18/05/2025
یو این وومن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال تک کی ہیں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کے لئے لڑکیوں کے انتخاب کا طریقہ کار کچھ اس قدر غیر انسانی اور غیر مہذب ہو چکا ہے کہ بیوائیں تو کیا تیس سال کی کنواری لڑکی بھی اس زمرے میں نہیں آتی۔ کل بیواؤں کی تعداد تقریباً چار ملین ہے جن کی کفالت کے لئے ملک میں کوئی سرکاری و غیر سرکاری مضبوط و مربوط نظام موجود نہیں۔
رشتوں میں تاخیر کی بڑی وجہ رشتے کے انتخاب کی حد سے زیادہ بڑھتی مانگیں بھی ہیں اور اور وہ مفاد پرستی و مادہ پرستی بھی جس کے آگے اب شرافت، انسانیت، ادب آداب اور تہذیب جیسے خصائص بے وقعت ہو چکے ہیں۔ اس مسئلے کا سبب معاشی و سماجی ناہمواریاں بھی ہیں اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف بڑھتا رحجان بھی۔ لڑکی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیم میں اس کے ہم پلہ رشتہ دستیاب ہو سکے اور دوسری طرف لڑکے کے گھر والے بھی زیادہ تعلیم یافتہ لڑکی کے انتخاب میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں زیادہ پڑھ لکھ جانے والی لڑکیاں عموماً بد دماغ اور بد مزاج ہو جاتی ہیں۔
تنہا رہنے والی غیر شادی شدہ لڑکیوں یا بیواؤں کی زندگی جس کرب اور تکلیف میں گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔ بیوہ ہو جانے پر تو اکثر خواتین کو سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ دیتے ہوئے انہیں گھر سے ہی بے دخل کر دیتے ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک ہی گھرانے کے افراد لڑکی کے لئے لڑکا دیکھنے نکلتے ہیں تو ان کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے اور جب اپنے بیٹے کا رشتہ تلاش کرتے ہیں تو یہ نفسیات یکسر بدل جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسے دوغلے پن کا شکار ہے جس میں شاید ہم سب ہی شامل ہیں۔ بیٹی سے ملازمت کروانا اسے معاشی مسائل سے نکلنے میں مدد کے مصداق سمجھا جاتا ہے۔ اور اکثر گھرانوں میں اسے ملازمت کی اجازت اس کے خواب پورے کرنے کے لئے بھی دی جاتی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے تو ملازمت پیشہ لڑکیوں کے چال چلن پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔
وسائل سے کئی گنا زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس معاشرے کے لئے ویسے ہی ٹائم بم ہے۔ اوپر سے جہالت،منافقت اور ہمارے طرزِ معاشرت نے زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔
ہمارے مومنانہ معاشرے میں ایک اہم مسئلہ زبانی نکاح یا غیر رجسٹرڈ نکاح کا بھی ہے جس پر کبھی سیر حاصل گفتگو نہیں کی گئی۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی خواتین اس مسئلے کا کبھی تو جانتے بوجھتے بنام محبت اور کبھی دھوکے سے شکار ہوتی ہیں۔ مرد کبھی تو کسی گھریلو مجبوری میں مبتلا ہو کر اور کبھی ذاتی تسکین کی خاطر عورت کو ساری عمر کے لئے دربدر کر دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاتون نے مجھ سے رابطہ کیا جن کی یہی کہانی تھی۔
انہوں نے کسی صاحب سے زبانی نکاح کر لیا اور اب ایک بچہ بھی ہو چکا ہے۔ وہ صاحب بچہ پیدا کر کے اپنی پہلی بیوی کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اب نہ بچے کا کوئی قانونی وارث ہے نہ عورت کی کوئی قانونی حیثیت۔
ان گنت ایسے کیس ہیں جو اخباری خبر کی صورت کبھی کبھار سننے کو مل جاتے ہیں۔ اور ان گنت ایسی خواتین ہیں جو دھوکے یا "محبت" کا شکار ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان کی شنوائی نہیں ہو پاتی۔ قانونی طریقہ کار پیچیدہ ہے اور ایسے کیسز میں اکیلی عورت کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔۔
یوں نہیں کہ ہمیشہ قصوروار مرد ہوتا ہے۔ عورت کبھی کبھی سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہنسی خوشی اپنے مستقبل کو خود تباہ کر لیتی ہے۔میں اتنی گزارش کروں گا کہ آپ کو پسند کی شادی کرنے کا حق ہے مگر اندھے پن کا شکار تو نہ ہوئیے۔ معاملات کو دیکھ پرکھ تو لیجیئے۔ اگر انسان خود ہی نابینا ہو جائے تو بعد میں لاٹھی تلاش کرتا رہتا ہے جو اس مردانہ معاشرے میں ملنا ناممکنات میں سے ہے۔
نکاح کے شرعی تقاضوں کے ساتھ قانونی تقاضے بھی تو پورے کرنا ہیں۔ یہ دنیا کاغذات یا ریکارڈ پر چلتی ہے۔۔ مرد اگر چھوڑ جائے تو عورت کہاں جائے گی ؟۔ یہ محبت کا بھوت تو ڈنکے کی چوٹ پر کئے گئے نکاح میں سے بھی کچھ عرصہ بعد نکل جاتا ہے۔ محبت نامی کلیشے لفظ کے نام پر اندھا نہ بنیئے اور دھوکا نہ کھائیے۔copied