18/09/2025
دل کی باتیں ۔
ایک بزرگ ہارٹ اٹیک کے بعد ہمارے ہسپتال میں داخل تھے ۔ ان کی بیگم نہایت خاموشی سے ان کی خدمت کرتی رہتیں ۔ چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ بہت زیادہ پریشان اور اکتائی ہوئی سی ہیں ۔ یہ بزرگ ہر وقت اپنے بچوں کو برا بھلا کہتے رہتے تھے ۔ ایک بیٹا صبح کا ناشتہ لے کر آئے تو انہیں بہت زیادہ برے الفاظ سے مخاطب کیا ۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے ۔ بیٹی آئیں تو ان سے بھی سخت لہجے میں بات کی ۔ بچے بھی بہت گھبرائے ہوئے اور پریشان سے لگتے ۔ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کمرے میں نہ جاتے ۔ میں نے ان بزرگ سے پوچھا کہ آپ اتنے اونچے اور سخت لہجے میں کیوں بات کرتے ہیں تو فرمانے لگے کہ گھر کا سربراہ ہوں ۔ اگر اتنی سختی نہ کروں تو یہ لوگ تو خدمت ہی نہ کریں ۔ گھر میں مرد کا رعب دبدبہ بہت ضروری ہے ورنہ گھر نہیں چلتا ۔
ایک اور بزرگ داخل تھے ۔ کیا ان کی عزت کی جارہی تھی ۔ پورے خاندان نے ہسپتال کے باہر ڈیرے لگائے ہوئے تھے ۔ اتنی خدمت ہو رہی تھی کہ جیسے یہ بزرگ ان کے بہت بڑے روحانی پیشوا ہیں ۔ ان بزرگ کا بہت دھیما انداز تھا ۔ اپنی اولاد سے بہت مشفقانہ اور نرم لہجے میں بات کرتے ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہماری دل سے خدمت کرے ۔ عزت کرے تو یہ سبق ہے ان نوجوان والدین کے لئے جن کی اولاد بہت چھوٹی ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کے پہلو میں ان کی ذات کی نفی نہ کریں ۔ ان کو عزت دیں ۔ دوسرے بچوں سے موازنہ نہ کریں ۔ غلطی کی صورت میں بچوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں لیکن بتا کر اور نرم لہجے میں ۔ بچے کا اپنا پورا وجود اور شخصیت ہوتی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی عزت و تکریم کرنے میں ان کو وہی مقام دیا جاتا ہے جو بڑوں کو دیا جاتا ہے ۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں ۔ انہیں معاشرے کا اہم اور مفید شہری بنانے میں ماں باپ کا بہت اہم کردار ہے اور یہ جب ہی ممکن ہوگا جب والدین ان کو تعلیم دلوانے کے علاوہ ان کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت بھی کریں گے ۔
ڈاکٹر سید جاوید سبزواری ۔
کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ۔
لاہور ۔ پاکستان ۔