
21/05/2025
کہانی: خاموش دیواریں (مکمل)
رات کے سناٹے میں گھر کے اندر سے چیزیں گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کھڑکی کے شیشے کے پیچھے ایک عورت کی سسکیاں اور ایک مرد کی گرجدار آواز گونج رہی تھی۔
"کتنی بار کہا ہے مجھے جواب نہ دیا کرو!" نعمان کا ہاتھ پھر سے ہوا میں بلند ہوا اور زور سے نیہا کے چہرے پر آ گرا۔ نیہا دیوار سے ٹکرا کر زمین پر گری، اس کے ماتھے سے خون بہنے لگا۔ وہ کانپتے ہونٹوں سے بس اتنا بول سکی، "بس کرو، خدارا…"
نعمان کی آنکھوں میں پاگل پن تھا۔ وہ روز بروز اور زیادہ وحشی ہوتا جا رہا تھا۔ ذرا سی بات پر ہاتھ اٹھا دینا، طعنہ دینا، اور چیزیں توڑنا جیسے اس کی فطرت بن چکی تھی۔ نیہا کبھی کبھار سوچتی تھی کہ کیا واقعی یہی وہ شخص ہے جس سے اس نے محبت کی تھی؟ لیکن اب محبت کہیں دفن ہو چکی تھی — صرف خوف باقی رہ گیا تھا۔
اس رات جب نعمان کمرے سے نکل کر غصے میں دروازہ زور سے بند کر گیا، نیہا بہت دیر تک زمین پر بےحس پڑی رہی۔ پھر وہ اٹھی، آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھا، آنکھوں کے نیچے نیلا نشان، کٹی ہوئی پیشانی اور سوجا ہوا گال — اس کی خاموشی کا ثبوت تھے۔
وہ چل کر الماری کے پاس گئی، ایک چھوٹا سا بیگ نکالا، چند ضروری چیزیں اور اپنے زخموں سے زیادہ دکھ اپنی آنکھوں میں لیے، آہستہ سے دروازہ کھولا۔ نیچے پورچ میں ہر چیز ساکت تھی۔ وہ دھیمی آواز میں چلتی ہوئی باہر نکلی — بغیر شور کیے، بغیر روئے۔ بس چل دی، اندھیرے میں، مگر ایک نئی روشنی کی طرف۔
اگلے دن جب نعمان جاگا، وہ گھر خالی تھا۔ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا میز پر رکھا تھا جس پر لکھا تھا:
"میں کمزور نہیں، میں عورت ہوں۔ میں سہتی رہی — اب نہیں۔ خدا حافظ۔"
نعمان نے وہ کاغذ پڑھا، مگر شاید وہ اب بھی سمجھ نہ پایا کہ اس نے کیا کھو دیا ہے۔ دیواریں اب بھی خاموش تھیں، مگر اب وہ خاموشی بغاوت کی تھی۔