Special Education

  • Home
  • Special Education

Special Education This page is especially designed for the help of special persons, person deals with special persons and all the students and stakeholder of special Educati

17/03/2025

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے سپیشل لوگوں کیلئے سپیشل اقدامات
پنجاب بھر میں 40ہزار سپیشل بچوں کی ہیلتھ سکریننگ،بیماریوں کی تشخیص،وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا مفت علاج کا حکم
پنجاب میں پہلی مرتبہ طلبہ کی حاضری کے لئے فیشل رجسٹریشن سسٹم متعارف
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے خصوصی افرادروزگار پروگرام کی منظوری دے دی
سپیشل بچوں کیلئے رائزنگ سٹار کارڈبرائے سپیشل چلڈرن متعارف کرانے کا پروگرام کافیصلہ
سپیشل چلڈرن کیلئے پیک فوڈ کا میل پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ
مریم نوازعیدی پروگرام برائے خصوصی طالبعلم کی منظوری
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف سپیشل بچوں کیلئے 9الیکٹرک بسوں کی منظوری بھی دے دی
سپیشل ایجوکیشن مراکز کا ہر 6ماہ کے بعد پرفارمنس آڈٹ کرانے کی ہدایت
معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ اورایس ایم یو کو سپیشل بچوں کے والدین سے مسلسل رابطوں کا حکم
سپیشل بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے سکولوں،سینٹرز اوربسوں میں مزید کیمرے نصب کرنے کی ہدایت
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی ہدایت پر پہلی مرتبہ سپیشل ایجوکیشن کے بجٹ کی رنگ فینسنگ
سپیشل بچوں کیلئے ایکسٹرنل امتحانی سسٹم تشکیل دینے کیلئے اقدامات کی ہدایت
سپیشل بچوں کیلئے کلینکل سائیکالوجسٹ اورسپیچ تھراپسٹ کی سروسز،آؤٹ سورس کرنے کا حکم
سپیشل بچوں کیلئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا جائزہ لینے کی ہدایت
سپیشل بچوں کے داخلے یقینی بنانے کیلئے سی ایم پنجاب انرولمنٹ اورآگاہی مہم بھی شروع کی جائے گی
معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ ثانیہ عاشق جبین نے سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی
ذہنی طور پر متاثرہ ساڑھے 6ہزار سپیشل بچوں کی کیٹگری کا تعین
ذہنی طور پر متاثرہ سپیشل بچوں کی کیٹگری کے مطابق نیاسلیبس بھی تیار کر لیا گیا
ہر ڈسٹرکٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر آف ایکسی لینس میں ڈیجیٹل سمارٹ روم بنایا جائے گا
بصارت اور قوت سماعت سے محروم سپیشل بچوں کوٹچ سکرین پر ڈیجیٹل سلیبس پڑھایا جائے گا
بصارت اور قوت سماعت سے محروم بچے ٹچ سکرین کی مدد سے آسانی سے پڑھ سکیں گے
ہر ڈسٹرکٹ میں سپیشل ایجوکیشن سنٹر آف ایکسی لینس میں ووکیشنل ٹریننگ سنٹر قائم
مڈل کلاس سے سپیشل بچوں کو خود مختاری کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے سکل سکھائے جائیں گے
میٹرک تک ہر سپیشل بچے کے لئے سکل سیکھنے میں معاونت کی جائے گی
آٹزم سکول میں ایرلی آٹزم کے پہلے مرحلے پر تشخیص کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی
تین سالہ متاثرہ بچے کو ابتدائی عمر میں ہی آٹزم کی تشخیص سے علاج میں آسانی ہوتی ہے
وزیراعلیٰ مریم نواشریف کی ہدایت پر سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پہلی مرتبہ مانیٹرنگ کا سسٹم نافذ
سماعت سے محروم بچوں کیلئے خصوصی سپیشل سلیبس تیار، منظوری دے دی گئی
سماعت سے محروم بچوں کیلئے سائن لینگویج بھی شامل کی گئی ہے
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی ہدایت پر سپیشل ایجوکیشن انفارمیشن سسٹم اور خصوصی ہیلپ لائن 1162 قائم
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی ہدایت پر سپیشل ایجوکیشن موبائل ایپ بھی فنکشنل کر دی گئی
پنجاب میں 14567 سپیشل طالبات سمیت 39085 سپیشل طلباء خصوصی مراکز میں زیر تعلیم ہیں۔بریفنگ
سماعت سے محروم، جسمانی معذور شکار، نابینا اورآٹزم کا شکار بچے سپیشل ایجوکیشن مراکز میں زیر تعلیم ہیں۔ بریفنگ
ذہنی و جسمانی معذوری کے شکار اور سلولرنر بچوں بھی سپیشل ایجوکیشن مراکز میں زیر تعلیم ہیں۔ بریفنگ
پنجاب بھر کے سپیشل ایجوکیشن مراکز میں 12 آٹزم یونٹ قائم کیے گئے ہیں۔ بریفنگ
27ڈویژنل پبلک سکولوں میں بھی آٹزم سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ بریفنگ
صوبہ بھر کے28 سپیشل ایجوکیشن سکولوں کو مریم نوازسنٹر آف ایکسی لینس برائے سپیشل ایجوکیشن اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ بریفنگ
وہاڑی، لودھراں، فیصل آباد، سیالکوٹ اور میانوالی میں گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر کی نئی عمارتیں مکمل ہوگئی۔ بریفنگ
سپیشل ایجوکیشن مراکز میں مانیٹرنگ اور بچوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے 3450سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جارہے ہیں۔ بریفنگ
صوبائی سطح پر پہلی مرتبہ سپیشل ایجوکیشن سنٹرز کے لئے کنڑول روم بھی قائم کیا جائے گا۔ بریفنگ
سپیشل بچوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہمارا عزم ہے۔مریم نوازشریف
خصوصی بچوں کا خیال رکھنا فلاحی ریاست کا فرض اولین ہے۔مریم نوازشریف

