Dr.Hafeez Orakzai

Dr.Hafeez Orakzai MBBS+MCPS+FCPS
Resident Cardiologist HMC
Ex Kmcite Peshawar
Ex Kpsian Lahore
EX President YDA HMC
Spokesperson YDA KP
(355)

20/07/2025

‏کہتے ہے ویڈیو تین ماہ پرانی ہے اور بچی ساتکزئی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے اور لڑکا سمالانی ہے۔
حیرت کی بات ہے تین ماہ تک نہ وہاں انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشنُ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے؟

جہاں غیرت کو جاگنا چاہیے، وہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے قبائلی سرداروں اور معاشرتی ٹھیکیداروں کی غیرت سوئی رہ...
20/07/2025

جہاں غیرت کو جاگنا چاہیے، وہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے قبائلی سرداروں اور معاشرتی ٹھیکیداروں کی غیرت سوئی رہتی ہے۔ بلوچ عورتیں، اپنی گمشدہ بھائیوں اور بیٹوں کے لیے دن رات سڑکوں پر احتجاج کرتی ہیں، لاٹھیاں کھاتی ہیں، دھکے سہتی ہیں، آنسو گیس برداشت کرتی ہیں، لیکن کسی قبیلے کو، کسی سردار کو، کسی خودساختہ غیرت مند کو یہ منظر غیرت دلاتا نظر نہیں آتا۔
نہ کسی مرد کو یہ خیال آتا ہے کہ ان بہنوں کے سر سے دھوپ چھاؤں کا سایہ بنے، نہ کوئی قبیلہ اپنی بیٹیوں کے دکھ پر شرمندہ ہوتا ہے۔

افسوس تو تب ہوتا ہے جب وہی بیٹیاں، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی خاندان کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا، جنہوں نے بھائیوں اور باپ کی عزت کو اپنی عزت سمجھا، وہی بیٹیاں کسی ایک مرد کے حکم پر، اپنی آنکھوں میں موت کی حقیقت لیے، قرآن کو سینے سے لگا کر، سکون سے قتل ہونے کے لیے خود آگے بڑھ جاتی ہیں۔ شیتل جیسی بیٹیاں، جنہیں اپنے بھائی کے ایک اشارے پر زندگی قربان کرنی پڑتی ہے، وہ نہ روئیں، نہ گڑگڑائیں، نہ رحم کی بھیک مانگیں، بس سر جھکائے گولی کھانے کھڑی ہو جائیں، تو یہ پورے معاشرے کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

یہ وہی بہنیں ہیں جو بھائیوں کے دکھ پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتی ہیں، لیکن جواب میں انہیں غیرت کے نام پر موت دی جاتی ہے۔ نہ کسی بھائی کی غیرت جاگتی ہے، نہ کسی قبیلے کا سردار بولتا ہے، نہ کسی قبیلے کی عزت کا محافظ سوال اٹھاتا ہے کہ بےگناہ بیٹی کا خون کیوں بہایا گیا؟

کاش! غیرت کو مقام اور وقت سمجھ آتا۔
کاش! یہ معاشرہ جان پاتا کہ عزت بچانے کے نام پر عزت دار بیٹیوں کو قتل کرنا، اصل بے غیرتی ہے۔

20/07/2025

عورت کو تو جنگ میں بھی مارنے کی اجازت نہیں، لوگ انہیں محبت میں💔مار دیتے ہیں۔

20/07/2025

جس دن ہمارے ملک کی عورتوں نے غیرت کے نام پر مردوں کو قتل کرنا شروع کردیا تو بہت تھوڑے عرصے میں معاشرے سے مردوں کا صفایا ہو جائے گا۔

ایک کو نکاح نہ کرنے کی سزا ملی…دوسری کو نکاح کرنے کی۔قتل کا جواز؟ صرف اتنا کہ اُنہوں نے اپنی مرضی سے زندگی کا فیصلہ کرنے...
20/07/2025

ایک کو نکاح نہ کرنے کی سزا ملی…
دوسری کو نکاح کرنے کی۔

قتل کا جواز؟ صرف اتنا کہ اُنہوں نے اپنی مرضی سے زندگی کا فیصلہ کرنے کی جسارت کی۔

پہلا واقعہ جھنگ کا ہے، جہاں زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی 19 سالہ طالبہ کنزہ اپنے خواب سجائے، تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اُس دن وہ عام دنوں کی طرح گھر واپس لوٹ رہی تھی۔ بس میں سوار تھی، والدین سے رابطے میں تھی۔ لیکن پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ کچھ ہی دیر بعد اُس کی لاش ایک سنسان سڑک کنارے ملی۔ ہاتھ میں بیگ تھا، اردگرد رکشے کے ٹائروں کے نشان نمایاں تھے۔

تحقیقات ہوئیں تو ایک لرزہ خیز حقیقت سامنے آئی:
کنزہ کو اغوا کرنے والا کوئی اجنبی نہیں، بلکہ قریبی رشتے دار طیب ادریس تھا۔ اس نے اپنی ہوس کے آگے رشتے کے تقدس کو بھی روند ڈالا۔ کنزہ کے والدین نے اس درندے کا رشتہ مسترد کیا تو اس نے لڑکی کو اغوا کیا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، زہر دے کر قتل کیا، اور لاش سڑک پر پھینک دی۔ صرف اس جرم میں کہ کنزہ نے اس کے ساتھ شادی سے انکار کیا تھا۔

دوسرا واقعہ بلوچستان کا ہے۔
یہاں ایک اور بیٹی کو قتل کر دیا گیا، صرف اس لیے کہ اُس نے اپنی پسند سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شرعی طریقے سے، عزت کے دائرے میں، مگر قبیلے اور معاشرے کے غیرت کے خودساختہ ٹھیکیداروں نے اس حلال فیصلے کو گناہ بنا ڈالا۔ لڑکی کو قرآن کے سائے میں، مسلح مردوں کے سامنے لایا گیا، اور گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اُس کے شوہر کو بھی قتل کر دیا گیا۔ گناہ صرف اتنا تھا کہ اس نے نکاح اپنی مرضی سے کیا تھا۔

یعنی اگر لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرے تو ’’سزا‘‘
اور اگر زبردستی سے انکار کرے تو بھی ’’سزا‘‘
ہر صورت میں قاتل کو جواز دے دیا جاتا ہے۔

یہ معاشرہ اب عزت کے نام پر وحشی بن چکا ہے۔
یہ غیرت نہیں، یہ کھلی درندگی ہے۔
یہ رسمیں نہیں، یہ قتل کے لائسنس ہیں۔

ہم کب تک چپ رہیں گے؟
کب تک کسی کنزہ، کسی شیتل، کسی اور بیٹی کی لاش پر صرف افسوس کر کے آگے بڑھ جائیں گے؟
کیا یہ سوال اٹھانے کا وقت نہیں آ گیا کہ:
بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ؟
“کس جرم میں قتل کی گئی تھی؟”

نکاح کیا تھا، کوئی گناہ نہیں کیا تھا,میرا جسم پاک تھا، کسی غیر کا لمس تک نہیں پہنچا تھا،بس اتنی سی خواہش تھی کہ میری عزت...
20/07/2025

نکاح کیا تھا، کوئی گناہ نہیں کیا تھا,میرا جسم پاک تھا، کسی غیر کا لمس تک نہیں پہنچا تھا،بس اتنی سی خواہش تھی کہ میری عزت سلامت رہے۔ اسی لیے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر آگے بڑھی، شاید قرآن کے واسطے میرے قاتلوں کے دل نرم پڑ جائیں۔ مگر جب کسی مرد کے ہاتھ میں قرآن تھما کر خود گولی کے سامنے کھڑی ہوئی تو دل میں بس ایک سوچ تھی:

جس معاشرے میں یہی مرد جانوروں سے بھی بدفعلی کرتے ہیں، معصوم بچوں تک کو نہیں بخشتے، اپنے خونی رشتوں تک کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں… جہاں کسی کی ماں اور بہن محفوظ نہیں… وہاں سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

اور آج میں، جس نے صرف ایک حلال رشتہ جوڑا ہے، نکاح کیا ہے، محبت کو پاکیزگی کا روپ دیا ہے، اب مجھے پیچھے سے گولیوں سے بھون دیا جائے گا… اسی جرم میں کہ میں نے اپنی مرضی سے نکاح کیا؟

میری بہن، تو جاتے جاتے اس معاشرے کا اصل چہرہ بےنقاب کر گئی…
جہاں زنا پر خاموشی، اور نکاح پر موت دی جاتی ہے۔
💔

20/07/2025

آپ کو صرف گولیاں مارنے کی اجازت ہے، ہاتھ لگانے کی نہیں!"یہ الفاظ اُس مظلوم عورت کے ہیں جسے بلوچستان میں صرف پسند کی شادی کرنے پر سرِ عام گولیوں سے بھون دیا گیا۔سوال یہ ہے:کیا اسلام نے یہی درس دیا؟کیا قرآن نے یہی سکھایا؟کیا شریعت نے غیرت کے نام پر قتل کا اختیار دیا؟اور اگر ہم روایتوں کے پاسدار ہیں تو پھر اسلامی اصولوں کے غدار کیوں بنے ہوئے ہیں؟اگر ہم مسلمان ہو کر بھی ظلم کو قبول کریں،تو یہ نہ صرف ایمان کا خسارہ ہے بلکہ سماجی نظام کی کھلی منافقت ہے۔یہ جملہ"آپ کو صرف گولیاں مارنے کی اجازت دی گئی ہے، مجھے ہاتھ لگانے کی نہیں— تاریخ کے سینے پر ایک ایسا زخم ہے جو صرف ایک عورت کے جسم پر نہیں لگا، بلکہ ہماری اجتماعی غیرت، دین، اور سماج پر طمانچہ ہے۔یہ عورت تو مر گئی،مگر اس کے الفاظ زندہ ہیں —اور ہر ظالم کے چہرے پر تھپڑ کی طرح پڑتے رہیں گے۔

چند دن پہلے ایک انگریز لڑکی، ایک پشتون لڑکے سے محبت کر کے خود اس کے گھر چلی آئی۔ نہ صرف پورے خاندان نے اس واقعے کو فخر س...
20/07/2025

چند دن پہلے ایک انگریز لڑکی، ایک پشتون لڑکے سے محبت کر کے خود اس کے گھر چلی آئی۔ نہ صرف پورے خاندان نے اس واقعے کو فخر سے سوشل میڈیا پر دکھایا، بلکہ اردگرد کے مرد، صحافی اور عام لوگ تک اس کے گھر پہنچ کر اس سے ملاقات کرتے رہے۔ نہ کہیں غیرت کا تقاضا کیا گیا، نہ پشتون ولی کا حوالہ دیا گیا، نہ پردے کی پاسداری ہوئی، نہ شرم و حیا کو یاد رکھا گیا۔

دوسری طرف، ڈیڑھ سال پہلے ایک بلوچ لڑکی نے اپنی پسند سے نکاح کیا۔ شرعی پردے میں لپٹی، قرآن ہاتھ میں تھامے، قبیلے کے مسلح افراد کے سامنے کھڑی تھی۔ اسے اس کے شوہر کے سامنے نہایت بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اور پھر اس کے شوہر کو بھی قتل کر دیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہمارا معاشرہ غیرت مند ہے اور بے غیرتی برداشت نہیں کرتا، تو پہلے واقعے میں غیرت کہاں سوئی رہی؟
اور اگر پہلا واقعہ درست ہے، تو پھر دوسرے واقعے جیسے سانحے کیوں پیش آتے ہیں؟

یہ کہنا کہ کچھ لوگ غیرت مند ہیں اور کچھ نہیں، محض خود فریبی ہے۔ اصل بات غیرت کی نہیں، بلکہ ضد، انا، ہٹ دھرمی اور جھوٹی مردانگی کی ہے۔ ہم نہ قرآن کا مطلب سمجھتے ہیں، نہ اسلام کا اصل پیغام جانتے ہیں۔ جب تک ہماری جھوٹی انا اور رواج پرستی سلامت رہتی ہے، ہم ہر حد پار کر لیتے ہیں۔ مگر جہاں ذاتی ضد کو ٹھیس پہنچے، وہاں ہمیں اچانک اپنی نام نہاد غیرت یاد آ جاتی ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
بے شک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

20/07/2025

باہر ملک سے بھاگی ہوئی لڑکی پرپورا ملک جشن منارہا تھا لیکن اپنے گھر کی بہن اسلام کے پردے میں رہ کر نکاح کے ساتھ جب چلی گئی توگولی مارکر اس سے قتل کردیاجاتا ہے،جاتے وقت قران پاک دوسرے کے ہاتھ میں تھمایااور لب پر یہ آخری الفاظ تھے کہ صرف گولی چلانے کی آجازت ہے🥲

ڈیڑھ سال قبل اپنی پسند سے نکاح کرنے والے ایک جوڑے کو قبیلے والوں نے ’’دعوت‘‘ کے نام پر بلایا، مگر وہ کھانے کی نہیں، خون ...
20/07/2025

ڈیڑھ سال قبل اپنی پسند سے نکاح کرنے والے ایک جوڑے کو قبیلے والوں نے ’’دعوت‘‘ کے نام پر بلایا، مگر وہ کھانے کی نہیں، خون بہانے کی دعوت تھی۔ دونوں کو قبیلے کے جرگے کے حکم پر ایک سنسان میدان میں لایا گیا، جہاں انیس مرد کھڑے تھے۔ پانچ کے ہاتھوں میں بھری ہوئی بندوقیں تھیں۔ چادر میں لپٹی 24 سالہ شیتل اور 32 سالہ زرک کو گاڑیوں کے قافلے میں لاکر موت کے دروازے پر کھڑا کر دیا گیا۔

آج پھر جرگے میں اسکے عشق کا ہے امتحاں
آج پھر وہ گِھر گئی ہے ، پگڑیوں کے درمیاں

شیتل کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ اس نے قبیلے کے ایک مرد کو قرآن تھمایا اور پرسکون لہجے میں کہا:
“صرف گولی مارنے کی اجازت ہے…”
لیکن اسے معلوم تھا کہ اجازت مانگنے کی رسم یہاں کب نبھائی جاتی ہے۔

وہ خود آگے بڑھی۔ اسے اپنی قسمت معلوم تھی۔ نہ اس کے قدم ڈگمگائے، نہ آنکھوں میں التجا، نہ لبوں پر چیخ، نہ دامن میں رحم کی بھیک تھی۔
اس کی خاموشی میں وہ صدا تھی، جو ظلم کے خلاف کبھی نہ نکل سکنے والی چیخوں سے بھی زیادہ گونج رہی تھی۔

پھر گولی نہیں، نو گولیاں اس کے جسم میں اتاری گئیں۔ زرک کی باری بھی آئی۔

لکھنے کو اب کچھ باقی نہیں۔
وہاں قلم بھی رک جاتا ہے جہاں محبت کے جرم میں راضی نامے کے نام پر بیٹیاں قتل کر دی جاتی ہیں، چاہے وہ نوبیاہتا ہوں، حاملہ ہوں، یا بچوں والی۔ بس ایک ہی جرم ہوتا ہے، کہ انہوں نے اپنی مرضی سے نکاح کیوں کیا۔

اور اس معاشرے میں موت سے کم سزا دے کر غیرت کو سکون نہیں ملتا۔

سلام اس قبیلے کی نام نہاد غیرت کو، جو بندوق، پگڑی اور رسم کے نام پر اپنی بیٹی کو بھی قتل گاہ میں لا کھڑا کرتے ہیں اور اسے اپنی غیرت کی جیت سمجھتے ہیں۔

ایک اور شیتل ہار گئی۔
مگر جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی:

بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ؟
“کس جرم میں قتل کی گئی؟”

بلوچستان میں اپنی پسند کی شادی پر دونوں کو قتل کیا گیا۔ ان کو دیکھ کر میرے آنکھوں میں آنسو اچکے تھے۔ وہ شہید بیٹی اپنا پ...
20/07/2025

بلوچستان میں اپنی پسند کی شادی پر دونوں کو قتل کیا گیا۔ ان کو دیکھ کر میرے آنکھوں میں آنسو اچکے تھے۔ وہ شہید بیٹی اپنا پلو سنبھالے اور چادر درست کرتے ہوئے پورے وقار کے ساتھ اپنی مقتل گاہ میں خود چل کر گئی اور اپنے حصے کی گولیوں کا انتظار کرنے لگی۔ وہ ذرا سا بھی نہیں گڑگڑائی، کسی کے پاؤں نہیں پکڑے، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ان لوگوں کی مردانگی کی تسکین اس کے بےگناہ خون سے کم کسی چیز سے ممکن نہیں۔ سننے میں آرہا ہے کہ مقتولین نے پسند کی شادی کی تھی ۔

‏اپنی محنت سے پری زاد کا بنگلہ حاصل کرنے والے!پری زاد کو تو بنگلہ قسمت سے ملا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی والوں نے وہی بنگلہ اپن...
19/07/2025

‏اپنی محنت سے پری زاد کا بنگلہ حاصل کرنے والے!

پری زاد کو تو بنگلہ قسمت سے ملا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی والوں نے وہی بنگلہ اپنی محنت سے حاصل کیا۔ جب عمران خان نے محمود خان کو خیبرپختونخوا کا وزیراعلی لگایا تو اس نے ضلع کوہستان کے لیے ایسے منصوبوں کی منظوریاں دینا شروع کر دیں جو کبھی کسی کو نظر نہیں آئے۔

وزیرخزانہ تیمور ظفر جھگڑا انکے لیے فنڈز جاری کرتا رہا اور ٹھیکیدار محمد ایوب کاغذاب پر منصوبے مکمل کرتا رہا۔ ان میں اعظم سواتی بھی حصہ دار تھا۔ یوں 2019ء سے دسمبر 2024 تک 40 ارب روپے کوہستان کے نام پر لوٹ لیے۔ وہ ضلع جس کا شائد اپنا سالانہ بجٹ پچاس کروڑ بھی نہ ہو۔ جہاں آج بھی پل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ رسیوں سے جھول رہے ہیں۔

اگر آپ کو لگے کہ یہ الزامات ہونگے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ نہ صرف یہ کہ محمد ایوب ٹھیکیدار جرم قبول کر کے پشاور ھائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست کرچکا ہے۔ یعنی کچھ واپس لے لو کچھ معاف کر دو۔ بلکہ 40 ارب مال مسروقہ میں سے نیب نے 25 ارب برآمد بھی کر لیے ہیں۔

کوئی ستر اسی گاڑیاں، 109 جائدادیں اور 3 کلو سونے کے علاوہ 3 ارب کیش تو گھروں میں رکھا تھا۔ اعظم سواتی نے زیادہ چالاکیاں دیکھائیں۔ مثلاً اپنا 20 کروڑ کا بنگلہ محمد ایوب ٹھیکیدار کو 60 کروڑ میں بیچ کر اپنا 40 کروڑ حصہ وصول کیا تاکہ جائز لگے۔ مزید احتیاط کے لیے ٹرانزیکشن پرانی تاریخوں میں کروانے کی کوشش کی۔ اسی لوٹ مار سے ان محنتی لوگوں نے وہ بنگلہ بھی خریدا جو انہوں نے پری زاد ڈرامے میں دیکھا اور انکو پسند آگیا تھا۔ مفت کا مال مل رہا تھا تو فوراً جاکر خرید لیا۔ یہ اب دیکھنا پڑے گا کہ اس میں سے بنی گالہ کتنا گیا اور پارٹی فنڈ کے نام پر کتنا وصول کیا گیا۔

Address

Attock

Telephone

+923348260860

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr.Hafeez Orakzai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr.Hafeez Orakzai:

Share

Category