Clinical Psychologist

Clinical Psychologist انسانی نفسیات

25/05/2024

”ذہنی امراض اور عقل سے پیدل لوگ“

قدرت نے ہمارے جسم میں مختلف اعضاء مختلف جگہوں پر اُس کے کام کی نوعیت کے مطابق تخلیق کیے ہیں، ہر اعضاء کا کام کرنے کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے، جب اُس طریقہ کار میں بگاڑ آ جائے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ اعضاء بیمار ہے، فلاں بیماری کا شکار ہے۔

انسانی دماغ بھی ایک اعضاء ہے اور اس کے کام میں بھی بگاڑ آسکتا ہے، یہ کوئی انہونی یا اچنبھے والی بات نہیں، اس بگاڑ کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔

سب سے پہلی وجہ ”عقل سے پیدل لوگ“ ہوتے ہیں، جن کو یہی نہیں پتہ کہ ہر انسان کے احساسات، سوچ اور اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے، یہ لوگ اپنا نقطہ نظر اور سوچ دوسروں پر زبرداستی تھوپنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں تو بہت سارے لوگ اُن کی ایسی حرکات کو برداشت نہیں کر پاتے اور اندر ہی اندر گھولنے لگتے ہیں۔

ہمارہ منافق،بے شمار چہروں والا معاشرہ، یہ ذہنی بیماریوں کی دوسری بڑی وجہ ہے، یہاں لوگ نہ خود انسانوں کی طرح جیتے ہیں اور نہ جینے دیتے ہیں، ہر آدمی کو ہر دوسری بات پہ مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے کم ظریفی کہوں یا بد قسمتی انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی اس کام میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ کہ اُنہوں نے پیسے دے کر ڈگریاں تو لے لی ہوتی ہیں مگر ”علم اور تربیت“ نہیں سیکھ پاتے۔

موروثی، کچھ کیسوں میں ہو سکتا ہے کہ ماں باپ کی طرف سے جینز کے ساتھ کچھ بیماریاں منتقل ہوتی ہیں، جن کا تدارک اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

ہارمونز کا بگاڑ، انسانی دماغ میں چند کیمیکلز کی کمی بیشی کی وجہ سے بھی انسانی دماغ بیمار ہو جاتا ہے، بعض اوقات تو ماہرِ نفسیات سے گفتگو (سیشن) سے ہی لوگ ٹھیک ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دوائیوں کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

انسان بیمار ہو جائے تو اُس کا علاج اور پرہیز کروایا جاتا ہے جس سے وہ جلدی بہتر ہوتا ہے مگر دماغی بیماریوں میں ”باوا آدم ہی نرالہ“ ہوتا ہے، بہت سارے لوگ تو ان کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں، کچھ لوگ تعویذ اور دم والا راستہ پکڑ لیتے ہیں۔

سب سے زیادہ ظلم والی بات اُس وقت ہوتی ہے جب ہم دماغی مرض میں منتلا مریض کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور کسی بڑے علامہ کی طرح فتوٰی جاری کرتے ہیں کہ ”نماز پڑھو، روزہ رکھو، عبادت زیادہ سے زیادہ کرنا شروع کر دو، دین سے دوری کی وجہ سے تمہارے ساتھ ایسا ہوا ہے۔“

اگر آپ اُن کو دیکھیں تو اُن کے نزدیک نماز روزہ حج یا پھر عورت تک اسلام محدود ہوتا ہے۔
حالانکہ اسلام تو ایک ایسا دین ہے جس نے زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو کی بھی تشریح کر کے بتائی ہے۔

پیغمبرِ اسلام میرے بابا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”تمام دن روزہ رکھنے اور ساری رات عبادت کرنے والے سے وہ انسان اعلیٰ مقام پا لیتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہو“۔

محترم، آپ سب سے پہلے اپنے اخلاق پہ نظر دوڑائیں پھر باقی چیزوں کا پرچار کیجیئے، دوسروں نصیحت اُس وقت کی جاتی ہے جب خود اُس پہ عمل کیا جائے، دینِ اسلام کی خوبیوں پہ غور کیجیئے گا۔

وقت کا خلیفہ (حضرت عمرِ فاروق ؓ ) خود گُڑ کھاتے ہیں تو ایک ماں اپنے بچے کی شکایت لے کر حاضر ہوتی ہے کہ اس کو گُڑ کھانے سے منع فرمائیں تو آپ ؓ کہتے ہیں کہ اس کو کل لے کر آنا۔

دوسروں کے دُکھ کو سنیئے، محسوس نہیں کر سکتے تو کم از کم خاموشی احتیار کیجیئے یا دعا دیجیئے، اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر دوسروں کو کم تر مسلمان ثابت مت کیجیئے۔

ہم عجیب لوگ ہیں، کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اُس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں اور اس ”کارِ خیر“ میں ڈاکٹرز اور سائیکالوجسٹس بھی شامل ہیں، جن کو ربّ نے علم عطا فرمایا ہوتا ہے اور وہ سب جانتے بھی ہیں اور پھر بھی اپنی ”واہیات حرکات“ سے باز نہیں آتے، ایسے لوگوں کے حق میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ اُن کو دعا کی ہی ضرورت ہوتی ، اُن کی عقلوں پہ پردے پڑ چکے ہوتے ہیں۔

#ماہرنفسیات

11/05/2024

بڑا عجیب ہے انسان بھی بقول سگمنڈ فرائیڈ انسان کے نفسیات کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں چھوٹی سے چھوٹی خوشی کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتا ہے اور ہرایک سے شیر کرتا ہے لیکن بڑے سے بڑے غم کو دبا کررکھتا ہے اپنے درد کو غم کو کسی دوسرے سے شیر نہیں کرتا اگر آپ غم کو شیر نہیں کرسکتے کسی دوسرے انسان سے تو قدیم یونان میں جیسے لوگ کتھارسس کا سہارا لیتےاور اپنے غم درختوں یا دریاؤں
سے بیان کرتے آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں یا آپ اپنے درد
کو لکھیں لکھنا بھی ایک تھراپی ہے ایک علاج ہے !

#ماہرنفسیات

13/01/2024

پہلے دن خدا نے کتا بنایا۔
خدا نے کہا: "پورے دن اپنے گھر کے دروازے کے پاس بیٹھو اور جو بھی آئے یا گزرے، اُس پر بھونکو۔ میں تمہیں بیس سال کی عمر دوں گا۔" کتے نے کہا: "یہ بھونکتے رہنے کے لئے بہت لمبا وقت ہے۔ دس سال دو اور دس واپس کر دوں گا۔"
خدا راضی ہوگیا۔

دوسرے دن خدا نے بندر بنایا۔ خدا نے کہا: "لوگوں کو تفریح دو، بندر کے چالاکیاں کرو اور سب کو خوب ہنساؤ۔ میں تمہیں بیس سال کی عمر دوں گا۔" بندر نے کہا: "بیس سال تک بندر کی چالاکیاں؟ مجھے لگتا ہے نہیں۔ کتا نے دس واپس کئے تھے، تو میں بھی دس کروں گا، ٹھیک ہے؟"
اور خدا راضی ہوگیا۔

تیسرے دن خدا نے گائے بنائی۔ "تمھیں پورے دن کسان کے ساتھ کھیتوں میں جانا ہوگا اور سورج کے نیچے جھلسانا ہوگا، بچے پیدا کرنے ہوں گے، اور کسان کو حمایت کے لئے دودھ دینا ہوگا۔ میں تمہیں ساٹھ سال کی عمر دوں گا۔"
گائے نے کہا: "یہ بہت مشکل زندگی ہے جو تم ساٹھ سال کی عمر میں چاہتے ہو۔ مجھے بیس سال دو اور بقیہ چالیس سال واپس لے لو۔"
اور خدا پھر راضی ہوگیا۔

چوتھے دن خدا نے انسان بنایا۔ خدا نے کہا: "خوراک لو، سو، کھیلو، شادی کرو اور اپنی زندگی کا لطف اٹھاؤ۔ میں تمہیں بیس سال کی عمر دوں گا۔"
انسان نے کہا: "کیا؟ صرف بیس سال؟ ٹھیک ہے، میں بیس لے لوں گا، اور گائے نے ساٹھ واپس کئے، اور بندر نے دس واپس کئے، اور کتے نے دس واپس کئے، تو یہ کل اسی سال ہوگئے، ٹھیک ہے؟"

"ٹھیک ہے!" خدا نے کہا، "تمہارا سودا ہوگیا ہے۔"

اور یہی وجہ ہے کہ پہلے بیس سال ہم کھاتے ہیں، سوتے ہیں، کھیلتے ہیں، اور اپنے آپ کو لطف اندوز کرتے ہیں؛ چالیس سال ہم اپنے خاندان کی حمایت کے لئے دھوپ میں کُڑھتے ہیں؛ دس سال ہم اپنے نواسوں کے ساتھ تفریح کے لئے بندر کی چالاکیوں میں خرچ کرتے ہیں؛ اور آخری دس سال ہم باہری دروازے پر بیٹھ کر ہر کسی پر بھونکتے ہیں۔

➖ پاؤلو کوئیلو

02/01/2024

تہذیب کی بنیاد ایک ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے سے شروع ہوئی:

"سالوں پہلے، ماہر بشریات مارگریٹ میڈ سے ایک طالب علم نے پوچھا کہ وہ ثقافت میں تہذیب کی پہلی علامت کیا سمجھتی ہیں۔ طالب علم نے میڈ سے توقع کی کہ وہ مچھلیوں کے کانٹے یا مٹی کے برتنوں یا پیسنے والے پتھروں کے بارے میں بات کریں گی ۔
لیکن نہیں. میڈ نے کہا کہ قدیم ثقافت میں تہذیب کی پہلی نشانی فیمر (ران کی ہڈی) تھی جو ٹوٹ گئی تھی اور پھر ٹھیک ہو گئی تھی۔ میڈ نے وضاحت کی کہ جانوروں کیے رویے میں، اگر آپ اپنی ٹانگ توڑ دیتے ہیں، تو آپ مر جاتے ہیں۔ آپ خطرے سے بھاگ نہیں سکتے، پانی پینے کے لیے دریا تک نہیں جا سکتے یا کھانے کی تلاش میں نہیں جا سکتے۔ اور پھر آپ سر کے اوپر گھومنے والے درندوں کا گوشت ہو۔ کوئی جانور ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ اتنی دیر تک زندہ نہیں رہتا کہ ہڈی ٹھیک ہو جائے۔
ایک ٹوٹا ہوا فیمر جو ٹھیک ہو گیا تھا اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی نے گرنے والے کے ساتھ رہنے میں وقت لیا ، زخم کو باندھا ، اس شخص کو حفاظت میں لیا اور صحت یابی کے ذریعے اس کی دیکھ بھال کی۔ میڈ نے کہا کہ مشکل وقت میں کسی اور کی مدد کرنا وہیں سے تہذیب انسانی کا آغاز ہوتا ہے ۔
جب ہم دوسروں کی خدمت کرتے ہیں تو ہم سب سے بہتر ہوتے ہیں۔"
We are at our best when we serve others.”

