
29/08/2025
The customs of cousin marriage and its disadvantages
خاندانی شادیوں (Cousin Marriage) اور معذور بچوں کی پیدائش
سائنسی و اسلامی نقطۂ نظر
🔬 سائنسی نقطۂ نظر
کزن میرج دنیا کے کئی حصوں میں عام ہے خصوصاً پاکستان، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں۔ سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ:
1. جینیاتی مسئلہ (Genetic Disorders):
انسان کے ہر خلیے میں 46 کروموسوم اور ہزاروں جینز ہوتے ہیں۔
قریبی رشتہ داروں میں شادی کے نتیجے میں میاں بیوی کے جینز بہت ملتے جلتے ہوتے ہیں۔
اگر خاندان میں کوئی جینیاتی بیماری (Genetic Disorder) پہلے سے موجود ہو تو بچے میں یہ بیماری ظاہر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
مثال: تھیلیسیمیا، ہیمافیلیا، دماغی پسماندگی، پیدائشی نقائص، سماعت یا بصارت کی کمزوری وغیرہ۔
2. ریسسیو جین (Recessive Genes):
کئی بیماریوں کے جینز چھپے (Recessive) ہوتے ہیں اور عام حالات میں ظاہر نہیں ہوتے۔
لیکن جب میاں بیوی قریبی رشتہ دار ہوں تو دونوں میں ایک ہی بیماری کا چھپا ہوا جین پایا جا سکتا ہے۔
نتیجہ: بچے میں وہ بیماری واضح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔
3. بین الاقوامی ریسرچ:
مختلف میڈیکل جرنلز کے مطابق کزن میرج سے معذور بچوں کی پیدائش کے امکانات 2 سے 3 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں تقریباً 60% شادیاں کزنز میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا تناسب بھی زیادہ ہے۔
🕌 اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے کزن میرج کو منع نہیں کیا بلکہ اسے جائز قرار دیا ہے۔
قرآن و حدیث میں قریبی رشتہ داروں میں شادی کی ممانعت صرف ماہرامہ محرم رشتوں (مثلاً ماں، بہن، بیٹی وغیرہ) تک محدود ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں بھی قریبی رشتہ داروں سے کیں، جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شادی۔
مگر!
اسلام نے ساتھ ہی ساتھ عقل و تدبر کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے:
قرآن کہتا ہے:
"وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ"
(اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) [البقرۃ 2:195]
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی عمل انسانی صحت اور نسل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو تو احتیاط اختیار کرنا دینی ذمہ داری ہے۔
علما کی رائے:
کزن میرج فی نفسہٖ حرام یا مکروہ نہیں ہے۔
لیکن اگر طبی ماہرین یہ ثابت کریں کہ خاندان میں جینیاتی بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے آئندہ نسل متاثر ہو سکتی ہے، تو ایسی شادی سے پرہیز کرنا عقلمندی اور شریعت کے مطابق احتیاط ہے۔
✅ حل اور سفارشات
1. پری میرج اسکریننگ (Genetic Screening):
شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ اور جینیاتی اسکریننگ کروانا چاہیے، خاص طور پر اگر خاندان میں کسی جینیاتی بیماری کی ہسٹری موجود ہو۔
2. تھیلیسیمیا ٹیسٹ:
پاکستان میں تھیلیسیمیا بڑی حد تک کزن میرج کی وجہ سے پھیل رہا ہے، اس لیے شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ لازمی ہونا چاہیے۔
3. آگاہی اور تعلیم:
عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ضروری ہے کہ اسلام اجازت دیتا ہے مگر نقصان کے خدشات کی صورت میں احتیاط لازم ہے۔
🌿 نتیجہ
سائنسی طور پر: کزن میرج سے معذور بچوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اسلامی طور پر: یہ شادی جائز ہے مگر نقصان کے امکانات کی صورت میں احتیاط واجب ہے۔
اس لیے سب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے میڈیکل چیک اپ اور جینیاتی ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ آئندہ نسل صحت مند ہو۔
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
"تَغَرَّبُوا لَا تَضْوُوا"
(یعنی دوسری قوموں یا قبیلوں میں شادیاں کرو تاکہ تمہاری نسل کمزور نہ ہو۔)
📚 بعض کتبِ آثار اور حکمت کی روایات میں یہ جملہ منقول ہے، اگرچہ یہ حدیثِ نبویؐ کے طور پر نہیں بلکہ حضرت عمرؓ یا بعض صحابہ کے اقوال میں آتا ہے۔
مفہوم:
اس قول کا مقصد یہی ہے کہ صرف ایک ہی خاندان یا قریبی رشتہ داروں میں بار بار شادیاں نہ کی جائیں۔
کیونکہ ایسا کرنے سے جسمانی کمزوری اور جینیاتی بیماریاں نسل میں منتقل ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں شادی کرنے سے مزاج، صحت اور جینیاتی تنوع (Genetic Diversity) بڑھتا ہے، جو نسل کی بہتری کا باعث بنتا ہے۔
تحریر
ڈاکٹر ایس ایم پرویزالرحمان