Professor Dr. Muhammad Zafar Iqbal

Professor Dr. Muhammad Zafar Iqbal My page is about spreading health education & approaching the patients in very legal & ethical way

08/08/2025

Celebrating my 2nd year on Facebook. Thank you for your continuing support. I could never have made it without you. 🙏🤗🎉

30/10/2024

World stroke day

اسٹروک کی روک تھام کے لیے درج ذیل حکمت عملی اپنائیں:

1. بلڈ پریشر کا انتظام: بلڈ پریشر کو صحت مند سطح پر رکھنے کے لیے غذا، ورزش، اور ضروری ہو تو دواؤں کا استعمال کریں۔

2. صحت مند غذا: پھل، سبزیاں، پوری اناج، اور ہلکی پروٹینز پر مشتمل غذا اپنائیں۔ نمک، سچوریٹڈ چکنائی، اور شکر کی مقدار محدود کریں۔

3. باقاعدہ ورزش: ہر ہفتے کم از کم 150 منٹ کی معتدل ایروبک سرگرمی کریں، جیسے چہل قدمی، سائیکلنگ، یا تیرنا۔

4. وزن کا انتظام: صحت مند وزن برقرار رکھیں تاکہ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، اور ہائی کولیسٹرول کے خطرات کم ہوں۔

5. سگریٹ نوشی چھوڑیں: اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو چھوڑنے کے لیے مدد حاصل کریں۔ سگریٹ نوشی اسٹروک کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔

6. شراب کی مقدار کم کریں: اگر آپ شراب پیتے ہیں تو اسے اعتدال میں استعمال کریں۔ زیادہ شراب پینا بلڈ پریشر بڑھا سکتا ہے۔

7. ذیابیطس کا کنٹرول: بلڈ شوگر کی سطح کو غذا، ورزش، اور ضروری دواؤں کے ذریعے منظم کریں۔

8. کولیسٹرول کی نگرانی: کولیسٹرول کی سطح کو غذا، ورزش، اور اگر تجویز کردہ ہو تو دواؤں کے ذریعے کنٹرول کریں۔

9. دوائیں: اگر خطرہ زیادہ ہو تو ڈاکٹر اینٹی پلیٹلیٹ دوائیں یا اینٹی کوگولنٹس تجویز کر سکتے ہیں۔

10. باقاعدہ چیک اپ: معمول کے طبی معائنے خطرات کی شناخت اور انتظام میں مدد دیتے ہیں۔

11. آگاہی حاصل کریں: اسٹروک کی علامات (جیسے اچانک کمزوری یا الجھن) کو سمجھیں اور اگر یہ ظاہر ہوں تو فوراً کارروائی کریں۔

ان حکمت عملیوں کو اپنانے سے اسٹروک کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہو سکتا ہے۔

14/10/2024

یہ دنیا کے مختلف ممالک کے بہترین کہاوتیں ہیں:
"جو اپنے پڑوسی کے گھر کو ہلاتا ہے، اس کا اپنا گھر گرجاتا ہے" (سوئس کہاوت)

"اگر کوئی شخص پیٹ بھر کر کھا لے تو اسے روٹی کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا" (اسکاٹ لینڈ کہاوت)

"اگر تم مسکرانا نہیں جانتے تو دکان نہ کھولو" (چینی کہاوت)

"اچھی شکل سب سے مضبوط سفارش ہے" (انگلش کہاوت)

"نیکی کرنا احسان فراموش کے ساتھ ایسا ہے جیسے سمندر میں عطر ڈالنا" (پولینڈ کہاوت)

"اگر تم کسی قوم کی ترقی دیکھنا چاہتے ہو تو اس کی عورتوں کو دیکھو" (فرانسیسی کہاوت)

"ہم اکثر چیزوں کو ان کی حقیقت سے مختلف دیکھتے ہیں کیونکہ ہم صرف عنوان پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں" (امریکی کہاوت)

"دوسروں کی غلطیاں ہمیشہ ہماری غلطیوں سے زیادہ واضح ہوتی ہیں" (روسی کہاوت)

"تمہاری قناعت تمہاری نصف خوشی ہے" (اطالوی کہاوت)

"ہر انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے" (انگلش کہاوت)

"اپنے دماغ کو علم سے لیس کرو، بہتر ہے کہ جسم کو زیورات سے سجاؤ" (چینی کہاوت)

"خود پسندی جہالت کی پیداوار ہے" (اسپین کہاوت)

