Dr. M A Awab Sarwar- Psychiatrist

Dr. M A Awab Sarwar- Psychiatrist A passionate Psychiatrist with years of European experience inc. Addiction care & Childhood disorders

I usually don't interfere with what people sell. But this is concerning. I have come to know some places are offering   ...
14/09/2024

I usually don't interfere with what people sell. But this is concerning. I have come to know some places are offering FOR . Being a child and adolescent trained psychiatrist, I can safely say such approaches have not been recommended by any major body in the world.

𝐑𝐄𝐌𝐄𝐌𝐁𝐄𝐑: 𝐀𝐔𝐓𝐈𝐒𝐌 𝐈𝐒 𝐍𝐎𝐓 𝐀 𝐃𝐈𝐒𝐄𝐀𝐒𝐄 𝐓𝐎 𝐂𝐔𝐑𝐄. It is the way a child's brain has developed, therefore one cannot "cure" it.
At best, such treatments are only 𝒆𝒙𝒑𝒆𝒓𝒊𝒎𝒆𝒏𝒕𝒂𝒍 as of now. So far, the established treatments are a combination of
*𝐩𝐬𝐲𝐜𝐡𝐨𝐥𝐨𝐠𝐢𝐜𝐚𝐥
*𝐛𝐞𝐡𝐚𝐯𝐢𝐨𝐮𝐫𝐚𝐥
*𝐀𝐁𝐀
*𝐬𝐩𝐞𝐞𝐜𝐡
*𝐨𝐜𝐜𝐮𝐩𝐭𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐭𝐡𝐞𝐫𝐚𝐩𝐢𝐞𝐬
*𝐫𝐚𝐫𝐞𝐥𝐲 𝐦𝐞𝐝𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 for symptom control

These approaches are recommended and proven to help children with Autism Spectrum Disorder. Countries like the 𝑼𝑲 𝒉𝒂𝒗𝒆 𝒏𝒐𝒕 𝒂𝒍𝒍𝒐𝒘𝒆𝒅 𝒔𝒕𝒆𝒎 𝒄𝒆𝒍𝒍 𝒕𝒉𝒆𝒓𝒂𝒑𝒚 into practice yet, and I don't think Pakistan has progressed any further in scientific research. Also, quite recently, somebody tried advertising the same stem cell therapy in the UK, however, the medical council and the law authorities quickly responded and negated such claims. Moreover legal action was taken against the people claiming cure for autism via stem cell therapy. There are lots of scams we face around the world, but when it comes to your child's wellbeing, please do not get lured into such claims. Beware and do your own authentic research if you or anyone you know wishes to try such methods.

Autism Spectrum Disorder is not a single professional's domain and requires extensive teamwork.

If you notice your child is struggling with growing and learning, always go first to a:

1. 𝐏𝐚𝐞𝐝𝐢𝐚𝐭𝐫𝐢𝐜𝐢𝐚𝐧 𝑊ℎ𝑜 𝑚𝑎𝑦 𝑟𝑒𝑓𝑒𝑟 𝑡𝑜 𝑎

2. 𝐂𝐡𝐢𝐥𝐝 𝐩𝐬𝐲𝐜𝐡𝐢𝐚𝐭𝐫𝐢𝐬𝐭
𝑊ℎ𝑜 𝑤𝑖𝑙𝑙 𝑑𝑜 𝑎 𝑐𝑙𝑖𝑛𝑖𝑐𝑎𝑙 𝑒𝑣𝑎𝑙𝑢𝑎𝑡𝑖𝑜𝑛 𝑎𝑛𝑑 𝑚𝑎𝑦 𝑖𝑛𝑣𝑜𝑙𝑣𝑒
3. 𝐁𝐞𝐡𝐚𝐯𝐢𝐨𝐮𝐫 𝐓𝐡𝐞𝐫𝐚𝐩𝐢𝐬𝐭, 𝐎𝐜𝐜𝐮𝐩𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧𝐚𝐥 𝐚𝐧𝐝 𝐬𝐩𝐞𝐞𝐜𝐡 𝐭𝐡𝐞𝐫𝐚𝐩𝐢𝐬𝐭𝐬
𝑊ℎ𝑜 𝑤𝑖𝑙𝑙 𝑝𝑟𝑜𝑣𝑖𝑑𝑒 𝑟𝑒𝑙𝑒𝑣𝑎𝑛𝑡 𝑡ℎ𝑒𝑟𝑎𝑝𝑖𝑒𝑠, 𝑐𝑜𝑜𝑟𝑑𝑖𝑛𝑎𝑡𝑒 𝑤𝑖𝑡ℎ 𝑡ℎ𝑒 𝑝𝑠𝑦𝑐ℎ𝑖𝑎𝑡𝑟𝑖𝑠𝑡, 𝑘𝑒𝑒𝑝 𝑝𝑟𝑜𝑔𝑟𝑒𝑠𝑠 𝑎𝑛𝑑 𝑒𝑛𝑔𝑎𝑔𝑒 𝑡ℎ𝑒 𝑝𝑎𝑟𝑒𝑛𝑡𝑠 𝑎𝑛𝑑 𝑢𝑠𝑢𝑎𝑙𝑙𝑦 𝑡ℎ𝑒 𝑡𝑒𝑎𝑐ℎ𝑒𝑟𝑠 𝑎𝑡 𝑠𝑐ℎ𝑜𝑜𝑙 𝑓𝑜𝑟 𝑎 𝑐𝑜𝑚𝑝𝑟𝑒ℎ𝑒𝑛𝑠𝑖𝑣𝑒 𝑝𝑙𝑎𝑛.

𝐒𝐡𝐨𝐮𝐥𝐝 𝐦𝐲 𝐜𝐡𝐢𝐥𝐝 𝐠𝐨 𝐭𝐨 𝐚 𝐬𝐩𝐞𝐜𝐢𝐚𝐥 𝐬𝐜𝐡𝐨𝐨𝐥?
While some children need extensive support from a , it is recommended for most children to attend a mainstream school with some assistance and adjustments. Again, the team will help suggest the best way forward for your child.

If you or any loved one is dealing with an Autistic child, please refer to the following links for authentic information on the subject.

https://www.rcpsych.ac.uk/mental-health/parents-and-young-people/information-for-parents-and-carers/autism-for-parents

https://www.cdc.gov/autism/

https://www.nhs.uk/conditions/autism/

https://www.autism.org.uk/

P.S Not defaming anyone, just asking to stick to proven treatments.





"Oɴᴄᴇ ᴀ ᴘᴀᴛɪᴇɴᴛ ᴀʟᴡᴀʏs ᴀ ᴘᴀᴛɪᴇɴᴛ"یوں تو یہ معقولہ کسی بھی مریض کے لئیے اکثر مانا جاتا ہے مگر سائیکیاٹری کے شعبے میں اسے ...
10/05/2024

"Oɴᴄᴇ ᴀ ᴘᴀᴛɪᴇɴᴛ ᴀʟᴡᴀʏs ᴀ ᴘᴀᴛɪᴇɴᴛ"
یوں تو یہ معقولہ کسی بھی مریض کے لئیے اکثر مانا جاتا ہے مگر سائیکیاٹری کے شعبے میں اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہنی امراض کبھی ٹھیک نہیں ہوتے اور یہ بھی کہ ایک بار علاج شروع ہو گیا تو زندگی بھر اس سے پیچھا نہیں چھوٹے گا۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے، آئیے جانتے ہیں۔

مریض کون ہے؟
سمجھنے کی بات ہے کہ مریض اسے کہا جانا چاہئیے جسے کوئی مرض لاحق ہو۔ مگر ہمارا معاشرہ مریض صرف اسے مانتا ہے جو ہسپتال میں ڈاکٹر کے ذیر علاج ہو، گویا کہ علاج سے پہلے وہ مریض ہی نہیں تھا۔
مریض کی اپنی نظر میں بھی اکثر اوقات جب تک تشخیص اور علاج شروع نہ ہو جائے، دل کو ایک آسرا ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ اور ایک عرصے کے عارضے کے بعد جوں ہی کسی کی تکلیف کو نام دے دیا جائے، یوں لگتا ہے کہ مشکل یہیں سے شروع ہو گی۔ جب علاج پر بات کی جائے تو تقریبا ہر مسئلے میں دو ہی طریقے موجود ہیں۔ پہلا اپنا علاج خود کرنا
(𝒔𝒆𝒍𝒇 𝒉𝒆𝒍𝒑, 𝒍𝒊𝒇𝒆𝒔𝒕𝒚𝒍𝒆 𝒎𝒐𝒅𝒊𝒇𝒊𝒄𝒂𝒕𝒊𝒐𝒏, 𝒑𝒓𝒆𝒄𝒂𝒖𝒕𝒊𝒐𝒏𝒔, 𝒆𝒕𝒄)
اور دوسرا وہ جو ڈاکٹر کرے۔
اچھی کلینکل پریکٹس کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں ممکن ہو، پہلے طریقے کو ترجیح دی جائے۔ البتہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ وہ بغیر علاج کے ٹھیک نہ ہو سکتا ہو، وہاں ادویات اور دوسرے طریقے اپنی جگہ بناتے ہیں۔

دواؤں کا "لگ" جانا
بہت کثرت سے اس فکر کا اظہار ہوتا ہے کہ دوائیں "لگ" جائیں گی اور کبھی چھوڑی نہیں جائیں گی۔ ہم کیا کھاتے ہیں، کیا کیا ادویات اور کیمیکل اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں، اس کی فکر ہمیں ضرور کرنی چاہئیے مگر ان کے"لگ جانے" کی پریشانی سب سے زیادہ سننے میں آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی سال مختلف ممالک میں کام کیا، بے شمار طرح کے مریض دیکھے مگر "دوائی لگنے" کی یہ فکر صرف پاکستان میں دیکھنے کو ملی۔ یہ درست ہے کہ چند ادویات دماغ کو عادی بنا دیتی ہیں جن میں زیادہ تر سکون اور نیند کی دوائیں، درد کے انجکشن، الرجی اور کھانسی کی دوائیوں سمیت کئی فارمولے شامل ہیں۔ عادی کرنے کیلئے کسی بھی دوائی میں ایک خصوصیت ہونی ضروری ہے جو ہے فوری سکون دینے کی طاقت۔ اس کے بر عکس زیادہ تر سائکیاٹرک ادویات فوری سکون کی کیفیت نہیں فراہم کرتیں بلکہ بگڑے ہوئے کیمیائی توازن کو درست کرنے کا کام کرتی ہیں۔ لہذا محض کہی سنی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے خود اپنے ڈاکٹر سے پوچھیں، اور جہاں چاہیں ان سے لکھی ہوئی معلومات مانگ لیں۔ انٹرنیٹ پر صحیح اور غلط دونوں طرح کی بے شمار معلومات موجود ہیں۔ ان میں سے مستند کون سی ہیں، اپنے ڈاکٹر سے پوچھیں یا صرف معیاری اداروں کی ویب سائٹس سے پڑھیں۔

کون سے امراض دائمی ہیں
۔ 𝑵𝒆𝒖𝒓𝒐𝒅𝒆𝒈𝒆𝒏𝒆𝒓𝒂𝒕𝒊𝒗𝒆 𝒅𝒊𝒔𝒐𝒓𝒅𝒆𝒓𝒔 سے مراد وہ امراض ہیں جن میں دماغ سکڑنے لگ جاتا ہے اور اس کی صلاحیتوں میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔ایسے میں علاج کا مقصد صرف باقی باقی رہ گئی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور یہ امراض ٹھیک نہیں ہوتے۔ ان کی علامات بہتر بنانے کیلئے ادویات اور دیگر حربے (𝑴𝒐𝒅𝒂𝒍𝒊𝒕𝒊𝒆𝒔) اکثر زندگی بھر درکار ہوتے ہیں۔
۔ 𝑵𝒆𝒖𝒓𝒐𝒅𝒆𝒗𝒆𝒍𝒐𝒑𝒎𝒆𝒏𝒕𝒂𝒍 𝒅𝒊𝒔𝒐𝒓𝒅𝒆𝒓𝒔 جو پیدائشی طور پر دماغ کی بناوٹی خرابی کے باعث ہوں جن سے بول چال، عقل و سمجھ یا رویے میں مشکل پیش آئے، انہیں مختلف طرح کی تھراپی اور بہت کم کیسز میں دواؤں سے بہتر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں بھی علاج کا مقصد علامتوں کو بہتر کرنا ور صلاحیتوں کا استعمال کروانا ہوتا ہے۔ یہ امراض بھی زیادہ تر عمر بھر رہتے ہیں مگر بہت بار معمولی سہارے کے ساتھ اب زیادہ تر مریض ایک متوازن زندگی گزار سکتے ہیں۔ آج کے دور میں ایسے بے شمار لوگ پڑھ لکھ لیتے ہیں، اپنا کام کر پاتے ہیں، اپنا خاندان سنبھال لیتے ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر باقی ہر کوشش کے باوجود سب سے مختلف ضرور رہ جاتے ہیں۔
۔𝑨𝒄𝒒𝒖𝒊𝒓𝒆𝒅 𝒃𝒓𝒂𝒊𝒏 𝒊𝒏𝒋𝒖𝒓𝒚 جو امراض جو کسی قسم کی چوٹ، خون رکنے یا جمنے، انفیکشن، زہریلے مواد (𝒕𝒐𝒙𝒊𝒏𝒔) یا نمکیات کی خرابی کے باعث دماغ کو نقصان پہنچنے سے واقع ہوں، ذہن کو بعض دفعہ نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں اور یہ امراض زیادہ تر ممکنہ علاج کے باوجود ختم نہیں ہوتے۔ علاج علامات کو بہتر کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔

ان امراض کے علاوہ تقریبا ہر بیماری سے چھٹکارا یا کم سے کم کنٹرول ممکن ہے۔ پریکٹس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہوتی ہے جب کوئی مریض سو فیصد ٹھیک ہو جانے کے بعد بغیر مشورے کے اپنا علاج ترک کر دے۔ چند ماہ بعد پہلے جیسی یا اس سے بھی زیادہ بگڑی حالت میں پہنچ جانا افسوسناک ہوتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس بار مرض صرف اپنا خیال نہ رکھنے سے آیا ہے۔ کئی امراض کی نوعیت ایسی ہوتی ہے جن کے لئیے ایک خاص مدت کیلئے مخصوص طریقہ سے علاج مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
جدید دور میں جہاں نئے امراض سامنے آ رہے ہیں وہاں طریقہ علاج بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہو چکے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ علاج مشورے کے مطابق کیا جائے، اور self-help کے ذریعے خود کو بہتر کیا جائے۔





سائیکیاٹری کے مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں۔ سوالات پر مبنی ایک رائےگزشتہ دنوں اس انتہائی بوسیدہ سوال کا شاید سوویں بار سامنا ہ...
06/05/2024

سائیکیاٹری کے مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں۔ سوالات پر مبنی ایک رائے

گزشتہ دنوں اس انتہائی بوسیدہ سوال کا شاید سوویں بار سامنا ہوا، لہذا سوچا اس پر تجربے اور تحقیق کے مطابق اپنی رائے پیش کر دوں۔

سائیکیاٹری ہے کیا؟
انسانی دماغ کے وہ امراض جو ذہن پر اثر انداز ہوں۔ یہ ہر عمر کے مطابق مختلف ہیں اور ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

کون سے سائیکیاٹرک مسائل بڑھ رہے ہیں؟
ڈیپریشن (Depression) ، پینک ڈسورڈر(Panic Disorder)، بے خوابی (Insomnia) ، نشہ کے امراض (Addictions) اور وہم کی بیماریاں(Obsessive-compulsive disorder) نسبتا ان سب امراض میں زیادہ نمایاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

دوسرا سوال۔ کیا سائیکیاٹری کے امراض پہلے کم تھے؟
اگر آج ہمیں یہ امراض زیادہ نظر آتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے انہیں دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بزرگوں سے پوچھیں تو وہ اپنے زمانے میں "جنات کے اثر" اور "پاگل پن" کے شکار لوگوں کی موجودگی کا ذکر تو کر ہی دیں گے۔ فرق شاید فقط اتنا ہے کہ یہ خاص القابات ہی ان لوگوں کے امراض کا جواب تھے۔ اب جیسے ان امراض کی پہچان، علاج اور آگاہی سامنے آ رہی ہے، محسوس ہوتا ہے گویا مریضوں کی تعداد ہی بڑھ گئی ہو۔

اس طرح تو سب بیماریاں ہی پہلے کم تھیں۔
کوئی شک نہیں کہ آج کا زمانہ نئے مسائل اور بیماریاں لایا ہے۔ کورونا وائرس اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اسی طرح موبائل اور گیمنگ ایڈکشن (Gaming Addiction) سائیکیاٹری کے امراض میں بالکل نئے ہیں۔ لیکن ہر دور کے اپنے امراض رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بہت سے عام امراض کی پہچان نہیں تھی۔ کیا ایک صدی قبل شوگر یا دل کے مریضوں کی تشخیص ہوتی تھی؟ ہمارے بزرگوں کے مطابق تو نہیں۔

ہمارے معاشرے کی رائے۔
رائے کا اظہار کرنا تو سب کا بنیادی حق ہے مگر بلا تحقیق تبصرہ اس حق کے ساتھ نا انصافی ہے۔

دین سے دوری ذہنی بیماریوں کا سبب؟
"اللہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ جب بھلائی کا ارادہ کر لے تو اسے بیماری کی تکلیف اور دیگر مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے"۔ یہ الفاظ ایک حدیث مبارکہ کے ہیں۔ نیز ہر تکلیف کے عوض گناہ معاف کئیے جاتے ہیں، اور کس کے لئیے تکلیف عذاب ہے اور کس کے لئیے آزمائش، اس کا فیصلہ کرنے کا حق ہمیں ہرگز حاصل نہیں۔
ایک مثال آپ کے سامنے رکھوں گا۔ کچھ سال پہلے ایک مریضہ خودکشی کی کوشش کے بعد آئیں۔ جان بچ گئی تھی مگر اس کوشش کی وجہ سے مفلوج ہو چکی تھیں اور ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتی تھیں۔ تفصیلی معائنے پر معلوم ہوا وہ خاتون انتہائی پرہیزگار اور عبادت گزار ہوا کرتی تھیں، پھر عبادت سے دور ہوتی گئیں۔ قرآن مجید کو ہاتھ نہ لگاتیں، گھر سے پاک کلمات کو اتار دیا اور کمرے میں بند ہوگئیں۔ گھر والوں سے ملاقات بھی نہ کرتیں اور جب دیکھتے یہ پریشانی میں کچھ پڑھ رہی ہوتیں۔ کیونکہ نہ صرف وہ جسمانی طور پر مفلوج تھیں بلکہ موت کو قریب سے دیکھنے کے بعد ذہنی صدمے کے باعث خاموش تھیں، اس لئیے ان کے معائنے میں کئی دن لگے۔ معلوم ہوا کہ وہ عبادت گزار خاتون کافی وقت سے مذہب سے متعلق غلط اور گستاخانہ خیالات سے لڑ رہی تھیں۔ اللہ سے معافی مانگتیں، قران کی تلاوت کرتیں مگر ہر کوشش ان خیالات کو مزید بڑھاتی جاتی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے ہار مان کر اپنی گناہگار سوچوں کے ساتھ زندگی پر موت کو ترجیح دی اور خود کشی کی طرف قدم بڑھا دیا۔ خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور طویل علاج کے بعد بہتر بھی ہو گئیں مگر ایسے کئی کیسز ہیں جن میں مذہب سے دوری تو دور، مذہبی رحجانات خود بیماری کی آزمائش کی طرف لے جاتے ہیں۔

تو کیا دینداری بیماری کی وجہ بنتی ہے؟
جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ تحریر کی، اللہ بعض مرتبہ اپنے نیک بندوں کو کسی آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ دینداری کسی مرض کا باعث بنے بلکہ یہ اللہ کا نظام ہے۔ کیا اللہ کے نیک بندے کینسر اور دیگر تکلیفوں کا سامنا نہیں کرتے؟ یہ سب اللہ کی حکمت ہے۔ میرا کہنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ مرض معدے کا ہو یا دماغ کا، کسی کو اس بنیاد پر ہر گز ہرگز دین سے دور ہونے کی تہمت نہیں لگانی چاہئیے۔ کون اللہ کے کتنا قریب ہے، اس کے فیصلے کا ہمیں اختیار نہیں ہے۔

معاشرہ، ٹینشن اور سائکیاٹرک امراض
آج کے معاشرے میں پریشانیاں یقینا بہت ہیں۔ بہت سے لوگ بے بسی اور مظلومیت کا شکار ہیں، نا انصافی عام ہے۔ تو کیا یہ سب ان امراض کی وجہ ہے۔ ہاں اور نہیں۔ سمجھ لیجیئے کہ تمام طبی شعبوں کی طرح سائکیاٹرک امراض کی وجہ بھی جسمانی خرابی ہے، یعنی دماغ میں موجود خلیوں اور کیمیات کی بے ترتیبی۔ حالات ومشکلات یقینا امراض کا رحجان بڑھا دیتے ہیں جیسے صدمہ دل کے دورے اور ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔ مگر ایک تو ہر مشکل یا صدمہ کے وقت مرض نہیں ابھرتا، دوسرا یہ کہ ایک ہی صدمے سے گزر کر کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کوئی نہیں، اور تیسرا کہ بے شمار بار بغیر کسی حادثے، صدمے یا پریشانی کے کوئی سائیکیاٹرک مرض سامنے آجاتا ہے۔

وجہ کیا ہے
دماغ میں انے والی کیمیائی خرابیوں کی ایک عام وجہ منشیات، نیند آور ادویات اور شراب نوشی ہیں، نیز عادتوں کا نشہ (Non-substance Addictions) ہے۔ نیند کی بے حد کمی، جسمانی امراض، دوسرے امراض کی دوائوں کا رئیکشن اور دماغ پر آنے والی (بعض نہ نظر آنے والی) چوٹیں بھی ان کی وجہ بنتی ہیں۔

بچاوء ممکن ہے
بحیثیت انسان ہم اکثر خود کو بے بسی کا پتلا سمجھ لیتے ہیں، مثلا آخر انسان کے اختیار میں ہے ہی کیا۔ تو کیوں جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔ صدمے پریشانیوں سے بھاگ تو نہیں سکتے مگر غیر ضروری پریشانیوں کو نظر انداز کرنا تو سیکھ سکتے ہیں۔ پریشانی میں سٹریس کو کم کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر پہلے سے خود کو تیار کیوں نہیں کرتے؟ اللہ تعالٰی نے اس اشرف المخلوقات کو شعور کی ایک قسم (Higher Mental Functions) کی صورت میں دی ہے۔ Problem solving, planning اور Decision-making جیسی نعمتیں ہمیں دی گئی ہیں۔ اندرونی اور بیرونی کھچاو (Conflicts) سے نکلنے کی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔ مرض کے ابھرتے وقت اسے پہچاننا اتنا مشکل نہیں جتنا سائکیاٹرک بیماری کے لگ جانے کا وہ خوف ہے جو ہمیں بیماری کی آخری حد تک پہنچنے سے پہلے علاج سے روکے رکھتا ہے۔ ادویات سے متعلق زیادہ تر غلط اور جاہلانہ قیاس آرائیاں بہت سوں کو مرض کی شدت تک پہنچا دیتی ہیں۔ اور سگریٹ نوشی، نیند کی دوائوں کا بے جا استعمال، چرس اور دیگر منشیات کی شروعات تو سب اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ Addiction تک پہنچنے سے پہلے خود میں موجود طاقت و قابلیت کو ٹٹول لیا جائے تو شاید کوئی ان کے مرض میں گھرے ہی نہ۔ آخری بات یہ کہ زندگی میں اعتدال لے آئیں تو ذہنی ہی نہیں، بہت سی جسمانی بیماریوں سے بچاو ممکن ہے۔

01/05/2024

𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫𝐬
یوں تو ہر انسان کی شخصیت منفرد ہے، اور ہر شخصیت میں بہت سی خوبیاں اور چند عیب پائے جاتے ہیں۔ مگر سائیکیاٹری کے نقطہ نظر سے چند افراد میں عادات و کردار (Traits) اس قدر شدت سے پائے جاتے ہیں کہ ایک مرض نما صورت اختیار ہو جاتی ہے۔ یہ عادات خود کے لیے یا ارد گرد لوگوں کے لئیے مسلسل مشکلات کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی لیے 𝘐𝘯𝘵𝘦𝘳𝘯𝘢𝘵𝘪𝘰𝘯𝘢𝘭 𝘊𝘭𝘢𝘴𝘴𝘪𝘧𝘪𝘤𝘢𝘵𝘪𝘰𝘯 𝘰𝘧 𝘋𝘪𝘴𝘦𝘢𝘴𝘦𝘴 (ICD) ان شخصیات کو 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫𝐬 کا نام دیتی ہے جن میں تقریبا دس 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫𝐬 شامل کئے گئے ہیں۔انہی میں سے ایک 𝐀𝐧𝐭𝐢𝐬𝐨𝐜𝐢𝐚𝐥 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫 ہے۔

𝔸𝕟𝕥𝕚𝕤𝕠𝕔𝕚𝕒𝕝 ℙ𝕖𝕣𝕤𝕠𝕟𝕒𝕝𝕚𝕥𝕪 𝔻𝕚𝕤𝕠𝕣𝕕𝕖𝕣
یہ 𝘗𝘦𝘳𝘴𝘰𝘯𝘢𝘭𝘪𝘵𝘺 𝘋𝘪𝘴𝘰𝘳𝘥𝘦𝘳 قدرے مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اس کا شکار افراد سائیکیاٹرسٹ یا ہسپتال سے از خود رجوع نہیں کرتے بلکہ یہ عموما قانون کے ذریعے تشخیص و علاج کے لئیے پہنچتے ہیں۔

𝔸𝕣𝕖 𝕪𝕠𝕦 𝔸𝕟𝕥𝕚𝕤𝕠𝕔𝕚𝕒𝕝?
کم میل جول رکھنے والے افراد اکثر خود کو 𝐀𝐧𝐭𝐢𝐬𝐨𝐜𝐢𝐚𝐥 کہہ دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ ایسے رحجانات 𝐚𝐬𝐨𝐜𝐢𝐚𝐥 تو کہلائے جا سکتے ہیں مگر Antisocial نہیں۔ لفظ "Anti" کا معنی مخالفت ہے۔ Antisocial کے معنی معاشرے (society) کے اطوار کے مخالف سمت چلنا ہے، یعنی معاشرے کے نظام، قوانین اور حقوق کو رد کرنا۔ خود کو من پسند چیزوں کا حقدار سمجھنا، دوسروں کے حقوق کو اہم نہ سمجھنا، اپنی من مانی کرنا، طیش میں آ جانا، قوت برداشت کا کم ہونا، کھلم کھلا قوانین کو پامال کرنا اور شدید ترین اقدام اٹھا لینا۔ نیز یہ کہ اپنا مقصد پانے کے لئیے جھوٹ، فریب، دوسروں کے جذبات سے کھیلنا ان کا معمول پایا جاتا ہے۔ یہاں تک آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے رحجانات تو ہم اکثر لوگوں میں اور بعض دفعہ خود میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ مگر دو بہت اہم نقطے اس Antisocial 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫 کو عام عادات سے منفرد بنا دیتا ہے۔ اور وہ ہے 𝐄𝐦𝐩𝐚𝐭𝐡𝐲 اور پچھتاوے کا نہ ہونا۔𝐄𝐦𝐩𝐚𝐭𝐡𝐲 ایک ایسی حس ہے جس سے ہم دوسروں کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثلا کسی مظلوم یا بیمار کی کیفیت کا احساس ہونا۔ کسی کو سسکتا دیکھنے سے بہت سوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں۔ 𝐀𝐧𝐭𝐢𝐬𝐨𝐜𝐢𝐚𝐥 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐃𝐢𝐬𝐨𝐫𝐝𝐞𝐫 کے شکار افراد میں ایسی حس دیکھنے میں نہیں ملتی۔ دل کیا تو تو کسی جانور کو محض شغل کے لئیے کار کے نیچے کچل دیا، عام بات چیت کے دوران کسی شخص کے دکھوں کو مذاق میں چھیڑ دیا۔ دوسرا رحجان پچھتاوے کی حس سے متعلق ہے۔ یعنی ایسا کام جو اپنے مذہب، معاشرے، قانون یا خود کے نزدیک ہی غلط سمجھا جائے، اسے کرنے کے بعد شرمندگی اور افسوس (Remorse) کو محسوس نہ کر پانا اس Personality Disorder کی دوسری بڑی علامت ہے۔
تو کیا یہ جاننے کے بعد بھی کسی unsocial طبیعت رکھنے والے کا خود کو Antisocial کہنا درست ہو گا؟

