Make it Simple and Easy

Make it Simple and Easy This page is to connect and help like minded people to make marriages simple and easy

18/05/2025

یو این وومن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں جن کی عمریں بیس سے پینتیس سال تک کی ہیں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال کی ہیں تقریباً 60 لاکھ تک کی تعداد میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کے لئے لڑکیوں کے انتخاب کا طریقہ کار کچھ اس قدر غیر انسانی اور غیر مہذب ہو چکا ہے کہ بیوائیں تو کیا تیس سال کی کنواری لڑکی بھی اس زمرے میں نہیں آتی۔ کل بیواؤں کی تعداد تقریباً چار ملین ہے جن کی کفالت کے لئے ملک میں کوئی سرکاری و غیر سرکاری مضبوط و مربوط نظام موجود نہیں۔

رشتوں میں تاخیر کی بڑی وجہ رشتے کے انتخاب کی حد سے زیادہ بڑھتی مانگیں بھی ہیں اور اور وہ مفاد پرستی و مادہ پرستی بھی جس کے آگے اب شرافت، انسانیت، ادب آداب اور تہذیب جیسے خصائص بے وقعت ہو چکے ہیں۔ اس مسئلے کا سبب معاشی و سماجی ناہمواریاں بھی ہیں اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف بڑھتا رحجان بھی۔ لڑکی کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ تعلیم میں اس کے ہم پلہ رشتہ دستیاب ہو سکے اور دوسری طرف لڑکے کے گھر والے بھی زیادہ تعلیم یافتہ لڑکی کے انتخاب میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں زیادہ پڑھ لکھ جانے والی لڑکیاں عموماً بد دماغ اور بد مزاج ہو جاتی ہیں۔

تنہا رہنے والی غیر شادی شدہ لڑکیوں یا بیواؤں کی زندگی جس کرب اور تکلیف میں گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔ بیوہ ہو جانے پر تو اکثر خواتین کو سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ دیتے ہوئے انہیں گھر سے ہی بے دخل کر دیتے ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک ہی گھرانے کے افراد لڑکی کے لئے لڑکا دیکھنے نکلتے ہیں تو ان کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے اور جب اپنے بیٹے کا رشتہ تلاش کرتے ہیں تو یہ نفسیات یکسر بدل جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک ایسے دوغلے پن کا شکار ہے جس میں شاید ہم سب ہی شامل ہیں۔ بیٹی سے ملازمت کروانا اسے معاشی مسائل سے نکلنے میں مدد کے مصداق سمجھا جاتا ہے۔ اور اکثر گھرانوں میں اسے ملازمت کی اجازت اس کے خواب پورے کرنے کے لئے بھی دی جاتی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے تو ملازمت پیشہ لڑکیوں کے چال چلن پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔

وسائل سے کئی گنا زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اس معاشرے کے لئے ویسے ہی ٹائم بم ہے۔ اوپر سے جہالت،منافقت اور ہمارے طرزِ معاشرت نے زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔

ہمارے مومنانہ معاشرے میں ایک اہم مسئلہ زبانی نکاح یا غیر رجسٹرڈ نکاح کا بھی ہے جس پر کبھی سیر حاصل گفتگو نہیں کی گئی۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی خواتین اس مسئلے کا کبھی تو جانتے بوجھتے بنام محبت اور کبھی دھوکے سے شکار ہوتی ہیں۔ مرد کبھی تو کسی گھریلو مجبوری میں مبتلا ہو کر اور کبھی ذاتی تسکین کی خاطر عورت کو ساری عمر کے لئے دربدر کر دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاتون نے مجھ سے رابطہ کیا جن کی یہی کہانی تھی۔

انہوں نے کسی صاحب سے زبانی نکاح کر لیا اور اب ایک بچہ بھی ہو چکا ہے۔ وہ صاحب بچہ پیدا کر کے اپنی پہلی بیوی کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اب نہ بچے کا کوئی قانونی وارث ہے نہ عورت کی کوئی قانونی حیثیت۔

ان گنت ایسے کیس ہیں جو اخباری خبر کی صورت کبھی کبھار سننے کو مل جاتے ہیں۔ اور ان گنت ایسی خواتین ہیں جو دھوکے یا "محبت" کا شکار ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان کی شنوائی نہیں ہو پاتی۔ قانونی طریقہ کار پیچیدہ ہے اور ایسے کیسز میں اکیلی عورت کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔۔

یوں نہیں کہ ہمیشہ قصوروار مرد ہوتا ہے۔ عورت کبھی کبھی سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہنسی خوشی اپنے مستقبل کو خود تباہ کر لیتی ہے۔میں اتنی گزارش کروں گا کہ آپ کو پسند کی شادی کرنے کا حق ہے مگر اندھے پن کا شکار تو نہ ہوئیے۔ معاملات کو دیکھ پرکھ تو لیجیئے۔ اگر انسان خود ہی نابینا ہو جائے تو بعد میں لاٹھی تلاش کرتا رہتا ہے جو اس مردانہ معاشرے میں ملنا ناممکنات میں سے ہے۔

نکاح کے شرعی تقاضوں کے ساتھ قانونی تقاضے بھی تو پورے کرنا ہیں۔ یہ دنیا کاغذات یا ریکارڈ پر چلتی ہے۔۔ مرد اگر چھوڑ جائے تو عورت کہاں جائے گی ؟۔ یہ محبت کا بھوت تو ڈنکے کی چوٹ پر کئے گئے نکاح میں سے بھی کچھ عرصہ بعد نکل جاتا ہے۔ محبت نامی کلیشے لفظ کے نام پر اندھا نہ بنیئے اور دھوکا نہ کھائیے۔copied

18/01/2025

عورت کو شوہر کا کھانا گرم کرنے یا موزہ ڈھونڈنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے, نفیس مزاج عورتیں تو ویسے بھی ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ مناسب رشتہ مل جائے۔ ڈوپٹہ سر پر لینے سے کسی عورت کی موت نہیں واقع ہوئی آج تک۔
آج کل کتنی ہی عورتوں کے دس بچے ہوتے ہیں کہ یہ شکایت ہو کہ عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین ہے۔ یہاں تین سے کم بچے کسی کے گھر شاہد ہی ہوں۔

یہ مسائل عورت کے ہیں ہی نہیں-

عورت کا دکھ یہ ہے کہ اس پہ تیزاب گرا دینا عام بات ہے۔

عورت کا دکھ یہ ہے کہ پسند کی شادی پر قتل ہوتی ہے۔

عورت کا دکھ یہ ہے کہ اگر وہ طلاق لینا چاہے وہ نہیں لے سکتی۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا رشتہ نہیں بھیج سکتی۔

عورت کا دکھ یہ ہے کہ بھلے وہ کتنی ہی تعلیم یافتہ ہو، اسے جہیز لے کر ہی جانا ہے۔

عورت کا دکھ یہ ہے کہ وہ محلے کے بدمعاشوں کی شکایت باپ بھائی سے کرنے سے ڈرتی ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مرد کی توجہ اس پر پڑ جائے تو یقین رکھا جاتا ہے کہ عورت نے ہی ورغلایا ہو گا۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ روٹی گول نہ ہو تو بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔

عورت کی غلطی کو زمانہ معاف نہیں کرتا ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ ، تعلیم زیادہ ہو تو، اس کی عمر کے زیادہ ہونے اور دماغ کے خراب ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی نوکری کو اس کی بدکرداری کی دلیل مانا جاتا ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سوشل میڈیا پر ہونے کو اس کی "دستیابی" کی دلیل مانا جاتا ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ پسند کی شادی آج بھی اس کے خاندان کے ماتھے کا داغ ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے بھائیوں کی خاطر جائیداد میں حق چھوڑ کر اچھی بہن ہونا ثابت کرنا ہوتا ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ساری عمر ماں باپ کی عزت کی خاطر کسی مرد کی مار بھی سہنی پڑ سکتی ہے۔

عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہو جائے تو اسکو رشتہ نہیں ملتا۔ کوئی اس کے یتیم بچوں کے سر پردست شفقت نہیں رکھتا۔

لیکن معاشرہ ان سب مسائل کا حل بتانے سے قاصر ہے. ...

