Al-Hadi speech Therapy center

Al-Hadi speech Therapy center no

Attentional issues are common in children with autism spectrum disorders (ASD), and they can affect their participation ...
02/07/2024

Attentional issues are common in children with autism spectrum disorders (ASD), and they can affect their participation in daily activities and learning. Occupational therapy (OT) is a profession that helps people with ASD improve their functional skills and sensory processing through meaningful occupations .

Some of the OT interventions that can help children with ASD with attentional issues are:

- Sensory integration therapy: This is a type of therapy that aims to help children with ASD regulate their sensory input and output, and reduce sensory overload or under-stimulation. Sensory integration therapy can involve various activities that stimulate the senses, such as swinging, bouncing, brushing, playing with different textures, sounds, and smells, etc. Sensory integration therapy can help children with ASD become more calm, focused, and organized .

- Cognitive-behavioral therapy: This is a type of therapy that helps children with ASD develop coping skills and strategies to manage their emotions, thoughts, and behaviors.

Cognitive-behavioral therapy can help children with ASD improve their self-awareness, self-regulation, problem-solving, and social skills. Cognitive-behavioral therapy can involve various techniques, such as relaxation, mindfulness, positive self-talk, role-playing, etc. Cognitive-behavioral therapy can help children with ASD reduce their anxiety, stress, and frustration, and increase their attention and motivation .

- Environmental modifications: This is a type of intervention that involves changing the physical or social environment to suit the needs and preferences of children with ASD. Environmental modifications can help children with ASD reduce distractions, enhance comfort, and increase engagement.

Environmental modifications can involve various adjustments, such as lighting, noise, temperature, furniture, visual aids, schedules, routines, etc. Environmental modifications can help children with ASD focus better, feel more secure, and participate more actively.

 🔵 بچوں کو  #مهارت سکھانا💫 ہم یہاں آپ کو کچھ ہنر یاد دلانے کی کوشش کریں گے جو بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے💫 اپنے بچوں کو خ...
22/01/2024



🔵 بچوں کو #مهارت سکھانا

💫 ہم یہاں آپ کو کچھ ہنر یاد دلانے کی کوشش کریں گے جو بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے

💫 اپنے بچوں کو خود تیار ھونا اور کپڑے صحیح پہننا سکھائیں۔ مثال کے طور پر، پہلے مرحلے میں انہیں موزے (جرابیں) پہننا سکھائیں، پھر پتلون۔ انہیں سکھائیں کہ صاف ستھرا نظر آنے کے لیے انہیں کیا کرنا ہے اور کس عمل سے اجتناب کرنا ہے۔ اور انہیں یاد دلائیں کہ ان کے پاس زیر جامہ ہونا چاہئے کیونکہ ان کے کپڑے گندے ہو سکتے ہیں اور انہیں انہیں تبدیل کرنا پڑے گا۔

💥یاد رکھیں مہارت کے تمام مراحل نہایت حوصلے کے ساتھ اور مرحلہ بہ مرحلہ تکرار کرنے سے بچہ سیکھ جاے گا،
لیکن یاد رہے مهارت سکهاتے وقت بےجا تکرار یا تنبیہ وغیره مطلقا منع ہے، اس سے بچا اکتا جائے گا۔

Pre - writing skillsUseful for increasing attention, concentration, perception, eye-eye communication, the development o...
20/01/2024

Pre - writing skills

Useful for increasing attention, concentration, perception, eye-eye communication, the development of mental imagination, linguistic comprehension, and strengthening the micro muscles of the fingers

With the best regards and wishes

کیا واقعی ایسے بچے کند ذہن ہوتے ہیں؟اکثر اسکولوں میں پچھلی نشستوں پر ڈرے سہمے بچوں کو اساتذہ اور دیگر طالب علم تحقیر کا ...
05/08/2023

کیا واقعی ایسے بچے کند ذہن ہوتے ہیں؟

اکثر اسکولوں میں پچھلی نشستوں پر ڈرے سہمے بچوں کو اساتذہ اور دیگر طالب علم تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بیک بینچر کاہل، ڈمب، کام چور اور کند ذہن کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ کیا واقعی یہ بچے کند ذہن ہوتے ہیں؟
آج سے لگ بھگ کوئی پچیس سال قبل ہمارے ایک دیرینہ دوست کی بیٹی کراچی کے ایک اعلی اسکول میں خراب کارکردگی کی بنا پر سالہاسال سے فیل ہوتی آ رہی تھی، جس پر اسے اسکول سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے ہم سے کیا، تب زندگی میں پہلی بار میں نے’’ڈسلیکسیا‘‘ کا نام سنا۔
اس کے کوئی چار سال بعد بیرون ملک رہائش کے دوران میں نے ڈس لیکسیا، اوٹزم اور ایپی لیپسیا کے شارٹ کورسزکیے، جس کے بعد چند سال وہیں ''لرننگ ڈس ایبیلٹی‘‘ کا شکار کئی بچوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
اسی دوران میری تیسری بیٹی نے کنڈرگارٹن جانا شروع کیا تو ایک ہفتے بعد ہی مجھے اسکول کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں مجھے بچی کے معمولی ’’ڈس لیکسیا کی ذیلی قسم ڈس کیل کیولیا‘‘(Dyscalculia) ہونےکی اطلاع دی گئی۔ اس میں بچے ریاضی کے ہندسوں کو پہچاننے کی صلاحیت میں دشواری محسوس کرتے ہیں اوراکثر الٹ لکھتے ہیں۔
مجھے زیادہ حیرت اور پریشانی اس لئے بھی نہیں ہوئی کہ مجھے ڈس لیکسیا کے بارے میں کافی جان کاری تھی۔ چونکہ میں خود پوری زندگی ریاضی کے مضمون کے ساتھ جنگ کرتی چلی آئی تھی اور آج بھی حساب میرا سب سے کمزور پہلو ہے۔
تب مجھے اندازہ ہوا کہ میری بیٹی نے بولنا دیر سے کیوں شروع کیا۔ اس کے تین سال کی عمر تک نہ بولنے کی وجہ سے میں اسے روزانہ باآواز بلند کہانیاں سنایا کرتی تھی اور ٹی وی کارٹون میں ادا کیے جانے والے مکالمے اس کے ساتھ ساتھ دہراتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے پڑھنے اور لکھنے میں کبھی دشواری نہیں ہوئی۔
میری بیٹی کو بیرون ملک اپنے ابتدائی اسکول کے سالوں میں خاص مسائل کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ دوسرا وہاں ایسی مختلف ڈس ایبلیٹی سے نمٹنے کے لئے اساتذہ ماہرانہ تربیت کی حامل ہوتی ہیں، جو ایسے بچوں کو خاص طریقہ کار اورتوجہ سے پڑھاتی ہیں۔
مسئلہ تو تب شروع ہوا، جب پاکستان آنے کے بعد بچی نے اسکول جانا شروع کیا۔ یہ سن 2008 کی بات ہے۔
آئے دن مجھے ٹیچرز کو جا کر سمجھانا پڑتا تھا کہ صرف شروع کے سال اگر ان بچوں کو کام کرنے یا امتحانات میں مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ زائد دے دیں تو ایسے بچے بہت جلد دیگر بچوں کو مات دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن میرا سمجھانا سب بے سود رہتا۔ تین سال مجھے ہر تین ماہ کے سیمسٹر کے شروع میں ہر ٹیچر کو الف سے یے تک ڈس لیکسیا کے بارے میں بتانا پڑتا اور وہ منہ کھولے مجھے اس طرح دیکھتیں، جیسے میں کوہ قاف کی کوئی کہانی سنا رہی ہوں۔
آج بھی افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ بڑے اور مہنگے اسکولوں تک کے اساتذہ اس بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں رکھتے تو چھوٹے اور سرکاری اسکولوں کی کیا بات کی جائے؟
چونکہ مجھے اندازہ تھا کہ اگر اس وقت میری بیٹی کو لمبے اور مشکل الفاظ آواز کے اتار چڑھاؤ اور ہجے کر کے پڑھایا جائے، ریاضی پر خصوصی توجہ دی جائے تو یہ معمولی ڈس لیکسیا ایک دو سال میں ہی ہوا ہو جائے گا۔
میں نے ایک نوجوان لڑکی ٹیوٹر کا بھی بندوبست کیا اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ کس طرح پڑھانا ہے، سمجھانا ہے اور پھر جواب لکھنے کے لئے بچی کو کتنا وقت دینا ہے۔ صرف چند سال کی محنت میں ہی میری بیٹیا سکول کی ہونہار طالبہ بن گئی۔
ہم سب نے اپنے اسکول کے زمانے میں یہ مشاہدہ ضرور کیا ہو گا کہ کلاس کے چند بچوں کو کاہل، سست، کام چور کہہ کر ہمارے اساتذہ پچھلی نشستوں تک محدود کر دیتے تھے۔ ایسے بچوں کو کبھی ہوم ورک مکمل نہ کرنے پر تو کبھی سست رفتاری سے کلاس ورک کرنے یا غلط جواب دینے پر سزائیں دینا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہوا کرتی تھی۔
اکثر استاد بلیک / وائٹ بورڈ پر تحریر لکھ کر مٹاتے تو ایسے بچے کہتے رہ جاتے ''ٹیچر پلیز ابھی میں لکھ رہا/ رہی ہوں‘‘۔ اور پھر دوسرے ہی لمحے یا تو ایسے بچوں کو کلاس بدر کیا جاتا ہے یا کرسی کے اوپر ہی کان پکڑ کر کھڑا ہونے کی سزا سنا دی جاتی۔
دوسرے کلاس فیلوز کا ایسے بچوں کا کھلے عام مذاق اڑانا ایک قسم کی تفریح ہوا کرتی تھی۔ ایسا اب بھی یقیناً اسکولوں میں ہوتا ہو گا۔
یہ پیچھے بیٹھنے والے، کم گو، ڈرے سہمے اور سست رفتار بچے ہرگز نکمے نہیں ہوتے بلکہ یہ ڈس لیکسک بچے کہلاتے ہیں۔

آخر یہ ڈس لیکسیا ہے کیا، اس کی کتنی قسمیں ہیں، کیوں ہوتا ہے اور کیا یہ قابل علاج ہے؟
ہمارے دماغ کا وہ حصہ جو پڑھنے، لکھنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے وہاں کچھ اونچ نیچ ڈسلیکسیا کا سبب بنتی ہے۔ اسی لئے اسے Learning disability کہا جاتا ہے۔ دنیا کی تقریباً بیس سے بائیس فیصد آبادی ڈس لیکسیا کا شکار ہے۔ اکثر یہ موروثی ہوتا ہے اور کبھی حالات کا پیش خیمہ بھی۔
اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو اس کی چار قسمیں ہیں۔
• سر فیس ڈس لیکسیا (surface dyslexic): ایسے الفاظ سمجھنے میں دشواری کا سامنا جو لکھے مختلف اور پڑھے الگ جاتے ہیں مثلاً Yacht , Debt۔
• فونو لوجیکل ڈس لیکسیا (phonological dyslexia): یہ قسم دماغ کو کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے نقصان پہنچنے کی صورت میں رونما ہوتی ہے۔ اس میں پڑھنے کی صلاحیت پر ضرب پڑتی ہے۔
• ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ ( Rapid naming deficit): اس میں بچے ہندسوں، لفظوں یا رنگوں کے نام جاننے کے باوجود اسے یاد رکھنے اور زبانی ادائیگی میں دقّت کا سامنا کرتے ہیں۔
• ڈبل ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ (double rapid naming deficit ): یہ ڈس لیکسیا کی سب سے مشکل اور شدید قسم ہے، جس میں افراد فونولوجیکل اور ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ کا بیک وقت شکار ہوتے ہیں۔ پڑھنے وقت الفاظ گم یا بے ترتیب ہو جاتے ہیں وہیں ادائیگی کرتے وقت الفاظ کی ادائیگی بھی درست نہیں ہو پاتی ہے۔
جبکہ ڈس لیکسیا کی تین ذیلی قسمیں ہیں جنہیں مختلف نام دیے گئے ہیں۔
Reading (dyslexia) ریڈنگ، ڈس لیکسیا
Writing (dysgraphia).رائٹنگ، ڈس گرافیا
Math (dyscalculia) ریاضی، ڈس کیل کیولیا
ڈس لیکسک بچے کسی بھی طرح کم ذہین یا ذہانت سے محروم نہیں ہوتے بلکہ اگر انہیں نصابی علوم توجہ اور خاص طریقہ کار سے پڑھائیں جائیں تو وہ نا صرف نصابی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے آگے رہتے ہیں۔ اس لئے اس فرسودہ سوچ کو ذہن سے نکال دیجیے کہ ڈس لیکسک کا ذہانت سے کوئی لینا دینا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جو بچے ریڈنگ اور رائٹنگ میں پیچیدگیاں محسوس کرتے ہیں وہ ریاضی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جن کے لئے ریاضی سمجھنا ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، ان کے لئے پڑھنا، سمجھنا، لکھنا اور بولنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔
لیکن ایسے بچوں کو اس نہج پر پہچانے کے لئے والدین اور اساتذہ کا ماہرانہ اور ہمدردانہ رویوں کا اظہار لازمی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کس طرح جانچا جائے کہ بچہ ڈس لیکسک ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ یہ لرننگ ڈس ایبیلٹی پیدائش سے ہی بچے میں موجود ہوتی ہے لیکن اس کا ادراک چار سے پانچ سال کی عمر میں ہوتا ہے، جب بچہ کنڈر گارٹن جانا شروع کرتے ہیں۔
ابتدائی علامت بچے کا الفاظ کو الٹا لکھنا ہوتا ہے۔ مثلاً ع ، س، ج -5, 3, 7, 2 یا B, D, C وغیرہ کو یا تو الٹا لکھتےہیں یا کچھ لفظوں کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر دیتے ہیں۔
ڈس لیکسک بچوں کو لکھنے، پڑھنے میں عام بچوں کی نسبت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
سمجھنے کے لئے بار بار پڑھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
لکھے ہوئے الفاظ گڈ مڈ ہوتے نظر آتے ہیں اور سنتے ہوئے کئی الفاظ سمجھ نہیں آتے، جس کی بنا پر یکسوئی برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
ہجے اکثر غلط کرتے ہیں۔
یہ ساری علامات ظاہر کرتی ہیں کہ بچہ یا بچی ڈس لیکسیا کا شکار ہے لیکن اس کا سدباب اور علاج ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جس میں آپ کا صبر، محبت بھرا سلوک اور بھرپور توجہ ہی بچے کو اس ڈس ایبیلٹی سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔
کیوں کہ ایسے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ، طعنے تشنے اور مار پیٹ ایک شدید نفسیاتی الجھن کا شکار کر سکتے ہیں اور زندگی بھر ان میں اعتماد کا فقدان اور دنیا کا سامنا کرنے پر خوف مسلط ہو سکتا ہے۔
ایسے بچوں کے والدین اگر جانچ لیتے ہیں کہ بچے میں تین میں سے کون سی لرننگ ڈس ایبیلٹی ہے تو انہیں اس کے پیش نظر وہی مضامین پڑھانے چاہیے، جس میں ان کی دلچسپی اور سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہو۔
دوسری جانب ڈس لیکسیا سے متاثرہ بچوں کے لئے خاص تعلیمی اداروں کا قیام ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تمام اسکول جو فیس کی مد میں کروڑوں کماتے ہیں، اپنی اساتذہ اور انتظامیہ کو اس کی مکمل ٹریننگ دیں تاکہ ایسے بچے اسکولوں میں ہتک آمیز رویوں سے محفوظ رہ سکیں۔
ڈس لیکسیا کے بارے میں ریسرچ بتاتی ہیں کہ اگر بروقت تشخیص ہو جائے اور مخصوص طریقہ کار اپنا کر تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جائیں تو جوانی میں یہ جڑ سے ختم ہو سکتا ہے۔
اس کی مثال میرے اپنی بیٹی ہے، جو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے آگے رہی۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ چار سال کا پیانو بجانے اور موسیقی کی زبان سیکھنے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ اپنی بیٹی کا مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنا، موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنا اور کسی بھی فورم پر فی البدیہہ گفتگو کرتے دیکھ کر ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کبھی اس بچی نے ایک مشکل وقت بھی دیکھا ہے۔
جب تک والدین خود اپنے بچوں میں لرننگ ڈس ایبیلٹی کی تشخیص نہیں کر سکتے اور اس مشکل گھڑی میں معاون نہیں ہو سکتے تو پھر آپ اسکول انتظامیہ، اساتذہ اور سماج سے بھی نہیں لڑ سکتے۔

21/07/2023

آپ کی قیمتی رائے کیا ہے؟
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا (15%) افراد باھم معذوری پر مشتمل ھے۔
خصوصی ضروریات کے حامل ان افراد کو (inclusion) کی (Approach)کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کا مفید شہری بنایا جا سکتا ھے۔
روزمرہ کی سرگرمیوں میں جیسے کہ معاشی،تعلیمی،اقتصادی امور میں خصوصی ضروریات کے حامل افراد کو شامل کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی طرح کردار ادا کریں۔ اس کے لیے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کمیونٹی یا تنظیم میں مناسب پالیسیاں اور طریقے کار وضع ہوں۔ (inclusion) کی (Approach)کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کا مفید شھری بنایا جا سکثا ھے۔ سماجی طور پر متوقع زندگی کے کرداروں اور سرگرمیوں میں شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے — جیسے کہ طالب علم، کارکن، دوست، کمیونٹی ممبر، مریض، شریک حیات، ساتھی، یا والدین۔ سماجی طور پر متوقع سرگرمیوں میں سماجی سرگرمیوں میں مشغول ہونا، عوامی وسائل جیسے کہ نقل و حمل اور لائبریریوں کا استعمال، کمیونٹیز کے اندر گھومنا پھرنا، مناسب صحت کی دیکھ بھال حاصل کرنا، تعلقات رکھنا، اور روزمرہ کی دیگر سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونا بھی شامل ہو سکتا ہے۔
براہ کرم خصوصی ضروریات کے حامل افراد کو مفید شھری بنانے کے بارے اپنی قیمتی تجاویز دیں۔

16/04/2023

آٹزم کی ابتدائی علاماتآٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر(ASD)والے بہت سے بچے نشوونمائی فرق ظاہر کرتے ہیں۔ جب وہ بچے ہوتے ہیں خاص طور ...
06/04/2023

آٹزم کی ابتدائی علامات

آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر(ASD)

والے بہت سے بچے نشوونمائی فرق ظاہر کرتے ہیں۔ جب وہ بچے ہوتے ہیں خاص طور پر ان کی سماجی اور زبان میں مہارت کا فرق کیونکہ وہ عام طور پر وقت پر بیٹھتے ہیں، رینگتے ہیں اور وقت پر چلتے ہیں، جسمانی اشاروں، ڈرامائی کھیل ، اور سماجی زبان کی نشوونما کے فرق پر اکثر دھیان نہیں دیا جاتا۔ تقریر/رابطے (عام بول چال )کی زبان میں تاخیر اور رویے کے فرق کے علاوہ، خاندان والوں کو ان بچے کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تعامل کے طریقے میں فرق محسوس ہو سکتا ہے ۔

آٹزم کی علامات کو پہچاننا

یہاں سماجی رابطے، اور طرز عمل میں فرق کی کچھ مثالیں ہیں۔

: آٹزم کے ساتھ بچوں میں اختلافات

: ذہن میں رکھیں

آٹزم کے ساتھ ایک بچہ کی علامات دوسرےآٹزم کے بچے کے جیسی بلکل بھی نہیں ہوسکتی

علامات کی تعداد اور شدت علامات بہت مختلف ہو

سکتے ہیں!

آٹزم کے ساتھ بچوں میں سماجی اختلافات

آنکھ سے رابطہ نہیں رکھ سکتا یا آنکھ سے کم یا کوئی رابطہ نہیں کر سکتا

والدین کی مسکراہٹ یا دوسرےکے چہرے کے تاثرات پر کم یا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔

ان چیزوں یا واقعات کو نہیں دیکھ سکتے جن کی

طرف والدین دیکھ رہے ہیں یا اشارہ کر رہے ہیں۔

ہو سکتا ہے چیزوں یا واقعات کی طرف اشارہ نہ کرے تاکہ والدین ان کو دیکھیے۔

والدین کو دکھانے کے لیے

ذاتی دلچسپی کی اشیاء لانے کا امکان کم ہے۔

بہت سےکے

چہرے کے تاثرات مناسب نہیں ہوتے

بہت سے لوگوں کے چہرےکے تاثرات سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ دوسرے کیا سوچ رہے ہیں یا محسوس کر رہے ہیں۔

دوسروں کے لیے تشویش (ہمدردی) ظاہر کرنے کا امکان کم ہے۔

دوست بنانے

اور رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔

آٹزم کے ساتھ بچوں میں مواصلاتی اختلافات

ضروریات کی نشاندہی کرنے یا دوسروں کے ساتھ چیزوں کا اشتراک کرنے کے لیے چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کا امکان کم ہے

پندرہ مہینوں تک کوئی ایک لفظ

یا چوبیس مہینوں

تک دو لفظی فقرے نہیں کہتے ہیں۔

بالکل وہی الفاظ دہراتا ہے جیسے دوسرے کہتے ہیں۔معنی سمجھے بغیر (اکثر رٹوطوطا یا بازگشت کہا جاتا ہے) ۔

ہو سکتا ہے کہ پکارے جانے والے نام کا جواب نہ دے لیکن دوسری آوازیں کو جواب دیتا ہے۔(جیسے کار کا ہارن یا بلی کی میائوں)

اپنے آپ کو "آپ" اور دوسروں کو "میں" کے طور پر حوالہ دیتا ہے اور آپس میں تلفظ ملا سکتے ہیں۔

بات چیت میں کم یاعدم دلچسپی ظاہر کر سکتے ہیں۔

ایسے بچوں میں بات چیت شروع کرنے یا جاری رکھنے کے امکان کم ہوتے ہیں۔

ڈرامہائی کھیل میں لوگوں یا حقیقی زندگی کی نمائندگی کرنے کے لیے کھلونے یا دیگر اشیاء استعمال کرنے کا امکان کم ہے۔

ان میں اچھی روٹ میموری ہو سکتی ہے، خاص طور نمبرز، حروف، گانے، ٹی وی کے گانے، یا کوئی مخصوص موضوع۔

زبان یا دیگر سماجی سنگ میل کھو سکتے ہیں، عام طور پر کے درمیان 15 اور 24 ماہ کی عمریں (اکثر رجعت کہلاتی ہیں)

بچوں کے طرز عمل میں فرق (بار بار اور جنونی رویے) آٹزم کے ساتھ

چٹانیں، پھرکی کی طرح گھومنا، انگلیاں گھمانا، پیروں کی انگلیوں پر لمبے عرصے تک چلنا، یا فلیپ ہینڈز (جسے "دقیانوسی رویہ" یا دقیانوسی تصورات کہا جاتا ہے)

روزمرہ کے یکساں معمولات، چیزوں کی قطارمیں ترتیب، اور رسومات پسند کرتے ہیں ہے ۔ایک سرگرمی سے دوسرے میں منتقلی یا۔تبدیلی میں دقت محسوس کرتے ہیں۔

یہ بچےکچھ یا غیر معمولی سرگرمیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، دن کے دوران بار بار انہیں کرنا ،پورے کھلونے کی بجائے کھلونوں کے پرزوں سے کھیلتے ہیں (مثال کے طور پر، کھلونا ٹرک کے پہیےکو گھمانا۔

اگر درد میں ہو یا کوئی خوف محسوس ہو تو رو نہیں سکتا یعنی اپنے احساسات بیان نہیں کرسکتے

مہک، آواز، روشنی، ساخت اور لمس کے لیے بہت حساس ہو سکتا ہے یا بالکل بھی حساس نہیں ہوسکتا۔

بصارت یا نگاہوں کا غیر معمولی استعمال ہو سکتا ہے یاغیر معمولی زاویہ سے اشیاء کو دیکھتا ہے۔

آٹزم کے شکار بچے کو عام طور پر ترقی پذیر دوسرے بچوں سے کیسے ممتاز کیا جائے۔ یہاں کچھ بچوں کی مثالیں ہیں جو والدین کو ان کے درمیان فرق بتانے میں مدد کر سکتی ہیں۔ عام، عمر کے لحاظ سے مناسب رویہ اورآٹزم کی ابتدائی علامات۔

۔ 12 ماہ میں

ایک عام نشوونما والا بچہ جب اپنا نام سنے گا سرگھما کر دیکھے گا۔

جب کے آٹزم والا بچہ اپنے نام جو کے بار بار دہرایا گیا ہو،شاید دیکھنے کی طرف متوجہ نہ ہو لیکن دوسری آوازوں کا جواب دے گا۔

۔ 18ماہ میں

تاخیر سے بولنے کی مہارت والا بچہ بات کرنے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اشارہ کرے گا، یا چہرے کے زاویوں کا استعمال کرے گا۔

جب کے آٹزم والا بچہ تاخیر سے بولنے کی تلافی کی کوئی کوشش نہیں کر سکتا تقریر یا بول چال کو محدود کر سکتا ہے کہ وہ ٹی وی پر جو کچھ سنتے ہیں اسے دہرائیں۔ جو انہوں نے ابھی سنا ہے۔

۔ 24 مہینوں میں

ایک بچہ جس کی عام نشوونما ہوتی ہے وہ اپنی ماں کو تصویر دکھانے کے لیے ایک تصویر لاتا ہے۔ اوراپنی خوشی اس کے ساتھ بانٹتا ہے۔

جب کےآٹزم والا بچہ اپنی ماں کو بلبلوں کی بوتل کھولنے کے لیے

دےسکتا ہے، لیکن وہ اس کے چہرے کی طرف نہیں دیکھتے جب وہ ایک ساتھ کھیلنے کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔

#

06 اکتوبر، "دماغی فالج" کا عالمی دن۔
06/10/2022

06 اکتوبر، "دماغی فالج" کا عالمی دن۔

18/09/2022

Address

G
Model Town
54000

Telephone

+923154700514

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al-Hadi speech Therapy center posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Al-Hadi speech Therapy center:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram