
25/11/2024
*اینڈرومیڈا! سالگرہ مبارک ہو*
یہ آج سے سو سال پہلے کی ایک سرد شام کا واقعہ ہے۔ ماہر فلکیات ایڈون ہبل، کیلیفورنیا کی ماؤنٹ ولسن آبزرویٹری میں، اس وقت کی دنیا کی سب بڑی 100 انچ قطر والی ہوکر ٹیلی سکوپ کے عدسے سے آسمان کے ایک مخصوص حصے کو مسلسل گھور رہے ہیں۔
اچانک ان کی آنکھوں میں ایک روشنی سی چمکتی ہے اور انسانی تاریخ میں وہ لمحہ آتا ہے جو اگلی کئی صدیوں کے لئے بنی نوع انسان کی سوچ کی نئی سمت متعین کرے گا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ہمیں پتا چلا کہ اینڈرومیڈا، ہماری قریب ترین پڑوسی کہکشاں، درحقیقت ایک الگ کہکشاں ہے۔
صدیوں سے ماہرین فلکیات اینڈومیڈا کی طرف متوجہ رہے تھے جو کہ تاریک راتوں میں ایک دھندلے سے ہیولے کی مانند دکھائی دیتی تھی لیکن ہمیشہ سے انسان کا خیال تھا کہ یہ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے کا ایک دور دراز، غیر اہم سا حصہ ہے اور اسی نسبت سے اسے اینڈرومیڈا نیبیولا پکارا جاتا تھا۔
لیکن ایڈون ہبل کے کئی سالوں تک باریک بینی سے کئے گئے مشاہدات اور حساب کتاب نے ایک چونکا دینے والی حقیقت کا انکشاف کیا۔
وہ انکشاف یہ تھا کہ اینڈرومیڈا ایک الگ کہکشاں تھی۔
ایک الگ کہکشاں یعنی اربوں ستاروں، سیاروں، گیس اور گرد کی ایک بہت بڑی ، گھومتی ہوئی، بھنور نما کہکشاں جو ہماری کہکشاں سے کئی کھرب میل بلکہ کئی لاکھ نوری سال دور کائنات کی وسعتوں میں بھٹک رہی ہے۔
ایڈون ہبل نے اپنی دریافت کو 23 نومبر 1924 کو باقاعدہ طور پر شائع کیا اور آج ہم اس اہم لمحے کی 100 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔
ایڈون ہبل دراصل کائنات میں اجسام کے فاصلے ماپنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ اینڈرومیڈا کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ہماری کہکشاں ملکی وے کا حصہ نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ملکی وے سے بہت دور ایک الگ جسم یا الگ کہکشاں ہے۔ ہبل کی اس دریافت کی نے سائنسی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔
اس دریافت نے ایک حیرت انگیز اور خوشگوار احساس کو جنم دیا کہ ہم اس کائنات میں اکیلے نہیں بلکہ ہماری کائنات لاتعداد کہکشاؤں کا گھر ہے اور ہر کہکشاں ایک الگ وسیع و عریض اور خود مختار نظام کا نام ہے۔
یہ احساس بنی نوع انسان کے لئے بالکل نیا اور بہت ہی انوکھا تھا اور اس نے کائنات کی ہیئت اور اس کے اندر ہمارے مقام کے بارے میں انسان کے مجموعی فہم و ادراک کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
اس دریافت کے بعد پچھلے ایک سو سال کے دوران اینڈرومیڈا کے بارے میں ہمارے علم میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ہم نے جانا کہ یہ کہکشاؤں کے لوکل گروپ کا سب سے بڑا رکن ہے اور اس لوکل گروپ میں ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے اور ٹرائینگولم سمیت کئی چھوٹی کہکشائیں شامل ہیں۔
سب سے زیادہ حیرت ناک بات یہ سامنے آئی کہ اینڈرومیڈا نہایت تیز رفتار سے مسلسل ہمارے قریب آ رہی ہے جو آج سے تقریباً 4.5 بلین سالوں بعد ہماری کہکشاں ملکی وے سے ٹکرا کر اس میں ضم ہو جائے گی اور یہ عظیم الشان ملاپ ایک نئی دیوہیکل کہکشاں کو جنم دے گا۔
صرف یہی نہیں، اس دریافت نے علم فلکیات اور فلکی طبیعیات میں ایک نئے باب کو جنم دیا جہاں ہمیں یہ پتا چلا کہ کائنات میں موجود دوسری کہکشائیں بہت تیزی سے ہم سے دور جا رہی ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ کائنات کبھی ماضی میں بہت مختصر یا مرتکز رہی ہوگی اور کائنات کا کوئی نکتہ آغاز بھی رہا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی سوچ تھی جس نے جدید فلکیات اور کونیات کے سب سے اہم اور کامیاب بگ بینک ماڈل کی تشکیل کو ہموار کیا۔
آج ہم کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار معلوم کرنے اور کائنات کی تخلیق کے فوراً بعد پھوٹنے والی روشنی کاسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ کی شکل میں تلاش کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن کائنات کی کھوج کا یہ سفر کبھی اینڈرومیڈا سے ہی شروع ہوا تھا۔
چنانچہ آج رات ستاروں سے بھرے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر اینڈرومیڈا کہکشاں کی جانب دیکھتے ہوئے چند لمحات کے لئے ذرا سوچیں کہ کئی سو ارب ستاروں والی اس کہکشاں میں ہماری زمین جیسا کوئی سیارہ بھی موجود ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق وہاں سے ہمیں دیکھنے اور ہم سے رابطہ کرنے کے لئے اتنی ہی بے چین و بےتاب ہو سکتی ہے جتنے ہم ہیں۔
100 ویں سالگرہ مبارک ہو، اینڈرومیڈا!
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)
(پس تحریر: اینڈرومیڈا کہکشاں کی زیر نظر تصویر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے قصبے بیلا میں موجود پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ فلکیاتی رصد گار 'تقویٰ آبزرویٹری' کے احاطے سے ڈاکٹر احمد نعیم نے جنوری 2023 میں بنائی تھی)