Escribiring

Escribiring Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Escribiring, Doctor, Peshawar.

As i am writing this sitting in library,post failure day 1 of FCPS 1.Upon realizing what i missed after giving a dedicated attempt and studying full course with convincingly placing myself in RATTA MAAR category is LUCK.My side of story.WHAT's YOURS??????

پارٹ 4پڑھائی اور سکھانے میں مگن رہے ارو پھر امتحان میں اپنی قسمت آزمانے کا وقت آیا۔اس بار کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی پڑھائی...
09/09/2023

پارٹ 4
پڑھائی اور سکھانے میں مگن رہے ارو پھر امتحان میں اپنی قسمت آزمانے کا وقت آیا۔
اس بار کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی پڑھائی میں۔جتنا کر سکتے تھے اس سے زیادہ محنت کی اور اس بار ایک اور کام کیا جو پہلے نہ کيا تھا۔ وظیفہ بھی کر بیٹھے اور دعائیں بھی کہ اگر میرے لیے اس میں خیر و عافیت ہوئی تو میرے مولا کشتی کنارے لگا دیں۔کب سے ناؤ میں بیٹھے کوشش کررہے ہیں کہ زمین کی خوشبو نصیب ہو جائے۔
اپنی گاڑی میں بیٹھ کے روانہ ھوئے اور راستے میں سوچ رہے تھے کہ انشاء اللہ اس بار سفلتا ضرور مِلے گی ۔
امتحان کے مرکز پہنچے تو کچھ دوستوں کو شکل دیکھ کے ترس آیا اور ہماری ہمت باندھی ۔کچھ ہماری طرح تھے جو دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔
میں نے بھی اپنی پڑھائی کی داستانیں اور اپنی محنت کے غوطے بتائے اور انہوں نے افسردگی بھی دکھائی ۔امتحان کے سینٹر گئے تو اپنی نشست پر براجمان ہوئے اور گڑھی کو دیکھنے لگے اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگے کہ اللہ مدد کرا دیں اور اگر نہ آئے تو تکے لگا دیں۔
پہلے حصے کے احتتام پر باہر نکلے تو سینا چوڑا کر کے نکلے اور دل میں اطمینان اور چہرے پے مسکراہٹ عیاں تھی۔دوست بولے ہوجائےگا تیرا انشاء اللہ اس بار۔ہم بھی پر مسرّت بولے وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا ۔چائے اور سموسے کھا کے دوبارہ امتحان کہ مرکز میں گئے اور کرسی پر بیٹھ کے لیپ ٹاپ کو گھورنے لگے اور کلمے پڑھ کر امتحان دے دیا۔
خدا کی شان مجھے ٹیسٹ آسان لگا کیونکہ محنت اور پڑھائی بُہت ہو چکی تھی اتنی کہ اپنی کتاب لکھ لیتا۔
جب باہر آیا تو اوپر چھت کو دیکھا اور دعا کی کہ ہوگیا ہے انشاءاللہ اس بار۔
جسنے بھی پوچھا کہ کیسے ہوا۔ڈر کے مارے بول ہی نہ پائے کیونکہ پرانی شکستیں ہمیں یاد تھی ۔رات کو فیسبوک گروپ میں اپنے ٹیسٹ کی جوابات دیکھی اور دل ہی دل میں دعا کی کہ اس بات نیّا پار لگا دیں میرے مولا ۔
قسمت بھی معلوم تھی اپنی لیکن محنت پے بھروسہ تھا کہ شاید آنے والا وقت میرا ہوگا۔
اسی سوچ میں شامیں ڈھلتی گئی۔

