30/06/2024
فرائیڈ نے کہا تھا انسان ایک اذیت پرست مخلوق ہے, جسے اپنی زندگیوں میں سے چن چن کر غموں کو یاد کرکے انکا ماتم کرنا پسند ہے ۔ چاہے زندگی میں لاکھوں خوشیاں اسکے در کے آگئے سر باسجود رہیں ہوں لیکن وہ اپنے دکھوں اپنی تکلیفوں کو یاد کرکے ان پہ دکھی ہونے کو ترجیح دیتا ہے ۔
گویا انسان ایک عجب مخلوق ھے جو پہلے تو غموں کو اپنی زیست سے فرار ہونے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتی اور پھر اس پر ان غموں کا ماتم بھی اپنے زور و شور سے کرتی ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی ان ہی دکھوں اور تکلیفوں کی پرستش میں ان سے دور بھی بھاگنا چاہتی ہے اور انکا ماتم بھی کرنا چاہتی ہے۔ القصہ مختصر جو معاشرے کی شکل انسان کی اس فطرت و عادت کی بنا پر تشکیل پاتی ہے وہ بڑی بھیانک اور غمزدہ ہوتی ہے۔
میرے پاس جتنے بھی لوگ آتے ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہیں انکا رویہ بھی یہی ہوتا ہے ایک تو وہ اپنے غموں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسرا وہ انہیں غموں اور رنجور پن سے نجات کیلئے مسیحا کی تلاش کرتے ہیں ۔
اگر ہم لوگ اپنے ماضی کے دکھ درد سے اور حال کی اذیت سے راہِ فرار چاہتے ہیں تو ہمت کیجیئے ان غموں کو اور دکھوں کو گریبان سے کھینچ کر گھسیٹتے ہوئے اپنی زندگیوں سے بے دخل کردیں ۔ حال میں رہنا سیکھیں حقیقت کو قبول کرنا سیکھیں ۔ اپنے ذہن کو اپنے بے وفا محبوب کے متبادلات دیں ۔ زندگی سے خوش ہو کر ہمت سے مسکراتے ملیں۔
کوئی بھی نہیں جاننا چاہتا کے آپ کتنے دکھی ہیں نہ ہی کسی کو آپکے غم سے کوئی غرض ہے۔ ہمت کیجئیے جرات کیجیئے اپنے من کی اپنے دل کی تربیت کرلیجئے ۔ خود کو حقیقت پسند بنا لیجئے ۔ زندگی میں آگئے بڑھنے کیلئے مائینڈ کو ٹارگٹس سیٹ کردیں ۔
اور اگر پھر بھی حصولِ سکون کی دولت نہیں ملتی تو کوئی ننھا سا معصوم جانور پال لیجیئے ۔ کوئی کتا کوئی بلی کا ننھا سا بچہ پال لیجیئے اسکو پیار کریں ۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو نکلیے باہر ایک شاپر میں کچھ گوشت اٹھائیے آوارہ بھٹکتے کتوں کو کھانا کھلائیے بلیوں کو کھانا کھلائیے۔ صبح کو چھت پہ جائیے پرندوں کو دانا ڈال کر آئیے ۔ غریب انسانوں کو کھانا کھلائیے کسی دکھی کسی مجبور کی مدد کردیجئے ۔ اور پھر نماز پڑھ لیجیئے گا اپنے خدا کو یاد کرلیجئے گا۔
منقول