Astro by Ahmad Naeem

Astro by Ahmad Naeem Lost in the mysteries of the Universe

*اینڈرومیڈا! سالگرہ مبارک ہو* یہ آج سے سو سال پہلے کی ایک سرد شام کا واقعہ ہے۔ ماہر فلکیات ایڈون ہبل، کیلیفورنیا کی ماؤن...
25/11/2024

*اینڈرومیڈا! سالگرہ مبارک ہو*

یہ آج سے سو سال پہلے کی ایک سرد شام کا واقعہ ہے۔ ماہر فلکیات ایڈون ہبل، کیلیفورنیا کی ماؤنٹ ولسن آبزرویٹری میں، اس وقت کی دنیا کی سب بڑی 100 انچ قطر والی ہوکر ٹیلی سکوپ کے عدسے سے آسمان کے ایک مخصوص حصے کو مسلسل گھور رہے ہیں۔

اچانک ان کی آنکھوں میں ایک روشنی سی چمکتی ہے اور انسانی تاریخ میں وہ لمحہ آتا ہے جو اگلی کئی صدیوں کے لئے بنی نوع انسان کی سوچ کی نئی سمت متعین کرے گا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ہمیں پتا چلا کہ اینڈرومیڈا، ہماری قریب ترین پڑوسی کہکشاں، درحقیقت ایک الگ کہکشاں ہے۔

صدیوں سے ماہرین فلکیات اینڈومیڈا کی طرف متوجہ رہے تھے جو کہ تاریک راتوں میں ایک دھندلے سے ہیولے کی مانند دکھائی دیتی تھی لیکن ہمیشہ سے انسان کا خیال تھا کہ یہ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے کا ایک دور دراز، غیر اہم سا حصہ ہے اور اسی نسبت سے اسے اینڈرومیڈا نیبیولا پکارا جاتا تھا۔

لیکن ایڈون ہبل کے کئی سالوں تک باریک بینی سے کئے گئے مشاہدات اور حساب کتاب نے ایک چونکا دینے والی حقیقت کا انکشاف کیا۔

وہ انکشاف یہ تھا کہ اینڈرومیڈا ایک الگ کہکشاں تھی۔

ایک الگ کہکشاں یعنی اربوں ستاروں، سیاروں، گیس اور گرد کی ایک بہت بڑی ، گھومتی ہوئی، بھنور نما کہکشاں جو ہماری کہکشاں سے کئی کھرب میل بلکہ کئی لاکھ نوری سال دور کائنات کی وسعتوں میں بھٹک رہی ہے۔

ایڈون ہبل نے اپنی دریافت کو 23 نومبر 1924 کو باقاعدہ طور پر شائع کیا اور آج ہم اس اہم لمحے کی 100 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔

ایڈون ہبل دراصل کائنات میں اجسام کے فاصلے ماپنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ اینڈرومیڈا کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ہماری کہکشاں ملکی وے کا حصہ نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ملکی وے سے بہت دور ایک الگ جسم یا الگ کہکشاں ہے۔ ہبل کی اس دریافت کی نے سائنسی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔

اس دریافت نے ایک حیرت انگیز اور خوشگوار احساس کو جنم دیا کہ ہم اس کائنات میں اکیلے نہیں بلکہ ہماری کائنات لاتعداد کہکشاؤں کا گھر ہے اور ہر کہکشاں ایک الگ وسیع و عریض اور خود مختار نظام کا نام ہے۔

یہ احساس بنی نوع انسان کے لئے بالکل نیا اور بہت ہی انوکھا تھا اور اس نے کائنات کی ہیئت اور اس کے اندر ہمارے مقام کے بارے میں انسان کے مجموعی فہم و ادراک کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

اس دریافت کے بعد پچھلے ایک سو سال کے دوران اینڈرومیڈا کے بارے میں ہمارے علم میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ہم نے جانا کہ یہ کہکشاؤں کے لوکل گروپ کا سب سے بڑا رکن ہے اور اس لوکل گروپ میں ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے اور ٹرائینگولم سمیت کئی چھوٹی کہکشائیں شامل ہیں۔

سب سے زیادہ حیرت ناک بات یہ سامنے آئی کہ اینڈرومیڈا نہایت تیز رفتار سے مسلسل ہمارے قریب آ رہی ہے جو آج سے تقریباً 4.5 بلین سالوں بعد ہماری کہکشاں ملکی وے سے ٹکرا کر اس میں ضم ہو جائے گی اور یہ عظیم الشان ملاپ ایک نئی دیوہیکل کہکشاں کو جنم دے گا۔

صرف یہی نہیں، اس دریافت نے علم فلکیات اور فلکی طبیعیات میں ایک نئے باب کو جنم دیا جہاں ہمیں یہ پتا چلا کہ کائنات میں موجود دوسری کہکشائیں بہت تیزی سے ہم سے دور جا رہی ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ کائنات کبھی ماضی میں بہت مختصر یا مرتکز رہی ہوگی اور کائنات کا کوئی نکتہ آغاز بھی رہا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی سوچ تھی جس نے جدید فلکیات اور کونیات کے سب سے اہم اور کامیاب بگ بینک ماڈل کی تشکیل کو ہموار کیا۔

آج ہم کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار معلوم کرنے اور کائنات کی تخلیق کے فوراً بعد پھوٹنے والی روشنی کاسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ کی شکل میں تلاش کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن کائنات کی کھوج کا یہ سفر کبھی اینڈرومیڈا سے ہی شروع ہوا تھا۔

چنانچہ آج رات ستاروں سے بھرے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر اینڈرومیڈا کہکشاں کی جانب دیکھتے ہوئے چند لمحات کے لئے ذرا سوچیں کہ کئی سو ارب ستاروں والی اس کہکشاں میں ہماری زمین جیسا کوئی سیارہ بھی موجود ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق وہاں سے ہمیں دیکھنے اور ہم سے رابطہ کرنے کے لئے اتنی ہی بے چین و بےتاب ہو سکتی ہے جتنے ہم ہیں۔

100 ویں سالگرہ مبارک ہو، اینڈرومیڈا!

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

(پس تحریر: اینڈرومیڈا کہکشاں کی زیر نظر تصویر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے قصبے بیلا میں موجود پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ فلکیاتی رصد گار 'تقویٰ آبزرویٹری' کے احاطے سے ڈاکٹر احمد نعیم نے جنوری 2023 میں بنائی تھی)

*کہکشاؤں کا عظیم حلقہ اور اصول کونیات*"سائنسدان حیران رہ گئے ہیں"۔ہر چند دن بعد ایسی کوئی خبر یا تحریر نظر سے گزرتی ہے ج...
18/01/2024

*کہکشاؤں کا عظیم حلقہ اور اصول کونیات*

"سائنسدان حیران رہ گئے ہیں"۔
ہر چند دن بعد ایسی کوئی خبر یا تحریر نظر سے گزرتی ہے جس میں کہا گیا ہوتا ہے کہ کسی نئی دریافت، مشاہدے یا تحقیق نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے یا سائنس کے لیے ایک نیا معمہ کھڑا کر دیا ہے۔
ایسی خبریں دیکھتے ہی دیکھتے بے پناہ شہرت حاصل کر جاتی ہیں اور پھر جتنے "چینلز" اتنی ہی باتیں ہونے لگتی ہیں کہ سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کری ایشن Content Creation کے اس دور میں "جتنے منہ اتنی باتیں" والا محاورہ اب شاید پرانا ہو گیا ہے۔
زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ خبریں حیرت انگیز سائنسی معلومات کا ذریعہ ہوتی ہیں لیکن ایک مخصوص طبقہ ایسا بھی ہے جو اس قسم کی نئی اور اچھوتی دریافتوں کی ڈھال لیتے ہوئے سائنس کے موجودہ ماڈلز اور سائنس دانوں کے پیش کردہ نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔
ایسا صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے اور آج کے دور میں بھی، جب ہر انسان اپنی روزمرہ زندگی کے قریباً نناوے فیصد معاملات میں کسی نہ کسی طرح سائنس سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اب بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سازشی نظریات کی طرف مائل نظر آتی ہے لیکن سائنس کے کام کرنے کا طریقہ ذرا مختلف ہے اور سائنسی نظریات پر حامیوں یا مخالفین کی تعداد کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جیسا کہ مشہور یونانی فلسفی اوریلیس نے کہا تھا کہ کسی معاملے میں کئی ہزار ایسے افراد کی رائے بھی ہرگز کوئی اہمیت نہیں رکھتی جو اس معاملے سے متعلق مناسب علم نہ رکھتے ہوں۔
المختصر، سائنس کو غلط ثابت کرنے کے لیے "اکثریت" ضروری نہیں بلکہ سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ایک مدلل مفروضہ قائم کر کے ٹھوس سائنسی ثبوتوں اور دلائل کی بنیاد پر ایک واضح نتیجہ اخذ کرنا، پھر اس نتیجے کو دیگر سائنسدانوں کے سامنے پیش کرنا اور بے رحمانہ جانچ پڑتال کے بعد سائنسی دنیا میں قبولیت عام کا درجہ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ کام چاہے دنیا میں ایک اکیلا بندہ بھی کرلے تو بھی وہ سائنس کا منظور نظر ٹہرے گا۔
چنانچہ اکیسویں صدی میں ایک سلجھے ہوئے باشعور انسان کے لیے سب سے بہتر رویہ اور سوچ یہ ہے کہ سائنس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے سائنس کی بنیادی معلومات اور تصورات کا مطالعہ کرنے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
ایک اور اہم بات جسے سمجھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سائنس دان اپنی فیلڈ کے ماہر ترین اور قابل ترین افراد ہوتے ہیں اور وہ سادہ سوالوں یا نسبتاً کم پیچیدہ دریافتوں کے سامنے حیرت ظاہر نہیں کرتے، بلکہ وہ اگر کبھی شش و پنج کا شکار دکھائی دیتے ہیں تو پس منظر میں یقیناً کوئی بہت زیادہ پیچیدہ اور حل طلب مسئلہ ہی ہوتا ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ جو بات کسی مخصوص فیلڈ کے سائنس دانوں کو حیران و پریشان کر رہی ہے، وہ سائنس کی رسمی سی سمجھ بوجھ رکھنے والے عام افراد یا حتیٰ کہ کسی دوسری فیلڈ کی اچھی معلومات یا تعلیم رکھنے والے لوگوں کی سمجھ سے بھی باہر ہو، اس لیے ان پیچیدہ مسائل کے حوالے سے کوئی رائے دینے یا نتیجہ نکالنے سے پہلے اس کے پس منظر میں موجود بنیادی سائنسی تصورات اور سادہ معلومات کا مطالعہ کرنا ایک بہتر طرز عمل ہے۔
اب حال ہی میں لگنے والی ایک خبر کی مثال لیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں سائنس دانوں کو خلا میں زمین سے تقریباً 9 ارب نوری سال دور، آسمان میں ستاروں کے جھرمٹ بوٹس Bootes کے آس پاس، ایک حلقے یا دائرے اور ایک کمان کی مانند دکھائی دینے والے عظیم الجثہ اسٹرکچرز Large Scale Structures یعنی کہکشاؤں کے دیوہیکل جھنڈ ملے ہیں جو تقریباً 1.2 ارب نوری سال سے کچھ زیادہ کے احاطے میں پھیلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اس قسم کے دیوہیکل اسٹرکچرز کی موجودگی ہماری کائنات سے متعلق ہمارے موجودہ فہم و ادراک کو چیلنج کرتی دکھائی دیتی ہے۔
سادہ الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کے ایک چھوٹے سے مخصوص حصے میں کہکشاؤں کے دیوہیکل جھنڈ کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے کسی ایک خاص حصے میں غیر معمولی حد تک عظیم مقدار میں مادہ اکٹھا نظر آ رہا ہے۔
چلیں یہاں تک تو بات سمجھ آ گئی، لیکن کائنات کے کسی ایک حصے میں بہت زیادہ مادے کے اکٹھا ہونے سے سائنسدانوں کو کیا تکلیف ہوئی اور وہ کیوں سر پکڑ کے بیٹھ گئے ہیں؟۔
اس سوال کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے کچھ بنیادی باتوں کا مطالعہ کرنا ہوگا، اس لیے آئیں جدید کونیات کے سب سے زیادہ دلچسپ موضوع یعنی سٹینڈرڈ ماڈل آف کاسمولوجی Standard Model of Cosmology کی طرف چلتے ہیں۔
فلکیات اور کونیات کے میدان میں ہونے والی تمام تحقیق دراصل ہماری کائنات کو سمجھنے کی کوشش ہے یعنی کہ یہ کائنات کیسے بنی، موجودہ حالات تک کیسے پہنچی اور اس وقت قائم و دائم کیسے ہے، ان جیسے سوالات کے جوابات کی کھوج کا نام ہی فلکیات اور کونیات ہے۔
پچھلی صدی میں سائنس کی دیگر فیلڈز کی طرح فلکیات اور کونیات میں بھی کئی انقلابی دریافتیں ہوئیں اور کائنات کے حوالے سے ہمارے قدیم یا ماضی کے ماڈلز غیر مناسب معلوم ہونے لگے تو فلکیات دان اور فلکیاتی طبیعیات دان نئی نئی دریافتوں کے پیش نظر ہماری کائنات سے متعلق ایک ایسا ماڈل وضع کرنے کی کوشش میں جت گئے جس سے کائنات کی پیدائش، موجودہ حالات اور اس کا قائم و دائم رہنا زیادہ سے زیادہ واضح، مناسب اور بہتر انداز میں سمجھ آ سکے۔ کئی دہائیوں کی تحقیق، محنت اور عرق ریزی کے بعد سائنسدان ایک ایسے ماڈل پر پہنچے جو کائنات کی پیدائش، ساخت اور استحکام کو مناسب انداز میں بیان کرتا محسوس ہوا اور اسے ہم آج سٹینڈرڈ ماڈل آف کاسمولوجی کا نام دیتے ہیں۔
اس ماڈل کی بنیاد دراصل چار مفروضات پر یا مفروضاتی دلائل پر مبنی چار نکات پر رکھی گئی ہے:
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہماری کائنات ایک انتہائی مرتکز اکائی سے انتہائی تیزی کے ساتھ ہونے والے عظیم پھیلاؤ کے نتیجے میں وجود میں آئی اور کائنات کا پھیلاؤ اب بھی جاری و ساری ہے۔ کائنات کے آغاز میں وقوع پذیر ہونے والے انتہائی تیز پھیلاؤ کو ہم اپنی آسانی کی خاطر بگ بینک کا نام دیتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہماری کائنات ساختی لحاظ سے 5 فیصد عام مادہ، 27 فیصد ڈارک میٹر اور 68 فیصد ڈارک انرجی پر مشتمل ہے جسے ہم لیمبڈا سی ڈی ایم ماڈل ( ΛCDM ) بھی کہتے ہیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ کائنات میں موجود تمام اجزاء کے باہمی ثقلی تعلق کو بڑے پیمانے پر سب سے زیادہ مناسب انداز میں جنرل تھیوری آف ریلیٹیوٹی یا نظریہ اضافیتِ عمومی کے تناظر میں بخوبی بیان کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ ہماری کائنات بہت بڑے پیمانے پر یا بہت زیادہ عظیم وسعتوں میں ہر جانب یکساں یا Homogenous اور آئسوٹوپک Isotopic ہے اور یہ تصور سائنسی اصطلاح میں اصولِ کونیات یا کاسمولوجی پرنسپل Cosmology Principle کہلاتا ہے۔
یہ وہ چار نکات ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی کائنات کے ہر پہلو کو نہ صرف مناسب طور پر سائنسی انداز میں بیان کر سکتے ہیں بلکہ مختلف کائناتی مظاہر سے متعلق حساب کتاب یا کیلکولیشن اور قوانین طبیعات کے اطلاق کی بنیاد بھی ان ہی نکات پر رکھی جاتی ہے اور اسی لئے کسی نئی دریافت، مشاہدے یا تحقیق کا ان چار نکات سے مطابقت نہ رکھنا سائنسدانوں کے لئے حیرانگی اور غور و فکر کا باعث بن سکتا ہے۔
اب یہاں چوتھے یعنی آخری نکتے پر مزید بات کرنا ضروری ہے اور یقیناً یہ سوال ذہن میں آتا ہے کائنات کے یکساں اور آئیسوٹوپک ہونے کا کیا مطلب ہے؟۔
یکساں یا Homogenous ہونے کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ہماری پوری کائنات میں مادہ ہر جانب تقریباً تقریباً یکساں انداز میں پھیلا ہوا ہے یعنی کائنات کے کسی ایک مخصوص مقام پر مادے کی بہت زیادہ عظیم مقدار جمع نہیں ہے، اسی طرح آئسوٹوپک ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں کوئی مخصوص سمتیں نہیں ہیں بلکہ کائنات میں تمام مقامات ایک جیسی حیثیت کے حامل ہیں اور کائنات کے مرکز یا کناروں کی نشاندہی ممکن نہیں بلکہ کائنات میں ہر مقام گویا بذات خود کائنات کا مرکز ہے اور یوں کائنات کا کوئی مخصوص مرکز نہیں۔
اب یہاں ایک اور سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ آخر یہ کیسے پتا چلا کہ کائنات میں مادہ یکساں طور پر پھیلا ہوا ہے اور کائنات میں سمتوں کی کوئی پہچان نہیں؟۔
چونکہ سائنس میں ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاتا، لہذا کاسمولوجی پرنسپل کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی دہائیوں تک مسلسل کائنات پر تحقیق، مشاہدات اور مطالعہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً کائنات میں مادے کے یکساں طور پر پھیلے ہونے کے کئی مشاہداتی اور تجرباتی ثبوت مختلف ذرائع سے سائنسدانوں کو ملتے گئے۔ ان میں اہم ترین شواہد مشاہداتی ہیں جن کی رو سے، اگرچہ ہم مکمل کائنات کو یک بارگی نہیں دیکھ سکتے، لیکن مختلف دوربینوں، مشاہداتی آلات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ہم کائنات کے ایک بہت بڑے حصے کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور تقریباً تمام مشاہدات میں کئی ارب نوری سالوں تک ہمیں کائنات میں مادہ ہر جانب تقریباً تقریباً یکساں طور پر پھیلا ہوا یا بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں بہت زیادہ عظیم مقدار میں مادے کا کوئی "ڈھیلا" کسی ایک جگہ پر مرتکز نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جب ہم کائنات کے پھیلاؤ اور اس میں موجود قوتوں کا مطالعہ اور ان سے متعلق کیلکولیشن کرتے ہیں تو کائنات کے پھیلاؤ اور بڑے پیمانے پر ثقلی طرز عمل میں ایک یکسانیت کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کثیف سائنسی تصورات اور پیچیدہ ریاضی میں جائے بغیر صرف اتنا غور و فکر کرنا ہی کافی ہے کہ اگر کائنات میں پائے جانے والی قوتوں میں یکسانیت نہ ہوتی تو ہماری فزکس کے قوانین بھی کائنات میں ہر جگہ یکساں انداز میں قابل عمل نہ رہتے بلکہ یہ قوانین کائنات کے مختلف حصوں میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتے دکھائی دیتے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ بات ہمارے مشاہدات اور تحقیقات سے میل نہیں کھاتی۔
فرض کریں کہ اگر کائنات میں مادہ یکساں طور پر پھیلا نہ ہوتا اور مادے کی عظیم مقدار کسی ایک جگہ پر یا چند مخصوص مقامات پر جمع ہوتی تو پھر کیا ہو سکتا تھا؟...
سادہ ترین الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں ہماری کائنات ہمیں موجودہ حالت اور موجودہ ساخت میں دکھائی نہ دیتی۔
مثال کے طور پر، جس طرح نظام شمسی میں مادہ کی ایک بہت بڑی مقدار سورج کی شکل میں مرکز میں موجود ہونے کی وجہ سے نظام شمسی کے سیارے اور دیگر اجسام اس بڑے مادے یعنی سورج کے گرد مداروں میں حرکت کر رہے ہیں اور جس طرح کہکشاؤں کے مرکز میں بہت زیادہ مادے کے ارتکاز کی وجہ سے کہکشاں کے تمام ستارے اور اجسام کہکشاں کے مرکز کے گرد گردش کرتے ہیں، بالکل اسی طرح یا تو ہمیں کائنات میں بڑے پیمانے پر تمام کائنات یا کائنات کا ایک بہت بڑا حصہ کسی ایک ہی مخصوص سمت میں حرکت کرتا ہوا دکھائی دیتا یا پھر کائنات میں بہت بڑے اسکیل پر بڑے اجسام یعنی کہکشائیں وغیرہ مادے کے ارتکاز کے مقام کے گرد مداروں میں حرکت کرتی ہوئی نظر آتیں جبکہ اب تک کے ہمارے مشاہدات سے ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا۔
اسی طرح کائنات میں اگر کوئی سمت ہوتی یا کائنات کے تمام مقامات ایک جیسے نہ ہوتے تو ہمیں مختلف سمتوں میں کائنات کی لمبائی اور چوڑائی مختلف معلوم ہوتی لیکن ہم جانتے ہیں کہ کائنات ہمارے چاروں طرف ایک ہی جتنا رداس یا حجم رکھتی ہے چنانچہ کائنات میں تمام سمتیں اور مقامات ایک جیسے ہیں اور کائنات کا کوئی مرکز نہیں ہے۔
اب یہاں ایک چھوٹی سی بات پر واضح کرنا ضروری ہے کہ جب ہم کائنات میں مادے کے یکساں طور پر بکھرے ہونے کی بات کرتے ہیں تو ہم بہت بڑے پیمانے یا عظیم ترین وسعتوں یعنی تقریباً 46 ارب نوری سال کے رداس اور 92 ارب نوری سال کے قطر کے آس پاس کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر یہ تصور پورا نہیں ہوتا اور مادہ مختلف جگہوں پر اکٹھا نظر آ سکتا ہے جیسے نظام شمسی میں 99 فیصد مادہ ہمارے سورج میں جبکہ کہکشاؤں میں مادے کی عظیم مقدار کہکشاں کے مرکز میں موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح بلیک ہولز جیسے اجسام کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے لیکن یہ تمام مثالیں چنانچہ چھوٹے پیمانے پر مادے کی ارتکاز کو ظاہر کرتی ہیں اور ان کو عظیم پیمانے پر مادے کے پھیلاؤ سے گڈمڈ نہیں کیا جانا چاہئے۔
اب واپس چلتے ہیں نئی دریافت پر اور تازہ خبر پر جہاں سائنسدان حیران رہ گئے ہیں اور وہ حیران اس لئے رہ گئے ہیں کہ اس نئی دریافت کے مطابق مادے کی ایک بہت عظیم مقدار نسبتاً بڑے پیمانے پر ایک مخصوص مقام پر اکٹھی دکھائی دے رہی ہے جو کہ ہمارے پہلے سے موجود کونیاتی یا کاسمولوجیکل ماڈل کو چیلنج کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس خبر کے بعد وہی بازگشت دوبارہ سے سنائی دینے لگی کہ شاید بگ بینگ کی تھیوری غلط ہے اور کائنات کی پیدائش اور ساخت کے بارے میں سائنسی نظریات درست نہیں ہیں لیکن ذرا رکیئے اور تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیجیے کیونکہ یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ بگ بینگ ماڈل جدید فلکیات اور کونیات میں ایک سائنسی حقیقت کی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور اس کے حق میں کئی ٹھوس مشاہداتی اور تجرباتی ثبوت مل چکے ہیں۔ لہذا ٹھوس شواہد کی بنیاد پر قائم کی گئی ایک تھیوری کو مسترد کرنے کے لیے اس کی مخالفت میں اور بھی زیادہ ٹھوس مشاہداتی اور تجرباتی شواہد کی ضرورت ہوگی اور محض ایک مشاہدے کے ابتدائی نوعیت کے نتائج کی بنیاد پر، جن کے بارے میں ابھی تک سائنسی انداز میں پوری طرح غور و فکر بھی مکمل نہیں ہوا، بگ بینگ تھیوری یا کاسمولوجی ماڈل کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ، یہ ممکن ہے کہ اس دریافت سے ہمیں اپنی حیرت انگیز کائنات کے وضاحتی ماڈل کو زیادہ اچھے انداز میں سمجھنے اور اس کائنات سے متعلق پہلے سے موجود ہمارے فہم و ادراک کو بہتر بنانے میں مدد ضرور ملے گی۔

(تحریر : ڈاکٹر احمد نعیم)

*مریخی روبوٹس چھٹیوں پر ہیں*چھٹیاں کسے پسند نہیں ہوتیں؟... بچپن میں تو موسم گرما کی چھٹیاں سال کا سب سے پرکشش اور سنہرا ...
16/11/2023

*مریخی روبوٹس چھٹیوں پر ہیں*

چھٹیاں کسے پسند نہیں ہوتیں؟...
بچپن میں تو موسم گرما کی چھٹیاں سال کا سب سے پرکشش اور سنہرا وقت ہوا کرتا تھا...
لیکن چھٹیاں صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ روبوٹس اور مشینوں کو بھی ملتی ہیں...
جی ہاں، مریخ پر کئی سالوں سے تحقیقاتی کام میں مصروف روبوٹک گاڑیاں (Rovers)، یا سادہ الفاظ میں، مریخ پر موجود روبوٹس (Robots) بھی ہر دو سال بعد دو ہفتے کی چھٹیوں پر جاتے ہیں...
لیکن آخر یہ روبوٹس چھٹیاں کیوں مانگتے ہیں؟...
ارے جناب! ایسا نہیں ہے کہ یہ روبوٹس چھٹی کی کوئی درخواست لکھ کر ناسا کو بھجواتے ہیں اور پھر ناسا کسی کھڑوس "باس" کی طرح کافی ٹال مٹول کے بعد ان کی چھٹیاں منظور کرتا ہے اور پھر کہیں جا کر ان کو دو ہفتوں کا سکون نصیب ہوتا ہے...
بلکہ ماجرہ کچھ یوں ہے کہ اپنے اپنے مدار میں مریخ اور زمین کی گردش کی وجہ سے یہ چھٹیاں دراصل مجبوری بن جاتی ہیں...
مریخ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے ہر دو سال کے بعد ایسے مقام پر آ جاتا ہے کہ یہ زمین سے بالکل مخالف سمت میں سورج کی دوسری طرف چلا جاتا ہے...
اس صورت حال کو فلکیات کی زبان میں متعلقہ سیارے کا قِرآن شمس یا Solar Conjunction کہا جاتا ہے...
دوسرے الفاظ میں زمین اور مریخ کے درمیان سورج آ جاتا ہے اور اس وجہ سے مواصلاتی سگنلز کی ترسیل عارضی طور پر رکاوٹ کا شکار ہو جاتی ہے...
اگر اس صورتحال میں زمین سے مریخ پر سگنلز بھیجنے کی کوشش کی جائے تو سورج سے خارج ہونے والے ہائی انرجی ریڈی ایشن کے باعث زمین سے بھیجے جانے والے الیکٹرومگنیٹک سگنلز کے کمزور یا تباہ ہونے کا یا ان میں کئی قسم کے بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے اور اسی طرح مریخ سے سگنلز کے زمین تک آنے میں بھی تعطل اور خلل کا اندیشہ ہوتا ہے...
اربوں ڈالر کی لاگت سے کروڑوں میل دور بھیجے گئے روبوٹس بہت قیمتی ہوتے ہیں اور اس معاملے میں ادھورے پیغام یا بگڑے ہوئے سگنلز بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں...
مثال کے طور پر اگر زمین سے کسی روبوٹ کو یہ سگنل بھیجا جائے کہ پہلے 50 فٹ سامنے کی طرف چلو، پھر 90 ڈگری بائیں جانب مڑو اور اس کے بعد مزید 10 فٹ سامنے کی جانب چلو لیکن سگنل میں بگاڑ کی وجہ سے یہ ادھورا سگنل روبوٹ تک پہنچے کہ 90 ڈگری بائیں جانب مڑو اور 10 فٹ سامنے چلو، تو ہو سکتا ہے کہ اس نامناسب کمانڈ کے نتیجے میں بیچارہ روبوٹ کسی چٹان سے ٹکرا جائے یا کسی کھائی میں جا گرے اور پھر دوبارہ کبھی کام کرنے کے قابل ہی نہ رہے...
اس لئے دنیا میں موجود قیمتی اشیاء کے معاملے میں آدھے ادھورے پیغامات سے خاموشی ہی بہتر ہے...
چنانچہ ان دو ہفتوں کے دوران مریخ پر موجود تمام روبوٹس کو چھٹی دے دی جاتی ہے اور وہ چہل قدمی روک کر مریخ کے کسی خوبصورت سے صحرا میں اپنے آپ کو "پارک" کر لیتے ہیں اور وہاں ریت کے طوفانوں کے پرلطف نظاروں کے مزے لیتے ہیں...
جیسا کہ ہمیں پتا ہے کہ چھٹیاں بہت جلدی ختم ہو جاتی ہیں، لہذا دو ہفتوں کے بعد مریخ سورج کے عقب سے نکل کر اس زاویے تک آ جاتا ہے کہ زمینی کنٹرول سینٹرز کا اس سے دوبارہ مواصلاتی رابطہ ممکن ہو جاتا ہے...
اس سال یہ موقع 11 نومبر سے 25 نومبر تک ہوگا لیکن ان چھٹیوں کے دوران بھی ہمارے روبوٹس اپنا "ہوم ورک" کرتے رہیں گے اور ان کا ہوم ورک مریخ پر ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینا اور ریکارڈ رکھنا ہوگا...
جی ہاں، "ہوم ورک" کے بغیر کسی کو چھٹی نہیں ملتی اور مریخ پر بھی چھٹیوں میں ہوم ورک کرنا پڑتا ہے... چھٹیوں کے شوقین طلبہ یاد رکھیں...

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

*سوال: فلکیاتی اجسام کے فاصلے کیسے معلوم کئے جاتے ہیں؟* جواب: آج کی تاریخ میں فلکیاتی اجسام کے فاصلے ماپنے کے لئے کئی طر...
14/11/2023

*سوال: فلکیاتی اجسام کے فاصلے کیسے معلوم کئے جاتے ہیں؟*

جواب:
آج کی تاریخ میں فلکیاتی اجسام کے فاصلے ماپنے کے لئے کئی طریقے اور تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم طریقوں کو سادہ زبان میں مختصراً اس تحریر میں بیان کیا جا رہا ہے۔

Cosmis Distance Ladder:
فلکیاتی اجسام کے فاصلے ماپنے کی روایتی اور کثرت سے استعمال کی جانے والی تکنیکوں کو کونیاتی سیڑھی یا Cosmic Ladder کی وسیع المعنی اصطلاح میں سمویا جاتا ہے جس میں مندرجہ ذیل اجزا شامل ہوتے ہیں۔

1. RADAR Ranging
یہ طریقہ نسبتاً قریب کے اجسام کے فاصلے معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مثلاً چاند اور نظام شمسی کے سیارے وغیرہ۔ اس طریقہ میں ان اجسام کی طرف الیکٹرومیگنیٹک ویوز پھینکی جاتی ہیں جو ان سے ٹکرا کر واپس زمین کی طرف پلٹ آتی ہیں اور پھر ان کے دو طرفہ سفر کے دورانیئے کو روشنی کی رفتار پر تقسیم کر کے اجسام کا فاصلہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ صرف قریبی اجسام کے لیے قابل عمل ہے کیونکہ ان اجسام سے الیکٹرومیگنیٹک ویوز چند منٹ یا چند گھنٹوں میں واپس زمین تک پلٹ آتی ہیں جنہیں ہم نوٹ کر سکتے ہیں اور پھر فاصلہ کیلکیولیٹ کر سکتے ہیں لیکن بہت دور کے فلکیاتی اجسام، جو کئی نوری سالوں کے فاصلے پر موجود ہوں، ان کے لیے یہ طریقہ قابل عمل نہیں ہے۔

2. Parallax
کاسمک لیڈر میں نسبتاََ کم دوری والے اجسام کا فاصلہ معلوم کرنے کا سب سے اہم اور روایتی طریقہ Parallax کہلاتا ہے۔ اس میں دراصل ریاضی کی شاخ جیومیٹری کی ایک ذیلی شکل ٹرگنومیٹری کو استعمال کرتے ہوئے فلکیاتی اجسام کے فاصلے معلوم کئے جاتے ہیں۔ ستاروں کے مقام سے متعلقہ یا Stellar Parallax کا بنیادی تصور یہ ہے کہ زمین جب اپنے مدار میں گردش کے دوران دو انتہائی مقامات پر یعنی سورج کے دو بالکل مخالف اطراف پر موجود ہوتی ہے تو ہمیں آسمان میں ستارے اپنے مقام سے انتہائی معمولی سے ہٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے اپنی جگہ سے ہلنے کو بہت باریکی سے ان ستاروں کے پس منظر میں موجود دیگر ستاروں کی نسبت ان کے مقام کی تبدیلی کے مشاہدے کے ذریعے نوٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جتنے ڈگری کوئی ستارہ اپنی جگہ سے ہلا ہوا ہوتا ہے وہ مثلث کا ایک زاویہ حاصل ہو جاتا ہے جبکہ زمین کا سورج سے فاصلے کا نصف یعنی رداس مثلث کا ایک بازو ہوتا ہے اور اس طرح دوسرا زاویہ 90 ڈگری کا بناتے ہوئے ایک Rectangle مثلث حاصل ہوتی ہے جس پر ٹرگنومیٹری کے فارمولے کا استعمال کرتے ہوئے مثلث کا وہ بازو جس سے مراد اس ستارے کا فاصلہ ہوتا ہے وہ معلوم کر لیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مکمل حساب کتاب کی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں۔ یہ طریقہ نظام شمسی سے لے کر 2 ہزار سے 3 ہزار نوری سال تک کے فاصلوں کو معلوم کرنے کے لئے کام آ سکتا ہے اور اس سے زیادہ کے فاصلے والے اجسام کی پوزیشن میں اتنی تبدیلی نہیں ہوتی کہ ان کو ڈگری میں ماپا جا سکے اور اس لئے ٹرگنومیٹری ناکام ہو جاتی ہے چنانچہ اس سے زیادہ دور کے اجسام کے لئے مندرجہ ذیل طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
ملتے جلتے نام سے پکارا جانے والا ایک طریقہ Spectroscopic Parallax بھی ہے جس کا تصور یہ ہے کہ ستاروں کی ظاہری چمک اور حقیقی چمک کے فرق کا مشاہدہ کر کے حقیقی چمک کو پیمانہ بناتے ہوئے ستاروں کا فاصلہ معلوم کیا جاتا ہے۔

3. Standard Candle System
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس طریقہ میں یہ سائنسی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک شمع یا موم بتی یا کوئی بلب جلا کر اس کو پہلے قریب سے دیکھ کر اس کی چمک کو نوٹ کریں اور پھر اس سے کچھ دور جا کر اس کی چمک کو نوٹ کریں تو دونوں پوزیشن پر چمک کی تبدیلی یا چمک کے فرق کو ریاضی کے فارمولوں میں استعمال کرتے ہوئے ہم اس موم بتی سے فاصلے کو معلوم کر سکتے ہیں۔
بالکل اسی اصول پر اس نظام میں کچھ مخصوص ستارے ، جن کی روشنی ایک متواتر انداز میں کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے ، کو بطور معیار یا پیمانہ استعمال کرتے ہوئے دوسرے ستاروں کا فاصلہ معلوم کیا جاتا ہے۔ ایسے ستارے جن کی چمک ایک مخصوص وقفے سے کم یا زیادہ ہوتی ہے ان کو Cepheid Variable Stars کہا جاتا ہے اور ان کی چمک کے کم یا زیادہ ہونے پر تحقیق کر کے یہ پتا لگایا گیا ہے کہ جتنا کوئی ستارہ زیادہ فاصلے پر موجود ہوگا اس کی چمک کے کم یا زیادہ ہونے میں وقفہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا اور اس کے ظاہری چمک اور حقیقی چمک کے فرق کے ذریعے یہ حساب لگایا جاتا ہے کہ وہ ہم سے کتنے فاصلے پر موجود ہے۔ پھر جب ایک ایسے ستارے یا چند ایسے ستاروں کا فاصلہ معلوم کر لیا گیا تو اس ایک ستارے کی اوسط چمک کا دوسرے ستاروں کی اوسط چمک کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے دیگر ستاروں کے فاصلے معلوم کیئے جاتے ہیں۔ سائنسدانوں نے کئی سالوں کی دن رات کی انتھک محنت کے بعد ان ستاروں کی ان کے فاصلے کے لحاظ سے ایک لسٹ تیار کی ہوئی ہے جس کے ذریعے کسی بھی نئے معلوم شدہ ستارے کا فاصلہ معلوم کیا جا سکتا ہے یا پہلے سے معلوم شدہ ستاروں کے فاصلے کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔
فلکی اجسام کے فاصلے معلوم کرنے کا یہ بہت اہم طریقہ ہے لیکن ایک خاص فاصلے کے بعد یہ طریقہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہتا ۔

4. Supernovae 1a Standard Candle
جب فاصلے ایک حد سے زیادہ ہو جائیں تو پھر ستارے بھی اتنے مدھم پڑ جاتے ہیں کہ ان کی چمک کے کم یا زیادہ ہونے کا مشاہدہ نسبتاً مشکل ہو جاتا ہے اور یوں فاصلوں کا حساب لگانے کا پیمانہ بھی ناکام ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں کسی بہت زیادہ روشن سپر نووا کی چمک کو نوٹ کر کے اس کی چمک کا موازنہ انتہائی دور دراز کے اجسام کی چمک کے ساتھ کر کے ان کا فاصلہ معلوم کیا جاتا ہے۔

5. Hubble's Law involving Red Shift and Blue Shift
یہ نسبتاً زیادہ جدید طریقہ کار ہے اور اس کے ذریعے فلکیاتی اجسام کے فاصلوں کے حوالے سے بہت درستگی کے ساتھ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس طریقے میں کسی فلکی جسم سے آنے والی روشنی کی ویو لینتھ کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور روشنی کی اس قدرتی خاصیت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے کہ جو اجسام ہم سے دور جا رہے ہیں ان کی ویو لینتھ بڑی ہوتی جاتی ہے یعنی ان کی اسپیکٹرم Red Shift کی طرف چلی جاتی ہے اور جو ہمارے قریب آ رہے ہیں ان کی ویو لینتھ چھوٹی ہوتی جاتی ہے جس سے Blue Shift کی جانب اسپیکٹرم حاصل ہوتی ہے۔ ویو لینتھ کی اس تبدیلی کو ریاضی کے فارمولوں میں استعمال کرتے ہوئے ہم کسی فلکی جسم کی ہم سے دور جانے یا قریب آنے کی رفتار کو معلوم کر سکتے ہیں اور پھر اس رفتار کو ہبل کانسٹنٹ Hubble Constant کے ساتھ ایک مخصوص مساوات، جسے ہبل مساوات Hubble's Equation کہا جاتا ہے، میں استعمال کرتے ہوئے اس جسم کا زمین سے فاصلہ نہایت درستگی کے ساتھ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس پورے حساب کتاب کی تمام فارمولوں سمیت ویڈیوز یو ٹیوب پر دستیاب ہیں جن کو باآسانی سرچ کر کے مزید تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔

6. Parsec Calculations
یہ آسمان میں فلکیاتی اجسام کے ایک دوسرے سے فاصلے ناپنے کا ایک انداز ہے جس کے مطابق ایک پار سیک ایک ڈگری کا 1/3600 ہوتا ہے اور خلا میں ایک پار سیک تقریباََ 3.2 نوری سال جتنا فاصلہ ہوتا ہے یعنی کہ اگر کسی دو اجسام کے درمیان 1 پار سیک جتنا فاصلہ ہو تو ان کا درمیانی فاصلہ خلا میں 3.2 نوری سال جتنا ہوگا۔ اس فارمولے کے تحت کوئی سے دو فلکیافی اجسام کے بیچ زاویاتی فاصلہ معلوم کرتے ہوئے خلا میں ان کا درمیانی فاصلہ آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

اس تحریر میں مختصر طور پر نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں اس موضوع پر معلومات دینے کی سعی کی گئی ہے۔ چونکہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے، چنانچہ پڑھنے والے اپنی دلچسپی کی بنیاد پر یہاں بیان کی جانے والی اصطلاحات کو گوگل ، وکی پیڈیا اور یوٹیوب میں سرچ کر کے مزید تفصیلی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

*عظیم الشان کائناتی شیش ناگ*کسی پھن پھیلائے ہوئے شیش ناگ یا کوبرا سانپ کی مانند دکھائی دینے والی یہ کہکشاں ہماری زمین سے...
11/11/2023

*عظیم الشان کائناتی شیش ناگ*

کسی پھن پھیلائے ہوئے شیش ناگ یا کوبرا سانپ کی مانند دکھائی دینے والی یہ کہکشاں ہماری زمین سے 70 ملین نوری سال کے فاصلے پر موجود تقریباً 120000 نوری سالوں پر محیط ایک ہی کہکشاں ہے...

یہ واقعی ایک حیرت انگیز کہکشاں ہے کیونکہ عموماً ایسی بے ہنگم یا بے ترتیب دکھائی دینے والی کہکشائیں دو یا دو سے زیادہ کہکشاؤں کے ملاپ سے بنتی ہیں لیکن یہ ایک ایسی عجیب و غریب مثال ہے جہاں ایک ہی کہکشاں اس قسم کی بے ہنگم سی شکل اختیار کر گئی ہے...

یہ دراصل ہماری کہکشاں ملکی وے کی طرح کی ایک سپائرل یا بھنور دار کہکشاں ہے لیکن اس کا ایک بازو اپنے ہی اوپر لپٹا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ پھن پھیلائے ہوئے کوبرا سانپ سے ملتی جلتی دکھائی دے رہی ہے...

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کہکشاں کے ایسی حالت میں دکھائی دینے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ ماضی قریب میں یہ کہکشاں کسی دوسری کہکشاں کے قریب سے گزری اور دونوں کہکشاؤں کے آپس میں تعامل کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ کر ایسی ہو گئی...
لیکن تحقیق کے مطابق اس قسم کے کسی ٹکراؤ یا انضمام کا کوئی قابل ذکر سراغ نہیں مل سکا...
چنانچہ دوسری اور زیادہ درست وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ کہکشاں کائنات میں کسی ایسے علاقے سے گزر رہی ہے جہاں خلا میں نسبتاً گاڑھا بین الکہکشانی مادہ موجود ہے اور اس مادے کے ساتھ تعامل کی وجہ سے اس کہکشاں کی یہ حالت ہو گئی ہے...

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی چلتی ہوئی گاڑی یا ٹرین میں سے پانی باہر پھینکتے ہیں تو وہ گاڑی یا ٹرین سے باہر چلنے والی ہوا کے دباؤ اور رگڑ کی وجہ سے بکھر کر بے ہنگم سی حالت اختیار کر جاتا ہے...

یہ بھی ایک دلچسپ تخیلاتی سوال ہے کہ اگر اس کہکشاں میں زمین جیسا کوئی سیارہ موجود ہوا اور وہاں انسان جیسی کوئی مخلوق آباد ہوئی تو اس وقت ان پر کیا گزر رہی ہوگی؟...

یہ کہکشاں ایک بار پھر یہ جتلاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہماری کائنات ایک حیرت کدہ ہے اور ہم جتنا اس پر غور و فکر کرتے ہیں، یہ ہمیں اتنا ہی زیادہ حیران کرتی جاتی ہے...

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

*پانچ گھنٹے بمقابلہ سولہ سال*کیا آپ جانتے ہیں کہ اب تک کی زیادہ سے زیادہ کہکشائیں دکھانے والی تصویر کون سی ہے؟... کیا آپ...
09/11/2023

*پانچ گھنٹے بمقابلہ سولہ سال*

کیا آپ جانتے ہیں کہ اب تک کی زیادہ سے زیادہ کہکشائیں دکھانے والی تصویر کون سی ہے؟...

کیا آپ جانتے ہیں کہ اب تک بنائی گئی کسی ایک تصویر میں ظاہر ہونے والی زیادہ سے زیادہ کہکشاؤں کی تعداد کتنی ہے؟...

مئی 2019 میں دیکھنے والی ہر آنکھ اور سوچنے والے ہر ذہن کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی ایک شاندار تصویر دنیا کے سامنے پیش کی گئی تھی...

اس تصویر کو "میراثِ ہبل" کا نام دیا گیا تھا کیونکہ اس میں ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی 16 سال کی محنت شامل تھی...

یہ ہبل ٹیلسکوپ کے ذریعے 16 سال کے عرصے میں بنائی گئی ساڑھے سات ہزار تصاویر کو جوڑ کر حاصل کی گئی ایک ایسی دلفریب تصویر تھی جس میں تقریباً دو لاکھ 65 ہزار کے قریب کہکشائیں ظاہر ہو رہی تھیں...

اور یہ آج تک کی تاریخ میں کسی بھی ایک تصویر میں زیادہ سے زیادہ کہکشاؤں کی تعداد ہے...

یہ تو ہبل کی 16 سال کی محنت کی بات ہو گئی، اب 2023 میں بنائی گئی ایک تصویر کی جانب بھی نظر ڈالتے ہیں...

جولائی 2023 میں خلا میں بھیجی جانے والی نئی ٹیلیسکوپ یوکلیڈ (اقلیدس) نے اپنی اولین تصاویر دنیا کے سامنے پیش کر دی ہیں...

یہ تصاویر سائنسی اور ٹیکنالوجیکل جدت اور تحقیقی ترقی کا حیرت انگیز نمونہ ہیں...

دیگر تصاویر کے ساتھ یوکلیڈ نے کہکشاؤں کے ایک جھنڈ کی تصویر بھی بنائی ہے جس کا نام پرسیئس گلیکسی کلسٹر Perseus Galaxy Cluster ہے...

اس تصویر میں میں ایک ہزار سے زائد واضح کہکشاؤں کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک لاکھ کے قریب دوسری نسبتاً مدھم کہکشائیں بھی موجود ہیں...

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک لاکھ کہکشاؤں کو تصویر میں قید کرنے میں یوکلیڈ کو صرف پانچ گھنٹے کا وقت لگا ہے...

گوہا اسکور کچھ یوں بنتا ہے کہ 16 سال میں پونے تین لاکھ کہکشائیں اور صرف 5 گھنٹے میں 1 لاکھ کہکشائیں اور ابھی تو یہ یوکلیڈ کی اننگز کا محض آغاز ہے...

اس موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ یوکلیڈ دراصل ہبل کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقتور اور جدید ٹیلیسکوپ ہے اور یہ ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ یوکلیڈ کو جس مقصد کے تحت خلا میں بھیجا گیا ہے وہ اب تک کی سائنسی تاریخ کا مشکل ترین اور سب سے پراسرار مشن کہا جا سکتا ہے...

یوکلیڈ کا مشن ایسے ہی ہے جیسے کسی کو ایک اندھیرے گھر کے اندھیرے کمرے میں موجود کالے رنگ کے ریت کے ذرات کو تلاش کرنے کو کہا جائے کیونکہ یوکلیڈ کو ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے خلا میں بھیجا گیا ہے...

یوکلیڈ کی صلاحیتوں کا یہ اولین نمونہ بہت زیادہ حوصلہ افزا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب وہ دن دور نہیں جب حضرتِ انسان ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی جیسے کائنات کے دو پراسرار ترین رازوں کا معمہ حل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائے گا...

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

*گرہن لگے چاند کو مشتری کا دلاسہ*29 اکتوبر 2023 کی رات زمین، چاند اور سورج کے درمیان آگئی اور یوں زمین کے تاریک سائے نے ...
31/10/2023

*گرہن لگے چاند کو مشتری کا دلاسہ*

29 اکتوبر 2023 کی رات زمین، چاند اور سورج کے درمیان آگئی اور یوں زمین کے تاریک سائے نے ہمارے پیارے چاند کے دل کش اور تابناک چہرے کو کئی گھنٹوں تک کے لئے داغدار کر دیا...

اس موقع پر نظام شمسی کا بادشاہ سیارہ مشتری چاند کو دلاسہ دینے کے لئے ساری رات آسمان میں چاند کے ہمراہ ہی چلتا رہا...

اس نایاب آسمانی ملاقات کے دوران ٹھنڈی ہواؤں، ہلکی نمی اور بادلوں نے چاند کے گرد رنگ برنگے دائرے بکھیر دیئے اور یوں ماحول کچھ اور بھی رومانوی سا ہو گیا...

زیر نظر تصویر اس منظر کی ایک نمائندہ تصویر ہے جو پاکستان کے شہر ملتان کے قریب بنائی گئی دو حقیقی تصاویر کا مجموعہ ہے جن میں سے ایک ٹیلی سکوپ کے ذریعے بنائی گئی زیادہ میگنی فیکیشن والی تصویر ہے جب کہ دوسری موبائل کے ذریعے بنائی گئی چاند اور مشتری کی ملاقات کی منظر کشی کرتی کھلے آسمان کی Wide Angle تصویر ہے...

دونوں تصاویر کے ملاپ سے ایک تصویر بنا کر فلکیات کے شائقین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے، امید ہے کہ پسند آئے گی...

(تصویر کشی اور پراسیسنگ: ڈاکٹر احمد نعیم)

تصویر کی تکنیکی تفصیلات درج ذیل ہیں :
Details:
Telescope: Celestron NexStar 127 SLT telescope
Eyepiece: Celestron 25mm Eyepiece
Camera: Redmi Note 10 Pro Smartphone camera, both for magnified and for wide angle image
Location: Muzaffargarh city, Punjab, Pakistan
Exif: Single exposure at SS: 1/100, ISO: 50, Focus: Manual for magnified image and ISO:1600, SS:1/10 for wide angle shot
Processing: Blended in Snapseed app using double exposure option and then post processed in Lightroom mobile

(Captured & Processed by Dr. Ahmad Naeem)

© Dr. Ahmad Naeem

Address

Multan

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Astro by Ahmad Naeem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category