08/09/2023

part 3
خیر قصہ مختصر فروری کا رزلٹ آیا جو نہایت ہی شاندار رہا اور 3۔0 percent سے رہ گیا۔
آہ برتے ہوئے شام کو جب صوفے پر آرام فرما ہوئے اور چھت کو گھورنے لگے تو سوچا کہ کاش ایسا بھی دن کوئی آئے کہ ہم بھی کہہ سکے کہ امتحان میں کامیاب ھوئے ہے ہم۔
خیر بُہت سوچنے کے بعد شکر ادا کیا کہ زندہ ہیں، سانس چل رہی ہے، چھوٹی سی نوکری ہے، گزر بسر ہورہی ہے۔
پھر سے کمان نکالی اور تین مہینے بعد پھر نشانہ لگانے کی ٹھان لی۔
اب سارا ملا کے ہم دو امتحان مکمّل پڑھائی کے ساتھ فیل کر چکے تھے۔
وہ کیا کہتے ہیں چل چل کےتھک کے سمندر کے کنارے پیاسے پہنچے اور پانی ہی نصیب نہیں ہوا۔
اسی اثناء میں میں جہاں سے ہم نے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی وہاں PAEDAITRICS MCPS کی کچھ نشستیں آئی۔
میڈیکل کے طلباء کو پڑھاتے پڑھاتے دل ہمارا مضطرب ہو گیا تھا کہ ڈاکٹری کب کرینگے۔اوپر سے سب FCPS پاس کر رہے تھے اور گھر والے ہمیں دوش دے رہے تھے اور ہم اپنی قسمت کو کوس رہے تھے۔
اب کیا کریں جب ماتے میں FCPS کی لکیر نہیں تو کیا کرتے؟ کس سے لڑتے ؟
بس اپنی جان میں یہی محنت تھی اور پھر یہی سوچ کے ساتھ کتابوں کے زلفوں میں اسیر ہوگئے۔
لوگوں کی باتیں، قسمت کے طمانچے، کتابوں کی بے روی ، میری چھوٹی سی جان جائے تو کہاں جائے۔
بچوں کو اناٹومی پڑھاتے اور MCPS کی انٹرویو بھی ہوگئی اور زور شور اور چپکے سے پڑھ کے پھر کون بنے گا FCPS پتی؟ کے شو میں پہنچ گئے۔
ایک صاحب مِلے جوکہ شاید دنیا کے نکمّے انسان ہو انہوں نہ عرض کیا "شہزاد خان رہنے دو تم سے نہ ہو پائیگا"
غصہ نہیں البتہ خفگی ہوئی کہ اتنا ہی بول دیتے کہ انسان محنت ہی کر سکتا ہے، محنت کو رنگ دینے والا تو اوپر کی ذات ہے۔
خیر جلی کٹی باتیں تو بچپن سے سنتے آرہے ہیں، اُسکے بیٹے نہ یہ تیر مار لیا ، اسکی بیٹی نے وہ پہاڑ سر کر لئے۔
ہم بھی ڈھیٹ اپنی ناکامی کی سزا اپنے آپ کو دینے کی بجائے اپنی قسمت کو دیتے تھے۔
جاری ہے۔

سال 2013 سے ڈاکٹری کے طبقے سے منسلک ہوں اور شاید یہ واسطہ اور بھی پرانا ہے کیونکہ بچپن کا کچھ عرصہ میرا سرکاری ہسپتالوں ...
17/04/2023