۔𝔸𝕟𝕥𝕚𝕤𝕠𝕔𝕚𝕒𝕝 ℙ𝕖𝕣𝕤𝕠𝕟𝕒𝕝𝕚𝕥𝕪 کی پہچان

اس مسئلے کی صحیح تشخیص ایک انتہائی تفصیلی عمل ہے جس کے لئیے محنت، باریک بینی اور پیشہ ورانہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس کی تشخیص 𝘍𝘰𝘳𝘦𝘯𝘴𝘪𝘤 𝘗𝘴𝘺𝘤𝘩𝘪𝘢𝘵𝘳𝘪𝘴𝘵 کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک یہ sub-specialty موجود نہیں ہے، تاہم یہ کام جنرل سائیکیاٹرسٹ ہی عام طور پر انجام دیتے ہیں، جو مخصوص میڈیکل بورڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔
ان کی تشخیص پر تو اس آرٹیکل میں مزید بیان کرنا ممکن نہیں، البتہ ایسے رحجانات کو پہچانا جا سکتا ہے۔

ایسے انسان کا تصور کریں جو محظ تفریح کے لئیے ایسے کھیل کھیلتا ہو جو ان کے یا دوسروں کے لئیے خطرناک ہوں، جیسے تیز گاڑی چلانا، بے جا اسلحہ استعمال کرنا یا خطرناک حد تک منشیات استعمال کرنا۔ جسے لطف اٹھانے کی طلب ہو اور اپنی راحت کے لئیے جھوٹ، چوری، ڈکیتی یا کوئی بھی گھناؤنا کام کرنا ہو، اپنا بنیادی حق سمجھ کر کر گزرے۔ حالت اور احساسات کسی دوسرے کی نظر سے نہ دیکھ سکتا ہو۔ جو معمولی مشکلات میں برداشت کھو دیتا ہو، جلدی طیش میں ا جاتا ہو، اور ایسے میں اگر کسی کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچا دے، اسے ندامت نہ ہوتی ہو۔ کسی کی تکلیف سن کر اسے اثر نہ ہو یہاں تک کہ انتہائی حولناک خبروں پر بھی جذبات نہ رکھتا ہو۔ قانون کو خود پر لازم نہ سمجھتا ہو، اور معاشرے کے اصول و ضوابط کو غیر ضروری سمجھتا ہو۔ خود کی ضرورت کو صحیح غلط کے تصور سے بالا تر رکھتا ہو۔ پولیس اور عدالتی مقدمات میں ملوث رہا ہو نا ہی ان مسائل سے گھبراتا ہو۔ مقصد پانے کے لئیے بیان بدل لیتا ہو، دوسروں کو مخصوص طرز سے قائل کر لیتا ہو اور ان کے جذبات کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لیتا ہو۔ ایسے افراد کئی بار معمولی تنازعات میں قتل اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

یہ کیوں ہوتا ہے؟
سائینس اسے کئی عناصر (Factors) کے ذریعے بیان کرتی ہے۔ دماغ کی بناوٹ، دماغ کے مخصوص حصوں مثلا 𝐚𝐦𝐲𝐠𝐝𝐚𝐥𝐚 جو ہمدردی کی حس رکھتا ہے، کی طرف خون کی بندش ہونا، دماغ پر چوٹ آنے کے بعد کئی حسوں کا بدل جانا۔
یاد رہے کہ صحیح غلط کی تفریق کا ایک بڑا حصہ 𝘰𝘣𝘴𝘦𝘳𝘷𝘢𝘵𝘪𝘰𝘯𝘢𝘭 𝘭𝘦𝘢𝘳𝘯𝘪𝘯𝘨 یعنی مشاہدہ کے ذریعے سیکھنا ہے۔ جو رویے دیکھے اور جنہیں برداشت یا مقبول دیکھا، بچہ انہیں صحیح سمجھ کر اپناتا ہے۔
تاہم کم عمری میں شدید صدموں اور اذیتوں کا سامنا کرنا، بچپن میں پیار یا حفاظت نہ ملنا۔ بچپن سے والدین کو جھگڑتے دیکھنا، جہاں گھر میں مار پیٹ اور تشدد عام ہو، اور بعض دفعہ بچپن میں میں خود ہی تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہوں، جہاں باپ کا تصور محافظ کی بجائے ظالم کا ہو۔ کئی بار جن گروں میں سربراہ شراب و منشیات کے عادی ہوں، وہاں نشے کی حالت میں محض چیخنا چلانا بچے کے ذہن پر ہمیشہ کیلئیے نقش ہو جاتا ہے اور یہی رویے عمر کے ساتھ خود اس میں سما جاتے ہیں۔

یہ عناصر ایسے کئی افراد میں ملتے ہیں مگر بعض دفعہ اس کی وجہ تلاش کرنا ایک معمہ ہی رہ جاتی ہے۔

حل کیا ہے؟

سب سے پہلے ان رحجانات کی پہچان انتہائی ضروری ہے۔ خاص کر ایسے اداروں اور ایسی مراتب پر کام کرنے والوں کی 𝐏𝐞𝐫𝐬𝐨𝐧𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐀𝐬𝐬𝐞𝐬𝐬𝐦𝐞𝐧𝐭 𝐚𝐧𝐝 𝐏𝐫𝐨𝐟𝐢𝐥𝐢𝐧𝐠 ضرور ہونی چائیے جہاں اختیارات ہوں یا ہتھیاروں تک رسائی ہو۔ ورنہ اختیار یا ہتھیار کا استعمال انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جنہیں بار بار پولیس گرفتار کرتی ہو، یا ان کے خلاف کئی بار مقدمہ درج ہوتا ہو، انہیں 𝐀𝐬𝐬𝐞𝐬𝐬𝐦𝐞𝐧𝐭 کی یقینا ضرورت ہوتی ہے تا کہ کسی سنگین قدم سے پہلے مسئلے کی تشخیص ہو جائے۔

ℂ𝕠𝕣𝕣𝕖𝕔𝕥𝕚𝕠𝕟𝕒𝕝 𝔽𝕒𝕔𝕚𝕝𝕚𝕥𝕚𝕖𝕤
مغرب capital punishment سے زیادہ مجرمانہ رویوں کی درستگی کی وکالت کرتی ہے۔ ایسی facilities موجود ہیں جہاں ان رویوں کو صحیح کرنے پر کام کیا جاتا ہے۔

𝕄𝕖𝕕𝕚𝕔𝕒𝕥𝕚𝕠𝕟
چونکہ کئی عناصر اس مرض کی وجہ ہیں، تاہم اس کا علاج کسی مخصوص دوا میں نہیں۔ البتہ کچھ دوائیں خاض علامات کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں، جیسے کہ جلد بازی، غصہ، زیادہ شہوت اور مزاج کے اتار چڑھاو۔

ℙ𝕤𝕪𝕔𝕙𝕠𝕥𝕙𝕖𝕣𝕒𝕡𝕪 𝕒𝕟𝕕 𝔹𝕖𝕙𝕒𝕧𝕚𝕠𝕦𝕣 𝕄𝕠𝕕𝕚𝕗𝕚𝕔𝕒𝕥𝕚𝕠𝕟
ایسی صورت میں جہاں Antisocial Personality Disorder کا شکار شخص خود مرضی سے تیار ہو جائے، سائیکوتھراپی اور Behaviour Modification بہت مفید ہو سکتی ہیں۔

ہمارا معاشرے میں ہمارا کیا کردار ہونا چاہئیے
بد قسمتی سے ہمارے قانونی نظام کی کمزوری ایسے افراد سے دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لئیے ناکافی ہے۔ اس لئے ایسے رحجانات کی پہچان خود کرنا بہتر ہے۔ جہاں پہچان نہ کر پائیں، خوود کو اور اپنے عزیزوں کو کسی معاملے یا تنازعہ میں ہر گز نہ اکسائیں۔
امید ہے کہ یہ معلومات آپ کے لئے مفید اور دلچسپ ہونگی۔



A passionate Psychiatrist with years of European experience inc. Addiction care & Childhood disorders

EID MUBARAK!Wish you and your family a joyful and blessed Eid ul Fitr. Let's all pray and wow to continue to improve our...
10/04/2024

EID MUBARAK!
Wish you and your family a joyful and blessed Eid ul Fitr. Let's all pray and wow to continue to improve our submission to Allah as we tried during Ramadan. And let's remember our Palestinian brothers and sisters in their time of oppression.
دل کی گہرائیوں سے آپ کو اور آپ کی فیملی کو عید مبارک۔ آئیے اس موقعہ پر اللہ کے حکم کی تعمیل کا ارادہ کریں جیسی ہم نے رمضان میں کوشش کی۔ اور اپنی دعاؤں میں اپنے مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کو یاد رکھیں۔

Best wishes,
Dr. M A Awab Sarwar
Consultant Psychiatrist

03/04/2024

If a self-proclaimed country's militant force kills/ martyrs tens of thousands of innocent men, women and children, calling that so-called country a terrorist organisation is not acceptable to facebook. It is, however, acceptable to remind ourselves that we, as Muslims, must correct our ways as we seek Allah's help. This Ramadan, let's make Tawbah and promise to part ways with haraam, bribery, interest, deception, prejudice and all that goes against the principles of Deen. Let's wow to make effort to revive the spirit of Islam in our lives and in the society. Do remember the brothers and sisters from Palestine in your prayers.

27/02/2024
یہ تحریر ذاتی مطالعے اور تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد صرف آگاہی فراہم کرنا ہے، کسی کے عقائد اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہر...
20/02/2024

یہ تحریر ذاتی مطالعے اور تجربے پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد صرف آگاہی فراہم کرنا ہے، کسی کے عقائد اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہرگز نہیں۔

ℍ𝕠𝕞𝕠𝕤𝕖𝕩𝕦𝕒𝕝𝕚𝕥𝕪, 𝕡𝕤𝕪𝕔𝕙𝕚𝕒𝕥𝕣𝕪, 𝕔𝕦𝕝𝕥𝕦𝕣𝕖 𝕒𝕟𝕕 𝕀𝕤𝕝𝕒𝕞

ہم جنسی، سائیکیاٹری، روایات اور اسلام

ہم جنسی یا 𝒉𝒐𝒎𝒐𝒔𝒆𝒙𝒖𝒂𝒍𝒊𝒕𝒚 کوئی نیا معاملہ نہیں بلکہ صدیوں پرانے قصوں اور اثار قدیمہ سے اس سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔

𝐇𝐨𝐦𝐨𝐬𝐞𝐱𝐮𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲

1. ہم جنسی رحجان 𝐇𝐨𝐦𝐨𝐬𝐞𝐱𝐮𝐚𝐥 𝐨𝐫𝐢𝐞𝐧𝐭𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧

صرف اپنے ہم جنس افراد کی جانب جنسی (sexual) کشش یا ہم جنس سے تعلق بنانے کی مخالف جنس کی نسبت خواہش کا زیادہ ہونا۔

2۔ ہم جنس رویے 𝐡𝐨𝐦𝐨𝐬𝐞𝐱𝐮𝐚𝐥 𝐩𝐫𝐚𝐜𝐭𝐢𝐜𝐞𝐬

مندرجہ بالا رحجان کے زیر اثر یا اس کے علاوہ ہم جنس افراد سے تعلق قائم کرنا۔

3۔ 𝐋𝐆𝐁𝐓𝐐

یہ مخفف نسبتا موجودہ دور کی ایجاد ہے۔ اس میں ہم جنس رویے رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ شامل ہوتے ہیں جو ذہنی یا پیدائشی طور پر خود کو کسی ایک جنس کے مطابق نہیں پاتے۔

حال ہی میں دنیا بھر میں یہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں ان افراد کے ساتھ ساتھ بے شمار لوگ، ادارے اور حکومتیں شامل ہیں۔ اس کا مقصد ظاہری طور پر ان افراد کو مساوی حقوق اور اپنی ایک آواز دلانا ہے۔

𝐇𝐨𝐦𝐨𝐬𝐞𝐱𝐮𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 𝐚𝐧𝐝 𝐏𝐬𝐲𝐜𝐡𝐢𝐚𝐭𝐫𝐲

1973 سے قبل ہم جنسی رحجان کو ذہنی مرض مانا جاتا تھا۔ اس دور میں ان کے ساتھ کئے جانے رویے اور بے بنیاد علاج کے حربے ایک طرف، انہیں بنیادی حقوق تک سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ یہ وجہ تھی کہ ان کے حق میں تحریک جاگی اور دیکھتے دیکھتے بے شمار لوگ جو پہلے اپنے رحجان کو خوف سے پوشیدہ رکھتے تھے، سامنے آنے لگے۔
کیونکہ زیادہ تر ذہنی بیماریوں کا کوئی واضح ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا، تاہم ان کی تشخیص کے لئیے کچھ معیار یا گائڈ لائنز مقرر کی جاتی ہیں جنہیں دنیا بھر کے سائیکیاٹرسٹس اپنی پریکٹس میں استعمال کرتے ہیں۔ ان گائڈ لائنز میں کسی مسئلے کو ذہنی مرض ثابت کرنے کے لئیے دو محرقات بہت اہم ہیں۔

