
02/04/2024
*'ریموٹولوجی فیملی'*
*محبت کی ایک داستان۔*
ملک پاکستان کے چند قابل احترام اساتذہ کرام جو کہ اساتذہ کے روپ میں روحانی ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ماں باپ کی خدمت اور دعاؤں کا نتیجہ کہ مجھے ایک انتہائی قریبی دوست اور بھائی ڈاکٹر محمد فائق صاحب انگلی پکڑ کر مجھے پروفیسر ڈاکٹر احمد سعید صاحب کے دفتر میں ایسے لے گئے جیسے باپ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر سکول چھوڑنے کے لیے جاتا ہے وہ دن شاید زندگی کا بہترین دن تھا جس دن مجھے پاکستان کے بہترین اساتذہ کرام کی شاگردی میں سونپا گیا۔
زندگی کا نیا سفر شروع ہوا اور *نیشنل ہسپتال ڈیفنس* میں میری فیلو شپ فیلو شپ کا اغاز ہوا۔ڈاکٹر نگھت میر صاحبہ اور ڈاکٹر سمیرا فرمان راجہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ کا کوئی خاص کرم ہے کہ مجھے اس ڈیپارٹمنٹ کا راستہ دکھایا۔
*ریموٹولوجی* جوڑوں گھنٹیا اور پٹھوں کے ماہر معالج جن کی تعداد ملک پاکستان میں اٹے میں نمک کے برابر ہے اور پاکستان میں روموٹولوجی کے چمکتے ستارے میرے اساتذہ کرام جن کی زندگی کا مقصد مریضوں کی بھلائی ، ان کے درد کی دوا ، ملک میں ریموٹولوجی کے ٹرینڈ ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کرنا اور بڑھتی ہوئی روح کو چیرتی ہوئی مہنگائی میں درد اور دکھ سے ستائے لوگوں مریضوں کے لیے سہارا بننا ہے جس کی زندہ مثال *ارتھرائٹس کیر فاؤنڈیشن مسلم ٹاؤن لاہور* ہے جہاں روموٹولوجی سے منسلک بیماریوں سے متاثر ہزاروں لاکھوں مریضوں کا علاج ماہ رموٹولوجسٹ کی زیر نگرانی انتہائی اعلی معیار کے ساتھ بالکل فری ہوتا ہے یہاں تک کہ دنیا جہاں کی جدید دوائیاں جنہیں بائلوجکس کہا جاتا ہے مریضوں کو مفت یا انتہائی کم کی قیمت پر مہیا کیے جاتے ہیں۔یہ ادارہ ڈاکٹر نگہت میر صاحبہ اور ڈاکٹر سمیرا فرمان راجہ کی مہربانی اور فراخ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے ڈاکٹر احمد سعید جیسے ہو نہار استاد اور ڈاکٹر رفاقت حمید، ڈاکٹر محمد فائق جیسے فرشتہ صفت ڈاکٹر انتہائی محنت اور لگن سے چلاتے ہیں۔
دو سال کا سفر ایسے گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا کب میں ایک عام فزیشن ڈاکٹر سے اتنا بہترین *روموٹولوجسٹ ڈاکٹر* اور بہترین انسان بھی بن گیا۔ کہ ہر وقت دل خود پر فخر محسوس کرتا اورخدا کا شکر ادا کرنے میں مشغول رہتا۔
*شعبہ روموٹولوجی نیشنل ہسپتال*، میں نے دو سال میں روماٹولوجی جوڑوں اور پٹھوں کے امراض میں مبتلا ہزاروں مریض دیکھے اور چیک اپ کے بعد ہر مریض کے چہرے پر مسکراہٹ اطمینان اور سکون دیکھا جس کی وجہ میرے خیال میں اپنے شعبے اور اپنے مریض کے ساتھ لگاؤ ، سنسیرٹی اور ایماندار ی ہے جو میں نے اپنے اساتذہ کرام سے سیکھی۔
دو سال میں زندگی کے ہر موڑ پر ہر ازمائش میں مشکل کی گھڑی میں اپنے اساتذہ کو اپنے ماں باپ کی طرح ساتھ کھڑے پایا۔ ریوموٹولوجی کے علم کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے اخلاقیات ، محبت شفقت کا درس بھی دیا۔
ماں باپ کی دعاؤں اور اساتذہ کرام کی رہنمائی سے مجھے انگلستان میں روموٹولوجی میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔اج میں انگلستان کے ایک ہسپتال کے رومٹولوجی ڈیپارٹمنٹ میں فخر سے اپنا تعارف اپنے اساتذہ کرام کی وساطت سے کرواتا ہوں اور دل کی ہر دھڑکن میں اپنے تمام اساتذہ کرام اور روموٹولوجی کے کولیگز کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہوں۔
دعاؤں کا طلبگار۔
*ڈاکٹر راحیل یونس کمبوہ* ۔