سال 2013 سے ڈاکٹری کے طبقے سے منسلک ہوں اور شاید یہ واسطہ اور بھی پرانا ہے کیونکہ بچپن کا کچھ عرصہ میرا سرکاری ہسپتالوں کے بنگلوں میں گزرا۔اب جبکہ خود عملی طور پر ہوں تو معاشرے کو ننگا ہوکے دیکھ لیا ہے۔دل خفا بھی ہوتا ہے اور خون کے آنسو بھی روتا ہے۔زیادہ عام عنصر یہ ہے کہ ڈاکٹرز سارے لکھتے کچھ نہیں اور کماتے بُہت زیادہ ہیں حالانکہ ایسا بلکل نہیں۔بُہت ڈاکٹرز ہیں جنکے ہاتھ میں شفا ہیں جنکے مریض زیادہ ہیں تو کماتے بھی زیادہ ہیں جیسا کہ کاروبار میں ہوتا ہے کسی کا چلتا ہے کسی کا نہیں۔جو جتنا زیادہ پرانا کاروباری ہوتا ہے اتنا ہی کم کام کرتا ہے اور زیادہ کماتا ہے۔لیکن اُسکے بارے میں کبھی کسی نے بات نہیں کی بلکہ ڈاکٹرز کے مال پے ہمیشہ ہی سب کی نظر ہوتی ہے۔
اب میری مثال لیں مہینے میں 180 گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی کرتا ہوں اور تنخوا پچاس ہزار روپے ہیں اور کام بھی نازک اور اوپر سے ہمارے عوام جو ہمیشہ ہمیں جوتے کے نوک پر رکھتے ہیں،بدتمیزی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم قصاب ہیں اور بس ایسے ہاتھ لگا لیا اور دوائیں لکھ دی اور اسکا کیا گیا۔یہ میں نہیں کہہ رہا کہ سب ایسے ہیں لیکن زیادہ تر یہی سوچ رکھتے ہیں۔
اب اگر اسکی وجوہات دیکھیں تو میرے خیال میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ شاید لوگوں میں غربت زیادہ ہیں اور ہم سب امیر ہیں،شاید ہمارا پیسے کمانا غلط ہے،شاید ہم بغیر پڑھائی کے نوکر ہوجاتے ہیں،ہمارے کوئی گھر والے نہیں،ہم نے بجلی کا بل نہیں دینا ہوتا،ہم نے کھانا نہیں کھانا ہوتا۔میرے عزیز ہموطنوں جیسے کہ آپ اپنی زندگی اور اپنی امور میں محنت کرتے ہیں،اور اچھا اور زیادہ اور حق حلال کی کمائی کرنا چاہتے ہیں،اکثر دو ڈیوٹیز کرتے ہیں تاکہ ضروریات پوری ہوں اسطرح ہمیں بھی حق ہے یہ سب کچھ کرنے کالیکن پھر یہ میں منافقت ہمارے لیے کیوں؟ یہ دوغلا پن ہمارے لیے کیوں؟
کیا ہم انسان نہیں یا ہمارے پیچھے کوئی نہیں۔
اُس دن ایک بندہ آیا اور میرے منہ پر اپنا ATM کارڈ پھینک دیا اور کہا کہ اس میں دس کروڑ روپے ہیں اور میں نے جب اوپر دیکھا تو اُسکے آگے والی جیب میں تین کیمرو والا iphone پڑھا ہوا تھا۔خیر میں نے کچھ نہ کہا اور صبر کیا کیوں اللہ اُنکے ساتھ ہے جنہوں نے صبر کیا اور وہ ہر چیز دیکھ رہا ہے ۔
دل تو بُہت کرتا ہیں کہ سب کچھ چھوڑ کے چلا جاؤں ،عزت بھی ہوگی،بدنیتی بھی نہیں ہوگی،اوروں کی نظر میرے مال پر بھی نہیں ہوگی ،اچھے پیسے بھی ملینگے اور عزت بھی ہوگی لیکن کیا کریں دل ہے کہ مانتا نہیں،گھر والے ہیں،اپنی مسجد اور اپنے لوگ ہیں اور قیامت کے دِن سب کے نیتوں کا حساب ہوگا اور اللہ دلوں کے حال سے خوب واقف ہے۔
اب میری قسمت میں پیسے ہونگے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا بشرطِ یہ کہ میرے ہاتھ میں شفا ہو اور میری نیت صاف ہو۔
بقلم جمال

کہانی ہے موسیٰ خان کی  معجزے کی 01رات کو تقریباً 12 بجے دو بچے الگ الگ ایمرجنسی میں دوسرے ہسپتال سے ریفر ہوکے آتے ہیں۔دو...
04/03/2023

کہانی ہے موسیٰ خان کی معجزے کی 01
رات کو تقریباً 12 بجے دو بچے الگ الگ ایمرجنسی میں دوسرے ہسپتال سے ریفر ہوکے آتے ہیں۔دونوں کو آکسیجن لگی ہوئی ہوتی ہے جن میں سے ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام موسیٰ ہوتا ہے۔
میں پہلے ایمبولینس میں محمد کو دیکھتا ہوں جسکے حالات بہتر ہوتے ہیں اور اگلے ہی ایمبولینس میں موسیٰ کو دیکھتا ہوں جسکی امی اسے اپنی آغوش میں سنبھالے بیٹھ کر رو رہی ہوتی ہے اور بچہ آکسیجن کے ساتھ بھی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے اور جیسے ہی میں موسیٰ کی آنکھیں کھولتا ہوں تو اسکی آنکھ کا کالا ایک میں چھوٹا اور دوسرے میں بڑا ہوتا ہے اور شدید سانس کی تکلیف کے ساتھ اسکو شدید بخار بھی ہوتا ہے۔
چونکہ میں پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرتا ہوں اِسلئے مریض کو داخل کرتے وقت اس کو بتایا جاتا ہے کہ یہاں خرچہ کافی زیادہ ہے اور آپ داخلے کے وقت پیسوں کی ساری معلومات لے لیں کیونکہ اگر آپ کے ساتھ پیسے کم ہیں تو یہ اچھا ہوگا کہ بجائے یہاں پھر علاج ادھورا چھوڑنے کی بجائے آپ وہاں علاج کریں جہاں علاج بچے کا پورا ہو اور وہ آپکے اور آپکے بچے کے لئے فائدہ مند ہو۔
جیسے ہی میں نے یہ بات کی اُسکے چچا شاید مجھے تلخ لہجے میں بولا اور اشارہ کیا دروازے کوکہ جاؤ ڈاکٹر صاحب اپنا علاج شروع کرو اور زیادہ باتیں نہ کرو۔
پورے مہینے جب آپ رات کو اکیلے ڈیوٹی کریں تُو آخر میں صبر جواب ہی دے دیتا ہے اور صبر جواب دے گیا۔میں نے کہا آپکا مریض بُہت بیمار ہے،شاید نہ بچے لیکن تمیز سے بات کرنی ہے اور میرے لہجے سے اوپر میرے ساتھ بات نہیں کرنی اور میں مریض کو داخل کر رہا ہوں کیونکہ جگہ ہے بچوں کی انتہائی نگھداشت والے وارڈ میں اور ساتھ میں یہ بھی کہاں اگر زیادہ بتمیزی کی تو مجبوراً مجھے مریض نہ لینے میں کوئی دقت نہیں ہوگئی ۔خیر تلخ زبان میں استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا اور بات میری اسکی فائدے کی تھی لیکن شاید ہماری زیادہ تر عوام سمجھتی ہے کہ میرے جیب میں شاید اس بچے کے داخلے سے کچھ آئیگا۔
میں بچے کو سمیت آکسیجن کے شفٹ کر دیا PICU اور تفصیلی معائنہ کیا اتنے میں جیسے ہی ہماری بچے کو ایمرجنسی کیئر دے رہے تھے اور اسی اثناء میں بچے کو جٹکے پڑھ گئے۔
میں نے بار بار پوچھا کہ بچے کو کوئی چیز پلائی تو نہیں یا کوئی ٹوٹکا لیکن اُنھوں نے کہاں کہ نہیں۔
ان سب میں چونکہ میں اکیلے تھا تو محمد کو بھی ساتھ ساتھ دیکھتا رہا لیکن اسکی حالات ماشاء اللہ بہتر تھے۔
میرے ذہن میں جو بھی اُسکے سانس خراب ہونے کی وجہ لگ رہی تھی اور جن وجوں سے آنکھ کا کالا چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے اور ساتھ میں جھٹکے بھی آگئے تُو یہ سب میرے ذہن میں چل رہا تھا اور جیسے میں نے اندر کی صفائی کے لیے ٹیوب اندر کیا تو سب سے پہلے دودھ جو پیا ہوا تھا وہ نکلا اور اُسکے کے بعد بچے سے بارے ٹیوب کے ذریعے چاہئے کی پتی کی طرح دینے نکلے اور میں غصّہ میں ادھر اُدھر گھورتا رہا کہ اتنے تین مہینہ کے بچے کو چائے کس نے پلائی۔
اُسکے گھر والوں نہیں کہاں کہ ڈاکٹر صاحب اسکو ہم نے سینے کے لئے تخمِ ژوب پلایا تھا اور شاید کچھ آدھا کپ سے تو زیادہ تھا ۔
خیر سب کچھ کرنے کے بعد بھی بچے کی حالت نہیں سنبھلی اور اسی اثناء میں ٹیسٹ بھیج چکا تھا اور مریض کے لوگوں سے کے چکا تھا کہ شاید اسکو وینٹیلیٹر پے ڈالنا پڑے گا لیکن میں صرف آپکو بتاؤنگا کہ اب ٹائم آگیا ہے اور اُسکے بعد ہاں یا نا کا فیصلہ آپکا ہوگا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ اللہ شفا دینے والا ہے لیکن جس طرح کے حالات ہیں مشکل ہے کہ بچ جائے اور آپ دعا کریں باقی ہماری طرف سے ہر ممکن کوشش کی جائیگی باقی وہ ذات ہی ہر چیز پر قادر اور شفا دینے والا ہے۔
اُسکے گھر والے اور باپ سب روئے کہ بچ نہیں پائیگا اتنی دیر میں اُسکے ABG آگئے اور میں نے جاکے بتایا کہ اب وینٹیلیٹر ہی بچا سکتا ہے اور ساتھ میں انکو فائدے اور نقصان دونوں بتائے اور کیوں ضروری ہے یہ بھی بتایا اور کچھ مثالیں بھی دی جو اس سے پہلے بچ چکے تھے اور انہوں نے ہاں کر دی۔
بچے کو ہم نے وینٹیلیٹر پے ڈالا اور X-ray کیا جس نظر آیا کہ اس کے سینے میں ایک طرف ہوا بند ہے اور اسے نکالنے کے لیے سینے میں ٹیوب ڈالنا پڑھے گا۔اُسکا بھی اُنھوں نے اجازت دے دی اور یوں دوائیوں کے ساتھ علاج شروع ہوا۔
انفیکشن بُہت زیادہ تھا اور اسکو ہم تین قسم کے انٹیبیوٹکس دے رہے تھے اور جیسے ہی اسکو وینٹیلیٹر سے نکالتے وہ پھر خراب ہو جاتا اور یوں تین بار وہ دوبارہ سانس کی مشین پر گیا اور ہم پھر حالات کا جائزہ لے کے اسے نکالتے اور آخر کار ہم نے مشین سانس کی ہٹا لی چار دن بعد اور اُسکے اگلے دن سینے کو ٹیوب بھی۔
ہمارے پروفیسر کہا کرتے تھے کہ ہاری ہوئی جنگ جیت رہے اب ہارنا نہیں ہے۔
ہم میں سے کسی کے نظر میں یا کسی کو بھی یقین نہیں ہوگا کہ بچ جائیگا لیکن جیسے اللہ رکھے اُسے کون چکے۔
جتنی محنت میں نے کی اُس سے زیادہ میرے اور دوستوں اور پورے اسٹاف نے کی اور اُسکا پھل اُسکی صحتیابی میں ہمیں ملا۔
جب موسیٰ خان PICU سے وارڈ شفٹ ہوا تو اُسکے ابّو نے مجھے بلایا اور کہاں کہ اِسکے ساتھ میں آپکی تصویر لینا چاہتا ہوں۔اُس وقت جو خوشی مجھے ہوئی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔
بقلم جمال

13/02/2023

اندازِ بیاں نرالا ، پر سحر گفتگو ، شناسا گفتار ، تلخ مگر میٹھے الفاظ ، وہ الفاظ کا چناؤ، اُن الفاظ کی ادائیگی،
اردو ادب کا حقیقی سرمایہ تھے۔
اللہ مغفرت کریں اور جنت نصیب کریں۔
ایک عہد تھا جو تمام ہوا💯

ماشاءاللہ ایمان تازہ ہوگیا میرا۔اسرائیل سے جنگ لڑنے والے، بغیر قاضی کے فیصلہ سنانے والے ،لوگوں کو برہنہ کر کے روڈ پر گھس...
12/02/2023

ماشاءاللہ ایمان تازہ ہوگیا میرا۔
اسرائیل سے جنگ لڑنے والے، بغیر قاضی کے فیصلہ سنانے والے ،لوگوں کو برہنہ کر کے روڈ پر گھسیٹنے والے اور اسلام کے علم بردار اور دنیا کی بڑی اسلامی ریاست اور ایٹم بم رکھنے والی قوم کا تو یہ حال نہیں ہو سکتا؟
یہ جنکا کارخانہ ہے یہ بھی شام کو چائے پے بیٹھ کے عمران خان،شہباز شریف اور فوجیوں کو گالیاں دیتے ہونگے اور سوچتے ہونگے کہ کاش کوئی اچھا حکمران آجائے تُو ہم اور ملک ترقّی کریں۔
بیٹا میرے،ترقّی اپنے اعمال ٹھیک کرنے سے ہوگی نہ کے جعلی دوائیاں بنا کے۔
میری لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا اچھے سٹور سے دوائیں لیں تا کے آپ شفا یاب ہو سکیں۔
پیسے آپ ویسے بھی دے رہے ہیں لہٰذا اپنے پیسوں اور اپنے صحت کی قدر کیجئے۔

24/01/2023

انڈیا اور بنگلادیش نے اِسلئے ترقی کی کہ اُنکے سیاستدان جیسے بھی ہو لیکن اُنکے محافظ سیاستدان نہیں بلکہ صحیح محافظ تھے اور دوسرا اُنکے سیاستدانوں میں جتنی بھی مخالفت ہو لیکن اُنھوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کی نا کے فوج کے ساتھ۔
ہمارے ہاں مسئلہ ہی یہی ہے ہر کوئی فوج سے مفاہمت چاہتا ہے لیکن سیاستدان ایک دوسرے سے مفاہمت کر کے انکو بیرکوں میں نہیں بھیجتے۔
جب تک یہ کمپنی ادارہ نہیں بنتی اور سیاستدان عوام کے صحیح نمائندے نہیں بنتے اور عوام انسان کے بچےتب تک موڑ ہی موڑ ہونگے اور سارے نازک موڑ تا قیامت۔

27/12/2022

Message by a doctor
مجھے اکثر اوقات دوست احباب ایک لیبارٹری ٹسٹ کی تصویر وٹس ایپ یا میسنجر پر بھیجتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ اس ٹسٹ سے کونسی بیماری کا پتہ چلا ہے اور ساتھ ہی ساتھ علاج بھی پوچھتے ہیں۔ پہلے لوگ ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنی تکلیف بتاتے تھے۔ ڈاکٹر طبی معائنہ کے بعد اگر موزوں سمجھتا تو ٹسٹ تجویز کرتا تھا۔ لیکن اب یہ ٹرینڈ بدل گیا ہے۔ لوگ پہلے ٹسٹ کروا لیتے ہیں بعد میں ڈاکٹر کے پاس جاتےہیں میں انہیں عرض کرتا ہوں کہ ٹسٹ سے بیماری کی تشخیص نہیں ہوتی۔ بیماری کی تشخیص کے لئے مریض کی ہسٹری history یعنی تکالیف کی تفصیل، اور طبی معائنہ یعنی clinical examination لازمی ہے۔ ہسٹری اور معائنہ کے بعد ڈاکٹر ذہن میں ایک یا چند بیماریوں کا خاکہ یا تصور بناتے ہیں جسے provisional diagnosis یا ابتدائی تشخیص کہتے ہیں۔ اس تشخیص کی تصدیق یا تنسیخ کے لئے ڈاکٹر اس کے متعلق چند ٹسٹس یعنی relevant investigations تجویز کرتا ہے اور آخر میں حتمی تشخیص یا final diagnosis تک پہنچتا ہے۔ لیبارٹری ٹسٹ کا رول زیادہ سے زیادہ دس فیصد ہوتا ہے۔ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ ٹسٹ سے سب کچھ پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ۔ میں ان پر واضح کرتا ہوں کہ اگر محض لیبارٹری سے مرض کا پتہ چلتا تو میڈیکل کالجز کو بڑے بڑے تالے لگے ہوتے۔ طلباء بھاری سرمایہ لگاکر پانچ سال اتنی مشکل اور ضخیم کتابیں نہ پڑھتے۔ بس چند لاکھ روپے میں ایک اعلی لیبارٹری بنا کر امراض کی تشخیص کرواتے ۔

Copied .

تنہائی کے کش لگاتے ہوۓ بیٹھا تھا کہ ایمرجنسی سے ایک مریض آگیا۔جا کے میں نے جب مریض دیکھا تو ماشاء اللہ صحتمند اور خوبرو ...
21/12/2022

تنہائی کے کش لگاتے ہوۓ بیٹھا تھا کہ ایمرجنسی سے ایک مریض آگیا۔
جا کے میں نے جب مریض دیکھا تو ماشاء اللہ صحتمند اور خوبرو پورے دو سال کا نوجوان تھا۔
میں نے اُنکے گھر والوں سے سارا حال احوال پتہ کیا اور پھر اُسکے بعد تفصیلی معائنہ کیا۔
میں نے والدین سے کہا کہ ماشاء اللہ بچہ بلکل ٹھیک ہے اور آپ بس اسکو اچھا کھانا کھلائے اور اسے صاف رکھے ۔
والدین میرے ساتھ بد زبانی کر گئے کہ ڈاکٹر صاحب آپکو سمجھ نہیں ہے اور آپ اسے پاؤڈر لکھ دیں۔پاؤڈر سے مراد دوائی والا ہے مطلب اینٹی بایوٹک نہ کے دوسرے والا۔
خیر میں بھی اپنی بات پر قائم رہا کہ بچے کو کسی چیز کی ضرورت نہیں اور آپ مہربانی فرما کر بچے کو بلا ڈاکٹر کے نسخے دوائیاں نہ دیں۔
خیر بات بُہت آگے پہنچی پر میں نے کہا کہ ضرورت کے بغیر میں دوائی نہیں لکھونگا کیونکہ گھر میں اُنھوں نے بلا نسخے اور بلا ضرورت اینٹی بیوٹک پہلے سے ہی پانچ دن دی تھی ۔
آگے سے اسکی امی کہتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب KALRACID DS لکھ دیں ان پے اچھا کام کرتا ہے ۔میں نے کہا بس آپ خود لکھ لیتی میرے پاس لانے کی کیا ضرورت تھی۔
مراد یہ ہے کہ بچوں کو گھر سے کوئی پاؤڈر نہ دیں جب تک ڈاکٹر نہ لکھیں۔
اگر آپ ڈاکٹر کے پاس آئے تو انکی بات کا یقین کرے تا کے آپکے بچے کو صحت ملے۔
خدارا ہر کانسی اور بخار کے لیے پاؤڈر نا مانگیں اور ڈاکٹر حضرات سے بھی گذارش ہے کہ عوام کو اِسکے بارے میں تعلیم دیں کہ دوائیاں ہر مرض میں ضروری نہیں۔
عوام سے گزارش ہے کہ دوائی نہ لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اور یا وہ ڈاکٹر تگڑا ہے جو زیادہ دوائیاں لکھتا ہے۔
ہمیشہ دوائیاں تب ہی دیں جب ڈاکٹر مریض دیکھیں اور وہ لکھیں۔
کسی فارمیسی اور سٹور سے سٹیرائڈز اور پاؤڈر کے دوائیاں دے دے کر اپنی آنے والی نسل کے لیے تباہیاں پیدا کر رہے ہیں خدارا ان چیزوں سے اجتناب کریں کیونکہ اگر یہ روِش جاری رہی تو آنے والے زمانے میں کوئی دوائی کسی بھی جراثیم پر کام نہیں کرے گی۔
بقلم جمال

بُہت سخت امتحان ہوگا قیامت کے دن دنیا کے سب سے اچھے مسلمانوں کا ۔اس قوم کے مسلمان جنکا ملک کلمے کے بنیاد پر بنا ۔یہ ساری...
19/12/2022

بُہت سخت امتحان ہوگا قیامت کے دن دنیا کے سب سے اچھے مسلمانوں کا ۔اس قوم کے مسلمان جنکا ملک کلمے کے بنیاد پر بنا ۔
یہ ساری دوائیاں اصلی پیکنگ میں ہے لیکن اسکے اندر جو دوائی ہے وہ میرے اور آپکے کسی بھائی نے کارخانوں مارکیٹ پشاور میں بنائی ہے۔
میں ہزار بار کہ چکا ہوں کہ ہمارے علماء کو ہر درس میں دس منٹ نماز اور اللہ کے حقوق پر دینی چاہئے جبکہ ایک گھنٹہ حقوق العباد اور ہمارے روزمرّہ کے برتاؤ پر دینا چاہئے۔
یہ روِش اسلام کے منافی بھی ہیں اور حقوق العباد کے بھی۔خدارا دوسروں کے جان سے نہ کھیلیں اور نہ اپنی جان سے اور جب بھی دوائیاں لیں براہِ کرم نامی گرامی میڈیکل سٹور سے لیں۔شکریہ
احتیاط آپکو مزید رسوائی اور مزید بیماری سے بچا سکتا ہے ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو☑️

💯
04/12/2022

💯

The woman insisted on going with her brother's funeral. After burying him, she said in a loud voice in front of all the people present, "O Allah, this is now in your hands. You are also just and sovereign. I am begging you to deprive him of your mercy as he deprived me of my father's inheritance for 30 years". Amen!

For God's sake ! Give your sisters their right of inheritance in this world, otherwise you will suffer in the hereafter.

Source : Saudi Arabia

Address

Peshawar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Escribiring posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category