1۔ علامات کا عام لوگوں کے لئیے انہونی ہونا۔ 𝑼𝒏𝒔𝒖𝒂𝒍 𝒔𝒚𝒎𝒑𝒕𝒐𝒎𝒔

2۔ ان کا اپنے سماجی اور معاشی زندگی پر اثر انداز ہونا۔
𝑰𝒎𝒑𝒂𝒊𝒓𝒆𝒅 𝒔𝒐𝒄𝒊𝒂𝒍 𝒂𝒏𝒅 𝒐𝒄𝒄𝒖𝒑𝒂𝒕𝒊𝒐𝒏𝒂𝒍 𝒇𝒖𝒏𝒄𝒕𝒊𝒐𝒏𝒊𝒏𝒈

چونکہ مغرب میں آزادئ رائے اور سیکولرزم عام ہو رہا تھا، یہ بڑھتے رحجانات اور رویے اب عوام کے نزدیک عیب نہیں رہے تھے۔ نیز اور دئیے گئے نکات کے مطابق ایسے افراد کسی مرض کی تعریف پر پورا نہیں اترتے تھے، لہذا ان مسائل کو ذہنی امراض کی فہرست سے نکال دیا گیا۔

یہ ہوتا کیوں ہے؟
𝐖𝐡𝐚𝐭 𝐜𝐚𝐮𝐬𝐞𝐬 𝐢𝐭?
اس رحجان کی وجہ کا واضح ثبوت اب تک نہیں ملا، البتہ کچھ نقات پر مزید تحقیق درکار ہے۔

1۔ ہارمون کے مسائل۔
𝐄𝐧𝐝𝐨𝐜𝐫𝐢𝐧𝐨𝐥𝐨𝐠𝐢𝐜𝐚𝐥 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐮𝐫𝐛𝐚𝐧𝐜𝐞𝐬
بعض ہارمون جیسے ٹیسٹوسٹیرون، ایسٹروجن، ایف ایس ایچ، ایل ایچ، وغیرہ کے مقدار کا نا مناسب ہونے سے یا ان ہارمون کے اثرات میں خلل کی وجہ سے جنسی خواہش اور رویوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔

2۔ دماغ کی بناوٹ
𝐓𝐡𝐞 𝐫𝐨𝐥𝐞 𝐨𝐟 𝐁𝐫𝐚𝐢𝐧
دماغ کے کچھ حصے جیسے کہ 𝒂𝒎𝒚𝒈𝒅𝒂𝒍𝒂, 𝒑𝒓𝒆𝒇𝒓𝒐𝒏𝒕𝒂𝒍 𝒄𝒐𝒓𝒕𝒆𝒙, 𝒉𝒚𝒑𝒐𝒕𝒉𝒂𝒍𝒂𝒎𝒖𝒔, 𝒕𝒉𝒂𝒍𝒂𝒎𝒖𝒔, 𝒑𝒓𝒆𝒇𝒓𝒐𝒏𝒕𝒂𝒍 𝒈𝒚𝒓𝒖𝒔 جنسی خواہشات، رحجان اور رویوں پر اثر کرتے ہیں۔ چند تحقیقات کے مطابق دماغ کے ان حصوں میں خون کی کم روش، نسوں کے کٹ جانے یا ان حصوں کی نا مکمل بناوٹ سے جنسی رحجان میں تبدیلیاں ظاہر ہوئی ہیں۔ کیا یہی معاملہ ہم جنسی کیفیت کی وجہ ہے، اس کا مکمل جواب اب تک میسر نہیں۔

3۔ پرورش اور سیکھنا
𝑫𝒆𝒗𝒆𝒍𝒐𝒑𝒎𝒆𝒏𝒕𝒂𝒍 𝑳𝒆𝒂𝒓𝒏𝒊𝒏𝒈
مختلف جنس سے بھرپور گرانے میں پلنے یا مختلف جنس کے افراد کو کم عمری سے ہی ماحول پر غالب دیکھنے سے ان کی گہری صحبت کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں پلنے والے صرف چند افراد ہی کیوں بڑے ہو کر ہم جنسی کی طرف مائل ہوتے ہیں، اس کا کوئی حتمی جواب نہیں۔
خاص کر مغرب میں جہاں ہم جنس جوڑوں 𝒔𝒂𝒎𝒆 𝒔𝒆𝒙 𝒄𝒐𝒖𝒑𝒍𝒆𝒔 کو مساوی حقوق حاصل ہیں، کئی بچے ان کے انداز دیکھتے اور ان سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پنا لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسے معاشرے میں بچپن گزارنا جہاں لوگ اپنی شناخت کو پہچان نہ پا رہے ہوں، بچے کے لیئےذہنی الجھائو کا باعث بن جاتا ہے، اور وہ اپنی پہچان پانے کے لئیے مختلف رحجانات اپناتا چلا جاتا ہے۔ جہاں اسے حوصلہ افزائی ملے وہ یقینا اس کی طرف زیادہ مائل ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ان رحجانات کی بڑھتی قبولیت کم عمر افراد کو اس طرف زیادہ کھینچتی جا رہی ہے۔

4۔ بچپن کے واقعات اور تجربات
𝐂𝐡𝐢𝐥𝐝𝐡𝐨𝐨𝐝 𝐞𝐱𝐩𝐞𝐫𝐢𝐞𝐧𝐜𝐞𝐬

اس میں کوئی شک نہیں کہ بچپن کے تجربات ہماری شخصیت، سوچ اور انداز پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ کم عمری میں شدید صدمے اور حادثات، فراموش ہونے (𝒏𝒆𝒈𝒍𝒆𝒄𝒕) سے بچے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بگڑ سکتی ہے، اور وہ بوکھلاہٹ اور اضطراب میں اپنی نہ سمجھ آنے والی زندگی کے جواب ڈھونڈتے ہوئے نئے انداز و اطوار اپنانے لگتا ہے۔ جس معاشرے میں ہم جنسی کو عوام، اداروں اور حکومتوں کی ہمایت حاصل ہو گی، وہاں ان نوجوانوں کے رحجان کے ٹھہر جانے کا امکان ہو گا۔ جو معاشرے ان رحجانات کو قبول نہیں کرتے، وہاں یا تو ایسا فرد اپنی پہچان کی تلاش جاری رکھے گا یا اپنے رحجان کو پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہوگا۔ دونوں ہی صورتوں میں ایسے افراد کو مدد اور رہنمائی درکار ہوتی ہے۔

𝕀𝕤𝕝𝕒𝕞𝕚𝕔 𝕊𝕥𝕒𝕟𝕔𝕖 𝕒𝕟𝕕 ℂ𝕦𝕝𝕥𝕦𝕣𝕖
معاشرے کا کردار اور اسلام میں اس کی حیثیت

یہ سمجھنا شاید بہت اہم ہے کہ پاکستانی معاشرہ اور دین اسلام دونوں قدرے مختلف ہیں۔ نا تو ہم جنسی کو ہمارا معاشرہ قبول کرتا ہے اور نا ہی دین اسلام میں ان افعال کی قطعی طور پر کوئی گنجائش ہے۔ البتہ معاشرہ عموما محض مسائل کا سطحی پہلو دیکھتا ہے اور اسی بنیاد پر ان افراد کو ٹھکرا دیتا ہے۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق جہاں قران مجید میں قوم لوط کے رویوں اور انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں شرعی احکامات بھی ملتے ہیں۔ ان احکامات پر معاشرہ اگر عمل کرے تو ہم جنس رویے تو کم ہو جائیں گے، ساتھ ہی ساتھ عوام کے رد عمل سے خوف کی بجائے ایسے رحجان کے شکار افراد مدد حاصل کر سکیں گے۔ البتہ پاکستانی معاشرہ شریعت کے بیشتر قوانین کو لاگو کرنے سے قاصر ہے، یا یوں کہیں کہ انہیں نافذ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ لہذا یہ افراد کسی ڈاکٹر کے سامنے بھی مسئلہ بتاتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کہیں صرف ان کے اندرونی رحجان کی بنیاد پر انہیں تشدد یا رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یوں سمجھئے کہ جیسے کئی افعال کی کشش عام انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر وہ قرآن و سنت یا شریعت میں ممنوع ہیں۔ جب تک کوئی ایسے اعمال کو اعلانیہ طور پر نہ کرے، ان پر کوئی رد عمل نہیں آتا۔ ہم جنسی رحجان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کشش کے خلاف اس عمل سے بچنا یقینا مشکل ہوتا ہے مگر اسلامی تعلیمات کے مطابق جتنی بڑی آزمائش ہو گی، اسی کے مطابق اس کا صلہ ملے گا۔

کیا کرنا چاہئیے!
𝕎𝕙𝕒𝕥 𝕥𝕠 𝕕𝕠!
کوئی شک نہیں کہ ان افراد کی اندرونی کیفیات سے ان سے زیادہ کوئی دوسرا واقف نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف ان کی کھلے عام حمایت دین کے احکامات اور معاشرے کے اطوار کے خلاف ہے، تو دوسری طرف انہیں تنقید کا نشانہ بنانا اور انہیں برے ناموں سے بلانا بھی کسی تعلیمات کا حصہ نہیں۔ اپنے عقیدے کے مطابق اگر ہم کسی فعل کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کے لئیے مناسب طریقے سے آواز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی کے اندرونی احساسات کی بنیاد پر انہیں تکلیف دینا بھی مناسب نہیں۔
اس رحجان کے شکار افراد کے لئیے خود پر قابو رکھنا بھی ذہنی طور پر نہایت مشکل ہوتا ہے اور اسے میں ان کی خود پر قابو رکھنے پر داد رسی ہونی چاہیئے۔ کسی کے معاملے میں بھی ذہن میں حتمی نتیجہ بنانے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہئیے اور انہیں ماہرین سے مدد طلب کرنے کا مشورہ دینا چاہیئے۔

سائیکیاٹرسٹ کیا کر سکتے ہیں؟
𝕎𝕙𝕒𝕥 ℂ𝕒𝕟 𝕒 ℙ𝕤𝕪𝕔𝕙𝕚𝕒𝕥𝕣𝕚𝕤𝕥 𝔻𝕠?

سب سے پہلے ایسے فرد (یا مریض) سے تفصیلی معلومات درکار ہوتی ہیں، پھر طبی معائنہ، کچھ ٹیسٹ اور دیگر ماہرین جیسے گائناکالوجسٹ، انڈوکرائینالوجسٹ وغیرہ سے مشاورت کی جاتی ہے۔ اس کے بعد مریض کی اجازت اور خواہش کے مطابق انتہائی باریکی سے ان کی مکمل زندگی کے حالات اور ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جاتا ہے جسے کئی سیشن درکار ہوتے ہیں اور یہ مرحلہ ہفتوں جاری رہتا ہے۔ ان کے رحجانات کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش جاری رہتی ہے اور اکثر وکات ایسی وجوہات مل جاتی ہیں۔ اسکے بعد سائیکوتھراپی کے ذریعے ذہن کی گرہیں کھولنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ مریض کے لئیے بعض اوکات تکلیف دہ ہوتا ہے خاص کر جب ان واقعات اور معاملات کو سامنے لایا جائے جنہیں انہوں نے ذہن کی گہرائیوں میں دبایا ہوا تھا۔ ان کی ہمت، قوت ارادی اور خاندان کے سہارے کے ساتھ ایک طویل محنت کے بعد یہ افراد ممکنہ حد تک خود کو پہچاننے، خود پر قابو پانے، بے چینی کم کرنے اور اس مسئلے کے ساتھ یا اس سے نکل کر آگے بڑھ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔





11/02/2024

Call us: 03313622922
عادت کسی کام میں خوشی یا اطمینان ملنے سے ہی بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کام اور منشیات سے ملنے والی وقتی کیفیت اس کے دہرانے کی عادت بن جاتی ہے اور آخر میں ایڈکشن کی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ انسائیٹ ہیلتھ کئیر ماہرین کے ذیر نگرانی پاکستان میں اپنی طرز کی منفرد سروس ہے جہاں مرض کے ساتھ اس کی وجوہات پر توجہ دی جاتی ہے۔

28/12/2023

Dr. Awab Sarwar is a Psychiatrist with Special Interest In Child Psychiatry Including ADHD, Tics, Childhood Anxiety & Depression, Developmental Disorders and Emotional, conduct & Behavioural Disorders In Children. I Specialize In Adult Anxiety & Mood Disorders, Eating Disorders, Sleep & Sexual Disorders, Personality Disorders, Psychoses, Dissociative Disorder, Epilepsy And Dementia. His experience abroad helped me practice in various sub-specialties of Psychiatry including General Adult, Child, Old Age, Laison & Emergency Psychiatry.
Contact us today at: +923313622922/www.insighthealthcare.co or visit our clinic:
2nd Floor TAMC building, 27-C3 MM Alam Road, Gulberg III Lahore Punjab

21/12/2023

Types of selfcare to help you ease your mind!

Address

MM Alam Road
Lahore
54000

Opening Hours

Monday 13:00 - 21:00
Tuesday 13:00 - 21:00
Wednesday 13:00 - 21:00
Thursday 13:00 - 21:00
Friday 13:00 - 21:00
Saturday 13:00 - 21:00

Telephone

+923313622922

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. M A Awab Sarwar- Psychiatrist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. M A Awab Sarwar- Psychiatrist:

Share

Category