Herbal Clinic -Trust

Herbal Clinic -Trust Hakeem Khalid khan Niazi. natural method of treatment

05/07/2025

نو محرم الحرام (تاسوعاء) کے دن سے تیس محرم الحرام کے تمام تاریخی

مستند اور مصدقہ واقعات

بالخصوص واقعہ کربلا سے متعلق ترتیب میں پڑھیں۔

یہ واقعات

معتبر اسلامی مصادر جیسے

مقتل ابو مخنف، طبری، ابن اثیر، شیخ مفید کی "ارشاد" اور بحار الانوار وغیرہ میں موجود ہیں۔

نو محرم الحرام کے مستند تاریخی واقعات (تاسوعا)

کربلا

61 ہجری / 680 عیسوی

1. محاصرہ سخت ہو گیا اور پانی مکمل بند کر دیا گیا

فرات سے پانی بھرنے پر پابندی کو سخت کر دیا گیا۔ امام حسینؑ کے خیموں اور خدام پر شدید پیاس طاری ہو چکی تھی۔

2. شمر بن ذی الجوشن کربلا پہنچا

عبید اللہ بن زیاد کی طرف سے شمر بن ذی الجوشن نیا پیغام اور لشکر لے کر آیا تاکہ امام حسینؑ پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

3. عمر بن سعد کو فیصلہ کن جنگ کا حکم دیا گیا

عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگر حسینؑ بیعت نہ کریں تو ان سے کل جنگ کر دو۔

4. شمر کی حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیشکش

شمر نے حضرت عباسؑ، جعفر، عبداللہ اور عثمان (حضرت علیؑ کے بیٹے) کے لیے امان نامہ بھیجا۔
انہوں نے کہا:
"لعنت ہو تم پر اور تمہارے امان نامے پر۔ ہم حسینؑ کے ساتھ ہیں۔"

5. امام حسینؑ نے جنگ کے لیے ایک رات کی مہلت مانگی

آپؑ نے فرمایا:
"مجھے ایک رات مہلت دو تاکہ میں اپنے رب کی عبادت کر سکوں۔"
یہ امام کی دور اندیشی، روحانی وابستگی اور جنگ سے پہلے کی حکمت عملی کا عظیم مظہر تھا۔

6. عمر بن سعد نے جنگ مؤخر کر دی

عمر بن سعد نے امام کی درخواست پر جنگ ایک دن کے لیے مؤخر کی — یعنی 10 محرم کو جنگ کا فیصلہ کیا۔

7. امام حسینؑ کی اصحاب سے آخری مشاورت و خطاب

امامؑ نے کہا:
"کل ہم شہید ہو جائیں گے، جو جانا چاہے، جا سکتا ہے۔"
مگر کوئی نہ گیا۔

8. حضرت زینبؑ کی امام حسینؑ سے بات چیت

حضرت زینبؑ نے کہا:
"کیا تم کل قتل کر دیے جاؤ گے؟"
امام نے فرمایا:
"ہاں بہن، کل میرا آخری دن ہے، صبر کرنا۔"

9. شبِ عاشور کا ماحول – عبادت اور ذکرِ الٰہی

امامؑ اور اصحاب نے پوری رات نماز، قرآن، دعا اور ذکر الٰہی میں گزاری۔
حضرت حبیبؓ، زہیرؓ، عباسؑ اور دوسرے تمام اصحاب سر بسجود رہے۔

10. حضرت عباسؑ کا پہرہ داری کا انتظام

حضرت عباسؑ نے امام کے حکم سے خیموں کی پہرہ داری کا مکمل انتظام کیا، تاکہ رات دشمن خیموں پر حملہ نہ کرے۔

11. خیموں کے ارد گرد خندق کھود کر آگ جلائی گئی

خطرے کو دیکھتے ہوئے خندق کھودی گئی تاکہ عقب سے دشمن حملہ نہ کرے، اس میں آگ جلائی گئی — بطور دفاعی تدبیر۔

12. یزیدی لشکر کا آخری الٹی میٹم

عمر بن سعد نے امام حسینؑ کو کہا:
"کل صبح جنگ ہو گی اگر بیعت نہ کی گئی۔"

13. کچھ افراد کی توبہ و امام سے شمولیت

مثلاً "حر بن یزید ریاحی" کی ضمیر کی بیداری کا آغاز اسی رات ہوا، اور صبح عاشور امامؑ سے آ ملے۔

14. حضرت سکینہؑ اور بچوں کی شدتِ پیاس

حضرت سکینہؑ نے امامؑ سے پانی کا سوال کیا۔ امامؑ نے تسلی دی
کہ
کل

دادا رسول اللہؐ پانی پلائیں گے۔

15. امام حسینؑ نے ہتھیار تیار کروائے

اپنے ساتھیوں کے ساتھ امامؑ نے شہادت کی تیاری مکمل کی، ہتھیار درست کیے گئے، گھوڑے تیار کر لیے گئے۔

16. حضرت قاسم بن حسنؓ نے امام سے شہادت کی اجازت مانگی

انہوں نے پوچھا:

"کیا مجھے بھی شہادت ملے گی؟"

امامؑ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،

فرمایا:
"ہاں بیٹا، تم بھی شہید ہو گے۔"

17. اصحاب نے یکجہتی کا اظہار کیا

زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ، حبیب بن مظاہر نے عزمِ شہادت اور وفاداری کا بھرپور اظہار کیا۔

18. اہلِ بیت کے مرد، عورتیں، بچے الگ الگ خیموں میں

امامؑ نے خواتین و بچوں کو تسلی دی اور مردوں کو حکم دیا کہ ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

19. امامؑ نے کفن و دفن کی وصیت کی

اپنے اہلِ بیت اور حضرت زینبؑ کو وصیت کی کہ اگر ممکن ہو تو شہادت کے بعد دفن کر دیا جائے۔

20. آسمان کی حالت غیر معمولی ہو گئی

مورخین لکھتے ہیں کہ تاسوعہ کی شب میں آسمان پر بادل اور فضا پر اداسی کا سماں چھا گیا۔

دس محرم الحرام

عاشورہ (10 محرم) کے دن کے واقعات

1. نمازِ صبح امام حسینؑ کی امامت میں ادا کی گئی

شہادت سے قبل امام حسینؑ نے آخری نماز جماعت پڑھائی۔

2. حر بن یزید ریاحیؓ نے توبہ کی اور امام حسینؑ سے آ ملے

پہلے امام کو روکنے والوں میں تھے، مگر دل کی بیداری کے بعد سب سے پہلے شہید ہوئے۔

3. عمر بن سعد نے جنگ کا آغاز کیا

یزیدی لشکر نے تیر برسائے اور جنگ کا باضابطہ آغاز ہوا۔

4. امامؑ کے اصحاب نے باری باری جانیں قربان کیں

ہر ایک امامؑ سے اجازت لے کر میدانِ جنگ میں گیا۔

5. مسلم بن عوسجہؓ کی شہادت

امام حسینؑ کے اولین اور معزز اصحاب میں سے تھے، عظیم بہادری کے ساتھ لڑے۔

6. حبیب بن مظاہرؓ کی شہادت

امامؑ کے خاص اور بوڑھے صحابی، 75 سال کی عمر میں بہادری سے لڑے۔

7. زہیر بن قینؓ کی شہادت

بہادر مجاہد، پہلے عثمانی خیالات رکھتے تھے، پھر امام سے جا ملے۔

8. حضرت قاسم بن حسنؓ کی شہادت

امام حسنؑ کے 13 سالہ بیٹے، انتہائی بہادری سے لڑے اور شہید ہوئے۔

9. حضرت علی اکبرؑ کی شہادت

امام حسینؑ کے بیٹے، رسول اللہؐ سے سب سے زیادہ مشابہ، ان کی شہادت پر امامؑ نے فرمایا:
"اے بیٹا! دنیا تیرے بعد اندھیری لگتی ہے"۔

10. حضرت عباسؑ علمدار کی شہادت

جب بچوں کے لیے پانی لینے گئے، بازو قلم ہوئے، مشک ہاتھ سے گری، اور دریا کے کنارے شہید ہوئے۔

11. حضرت عون و محمد (بیٹے حضرت زینبؑ) کی شہادت

حضرت زینبؑ نے خود اپنے بیٹوں کو امامؑ کی خدمت میں بھیجا۔

12. حضرت عبد اللہ بن حسنؓ کی شہادت

نوعمر بچے نے چچا (امام حسینؑ) پر حملہ ہوتے دیکھ کر اپنی جان قربان کر دی۔

13. امام حسینؑ بار بار خیموں کے قریب آتے

اہلِ بیت کو صبر کی تلقین کرتے اور شہید ہونے والوں کی لاشیں لاتے۔

14. حضرت علی اصغرؑ (چھ ماہ کا شیرخوار) کی شہادت

امامؑ نے گود میں لیا، پانی مانگا، حرملہ نے تیر مار کر گلا چھید دیا۔

15. امام حسینؑ تنہا رہ گئے

سب اصحاب و اہلِ بیت شہید ہو چکے تھے، اب تن تنہا دشمنوں کا سامنا کیا۔

16. امام حسینؑ کی شہادت

تیروں، نیزوں، تلواروں سے زخمی ہو کر گھوڑے سے زمین پر آئے، شمر بن ذی الجوشن نے سر تن سے جدا کیا۔

17. امام کا سر نیزے پر بلند کیا گیا

شہادت کے بعد امامؑ کا سر مبارک نیزے پر چڑھایا گیا اور یزیدی فوج نے جشن منایا۔

18. خیموں پر حملہ اور آگ

یزیدی فوج نے خیمے لوٹے، عورتوں کے سروں سے چادریں چھین لیں، آگ لگا دی۔

19. اہلِ حرم کو قیدی بنایا گیا

حضرت زینبؑ، امام سجادؑ اور بچوں کو قیدی بنا کر کوفہ کی طرف روانہ کیا گیا۔

20. نمازِ عصر کا وقت اور مظلومیت کی انتہا

شہادت کا وقت قریب عصر تھا۔

دشمنوں نے نماز بھی روک دی

اور

آسمان پر اندھیرا چھا گیا۔۔

11 محرم الحرام

1. شہدائے کربلا کی لاشیں بے گور و کفن پڑی رہیں۔

یزیدی لشکر نے امام حسینؑ کی لاش سمیت کسی کو دفن نہ کیا۔

2. شمر بن ذی الجوشن نے خیموں کو آگ لگائی۔
اہلِ حرم کو خیموں سے نکالا گیا، بچوں، خواتین کے زیورات چھینے گئے۔

3. اہلِ بیتؑ کو قیدی بنایا گیا۔
حضرت زینبؑ، امام زین العابدینؑ اور دیگر بچوں کو قیدی بنایا گیا۔

4. امام حسینؑ کا سر اور دیگر شہداء کے سر نیزوں پر رکھے گئے۔

12 محرم الحرام

5. شہدائے کربلا کی تدفین
قبیلہ بنی اسد کی مدد سے امام زین العابدینؑ نے شہداء کی لاشوں کو دفن کیا۔
امام حسینؑ کو اپنے بیٹے علی اکبرؑ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

6. یزیدی لشکر کا قافلہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔
قیدیوں کو رسیوں میں جکڑ کر اونٹوں پر سوار کیا گیا۔

13 محرم الحرام

7. اہلِ بیتؑ کو کوفہ لایا گیا۔
شہر کوفہ میں داخلے پر لوگوں کا ہجوم تھا۔
حضرت زینبؑ اور امام زین العابدینؑ نے مؤثر خطبے دیے۔

8. قیدیوں کو ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا۔
اس نے گستاخی کی، مگر حضرت زینبؑ اور امام سجادؑ نے اسے منہ توڑ جواب دیا۔

14–16 محرم

9. کوفہ میں اہلِ بیتؑ کو قید رکھا گیا۔
قید خانے میں بھوک، پیاس اور مصیبت کے دن۔

10. حضرت زینبؑ کا خطبہ مسجد کوفہ میں
آپؑ نے اہلِ کوفہ کو ان کی بے وفائی پر سخت ملامت کی۔

17–19 محرم

11. قافلہ اہلِ بیتؑ کوفہ سے دمشق روانہ کیا گیا۔
کربلا سے کوفہ، اور اب کوفہ سے شام کی طرف سفر۔

12. قافلے کو بعلبک، حماہ، حلب اور حمص سے گزارا گیا۔
بعض شہروں میں لوگوں نے گستاخیاں کیں، بعض نے احترام کیا۔

20 محرم

13. سر امام حسینؑ کے ساتھ معجزات
روایت ہے کہ بعض شہروں میں سر مبارک سے قرآن کی تلاوت سنی گئی۔

21–25 محرم

14. قافلہ دمشق پہنچا دیا گیا۔
یزید کے محل میں قیدیوں کو بے ادبی سے پیش کیا گیا۔

15. حضرت زینبؑ کا خطبہ دربارِ یزید میں
عظیم ترین تاریخی خطبہ، جس میں یزید کی رسوائی کی گئی۔

16. یزید کے بیٹے کا انکار اور قیدیوں کا احترام
بعض روایات میں یزید کے بیٹے معاویہ ثانی نے قیدیوں سے احترام سے پیش آنے کی سفارش کی۔

26–28 محرم

17. قیدیوں کو چند دن یزید کے محل میں قید رکھا گیا۔
امام زین العابدینؑ کی دعا اور صبر کی تعلیم۔

18. شہزادی سکینہؑ کی شہادت (بعض روایات میں)
بعض شیعہ مصادر کے مطابق 28 محرم کو شام کے قید خانے میں حضرت سکینہؑ شہید ہوئیں۔

29–30 محرم

19. یزید نے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
عوامی دباؤ اور معجزات کے باعث، یزید نے قیدیوں کو رہا کیا۔

20. قافلہ واپس مدینہ روانہ ہوا یا کربلا کی طرف لوٹا

(اربعین کے لیے)

بعض روایات کے مطابق یہ قافلہ پہلے کربلا آیا، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔

مستند مصادر:

مقتل ابو مخنف (لوط بن یحییٰ)

تاریخ طبری

الارشاد (شیخ مفید)

لہوف (سید ابن طاؤوس)

نفس المهموم (شیخ عباس قمی)

بحار الانوار (علامہ مجلسی)

مستند مراجع:

مقتل ابی مخنف (لوط بن یحییٰ)

تاریخ طبری

الارشاد (شیخ مفید)

بحار الانوار (علامہ مجلسی)

لہوف (سید ابن طاؤوس)

نفس المهموم (شیخ عباس قمی)

04/06/2025

پروسٹیٹ کی ان لائن دوائی۔۔۔ پرولان۔۔۔۔کراچی سے
آن لائن پروگرام کے نام پر اشتہار بازی کر کے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔منگوانے پر 10 گولیوں کی بوتل دس ہزار روپے میں بھیجی جا رہی ہے۔

اگر اپ نے ان کی ویب سائٹ پر ایک بوتل کی بکنگ کی ہے
جس کی مالیت 10 ہزار روپے ہے
اور انہوں نے اشتہار میں رعایتی قیمت پانچ ہزار روپے لکھی ہے

اور موشن کے نام پر ہر روز یہ اشتہار چلایا جاتا ہے کہ یہ رعایت صرف اج کے دن کی ہے اس کے بعد اپ کو وہاں سے ایک ٹیلی فون اتا ہے

اور اپ کو ایک بندہ بہت زیادہ طبی ماہر ہونے کا تعارف کراتا ہے اور وہ اپ سے پوری ہسٹری لیتا ہے اس کے بعد وہ اپ کو پانچ بوتل کا ارڈر دینے پر مجبور کرتا ہے
اور قائل کرتا ہے اس طرح وہ اپ کو پانچ بوتل 25 ہزار روپے کی افر دیتا ہے

اور اگر اس سے کم لیں گے تو وہ اپ کو فی بوتل 10 ہزار کہتا ہے۔

اس طرح اس بندے کے بار بار اصرار کرنے پر اور اشتہارباری کی باتیں کرنے پر قائل کرنے میں جلدی کرتا ہے تو فورا دوسری باتیں شروع کر دیتا ہے
جیسا کہ ہم اپ کو ڈلیوری دیں گے

یہ گولیاں اپ کو اتنا فائدہ دیں گی

کہ آپ کا پراسٹیٹ کا مسئلہ حل ہو جائے گا اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کر کے وہ اپ کو پانچ بوتل خریدنے پر اصرار کرتے کرتے مجبور کر دیتا ہے

اس کے بعد اگر آپ نے اس کو یہ کہہ دیا کہ اپ نے تو اشتہار میں پانچ ہزار کی بوتل لکھی ھی ہے
تو وہ کہتا ہے کہ یہ پانچ بوتلوں کی آفر ہے اگر اس سے کہا جائے کہ بھائی یہ اشتہار میں تو نہیں لکھا ہوا تو وہ خاموش ہو جاتا ہے
اس کے بعد اگر اس سے کہا جائے کہ تین بوتل بھیجیں وہ 21 ہزار روپے مانگتا ہے

اور ایک بوتل میں 10 گولیاں ہوتی ہیں

یعنی 30 گولیوں کی قیمت 21 ہزار روپے حصول کرنے کی بات کرتا ہے

یہ لوگ کئی بڑے ناموں کا استعمال کر رہے ہیں

جس میں بڑے بڑے مولوی حضرات اور ان میں جو کمنٹس سیکشن ہے
وہ انہوں نے بند کیا ہوا ہے
فرضی ویب سائٹ پر لوگوں کی دوائی کے بارے میں مٹبت رائے لکھی گئی ہے۔
جس پر اپ کمنٹس نہیں دے سکتے
وہ سب کچھ پرنٹڈ ہے لہذا اگر اپ اس کو ارڈر بک کراتے ہیں تو وہ ۔۔پرولان۔دوا کی بجائے بازار کی جعلی تین سو روپے کی دس گولیاں تین بوتل بیج کر 15 ہزار روپے وصول کر لیتا ہے

نہ تو وہ ۔۔پرولان۔۔ بھیجتے ہیں
اور نہ ہی کوئی رعایت کرتے ہیں۔

اس قسم کے اشتہارات سے دھوکا نہ کھا ئیں اور ۔۔پرولان۔۔ کے نام پر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں

اور بڑے بڑے لوگوں کے انٹرویوز دیے جا رہے ہیں۔

لیکن اصل میں کسٹمر کے ساتھ ان لائن دھوکہ دہی چل رہی ہے ہے جس سے محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

03/06/2025

بڑھاپے کو روکنے کے لیئے اپنی خوراک کی طرف توجہ دیں

اس میں
مفید پھل،

سبزیاں،

غذائیں،

مشروبات،

جڑی بوٹیاں،

تیل
اور

دیگر اشیاء کی جدید سائنسی تحقیق سے اخذ کی گئی مفید فہرست اس طرح ہے

درج ذیل دی گئی سبزیاں
خلیاتی صفائی
سوزش میں کمی
آنتوں کی صحت کے لیئے بہت مفید ثابت ہوئی ہیں

1. بروکلی

2. پالک

3. شلجم کے پتے

4. بند گوبھی

5. گاجر

6. چقندر

7. لہسن

8. ادرک

9. ہری مرچ اور مرچ شملہ

10. کریلے

11. ہری پھلیاں

12. پیاز

اسی طرح کچھ پھل بڑھاپے میں بہت مفید ثابت ہوتے ہیں

یہ پھل اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں
جو عمر کے اثرات کو سست کرتے ہیں:

1. انار

2. سیب

3. بیریز

بلوبیری

اسٹرابیری

بلیک بیری

4. آم (اعتدال میں)

5. پپیتا

6. کیلا

7. آڑو

8. تربوز

9. انگور – اعتدال میں)

10. خوبانی

11. خربوزہ

اس کے علاوہ کچھ مشروبات بھی بہت مفید ہوتے ہیں
یہ مشروبات استعمال کرنے چاہیں

1. سبز چائے

2. اولونگ چائے

3. نیم گرم پانی + شہد + لیموں

4. قہوہ (دار چینی، ادرک، لونگ)

5. کافی (1 کپ روزانہ – بغیر شکر)

چند ایک مفید جڑی بوٹیاں کچھ مصالے بھی بہت مفید ثابت ہوتے ہیں



1. ہلدی

2. دار چینی

3. روزمیری

4. تلسی

5. اجوائن

6. زیرہ

7. ہینگ

8. لونگ

کچھ تیل اور چکنائیوں کا استعمال بہت مفید ہے

1. زیتون کا تیل

2. ناریل کا تیل

3. السی کا تیل

4. بادام، اخروٹ، پستہ

5. مچھلی (Fish - خصوصاً salmon, sardines)

6. ایووکاڈو

کچھ کاربوہائیڈریٹس
توانائی بھی دیتے ہیں اور آنتوں کی صحت کو بہتر بناتے ہیں:

1. دالیں

2. چنے

3. جو

4. براؤن چاول

5. کوئنوا (Quinoa)

6. میٹھا آلو

7. سبز سبزیاں

اس کے علاوہ
دیگر غذائیں استعمال کرنا بہت مفید ہے جن میں

1. دہی

2. دیسی گھی (اعتدال میں)

3. شہد (1 چمچ روزانہ)

4. انڈے ایک یا دو روزانہ)

5. مچھلی (خصوصاً fatty fish)

6. ہڈیوں کا شوربہ ۔
اس میں ضرورت ثمر کی ہے کہ یہ چیزیں اپ انتہائی اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔
کچھ چیزوں سے مکمل پرہیز کی ضرورت ہے جیسے
نمک کا زیادہ استعمال
بیکری کی ائٹمز
بازار کے برگرز
ہر قسم کی کولڈ ڈرنکس

اور بازار میں تیار شدہ فرائی کھانے

شادیوں۔یا مختلف تقریبات میں بنائے گئے کھانے جو انتہائی بھاری ہوتے ہیں ان سے پرہیز ضروری ہے۔
ان تمام چیزوں کو اگر اعتدال کے ساتھ اور ایک خصوصی ترتیب سے تھوڑا تھوڑا استعمال کیا جائے اور اپنی روزانہ کی معمولات میں جی اس میں سے ایک گھنٹہ چہل قدمی ۔۔اور ایک یا دو گھنٹے مختلف اوقات میں اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ بیٹھنا انتہائی ضروری ہے۔
اگر پرندے کال سکیں تو پرندے کال ہیں نہیں تو ازاد پرندوں کے لیے پانی اور خوراک رکھنے کی جگہ مخصوص کر لے تاکہ اپ میں ایک مخصوص قسم کی باقاعدگی ائے

اپنی خوراک کو اور دواؤں کو ایک خاص طریقے سے استعمال کرنے سے پہلے نوٹ کر لیا کریں۔
کوشش کریں کہ 10 سے 12 گلاس پانی وقفے وقفے سے۔
ہر دو گھنٹے بعد تھوڑی سی کوئی نہ کوئی چیز کھا لینی چاہیے۔
ایک دم پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا نا نہیں چاہیئے ۔۔۔
۔
دعا گو ۔حکیم خالد خان نیازی ۔

کاپی شدہ تحریر بشکریہ
سوشل میڈیا معلومات
کچھ بہترین ویب سائٹس
اور
آئی اے ایپس

29/04/2025

دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات چالیس یا آس پاس کے پھیر میں ہوں تو خود سے کافی حد تک لاپروا ہو جاتے ہیں ۔۔۔ بلکہ خود کو بوجھ ڈھونے والا گدھا تصور کرنے لگتے ہیں۔۔۔ بوجھ ضرور ڈھوئیے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو زندگی کا ارتقا اور تسلسل سمجھ کر ۔۔۔

مرد عموماً نوجوانی میں یا جوانی میں پھر بھی اپنا خیال رکھ لیتے ہیں، لیکن بعد کی ذمہ داریوں میں پھنس کر سب کچھ ترک کر دیتے ہیں۔۔۔ جسمانی مشقت کرنے والے اپنے لباس اور حلیے سے یکسر لاپروا ہوجاتے ہیں۔ رنگ اڑے بکھرے بال اور بغیر استری کے گندے کف کالر والے کپڑے، گندے جوتے ان کا ٹریڈ مارک بن جاتے ہیں۔ آ فس میں جاب کرنے والوں کا حلیہ بھی موٹی توند کی وجہ سے قابلِ اعتراض ہی لگتا ہے۔

جس طرح بننا سنورنا عورت کا پیدائشی حق ہے، اسی طرح صفائی اور کپڑوں کی درست ترتیب مردوں کا پیدائشی حق ہے۔۔۔ گھر ہو یا دفترخواتین بھی "مرتب" حضرات کو ہی پسند کرتی ہیں۔ لیبر ورک ہے، جاب یا کاروباری سلسلہ۔


آئیے ان چیزوں پر فوکس کرتے ہیں جو بالکل بے توجہی کا شکار ہیں۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جنہیں adopt کرنے سے personality building اور personal grooming میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

1 ۔۔۔۔۔۔۔ ہفتے میں ایک بار ہیئر کٹ لازماً کروائیں۔۔۔ داڑھی ہے تو خط بھی بےحد ضروری ہے۔ گال پر آئے بے ترتیب موٹے بال تھریڈنگ سے نکلوالیجیے۔ اس طرح خط پورا ہفتہ کشیدہ ہی رہتا ہے۔۔


2 ۔۔۔۔۔۔۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ہارمونل پرابلمز اور چینجز کی وجہ سے کان کی لوؤں پر گھنا رواں بلکہ موٹے بال ظاہر ہونے لگتے ہیں، انہیں دھاگے سے نکلوا دیجیے ورنہ شخصیت کا تاثر خراب بیٹھتا ہے۔


3 ۔۔۔۔۔۔ بھنوؤں میں اِکّا دُکّا بال لمبے ہوجاتے ہیں، قینچی سے برابر کروا لیجیے۔ مونچھیں تو ترشواتے ہی ہیں، ناک کے بال بھی چھوٹی قینچی سے ترش لیجیے۔

4 ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھوں اور پیروں کے ناخن جمعہ کے جمعہ تراش کر سنت بھی پوری کیجیے۔ پیروں کی ایڑیوں اور ناخنوں کے گرد ڈیڈ اسکن (چنڈیاں اور مردہ کھال) کٹر سے کاٹ لیجیے۔۔۔ یہ عمل صحت و صفائی کے ساتھ شخصی تاثر میں اضافہ کا باعث ہے۔


5 ۔۔۔۔۔۔۔ عموماً دیکھا گیا ہے مرد زیادہ سے زیادہ دو منٹ میں نہا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔۔۔ جناب اس میں ایک منٹ کا اضافہ اور کر لیجیے۔۔۔ بالوں کو شیمپو کرنے کے دوران کانوں کے پیچھے اور کان کی سلوٹوں کروٹوں اور ڈیزائن میں اسفنج یا انگلیاں اچھی طرح گھما لیجیے۔۔۔ ان تہوں میں اکثر میل رہ جاتی ہے۔۔۔ جو بہت بدنما معلوم ہوتی ہے۔۔۔ بازار میں لمبے ہینڈل والے باتھنگ برش عام ملتے ہیں، پشت پر صابن لگانے کے لیے استعمال کیجیے۔

6 ۔۔۔۔۔۔۔ کرسی پر زیادہ دیر بیٹھے رہنے سے توند لٹکنے لگتی ہے پیٹ اٹھا کر وہاں بھی صابن کا اسفنج پھرائیے اور پانی بہائیے۔۔۔ ناف کے گڑھے کو صفائی کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ شدید بدبو دینے لگتی ہے اور کئی جلدی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

7 ۔۔۔۔ نہانے کے فوراً بعد کاٹن بڈ سے کان کے دونوں سوراخ صاف کیجیے۔۔۔ ایک قطرہ سرسوں یا زیتون کا تیل ناف میں ڈالیے۔۔۔ بہت سے امراض سے حفاظت ملتی ہے۔


8 ۔۔۔۔۔ پیروں کے تلوؤں اور انگوٹھے کے ناخنوں پر بھی یہی تیل لگائیے۔ سر درد نہیں ہوتا اور نظر کی کمزوری بھی نہیں ہونے پاتی۔


9 ۔۔۔۔۔۔۔باہر کے جوتے ہمیشہ پالش شدہ اور صاف کر کے پہنیے۔ گھر کی چپلیں تو بیگم دھو ہی دیتی ہیں۔

10 ۔۔۔۔۔۔۔اور خدارا پاؤں گھسیٹ کر اور ڈھیلے ڈھالے تھکے ہوئے گدھے کے انداز میں کبھی مت چلیے۔۔۔ کسی بھی رشتے سے منسلک خاتون باپ بھائی یا شوہر کا یہ انداز پسند نہیں کرتی۔۔۔ کوشش کر کے ہمیشہ سیاہ مشکی گھوڑے کی طرح چست و چالاک نظر آ ئیے، بھلے گھر میں بیڈ پر آرام کا وقت بڑھا دیجیے۔۔۔

11 ۔۔۔۔۔۔ ہاف پینٹ اور شاٹس پہن کر باہر نہ نکل جایا کیجیے۔ کئی خواتین خفیف ہوتی ہیں اور مذہب نے بے شک آپ کو دوپٹے کی پابندی سے آزاد رکھا ہے، لیکن تھوڑی سا پابند بھی کیا ہے۔

12 ۔۔۔۔۔ پینٹ کو کولہے کی ہڈی تک پہننا بند کردیجیے۔ یہی گمان ہوتا ہے ابھی گر جائے گی۔ ناف کے عین نیچے پینٹ کی انتہائی حد ہونی چاہیے۔

13 ۔۔۔۔۔ ہمیشہ جوتے، موزے، ٹائی وغیرہ لباس سے میچ کر کے پہنیے۔۔۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں آرائشی اشیاء ہیں اور انہیں پٹے کی طرح لٹکانا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ یہ شخصیت ابھارنے کی اسیسریز ہیں۔

14 ۔۔۔۔ اگر سیگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ سگار، پائپ یا حقہ پیتے ہیں تو اس میں اپنا ایک (کمفرٹ زون ) خاص اسٹائل بنائیے۔۔۔ جاہلوں کی طرح سُوٹے مت لگائیے۔ ( اگرچہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔)


15 ۔۔۔۔۔ آفس یا ورکنگ پلیس پر جاتے وقت کسی عمدہ برانڈ کا ہلکا پرفیوم اسپرے کیجیے۔۔۔ اور کوشش کیجیے کہ آپ کی آمد کا سندیسہ یا پہچان آپ کا برانڈ دے۔ ہم اپنے ابا اور بھائیوں کی کسی جگہ موجودگی ان کی خوشبو سے کر لیتے تھے۔۔۔ اور بنیان بھی اسی رچی خوشبو سے الگ الگ کرتے تھے۔

16 ۔۔۔۔ اپنے بولنے کے لہجے پر غور فرمائیے۔۔۔ جھٹکے مار مار کر یا بات کو لٹکاکر تو گفتگو نہیں کرتے؟ اگر ایسا ہے تو کوشش کر کے لہجہ قابو میں لے آئیے۔۔۔

17 ۔۔۔۔۔۔ مردانہ شخصیت کے وقار میں لہجے کی گھمبیرتا اور ٹھہراؤ سے کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ تیز تیز بول کر اسے تباہ مت کیجیے۔

18 ۔۔۔۔۔۔ پبلک میں یا گھر میں سرِ عام ناک سے رینٹ نہ نکالیے۔۔۔ نہ ہی تھوکتے چھینکتے پھریئے۔۔۔ بولنے کے دوران جوش میں تھوک نہ اڑائیے ۔

19 ۔۔۔۔ کھانا کھانے کے دوران چپ چپ پر قابو پائیے۔۔۔ اور کھانے کے بعد بے سُرا جاہلانہ ڈکار لینے سے پرہیز کیجیے۔۔۔ ڈکار تہذیب سے بھی لیا جا سکتا ہے۔


20 ۔۔۔ خواتین کو تاڑ کر ہراساں کرنے سے پرہیز کیجیے۔ آپ کو حقارت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔۔ اور خواتین آپ کی موجودگی میں انکمفرٹیبل محسوس کرتی ہیں۔

21۔۔۔۔۔۔۔ بہت زیادہ اور فضول بولنے سے پرہیز کیجیے۔ کئی طرح کے بھرم رہ جاتے ہیں۔

22 ۔۔۔۔۔۔۔ ذرا سوچ کر آئینہ دیکھیے اب ایک گریس فل شخصیت نظر آ رہی ہے۔ ورنہ جہاں جہاں کمی ہے، دور کرلیجیے۔
23.. کسی کو بغیر مانگے مشورہ نہ دیجئے اور اگر معلومات نہیں تو صاف کہہ دیجئے کہ میرا اس ان معاملے میں علم کم ہے۔
24. جب بھی کسی کو سلام کرنا ہو ہلکی سی مسکراہٹ سے سلام کریں تاکہ پتہ چلے کہ اپ کا موڈ خوشگوار ہے اس سے دوسرے ادمی کا موڈ بھی خوشگوار ہو جاتا ہے.
25. ۔ایسے لوگوں سے اٹھنا بیٹھنا کام کریں جو تنزیہ باتیں کرتے ہیں یا پھر اپ کو دیکھ کر ان کا موڈ اف ہوتا ہے یا وہ دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں۔
26. ۔کبھی بھی کسی شخص کو بازار میں کسی ہوٹل پر انٹرٹین کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر اپ کسی کو عزت دینا چاہتے ہیں تو کسی فارغ دن دن دوسرے دوستوں کے بھی بلا کر دعوت کر لیں۔۔
27. ۔۔گھر میں چھوٹی موٹی باتوں کو غیر ضروری طور پر بہت زیادہ اہم کر کے نہ دکھائیں تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو بلکہ سمجھا دیں۔اس کا بہترین طریقہ کیا ہے۔۔
28.

10/04/2025

بہن سرکاری ٹیچر ہیں۔ انہوں نے سوال پوچھا ہے "خاوند پورا مہینہ دماغ بھی کھاتا ہے اور پھر تنخواہ بھی کھا جاتا یے۔ خود سویا رہتا ہے یا رعب جھاڑتا ہے۔ کام کار یا تو کرتا کوئی نہیں اگر کرتا ہے تو وہ بھی کہتا ہے پیسے دو کاروبار کروں گا۔ اور کاروبار کے نام پر پیسے اجاڑ کر آ جاتا ہے۔ زیور تک میرا بیچ چکا ہے۔ ایسے نکمے خاوندوں سے کیسے نمٹا جائے جو خود کچھ کماتے نہیں اور ہمیں نوکری کرنے کی اجازت دینے کے بدلےمیں سب کھا جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کوئی بیگار کر رہی ہوں۔"
بہن جی، ایسے نکمے خاوندوں سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے خود کو بیچاری نہ سمجھیں، بلکہ سمجھدار عورت بنیں۔ مثال کے طور پر:
---
# # # ۱۔ **شیرنی والا اصول: نرمی سے بات کریں مگر دماغ کھول کر**
اسے ڈانٹنے کی بجائے اس کے **"عزت اور خودداری"** کو ٹارگٹ کریں۔ مثال دے کر کہیں:
_"آپ جیسے ہوشیار آدمی کو دیکھ کر سب کہتے ہیں 'کاش یہ کوئی کام کرتا'۔ میں تو فخریہ بتانا چاہتی ہوں کہ میرا شوہر خود کماتا ہے۔"_
یا پھر:
_"آپ نے فلاں دن جو یہ سوچ بتائی تھی، وہ بہت اچھی تھی۔ اگر آپ اُس پر کام کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔"_

---

# # # ۲۔ **"بچوں کا کارڈ" چلائیں**
اگر بچے ہیں تو اُن کے ذریعے اسے شرمندہ کریں۔ مثال:
بچے سے کہلوائیں: _"ابو، میری فرینڈز کے ابو تو آفس جاتے ہیں، آپ کیوں نہیں؟"_
یا پھر بچے کی فیس/ٹیوشن کا بہانہ بنا کر کہیں: _"اس مہینے بچے کی فیس نہیں بھر پائی، آپ کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے مدد کر دیں۔"_

---

# # # ۳۔ **"نقشہ بدل دیں" – پیسے کا بہاؤ روکیں**
جیسے بچے کو روٹی دینے سے پہلے ہوم ورک کرواتے ہیں، ویسے ہی اُسے **"شرط"** لگائیں:
- _"گھر کا کرنٹ بل آپ بھریں گے تو میں اگلی تنخواہ سے آپ کو نیا موبائل دلوا دوں گی۔"_
- _"اگر آپ نے ماہانہ ۱۰ ہزار کمائے تو میں آپ کے لیے خصوصی کھانا پکاؤں گی۔"_

---

# # # ۴۔ **کام کی "آڑ" میں اُس کی دلچسپی جوڑیں**
اس کی پسند کو نوکری سے جوڑیں۔ مثلاً:
- اگر وہ کرکٹ کا شوقین ہے تو کہیں: _"سپورٹس شاپ پر پارٹ ٹائم کام مل سکتا ہے، وہاں تو آپ کرکٹ کی بات بھی کر سکتے ہیں۔"_
- اگر موبائل میں وقت گزارتا ہے تو کہیں: _"یوٹیوب پر ویڈیوز بنا کر پیسے کما لیں، آپ کو تو سب آتا ہے۔"_

---

# # # ۵۔ **"سسرال والوں" کو فیلڈ میں لائیں**
اپنے سسر یا نند سے کہیں اُسے شاباش دیں۔ جیسے:
سسر صاحب کو کہلوائیں: _"بیٹا، تمہاری بیوی تنہا گھر چلا رہی ہے، تمہارا تو فرض بنتا ہے کہ مدد کرو۔"_
یا نند کہے: _"بھائی، تم نے تو پڑھائی بھی کی ہے، تمہارے جیسے لوگ ہی تو آگے بڑھتے ہیں۔"_

---

# # # ۶۔ **"نہیں" کہنے کی عادت ڈالیں**
جیسے دودھ والا زیادہ پیسے مانگے تو اُسے ٹال دیتے ہیں، ویسے ہی خاوند کو بھی "لاٹریاں" دیں:
- _"ابھی بجٹ نہیں ہے، آپ خود کما کر لے آئیں تو میں ساتھ چلونگی۔"_
- _"میرے پاس صرف گھر کا کرایہ ہے، باقی آپ کو خود ہی بندوبست کرنا پڑے گا۔"_

---

# # # ۷۔ **"ٹوٹے ہوئے خواب" یاد دلائیں**
اُسے اُس کی **پرانے خوابوں** سے جوڑیں۔ مثال:
_"آپ نے تو مجھے بتایا تھا کہ بڑے ہو کر بزنس کرنا ہے، اب تو شروع کر دیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔"_
یا پھر: _"آپ کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں، یہ کیسے گوارا کر لیں؟"_

---

# # # نکمے پن کی **واپسی گارنٹی** نہیں ہوتی، لیکن اگر آپ اُسے بار بار **"کام کرنے کا موقع"** دیں گی تو شاید وہ سیدھے راستے پر آ جائے۔ اگر بالکل نہ سنے تو **اپنی توانائی اپنے مستقبل** پر لگائیں۔ یاد رکھیں: جس گاڑی کا انجن ہی نہ چلے، اُسے کھینچنے سے بہتر ہے کہ آپ خود آگے بڑھ جائیں! 🚗💨

آگے بڑھنے کے اصول یہ ہوں گے۔
**۱۔ بات چیت کریں اور حد بندی کریں:**
خاوند کو سنجیدگی سے بیٹھ کر اپنے جذبات اور پریشانیاں بتائیں۔ مثال کے طور پر کہیں: _"میں پورا مہینہ محنت کر کے تنخواہ لاتی ہوں، لیکن آپ اسے بے جا اخراجات میں اڑا دیتے ہیں۔ یہ میرے لیے ناانصافی ہے۔"_ اپنی کمائی کا ایک حصہ الگ رکھیں اور گھر کے ضروری اخراجات کے علاوہ رقم دینے سے انکار کریں۔

**۲۔ مالی خودمختاری حاصل کریں:**
اگر خاوند کام نہیں کرتا تو اپنی کمائی کو خود سنبھالیں۔ مثال: خاوند کو ATM کارڈ نہ دیں اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ایک اور اکاونٹ کھلوائیں اور تنخواہ آتے ہی اس کا کچھ حصہ آن لائن بنکنگ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل کر دیں اور خاوند کو بتائیں کہ تنخواہ میں کسی سرکاری مد میں کٹوتی شروع ہو گئی ہے ۔ گھر کے لیے ضروری چیزیں خود خریدیں، نقد رقم دینے سے گریز کریں۔ اور اگر دیں تو بچی کھچی۔

**۳۔ خاندان یا مشیر کی مدد لیں:**
اگر خاوند سنجیدہ نہ ہو تو والدین، بھائی، یا قابل اعتماد رشتہ دار کو ساتھ بٹھا کر بات کریں۔ مثال: _"ابو/امی، میری ساری کمائی خاوند صرف اپنی خواہشات پر لگا دیتے ہیں، میری مدد کریں۔"_

**۴۔ نوکری کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھیں:**
خاوند پر انحصار کم کرنے کے لیے کوئی اضافی ہنر (جیسے سلائی، کھانا پکانا، آن لائن کام) سیکھیں اور ذاتی بچت کریں۔ مثال: فری لانسنگ سے ماہانہ ۵-۱۰ ہزار روپے کمائیں اور خاوند کو بتائے بغیر الگ رکھیں۔

**۵۔ قانونی راستہ اختیار کریں:**
اگر خاوند ظلم یا استحصال کرے تو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں (جیسے "عورت فاؤنڈیشن") یا وکیل سے مشورہ کریں۔ مثال: شوہر کو کہیں _"اگر آپ نے کام نہیں کیا تو میں آپ کو قانونی نوٹس بھیج دوں گی۔"

یاد رکھیں ایسا رشتہ جسے صرف پیسے خرچ کر کے ہی بچایا جا رہا ہو اس رشتے میں رہنے سے اکیلے رہنا بہتر ہے۔ اس میں اخلاص اور احساس نہیں ہوتا اور ساتھ رہنے کے لیے یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔

**نوٹ:** ایسے خاوندوں کو "نکما" سمجھ کر صبر نہ کریں۔ آپ کی محنت اور خودداری سب سے قیمتی ہے۔ اگر شوہر کو بدلنے کا امکان نہیں، تو اپنی زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔
بہت سی خواتین اس کیفیت سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ کچھ خاوند واقعی ایسے ہوتے ہیں جیسے "اوپر سے لیکچر اور نیچے سے چیک"۔ اس لیے میں یہی کہوں گا- یا پاس کر 🦶یا برداشت کر . کاپی شدہ تحریر بشکریہ فیس بک فرینڈ

09/04/2025

اج کل عجیب سے ٹرینڈ پاکستان میں چل رہے ہیں کہ جی فلاں چیز یہودیوں کی ہے فلاں چیز مسلمانوں کی ہے فلاں چیز پاکستان میں ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ چیزیں جن کے بارے میں مہم چلائی جا رہی ہیں یہ سب ہی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ ہمیں تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور ہم سے 500 گنا چیزیں مہنگی کر کے بیچی جا رہی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمیں کوئی خوراک کا اور اسے استعمال کرنے کا شعور ا جائے ہمیں اپنے گھروں میں گملوں میں سبزیاں لگانی چاہیے گھر میں مشروبات تیار کرنے چاہیے اپنے بچوں کو ہم خود اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کر رہے ہیں اج کل مکھی کا موسم ہے اور اس موسم میں ہدایت کی جاتی ہے کہ بازار کی کوئی چیز استعمال نہ کریں کیونکہ اج کل جہاں بھی جائیں جس مطلب پر بھی جائیں جس کلینک پر جائیں وہاں پہ الٹی پیچس اور دیگر پیٹ کی بیماریوں کے مریض ارہے ہیں اور انہیں دھڑا دھڑ ایسی دوائیں دی جا رہی ہیں کہ ان کی صحت کے لیے تباہ و بربادی ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ ایسی غذا صاف ستھری گھر میں کھائیں جس میں مکھیاں نہ ہوں اپنے گھر کو مکھیوں سے صاف رکھیں اج کل ایسی چینی جس پر زہر لگا ہوتا ہے وہ بازار میں ملتی ہے وہ پلیٹوں میں رکھ کر مکھیوں کو مارا جا سکتا ہے گھر میں صفائی رکھیں اور اپنی راہ کو مکھیوں سے محفوظ رکھیں اور خصوصا بچوں کو اتنا شعور دیں کہ وہ اس موسم میں بازار کی چیزیں نہیں کھانی چاہیے اور جن پیکنگ میں چپس ٹافیاں ائس کریمیں ا رہی ہیں وہ مٹیریل جس میں پیک ہوتا ہے وہ صحت کے لیے انتہائی مضر ہے لہذا ہمیں غذا کے شعور کو سیکھنا چاہیے جتنا وقت ہم ڈراموں فلموں گانے سننے میں یا بیہودہ باتیں کرنے میں لگاتے ہیں کیوں نہ ہمیں ایسی معلومات سیکھنی چاہیے جن سے ہمارا وقت بھی برباد نہ ہو اور ہماری علمی تعمیر ہو سکے ہمیں شعور مل سکے ہمیں سماجی شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں صحت کے اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمیں ٹریفک کے اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے ملک کا جغرافیہ اور اپنے ملک کے تمام معلومات اب و ہوا اور دیگر زرعی معلومات کی ضرورت ہے گھر میں پھل پھول پودے لگانے کے علم کی ضرورت ہے اخر کب تک ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے اور بازار کی مضر اور مہنگی چیزوں پہ اپنا سرمایہ ضائع کر کے خود ہی اپنے صحت برباد کرتے رہیں گے ہمیں ایک صحت مند قوم تیار کرنی ہے تو اس کے لیے بڑوں کو چاہیے یا والدین کو چاہیے اساتذہ کو چاہیے یہ اپنے بچوں کو ایسا شعور دیں کہ وہ بازار کی گندی پیکنگ والی کوئی چیز خود ہی نہ لے بلکہ وہ اس سے نفرت کریں اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہماری حالت بالکل جاہلانہ زندگی گزارنے والی ہوگی اور ہم کبھی بھی صحت مند اور باشعور قوم نہیں بن سکیں گے

ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ تمام چیزیں صحت کے لیے مضر ہیں

اور ہمیں کوئی چیز بھی بازار کی استعمال نہیں کرنی چاہیے

نہ تو یہودیوں کی اور نہ ہی ایسی چیزیں جو مسلمان تیار کر رہے ہیں یہ سب سے صحت کے لیے نقصان دہ ہیں

اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسی چیزیں استعمال کرے اج سے 50 سال پہلے کون ایسی چیزیں استعمال کرتا تھا ہمارے معدے کو اور انتڑیوں کو ان چیزوں نے تباہ و برباد کر دیا ہے اور 50 سال کی عمر میں ہر ادمی السر کا اور معدے کی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے لہذا ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بازار کی بنی ہوئی ائس کریم لیز چپس اور یہ مشروبات استعمال کریں ہم اپنے اوپر ان چیزوں کو کب تک مسلط کریں گے ایک وقت ائے گا کہ ہماری حیثیت ایک کتے کی سی ہو جائے گی جس کو مالک پکا پکایا اگے ڈال دیتا ہے ہمیں اپنی چیزیں گھر میں خود تیار کرنی چاہیے ہندوستان اور پاکستان میں جڑی بوٹیاں اور دیگر مشروبات جو لوکل تیار کیے جاتے ہیں لسی وغیرہ گھر میں تیار کرنی چاہیے اور دیہاتیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں دودھ والے جانور رکھیں اج کل دیہاتوں میں بھی ٹرینڈ ا گیا ہے کہ وہ شہریوں کی طرح بازاری دودھ لے رہے ہیں اور بڑی شرمناک سی بات ہوتی ہے جب دیہات کے لوگ جن کے بڑے بڑے گھر ہیں صحن ہیں وہ گھر میں سبزیاں نہیں لگاتے اور بازار کی گندی سبزیاں جس میں گندی کھاد گٹر کے پانی اور گندے ٹرکوں میں چار چار دن کے باسی پھل اور سبزیاں کھا رہے ہیں اخر ایک وقت ائے گا جب ہمیں شعور ائے گا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم شعور سے بہت دور ہو چکے ہیں

06/04/2025

جو شخص ظلم ہونے کی اجازت دیتا ہے وہ ظلم ہے برابر کا شریک ہوتا ہے جو شخص ظلم کو ہوتا ہوا دیکھتا ہے وہ بھی شریک جرم کہلایا جا سکتا ہے اب ہماری بے بسی دیکھیے کہ کہیں نہ کہیں انسانیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے لوگوں کو دن دہاڑے بمبوں سے جلایا جا رہا ہے اور ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سرعام چل رہی ہیں مگر ہم لوگ کس درجہ کی انسانیت رکھتے ہیں کہ وہ دیکھ کر ہمارے دل پگھل نہیں جاتے ہمارے دلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ پتھر ہو گیا ہے اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم سوشل میڈیا کے ذریعے ہر اس پوسٹ کو لائک کرو اور اس پہ کمنٹس کرنی چاہیے کہ یہ ظلم نہیں ہونا چاہیے ظالم کے خلاف اواز اٹھانی چاہیے مظلوم کے حق میں اواز اٹھانی چاہیے اپنے ضمیر کے مطابق جتنی کوشش کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں اپنے دوستوں کو بتائیں
اپنے قریبی لوگوں کو بتائیں
ان کے لیے ہمدردیاں پیدا کریں

ان کے لیے فنڈز اکٹھے کریں
فرض اکٹھے کر کے کسی مستند این جی اوز کے حوالے کر دیں
کچھ نہ کچھ کرتے رہیں
تاکہ
ہمارا ضمیر زندہ رہے اور

ہمارا ایمان بھی سلامت رہے ۔
مفہوم حدیث ہے
کہ
پوری دنیا کے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں

اگر کسی مسلمان کو دنیا کے کسی بھی کونے میں تکلیف ہوتی ہے
تو
ہر ایمان والے مسلمان کے دل میں اسی طرح درد اٹھتا ہے
جس طرح مظلوم کے ساتھ ظلم کے بعد درد پیدا ہوتا ہے۔
ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ہماری انسانیت کا معیار کیا ہے ہمارے ایمان کا درجہ کیا ہے ہمارے اعمال کس حد تک قران و حدیث کے عین مطابق ہیں کیا ہم بگڑ تو نہیں چکے کیا ہم دین سے دور تو نہیں ہو چکے

کیا ہم انسانیت کو چھوڑ تو نہیں چکے

اگر ایسا ہے

تو پھر بھی توبہ استغفار کرنی چاہیے اور

اپنا محاسبہ کرنا چاہیے

03/04/2025

”میں بے عزتی کو ترسا ہوا تھا‘ میں ایک دن اپنے پرانے محلے میں چلا گیا‘ میں گلی سے گزر رہا تھا‘مجھے اچانک آواز آئی‘ اوئے ظفری کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ بس یہ آواز میرے کانوں میں پڑنے کی دیر تھی‘ میری ساری ٹینشن‘ اینگزائٹی‘ بلڈ پریشر اور شوگر ٹھیک ہو گئی‘ میں خلا سے زمین پر آ گیا“۔ وہ مسکرا رہا تھا‘ مجھے وہ بڑے عرصے بعد مطمئن‘ مسرور اور صحت مند دکھائی دیا‘ میں اسے دس سال سے جانتا ہوں‘ یہ سیلف میڈ ارب پتی ہے۔میڈیکل سٹور چلاتا تھا‘ پچیس سال پہلے کف سیرپ کی ایک دیوالیہ کمپنی خریدی اور کف سیرپ بنانا شروع کر دیا‘ ملک میں اس وقت ڈسٹ الرجی پھیلی ہوئی تھی‘ لوگوں نے اس کا کف سیرپ استعمال کرنا شروع کیا اور پھر معجزہ ہو گیا‘ یہ لاکھ پتی بنا‘ پھر کروڑ پتی ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا‘ دکان فارما سوٹیکل کمپنی میں تبدیل ہو گئی اور یہ دوائیں ایکسپورٹ کرنے لگا۔میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو دنیا کی خطرناک ترین چیز کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ دولت دنیا کی خطرناک ترین چیز ہے‘ دنیا میں آج تک ایٹم بم سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے لوگ روزانہ دولت کے ہاتھوں مرتے ہیں‘ انسان کبھی بھوک سے نہیں مرتا‘ کھانے سے مرتا ہے‘ انسان کو غربت نہیں مارتی‘ امارت مارتی ہے اور انسان کبھی ناکام ہو کر بیمار نہیں ہوتا یہ کامیاب ہو کر علیل ہوتا ہے‘ دولت کبھی کسی کے پاس نہیں ٹھہرتی‘ ہم سب چیک بک ہوتے ہیں‘ دولت آتی ہے اور ہم سے ہو کر آگے نکل جاتی ہے‘ ہم کریڈٹ کارڈ ہیں‘ ہم سب کی ایک کریڈٹ ویلیو ہوتی ہے‘ یہ ویلیو خرچ ہو جاتی ہے اور پھر ہم بلاک ہو جاتے ہیں‘ ہم دولت کماتے ہیں اور یہ چند دن‘ چند ماہ بعد ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے لیکن یہ جاتے جاتے ہمارے چار اثاثے ساتھ لے جاتی ہے‘ یہ ہماری صحت کھا جاتی ہے‘ میں نے آج تک زندگی میں کسی امیر شخص کو صحت مند نہیں دیکھا‘ انسان کی کریڈٹ ویلیو جتنی بڑھتی جاتی ہے یہ اتنا ہی بیمار ہوتا چلا جاتا ہے۔دنیا بھر کے دولت مند پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے درمیان مر جاتے ہیں یا پھر آخری عمر ہسپتالوں اور کلینکس میں گزارتے ہیں‘دوسرا دولت ہمارے تعلقات کو کھا جاتی ہے‘ ہم لوگ بیٹا‘ باپ‘ بھائی‘ بہن اور بیوی نہیں رہتے‘ ہم اکیلے رہ جاتے ہیں‘ آپ کبھی غریب بھائی کو غریب بہن کے خلاف مقدمہ کرتے نہیں دیکھیں گے لیکن عدالتوں میں آپ کو امیر بچوں‘ باپ‘ بھائیوں اور بہنوں کے ہزاروں مقدمے ملیں گے‘زندگی میں غریب رشتے دار ناراض ہو کر راضی ہو جاتے ہیں مگر امیر رشتے داروں کی لڑائیاں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں چناں چہ دولت آپ کے رشتے کھا جاتی ہے۔دولت کا تیسرا وار اخلاقیات پر ہوتا ہے‘ آپ کو میلوں تک کوئی امیر شخص بااصول یا با اخلاق نہیں ملے گا‘ جھوٹ ہو یا مجرے ہوں آپ کو ان کے دائیں بائیں امیر لوگ نظر آئیں گے لہٰذا دولت آپ کی اخلاقیات نگل جاتی ہے اور چوتھا اثاثہ سکون ہے‘ دولت آپ کا سکون چھین لیتی ہے‘ آپ نے زندگی میں بہت کم امیر لوگ مطمئن اور پرسکون دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں اور انہیں نیند لانے کیلئے گولیاں کھانی پڑتی ہیں اور میرے اس دوست کے ساتھ بھی یہی ہوا۔یہ پہلے اپنی صحت سے محروم ہوا‘ پھر یہ فیملی میں اکیلا ہوا‘ پھر یہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا اور آخر میں یہ بے سکونی کے بحر بیکراں میں جا گرا‘ یہ مردم بیزار ہو گیا‘ یہ لوگوں کو دیکھتا تھا اور برا سا منہ بنا کر چہرہ دوسری طرف پھیر لیتا تھا‘ یہ زندگی سے بری طرح تنگ آ چکا تھا‘ یہ عمرے بھی کر چکا تھا‘ دنیا بھر کی نعمتیں بھی اپنے اردگرد جمع کر لی تھیں اور اس نے ناچ کود اور لیٹ کر بھی دیکھ لیا تھا لیکن اسے سکون نصیب نہیں ہوا تھا مگر پھر اس میں ایک عجیب تبدیلی آئی‘ یہ زندگی کی طرف واپس لوٹ گیا‘ یہ مطمئن بھی ہو گیا‘ مسرور بھی اور صحت مند بھی اور میں اس سے اس کایا کلپ کی داستان سن رہا تھا۔وہ بولا ”میں جی ٹی روڈ پر سفر کر رہا تھا‘ میں اپنے آبائی قصبے کے قریب سے گزرا اور پھر میں نے بریک لگا دی‘ میں اپنے پرانے محلے میں چلا گیا‘ میں جوں ہی اپنی گلی میں داخل ہوا‘ کسی کونے سے آواز آئی اوئے ظفری‘ کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر میری ساری بیماریاں ختم ہو گئیں‘ وہ میرے بچپن کا دوست مجید تھا‘ ہم اسے مجیدا کہتے تھے‘ اس کا والد بازار میں دہی بھلے کی ریڑھی لگاتا تھا‘ وہ بچپن ہی میں والد کے ساتھ کام پر لگ گیا تھا۔وہ اپنے گھر سے دہی بھلے چوری کر کے لاتا تھا اور ہم گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھاتے تھے‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کشتی بھی لڑتے تھے‘ بھونڈوں (بھڑوں) کے ساتھ دھاگا باندھ کر بھی اڑاتے تھے اور ہم اتوار کے اتوار گلی ڈنڈا بھی کھیلتے تھے‘ وہ مجھے ہمیشہ ظفری کہتا تھا‘ میں ترقی کر گیا‘ میں پہلے بین الاقوامی شہری بنا اور پھر ظفری سے سید ظفرالحق بن گیا‘ لوگ مجھے شاہ صاحب یا ظفر صاحب کہتے تھے‘ دفتر میں میرا نام ایس زیڈ تھا‘ میں نے 40 سال سے کسی کے منہ سے ظفری نہیں سنا تھا لیکن مجیدے نے جوں ہی مجھے ظفری کہا‘ میری خوشیاں مجھے واپس مل گئیں‘ میں ٹھیک ہو گیا۔مجھے اس وقت محسوس ہوا میں بے عزتی اور بے تکلفی کو ترسا ہوا تھا‘ میری زندگی سے بے تکلف دوست نکل گئے تھے‘ میرے پاس صرف مطلبی رشتے دار‘ مراعات اور تنخواہوں کے پیچھے بھاگتے ملازمین‘ بزنس فرینڈز اور میری موت کے منتظر بچے اور حریص داماد تھے‘ یہ سارے لوگ میرے تھے لیکن یہ میرے نہیں تھے‘ میرے لوگ مجیدے تھے‘ میں مجیدے کو ترس رہا تھا‘ میں اوئے ظفری سننا چاہتا تھا اور یہ میرا اصل مرض تھا“ وہ رکا اور ذرا سا سوچ کر بولا ”جاوید صاحب انسان کا سب سے بڑا المیہ ان لوگوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے جن کی نیت آپ پر کھل چکی ہوتی ہے۔آپ جان چکے ہوتے ہیں آپ کے سامنے کھڑے ہو کر جو شخص سر‘ سر کہہ رہا ہے یہ روز آپ کو میٹھی چھری سے ذبح کرتا ہے لیکن آپ جانتے بوجھتے اس سے جان نہیں چھڑا سکتے‘ آپ یہ بھی جانتے ہیں آپ کی بیوی اور اس کے خاندان کو آپ سے نہیں آپ کی دولت سے غرض ہے اور آپ کے بچے آپ کو والد نہیں کریڈٹ کارڈ سمجھتے ہیں مگر آپ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ دوستوں‘ رشتے داروں اور عزیزوں کی نیتوں سے بھی واقف ہوتے ہیں مگر آپ ان کے منہ پر انہیں برا نہیں کہہ سکتے‘ یہ تکلیف آپ کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے‘ یہ آپ کو بیمار کر دیتی ہے‘ میں بھی بیمار تھا‘ میں چالیس سال سے خلوص سے بھری آواز سننے کیلئے ترس رہا تھا اور پھر مجھے وہ آواز مل گئی۔مجیدا اپنی دکان سے نیچے آیا‘ بھاگ کر اندر سے کرسی کھینچ کر لایا اور کرسی تھڑے پر ٹکا کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا‘ میں نے کرسی کو سائڈ پر کیا اور اس کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ گیا‘ وہ دانت نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا‘ ہاتھ مل رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا‘ اس کی آواز سن کر پورا محلہ اکٹھا ہو گیا‘ لوگ ظفری آیا‘ ظفری آیا کے نعرے لگا رہے تھے اور میرے اردگرد جمع ہو رہے تھے‘ میں حیرت سے انہیں دیکھتا تھا اور انہیں پہچاننے کی کوشش کرتا تھا‘ یہ سب میرے بچپن کے ساتھی تھے۔میں کسی کے ساتھ پتنگیں اڑایا کرتا تھا‘ کسی کے ساتھ بنٹے کھیلتا تھا اور کسی کے ساتھ مل کر ریڑھیوں سے آم چوری کرتا تھااور یہ میرے ساتھ سکول سے بھی بھاگتے تھے‘ ان میں سے کوئی شخص سید ظفر الحق کو نہیں جانتا تھا‘ یہ صرف اور صرف ظفری سے واقف تھے اور میں اس وقت ظفری تھا‘ یہ بوڑھے ہو چکے تھے‘ غربت نے کسی کا کُب نکال دیا تھا‘ کوئی کم سننے لگا تھا‘ کسی کے دانت جھڑ چکے تھے اور کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھااور یہ سب گنجے بھی ہو چکے تھے مگر یہ اس کے باوجود مطمئن اور خوش تھے۔میں ان سب کے مقابلے میں صحت مند تھا‘ میرے سر پر بال بھی تھے‘ میری آنکھیں‘ ناک‘ کان اور دانت بھی سلامت تھے اور میں نے اچھے کپڑے بھی پہن رکھے تھے لیکن یہ سب ظاہری تھا‘ میں اندر سے بیمار تھا‘ میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا جبکہ یہ باہر سے بے رنگ مگر اندر سے بھرے ہوئے تھے‘ میں نے اس وقت مجیدے کے تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس کیا دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘ سب سے مہنگی دوا پرانے دوست ہوتے ہیں‘ انسان کو بچپن کے دوست‘ بگڑے ہوئے نام اور تکلف سے بے پروا مخلص آوازیں چاہیے ہوتی ہیں۔یہ مل جائیں تو انسان بستر مرگ سے بھی اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ ملیں تو انسان خواہ بل گیٹس یا سٹیو جابز ہی کیوں نہ ہو یہ سسک سسک کر مر جاتا ہے‘ اس کے پلے صرف اچھا ہسپتال‘ مہنگے ڈاکٹرز اور امیر جنازہ ہوتا ہے اور بس‘ دنیا میں عمر بڑھانے کی بہترین دوا دوست ہوتے ہیں‘ آپ اگر ایک بار ظفری بن گئے تو پھر آپ کے دوست آپ کو ہمیشہ ظفری بنائے رکھیں گے‘ یہ آپ کو سید ظفر الحق نہیں بننے دیں گے‘ یہ آپ کو کبھی بچپن سے باہر نہیں نکلنے دیں گے آپ خواہ صدر پاکستان ہی کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ دوستوں کیلئے ظفری ہی رہیں گے۔مجھے اس تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس ہوا ہمارے ملازمین کیلئے ہمارے اکاؤنٹس اہم ہوتے ہیں‘ ہمارے بچوں کیلئے ہماری وصیت اہم ہوتی ہے اورہمارے رشتے داروں کیلئے ہمارا اثرورسوخ‘ ہمارا دب دبہ اورہماری حیثیت اہم ہوتی ہے لیکن صرف ہمارے بچپن کے دوست وہ لوگ ہوتے ہیں جن کیلئے ہماری خیریت اورہم اہم ہوتے ہیں چناں چہ آپ بچپن کے دوستوں سے ملتے رہا کریں‘ آپ کبھی بیمار نہیں ہوں گے“ وہ مسکرایا اور بولا ”آپ بھی پلیز مجھے ظفری کہا کریں‘ میں سید ظفر الحق بن بن کر تھک گیا ہوں“

۔
۔کاپی شدہ تحریر ب شکریہ فیس بک فرینڈ

Address

Mianwali
7500

Telephone

+923005534477

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Herbal Clinic -Trust posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category