
07/06/2025
عنوان: *سب سے بہادر جواد خان کی کہان
***
پشاور کی مصروف گلیوں میں، جہاں صبح سویرے دکان دار اپنی دکانیں سجانے میں مصروف ہوتے ہیں اور اسکولوں کی گھنٹیاں امیدوں کی صدا بن کر بجتی ہیں، وہاں ایک ہونہار 14 سالہ لڑکا رہتا تھا جس کا نام **جواد خان** تھا۔ وہ **نور داد خان** کا بڑا بیٹا تھا، جو ایک معمولی مگر محنتی آدمی تھا اور فرش پالش کرنے کی دکان چلاتا تھا۔ جواد اپنے خاندان کا فخر تھا—محنتی، خوش اخلاق، اور زندگی سے بھرپور۔
**1 جون 2025** کی صبح، جب شہر جاگنے لگا، جواد اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کے ساتھ اسکول کے لیے روانہ ہوا۔ وہ تینوں راستے میں باتیں کرتے، ہنستے کھیلتے جا رہے تھے کہ اچانک جواد کو کچھ یاد آیا—اس کے پاس ابھی تک اپنے والد کی دکان کی چابیاں تھیں۔
وہ رکا۔
"تم دونوں پہلے چلے جاؤ،" اُس نے نرمی سے اپنے بہن بھائیوں سے کہا، "میں چابیاں بابا کو دے کر آتا ہوں۔"
وہ واپس گھر کی طرف دوڑا تاکہ چابیاں والد کو دے سکے، جنہوں نے مسکرا کر چابیاں لیں—اس بات سے بے خبر کہ یہ اُن کے بیٹے سے آخری ملاقات ہوگی۔
اسکول واپسی پر، جب جواد نہر کے ساتھ ایک تنگ سڑک پر چل رہا تھا، تقدیر نے مداخلت کی۔ ایک پک اپ ٹرک بے قابو ہو کر سڑک سے ہٹ گیا اور نہر کے کنارے جواد سے جا ٹکرایا۔ وہ زور سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ اُس کے سر پر شدید چوٹ آئی۔
راہگیر فوراً مدد کو آئے۔ کسی نے ایمبولینس بلائی، اور کچھ محلے داروں نے جواد کو پہچان کر اُس کے گھر اطلاع دی۔ نور داد خان، جواد کے والد، سب کچھ چھوڑ کر ہسپتال کی طرف دوڑے—لرزتے ہاتھوں اور دل میں شدید خوف کے ساتھ۔
ہسپتال میں، فوری معائنے اور اسکین کے بعد ڈاکٹروں نے ایک دل دہلا دینے والی خبر دی: **جواد کو شدید دماغی چوٹ لگی تھی اور اسے برین ڈیڈ قرار دیا گیا۔**
نور داد، جو غم سے نڈھال تھے، کو ڈاکٹروں کی ٹیم نے نرمی سے سمجھایا کہ برین ڈیتھ کیا ہوتی ہے، اور یہ بھی بتایا کہ **جواد کے اعضا عطیہ کر کے** کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
نور داد خان نے، دل پر پتھر رکھ کر، اپنے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد سے مشورہ کیا۔ جواد کی ماں صدمے میں ڈوبی ہوئی تھیں اور کچھ کہنے کے قابل نہ تھیں۔ مگر باقی گھر والوں نے اس فیصلے کی عظمت کو سمجھا۔
**5 جون** کو، نور داد خان نے والد ہونے کے ناتے سب سے بڑا اور بے لوث فیصلہ کیا: انہوں نے اپنے بیٹے کے اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دے دی، اور کہا:
*"اگر میرا بیٹا زندہ نہیں رہ سکتا، تو وہ دوسروں کے ذریعے زندہ رہے۔"*
پی کے ایم ٹی آر اے (**PKMTRA**) اور پنجاب ہوٹا (**Punjab HOTA**) کے تعاون سے تمام رسمی کارروائیاں مکمل ہوئیں۔ **6 جون** کی صبح، مختلف شہروں سے ٹرانسپلانٹ ٹیمیں روانہ ہوئیں:
* **لاہور کے پی کے ایل آئی (PKLI)** سے جگر کی پیوند کاری کی ٹیم
* **راولپنڈی کے سفاری ہسپتال** اور **پشاور کڈنی سینٹر** سے گردوں کی ٹیمیں
* **پشاور آئی ہسپتال** سے قرنیہ کی پیوند کاری کی ٹیم
جواد کے اعضا کامیابی سے نکال لیے گئے۔ وہ کئی جانوں کا خاموش نجات دہندہ بن گیا۔
جواد 9ویں جماعت کا طالب علم تھا—تیز ذہن، با اصول، اور خوابوں سے بھرپور۔ 8ویں جماعت میں اس نے فخر سے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اُس نے ایک بار اپنے والد سے کہا تھا:
*“اگلی بار میں پہلی پوزیشن لوں گا، بابا۔”*
اور حقیقت میں، اُس نے ایسا کر دکھایا۔
صرف اپنی جماعت میں نہیں،
بلکہ انسانیت میں۔
وہ **پہلا** آیا—حوصلے میں، قربانی میں، اور محبت میں۔
جس دن اُس کے اعضا نے نئی زندگیاں دیں،
**جواد خان کو اُس کی قربانی سے یاد کیا گیا، اُس کی موت سے نہیں۔**
اور یوں، اپنے والدین کے دل میں، اپنے اسکول کے ساتھیوں کے دل میں، اور اُن لوگوں میں جن کے جسم میں اب اُس کا ایک حصہ زندہ ہے،
**جواد زندہ ہے**—
ایک 14 سالہ لڑکا جو ہمدردی اور امید کی علامت بن گیا۔
---