Dr Khurram Shahzad's Bismillah Clinic

Dr Khurram Shahzad's Bismillah Clinic Senior Family Physician 's Medical services

08/06/2025

چائے ۔۔۔

شوگر کے مریضوں کے لئے صحت افزا پھل ۔۔
28/03/2025

شوگر کے مریضوں کے لئے صحت افزا پھل ۔۔

شوگر ، انسولین ، ورزش ، خوراک                        ‐‐‐------------------ جو کھانا ہم کھاتے ہیں اس میں سے زیادہ تر ہمار...
24/03/2025

شوگر ، انسولین ، ورزش ، خوراک
‐‐‐------------------
جو کھانا ہم کھاتے ہیں اس میں سے زیادہ تر ہمارے نظام انہضام کی چھوٹی انت میں ہضم ہوتا ہے اور وہیں سے ہمارے خون میں جذب ہوتا ہے۔ ہماری چھوٹی انت سے منسلک ایک خاص خون کی نالی ہوتی ہے جو خون کو چھوٹی انت سے جگر میں لے کر جاتی ہے، یعنی ہماری چھوٹی انت سے خوراک ہضم ہونے کے بعد خون میں جذب ہوتی ہے اور یہ خون (بما خوراک) اس نالی کے ذریعے جگر میں آجاتا ہے، اس نالی کو ہم 'ہیپیٹک پورٹل وین" (hepatic portal vein ) کہتے ہیں۔

لیکن خوراک کے ساتھ ایک اور چیز جو اس پورٹل وین کے ذریعے ڈائریکٹ جگر میں آتی ہے وہ ہے "انسولین"۔ یعنی ہمارا لبلبہ جو انسولین خارج کرتا ہے وہ بھی اس پورٹل وین میں ہی کرتا ہے۔

اس وجہ سے جگر کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ انسولین ملتی ہے اور جگر تقریباً 50 سے 80 فیصد تک انسولین استعمال کرتا ہے۔ تو جگر اتنی انسولین کا کیا کرتا ہے ؟ دیکھیں جگر میں گلوکوز کے داخلے کے لئے انسولین کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن داخلے کے بعد اس گلوکوز کو سٹور کرنے کے لیے انسولین چاہیے ہوتی ہے۔ انسولین جگر سے کہتی ہے کہ اس گلوکوز کو سٹور کرو (گلائیکوجن کی صورت میں) اور اگر مزید گلوکوز آئے تو اسے "فیٹ" یعنی چربی میں بدل دو۔ انسولین جگر سے مزید کہتی ہے کہ ہمارے پاس گلوکوز موجود ہے، اس لیے گلوکوز کو بطور توانائی کا ذریعہ استعمال کرو ، نہ کہ فیٹ/چربی سے توانائی بنانے لگ جاؤ۔

تو جگر نے بڑی مقدار میں انسولین لے لی، اس کے بعد جو انسولین بچتی ہے وہ جگر سے ہوکر باقی جسم کے لیے خون میں آجاتی ہے۔ تو باقی جسم کو انسولین کی ضرورت کہاں ہے؟ ہمارے دو طرح کے جسمانی حصوں کو اس انسولین کی ضرورت ہے۔ جن میں سے پہلے ہیں ہمارے "پٹھے"۔ انسولین پٹھوں میں گلوکوز کو داخل کرواتی ہے تاکہ پٹھوں کو توانائی ملتی رہے اور وہ گلوکوز کو سٹور بھی کریں۔

دوسرا اہم جسمانی حصہ جہاں انسولین کام آتی ہے وہ ہے ہمارے "چربی/فیٹ سٹور کرنے والے خلیے یا ٹشو" جو ہماری جلد کے نیچے موجود ہوتے ہیں۔

ان چربی سٹور کرنے والے ٹشوز کو انسولین کہتی ہے کہ آپ نے تین کام کرنے ہیں؛ پہلا کام تو یہ کہ خوراک سے جو چربی/فیٹ آ رہی ہے، اسے سٹور کرو، اور دوسرا جو فیٹ جگر گلوکوز سے بنا رہا ہے اسے بھی سٹور کرو، اور تیسرا کام یہ کرو کہ جب تک میں (یعنی انسولین) خون میں موجود ہوں، تب تک تم نے اپنا سٹور کردہ فیٹ واپس خارج نہیں کرنا۔ فیٹ سٹور کرنے کے ان ٹشوز کو گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے سو انسولین ان ٹشوز میں گلوکوز بھی داخل کرواتی ہے۔

تو اس سب سے کیا ہوتا ہے ؟ فرض کریں آپ نے خوراک میں گلوکوز اور فیٹ لیا۔ جو آپکی پورٹل وین کے ذریعے جگر میں جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی لبلبے سے انسولین بھی جا رہی ہے۔ جب سب چیزیں جگر میں پہنچ گئیں تو انسولین جگر سے کہتی ہے کہ اضافی گلوکوز کو پکڑو اور سٹور کرو، اور کیونکہ ابھی جسم میں گلوکوز کا اچھا لیول موجود ہے اس لیے ابھی اسے ہی بطور توانائی استعمال کرواؤ، نہ کہ کسی قسم کی چربی کو توڑو اور اس سے توانائی بناؤ۔

پھر جگر سے بچی ہوئی انسولین چربی سٹور کرنے والے ٹشوز کے پاس جاکر کہتی ہے کہ خوراک اور جگر کے ذریعے جو چربی آئی ہے، اسے سٹور کرو، اور اسے سٹور کرنے کے لیے بھی تمہیں گلوکوز کی ضرورت ہے تو یہ لو میں تمہارے اندر گلوکوز بھی داخل کروا دیتی ہوں۔ لیکن تم جو چربی بناؤ گے، اسے جسم میں خارج نہیں کرنا، یا جگر کو نہیں دینا کیونکہ ابھی جسم میں گلوکوز کا اچھا لیول موجود ہے اور ہم اسے توانائی کے لیے استعمال کریں گے۔

یہ نظام بھی صحیح ہے، اس سے گلوکوز اور چربی دونوں کا لیول خون میں کم ہوتا ہے۔ نیز عام صحت مند انسان میں اس نظام میں توازن ہوتا ہے، جیسے جب گلوکوز موجود ہے تو انسولین کا لیول بھی زیادہ ہوتا ہے سو گلوکوز کو استعمال کرلیا جاتا ہے اور کچھ کو سٹور کر لیا جاتا ہے، ساتھ ہی چربی کو بھی سٹور کرلیا جاتا ہے۔ مگر گلوکوز کی غیر موجودگی میں انسولین کا لیول کا بھی کم ہوجاتا ہے اور پھر سٹور شدہ گلوکوز اور چربی جسم کو توانائی دیتی ہے۔

البتہ شوگر (قسم 1) کے مریض میں انسولین کی کمی ہوجاتی ہے۔ تو شوگر کا مریض باہر سے انسولین لیتا ہے۔ لیکن یہاں پر مسلہ یہ ہوتا ہے کہ انسولین کا انجیکشن جلد سے ہوتے ہوئے خون میں انسولین شامل کرتا ہے، نہ کہ نظام انہضام اور جگر کے درمیان موجود پورٹل وین میں۔

تو اس سے کیا ہوتا ہے ؟ اس سے جگر کو انسولین اس سے کم مقدار میں ملتی ہے جتنی نارمل ملتی ہے، جبکہ چربی سٹور کرنے والے خلیوں کو زیادہ انسولین ملتی ہے۔

تو اب جگر بیچارہ گلوکوز کو کم سٹور کرے گا، بلکہ جگر چربی وغیرہ کو استعمال کرتے ہوئے اس سے بھی گلوکوز بنانے لگ جائے گا، کیونکہ اب جگر کو سمجھانا اور روکنے والی انسولین کی مقدار کم ہے۔

جبکہ چربی سٹور کرنے والے ٹشوز کو زیادہ انسولین مل رہی ہے تو وہ زیادہ چربی سٹور کرنے لگ جائیں گے، جس سے جلد کے نیچے چربی جمع ہونے لگ جائے گی، یعنی انسان موٹا ہو جائے گا۔ اسی لیے انسولین استعمال کرنے والے اکثر مریضوں میں موٹاپا سامنے آتا ہے۔

اب جگر تو پاگل ہوکر چربی سے گلوکوز بنانے لگا ہوا ہے، جس سے خون میں گلوکوز کا لیول بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اسے یہ چربی تو چربی سٹور کرنے والے ٹشوز سے ہی ملے گی۔ مگر وہ ٹشوز تو زیادہ انسولین کی وجہ سے چربی دینے سے انکار کریں گے، کیونکہ انسولین ان سے یہی کروائے گی۔

نتیجتاً جگر چربی کے لیے تڑپے گا، مگر جب چربی سٹور کرنے والے ٹشوز کافی زیادہ چربی سٹور کرلیتے ہیں تو یہ کچھ ایسے کیمکل خارج کرنے لگتے ہیں جو انسولین کی کارکردگی کو کم کردیتے ہیں، یعنی انسولین resistance پیدا کرتے ہیں۔ گویا کہ اب مریض کی انسولین کی ضرورت اور بڑھ گئی۔ یعنی نقصان در نقصان۔

تو اس سب سے بچا کیسے جائے ؟ کوئی بھی دوائی دیرپا طور پر فائدہ نہیں دے سکتی۔ بچنے کا راستہ ہے کہ خوراک میں پرہیز کی جائے، کم فیٹ اور کم چینی کھائی جائے، ورزش کرکے فیٹ اور گلوکوز کو سٹور کرنے کی بجائے استعمال کیا جائے۔

دمہ / پھیپھڑوں / نظام تنفس کے امراض میں مبتلا مریض جو کہ انہیلر اسپیسر کے ساتھ  استعمال کرتے ہیں ، کے لئے انہیلر اسپیسر ...
13/11/2024

دمہ / پھیپھڑوں / نظام تنفس کے امراض میں مبتلا مریض جو کہ انہیلر اسپیسر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ، کے لئے انہیلر اسپیسر کے ساتھ استعمال کرنے کا موزوں طریقہ ۔۔۔

Courtesy Chiesi

چکن گونیا بخار  ۔۔۔۔۔
13/10/2024

چکن گونیا بخار ۔۔۔۔۔

فرائیڈ  نے کہا تھا انسان ایک اذیت پرست مخلوق ہے, جسے اپنی زندگیوں میں سے چن چن کر غموں کو یاد کرکے انکا ماتم کرنا پسند ہ...
30/06/2024

فرائیڈ نے کہا تھا انسان ایک اذیت پرست مخلوق ہے, جسے اپنی زندگیوں میں سے چن چن کر غموں کو یاد کرکے انکا ماتم کرنا پسند ہے ۔ چاہے زندگی میں لاکھوں خوشیاں اسکے در کے آگئے سر باسجود رہیں ہوں لیکن وہ اپنے دکھوں اپنی تکلیفوں کو یاد کرکے ان پہ دکھی ہونے کو ترجیح دیتا ہے ۔
گویا انسان ایک عجب مخلوق ھے جو پہلے تو غموں کو اپنی زیست سے فرار ہونے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتی اور پھر اس پر ان غموں کا ماتم بھی اپنے زور و شور سے کرتی ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی ان ہی دکھوں اور تکلیفوں کی پرستش میں ان سے دور بھی بھاگنا چاہتی ہے اور انکا ماتم بھی کرنا چاہتی ہے۔ القصہ مختصر جو معاشرے کی شکل انسان کی اس فطرت و عادت کی بنا پر تشکیل پاتی ہے وہ بڑی بھیانک اور غمزدہ ہوتی ہے۔

میرے پاس جتنے بھی لوگ آتے ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہیں انکا رویہ بھی یہی ہوتا ہے ایک تو وہ اپنے غموں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسرا وہ انہیں غموں اور رنجور پن سے نجات کیلئے مسیحا کی تلاش کرتے ہیں ۔

اگر ہم لوگ اپنے ماضی کے دکھ درد سے اور حال کی اذیت سے راہِ فرار چاہتے ہیں تو ہمت کیجیئے ان غموں کو اور دکھوں کو گریبان سے کھینچ کر گھسیٹتے ہوئے اپنی زندگیوں سے بے دخل کردیں ۔ حال میں رہنا سیکھیں حقیقت کو قبول کرنا سیکھیں ۔ اپنے ذہن کو اپنے بے وفا محبوب کے متبادلات دیں ۔ زندگی سے خوش ہو کر ہمت سے مسکراتے ملیں۔

کوئی بھی نہیں جاننا چاہتا کے آپ کتنے دکھی ہیں نہ ہی کسی کو آپکے غم سے کوئی غرض ہے۔ ہمت کیجئیے جرات کیجیئے اپنے من کی اپنے دل کی تربیت کرلیجئے ۔ خود کو حقیقت پسند بنا لیجئے ۔ زندگی میں آگئے بڑھنے کیلئے مائینڈ کو ٹارگٹس سیٹ کردیں ۔

اور اگر پھر بھی حصولِ سکون کی دولت نہیں ملتی تو کوئی ننھا سا معصوم جانور پال لیجیئے ۔ کوئی کتا کوئی بلی کا ننھا سا بچہ پال لیجیئے اسکو پیار کریں ۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو نکلیے باہر ایک شاپر میں کچھ گوشت اٹھائیے آوارہ بھٹکتے کتوں کو کھانا کھلائیے بلیوں کو کھانا کھلائیے۔ صبح کو چھت پہ جائیے پرندوں کو دانا ڈال کر آئیے ۔ غریب انسانوں کو کھانا کھلائیے کسی دکھی کسی مجبور کی مدد کردیجئے ۔ اور پھر نماز پڑھ لیجیئے گا اپنے خدا کو یاد کرلیجئے گا۔

منقول

23/02/2024
غصے کی کیمسٹری....جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“ میں نے پوچھا ”سر غصے کی کیمس...
06/01/2024

غصے کی کیمسٹری....

جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“ میں نے پوچھا ”سر غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟“
وہ مسکرا کر بولے ”ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں“ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ”ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے“ میں نے پوچھا ”مثلا“۔۔۔؟ وہ بولے ”مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘
ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا‘ یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی‘ ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے“
میں نے عرض کیا ”کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ہے“ وہ مسکرا کر بولے ”جی نہیں‘ ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے‘ ہمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ہے‘ ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں‘ ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں‘ ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ہوتی ہے‘ ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے‘
ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے“ میں نے عرض کیا ”لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے‘ اداسی‘ نفرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا ہوں‘ یہ سارا دن نارمل نہیں ہوتے“ وہ مسکرا کر بولے ”آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ہے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا ؟ یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رہے گی‘
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت‘ ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان‘ اداس‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں“ وہ رکے اور پھر بولے ”آپ نے کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت حیرت‘ ہنسی‘ نفرت‘ خوف‘ اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ہے؟
وجہ صاف ظاہر ہے‘ جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو‘ قہقہہ ہو‘ نفرت ہو‘ خوف ہو‘ اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے“ میں نے عرض کیا ”اور کیا محبت جذبہ نہیں ہوتا“ فوراً جواب دیا ”محبت اور شہوت دراصل لطف کے والدین ہیں‘ یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کاہوتا ہے‘
آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم انسان اگر اسی طرح شہوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ہم گناہ‘ جرم اور ذلت سے بچ جائیں لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ہم سنگسار ہوتے ہیں‘ قتل ہوتے ہیں‘ جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں‘ ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے“۔
میں نے ان سے عرض کیا ”آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ہیں“ وہ مسکرا کر بولے ”میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا‘ وہ صاحب غصے میں اندر داخل ہوئے‘ مجھ سے اپنی فائل مانگی‘ میں نے انہیں بتایا میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں لیکن یہ نہیں مانے‘ انہوں نے مجھ پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں‘ میرے تن من میں آگ لگ گئی لیکن میں کیونکہ جانتا تھا میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا‘
وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی‘ میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے‘ ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے‘ میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انہیں جواب دیتا‘ ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوتی‘ لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے‘ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی‘ میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا یہ مجھے نقصان پہنچا دیتا لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟ پتہ چلتا ہم دونوں بے وقوف تھے‘ ہم سارا دن اپنا کان چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں میں‘ وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا‘ ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی“
میں نے پوچھا ”کیا آپ غصے میں ہر بار نماز پڑھتے ہیں“ وہ بولے ”ہرگز نہیں‘ میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ہوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ہوں‘ میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا‘ میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرتا‘ میں صرف ہنستا ہوں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں‘ میں خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کیلئے چلا جاتا ہوں‘ غسل کرلیتا ہوں‘ وضو کرتا ہوں‘ 20 منٹ کیلئے چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں‘ استغفار کی تسبیح کرتا ہوں‘
اپنی والدہ یا اپنے بچوں کو فون کرتا ہوں‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں‘ اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ہے‘ میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور میں فیصلے کے قابل ہو جاتا ہوں“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں“ وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور بولے ”آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ میں منہ نہیں کھولتا‘
میں خاموش رہتا ہوں اور آپ یقین کیجئے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ بہرحال پسپا ہو جاتاہے‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں۔
Cop

05/01/2024
الزائمر  ۔۔۔۔۔ بھولنے کی بیماریالزائمر ، بھولنے کی بیماری ،  ایک ایسا دماغی مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے ...
03/01/2024

الزائمر ۔۔۔۔۔ بھولنے کی بیماری

الزائمر ، بھولنے کی بیماری ، ایک ایسا دماغی مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر اگر بروقت تشخیص اور علاج شروع کر دیا جائے تو اس بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو قابلِ ذکر حد تک سست کیا جا سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق الزائمر کی ابتدائی شکل ڈیمنشیا (نسیان) دنیا بھر میں ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق 2050ء تک اس مرض سے متاثرہ افراد تعداد تین گنا تک بڑھ سکتی ہے۔

گو کہ پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد کے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں، لیکن دماغی صحت سے متعلق کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ ملک میں اس بیماری کے شکار مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔

ڈیمنشیا (نسیان) جسے عرف عام میں بھولنے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، کی ابتدائی علامات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں انسان کے معمولاتِ زندگی، مزاج اور رویے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن پر اگر توجہ نہ دی جائے تو آگے چل کر یہ مرض خطرناک صورت اختیار کرتے ہوئے الزائمر میں تبدیل ہوجاتا ہے جو کہ لاعلاج مرض ہے۔

"روز مرہ زندگی کے امور میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ جیسے کہ آنے جانے کے معمول کے راستوں کو انسان بھولنے لگتا ہے۔ کچھ چیزیں جہاں معمول کے مطابق رکھتا تھا وہاں رکھنا بھول جاتا ہے۔ حساب کتاب میں، لین دین میں غلطیاں کرنے لگتا ہے۔ اس کی شخصیت میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مزاج میں بھی تبدیلی کہ بعض اوقات انتہائی خوش مزاج تو کبھی ایسا کہ اس شخص سے وہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ پھر وہ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتا۔"

ان ابتدائی علامات کے ظاہر ہوتے ہی معالج سے مشورہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ مرض کی تشخیص ہو سکے۔

الزائمر کی تشخیص ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے جو کہ دماغ کی بائیوپسی سے ہی صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ لیکن دماغ کا سی ٹی اسکین اور بعض دیگر طبی تجزیوں سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کو امکانی طور پر الزائمر کا مرض ہے یا نہیں۔

الزائمر کا مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کا طرز زندگی بھی اسے بڑھانے میں بڑی حد تک کردار ادا کرتا ہے۔

الزائمر کا مرض عموماً 60 سال کی عمر کے بعد لاحق ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدائی علامات پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

صحت مند ذہن کے لیے متحرک زندگی، سادہ اور موزوں غذا بہت ضروری ہے اور ایک صحت مند ذہن ہی صحت مند معاشرے کو تشکیل دے سکتا ہے۔

MAIN CAUSES OF HAIR FALL...
07/10/2023

MAIN CAUSES OF HAIR FALL...

05/10/2023

نیپا وائرس ۔۔۔
علامات ، احتیاط ، بچاو ، علاج ۔۔

Address

Mianwali
42200

Opening Hours

Monday 16:00 - 20:00
Tuesday 16:00 - 20:00
Wednesday 16:00 - 20:00
Thursday 16:00 - 20:00
Friday 16:00 - 20:00
Saturday 16:00 - 20:00

Telephone

+923343959292

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Khurram Shahzad's Bismillah Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category