03/12/2024

3rd December international Day of Disable person's

12/11/2024
ہندوستان کے ٹاپ بزنس مین رتن ٹاٹا اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ کل رات وفات پاگئے( حقیقی خوشی )جب ہندوستانی ارب پتی رتن جی ٹ...
11/10/2024

ہندوستان کے ٹاپ بزنس مین رتن ٹاٹا اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ کل رات وفات پاگئے

( حقیقی خوشی )
جب ہندوستانی ارب پتی رتن جی ٹاٹا سے ٹیلی فون پر انٹرویو میں ریڈیو پریزینٹر نے پوچھا:
"جناب آپ کو کیا یاد ہے جب آپ کو زندگی میں سب سے زیادہ خوشی ملی"؟
رتن جی ٹاٹا نے کہا:
"میں زندگی میں خوشی کے چار مراحل سے گزر چکا ہوں، اور آخر کار میں نے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ لیا ہے۔"
پہلا مرحلہ دولت اور وسائل جمع کرنا تھا۔
لیکن اس مرحلے پر مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو میں چاہتا تھا۔
پھر قیمتی اشیاء اور اشیاء جمع کرنے کا دوسرا مرحلہ آیا۔
لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس چیز کا اثر بھی عارضی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک زیادہ دیر نہیں رہتی۔
پھر ایک بڑا پروجیکٹ حاصل کرنے کا تیسرا مرحلہ آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان اور افریقہ میں ڈیزل کی سپلائی کا 95% میرے پاس تھا۔
میں ہندوستان اور ایشیا کی سب سے بڑی اسٹیل فیکٹری کا مالک بھی تھا۔ لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں نے تصور کیا تھا۔
چوتھا مرحلہ تھا جب میرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیئر خریدنے کو کہا۔
تقریباً 200 بچے۔
ایک دوست کے کہنے پر میں نے فوراً وہیل چیئر خرید لی۔
لیکن دوست نے اصرار کیا کہ میں اس کے ساتھ جاؤں اور وہیل چیئر بچوں کے حوالے کروں۔ میں تیار ہو کر اس کے ساتھ چلا گیا۔
وہاں میں نے ان بچوں کو یہ وہیل چیئر اپنے ہاتھوں سے دی۔ میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی ایک عجیب سی چمک دیکھی۔ میں نے ان سب کو وہیل چیئر پر بیٹھے، چلتے اور مزے کرتے دیکھا۔
ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی پکنک کے مقام پر پہنچ گئے ہوں، جہاں وہ جیتنے والا تحفہ بانٹ رہے ہوں۔
میں نے اپنے اندر حقیقی خوشی محسوس کی۔ جب میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو ایک بچے نے میری ٹانگ پکڑ لی۔
میں نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں چھوڑنے کی کوشش کی، لیکن بچے نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور میری ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ لی، میں نے جھک کر بچے سے پوچھا: کیا تمہیں کچھ اور چاہیے؟
اس بچے نے جو جواب دیا اس نے نہ صرف مجھے چونکا دیا بلکہ زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بھی بدل دیا۔
اس بچے نے کہا:

*"میں آپ کا چہرہ یاد رکھنا چاہتا ہوں تاکہ جب میں آپ سے جنت میں ملوں تو میں آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں۔"*
( شکریہ شمیم عباس بمبئی )

Admission open
10/10/2024

Admission open

Admission open
09/10/2024

Admission open

15/09/2024

‏ابنِ انشاء لکھتے ہیں…
گداگروں کے متعلق یہ فرض کرلینا قطعی درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔۔۔۔
بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔
ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔
تختی پر لکھا تھا کہ:
"میں گونگا اور بہرہ ہوں
راہِ مولا میری مدد کیجیئے۔"
ہم نے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا :
برخوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟
بولا
جی پیدائشی گونگا بہرہ ہوں۔

(ابن انشاء کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

13/09/2024

محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب اپنی ٹرانسفر پالیسی 2022 پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنے میں ناکام
دور دراز علاقوں میں سالوں سے تعینات خواتین اساتذہ و دیگر تدریسی سٹاف پریشان
تحریر ۔۔۔شہزاد بھٹہ
محکمہ ایجوکیشن پنجاب کی طرز پر محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب نے 2021 میں ٹیچنگ و دیگر کیڈرز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے ایک ٹرانسفر پالیسی تشکیل دی
وزیر اعلیٰ پنجاب کی باقاعدہ منظوری کے بعد محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب اور محکمہ لاء اینڈ پارلیمنٹری افیئرز پنجاب نے 9مارچ 2021 کو نوٹیفکیشن نمبر ایس او( estt)3-4/2005 جاری کیا
محکمہ اسپیشل ایجوکیشن پنجاب نے 2022 میں اسپشل ایجوکیشن ٹرانسفر پالیسی میں کچھ ترامیم کیں اور وزیر اعلی پنجاب کی منظوری کے محکمہ لاء اینڈ پارلیمنٹری افیئرز پنجاب نے 27 اپریل 2022 کو نوٹیفکیشن نمبر ایس او ( estt) 3-4/2005 جاری کیا جو اب باقاعدہ نافذ العمل ھے
محکمہ اسپشل ایجوکیشن ٹرانسفر پالیسی کے مطابق موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات میں ان لائن درخواستیں جمع کروانے کے لیے محکمانہ پوٹل اوپن کیا جاتا ھے جس پر ایک فارمولا کے مطابق اساتذہ و دیگر پروفیشنل لیڈرز کے تبادلے کئے جاتے ہیں
محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب نے دور دراز علاقوں میں سالوں سے تعینات اساتذہ کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ٹرانسفر پالیسی 2021 میں ترمیم کرتے ھوئے ایک اھم نکتہ نمبر 9 شامل کرتے ہوئے ٹرانسفر پالیسی 2022 جاری کی جس کے مطابق اسپشل ایجوکیشن کے اداروں میں سالوں سے ایک شہر اور ایک ھی پوسٹ پر تعینات اساتذہ و دیگر تدریسی عملے کو Rotation basis پر ٹرانسفر کر دیا جائے گا
محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب میں اساتذہ و دیگر تدریسی سٹاف کی پوسٹنگ پنجاب لیول پر ھوتیں ھیں محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب میں کسی ٹیچنگ سٹاف ممبر کی ایک دفعہ پنجاب کے کسی دور دراز علاقے میں پوسٹنگ ھو جائے تو اسے ساری عمر وھی گزارنی پڑتی ھے اور اپنے گھروں سے باھر اپنے فرائض منصبی انجام دینے پڑتے ہیں جس کی وجہ خواتین اساتذہ کو بہت زیادہ مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ھے
ایسی بہت سی مثالیں موجود ھیں کہ خواتین ملازمین پندرہ بیس سالوں سے اپنے شہروں سے دور خصوصی طلبہ کی تعلیم و تربیت کر رھی ھیں لاکھوں کوششوں کے بعد بھی ان خواتین ملازمین کی تبادلے نہیں ھوتے
محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب میں تقریباً 70 فیصد سے زائد خواتین اساتذہ و دیگر تدریسی سٹاف پر مشتمل ھے
دوسری طرف جن اساتذہ و دیگر تدریسی سٹاف کی لاھور ملتان راولپنڈی بہاولپور فیصل آباد گوجرانوالہ جیسے بڑوں شہروں میں پہلی پوسٹنگ ھو جاتی ھے وہ ساری عمر انہی بڑے شہروں میں اپنی ساری سروس مکمل کرلیتے ہیں اور اسی پوسٹ اور شہر سے ریٹائرمنٹ حاصل کر لیتے ہیں مزے کی بات ھے کہ ایسے بہت سے سرکاری ملازمین اپنی ساری ملازمت میں کسی اور جگہ ٹرانسفر نہیں ھوتے
محکمہ اسپشل ایجوکیشن میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ لاھور جیسے بڑے شہروں تعینات اساتذہ نے ٹرانسفر کے خوف سے اپنی محکمانہ پروموشن ھی چھوڑ دیں کہ ان کو پرموشن کے بعد کسی اور شہر جانا پڑ جائے گا
حالانکہ سروس رولز کے مطابق ھر سرکاری ملازم کو تین یا پانچ سال بعد اپنی پوسٹنگ جگہ سے ٹرانسفر ھونا لازمی ھے لیکن اسپشل ایجوکیشن میں الٹی گنگا بہہ رھی ھے یہاں زیادہ تر لوگ ایک ھی شہر اور ایک ھی ادارے میں ساری ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ھو جاتے ھیں ان کی کبھی ٹرانسفر نہیں ھوتی
اس بات کا ذکر ضروری ھے کہ تمام سرکاری ملازمین یکساں سلوک کے مستحق ھیں گورنمنٹ رولز سب کے لیے مساوی ھیں اس لیے اسپشل ایجوکیشن ٹرانسفر پالیسی 2022 میں روٹیشن بیس فارمولا شامل کیا گیا کہ جو سرکاری ملازمین ایک شہر ایک ادارے میں عرصہ دراز سے تعینات ھیں ان کو دوسرے شہروں کے اداروں میں ٹرانسفر کیا جائے اور دور دراز علاقوں میں تعینات اساتذہ و دیگر تدریسی عملے کو بڑے شہروں میں ٹرانسفر کیا جائے
ضروری ھے کہ محکمہ اسپیشل ایجوکیشن اپنی ٹرانسفر پالیسی 2022 پر مکمل طور پر عمل کرے اور اپنے تدریسی عملے کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرتے ہوئے رولز کے مطابق تمام سرکاری ملازمین کو ٹرانسفر کے یکساں مواقع فراہم کرے اور اگر اپنی بنائی ھوئی ٹرانسفر پالیسی پر عمل درآمد نہیں کر سکتے تو پھر ٹرانسفر پالیسی کو ختم کیا جائے اور میرٹ پر اساتذہ کے تبادلے کئے جائیں

13/09/2024

4 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ پیشاب کپڑوں میں نہ نکلے
8 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو
12 سال کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دوست احباب ہوں
18 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنی آتی ہو
23 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھی ڈگری حاصل کر لی ہو
25 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی اچھی نوکری مل گئی ہو
30 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بیوی بچے ہوں
35 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ مال ودولت پاس ہوں
45 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اپنا آپ جوان لگے
50 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بچے تمہاری اچھی تربیت کا صلہ دیں
55 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ ازدوجی زندگی میں بہار قائم رہے
60 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھے سے گاڑی ڈرائیو کر سکو
65 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی مرض نہ لگے
70 برس کی عمر میں ..... کامیابی یہ ہے کہ کسی کی محتاجگی محسوس نہ ہو
75 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ تمہارا حلقہ احباب ہو
80 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو
85 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کپڑوں میں پیشاب نہ نکل جائے
وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۸﴾ (يٰس-68)
اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم اُلٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی۔
ایسی ہی ہے یہ دنیا- لہذا دنیا کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر کریں کیونکہ آخرت کی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے..

ایک  بی ایم ڈبلیو کار کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہ...
22/08/2024

ایک بی ایم ڈبلیو کار کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛

-سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے !

ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. مگر پھر بھی اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا۔ ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا.

اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا

میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے.