"وہ محبت جو تحفوں پر انحصار کرے، ہمیشہ بھوکی رہتی ہے" (انگلش کہاوت)

"اس عورت سے ہوشیار رہو جو اپنی فضیلت کے بارے میں بات کرتی ہے اور اس مرد سے جو اپنی دیانت داری کے بارے میں بات کرتا ہے" (فرانسیسی کہاوت)

"اپنی بیوی کو محبت دو اور اپنی ماں کو اپنا راز بتاؤ" (آئرلینڈ کہاوت)

"پانچ سال تک اپنے بچے کو شہزادہ بناؤ، دس سال تک غلام کی طرح اور اس کے بعد دوست بن جاؤ" (ہندی کہاوت)

"انسان ہونا آسان ہے، مگر مرد بننا مشکل ہے" (روسی کہاوت)

"میرے خاندان نے مجھے بولنا سکھایا، اور لوگوں نے مجھے خاموش رہنا سکھایا" (چیکوسلوواک کہاوت)

"جو لوگوں کو علم کی نظر سے دیکھتا ہے ان سے نفرت کرتا ہے؛ اور جو انہیں حقیقت کی نظر سے دیکھتا ہے انہیں معاف کرتا ہے" (اطالوی کہاوت)

"غصہ ایک تیز ہوا ہے جو عقل کے چراغ کو بجھا دیتا ہے" (امریکی کہاوت)

"جو لوگ دیتے ہیں انہیں اپنے دینے کی بات نہیں کرنی چاہیے، جبکہ جو لوگ لیتے ہیں انہیں اس کا ذکر کرنا چاہیے" (پرتگالی کہاوت)

"بڑا درخت زیادہ سایہ دیتا ہے مگر کم پھل دیتا ہے" (اطالوی کہاوت)

"اپنی فکر کو پھٹی ہوئی جیب میں ڈال دو" (چینی کہاوت)

"زیادہ کھا لینا بھوک سے زیادہ نقصان دہ ہے" (جرمن کہاوت)

"ہر دن بوئے، ہر دن کھاؤ" (مصری کہاوت)

"اے انسان، موت کو نہ بھولو کیونکہ یہ تمہیں نہیں بھولے گی" (ترکی کہاوت)

"انتقام کی لذت ایک لمحے کی ہے، مگر معافی کا سکون ہمیشہ کے لئے رہتا ہے" (اسپین کہاوت)

"محبت اور خوشبو کو چھپایا نہیں جا سکتا" (چینی کہاوت)

"جس کی جیب خالی ہو، اسے اپنی زبان کو میٹھا بنانا چاہیے" (ملائیشیائی کہاوت)

"پانی کے چھوٹے قطرے بھی ندی بنا سکتے ہیں" (جاپانی کہاوت)

"اللہ پرندوں کو رزق دیتا ہے مگر انہیں اسے پانے کے لیے پرواز کرنا پڑتا ہے" (ہالینڈ کہاوت)

"محبت تب تک باقی رہتی ہے جب تک پیسہ ہوتا ہے" (فرانسیسی کہاوت)

"جو اپنے دوست کو قرض دیتا ہے، وہ دونوں کو کھو دیتا ہے" (فرانسیسی کہاوت)

"جو کوئی خوبصورت عورت سے شادی کرتا ہے اسے دو آنکھوں سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے" (انگلش کہاوت)

"جس کی پشت پر تنکا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ آگ سے ڈرتا ہے" (فرانسیسی کہاوت)

"جس نے منزل تک پہنچنے کا عزم کر لیا، اس نے ہر رکاوٹ کو معمولی سمجھا" (فرانسیسی کہاوت)

"جو خود کو بھیڑ سمجھتا ہے، بھیڑیا اسے کھا جائے گا" (فرانسیسی کہاوت)

Repeat & corrected  result.
27/09/2024

Repeat & corrected result.

My elder Son Muhammad  Ali  Zafar  got 193/200 in MdCat 2024.
27/09/2024

My elder Son Muhammad Ali Zafar got 193/200 in MdCat 2024.

24/09/2024

تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں :-

پہلا قانون فطرت:

اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر" دماغ" کو" اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے "خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
اس لئے مثبت سوچیں، اچھا سوچیں

دوسرا قانون فطرت:

جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ" وہی کچھ" بانٹتا ہے۔ ۔ ۔
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔
اس لئے خود میں مثبت احساس پیدا کریں۔ اچھی چیزیں سیکھیں۔ مصروف رہیں۔ خوش رہیں۔

تیسرا قانون فطرت:

آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر" بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔
* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں" ریاکاری" بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔
* غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔
اس لئے ہضم کرنا سیکھیں۔

اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک" با مقصد" اور "با اخلاق" زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں

خوش رہیں۔۔۔خوشیاں بانٹیں۔۔۔۔

Seventeen years back with my elder son daughter .
22/09/2024

Seventeen years back with my elder son daughter .

22/09/2024

اپوریلی برازیل کا ایک جرنلسٹ تھا. بچپن میں سکول کلاس روم میں استاد نے اس سے پوچھا " ہمارے کتنے گردے ہوتے ہیں" اپوریلی نے سکون سے کہا چار گردے. استاد کا قہقہہ نکل گیا. کلاس روم سے کہا دیکھو ہمارے درمیان ایک گدھا بھی موجود ہے. اگے بیٹھے ایک طالب علم سے کہا جاو گھاس لے کر آو. آج گدھے کو گھاس کھلاتے ہیں.بچہ جب باہر نکلنے لگا تو اپوریلی نے اسے کہا دیکھو گدھے کیلئے گھاس لاتے میرے لئے کافی کا کپ لیتے آنا. استاد یکدم غصے سے بھڑک گیا. کہا نکلو میری کلاس سے ایک تو گردوں کا پتہ نہیں دوسرا مجھے ہی گدھا کہہ رہے ہو. کلاس سے نکلتے نکلتے اپوریلی نے کہا سر آپ نے پوچھا تھا ہمارے کتنے گردے ہوتے ہیں. تو ہم دونوں کے ملا کر چار ہی گردے بنتے ہیں. اگر آپ کو میرا جواب سمجھ نہیں آیا تو پلیز اپنے سوال کو ضرور چیک کر لیں.ایک چیز علم یعنی knowledge ہوتی ہے. ایک سمجھ یعنی understanding ہوتی ہے. ہم میں اکثریت کا مسئلہ علم نہیں یہی understanding ہے. یہی سمجھ کبھی ہم سے بلاوجہ قہقہے لگواتی ہے. کبھی یکدم آپے سے باہر کروا دیتی ہے. کیوں...؟ اس کیوں پر ہم کیونکہ سوچتے کم ہیں. اور یہی کیوں انسان کی understanding بناتی ہے ـ،ـمنقول

22/09/2024

✍️ایک استاد نے طلباء سے کہا کہ "چور" پر ایک مضمون لکھیں۔

*ساتویں جماعت کے طالب علم (بدھی پرکاش) نے ایسا مضمون لکھا:*
*چور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک مذاق ہے یا یہ غلط ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت میں قابل غور موضوع ہے۔ چوروں کی وجہ سے ہی سیف، الماری اور تالے درکار ہیں۔ یہ ان کمپنیوں کو کام دیتا ہے جو انہیں بناتے ہیں.*

*چوروں کی وجہ سے گھروں کی کھڑکیوں میں گرلز ہیں، دروازے ہیں، جو بند ہیں، یہی نہیں، باہر سیکیورٹی کے لیے اضافی دروازے بھی ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔*

*چوروں کی وجہ سے گھروں، دکانوں اور سوسائٹیوں کے ارد گرد ایک کمپاؤنڈ بنا ہوا ہے۔ گیٹ ہیں، گیٹ پر 24 گھنٹے گارڈ تعینات رہتا ہے، اور گارڈ کے لیے یونیفارم بھی ہے۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔*

*چوروں کی وجہ سے صرف سی سی ٹی وی کیمرے اور میٹل ڈیٹیکٹر ہی نہیں بلکہ سائبر سیل بھی موجود ہیں۔ چوروں کی وجہ سے ہی پولیس، تھانے، پولیس چوکیاں، گشتی کاریں، لاٹھیاں، رائفلیں، ریوالور اور گولیاں ہیں۔ اتنے لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔*

*چوروں کی وجہ سے عدالتیں، جج، وکیل، کلرک اور ضمانتی بندے ہیں۔ تو بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ چوروں کی وجہ سے جیلوں کے لیے جیلر اور پولیس ہیں۔ اس لیے روزگار کے بہت مواقع ہیں۔*

*جب موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرانک ڈیوائسز، سائیکلیں اور گاڑیاں چوری ہوتی ہیں تو لوگ نئی خریدتے ہیں۔ اس خرید و فروخت سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو کام ملتا ہے۔*

*اگر کوئی چور بہت زیادہ جاناپہچانا اور مشہور ہو تو اندرون و بیرون ملک کا میڈیا بھی اس سے روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔*

*یہ سب پڑھنے کے بعد آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ چور پورے حکومتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاشرے میں لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔*🤭🤪😇

20/09/2024

مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں۔
میں آفس میں آتے ہی ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں۔ اُس روز ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی۔
"کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔"
میں نے کہا:
بھجوا دیجیئے۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیض پہنے گریبان کے بٹن کھولے گلے میں کافی سارا ٹیلکم پاؤڈر لگائے، ہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے۔ سلام لیا اور سامنے بیٹھ گئے۔
ان کا ڈیل ڈول اچھا تھا، اس لئے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا؛
''میں بھی ایک مراثی ہوں۔ میں بوکھلا گیا، کیا مطلب.؟
وہ تھوڑا قریب ہوئے‏ اور بولے ''مولا خوش رکھے میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا سنا ہے آپ بھی میری طرح.......... میرا مطلب ہے آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں؟‘‘
میں نے جلدی سے کہا، ہاں لیکن میں مراثی نہیں ہوں۔
"اچھی بات ہے‘‘ وہ اطمینان سے بولے۔
"میں نے بھی کبھی کسی کو اپنی حقیقت نہیں بتائی۔ میرا خون کھول اٹھا۔ عجیب آدمی ہو تم، تمہیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟
یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ... ہم یوسفزئی ہیں ۔وہ کارڈ دیکھتے ہی چہکا۔ “مولا خوش رکھے... وہی بات نکلی ناں.. میرا دل چاہا کہ اچھل کر اُس کی گردن دبوچ لوں‘ لیکن کم بخت ڈیل ڈول میں میرے قابو آنے والا نہ تھا۔
وہ پھر بولا مجھے نوکری چاہیئے‘‘۔ میں پہلے چونکا‘ پھر غصے سے بھڑک اٹھا ''یہ کوئی کمرشل تھیٹر کا دفتر نہیں ہے‘تم نے کیسے سوچ لیا کہ، یہاں مراثی بھرتی کئے جاتے ہیں؟‘‘
وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا‘ پھر اپنی مندری گھماتے ہوئے بولا؛
''یہاں نہ سہی‘ کسی دوسرے دفتر میں ہی کام دلوا دیں۔ میں کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا‏ کہ اچانک میرے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا اور میں مسکرا اٹھا۔
آفس بوائے سے اُس کے لیے بھی چائے لانے کے لیے کہا اور خود اُٹھ کر اُس کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں الجھن سی اُتر آئی۔ میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، ‏سنو! تمہیں بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے‘ اگر تم مجھے ہنسا کے دکھا دو۔
وہ ہونقوں کی طرح میرا منہہ دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی حالت کا مزا اٹھاتے ہوئے اُسے زور سے ہلایا۔
"ہیلو! ہوش کرو بتاؤ‘ یہ چیلنج قبول ہے؟؟
اُس نے کچھ دیر پھر مندری گھمائی اور نفی میں سر ہلا دیا. میں حیران رہ گیا‘ وہ مراثی ہونے کے باوجود مجھ جیسے اچھے خاصے معزز انسان سے ہار مان رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب سا جواب دیا ''میں نے لوگوں کو ہنسانا چھوڑ دیا ہے۔
میں اچھل پڑا ''یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اُس نے لمبا سانس لیا اور بیزاری سے بولا ''لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں۔ میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ''یہ تمہاری غلط فہمی ہے.. دنیا آج بھی ہنستی ہے، مزاحیہ تحریریں پڑھتی ہے‘ مزاحیہ ڈرامے دیکھتی ہے، جگتیں پسند کرتی ہے۔
اُس نے اپنی مندری نکال کر دوسری انگلی میں پہنی. ‏اور اپنی بڑھی ہوئی شیو پر خارش کرتے ہوئے بولا ''دنیا ہنستی نہیں دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے‘‘
میں نے پھر قہقہہ لگایا وہ کیسے؟
اُس نے قمیض کی سائیڈ والی جیب سے سستے والے سگریٹ کی مسلی ہوئی ڈبی نکالی اور میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا‘ میں نے ایش ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی۔
‏اُس نے شکریہ کہا اور سگریٹ سلگا کر گہرا کش لیا۔ میں اُس کےجواب کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر اُس کی آواز آئی ''آپ کا منہہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے"۔
مجھے گویا ایک کرنٹ سا لگا اور میں کرسی سے پھسل گیا۔ میری رگ رگ میں طوفان بھر گیا۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ کر‏ مجھے ہی لومڑ کہہ رہا تھا‘ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔ میرا چہرہ سرخ ہو گیا‘ اس سے پہلے کہ میں اُس پر چائے کا گرم گرم کپ انڈیل دیتا‘ وہ جلدی سے بولا ''آپ کا ایک جگری دوست شہزاد ہے ناں؟‘‘
میں پوری قوت سے چلایا ''ہاں ہے...پھر؟
وہ فوراً بولا۔
''اُس کی شکل بینکاک کے جمعدار جیسی ہے"۔
میں نے بوکھلا کر اُس کا یہ جملہ سنا ... کچھ دیر غور کیا اور پھر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی... میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔
تین چار منٹ تک آفس میں میرے قہقہے گونجتے رہے بڑی مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا اور ‏دانت نکالتے ہوئے کہا ''شرم کرو... وہ میرا دوست ہے۔
میری بات سنتے ہی مراثی نے پوری سنجیدگی سے کہا؛
"ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر لگنے والی جگت پر کیوں نہیں آئی؟ میں یکدم چونک اٹھا‘ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی...
ہمارے معاشرے میں واقعی وہ چیز زیادہ ہنسی کا باعث بنتی ہے جس میں کسی دوسرے کی ذلت کا سامان ہو‘ یہی وجہ ہے کہ سٹیج ڈراموں اور عام زندگی میں جب ہم کسی دوسرے کو ذلیل ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ فریش ہو جاتے ہیں۔
کوئی بندہ چلتے ہوئے گر جائے، کسی کی گاڑی خراب ہو جائے‏ کسی کے پیچھے کتا دوڑ لگا دے، کسی کی بس نکل جائے اور وہ آوازیں لگاتا رہ جائے تو ہماری ہنسی نہیں رکتی۔ یہی عمل اگر ہمارے ساتھ ہو اور دوسرے ہنسیں تو ہم غصے سے بھر جاتے ہیں۔
گویا ہنسنے کے لئے کسی کا ذلیل ہونا لازمی امر قرار پا چکا ہے۔ ‏یہی رویہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں در آیا ہے۔ ہمیں اپنے سکھ سے اتنی راحت نہیں ملتی جتنے کسی کے دکھ ہمیں سکون دیتے ہیں۔

RDW along with mean corpuscular volume (MCV) is helpful in narrowing the cause of anemia: [4]Normal RDW and low MCV are ...
12/09/2024

RDW along with mean corpuscular volume (MCV) is helpful in narrowing the cause of anemia: [4]

Normal RDW and low MCV are associated with the following conditions:

Anemia of chronic disease
Heterozygous thalassemia
Hemoglobin E trait
High RDW and low MCV are associated with the following conditions:

Iron deficiency
Sickle cell-β-thalassemia
Normal RDW and high MCV are associated with the following conditions:

Aplastic anemia
Chronic liver disease [10]
Chemotherapy/antivirals/alcohol
High RDW and high MCV are associated with the following conditions:

Folate or vitamin B12 deficiency
Immune hemolytic anemia
Cytoxic chemotherapy
Chronic liver disease
Myelodysplastic syndrome
Normal RDW and normal MCV is associated with the following conditions:

Anemia of chronic disease
Acute blood loss or hemolysis
Anemia of renal disease
High RDW and normal MCV is associated with the following conditions:

Early iron, vitamin B12, or folate deficiency
Dimorphic anemia (for example, iron and folate deficiency)
Sickle cell disease
Chronic liver disease
Myelodysplastic syndrome

Red cell distribution width (RDW) is a parameter that measures variation in red blood cell size or red blood cell volume. RDW is elevated in accordance with variation in red cell size (anisocytosis), ie, when elevated RDW is reported on complete blood count, marked anisocytosis (increased variation....

Address

Circuit House Road Street, , Near KHIZRA MOSQUE
Multan
60000

Opening Hours

Monday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00
Tuesday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00
Wednesday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00
Thursday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00
Friday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00
Saturday 15:00 - 18:00
20:00 - 22:00

Telephone

+923007305443

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Professor Dr. Muhammad Zafar Iqbal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram