17/01/2025
محبّت کرنے والوں کی کیمسٹری بھی بدل جاتی ھے محبت کرنے والے کی ذات ایک دلآویز، مسحور کن مگر پر اسرار شخصیت کا روپ دھار لیتی ھے محبت کرنے والے کی آنکھ وہ اسرار بھی دیکھ لیتی ھے جو مجھ جیسے دنیا دار اور انا پرست نہیں دیکھ پاتے میرا باپ محبت کا استعارہ تھا وہ صبر اور قربانی کا مرکب تھا اس کو ایک عجیب دکھ تھا وہ کہتا تھا شہروں میں راستوں کو کوئی سونے نہیں دیتا وہ نگر کو پیڑوں سے شناخت کرتا تھا کیونکہ لوگ تو روز چہرے بدل رهے ہیں اسے وہ بلند عمارتیں اچھی نہیں لگتی تھیں جن کو دیکھنے میں دستار گر پڑے میں روز سونے سے پہلے ان سے کہانی ضرور سنتا تھا بابا کہتے تھے کہانی سنے بغیر مت سویا کرو ورنہ اندر کا بچہ مر جاۓ گا جس کے اندر کا بچہ مر جاۓ وہ فرعون بن جایا کرتے ہیں پھر گوانتانا موبے کی جیلوں کی رونق بڑھ جایا کرتی ھے ہیرو شیما ناگا ساکی جلنے لگتے ہیں اور جامعہ حفصہ کی قرآن پڑھتی بچیاں فاسفورس کی بھٹی کا رزق بنا دی جاتی ہیں دریا ۓ نیل کا شفاف پانی آج بھی عبرت کی داستان چھپاۓ گنگناتا ھوا بہہ رھا ھے .......................
*طارق بلوچ صحرائی کی کتاب " گونگے کا خواب " سے اقتباس*