26/10/2025
تھانہ کے نام اعزاز
تھانہ کے درخشندہ ستارے
قسط نمبر 49
ڈاکٹر حکیم زادہ
سی ای او مبارک لیب & ریسرچ سنڑ پشاور
غربت سے عظمت تک کا سفر، خدمت، علم اور قیادت کی زندہ مثال
ڈاکٹر حکیم زادہ، بازید خیل تھانہ کے وہ فرزند ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی انفرادی جدوجہد سے کامیابی حاصل کی، بلکہ اپنی صلاحیتوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی زندگی ایک ایسی روشن کہانی ہے جو نوجوان نسل کے لیے امید، قربانی اور حوصلے کا پیغام ہے۔
خاندانی پس منظر اور ابتدائی جدوجہد
ڈاکٹر حکیم زادہ 5 جنوری 1989 کو بازید خیل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم، امیرزادہ صاحب، ایک سبزی فروش تھے۔ معاشی حالات انتہائی سخت تھے، مگر تعلیم سے محبت اور والدین کی دعاؤں نے ان کے حوصلے کو کبھی کمزور نہ ہونے دیا۔ وہ خود بھی بچپن میں سبزی بیچ کر اپنے والد محترم کا ساتھ دیتے۔
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول بوگرچم تھانہ سے حاصل کی، اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 تھانہ میں داخل ہوئے۔ بعد ازاں “مشن پبلک سکول تھانہ” میں ساتویں جماعت سے دہم تک اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کی۔ ایف ایس سی پری میڈیکل گورنمنٹ ڈگری کالج تھانہ سے مکمل کرنے کے بعد اباسین یونیورسٹی پشاور سے بی ایس اور ایم فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔
گریجویشن کے بعد انہوں نے پژواک پوہنتون (افغانستان) کی پشاور برانچ سے ایم ڈی (ڈاکٹر آف میڈیسن) مکمل کیا، اور پھر 2020 میں کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی مائیکروبایولوجی میں داخلہ لیا۔
پیشہ ورانہ سفر●
کاروبار شروع کرنے سے قبل ڈاکٹر صاحب نے مختلف بڑے ہسپتالوں میں کام کیا، جہاں ان کی خدمات کو بہت سراہا گیا۔ ان کا رویہ، پیشہ ورانہ مہارت، اور مریضوں سے ہمدردی نے انہیں ہر جگہ ممتاز مقام دلایا۔ انہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان بابا فاؤنڈیشن نے انہیں “سلام پاکستان ایوارڈ” سے نوازا۔
کاروباری دنیا میں بھی ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ مبارک ڈائیگناسٹک لیبارٹری اینڈ ریسرچ سنٹر اور مبارک لائف سیونگ آئی سی یو جیسے جدید طبی ادارے ان کی قیادت میں چل رہے ہیں، جو نہ صرف معیاری خدمات فراہم کر رہے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی شاندار انٹرپرینیور شپ کے اعتراف میں انجمن تاجران پاکستان کی جانب سے خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
رول ماڈل اور علمی خدمات●
ڈاکٹر حکیم زادہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں مختلف یونیورسٹیاں بطور رول ماڈل اپنے طلباء کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ کئی تعلیمی اداروں میں انہیں مدعو کیا گیا تاکہ وہ اپنی زندگی کی جدوجہد، کامیابیاں اور تجربات نئی نسل کے ساتھ بانٹ سکیں۔ ان کی شخصیت نوجوانوں میں امید، خود اعتمادی اور خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
سماجی خدمات اور انسان دوستی●
ڈاکٹر صاحب کی زندگی صرف پیشہ ورانہ کامیابیوں تک محدود نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ غریب، مجبور اور ضرورت مندوں کے لیے اپنے دل، کلینک اور جیب کے دروازے کھلے رکھے۔ ان کی انسان دوستی اس حد تک ہے کہ جب بھی کسی ضرورت مند کو ان کی طرف بھیجا گیا، انہوں نے بغیر کسی سوال یا تکلف کے ہر ممکن مدد فراہم کی – خواہ وہ مالی ہو یا جانی۔
یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ڈاکٹر حکیم زادہ اپنے گاؤں کے لوگوں کے لیے کسی فرشتے سے کم نہیں۔ ان کے وجود سے بازید خیل جیسے پسماندہ علاقے میں ایک امید کی روشنی قائم ہے۔
ذاتی مشاہدہ●
میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی کسی مجبور یا بیمار کو ان کے پاس بھیجا، ڈاکٹر صاحب نے اسے اپنوں کی طرح سنا، سہارا دیا، اور مکمل مدد فراہم کی۔ ان کی سادگی، عاجزی، اور خلوص انہیں واقعی ایک الگ مقام عطا کرتا ہے۔
اختتامیہ●
غربت میں پلنےوالا بچہ، آج اعلیٰ تعلیم یافتہ، باوقار ڈاکٹر، کامیاب کاروباری شخصیت، اور ایک سچا سماجی رہنما بن چکا ہے۔ ان کی کامیابی صرف ان کی محنت کا نہیں، بلکہ ان کے والدین کی دعاؤں، خلوص اور قربانیوں کا بھی نتیجہ ہے۔ آج ڈاکٹر حکیم زادہ صرف ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہیں – جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، حوصلہ بلند ہو، اور دل میں انسانیت ہو، تو کامیابی خود قدم چومتی ہے۔ غربت یاکسی بھی قسم کی مشکلات انسان کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تحریر فہیم نواز
fans