"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟

میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری ہے. مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟"۔

بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی میں پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے۔

"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔

نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا۔ اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر پر ندامت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا۔

وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے۔ پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا۔ بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر باپ کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا۔ اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔

نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔

وہ بی ایم ڈبلیو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔

اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے۔
پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے۔

ہم جہاں ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بکھری پڑی ہیں۔ اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے۔ 🙏🤝

19/08/2024

بہن بھائیوں میں مقابلہ بازی

انگریزی میں اس کو sibling rivalry کہا جاتا ہے- کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی ماں باپ کے بچے جن کو ایک ہی گھر، سکول، رشتہ دار اور دوست ملے ہوں، ان میں آپس میں مقابلہ بازی کیوں شروع ہو جاتی ہے؟ جدید ریسرچ بتاتی ہے کہ دو بھائی یا دو بہنیں جن کی 50 فیصد جینیاتی ساخت بھی ایک جیسی ہوتی ہے، ان کی شخصیت بلکل مختلف بھی ہو سکتی ہے- ایک پڑھنے لکھنے کا زیادہ شوقین ہو سکتا ہے- ایک کھیل کود میں بہتر ہو سکتا ہے- ایک میں پراعتمادی، حکمت اور ذہانت زیادہ ہو سکتی ہے-

ایسے میں ماں باپ اور ٹیچرز کو کیا کرنا چاہیے؟ پہلا تو یہ کہ ان کا آپس میں موازنہ نا کریں- تمہاری بہن پڑھائی میں اتنی اچھی ہے، تم کیوں نہیں؟ ایسا کرنا بہت ظلم ہو گا- دوسرا یہ کہ جب والدین ایک سے زیادہ بچے اس دنیا میں لاتے ہیں تو پھر یہ ان کا فرض بھی بنتا ہے کہ وہ انہیں ایک جتنا وقت بھی دیں- ضروری نہیں کہ جو بڑا ہو اس سے توقعات بھی زیادہ کی جاۓ- کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے رول ماڈل بنے- کہ وہ زیادہ ذمہ داربھی ہوں-

اگر بچپن میں بہن بھائیوں میں مقابلہ بازی کو قابو نا کیا جاۓ تو اس کے بہت افسوس ناک اثرات ہو سکتے ہیں- ایک شخص کی پوری نفسیات متاثر ہو سکتی ہے۔ چونکہ اس انسان کا پورا بچپن ہی اپنے بھائی یا بہن سے بہتر بننے کی کوشش میں گزرا ہوتا ہے، اس لیے وہ کچھ coping mechanisms بنا سکتا ہے- جیسے کہ جھوٹ کا سہارا لینا- وہ اپنی عظمت کی کھوکھلی کہانیاں گھڑ سکتا ہے- وہ اپنے شوہر یا بیوی کو پہلے دن سے ہی اپنے بھائی یا بہن کے خلاف کر سکتا ہے- اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نئے لوگ جو خاندان میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں وہ بھی مقابلہ بازی کی نظر ہو جاتے ہیں- ان میں کبھی بھی لطیف محبت بھڑے جزبات بن ہی نہیں پاتے- اس کی سب سے بری شکل تب ابھڑ کے آتی ہیں جب ان بہن بھایئوں کے اپنے بچوں کو ملنے جلنے سے روکا جاتا ہے- ان بیچارے کزنز کا کوئی قصور نہیں ہوتا کہ ان کے بچپن کی دوستیوں کو متاثر کیا جاۓ-

اسی لئے کہوں گا کہ والدین کو ہر بچے کی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے۔ انہیں ایسی چیز بننے پر مجبور نہ کریں جو ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کے خلاف ہو۔ ان کی انفرادی طاقتوں کی تعریف کریں۔ اگر ان میں کوئی کمزوری ہے تو بہن بھائیوں سمیت دوسروں کے سامنے تنقید کرنے سے گریز کریں۔ آپ کے بیٹے یا بیٹی کو ایسا لگنا چاہیے کہ ان کا بھائی یا بہن ان کا ٹیم پارٹنر ہے، ان کا بازو ہے- وہ ایک مدمقابل ہرگز نہیں ہونا چاہیے- ان کے سکھ دکھ سانجھے ہوں- خوشیاں غم اکھٹی ہوں- اگر ایک بھائی ناکام ہو جاۓ تو دوسرے کی آنکھ سے آنسوں نکلنے چاہیے چاہے وہ خود کامیاب ہوں- ہم کیوں ان خوبصورت رشتوں میں مقابلہ بازی کرتے ہیں۔ دور ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی خوشیاں سمیٹنے کے لئے چھوٹی ہے اور ہم اس میں پچھتاووں اور رونے دھونے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں-

ڈاکٹر راحیل احمد
ابن پروفیسر طارق احمد

Internship program for special person
22/06/2024

Internship program for special person

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Special Education posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share