18/12/2023

موسم کے انسانی نفسیات پر اثرات
(حصہ اول)
ہر موسم کی ایک خوبصورتی اور اہمیت ہوتی ہے۔ ہر موسم ہی اپنے اندر ایک جاذبیت اور انفرادیت رکھتا ہے ہر ماحول اور ہر موسم کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے انسانی بدن کی فطری،طبعی اور مادی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خوراک ، لباس، طرزِ رہن و سہن اور بود و باش کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ماہر عمرانیات و نفسیات ابن خلدون کہتے ہیں کہ ایک انسانی معاشرے پر تین چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں پہلی چیز مذہب ہے دوسری چیز جغرافیہ اور تیسری چیز وسائلِ حیات کی فراوانی اور عمدگی ھے انھوں نے جغرافیائی موسم کو بھی انسانی مزاج پر اثرانداز ہونے کے بارے پہلی بار سائنسی طور پر ثابت کیا تھا
The human psyche is influenced by many factors. Genetics, environment and experiences all play a role in shaping our mindsets and personalities. On a biological level, weather can affect the human body's internal clock, or circadian rhythm, which regulates sleep, appetite, and mood. For instance, less sunlight in winter can disrupt your body's internal clock, leading to feelings of depression.
بیرونی موسم انسان کی طبیعت پر اثرات مرتب کرتا ہے قدرت کے موسم جواپنے وقت پر آتے جاتے ہیں انسانی مزاج پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ سردیوں میں سرشام ہی سڑکیں ویران ہوجائیں، کھڑکیوں پر پردے گرا دیے جائیں‘ افراد خانہ آنگن سے کمروں کا رخ کرلیں‘ کمروں میں سردی سے دبک کر بیٹھ جائیں تو ایسے موسم میں دل میں اداسی سی اتر آتی ہے۔ اسی طرح بہار کا آغاز… جہاں خوب صورت، رنگ رنگ کے پھولوں سے منظر کو خوب صورت بناتا ہے وہیں کچھ لوگ حساس لوگوں میں بہار کی آمد سے ہلکے ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے موسم بہار میں بعض لوگ گردش خون سے متعلق مسائل، غنودگی اور تھکاوٹ کی علامات کے ساتھ بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جدید نفسیات کی سائنس نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ بہار آنے پر ذہنی دبائو کے مریضوں کی بیماری کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل موسمی ذہنی تنائو یا Seasonal Depression کے مریض ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کو طبِ نفسیات میں Seasonal affective disorder
کہا جاتا ہے جس کو مختصر SAD کہا جاتا ہے
SAD is a type of depression that comes and goes in a seasonal pattern. SAD is sometimes known as "winter depression" because the symptoms are usually more apparent and more severe during the winter. Some people with SAD may have symptoms during the summer and feel better during the winter.
موسم کے لحاظ سے انسانی روے تبدیل ہوتے رہتے ہیں جسے سائنسی اصطلاح میں 'سیزنل افیکٹو ڈس آرڈ' موسمی اثر سے پیدا شدہ بیماری یا 'ونٹر ڈپریشن' کا نام دیا گیا ہے۔ اس علامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے 'سیڈ' یعنی اداسی کا نام بھی دیا گیا ہے۔
Weather affects our moods, temperaments, depression and outlook. It can also affect people's personalities. While mildly warm temperatures might be pleasant, soaring hot temperatures can cause people to become aggressive.
مختلف لوگ مختلف موسم میں ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مثلاً موسم سرما میں ڈپریشن کی اہم علامات اگر سرد موسم اور چھوٹے دن آپ کے موسم سرما کے بلیوز یعنی ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں سردیوں کے موسم میں تھکاوٹ، اداسی، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، اور آپ کی نیند کے شیڈول میں رکاوٹ کا سامنا کرنا معمولی بات ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کے لیے، یہ مزاج کی تبدیلی عارضی ہوتی ہے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے ساتھ آسانی سے منظم کی جاتی ہے۔ لیکن دوسروں کے لیے، موسم سرما کے بلیوز زیادہ شدید قسم کے ڈپریشن میں بدل سکتے ہیں سردیوں کا موسم خصوصا شامیں اداس اور ناامیدی سے پُر محسوس ہوتی ہیں سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں سخن شناس اسے اداسی اور ہجر کا موسم کہتے ہیں کیونکہ جاڑوں کی راتوں میں اکثر لوگ ایک طرح کی غیر محسوس اداسی میں ڈوب جاتے ہیں۔ بعض ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ سردیوں میں ذہنی پیچیدگیوں کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں اداسی ، غم اور ہجر کی کیفیات کے ساتھ ساتھ رومانویت کا عنصر بھی بڑھ جاتا ہے جو اکثر و بیشتر شعرا اور ادیبوں کی تخلیقی صلاحیت کو نکھارنے میں مدد دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اسکی سب سے بڑی وجہ انسانی جسم کو سورج کی روشنی کا کم ملنا ہے، دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونے کی وجہ سے لوگ اپنا زیادہ تر وقت اندھیرے یا کم روشنی میں گزارتے ہیں، ایسے ممالک جہاں سورج کم کم نکلتا ہے، جیسے روس اور کینیڈا کے کچھ علاقے، وہاں لوگوں میں ڈپریشن یعنی اضمحلال اور ایس اے ڈی یعنی سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر اور دیگر نفسیاتی امراض کے علاوہ خودکشی کا رجحان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی جسم کو ایک روز میں جتنی روشنی درکار ہوتی ہے وہ عام طور پر نہیں مل پاتی۔ موسم کی شدت کے باعث اکثر لوگ باہر گھومنے پھرنے سے نسبتاً گریز کرتے ہیں اور ان کا معاشرتی میل جول بھی قدرے کم ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کے بقول ہمارے دماغ میں ایک خاص قسم کا سیال مادہ سیروٹانن کہلاتا ہے جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ موسم سرما میں سورج کی روشنی میں کمی اور طلوع و غروب کا دورانیہ کم ہونے سے اس سیال مادے میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو براہ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اس موسمی تغیر کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کرتے البتہ پہلے سے مختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا طبقہ ذہنی الجھنوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ ان افراد میں روزمرہ کے کاموں کی رفتار اور موڈ دونوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں سورج کی روشنی دراصل انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اندر کے اندھیرے کو بھگانے کا باعث بنتی ہے۔ جب کہ بی بی سی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق زاریہ گورویٹ کہتی ہیں کہ صدیوں سے لوگوں کا خیال رہا ہے کہ گرم موسم ہمارے طرز عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور یہ ہی سبب ہے کہ یہ ہمارے روزمرہ محاورے کا حصہ بن چکا ہے۔ مثلاً گرمی کھانا، تپ چڑھنا، مزاج میں گرمی، پارا چڑھنا خون میں گرمی، وغیرہ اس بارے میں ابتدائی تحقیق 19ویں صدی کے اواخر میں سامنے آئی جب جرائم کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار مرتب کیے گئے۔ ایک تجزیے کے مطابق لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ سے متعلق زیادہ جرائم کا ارتکاب موسم گرما میں ہوا، جبکہ چوری چکاری کے زیادہ واقعات سردیوں میں پیش آئے۔ہر سال جیسے ہی پارا چڑھنے لگتا ہے ہمارے اجتماعی مزاج میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ اس کی کچھ علامات میں ٹریفک جام ہونے کی صورت میں ہارن کا بجانا اور عمومی بدمزاجی کا زیادہ اظہار وغیرہ شامل ہیں۔ گرمی کے موسم میں لوگ اجنبیوں کی مدد کرنے پر بھی کم آمادہ ہوتے ہیں صادقہ خان ڈان نیوز میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں کہ "اس مرض میں زیادہ تر وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ چونکہ سردیوں میں دن کا دورانیہ چھوٹا ہو جاتا ہے اور شدید خشک سردی میں دھوپ کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے اس لیے کئی ماہ تک ایسے ماحول میں رہنے سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں جس سے ان کے روزمرہ کے کام کی رفتار اور موڈ دونوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ شدید سردی میں بستر سے نکلنا کسی محاذ سے کم نہیں ہوتا۔ اس محاذ کو جیسے تیسے سر کر کے ہم روزمرہ کے کام شروع کرتے ہیں تو دیگر عوامل رکاوٹ بنتے ہیں جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
سرکیڈین کلاک
ہماری روزمرہ کی روٹین سے ہمارے اندر کی گھڑی کی ٹائمنگ سیٹ ہوتی ہے اسے سائنسی اصطلاح میں 'سرکیڈین کلاک' کہا جاتا ہے۔ موسم سرما میں صبح کے وقت شدید سردی، کہر یا اسموگ کے باعث صبح 9 بجے تک بمشکل سورج نکل پاتا ہے۔ ایسے میں آفس، اسکول یا گھر کے کام کاج کے لیے وقت پر ہی اٹھنا پڑتا ہے مگر ہماری سرکیڈین کلاک کہتی ہے کہ ہمیں ابھی اور آرام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گھڑی سورج کی روشنی پر چلتی ہے۔ اسی طرح رات جلدی ہوجاتی ہے اور شدید سردی میں لوگوں گھروں میں ہیٹر یا انگیٹھی کے پاس مقید ہوجاتے ہیں۔ ابتدا میں مونگ پھلیوں، خشک میوہ جات اور گرم طاقتور کھانوں کے ساتھ یہ سیشنز کافی لطف دیتے ہیں مگر آہستہ آہستہ بوریت اور اکتاہٹ بڑھنے لگتی ہے۔
سیرو ٹانن لیول
ہمارے دماغ میں ایک خاص قسم کا سیال مادہ سیروٹانن کہلاتا ہے جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ موسم سرما میں سورج کی روشنی میں کمی اور طلوع و غروب کا دورانیہ کم ہونے سے اس سیال مادے میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو براہ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو کسی خاص وجہ کے بغیر ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔
میلا ٹانن لیول
سیروٹانن لیول میں کمی سے دماغ متاثر ہوتا ہے جس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے اور دیگر مادوں مثلاً میلاٹونن لیول میں کمی کی وجہ سے نیند کے اوقات میں واضح تبدیلی آتی ہے یا تو بالکل نیند نہیں آتی یا پھر بہت زیادہ نیند آتی ہے اور مریض کے لیے روزمرہ کے کام سرانجام دینا مشکل ہو جاتا ہے"
جاری

منقول

06/12/2023

سوال : انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ اور کیا جانور میں بھی جھوٹ بولنے کی صلاحیت ہے؟ کیا جھوٹ ضروری ہے؟

جواب: جھوٹ جانوروں سمیت ہمارے ڈفینس میکینزم کا حصہ ہے۔ جتنی زیادہ پیچیدہ کلچر کی حامل مخلوق ہوتی ہے اس کے ڈفینس میکینزم بھی اتنے ہی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ بچپن میں یہ جھوٹ عمومی طور پہ والدین کے کم اعتماد اور سخت رویہ کی بنا پہ بچے بولتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیئے پہلی ہی بار غلطی پہ کبھی کوئی بچہ جھوٹ نہیں بولتا۔ مگر سزا کے خوف سے وہ بڑورں کی طرح معاملے کو "پر امن" طریقے سے حل کرنے کا یہ ہنر سیکھ جاتا ہے۔
انسان جانوروں کی بنسبت زیادہ اور پیچیدہ جھوٹ بولتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارا تمدن ان سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہماری زندگی میں روزانہ کئی ایسے مواقع آتے ہیں جو ہمارے لیئے بقا کا مسئلہ ہوتے ہیں۔ عورت کی عمر کیوں کہ عمر رسیدہ عورت کو مجموعی طور پہ پذیرائی نہیں ملتی خاص کر اگر وہ غیر شادی شدہ بھی ہو۔ مرد کی تنخواہ اور جسمانی طاقت کیوں کہ غریب اور کمزور مرد کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں۔ بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں کیوں کہ ہمارے لیئے کم عقلوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہ سب وہ مشہور زمانہ جھوٹ ہیں جن کا تعلق ہماری جسمانی بقا سے بالکل بھی نہیں ہے مگر معاشرتی بقا یعنی عزت اور نیک نامی سے ہے۔
🍂🍂

05/12/2023

‏*مکڑی بچے پیدا کرنے کے بعد بچے کے باپ کو کیوں قتل کرتی ہے؟

تحقیق کےمطابق مادہ مکڑی بچے دینے کے بعد نر مکڑی(اپنے بچوں کے باپ)کو قتل کرکے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔
پھر جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے،تو اپنی ماں کو قتل کرکے گھر سےباہر پھینک دیتی ہے۔کتنا عجیب و غریب گھرانہ اوریقیناً بدترین گھرانہ ہے

۔قرآن مجید کی ایک سورت ہے” العنکبوت” —- عنکبوت کو اردو میں
“مکڑی ”کہا جاتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے
کہ سب سے بودا یا، کمزور گھر مکڑی کا ۔ہے
–قرآن کا معجزہ دیکھیں،ایک جملے میں ہی اس گھرانے کی پوری کہانی بیان کر دی کہ “بے شک گھروں میں سے سب سے کمزور گھر عنکبوت کا ہے اگر یہ
(انسان) علم رکھتے۔”انسان مکڑی کے گھر کی ظاہری کمزوری کو تو جانتے تھے، مگر اس کے گھرکی معنوی کمزوری یعنی دشمنی اور خانہ جنگی سے بے خبر تھے۔ اب جدید سائنس کی وجہ سے اس کمزوری سے
بھی واقف ہو گئے،اس لیے اللہ نے فرمایا اگر یہ علم رکھتے یعنی مکڑی کی گھریلو کمزوریوں اور دشمنی سے واقف ہو تے۔اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے ایک پوری سورت کانام اس بری خصلت والی کیڑے کے نام پر رکھا حالانکہ

اس سورت کے شروع سے آخرتک گفتگو فتنوں کے بارے میں ہے۔سورت کی ابتدا یوں ہے

:” کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا”اور فرمایا“لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں۔جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے ایمان لایا ہے مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی ہے، تو لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہیں۔
”ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مکڑی کا فتنوں اور آزمائشوں سے کیا تعلق ہے؟درحقیقت، فتنے، سازشیں اور آزمائشیں بھی مکڑی کی جال کی طرح پیچیدہ ہیں اور انسان کے لیے
ان کے درمیان تمیز کرنا ان کو بے نقاب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر اللہ مدد کرے تو یہ کچھ بھی نہیں ہوتے..!!
"تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہے کاش کے لوگ جانتے".
یہاں بتایا گیا ہے کہ "مکڑی" کے گھر کو دیکھ کر جو شخص حقیقت کا سبق پا لے وہی دراصل عالم ہے.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک سچے علم والے کون ہیں.
یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کتابی بحثوں کے ماہر بنے ہوئے ہوں.
بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی دنیا میں پھیلی ہوئی قدرتی نشانیوں سے نصیحت کی غذا لے سکیں.

25/11/2023

کیا آپ لوگ آپنے آس پاس کسی کو جانتے ہیں؟
عموماً جب عام لوگ کسی سائیکو پیتھ کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں کسی سیریل کلرز یا مجرم کا نام آتا ہے لیکن اگر آپ اس بارے میں کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں تو وہ جانتے ہیں ایسے لوگ دنیاوی طور پر کافی مالدار زندگی گزارتے ہیں ہاں اخلاقی طور یہ بینک کرپٹ ہوتے ہیں وجہ ان کے بے ضمیر رویے۔

ایسے لوگوں میں بہت سے بظاہر کامیاب، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بزنس مین، مذہبی اور سیاسی رہنما یہاں تک ایسے لوگ کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ایسی وہ کون سی وجوہات ہیں ایسے لوگوں کی شخصیات میں جو کے ایک طویل عرصے تک عام لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی جابرانہ، غیر مزہب، ظالمانہ اور اخلاقی حرکات آپنے خاندان، اور معاشرے کے لئیے بہت سے جذباتی اور معاشرتی مسائل کھڑے کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے انسان نا تو کوئی شرم محسوس کرتے ہیں اور نا ہی انہیں کوئی احساس جرم گناہ ہوتا ہے۔ وہ آپنی تمام تر غیر اخلاقی اور پرتشدد حرکات کی تاویلات پیش کرتے رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی زبان پر جھوٹ اور خرافات ہوتے ہیں ایسے لوگ ہمیشہ معصوم، بےسہارا اور لاچار لوگوں کی تاک میں رہتے ہیں اور جب انہیں موقع ملے تو وہ آپنے شکار کو گھسیٹ کر یا مکاری سے آپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں اور پھر ان کو آپنے تشدد یا بے رحمی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے لوگ جب کبھی آپنے شکار کو ہلاک بھی کر دیں استعمال کے بعد تو بلکل ان کو اس بات کا کوئی احساس جرم یا احساس گناہ نہیں ہوتا۔

بیسویں صدی کے ماہرین نفسیات نے ہمیں بتایا کے ایسے لوگ personality disorder کا شکار ہوتے ہیں شیزوفرینیا کا شکار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کی تشخیص بھی کافی حوالوں سے مشکل ہوتی ہے عام نفسیاتی مریضوں کے مقابلے میں۔۔

ان کے حوالے سے جو سب سے زیادہ مقبول کتاب ہوئی وہ ہاروی کلیکلی کی کتاب The Mask Of Sanity ہے۔ کلیکلی اس کتاب میں لکھتا ہے ایسے لوگ صرف مجرموں کی صفوں میں ہی کھڑے نظر نہیں آتے بلکہ کئی کامیاب بزنس مین اور سیاسی رہنما بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اس لئیے پہچانے نہیں جاتے چونکہ وہ قانون کی زد میں نہیں آتے۔ ایسے لوگ ایک نارمل زندگی کا روپ یا بہروپ یعنی ماسک پہن کر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

کلیکلی اس کتاب میں ہمیں ایسے لوگوں کی خصوصیات کے بارے میں بتاتے ہیں۔
پرکشش شخصیت
خود پر گھمنڈ اور غرور
تفریح کی غیر موجودگی میں جلد بور ہو جانا
حد سے زیادہ جھوٹ بولنا
مکاری اور چالبازی
احساس شرم اور احساس جرم کا فقدان
خوشی اور غم کا سطحی پن
اوروں سے ہمدردی اور ہم احساس کا فقدان
دوسروں کے سہارے زندگی گزارنا
جلد غصے ہو جانا
اوائل عمر سے ہی بے راہ روی
غیر ذمہ داری کی زندگی گزارنا
اپنے اعمال کے نتائج کو قبول نا کرنا
چونکہ ایسے لوگ کافی ذہین اور مکار ہوتے ہیں اس لئیے آپنی چالاکی اور مکاری سے قانون کی زد سے بچ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت میں ایسی کشش ہوتی ہے بہت سے لوگ انہیں نہ نہیں کہہ سکتے اس لئیے ایسے لوگ آپنی پرکشش شخصیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگ آپنے مقاصد کے لئیے آخری دم تک جائز اور ناجائز طریقوں سے لڑتے ہیں۔

جوں جوں ہمارے انسانی معاشروں میں نفسیات کی تعلیم عام ہو رہی ہے لوگ اب ایسے لوگوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں آپنے معاشروں کے اندر تا کے ایسے لوگ نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا نا کریں آپنے خاندانوں اور معاشروں کے اندر۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے ان کے بارے میں قانون کے اداروں کو ان کے بارے میں بتانے سے ہی ہم لوگ آپنے معاشرے میں پر آمن اور اچھی زندگیاں گزار سکتے ہیں اور معصوم لوگوں کو ان کا شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ باتیں اس پوسٹ میں زیادہ تر میں نے کتاب "انسانی نفسیات کے راز" (ڈاکٹر خالد سہیل) کی ایک کتاب سے لکھی ہیں جو نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ایک کافی اچھی کتاب انھوں نے لکھی ہے۔ میں اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں سوچا کچھ آپ سے بھی شئیر کروں تا کے ہم سب ان باتوں سے کچھ سیکھیں اور آپنے معاشروں میں ان پر عمل درآمد کریں۔۔

بچوں کی پرورش و نگہداشت میں عمومی طور پر والدین چار رویوں کو اپناتے ہیں ۔▪️دوستانہ و مجازی مادریت (Permissive Parenting)...
25/11/2023

بچوں کی پرورش و نگہداشت میں عمومی طور پر والدین چار رویوں کو اپناتے ہیں ۔

▪️دوستانہ و مجازی مادریت (Permissive Parenting)

مجازی مادریت میں والدین اپنے بچے کے متعلق بہت ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن اس پر زیادہ زمہ داری ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اسکے اوپر قانون و ضابطے لاگو نہیں کرتے اور اس کو اپنے فیصلے اور اپنی بات کو پورا کرنے کا حق دیتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کی خوشی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اور ان پر کوئی پابندی لگانا یا انکا آقا بننا انکے مزاج میں ہی نہیں ہوتا ۔ ایسی پرورشِ کو مجازی مادریت یا دوستانہ مادریت کہتے ہیں ۔

▪️حاکمانہ مادریت ( Authoritative Parenting )

حاکمانہ مادریت میں والدین اپنے بچے کو بلکل بے مہار نہیں چھوڑتے بلکہ ان پر قوانین ضابطوں کا اطلاق کرتے ہیں یہ اپنے بچوں کے بارے میں بہت ذمہ دار ہوتے ہیں اور ان سے بھی ذمہ داری کی توقع رکھتے ہیں ۔ بچوں کو بات چیت کے ذریعے کبھی ، کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے اور کبھی پیار سے اپنی بات کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اولاد کی بات سنتے ہیں انکے خیال و جذبات کی قدر کرتے ہیں اور چیزوں کو تدبر سے نبٹانے کی سعی بھی کرتے ہیں ۔

▪️تغافلی مادریت (Neglectful Parenting )

پرورش و نگہداشت جیسے سنجیدہ و حساس امر کو انجام دینا یوں بھی سب لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی ماں باپ بننا تو بہت آسان ہے والدین کے فرض ادا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے ایک بڑی تعداد والدین کی ایسی ہوتی ہے جو بچوں کی پرورش و نشونما کے علاؤہ اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں مصروف یا سرگرم عمل رہتے ہیں۔ وہ کبھی بھی پرورش کے عمل کو سنجیدہ لیتے ہی نہیں اور اولاد کی نگہداشت و تربیت سے یکسر بیگانہ رہتے ہیں۔

▪️آمرانہ مادریت ( Authoritarian Parenting )

آمرانہ طرز پرورش میں والدین خود کو حاکم اور اپنے بچوں کو محکوم سمجھتے ہیں گویا یہ والدین و اولاد سے زیادہ کسی فوجی ادارے کا طرزِ زندگی لگتا ہے ۔ اس میں والدین اپنے بچوں سے بہت زیادہ ذمہ داری اور بڑی توقعات کو جوڑے رکھتے ہیں ۔ اسکو بات بات پر کھینچنا اس کی سر زنش کرنا ہر وقت اسکو حکم کی پابندی پر مائل و قائل رکھنا جذباتی رویہ رکھنا یہ سب آمرانہ طرزِ مادریت کی خصوصیات ہیں ۔

الغرض چاروں کارِ پرورش و طرزِ نگہداشت اپنے اپنے مسائل اور فوائد کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن جب بات پرورش کی آئے تو ان چاروں کو اس نسبت سے اپنانا چاہیے کہ ایک بڑا حصہ حاکمانہ مادریت کا ہو پھر اسکے بعد ایک حصہ دوستانہ طرزِ مادریت ہو اور پھر اسکے بعد کسی کسی جگہ آمرانہ طرزِ مادریت باوقتِ ضرورت ہو اور پھر کبھی کبھار بچوں کو اگنور کرنا انکی چھوٹی موٹی غلطیوں کو حرفِ آخر سمجھنے کی بجائے نظر انداز کرنا ۔ یہ سب طرزِ مادریت جب ایک خاص نسبت سے تعامل کرتے ہیں تو اولاد ایک معتبر ، پر اعتماد اور باکمال شخصیت بن جاتی ہے ۔

14/11/2023

سردیوں میں ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟
سردیوں میں ہونے والے ڈپریشن کو SAD یعنی (Seasonal Affective Disorder) کہا جاتا ہے۔
SADکی وجوہات
سردیوں میں سورج گرمیوں کی نسبت کم نکلتا ہے۔ سورج کی روشنی کی کمی کی وجہ سے دماغ میں پائے جانے والے کچھ کیمیکل اوپر نیچے ہو جاتے ہیں۔
دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے سونے، جاگنے اور دیگر کاموں کی روٹین تبدیل ہو جاتی ہے۔
اردگرد کے ماحول میں شور کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے خاموشی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
جو لوگ جذباتی طور پر حساس ہوتے ہیں، وہ لوگ ان باتوں کی وجہ سے بہت جلد SAD کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اگر آپ کو یا آپ کے ارد گرد کسی بھی شخص کو SAD ہے تو ماہر نفسیات سے رابطہ کریں۔

10/10/2023

جذبات اور احساسات

کل میں نے لکھا تھا کہ وہ لوگ جو اپنے جذبات کو مینج کرنا نہیں سیکھتے تو ان کے جذبات ان کے خلاف ہی ملٹی پلائی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ہیومن ایموشن بہت سارے ہے جیسا کہ غمی، خوشی، اداسی، کراہت، مزہ، سکون، بے چینی، بیزاری،محبت اور نفرت وغیرہ۔ان میں سے جتنے بھی
نیگٹو ہیومن ایموشن ہیں وہ پوزیٹو ایموشن سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور انسانی فطرت ایسی ہے کہ وہ منفی جذبات کو زیادہ سیریس لیتا ہے اور ان پر زیادہ رد عمل ظاہر کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ہمارا سکول، کالج، گھر اور ہمارے پرورش کرنے والے لوگ ہمیں مختلف قسم کی چیزیں سکھاتے ہیں ہمیں اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی سکھایا جاتا ہے لیکن ہمیں کبھی کوئی یہ نہیں سکھاتا کہ ہم نے اپنے جذبات کو کیسے "مینج" کرنا ہے۔
جی ہاں! میں نے یہاں پر جذبات کے لیے مینجمنٹ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

ایک لمبا اور گہرا سانس لیں، جسے سکھ کا سانس بھی کہا جاتا ہے اور ذرا اپنے ماضی کی زندگی کے بارے میں سوچیں، جب بھی کبھی اپ نے غصہ کیا یا کبھی اپ نے کسی سے بہت زیادہ محبت کی یا کبھی اپ کو بہت زیادہ کراہت یا چڑچڑا پن محسوس ہوا تو سب نے اپ کو کیا کہا؟
اپ کے ارد گرد کے لوگوں نے اپ کے ماں باپ نے بہن بھائیوں نے دوستوں نے سب نے اپ کو یہی کہا کہ خود پر کنٹرول کرو، کنٹرول کرو، کنٹرول کرو، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
یعنی ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ہمیں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا چاہیے جو کہ سراسر غلط ہے انسانی جذبات کو اپ کنٹرول کریں گے یا انہیں دبائیں گے تو یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ ہر وہ چیز جسے دبایا جاتا ہے وہ کبھی نہ کبھی ضرور پھٹ پڑتی ہے۔

فادر اف سائیکالوجی سگمن فرائڈ کا بھی یہی کہنا ہے:
"وہ جذبات جنہیں جن کا اظہار نہیں کیا جاتا یا جن جذباتوں کو دبایا جاتا ہے وہ آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتے ہیں اور ایک عرصے کے بعد بری طرح ظاہر ہوتے ہیں۔"

جذبات اور احساسات میں کیا فرق ہوتا ہے؟

بظاہر دکھنے میں اور بولنے میں جذبات اور احساسات ایک ہی ہیں لیکن میری نظر میں یہ دو الگ چیزیں ہیں جذبہ اپ کے اندر بائلوجیکلی، نیورولوجیکلی، کیمیکلی اور سائکلوجیکلی ری ایکشنز کا مکسچر ہوتے ہیں بہت سے انسانی جذبات ایسے ہیں جن کا رونما ہونا قدرتی بات ہے۔ جیسا کہ کسی ناپسند چیز پر غصہ ا جانا کسی بھی قدرتی افت یا افسردگی کی خبر پر غمزدہ ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔

جبکہ احساسات کا تعلق ہمارے رد عمل سے ہے۔ یعنی جب کوئی ہیومن ایوشن ایکٹیویٹ ہوتا ہے تو ہم اس پر اپنا رد عمل کیسے دیتے ہیں؟ اسے کیسے محسوس کرتے ہیں؟ احساسات کا تعلق ان سے ہوتا ہے۔مثال کے طور پر خوش ہونا ایک جذبہ ہے اور خوشی میں ہنسنا ایک احساس ہے اسی طرح سے دکھی محسوس کرنا ایک جذبہ ہے اور دکھی ہوتے ہوئے رونا اور آنسوں کا ا جانا ایک احساس ہے۔

ہم اپنے جذبات کو کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن اپنے احساسات کو مینج کر کے اپنے منفی اور نقصان پہنچانے والے ایموشنز کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔

ہر قسم کے ہیومن موشن الگ طرح سے کام کرتے ہیں اسی طرح ان کو مینج کرنا یا انہیں ان پر کام کر کے انہیں ٹھیک کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔
یعنی اگر کوئی بہت زیادہ غصہ کرتا ہے تو غصے کے ایموشن کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں اینگر مینجمنٹ(Anger Management) سیکھنی پڑتی ہے۔

گویا سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سیکھنے کے عمل کو صرف ڈگریوں، سکول اور کالجز کی تعلیم تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔

اپنا analysis خود کریں وہ تمام جذبات جن پر اپ کو کام کرنے کی ضرورت ہے یا جن پر اپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ پریشانی کا باعث ہیں ان کو مینج کرنا چاہیے ان کی لسٹ بنائیں اور اپنے قریبی کوالیفائیڈ ماہر نفسیات سے اپنے جذبات کو میمج کرنا سیکھیں۔

نوٹ: کسی بھی ہیومن ایموشن کو مینج کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کرنا حماقت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے اس سے اپ کو فائدے کی جگہ نقصان ہوگا۔

07/10/2023

*♦️ توجہ طلب۔۔۔*

ٹِک ٹاک سمیت دیگر تمام apps جو مختصر دورانیہ کی ویڈیوز والے فیچر پر مشتمل ہیں یہ انسانی ذہن کے لیے زہرِ قاتل ہیں. انسان کے سوچنے کی صلاحیت کا سارا دارومدار اس کے concentrate کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اور یہ مختصر ویڈیوز والا فیچر concentration لیول کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے۔

ہر 5 سیکنڈ، 10 سیکنڈ یا ایک منٹ کے بعد نئی آنے والی ویڈیو کا کانٹینٹ پچھلی ویڈیو سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔۔
اور ایک گھنٹے تک شارٹ ویڈیوز دیکھنے والے انسان کا دماغ کم ز کم سو سے زیادہ موضوعات پر جمپ کرتا ہے۔۔
اور اس شدید بھاگ دوڑ والے ایک گھنٹے بعد جب موبائل سکرین سے نظر ہٹائیں تو دماغ تقریباً سُن ہو چکا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک دوسرا خطرناک نتیجہ جو ان apps کے بے دریغ استعمال سے برآمد ہو رہا ہے وہ انسانی جذبات کا قتلِ عام ہے۔
یعنی ایک دس سیکنڈ کی انتہائی سنجیدہ ویڈیو کے فوری بعد اگلی دس سیکنڈ کی ویڈیو کسی اسٹیج ڈرامے کی clip پر مبنی ہوتی ہے۔ اور انسان محض دس سیکنڈ کے اندر انتہائی سنجیدہ موڈ سے نکل کر ہنسی مذاق کے موڈ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور یہ عمل ایک نشست میں درجنوں مرتبہ دہرایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ دیر تک ایک ہی احساس کو برقرار رکھنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔

اس کے براہ راست نتائج جو سامنے آ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم کسی ایک طرح کی سیچوایشن میں بہت جلدی بور ہونے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ انسان ترقی کی جس معراج پر آج موجود ہے مقام تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار انسان کی گھنٹوں ایک ہی موضوع پر مرتکز رہنے کی دماغی صلاحیت کا ہے۔ نجانے کتنے فلسفیوں اور سائنسدانوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں ایک ایک مسئلے کو سلجھانے میں گزاریں تب جا کر ہم موجودہ مقام پر پہنچ پائے ہیں۔

لیکن اس وقت انسانی دماغ کی ارتکاز کی صلاحیت کے ساتھ جو کھلواڑ مذکورہ apps کے ذریعے جاری ہے یہ مستقبل میں انسانوں کو. Zombies میں بدل دے گا۔۔
ایسے zombies جنہیں اپنے اردگرد موجود مسائل سے نہ تو کوئی سروکار ہو گا اور نہ ہی ان کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہو گی۔

Address

Peshawar
25000

Opening Hours

Monday 09:00 - 22:00
Tuesday 09:00 - 22:00
Wednesday 09:00 - 22:00
Thursday 09:00 - 22:00
Friday 09:00 - 22:00
Saturday 09:00 - 22:00
Sunday 09:00 - 10:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Clinical Psychologist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Clinical Psychologist:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram