18/12/2023
موسم کے انسانی نفسیات پر اثرات
(حصہ اول)
ہر موسم کی ایک خوبصورتی اور اہمیت ہوتی ہے۔ ہر موسم ہی اپنے اندر ایک جاذبیت اور انفرادیت رکھتا ہے ہر ماحول اور ہر موسم کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے انسانی بدن کی فطری،طبعی اور مادی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خوراک ، لباس، طرزِ رہن و سہن اور بود و باش کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ماہر عمرانیات و نفسیات ابن خلدون کہتے ہیں کہ ایک انسانی معاشرے پر تین چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں پہلی چیز مذہب ہے دوسری چیز جغرافیہ اور تیسری چیز وسائلِ حیات کی فراوانی اور عمدگی ھے انھوں نے جغرافیائی موسم کو بھی انسانی مزاج پر اثرانداز ہونے کے بارے پہلی بار سائنسی طور پر ثابت کیا تھا
The human psyche is influenced by many factors. Genetics, environment and experiences all play a role in shaping our mindsets and personalities. On a biological level, weather can affect the human body's internal clock, or circadian rhythm, which regulates sleep, appetite, and mood. For instance, less sunlight in winter can disrupt your body's internal clock, leading to feelings of depression.
بیرونی موسم انسان کی طبیعت پر اثرات مرتب کرتا ہے قدرت کے موسم جواپنے وقت پر آتے جاتے ہیں انسانی مزاج پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ سردیوں میں سرشام ہی سڑکیں ویران ہوجائیں، کھڑکیوں پر پردے گرا دیے جائیں‘ افراد خانہ آنگن سے کمروں کا رخ کرلیں‘ کمروں میں سردی سے دبک کر بیٹھ جائیں تو ایسے موسم میں دل میں اداسی سی اتر آتی ہے۔ اسی طرح بہار کا آغاز… جہاں خوب صورت، رنگ رنگ کے پھولوں سے منظر کو خوب صورت بناتا ہے وہیں کچھ لوگ حساس لوگوں میں بہار کی آمد سے ہلکے ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے موسم بہار میں بعض لوگ گردش خون سے متعلق مسائل، غنودگی اور تھکاوٹ کی علامات کے ساتھ بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جدید نفسیات کی سائنس نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ بہار آنے پر ذہنی دبائو کے مریضوں کی بیماری کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل موسمی ذہنی تنائو یا Seasonal Depression کے مریض ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کو طبِ نفسیات میں Seasonal affective disorder
کہا جاتا ہے جس کو مختصر SAD کہا جاتا ہے
SAD is a type of depression that comes and goes in a seasonal pattern. SAD is sometimes known as "winter depression" because the symptoms are usually more apparent and more severe during the winter. Some people with SAD may have symptoms during the summer and feel better during the winter.
موسم کے لحاظ سے انسانی روے تبدیل ہوتے رہتے ہیں جسے سائنسی اصطلاح میں 'سیزنل افیکٹو ڈس آرڈ' موسمی اثر سے پیدا شدہ بیماری یا 'ونٹر ڈپریشن' کا نام دیا گیا ہے۔ اس علامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے 'سیڈ' یعنی اداسی کا نام بھی دیا گیا ہے۔
Weather affects our moods, temperaments, depression and outlook. It can also affect people's personalities. While mildly warm temperatures might be pleasant, soaring hot temperatures can cause people to become aggressive.
مختلف لوگ مختلف موسم میں ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مثلاً موسم سرما میں ڈپریشن کی اہم علامات اگر سرد موسم اور چھوٹے دن آپ کے موسم سرما کے بلیوز یعنی ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں سردیوں کے موسم میں تھکاوٹ، اداسی، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، اور آپ کی نیند کے شیڈول میں رکاوٹ کا سامنا کرنا معمولی بات ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کے لیے، یہ مزاج کی تبدیلی عارضی ہوتی ہے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے ساتھ آسانی سے منظم کی جاتی ہے۔ لیکن دوسروں کے لیے، موسم سرما کے بلیوز زیادہ شدید قسم کے ڈپریشن میں بدل سکتے ہیں سردیوں کا موسم خصوصا شامیں اداس اور ناامیدی سے پُر محسوس ہوتی ہیں سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں سخن شناس اسے اداسی اور ہجر کا موسم کہتے ہیں کیونکہ جاڑوں کی راتوں میں اکثر لوگ ایک طرح کی غیر محسوس اداسی میں ڈوب جاتے ہیں۔ بعض ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ سردیوں میں ذہنی پیچیدگیوں کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں اداسی ، غم اور ہجر کی کیفیات کے ساتھ ساتھ رومانویت کا عنصر بھی بڑھ جاتا ہے جو اکثر و بیشتر شعرا اور ادیبوں کی تخلیقی صلاحیت کو نکھارنے میں مدد دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اسکی سب سے بڑی وجہ انسانی جسم کو سورج کی روشنی کا کم ملنا ہے، دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونے کی وجہ سے لوگ اپنا زیادہ تر وقت اندھیرے یا کم روشنی میں گزارتے ہیں، ایسے ممالک جہاں سورج کم کم نکلتا ہے، جیسے روس اور کینیڈا کے کچھ علاقے، وہاں لوگوں میں ڈپریشن یعنی اضمحلال اور ایس اے ڈی یعنی سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر اور دیگر نفسیاتی امراض کے علاوہ خودکشی کا رجحان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی جسم کو ایک روز میں جتنی روشنی درکار ہوتی ہے وہ عام طور پر نہیں مل پاتی۔ موسم کی شدت کے باعث اکثر لوگ باہر گھومنے پھرنے سے نسبتاً گریز کرتے ہیں اور ان کا معاشرتی میل جول بھی قدرے کم ہوجاتا ہے۔ طبی ماہرین کے بقول ہمارے دماغ میں ایک خاص قسم کا سیال مادہ سیروٹانن کہلاتا ہے جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ موسم سرما میں سورج کی روشنی میں کمی اور طلوع و غروب کا دورانیہ کم ہونے سے اس سیال مادے میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو براہ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اس موسمی تغیر کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کرتے البتہ پہلے سے مختلف جسمانی بیماریوں میں مبتلا طبقہ ذہنی الجھنوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ ان افراد میں روزمرہ کے کاموں کی رفتار اور موڈ دونوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں سورج کی روشنی دراصل انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اندر کے اندھیرے کو بھگانے کا باعث بنتی ہے۔ جب کہ بی بی سی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق زاریہ گورویٹ کہتی ہیں کہ صدیوں سے لوگوں کا خیال رہا ہے کہ گرم موسم ہمارے طرز عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور یہ ہی سبب ہے کہ یہ ہمارے روزمرہ محاورے کا حصہ بن چکا ہے۔ مثلاً گرمی کھانا، تپ چڑھنا، مزاج میں گرمی، پارا چڑھنا خون میں گرمی، وغیرہ اس بارے میں ابتدائی تحقیق 19ویں صدی کے اواخر میں سامنے آئی جب جرائم کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار مرتب کیے گئے۔ ایک تجزیے کے مطابق لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ سے متعلق زیادہ جرائم کا ارتکاب موسم گرما میں ہوا، جبکہ چوری چکاری کے زیادہ واقعات سردیوں میں پیش آئے۔ہر سال جیسے ہی پارا چڑھنے لگتا ہے ہمارے اجتماعی مزاج میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ اس کی کچھ علامات میں ٹریفک جام ہونے کی صورت میں ہارن کا بجانا اور عمومی بدمزاجی کا زیادہ اظہار وغیرہ شامل ہیں۔ گرمی کے موسم میں لوگ اجنبیوں کی مدد کرنے پر بھی کم آمادہ ہوتے ہیں صادقہ خان ڈان نیوز میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں کہ "اس مرض میں زیادہ تر وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ چونکہ سردیوں میں دن کا دورانیہ چھوٹا ہو جاتا ہے اور شدید خشک سردی میں دھوپ کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے اس لیے کئی ماہ تک ایسے ماحول میں رہنے سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں جس سے ان کے روزمرہ کے کام کی رفتار اور موڈ دونوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ شدید سردی میں بستر سے نکلنا کسی محاذ سے کم نہیں ہوتا۔ اس محاذ کو جیسے تیسے سر کر کے ہم روزمرہ کے کام شروع کرتے ہیں تو دیگر عوامل رکاوٹ بنتے ہیں جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
سرکیڈین کلاک
ہماری روزمرہ کی روٹین سے ہمارے اندر کی گھڑی کی ٹائمنگ سیٹ ہوتی ہے اسے سائنسی اصطلاح میں 'سرکیڈین کلاک' کہا جاتا ہے۔ موسم سرما میں صبح کے وقت شدید سردی، کہر یا اسموگ کے باعث صبح 9 بجے تک بمشکل سورج نکل پاتا ہے۔ ایسے میں آفس، اسکول یا گھر کے کام کاج کے لیے وقت پر ہی اٹھنا پڑتا ہے مگر ہماری سرکیڈین کلاک کہتی ہے کہ ہمیں ابھی اور آرام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گھڑی سورج کی روشنی پر چلتی ہے۔ اسی طرح رات جلدی ہوجاتی ہے اور شدید سردی میں لوگوں گھروں میں ہیٹر یا انگیٹھی کے پاس مقید ہوجاتے ہیں۔ ابتدا میں مونگ پھلیوں، خشک میوہ جات اور گرم طاقتور کھانوں کے ساتھ یہ سیشنز کافی لطف دیتے ہیں مگر آہستہ آہستہ بوریت اور اکتاہٹ بڑھنے لگتی ہے۔
سیرو ٹانن لیول
ہمارے دماغ میں ایک خاص قسم کا سیال مادہ سیروٹانن کہلاتا ہے جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ موسم سرما میں سورج کی روشنی میں کمی اور طلوع و غروب کا دورانیہ کم ہونے سے اس سیال مادے میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو براہ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو کسی خاص وجہ کے بغیر ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔
میلا ٹانن لیول
سیروٹانن لیول میں کمی سے دماغ متاثر ہوتا ہے جس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے اور دیگر مادوں مثلاً میلاٹونن لیول میں کمی کی وجہ سے نیند کے اوقات میں واضح تبدیلی آتی ہے یا تو بالکل نیند نہیں آتی یا پھر بہت زیادہ نیند آتی ہے اور مریض کے لیے روزمرہ کے کام سرانجام دینا مشکل ہو جاتا ہے"
جاری
منقول