Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ

  • Home
  • Pakistan
  • Swabi
  • Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ

Dr.Ismail pediatrician  ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ PEDIATRICIAN ON CALL

کلینک میں معاینہ کے لیےصرف بروز اتوارصبح7تا سہ پہر 3 بجے تک تشریف لے آئے ۔۔
کلینک پتہ :الجنت ھاسپٹل اینڈ انفرٹلٹی سنٹر میں جھانگیرہ روڈ نزد کالا پل صوابی kpk
: أنلاین اپوائنٹمنٹ کے لیے, کال📞 03469797632 یا واٹپ مسج کریں.

منگول بچے، ڈاؤن سنڈروم، سائیں۔اگر آپ لڑکی ہیں۔ آپ کی عمر 35 سال ہو چکی ہے۔ آپ کی ابھی شادی نہیں ہو سکی۔ یا ابھی آپ کسی و...
18/06/2025

منگول بچے، ڈاؤن سنڈروم، سائیں۔

اگر آپ لڑکی ہیں۔ آپ کی عمر 35 سال ہو چکی ہے۔ آپ کی ابھی شادی نہیں ہو سکی۔ یا ابھی آپ کسی وجہ سے ماں نہیں بن سکیں۔ تو یہ تحریر آپ کے لیے بڑی کارآمد ہے۔

کیا آپ جانتی ہیں؟ کہ 35 سال کی عمر اور جدید ریسرچز میں 33 سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی ماں بنتی ہے۔ تو ہیں کہ اسکا بچہ ڈاؤن سنڈروم پیدا ہوگا۔ کتنے چانسز ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔

ماں کی عمر 20-24 سال 1/5000
ماں کی عمر 25-32 سال 1/1200
ماں کی عمر 33-35 سال 1/350
ماں کی عمر 40-36 سال 1/100
ماں کی عمر 45-41 سال 1/30

دنیا بھر میں 90 فیصد موجود ڈاؤن سنڈروم کی پیدائش کے وقت انکی ماں کی عمر 33 سال سے اوپر تھی۔ اس سے معاملہ کی سنگینی کا خود اندازہ لگا لیں۔ میری اب تک کی دس سالہ ذاتی فیلڈ ریسرچ میں 100 فیصد ڈاؤن سنڈروم بچوں کی مائیں 35 سے اوپر کی تھیں جب انہوں نے یہ بچہ پیدا کیا۔

زیر نظر تصویر میں موجود بچے کی شکل کا بچہ سو فیصد آپکی فزیکل آنکھ نے اپنے گلی محلے گاؤں میں دیکھا ہوگا۔ کیوں نہ دیکھا ہو؟ ان کی ریشو پیدا ہونے والے ہر 700 میں سے 1 بچہ ہے۔ پاکستان کی کل آبادی 21 کروڑ مان لیں۔ تو اس حساب سے تقریباً 30 ہزار ڈاؤن سنڈروم پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کی شکل منگولوں سے ملتی ہے اس لیے انکو منگول بچے بھی کہا جاتا ہے۔

میں انہیں گولو مولو کہتا ہوں۔ بڑا پیار مجھے ان بچوں سے۔ سکول کے بچوں کے علاوہ بھی کوئی بچہ کہیں راستے میں یا دوران سفر مل جائے۔ میری کوشش ہوتی اسکی ایک پپی لے لوں یا اسکی گال پر پیار سے چٹکی کاٹ لوں اسے ممکن ہو تو اٹھا کر گلے لگا لوں۔ اور والدین کو اگر نہیں معلوم تو اسکی تعلیم کے بارے بتاؤں۔

ڈاؤن سنڈروم ہے کیا؟

جیسے ہی انسانی ماں کے رحم میں یا IVF کے ذریعے نطفے اور بیضے کا ملاپ ہوتا ہے۔ تو یک خلوی جاندار وجود میں آتا ہے۔ والد کی طرف سے ایک سپرم جو بیضے سے ملاپ کرتا ہے میں ننھی منھی سی 23 چیزیں یا معلومات کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہی 23 معلومات کے کوڈ ماں کی اووری سے نکلے بیضے میں بھی ہوتی ہیں۔ ان 23 ننھی منھی چیزوں کو کروموسوم کہتے ہیں۔ نطفے و بیضے کے ملاپ سے دونوں طرف سے آنے والے کروموسوم ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر 23 جوڑے بناتے ہیں۔ زائیگوٹ میں 46 کروموسوم ہونا نارمل ہے۔ مگر ڈاؤن سنڈروم میں کروموسوم نمبر 21 جب اپنے مخالف سمت سے آنے والے دوست نمبر 21 سے ملتا ہے۔ تو جنیٹک میوٹیشن (تنوع) کی وجہ سے یہ دو کی بجائے 3 کروموسوم بن جاتے ہیں۔ اسے ٹرائی سومی یا T21 بھی کہتے ہیں۔

اب زندگی کے ابتدائی واحد سیل یا خلیے میں 46 کی بجائے 47 کروموسوم ہو گئے۔ یہ سیل سٹیم سیل یا بنیادی خلیہ ہوتا ہے۔ جو آگے تقسیم در تقسیم ہو کر دیگر سیل بناتا ہے۔ ہر بننے والے سیل میں یہ کروموسوم 47 ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ کچھ مختلف جسمانی شکل و ساخت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ جو آپ پوسٹ کے ساتھ لگی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

ان بچوں کی پہچان کیا ہے؟

ناک چپٹی جسے پنجابی میں پھینی ناک کہتے ہیں۔

کان چھوٹے مگر کھڑے ہوئے۔

آنکھیں ابھری ہوئی اور باریک سی مگر بیرونی کناروں سے اوپر کو اٹھتی ہوئیں۔

گردن چھوٹی اور کافی موٹی۔

سر عموماً عام بچوں سے بڑا۔

مسکراتا ہوا چہرہ۔

عموماً یہ بچے نارمل سے قد میں چھوٹے اور موٹے ہوتے ہیں۔

ذہنی صلاحیت کتنی ہوتی ہے؟ دیگر مسائل کیا ہیں؟

دانشورانہ صلاحیت یا پسماندگی کی بات کریں تو انکا آئی کیو اکثریت میں 50-70 اور کچھ بچوں کا 35-50 تک ہو سکتا ہے۔ جو ایورج یعنی کم سے کم 70 اور زیادہ ہو تو عموماً 120 سے کم ہے۔ ان بچوں کو غور و خوض/فکر، منطق، ادراک میں کمی کے مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بولنے کے مسائل، دل کی دھڑکن کا تیز یا کم ہونا، دل میں سوراخ ہونا، والوز کا تنگ ہونا وغیرہ ان کے مشترکہ مسائل ہیں۔

یوں سمجھیے کہ ڈاؤن سنڈروم میں سے 50 فیصد کو دل کے مسائل ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے صرف 10 سے 15 فیصد کو کارڈیالوجسٹ یعنی دل کے ڈاکٹر سے علاج کی مد میں مدد درکار ہوتی ہے۔

اسکے علاوہ ان کو بے خوابی یعنی نیند کا بہت کم ہونا، الزائیمر، ڈیمینشیا، تھائی رائیڈ اور اسکن پر جلدی بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان کے دانت بھی بہت چھوٹے سے رہ جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کو سخت چیزیں چبانے میں مسئلہ پیش آتا ہے۔

تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

حمل کے پندرہویں سے بیسویں ہفتے کے کسی ماہر ریڈیالوجسٹ سے کروائے گئے الٹرا ساؤنڈ سکین میں ڈاؤن سنڈروم کی شناخت ہو جاتی ہے۔ اگر اس سے پہلے شناخت کرنا چاہیں تو حمل کے 11 ہفتے سے 14 ہفتے میں ہی Chorionic villus sampling (CVS) ٹیسٹ سے ڈاؤن سنڈروم کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک الٹرا سونک سوئی ماں کے پیٹ میں داخل کی جاتی ہے۔ اور خوراک و آکسیجن کی نالی پلاسینٹا سے بلڈ سیلز کا سامپل لیا جاتا ہے۔ اس کا کوئی درد نہیں ہوتا عموماً 20 منٹ کا کام ہے۔ اس سے حمل کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

اگر وقت زیادہ گزر چکا ہو تو حمل کے 15 سے 18 ہفتے میں ایک اور ٹیسٹ Amniocentesis کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی الٹرا ساؤنک سوئی رحم میں جاتی ہے۔ بچے کے گرد جھلی میں موجود پانی جسے لائیکر یا امنیاٹک فلیوڈ کہتے سے پانی کا ایک قطرہ نکالا جاتا ہے۔ اس میں بھی 20 منٹ لگتے کوئی درد نہیں ہوتا۔ حمل کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔ بس یہ ٹیسٹ کسی قابل گائناکالوجسٹ سے کروائیں۔

ڈاؤن سنڈروم کی کنفرم تشخیص ہوجانے پر آپ اپنے مذہب عقائد فرقے کی تعلیمات کے مطابق اس حمل کو ختم بھی سکتے ہیں۔ یا جاری رکھ کر ڈاؤن سنڈروم بچے کو پیدا کر سکتے ہیں۔ بحثیت مسلمان میرے علم و مطالعہ کے مطابق گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونکے جانے سے قبل ڈاکٹروں کے مشورے اور علماء سے رائے لیکر حمل ختم کرنے کی کچھ گنجائش موجود ہے۔ قرآنی و احادیث کی تعلیمات میں روح پھونکے جانے کی عمر حمل ٹھہر جانے کے بعد 4 ماہ یعنی 16 ہفتوں کا دورانیہ ہے۔ پہلے ٹیسٹ CVS گیارہویں سے چودہویں ہفتے تک تشخیص ہو جائے۔ اور اگر آپ حمل ختم کرنا چاہیں تو اپنے مذہب و عقائد کی بنیاد پر فیصلہ کر کے فتویٰ لے کر ایسا سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں 30 سے 40 فیصد ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص ہوجانے پر حمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس میں تمام مذاہب اور کسی مذہب کو نا ماننے والے لوگ شامل ہیں۔

ان بچوں کی اوسط عمر 50 سے 60 سال ہے۔

ان کا عالمی دن 21 مارچ ہے۔

بچہ پیدا ہوگیا۔ یا پتہ تھا ڈاؤن سنڈروم ہے مرضی و خوشی سے پیدا کیا۔ اب کیا کریں؟

سب سے پہلا کام جو کریں۔ اس بچے کی پیدائش پر ویسی ہی خوشی منائیں ویسے ہی مٹھائی بانٹیں ویسا ہی عقیقہ کریں جیسے عام بچوں کی پیدائش پر کرتے ہیں۔ روئیں پیٹیں بلکل نہیں ناں اس سے کچھ ہوگا۔ بچے کے جسم کے اربوں کھربوں سیلز میں سے ہر ایک سیل میں موجود 47 کروموسوم کو آپ دنیا بھر کی طاقت لگا کر بھی 46 نہیں کر سکتے۔ یعنی بچے کی جسمانی ساخت اور ذہنی استعداد جو بن چکی ساری عمر وہی رہے گی۔ آپ اسے پہلے دن سے توجہ دے کر بہت بہتر کر سکتے ہیں۔

اسکا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس سچ کو قبول کریں۔ لوگ اس سچ کو کئی سال بعد مانتے ہیں۔ علاج دم درود کرواتے رہتے ہیں۔ تب تک بچے کا مکمل بیڑہ غرق ہو چکا ہوتا۔

ان بچوں کی زندگی کے پہلے 1000 دن انتہائی اہم ہوتے ہیں۔

پیدائش سے فوراً بعد سماعت اور بصارت کا ٹیسٹ کروائیں۔ فوراً دل کی دھڑکن چیک کروائیں۔ اسکا ریگولر ریکارڈ رکھیں۔ پہلے چھ ماہ کی عمر میں کارڈیالوجسٹ سے ملیں اور دل کے ممکنہ امراض کی تشخیص کروائیں۔ سماعت میں مسئلہ ہونے پر ضرورت ہو تو ایک ماہ کی عمر میں ہی اچھی کوالٹی کا سرٹیفائیڈ پروفیشنل سے آلہ سماعت لگوا لیں۔ بچہ ماں کی آواز سنے اور رسپانس کرے۔ جو سنے گا وہی بچہ بولے گا۔ ورنہ بہت لیٹ بولے گا۔

یہ ایک ڈیویلپمنٹل ڈس ابیلیٹی ہے۔ میرا ایم فل اسی میں ہے۔ اور یہ میری سب سے پسندیدہ ڈس ابیلیٹی تھی۔

ارلی انٹروینشن جتنی جلدی دینی شروع کریں گے۔ اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ اگر ارلی انٹروینشن نہ دی جائے تو یہ بچے تین سال تک کی عمر تک پہنچ کر نہ ٹھیک سے بولتے ہیں نہ ٹھیک سے چلتے ہیں۔ اگر انٹروینشن دے دی جائے تو تین سال کی عمر تک لکھنا پڑھنا بھی ماشاءاللہ شروع کر دیتے ہیں۔

ارلی انٹروینشن میں کیا کرنا ہے؟

ایک سال کی عمر سے پہلے آلہ سماعت اگر ضرورت ہو تو ہر صورت لگوائیں۔

ایک سال کی عمر سے ہی پانچوں حسیات کا استعمال کرنا سکھائیں۔ آکو پیشنل تھراپسٹ سے مدد لیں۔

ان بچوں کے مسلز اور ہڈیاں و جوڑ کمزور ہوتے ہیں۔ فزیوتھراپسٹ سے مشورہ کرکے جتنی جلدی ممکن ہو فزیوتھراپی شروع کروائیں۔ اور چند سال تک حسب ضرورت جاری رکھیں۔ بعد میں اسکی روٹین میں ریگولر سیر ورزش یا جم جانا یا کوئی گیم کھیلنا شامل کریں۔ ورنہ بچہ بہت موٹا ہوجائے گا۔ یا بہت کمزور ہوجائے گا۔

غذا ڈاکٹر کے مشورے سے دیں۔ ہر بچے کے مسائل مختلف ہو سکتے ہیں۔ نظام انہضام بھی کئی بچوں کا متاثر ہوتا۔

سکول میں انکی سوشل اسکلز، سیلف ہیلف سکلز یعنی اپنے کام آپ کرنا جیسے کپڑے پہننا، شوز بیلٹ پہننا تسمے بند کرنا برش کرنا بٹن بند کرنا وغیرہ سب سے پہلے سکھایا جاتا ہے۔

اسکے ساتھ بچے کی موٹر اسکلز، زبان دانی اور Cognitive پراسیسنگ کو بہتر کرنے پر کام کیا جاتا ہے۔

یہ بچے سپیشل ایجوکیشن یا جنرل مین اسٹریم ایجوکیشن جس میں ارلی انٹروینشن کے بعد نارمل بچوں کے ساتھ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ کچھ بچے ایجوکیبل ہوتے ہیں اور کچھ ٹرین ایبل۔ ان بچوں پر اگر دل سے محنت کی جائے تو ماسٹرز تک تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ابتدائی تین سے چار سالوں میں ارلی انٹروینشن دے کر انکو نارمل سکول میں پڑھایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں شعور کی کمی، اداروں کی کمی یا معلومات نا ہونے کیوجہ سے ان بچوں کی زندگی کے ابتدائی کئی سال ضائع ہوجاتے ہیں۔ تو وہ نقصان کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً یہ بچے گلیوں محلوں میں سائیں بنے پھر رہے ہوتے۔ لوگ ان سے ٹھٹھہ مذاق کرتے انہیں چھیڑتے یہ ان کو گالیاں دیتے یا انکے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ یوں ہی انکی عمر بیت جاتی۔

پہلے دن سے بچے کو دل سے قبول کریں۔ جو میں نے اوپر لکھا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ بچہ نارمل کے قریب ترین زندگی گزارے گا۔ پنجاب کے ہر ضلع ہر تحصیل ہر ٹاؤن میں موجود سرکاری سپیشل ایجوکیشن سنٹر میں ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوست کیا گیا ہے۔ مگر دیکھا یہی گیا ہے کہ ان بچوں کو حرام کی اولاد سمجھ کر والدین کی طرف سے ہی ایسا غیر منصفانہ سلوک ملتا ہے۔ کہ رہے رب کا نام۔ والدین ایک تو آتے ان بچوں کو 6 سے 8 سال کی عمر میں لیکر ہیں۔ اور پھر سمجھتے اب یہ بچے سکول والوں کی ذمہ داری ہیں۔۔ہم آزاد ہیں۔ باقی بچوں پر پیسے بھی لگاتے ان کو توجہ بھی دیتے مگر انکی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ داخلے کے بعد کبھی دوبارہ سکول نہیں آتے۔ اور اکثر ٹیچرز بھی پھر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف کہیں والدین دل سے توجہ دے رہے ہوتے تو ٹیچر نالائق یا ہڈ حرام ہوتا۔ یا توجہ نہیں دیتا یا اسکے پاس بچے بہت زیادہ ہوتے تو بچے کی زندگی برباد کر دیتا۔

ایک پوری ٹیم ان بچوں کو فعال کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ جن میں سائیکالوجسٹ سپیچ تھراپسٹ، میوزک ٹیچر، کلاس ٹیچر، ہر سکول میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ سرکاری سپیشل سکول کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ بچے کو کچھ نہیں کروایا جا رہا۔۔اسکا آئی ای پی IEP) Individualized Education plan) نہیں بنایا یا آپکو نہیں دیا گیا۔ نہ آپکو پتا ہے سکول والے کیا کروا رہے تو سکول جائیں۔ احترام سے پوچھیں کیا کروا رہے ہیں۔۔ہم کیا کریں گھر میں بچے کے ساتھ؟ سکول پرنسپل سے ملیں اپنا معاملہ ڈسکس کریں۔ اور سکول والوں سے ملکر بچے کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں۔

یہ بچے فوٹوگرافی، سٹیج پرفارمنسز، ڈانس، ماڈلنگ، کشتی پہلوانی وغیرہ, پیرا اولمپکس گیمز میں بہت اچھا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔۔کسی بھی دفتر جنرل سپر سٹور میں انڈر سپر ویژن کامیابی سے ملازمت کر سکتے ہیں۔ اپنی ایجوکیشن اور خصوصیات کے مطابق سرکاری محکموں میں ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اچھا ایک آخری بات۔ ڈاؤن سنڈروم لڑکیوں کی شادی کر دی جائے تو انکے ماں بننے کے 50 فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اور 50 فیصد ہی چانس ہوتے انکا بچہ بھی ڈاؤن سنڈروم ہی ہوگا۔

ڈاؤن سنڈروم مردوں۔میں باپ بننے کی صلاحیت بہت ہی کم ہے۔۔آپ اس بات کا اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہ دنیا بھر میں اب تک معلوم کیسز میں صرف تین ڈاؤن سنڈروم مرد باپ بن سکے ہیں۔ شادیاں تو ہزاروں کی ہوئی ہیں۔

لڑکی کی شادی اگر ممکن ہو تو کسی دوسری مائنر ڈس ابیلیٹی کے ساتھ یا کوئی قبول کرے تو نارمل شخص سے کریں۔ کوشش کریں لڑکی بچہ نہ پیدا کرے۔ بس اپنے سسرال چلی جائے۔ جہاں بچوں کی ضرورت نہ ہو۔

میں والدین سے کہوں گا۔ بچیوں کی شادیوں میں غیر ضروری تاخیر نہ کریں۔ گولی ماریں جہیز کو وہ بعد میں بنتا رہے گا۔ اور شاید دینے کی نوبت ہی نہ پیش آئے لوگ ہی اچھے مل جائیں۔ یہ واحد ڈس ابیلیٹی ہے جسکا ماں کی زیادہ عمر کے ساتھ ڈائریکٹ تعلق ہے۔ باقی بھی کئی ذہنی و جسمانی معذوریاں ماں کی عمر 33 سے 35 سال کے بعد حمل ہونے پر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر 33 سال کی عمر میں ماں بننے کا پلان کریں تو ضرور جنیٹک کاونسلنگ کروائیں۔

Aljanat Hospital and Infertility Center
Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ
Ismail Shah

12/06/2025

پاکستان میں روزانہ ہزاروں مریض ایمرجنسی کی حالت میں سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں، اور تحقیق سے ثابت ہے کہ %70 سے زائد سیریس مریضوں کو سرکاری اداروں میں ہی کامیابی سے سنبھالا جاتا ہے۔کیوں؟

اس لیے کہ:
سرکاری ہسپتالوں میں ہر وقت تربیت یافتہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف موجود ہوتا ہے۔

ہاؤس آفیسر سے لے کر سینئر کنسلٹنٹ تک، ایمرجنسی کے دوران ایک چین آف کمانڈ ہوتی ہے جو فوری ردِ عمل دیتی ہے۔

سینر ڈاکٹر 24/7 on-call موجود ہوتے ہیں، جو صرف ایک کال پر موجودگی یقینی بناتے ہیں۔

ریسکیو 1122 بھی صرف سرکاری ہسپتال کو ہی ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں فوری، مربوط اور معیاری طبی سہولیات موجود ہیں۔

یاد رکھیں:
ڈاکٹر علاج کرتے ہیں، شفا دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔

لیکن مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم پرائیوٹ ہسپتالوں کی چمک اور مہنگے علاج کو معیار سمجھ کر اصل خدمت گاروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ہم اکثر ہزاروں روپے دے کر پرائیوٹ ہسپتال کے عملے سے ادب سے بات کرتے ہیں، لیکن سرکاری ہسپتال کے اسی قابل ڈاکٹر یا نرس سے سختی سے پیش آتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ "مفت" خدمت دے رہے ہیں؟
یہ رویہ غلط ہے۔

سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز ہمارے ہیرو ہیں۔ یہ نیند چھوڑ کر، تنخواہ سے زیادہ محنت کر کے، دن رات ہماری خدمت کرتے ہیں۔
یہ ہمارے غلام نہیں، محافظ ہیں۔

میڈیا کا کردار
بدقسمتی سے میڈیا میں اکثر میڈیکل فیلڈ کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا میڈیکل سسٹم کم وسائل کے باوجود بہترین خدمات دے رہا ہے۔ ایک ڈاکٹر روزانہ اوسطاً 50 سے 100 مریض دیکھتا ہے، وہ بھی بغیر کسی وقفے یا شکایت کے!

آگاہی پھیلائیں:یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں، کیونکہ شعور بانٹنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔

امیر ہوں یا غریب، ایمرجنسی کی صورت میں پہلا قدم قریبی سرکاری ہسپتال کی طرف اٹھائیں۔
میں دل سے کہتا ہوں، آپ کو وہاں انسانیت، ہمدردی اور قابلیت ملے گی۔ اور اگر آپ بھی محبت سے پیش آئیں گے، تو بدلے میں صرف دعائیں اور شِیرینی پائیں گے۔

10/06/2025

کیوں لیتے ھیں۔۔؟
تو ڈاکٹرز فیس اسلئے لیتے ھیں کیونکہ۔۔۔۔ ؟

جب اپ سب کھیل کھود رھے تھے گپ شپ میں مشغول رھتے تھے۔۔ تو ھم پڑھ رھے تھے، آپ کو دیکھ کر دل پر پتھر رکھ کر۔۔۔ورنہ دل ہمارا بھی تھا۔۔۔

جب اپ دوستوں کیساتھ فکنک پر جاتے تھے سنیما جاتے تھے تو ھم سکول جاتے تھے اپ کو دیک کر ہمیں رشک ھوتا تھا۔۔
جب اپ جوانی کے ایام انجوائے کر رھے تھے اور ان سے لطف اندوز ھو رھے تھے تو دوسری طرف ہمیں پتہ تک نہیں لگا جوانی کب ائی اور کب چلی گئی۔۔

جب ھم 35 سال تک پڑھتے رھے تو اپ سعودی عرب میں محنت کرکے گھر گاڑی سب سے لطف اندوز ھو رھے تھے ھم دیکھتے رھے ۔۔۔

جب اپ بیوی بچوں دوستوں رشتہ داروں میں ہنستے مسکراتے تھے تو ہماری قسمت صرف مریضوں سے واسطہ پڑتا رہا۔۔
جب اپ لاکھوں کروڑوں روپے اپنے اپ اور بچوں پر خرچ کر رھے تھے اس وقت ہمارے ماں باپ وہ ہمارے تعلیم پر خرچ ھو رھے تھے۔۔ ہمارے والدین اپنے کپڑوں دوائیوں کے پیسے بچا بچا کر ہمیں دیتے رھے۔۔

اس کے باجود اگر اپ لوگوں کا خیال ھے ڈاکٹرز فیس لیکر زیادتی کر رھے ھیں تو اپ اپنی اس سوچ پر دوبارہ غور وفکر کریں۔۔

ایک ڈاکٹر کلنک کا کرایہ، بجلی کا بل۔۔ ڈاکٹر کے کلنک کیساتھ دو تین بندے کام کر رھے ھوتے اور یوں غریبوں کے گھر بھی چل رھے ھوتے۔۔
آج کلینک میں سعودی عرب سے ایک بندہ ایا ایک ایکسرے کی رسید دیکھی قیمت 110 ریال جو کہ 8 ہزار تین سو روپے بنتے تھے وپی ایکسرے ادھر ھم 400 روپے میں کر رھے ھیں۔۔ شاید یہ احساس سعودی عرب اور دبئی کے مسافروں کو ھے۔۔۔ آج بھی ہم بہت سستے اور اسانی کے ساتھ دستیاب رھے۔۔

ھم ہنرمند ھیں اور ہر ہنرمند کیطرح بدلے میں فیس لیتے ھیں اور ہاں کوئی بھی ہنر مند مفت میں کام نہیں کرتے البتہ ھم بہت سارے لوگوں کو روزانہ ان کے فیس معاف کر دیتے ھیں۔۔۔
ھم ہنرمند کسی کو مجبور نہیں کر رھے اور ہاں ہر جگہ سرکاری ہسپتال موجود ھیں ادھر بغیر فیس کے معائینہ ھوتا ھے لیکن رش کیوجہ شاید ایسا معائینہ ممکن نہیں جو کلنک میں ممکن ھو۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر امجد تقویم صاحب کے اقتباس کا خلاصہ۔۔..

میری طرف سے تمام اہل اسلام کو عید الأضحى مبارك ہو ۔۔۔۔۔
07/06/2025

میری طرف سے تمام اہل اسلام کو عید الأضحى مبارك ہو ۔۔۔۔۔

16/05/2025

بچوں میں سانس روکنا ایک بہت عام مسلہ ہے جس میں بچے کو بار بار نیلے پن کےدورےپڑتے ہیں۔
یہ عام طور پر چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو متاثرکرتے ہیں۔
ان کی اہم علامت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی محرک سے شروع ہوتے ہیں جیسے بچے کو درد ہونا، چڑچڑاپن، اچانک گرنا، بچوں کی خواہش کو پورا نہ کرنا وغیرہ۔
جب بچہ سو رہا ہو یا آرام سے کھیل رہا ہو تو وہ کبھی سانس روکنے کا مسلہ نہیں ہوگا اور اگر ایسا ہوتا تو یہ نیلے پن یا سانس روکنے کے دورے نہیں مرگی ہوسکتی ہے۔
یہ زیادہ تر بے ضرر ہوتے ہیں اور بچے تھوڑی دیر میں خود سے معمول کے مطابق سانس لینا شروع کر دیتے ہیں لیکن والدین کے لیے یہ یقینی طور پر بہت خوفناک ہوتا ہے کیونکہ دیکھنے والے کو یہی لگتا ہے کہ بچے نے سانس لینا بند کر دیا ہے۔ اکثر والدین گھر میں بچے کی چھاتی دبانا یا سی پی آر(CPR) بھی شروع کر دیتے ہیں۔
ش*ذ و نادر صورت میں اگر سانس روکنے کا دورا طویل ہو جاۓ تو وہ بچے کو آکسیجن کی کمی سے جھٹکے بھی لگ سکتے ہیں۔
اس حالت کی صحیح وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن چند عوامل اس کو فروغ دے سکتے ہیں جیسے فولاد کی کمی.ایک یہ بھی خیال کیاجاتا ہے کہ یہ چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کا دماغ ناپختہ اور ابھی وقت کے ساتھ ساتھ نشوونما پانے والا ہوتا ہےجو اسکا سبب بنتاہے۔
والدین کو ان سانسوں روکنے کے دوروں کے دوران صبر وہمت سے کام لینا چاہیے ۔ یادرکھیں آپ کا بچہ چند سیکنڈز کے بعد خود سے سانس مکمل بہال کرلے گا۔ اگر کھبی بچے کو اس دوران جھٹکے لگتے ہیں ہیں تو آپ کو بچے کے منہ میں کوئی بھی چیز ڈالنے سے گریز کرنا چاہئے، بچے پر نظر رکھیں، کروٹ کے بل لٹاٸیں ,اگر یہ جھٹکے رکتے نہیں تو ایمرجنسی میں بچے کو لے جاٸیں۔
علاج میں اگر بچے کو خون کی کمی ہو تو فولاد کا شربت تجویز کیا جاتا ہے۔ پیراسیٹم (PIRACETAM)جیسی دوائیوں کا کردار ریسرچ میں بھی دیکھا جارہا ہے۔
ایسے بچوں کی بحالی بہترین ہے اور پانچ سال کی عمر کے بعد تمام بچے ٹھیک ہو جاتےہیں۔

میرے والد ایک عام GP تھے، لیکن ان کا جدید ترین میڈیکل آلات رکھنے کا جنون مثالی تھا۔ سن 2001 میں ان کے پاس جو اٹو سکوپ تھ...
27/04/2025

میرے والد ایک عام GP تھے، لیکن ان کا جدید ترین میڈیکل آلات رکھنے کا جنون مثالی تھا۔ سن 2001 میں ان کے پاس جو اٹو سکوپ تھا، وہ اس وقت تقریبا 80 ہزار روپے کا تھا جبکہ ایک جنرل فزیشن کو اتنے مہنگے اٹوسکوپ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ہائے رے شوق۔ خیر، یہ شوق مجھے بھی والد سے ملا، سو میں نے بھی اپنے کلینک کو "ایمرجنسی ریسپانس یونٹ" بنا رکھا ہے۔

میں بھی اپنے والد کی طرح ایک چھوٹے سے کلینک میں جدید الات رکھنے کا شوقین ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اگر کوئی سیریس مریض بھی ا جائے جس کو میں ڈیل کر سکتا ہوں تو صرف شدید حالت میں ریفر کروں ورنہ ہم یہ چیزیں کلینک پر خود ڈیل کر لیتے ہیں اور گزشتہ نو سالوں سے کبھی کوئی معاملہ خراب نہیں ہوا۔میں نے اپنی پریکٹس کے دوران اینافیلاکٹک شاک کے چار مریض کلینک پر ڈیل کر چکا ہوں، جن میں سے ایک پچھلے ہفتے میرے کلینک میں آیا تھا۔ میرا بیک گراؤنڈ ایمرجنسی میڈیسن اور کریٹیکل کیئر کا ہے، اس لیے میں نے اپنے چھوٹے سے کلینک میں وہ تمام سہولیات جمع کر رکھی ہیں جو Advance airway management,circulatory shock کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
Epinephrine
Norepi
Atropine
Drugs for RSI(Rapid sequence intubation)
Laryngoscope (curved,miller)
Ett
Bag valve mask(ambu bag)
Laryngeal mask airway
Cardiac monitor
یہ سب شاید میری روزمرہ کی ضرورت نہ ہو، لیکن ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر کسی کی جان بچانے میں مدد کر سکوں اس سے بڑا صدقہ کوئی نہیں ہوگا!!! میں کلینک پر کئی دفعہ rapid sequence intubation کر کے مریض ہسپتال ریفر کر چکا ہوں جس کی وجہ سے بے شمار مریضوں کی اللہ کی طرف سے جان بچی ہے ۔وہ الگ بات ہے کہ کہنے کے باوجود مریض میرا مہنگا ambu bag واپس کر کے نہیں جاتے اور ہسپتال چھوڑ کر ا جاتے ہیں

اب آتے ہیں اصل کہانی پر:

پچھلے ہفتے ایک مریض میرے پاس لایا گیا، جس نے انگور کھانے کے بعد Anaphylactic sshock کا سامنا کیا تھا۔ مریض صاحب دیسی تو تھے، لیکن پانچ سال دبئی میں گزارنے کے بعد ان کے انداز میں کچھ "گلف اسٹائل" کی چھاپ آ چکی تھی۔ انہیں شدید بے ہوشی، ہائپوٹینشن اور سانس لینے میں دشواری کے ساتھ لایا گیا۔ اکسیجن سیچوریشن 60 پر گر چکی تھی، بلڈ پریشر ناپید تھا، اور پورا جسم لال (جلد پر سرخ دانے) سے بھرا ہوا تھا –

میں نے فوراً اینافیلاکٹک شاک کے پروٹوکول کے مطابق علاج شروع کیا. ایمبولنس کو کال کر دی گئی تھی cardiac monitor lagaya اور پھر پہلا epinephrine IM دیا – کوئی خاص ردعمل نہیں۔guidelines ki timing کے مطابق دوسرا شاٹ لگایا – ابھی تک مریض دشواری میں تھا۔ تیسرے شاٹ کے بعد بلڈ پریشر میں معمولی بہتری آئی۔چوتھے شاٹ کے بعد مریض vitally stable ہو گیا جسم سے لال نشان تقریبا غائب ہو گئے بلڈ پریشر پلس اکسیجن سےچوریشن سب تقریبا نارمل ہونے لگے۔ وائٹلز تو کچھ بہتر ہو گئے تھے، لیکن خارش ابھی بھی تھوڑی بہت باقی تھی اس کو اینٹی ہسٹامین اور ہائیڈرو کورٹسون دیا گیا تھا اس کے ساتھ جلد پہ لگانے کے لیے کیلم مائن لوشن دیا گیا تھا اور اس کو سارے معاملے کے بارے میں سمجھایا گیا تھا کہ اپ جس کنڈیشن میں ائے تھے وہ بہت خطرناک تھی اب اس کنڈیشن سے باہر نکل ائے ہیں اور جو تھوڑی تھوڑی خارش ہے یہ کچھ دیر میں چلی جائے گی۔


مگر مریض صاحب کو میری بات سے کوئی سکون نہیں ملا۔ وہ مسلسل شکایت کرتے رہے: "ڈاکٹر صاحب، یہ خارش تو فوراً ختم کریں! میں تو دبئی میں رہتا ہوں وہاں تو ایسا علاج ہوتا ہے وہاں ویسا علاج ہوتا ہے"

میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اینافیلاکٹک شاک ایک زندگی کے لیے خطرناک حالت ہوتی ہے اور انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس سے باہر نکل آئے ہیں خارش اگرچہ اپ کو تنگ کر رہی ہے اور اس کے لیے اپ کو دوائی بھی دی گئی ہے برائے مہربانی تھوڑی دیر انتظار کریں یہ خارش ختم ہوگی تو ہم اپ کو گھر بھیجیں گے، لیکن اس کو کوئی بات سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ موت سے واپس ایا ہے اس میں صرف فکر یہ تھی کہ جو ہلکی ہلکی خارش ہو رہی ہے یہ کیوں نہیں جا رہی۔ اتنے میں میں دوسرے کمرے میں گیا، تو سنتا ہوں کہ مریض صاحب اپنی والدہ سے کہہ رہے ہیں:

کس کنجر ڈاکٹر کے پاس لے آئے ہو؟ یہ تو خارش کا بھی ٹھیک سے علاج نہیں کر سکتا! چلو کسی پرائیویٹ ہسپتال چلتے ہیں!"

یہ کہہ کر وہ اٹھے، اپنے ڈیزائنر کپڑے سنبھالے، اور مجھے ایسے گھور کر چلے گئے جیسے انگور میں نے ہی کھلایا تھا ۔ڈسپنسر نے مجھ سے پوچھا: " بھائی، اس کی فیس کیا لینی ہے؟

میں یہ کہہ کر اپنے ہفتر میں واپس اگیا کہ اس کی فیس اللہ تعالی سے ہی وصول کریں گے اور مریض کو بغیر کسی فیس کے جانے دیا۔

اس طرح کے بے شمار واقعات دیکھ چکا ہوں شروع شروع میں تو میں بدظن نہیں ہوتا تھا لیکن لوگوں کا مسلسل یہی رویہ دیکھ کر محسوس کرتا ہوں کہ شاید مریض کی تکلیف لینے سے مریض تو ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اپنے رویے سے اپ کو تکلیف ضرور دے جاتا ہے۔


Ismail Shah Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ Aljanat Hospital and Infertility Center Mohammad Asif Khan Sahibzada

🌟  #بچےـکاـرات کو بستر پرپیشاب نکلنا  !!!!NOCTURNAL ENURESIS                                                            ...
24/04/2025

🌟 #بچےـکاـرات کو بستر پرپیشاب نکلنا !!!!

NOCTURNAL ENURESIS
🌀کیا آپ کا بچہ رات کو بستر گیلا کرتا ہے یا دن کو کبھی کبھی باتھ روم جا نے سے پہلے ہی پیشاب اس کے کپڑوں میں ہی نکلتا ہے ؟؟؟

🎆بچو ں میں پیشاب پر کںٹرول کرنے کا وقت یکساں نہیں ہو تا ۔ بعض بچوں میں کنٹرول جلدی حا صل ہو تاہے اوربعض بچے یہ کنٹرول حاصل کر نے میں زیا دہ دیر لگا تے ہیں ۔ پانچ سال کی عمر میں پچیس فی صدبچے رات کو بیستر پر پیشاب کرتے ہیں ۔ آٹھ سال کی عمر میں بارہ فی صد بارہ سال کی عمر میں آٹھ فی صد اور پندرہ سال کی عمر میں ایک سے دو فیصد بچے رات کو بستر گیلا کر تے ہیں ۔

🌀 یہ ایک بے ضرر معا ملہ ہے اور اکثر مور ثی ہو تا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچہ اپنے مثانے کو کنٹرول کرنا سیکھ جا تا ہے۔

🌀 بعض چھوٹے بچے دن کو بھی کبھی کبھی اپنا پا جا مہ گیلا کرتے ۔ اگرایک دفعہ پیشا ب کنٹرول ہو نےکے بعد دوبا رہ پیشاب نکلنا شرو ع ہو جا ئےتو یہ زیا دہ اہمیت کے حامل ہے اس کی کوئی میڈیکل وجہ جیسے پیشاب کی نا لی میں ا نفیکشن ہو سکتی ہے ۔
🌈پیشاب نکلنے کی تشو یشناک #وجوـھات :::
اگر مندررجہ ذیل علا مات مو جود ہو تو فورا ڈاکٹر سے رجو ع کریں ۔
💢1 ۔اگر بچہ پا نی بہت زیادہ پیتا ہے ۔کھانا بہت زیا دہ کھاتا ہے اور بار بار پیشاب کرتا ہے او ر ساتھ ساتھ بستر پہ پیشاب نکلتا ہے تو یہ شو گر کی علا مت ہو سکتی ہے .
💢2 ۔اگر بچے کو بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور ہر وقت پانی مانگتا رہتا ہہ اور بار بار پیشاب کرتا ہے تو یہ دما غ سے نکلنے والے ایک ھار مون کی کمی یا گردے کا مسیلہ ہو سکتاہے.

💢 3 -اگر بچے کو پییشاب میں جلن ہو یا بخار آئے تو پیشاب کی نالی میں انفکیش ہو سکتا ہے .
#ڈاکٹر سے کب مشورہ کرنا چا ہئے ۔🌈
💫1 ۔اگربچےمیں مندرجہ بالاعلامات ہو موجود ہوں تو فورا ڈاکٹر سے رجو ع کر یں ۔ 💫2 ۔اگر ایک دفعہ پیشاب پر کنٹرول ہو نے کے بعد اچا نک پیشاب نکلنا شروع ہو جا ئے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔ 💫3 ۔اگر چھہ سال پورا ہونے کے بعد بچے کا بستر میں پیشاب نکلے تو ایک دفعہ ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں تا کہ یہ یقین دھا نی ہو کہ یہ بے ضرر معا ملہ ہے ۔اور کوئی پیچیدہ مسیلہ نہیں ہے ۔ 💫4 ۔اگر بچے کا وزن اور قد نہیں بڑھ رہا تو مشورہ ضرور کریں
💫 5 بعض دفعہ بچے میں قبض ۔ نظام تنفس کی کچھ کیفیات ۔ کچھ نفسیا تی بیما رں بھی بستر پہ پیشاب نکلنے کا سبب بن سکتی ہیں ۔
☄️اس کو بتا ئیں کہ یہ ایک عام اور معمولی سا مسیلہ ہے جو وقت کے سا تھ ٹھیک ہو جا ئے گا . ☄️رات کو سونے سے پہلے پانی چائے جوس وغیرہ سے رہیز کری۔
☄️بستر میں جا نے سے پہلے ا س بات کی یقین دھا نی کریں کہ بچہ سونے سے پہلے باتھ روم جا ئے۔
☄️ اگرر ات کو ایک دفع پیشاب کے لئے اٹھا یا جا ئے تو کا فی سود مند ثابت ہو سکتا ہے مگر یہ اتنا اسان نہیں ۔
☄️ صبع جب صفائی کر رہے ہو ں تو بچے عزت نفس کو ٹھیس پہنچا ئے بغیر صفائی میں اس کو شا مل کر لیں.
☄️ بچے کے میٹرس پہ ایسا کور چڑھادیں تاکہ صفا ئی میں آسا نی ہو ۔ ☄️جس دن بچہ بستر پر پیشاب نہ کرے تو اس کی تعریف ضرور کریں ۔
☄️ بڑے بچے کو ڈئپر پر پہنا نے سے گر یز کر یں ۔ اس سے مثا نہ کے کنٹرول میں دیر لگتی ہے ۔

🌈بستر پر پیشاب کرنے والوں کا میڈیکل #علاج کیا ہے !!!

💢 ان بچو ں کے اکثریت وقت کے سا تھ خودہی کنٹرول حا صل کرتےہیں ۔
💢مگر ایک مختصر تعداد کی بچو ں کو کبھی کبھی دوائی یا الارم اور مختلف طر یقوں سے علاج کیا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر دوسرے مسا ئل مثلا قبض وغیرہ کا صحیح علا ج کیا جائے تو صورت حال بہتر ہو جا تی ۔

Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ Aljanat Hospital and Infertility Center Ismail Shah

#ڈاکٹرـاسماعیل #فیلوـانـپیڈیاٹرکـنیورالوجی #کنسلٹنٹـچائلڈــسپیشلسٹ

24/04/2025

حیات آباد میڈیکل کمپلکس حیات آباد پشاور


#کنسلٹنٹـچائلڈــسپیشلسٹ #ڈاکٹرـاسماعیل #فیلوـانـپیڈیاٹرکـنیورالوجی

 #سوال:کیا ہر نوزائیدہ بچے کو پیدائش پر مستند چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے  چیک کروانا ضروری ہے؟  #جواب:جی ہاں! یہ ہر نوزائید...
23/04/2025

#سوال:
کیا ہر نوزائیدہ بچے کو پیدائش پر مستند چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے چیک کروانا ضروری ہے؟

#جواب:
جی ہاں! یہ ہر نوزائیدہ بچے کا بنیادی حق ہے کہ اس کی پیدائش پر ایک مستند چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہو اور اس کا تفصیلی معائنہ کرے۔

#کیوں ؟؟؟

چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر یہ چیک کرتا ہے کہ :
✅بچہ صحت مند ہے یا نہیں
✅ بچے میں کوٸ پیداٸیشی نقص تو نہیں
اور
✅ والدین کو بچوں کے دودھ پینے اور معمول کی دیکھ بھال کے بارے میں رہنمائی کرتاہے ۔

◀️معاٸنے کے شروع میں بچے کے وائٹلز vitals جن میں دل کی دھڑکن، سانس کی رفتار اور درجہ حرارت چیک کیاجاتایے ۔

◀️ پھر وزن، لمبائی اور سر کے سائز کی پیماٸیش ہوتی ہے۔
ان میں سے ہر ایک چیز کا پیداٸیش پر ریکارڈ انتہائی اہم ہے اور ساتھ ہی یہ ریکارڈ ہمیں اگلے مہینوں اور سالوں میں مدد کرے گا کہ بچہ صحیح طریقے سے بڑھ رہا ہے یا نہیں۔

◀️اس کے بعد سر سے لے کر پاٶں تک تفصیلی معاٸنہ کیا جاتا ہے۔

◀️ اگر اس مرحلے پر بچے میں کوئی مسئلہ سامنے آجائے تواس کا حل آسان ہوتا ہے بہ نسبت اسکے کہ اسکا علاج اور تشخیص دیر سے ہو۔

اگر بچہ صحت مند ہے تو ایک ذمہ دار اور قابل چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر بچے کو ماں کا دودھ پلانے , صفائی رکھنے ،حفاظتی ٹیکوں اور نوزائیدہ بچوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رائج خرافات کو ختم کرنے کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے .
◀️ دوسرے والدین کی آگاہی کے لئے شیئر ضرور کریں ۔

◀️بچوں کی صحت کے حوالے سے مزید مستند معلومات
کے لیے ہمارا پیج لائک کرے--
#ڈاکٹرـاسماعیل
#کنسلٹنٹـچائلڈــسپیشلسٹ
#فیلوـانـپیڈیاٹرکـنیورالوجی




゚viral

Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ
Ismail Shah
Aljanat Hospital and Infertility Center

 #کتےـکےـکاٹنےکی صورت میں فوری اقدامات:1. زخم کو فوراً دھونا:متاثرہ جگہ کو فوراً صابن اور صاف پانی سے کم از کم 15 منٹ تک...
23/04/2025

#کتےـکےـکاٹنےکی صورت میں فوری اقدامات:

1. زخم کو فوراً دھونا:
متاثرہ جگہ کو فوراً صابن اور صاف پانی سے کم از کم 15 منٹ تک دھوئیں۔ یہ وائرس کو باہر نکالنے میں مدد دیتا ہے۔
2. الکحل یا آیوڈین لگانا:
زخم صاف کرنے کے بعد اس پر الکحل، ڈیٹول یا آیوڈین لگائیں تاکہ جراثیم ختم ہوں۔
3. فوری طور پر قریبی اسپتال جائیں:
ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ کتے نے کاٹا ہے، چاہے زخم معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
ویکسین کا طریقہ کار:
ریبیز کے خلاف ویکسین لگوانا نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر درج ذیل شیڈول ہوتا ہے:
Day 0: پہلی ویکسین (کتے کے کاٹنے کے دن)
Day 3: دوسری ویکسین
Day 7: تیسری ویکسین
Day 14: چوتھی ویکسین
Day 28: پانچویں ویکسین

اگر کتے کا کاٹا بہت گہرا ہو یا چہرے، گردن یا ہاتھ جیسے حساس حصے پر ہو تو Rabies Immunoglobulin بھی لگائی جاتی ہے (صرف ایک بار، Day 0 پر)۔

اہم ہدایات:
علاج میں ہرگز تاخیر نہ کریں۔
دیسی ٹوٹکوں پر انحصار نہ کریں۔
ویکسین کا کورس مکمل کریں، چاہے زخم ٹھیک بھی ہو جائے۔..

Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ
Ismail Shah
Aljanat Hospital and Infertility Center

Address

ALJANNAT HOSPITAL OPP PESHAWRI ICE CREAM NEAR KALA PUL SWABI
Swabi
23430

Opening Hours

07:00 - 16:00

Telephone

+923409812101

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr.Ismail pediatrician ڈاکٹراسماعیل چایلڈ سپیشلسٹ:

Share

Category