25/11/2024

حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد:
میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔
عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔
میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح ۔لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہیں۔
میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں ۔
شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں ۔
کبھی خیال آتا ہے کہ گھر سے بھاگ کر کسی کےساتھ منہ کالا کرکے واپس آکر والدین کے سامنے کھڑی ہوجاؤں کہ لو اب اچھی طرح نبھاؤ اپنے سات پشتوں کا رسم ۔
کبھی خیال آتا ہے ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں اور کسی سے کہوں مجھے بیوی بنالو لیکن پھر خیال آتا ہے اگر کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ گئی تو میرا کیا بنے گا ۔
میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا ۔۔۔۔
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سورہے ہوتے ہیں بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کررہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔

اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظم کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ یہ اشعار پڑھے جن کا مفھوم یہ تھا ۔
(اگر خدا کا ڈر اور قیامت میں حساب دینے کا ڈر نہ ہوتا تو آج رات اِس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی) (مطلب میں کسی کے ساتھ کچھ کررہی ہوتی) فاروق اعظم نے جب اشعار سنے تو تڑپ اٹھے اور ہر شوہر کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی شوہر اپنی بیوی سے تین مہینے سے زیادہ دور نہ رہے ۔
۔
اے حاکمِ وقت،
اے میرے ابا حضور،
اے میرے ملک کے مفتی اعظم،
اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب ،
اے میرے شہر کے پیر صاحب میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں ؟
کون میرے درد کو سمجھے گا؟
میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا ۔
۔
اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لئے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا ۔
اے لوگو مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند ۔۔
اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا ؟؟؟
یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کےلئے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیئے اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا۔۔
خدارہ اپنی بچیوں پر رحم کھائے میں نے اکثر لوگوں کے گھر اپاہج معذور بچے دیکھے ہیں جو خاندان در خاندان شادی کے نتیجے میں پیدا ہوتے
باز آجائے ایسے رسومات سے جس کا ہمارے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔

16/09/2024

نوجوان لڑکوں کیلئے :

آپ خود شادی پر ڈھول باجے، رسمیں، کھانے ، مہمان ،زیورات، کپڑوں کا بائیکاٹ کریں۔

شادی پرسکون رسم ہونے چاہیے
آرام سے صبح اٹھیں گھر کے چند لوگوں کیساتھ نکاح کرکے لڑکی گھر لائیں
دوپہر کو بریانی اور رائتہ بنا کر لنچ کریں
12 گھنٹے میں بنا ذلالت اور تھکاوٹ شادی ختم

جو لاکھوں مہمانوں کی ضیافت اور بیکار زیورات کپڑوں پر ضائع کرنے ہیں انہیں بچوں کے مستقبل کیلئے بینک میں save کرلیں

کپڑے ، زیور ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت خریدیں ۔

شادی مشورہ سنٹر: سعدیہ غلام دستگیر

05/08/2024

جب نکاح خواں آئے اور میں اپنی بیوی کو طلاق دینے لگا تو میں خوش تھا کہ اب سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ جب اس نے مجھ سے پوچھا، "کیا آپ اپنے فیصلے پر پکے ہیں؟" تو میں نے فوراً جواب دیا، "ہاں، بالکل پکا ہوں۔"

میری بیوی خاموش بیٹھی سب کچھ برداشت کر رہی تھی، مجھے وہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔ اس کے گھر والے اس کے ساتھ تھے، لیکن وہ اتنی کمزور تھی کہ ان کی موجودگی کا احساس نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں نے اس کی آنکھوں میں شکست کی نظر دیکھی تو مجھے خوشی ہوئی کہ میں نے اپنا حق لے لیا اور اسے دکھا دیا کہ وہی ہمیں اس حال تک لے آئی ہے۔

چند منٹ بعد میں نے اسے طلاق دے دی۔ اُس دن میں اپنے بستر پر لیٹا اور محسوس کیا کہ دنیا کی سب مشکلات غائب ہو گئی ہیں۔ میں آزاد ہو گیا، دل بھر کے کھانا کھایا۔ تین سال تک میں مسائل، سر درد اور اختلافات کا سامنا کر رہا تھا۔

"آخر کار" میں سکون میں آگیا، نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور وہ خوش تھے کہ میں نے اس سے نجات پا لی۔

میں نے اپنی زندگی دوبارہ آزادانہ طور پر جینے کا آغاز کیا۔

لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا اور چیزیں میری توقعات کے خلاف ہو گئیں۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ ہر رات کے آخر میں وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتے اور میں اپنے کمرے میں اکیلا، کمزور اور تنہا رہ جاتا۔

میرے گھر والوں کا ساتھ کہاں گیا؟

میرے بھائی جو ہمیشہ میری بیوی کے بارے میں باتیں کرتے تھے، انہوں نے میری طرف دھیان دینا چھوڑ دیا۔ میری ماں جو یہ دکھانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ میری بیوی سے زیادہ محبت کرنے والی ہے، اس نے بھی وہی محبت اور توجہ دینا چھوڑ دی۔ وہ اپنی پرانی حالت میں واپس آ گئی۔

جو لوگ مجھے اُس پر بھڑکاتے تھے، وہ بھی کال کرنا چھوڑ چکے تھے۔ جب میں عید کی رات بیمار ہوا اور بخار چڑھ گیا، میں نے اپنے بھائی کو فون کیا، اس نے میری آواز سے نہیں پہچانا کہ میں بیمار ہوں، حالانکہ میری آواز بخار کی وجہ سے صاف نہیں تھی۔ مجھے ایک دفعہ یاد آیا کہ میری بیوی نے مجھے ایک دن باہر جاتے ہوئے فون کیا اور پوچھا، "آپ خیریت سے ہیں؟" وہ بے وجہ پریشان تھی۔ اس وقت مجھے کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور میں نے ہسپتال میں ڈرپ لگوائی تھی بغیر اسے بتائے۔

کہاں ہے وہ سکون جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا؟ کیوں کوئی میری زندگی کی خبریں جاننے کا خواہشمند نہیں رہا جیسے وہ میری بیوی کے ہوتے ہوئے تھے؟

اگر وہ سب شروع سے ہی اتنے دور رہتے تو ہمارے درمیان اتنے مسائل نہ ہوتے۔

جب میں نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں، تو سب نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پرانے مسائل اٹھائے، اس کی غلطیاں گنوائیں، اس کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو حقیقت میں نہیں تھیں اور میں نے ان سب پر یقین کیا۔ انہوں نے بہت نجی معاملات میں مداخلت کی، جو انہیں بالکل نہیں کرنے چاہیے تھے۔

انہوں نے میری زندگی کی تفصیلات میں اتنی مداخلت کی کہ ان کا اندر ہونا یا حتی کہ دروازے پر ہونا بھی مناسب نہیں تھا۔

مجھے یہ سب دیر سے سمجھ آیا جب میں نے اپنی زندگی میں ایک وقفہ لیا۔ جب میری بیوی دور ہو گئی، تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ ہمارا گھر نہ گرے اور میں اس کا ہاتھ چھوڑ رہا تھا۔

وہ ہماری نجی باتوں کو چھپا رہی تھی اور میں سب کچھ دوسروں کے سامنے کھول رہا تھا۔

جب میں نے افسوس کے ساتھ اسے واپس لانے کی کوشش کی، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس نے کہا، "میں سکون میں ہوں۔" یہ جملہ مجھے کہنا چاہیے تھا۔ میں نے بہت کوشش کی، لیکن ہر بار وہ ضد کرتی، جیسے وہ کسی محفوظ جگہ پر ہو اور وہاں سے نکلنے سے ڈرتی ہو کہ کہیں واپس نہ جا سکے۔

اس نے صاف الفاظ میں کہا، "کبھی بھی مجھے میرے حقوق کا احساس نہیں ہوا، حتی کہ تمہاری بیوی ہونے کا حق بھی میرے پاس نہیں تھا۔"

اور آخر کار، میں ہی واحد ہارا ہوا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں صحیح ہوں اور میرے آس پاس کے لوگ میرے خیر خواہ ہیں۔

Copied

25/07/2024

HOW TO MAKE A MAN HAPPY!!!
1. Make food;
2. Sleep with him;
3. Don't ask questions;
4. Leave him alone.

HOW TO MAKE A WOMAN HAPPY:
1. Be Friends
2. Companion
3. Lover
4. Beautiful
5. Charming
6. Good in the kitchen
7. Atlético
8. Electrician
9. Plumber
10. Mechanic
11. Carpenter
12. Decorator
13. Stylist
15. Poet
16. Psychologist
17. Bug zapper
18. Psychiatrist
19. Good-natured
20. A good listener
21. Organizer
22. A good father
23. Smelly
24. Empathetic
25. Cult
26. Sensitive
27. Attentive
28. Seductive
29. Smart
30. Funny
31. Creative
32. Hot
33. Strong
34. Understanding
35. Tolerant
36. Prudent
37. Ambitious
38. Capable
39. Brave
40. Determined
41. True
42. Insurance
43. Check everything
44. Punching bag
45. Lonely without friends

DON'T FORGET TO:
46. ​​Praise often
47. Give gifts
48. Be honest
49. Opening the car door
50. Not to stress her
51. Don't look at other women.
52. Lift the toilet lid.
53. Being a computer teacher.
54. Don't snore.
55. Do not dry your feet with a towel.

AND ALSO:
56. Never forget:
* her birthday
* dating anniversary
* the anniversary of the first kiss
* the anniversary of the first time they met
*her mother's birthday
* Valentine's Day and being faithful

THEY HATE...
1. Who responds
2. Who remains silent
3. You lie to them
4. Be sincere
5. Worries
6. Who doesn't care
7. Be jealous
8. Don't be jealous

BONUS:
And never forget, even if you are right, you are always wrong.

23/07/2024

جب بیٹیاں بیوہ یا طلاق یافتہ ہوجائیں۔۔
تو پھر گھر نہیں بٹھائی جاتیں.پڑھیں تھوڑا تاریخ کو بھی..

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب
(ان کی بیٹی)حفصہ بیوہ ہوگئیں۔۔
اور ان کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور بدر میں شرکت کرنے والے تھے۔۔
مدینہ میں انتقال کرگئے۔۔
تو میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا اور
(اپنی بیوہ بیٹی)حفصہ کا ذکر کیا۔۔
اور ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں۔۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں غور کرکے جواب دوں گا۔۔
میں کئی رات ٹھہرا رہا۔۔
پھر ملاقات ہونے پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ مجھے فی الحال نکاح کرنے پر اطمینان نہیں ہوا۔۔
پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں۔۔
تو میں (اپنی بیوہ بیٹی) حفصہ کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں۔۔
حضرت ابوبکر خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔۔
مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اس سرد مہری سے اس سے بھی زیادہ رنج ہوا۔۔
جتنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انکار سے ہوا تھا۔۔
میں کئی راتیں ٹھہرا رہا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے لیے حفصہ کے نکاح کا پیغام بھیجا۔۔
میں نے فورا ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کردیا۔۔
اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے تو کہنے لگے کہ شاید تم کو میرا جواب نہ دینا ناگوار گزرا ہوگا۔۔
میں نے کہا ایسا ہی ہے۔۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ میں نے تم کو اس وجہ سے جواب نہ دیا تھا کہ رسول اللہ کا ان کا تذکرہ کرنا میرے علم میں آیا تھا۔۔
اور میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
ہاں اگر رسول اللہ ﷺ حفصہ سے نکاح کا ارادہ ترک کردیتے تو میں ان سے نکاح کرلیتا۔۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث 4005 کتاب المغازی)
ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی طرح خود ہی اپنی بیوہ بیٹی کے نکاح کا پیغام پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیا۔۔
اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ خلفائے راشدین میں سے ہیں۔۔
جس سے پتہ چلا کہ بیوہ یا مطلقہ کے دوسرے نکاح کو عیب نہیں سمجھنا چاہیے ۔۔
اور یہ بھی پتہ چلا کہ لڑکی والوں یا لڑکی کے سر پرستوں کو خود کسی لڑکے یا اس کے سر پرست کو نکاح کا پیغام دینا جائز ہے۔۔
اور یہ عمل غیرت و حیاء کے خلاف نہیں۔۔
مگر آج کل لڑکی والوں کی طرف سے خود کسی جگہ نکاح کا پیغام دینا عیب سمجھا جاتا ہے۔۔
جس کے نتیجہ میں لڑکیوں کی عمریں گزر جاتی ہیں ۔۔
اور وہ بوڑھی ہو جاتی ہیں..

21/07/2024

بھائی اپنے بھائی کے ساتھ بیس سال گزار لیتا ہے
اور بہن اپنی بہن کے ساتھ بیس سال یا اس سے زیادہ گزار لیتی ہے۔
پھر کسی ایک کی بیوی یا کسی ایک کا شوہر آتا ہے
اور دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے
کہ اس کا بھائی برا ہے یا اس کی بہن بری ہے، پانچ مہینے یا شاید چند ہفتوں میں۔
یاد رکھو، تمہارا بھائی تمہارا وہ سہارا ہے جو کبھی نہیں جھکتا، اور تمہاری بہن وہ نعمت ہے جو کبھی نہیں دوہرائی جاتی۔
والدین کے بارے میں کہی گئی سب سے خوبصورت باتیں:

# # # والد کے بارے میں خوبصورت اقوال:
1. **"والد وہ شخص ہیں جن کی طرح آپ بڑے ہو کر بننا چاہتے ہیں۔"**
2. **"والد وہ ہیں جو آپ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں، پھر آپ کو یہ خود کرنے دیتے ہیں۔"**
3. **"والد کی طاقت ان کے نرمی میں ہوتی ہے، اور ان کی نرمی ان کی سختی میں ہوتی ہے۔"**
4. **"والد زندگی کے پہلے ہیرو اور سب سے وفادار دوست ہیں۔"**

# # # والدہ کے بارے میں خوبصورت اقوال:
1. **"والدہ زندگی کی ستار ہیں، اور ان کی آواز وہ دھن ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔"**
2. **"والدہ وہ واحد شخصیت ہیں جو آپ سے بغیر کسی شرط کے محبت کر سکتی ہیں۔"**
3. **"والدہ کی گود وہ واحد جگہ ہے جہاں آپ کو سکون ملتا ہے، چاہے آپ بادشاہ ہی کیوں نہ ہوں۔"**
4. **"والدہ زندگی کی روشنی اور اندھیرے کی قندیل ہیں۔"**

# # # بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں:
1. **"بھائی وہ سہارے ہیں جو کبھی نہیں جھکتے، اور بہن وہ عوض ہیں جو کبھی نہیں دہراتے۔"**
2. **"بھائی بہن وہ دوست ہیں جنہیں ہم خاندان سے چنتے ہیں۔"**
3. **"بہن وہ دوست ہیں جو کبھی آپ کو مایوس نہیں کرتیں، اور بھائی وہ محافظ ہیں جو ہمیشہ آپ کے پیچھے ہوتے ہیں۔"**

# # # خاندان کے بارے میں:
1. **"خاندان وہ پہلا گھر ہے جہاں آپ واپس آتے ہیں چاہے آپ کتنے بھی دور چلے جائیں۔"**
2. **"خاندان میں، ہمیں وہ محبت ملتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی اور وہ حمایت ملتی ہے جو کبھی رکتی نہیں۔"**
3. **"خاندان وہ چھوٹی جنت ہے جس میں ہم زمین پر رہتے ہیں۔"**

21/07/2024

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کر سکتا ہے؟
ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو

جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا

🍀 خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟

کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟

یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟

یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور وہ چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے.

اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے،
بہت ساری مالدار عورتیں جن کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے

خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے دسیوں بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے

بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے

🍀 انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا :
پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟

🍀بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں.

ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے

🍀 نامہ نگار خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں،
اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں.

ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.

🍀 جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں :
پوری ہو گئی آپ کی بات ؟

پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں

کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے.

میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.

🍀 خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں !

اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے،

یہ دودھاری ہتھیار ہے،
جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.

🍀 صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں :
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے.

حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے.

پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں.

وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟

میں کہتی ہوں : نہیں.
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت ظاہر کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے.

انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.

کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟

خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟

🍀 بوڑھی خاتون بولیں :

پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اسی وقت ہے
جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو
اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو

دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی

جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس ؟؟

20/07/2024

میں نے ایک بار ایک بہت کامیاب خاتون سے ان کی کامیابی کا راز پوچھا۔ وہ مسکرائیں اور مجھ سے کہنے لگیں…
"میں نے اس وقت کامیاب ہونا شروع کیا جب میں نے چھوٹی لڑائیاں چھوٹے لوگوں کے لیے چھوڑ دیں۔
میں نے ان لوگوں سے لڑنا چھوڑ دیا جو میری غیبت کرتے تھے…
میں نے اپنے سسرال والوں سے لڑنا چھوڑ دیا…
میں نے توجہ کے لیے لڑنا چھوڑ دیا…
میں نے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے لڑنا چھوڑ دیا…
میں نے بے حس لوگوں سے اپنے حقوق کے لیے لڑنا چھوڑ دیا…
میں نے سب کو خوش کرنے کے لیے لڑنا چھوڑ دیا…
میں نے یہ ثابت کرنے کے لیے لڑنا چھوڑ دیا کہ وہ میرے بارے میں غلط تھے….
میں نے ایسی لڑائیاں ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیں جن کے پاس لڑنے کے لیے اور کچھ نہیں…
اور میں نے اپنے وژن، اپنے خوابوں، اپنے خیالات اور اپنی تقدیر کے لیے لڑنا شروع کیا۔
جس دن میں نے چھوٹی لڑائیوں سے کنارہ کشی اختیار کی، وہ دن میری کامیابی اور سکون کا آغاز تھا۔"
کچھ لڑائیاں آپ کے وقت کے قابل نہیں ہوتیں…. سمجھداری سے انتخاب کریں کہ آپ کس کے لیے لڑیں ۔۔۔

(منقول)

19/07/2024

عجیب بات یہ ہے کہ بچے اپنے والد سے اپنے شدید محبت کا احساس بہت دیر سے کرتے ہیں۔

احمد خالد توفیق کہتے ہیں:
جب بچے اسکول سے واپس آتے ہیں تو وہ بائیں. کی طرف مڑ کر کچن کی طرف جاتے ہیں اپنی ماں کی تلاش میں، اور وہ دائیں کی طرف میرے دفتر کی طرف نہیں جاتے، حالانکہ میرا دفتر کچن سے چند قدم دوریِ میں ہے۔

میں اس "نظرانداز" پر زیادہ غور نہیں کرتا، کبھی کبھی میں ان کی ماں کو کہتے ہو سنتا ہوں:
"کیا تم نے اپنے والد کو سلام کیا؟.. جاؤ اور سلام کرو"۔

اس درخواست اور اس کے عمل میں 15 سے 30 منٹ لگتے ہیں، اور میں اس "نظرانداز" پر بھی زیادہ غور نہیں کرتا۔

دنیا مصروف ہے، اور کچن سے میرے کمرے تک کے راستے میں بہت ٹریفک ہوتی ہے، اور ان کو میرے پاس پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔

آخرکار وہ ایک ایک کر کے آتے ہیں اور ٹھنڈے انداز میں سلام کرتے ہیں۔

پچھلے ہفتے، جب میرا بڑا بیٹا اسکول سے واپس آیا، میں حادثاتی طور پر اپنے دفتر سے باہر نکلا اور اسے کچن میں کھڑا دیکھا، وہ "ماں" کو کچھ دے رہا تھا، اور جب اس نے مجھے دیکھا تو پیچھے ہٹ گیا اور اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے چھپا لیا۔ میں نے بغیر دھیان دیے اپنا راستہ جاری رکھا۔

واپسی پر میں نے اسے پکڑ لیا جب وہ اس کی ماں کو ایک عمدہ چاکلیٹ کا ٹکڑا دے رہا تھا جو اس نے اپنے جیب خرچ سے خریدا تھا، اور جب اس نے مجھے دیکھا تو شرمندہ ہو گیا اور نہیں جانتا تھا کہ اس موقع کو کیسے سنبھالے!!

پھر چند لمحوں بعد اس نے اپنی جینز کی جیب سے ایک "کرمل" کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کی جو جیب کے نیچے چپکئ ہوئی تھی۔ بمشکل اس نے اسے نکالا اور اس پر کچھ ٹشو پیپر کے ٹکڑے لگے ہوئے تھے، اور وہ مجھے دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا!!

میں اس "امتیازی سلوک" پر زیادہ غور نہیں کرتا، صحیح ہے کہ اس نے اپنی ماں کے لئے جو چاکلیٹ خریدا تھا وہ بہت مزیدار تھی، لیکن مجھے ان کے اپنی ماں کی طرف زیادہ جھکاؤ سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، ہم بھی ان جیسے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ تھے!!

باپ کی محنت، سفر، تکلیف اور شفقت کے باوجود، جھکاؤ ہمیشہ ماں کی طرف ہوتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے جسے پر ہم کنٹرول نہیں کر سکتے!

عجیب بات یہ ہے کہ بچے اپنے والد سے اپنی شدید محبت کا احساس بہت دیر سے کرتے ہیں، یا تو والد کے جانے کے بعد، یا بیماری مبتلا ہوتے ہیں اور یہ زندگی کی خواہش کے خاتمے کے بعد...!

اور یہ محبت والد کے وقت کے حساب سے بہت دیر سے آتی ہے۔

اب جب بھی میں کسی فیصلے میں بھٹک جاتا ہوں، یا زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتا ہوں، یا کسی معاملے میں تذبذب کا شکار ہوتا ہوں...

میں آہ بھرتا ہوں اور کہتا ہوں: "ابا، آپ کہاں ہیں؟"

میرے سمیت جن کے والدین حیات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے اور جو اس دارفانی سے کوچ کرگئے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین 🤲🏻copied

18/07/2024

شادی سے قبل یا شادی کے فوری بعد اپنی بیگم سے مشاورت کرکے پانچ باتیں بطور اصول اختیار کرلیں۔
۔
1👈 میں تم سے کوئی ایسی بڑی توقع وابستہ نہیں کروں گا جو میں خود تمہارے لئے نا کرسکوں۔ گویا اگر میں چاہتا ہوں کہ تم میرے والدین کو اپنے والدین جیسی عزت دو تو میں خود پہلے آگے بڑھ کر تمہارے والدین کو بھرپور عزت و مقام دوں گا۔ اگر میری خواہش ہے کہ تم خود کو بھدا نا ہونے دو تو خود میں بھی اپنی فٹنس کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔
۔
2👈ہم دوسرے گھروں یا رشتہ داروں سے اچھی باتیں سیکھیں گے ضرور مگر کبھی بھی ان کے خاندانی ماحول کو مکمل اپنا ماحول بنانے کی حماقت نہیں کریں گے۔ پھر چاہے وہ میرے والدین بہن بھائیوں کا گھر ہو یا تمہارے والدین بہن بھائیوں کا گھر۔ گویا اپنے گھر کا ماحول و مزاج ہم خود منفرد انداز میں ترتیب دیں گے۔
۔
3👈ہر انسان مختلف صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ہم اپنی ممکنہ اولاد کی انفرادی صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر اس کی تربیت کریں گے۔ کسی اور کی اولاد کو مثال بنا کر اپنی اولاد کی جداگانہ شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دیں گے۔ پھر چاہے میرے بھتیجے بھانجے ہوں یا تمہارے۔
۔
4👈 اگر جھگڑا ہوجائے تو بھلے ایک دوسرے پر سیخ پا ہوں مگر کبھی بھی غصے میں ایک دوسرے کے گھر والو بالخصوص والدین کو گالی نہیں دیں گے اور نا ہی کبھی ہاتھ اٹھائیں گے۔
۔
5👈 غلطی بھلے کسی کی بھی ہو۔ معافی مانگنے میں دونوں سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ انا کو ایک روز سے زیادہ دیوار نہیں بننے دیں گے۔ اگر ایک معافی مانگ لے تو دوسرا کوئی جملہ کسے بغیر اسے معاف کردے۔ چاہے یہ عمل کروڑ مرتبہ ہو مگر ایسے جملے نا کہے کہ سوری سے کچھ نہیں ہوتا۔ بلکہ فوری معافی قبول کرے اور دل بڑا کرکے خود بھی جوابی معافی مانگ لے۔ ایسے جھگڑوں میں غلطی اکثر دونوں جانب سے ہوتی ہے، بس کسی کی زیادہ ہوتی ہے تو کسی کی کم۔
۔
عزیزانِ من؛ ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اگر آپ یہ پانچ اصول فی الواقع اپنا لیتے ہیں تو خوش حال اور محبت بھری ازدواجی زندگی آپ کی منتظر ہے...!!!

بشکریہ ذوالفقار مغل
✍ سید ثمر احمد

Address

Peshawar
25000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Make it Simple and Easy posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram