہ) میں نکاح اور پھر فلسطین میں وفات کا ذکر کیا گیا.. ان کی وفات کے بعد 497 ء میں ان کی زوجہ سلمیٰ سے ایک بیٹا پیدا ہوا.. چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لئے جنابہ سلمیٰ نے اس کا نام "شَیْبہ" رکھا اور یثرب (مدینہ) میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی.. آگے چل کر یہی بچہ "عبد المُطَّلِبْ" کے نام سے مشہور ہوا.. عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا..

سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب کو ملا.. یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی واعزاز کے مالک تھے.. ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب "فیاض" رکھ چھوڑا تھا.. جب شیبہ یعنی عبدالمطلب سات یا آٹھ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لئے روانہ ہوئے.. جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشک بار ہوگئے.. انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لئے روانہ ہوگئے مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کردیا.. اس لئے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے.. آخر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے.. مکے والوں نے دیکھا تو کہا "یہ عبدالمطب ہے" یعنی مُطَّلب کا غلام ہے.. مطلب نے کہا "نہیں نہیں __ یہ میرا بھتیجا یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے".. پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے..

مکہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی مطلب بن عبد مناف کی وفات یمن کے سفر میں ہو گئی تو ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے.. سرداری اور کعبہ کے زائرین کی خدمت پر , جو مطلب بن عبد مناف نے حضرت عبد المطلب کے سپرد کی تھی , نوفل بن عبد مناف نے قبضہ کرنا چاہا.. حضرت عبد المطلب نے قریش کی مدد طلب کی مگر شنوائی نہ ہوئی.. اس کے بعد حضرت عبد المطلب نے اپنے ماموں ابو سعد (ان کا تعلق بنو نجار سے تھا..) کی مدد طلب کی جو 80 گھڑ سواروں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آئے.. انہوں نے نوفل بن عبد مناف سے کہا کہ "اے نوفل ! اگر تو نے عبد المطلب سے چھینا جانے والا حق انہیں واپس نہ کیا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اڑا دوں گا.."

اس پر نوفل نے ان کی بات مان لی.اس بات پرقریش کے معززین کوگواہ بنایاگیا مگر
جب حضرت عبد المطلب کے ماموں واپس مدینہ چلے گئے تو نوفل بن عبد مناف نے عبد شمس بن عبد مناف (بنو امیہ ان کی نسل سے ہیں) اور اس کی اولاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور حضرت عبد المطلب کے خلاف تحریک شروع کی.. بنو خزاعہ نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا اور بیت الندوہ میں بنو ہاشم سے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا.. اس طرح قریش کی سرداری حضرت عبد المطلب کے پاس ہی رہی..

حضرت عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف و اعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباؤ اجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکے تھے.. قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی..

4.. حضرت عبداللہ.. (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم)

حضرت عبدالمطلب کے کل دس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھے جن کے نام یہ ہیں..

حارث , زبیر , ابوطالب , عبد اللہ , حمزہ (رضی اللہ عنہ), ابولہب , غَیْدَاق , مقوم , صفار اور عباس (رضی اللہ عنہ)..

ام الحکیم (ان کا نام بیضاء ہے) بَرّہ , عَاتِکہ , اَروی ٰ, اُمَیْمَہ اور صفیہ (رضی اللہ عنہا)..

حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں.. عبدالمطلب کی اوّلاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت , پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے.. ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواہش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ہوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردینگے.. اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس بیٹے پیدا ہوئے.. دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.. چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.. جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا.. چنانچہ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے..

یہ دیکھ کر خاندان بنو ہاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا، بہت پریشان ہوۓ.. وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاہنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.. چنانچہ جب اس کاہنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.. عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دئے جاتے
ہیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا.. چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.. اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا..

حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ سے ہوئی جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اور نسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں.. ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے.. وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعد حضرت عبداللہ کو حضرت عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لئے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے..

بعض اہل سِیر کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے گئے تھے.. قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے.. تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی.. اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی.. اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے.. البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ پہلے ہوچکی تھی.

============(باقی آئندہ ان شآءاللہ)

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

10/10/2022

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

سیرت النبی ﷺ:
(قسط نمبر 15)
==========================

*تذکرۂ خانوادۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. (حصہ اول)*

نبی کریم ﷺ کا خانوادہ اپنے جد اعلیٰ "ہاشم بن عبد مناف" کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے..
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خانوادۂ نبی کریم ﷺ کے بعض نام ور افراد کے مختصر حالات پیش کر دیئے جائیں..

1.. قصی بن کلاب

قصی بن کلاب آپ ﷺ سے پانچ پشت پہلے کے بزرگ ہیں.. دراصل یہ ہی قصی بن کلاب ہیں جنہوں نے نہ صرف بنو خزاعہ سے خانہ کعبہ کی تولیت کا حق واپس لیا بلکہ اپنی قوم بنی اسماعیل اور قبیلے بنی قریش کو منظم و متحد کرکے مکہ کو ایک باقائدہ ریاستی شھر کی شکل دی.. خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ سے قصی بن کلاب اور ان کی آل اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی سیادت اور عزت و احترام کا درجہ حاصل ہوگیا اور قصی بن کلاب نے خود کو اس کا اہل ثابت بھی کیا..

قصی بن کلاب کو بلامبالغہ مکہ کی شہری ریاست کا مطلق العنان بادشاہ کا درجہ حاصل تھا.انہوں نےنہ صرف خانہ کعبہ گرا کر نئے سرے سے اس کی تعمیر کرائی بلکہ پہلی دفعہ اس پر کجھور کے پتوں سے چھت بھی ڈالی.. اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے جملہ انتظام کا جائزہ لے کر اس میں ضروری اصلاحات بھی کیں..

دوسری طرف خانہ کعبہ کے پاس ہی ایک عمارت تعمیر کرائی جسے "دارالندوہ"
کا نام دیا گیا..
یہاں بنو اسماعیل اور مکہ کے دوسرے قبائل کے سرداروں اور عمائدین کے ساتھ ملکر مختلف امور کے متعلق بحث و تمحیث کے بعد فیصلے کیے جاتے.. قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے.. قافلے یہیں سے تیار ہو کر باہر جاتے.. نکاح اور دیگر تقریبات کے مراسم بھی یہیں ادا ہوتے..
اس کے علاوہ مختلف ریاستی امور نبٹانے کے لیے چھ مختلف شعبے قائم کئے اور ان کا انتظام اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا..
2.حضرت ہاشم بن عبدمناف
حضرت ہاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی تو عبدمناف کی اولاد میں حضرت ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا.. حضرت ہاشم بڑے مالدار اور نہایت ہی جلیل القدر بزرگ تھے.. ان کا اصل نام عمرو تھا.. چونکہ ان کے زمہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی تھا تو وہ ان زائرین کی تواضع ایک خاص قسم کے عربی کھانے سے کرتے جسے "ہشم" کہا جاتا تھا.. (عربی زبان میں ہشم شوربہ میں روٹیاں چورا کرنے کو کہتے ہیں..) مکہ میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے تمام اہل مکہ کے لئے یہی شوربہ تیار کرایا جس پر انہیں "ہاشم" کا لقب ملا اور تاریخ نے پھر انہیں اسی لقب سے یاد رکھا..

ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ہاشم کے نام سے مشھور ہے.. انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لئے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کئے جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کئے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے.. یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ہوا اور ان کے قافلے شام , حبشہ , ترکی اور یمن میں جانے لگے..

ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے.. دوران سفر یثرب (جس کا نام بعد میں مدینہ یا مدینۃ الرسول ﷺ ہوا..) میں ٹھہرے.. وہاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون "سَلْمیٰ بنت عَمْرو" سے شادی کرلی اور کچھ دن وہیں ٹھہرے رہے.. پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے.. غالبا" ان کا ارادہ تھا کہ واپسی پر ان کو مدینہ سے مکہ لے جائیں گے مگر شادی سے چند ماہ بعد دوران سفر ہی ان کا انتقال فلسطین کے علاقے غزہ میں ہو گیا..
============(باقی آئندہ ان شآءاللہ)

10/10/2022

_✨🎗️Ayat Of The Day🎗️✨_

سورہ نمبر: ۲
سورہ البقرہ
آیت نمبر:۱۳۳

اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ ۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾

کیا ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسماعیل ( علیہ السلام ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

10/10/2022

_✨🎗️Dua Of The Day🎗️✨_

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ للّٰہِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

’’میں اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں، اس کی مخلوق کے شر سے۔‘‘

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

09/10/2022

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

سیرت النبی ﷺ
(قسط نمبر 14)
==========================

شروع کی اقساط میں قریش مکہ کی تاریخ بیان کی گئی جس میں آپ ﷺ کے آباء و اجداد کا مختصر ذکر بھی آیا.. اب ان کا دوبارہ تفصیلی ذکر کیا جارہا ہے..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسب بہت سی تاریخی شہادتوں اور حوالوں کے مطابق چالیس پشت بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تر بزرگوں کے ناموں کے متعلق مستند معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت "عدنان" تک جا کر روک دیا جاتا ہے.. حضرت عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی بیس پشت بعد پیدا ہوۓ.. انہی کے نام پر بنو اسماعیل کو بنو عدنان بھی کہا جاتا ہے.. حضرت عدنان تک آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے..

حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبداللہ بن عبدالمطلب (شَیْبَہ) بن ہاشم (عمرو ) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر ) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدْنان..

ابن ہشام ۱/۱ , ۲ تاریخ الطبری ۲/۲۳۹-۲۷۱..

عدنان سے اوپر کے سلسلۂ نسب کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرینِ انساب کا اختلاف ہے.. کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے.. یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے..

عدنان بن أد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن یوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن أرعوی بن عیض بن ذیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام..

طبقات ابن سعد ۱/۵۶،۵۷.. تاریخ طبری ۲/۲۷۲..

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر کے سلسلۂ نسب میں کچھ غلطیاں سمجھی جاتی ہیں.. یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے..

حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارح (آزر ) بن ناخور بن ساروع (یاساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس علیہ السلام کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیث علیہ السلام بن آدم علیہ السلام..

ابن ہشام ۱/۲-۴.. تاریخ طبری ۲/۲۷۶..

بعض ناموں کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے اور بعض نام بعض مآخذ سے ساقط بھی ہیں ۔۔۔۔

============

08/10/2022

تلخ یاد💔

یا رب!
8اکتوبر 2005 کے ہولناک زلزلے میں شہید ہونے والوں کے درجات بلند فرما ۔اور امت مسلمہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا آمین.

یا اللہ میرپور اور جاتلاں میں زلزلےمیں شہید ہو نے والوں کےبھی درجات بلند فرما اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫❤️




08/10/2022

_Islamic and Motivational Point_
_Faith_HuB_ 💫❤️

سیرت النبی ﷺ:
قسط نمبر 13
==========================

پچھلی 2 اقساط میں عربوں کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کئے گئے.. اس قسط میں مختصرََا اس دور کے سیاسی حالات بیان کئے جارہے ہیں..

ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائلی نظام میں تقسیم تھے اور سرزمین عرب کے ریگستانوں میں دانہ ہاۓ تسبیح کی طرح بکھرے ہوۓ تھے.. قبائل کا سیاسی نظام نیم جمہوری تھا.. قبیلہ کا ایک سردار مقرر ہوتا جس کی شجاعت، قابلیت اور فہم و فراست کے علاوہ سابقہ سردار سے قرابت داری کا بھی لحاظ رکھا جاتا.. تمام لوگ اپنے سردار کی اطاعت کرتے تاہم سردار قبیلہ کے بااثر لوگوں سے صلاح مشورہ بھی کرلیتا..

عرب قوم کیونکہ اکھڑ مزاج قوم تھی تو بعض اوقات کسی معمولی سی بات پر اگر دو مختلف قبیلے کے افراد میں جھگڑا ہوجاتا تو اسے پورے قبیلے کی انا کا مسلہ بنا لیا جاتا اور پھر مخالف قبیلے کے خلاف اعلان جنگ کردیا جاتا.. بسا اوقات یہ جنگیں مدتوں جاری رہتیں.. مثلََا بنو تغلب اور بنو بکر میں بسوس نامی ایک اونٹنی کو مار ڈالنے پر جنگ کا آغاز ہوا اور یہ جنگ پھر چالیس برس جاری رہی..

جب ہم جزیرہ نما عرب کے اطراف پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طرف روم کی عظیم بازنطینی سلطنت اور دوسری طرف ایران کی عظیم ساسانی سلطنت نظر آتی ہیں.. جزیرہ نما عرب کو ایک لحاظ سے ان دو عظیم ہمسایہ حکومتوں کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کا درجہ حاصل تھا.. اہل عرب ان دو ہمسایہ سلطنتوں کو "اسدین غالب" (دو طاقتور غالب شیر) کہا کرتے تھے..

اس وقت یہ دنیا کی دو سب سے طاقتور ترین اقوام تھیں جو کئی صدیوں سے آپس میں برسر پیکار تھیں.. کبھی رومی ایرانیوں کو پامال کرتے ہوۓ شکست فاش سے دوچار کردیتے اور کبھی میدان جنگ میں ایرانیوں کی فتح کے طبل بجتے..
روم کی بازنطینی سلطنت کا حکمران "قیصر" کے لقب سے حکومت کرتا جبکہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حکمران "کسریٰ "
کہلاتے.. آپ ﷺ کے دور میں روم پر قیصر "ہرقل" کی حکومت تھی جبکہ ایران پر آپ ﷺ کے بچپن میں مشہور ایرانی بادشاہ "نوشیرواں" کی حکومت تھی جبکہ اس کے بعد "خسرو پرویز" ایران کا شہنشاہ بنا جس نے آپ ﷺ کے تبلیغی خط کو پھاڑنے کی گستاخی کی تھی..


ان شاء اللہ اگلی قسط سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باقاعدہ آغاز ہو گا

❤️🌸🧡
07/10/2022

❤️🌸🧡



07/10/2022

*سیرت النبی ﷺ*
*(قسط نمبر 12)*
==========================

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب " لائف آف محمد" ﷺ میں لکھتے ہیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لیکر روم و ایران و شام اور ہندستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات ساتھ لے کر لوٹتے..

عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا.. عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سواۓ فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا... دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا..
شراب نوشی اور جواء عام تھا... دنیا کی شاید ہی کوئی برائی ہو جو عربوں میں موجود نہ تھی.. لہو و لعب ' فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ.. زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ہر گھر ایک شراب خانہ تھا.. عرب نہایت شقی القلب اور سنگدل تھے.. جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی.. زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے.. اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا.. ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا.. دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا.. ان کے کاسہ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی.. مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں..

درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایسی وحشی و جاہل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور انکو اخلاقی طور پر پاکیزہ بنا دیا..

تاہم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے سلیم الفطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے..

دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں.. شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی.. ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی.. کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا.. نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں..

سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا.. کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا.. مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لئے ہوتا ، اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا..

عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے.. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ہونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا..

عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے.. عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کردیا جاتا تھا.. جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کردیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے..
بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ہوئی تھی مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ہو بھی گئیں مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ہے نہ ہی امانت دار اور نہ ہی حریت و آزادی کا متوالا.. یہ وہ صفات ہیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا..
(باقی آئندہ ان شآءاللہ)

_FaithHuB_
_islamic and Motivational point_ 💫❤️

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Faith HuB posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Faith HuB:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram