
21/08/2020
پھالیہ اور چاچا خوشی زندہ باد
چاچا خوشی
آج کی یہ خصوصی تحریر میرے آبائی شہر پھالیہ منڈی بہاؤالدین والوں کے نام ہے۔ دوسری یا تیسری کلاس میں تھا جب ایک دن گھر والوں نےنئے گھر میں شفٹ ہونے کا اعلان کیا۔ بلکل دل نہیں تھا العباس چوک چھوڑ کر گھنیاں روڈ آنے کا لیکن اس لیے آ گیا کہ چاچے خوشی کی دکان نئے گھر کے بلکل پاس تھی۔ “چاچا خوشی” کی کریانہ کی دوکان تھی اور دادا سے لے کر پوتے تک سب ہی اس کے گاہک تھے کیونکہ چاچا خوشی مشہور تھا” چوہنگے “ کے لئے-“ چوہنگ” پنجابی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پرندے کا چونچ مارنا۔ چاچا خوشی صبح سے شام تک سب کو مفت، جی، بلکل مفت “چوہنگہ” دیتا تھا۔ زیادہ تر دال سویّاں یا پتیسہ ملتا تھا، لیکن حسبِ ضرورت لوگ کچھ بھی مانگ (demand) لیتے تھے۔ جیسے ایمبیسی سیگریٹ، گڑ کی ڈلی، پتنگ بازی والے پھول مارکہ دھاگے کے لئے سریش اور شیشہ، وغیرہ وغیرہ اور دلچسپ بات یہ تھی کہ چاچا دے بھی دیتا تھا۔
دکان کیا تھی ایک جنجال پورہ تھا اور چاچا خود ایک درویش صفت انسان جو ہر دوسرے روز اپنی ٹینڈ نیکی سمجھ کے کرواتاتھا۔ سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ چاچا پیسے بوری میں رکھتا تھا۔میں شروع شروع میں کچھ شرمایالیکن پھر تو جیسے چاچے کی دکان اپنی دکان تھی، صبح شام چکر لگتے تھے۔ اکثر عشاء کی نماز میں، میں کوشش کرتا تھا کہ چاچے کے بلکل ساتھ کھڑا ہوں اور امام صاحب کی آمین پر اونچا سا آمین بولوں تاکہ چاچے کو میری موجودگی کا یاد رہے۔ نمازیوں سے اکثر ڈانٹ پڑتی تھی کہ آہستہ بولا کرو، اب بھلا انہیں کیا پتا کہ وہ تو نمازیں پڑھ رہے تھے اللہ کے لئے اور میں زیادہ چوہنگے کے لئے۔
یوں کرتے کرتے بات میٹرک تک جا پہنچی۔ ایک دن مسجد میں ملاقات ہوئی تو چاچا بولا تیمور یارحساب آتا ہے؟ کچھ کھاتے سیدھے کرنے ہیں۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کھاتے کھولنا تو آتے ہیں سیدھے کرنے نہیں۔ خیر، اگلے دن شام کو چلا گیا۔ کھاتے دیکھے تو دماغ گھوم کے رہ گیا۔ اتنا ادھار دیا ہوا تھا جتنے کی دکان بھی نہ تھی۔ میرے سے رہا نہ گیا تو پوچھ ہی لیا کہ اتنے سالوں سے چوہنگہ دے رہے اور اتنا زیادہ ادھار، اس کی وجہ کیا ہے۔ چاچے نے کہا کہ میرے اپنے بچے تو کئی سالوں سے گم ہو گئے ہیں، اب آپ سب ہی میرے بچے ہو اور پھر اس امید پر کہ تم میں سے کسی کی دعا لگی تو اللہ میرے بچوں کے لئے آسانی پیدا کر دےگا۔ اس دن سے لے کر دوبئی جانے تک، میں اکثر چاچا خوشی کے پاس چلا جاتا تھا۔
کچھ عرصہ بعد بڑی عید پر پاکستان واپس آیا تو چاچے سے ملنے گیا تو وہاں ایک درمیانے قد کا لڑکا بیٹھا تھا، دکان بلکل صاف ستھری تھی، پیسوں کے لئے لوہے کا گلہ تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ چاچا حج پر گیا ہے اور وہ لڑکا چاچے کا کھویا ہوا بیٹا مصطفیٰ ہے۔ اس نے ایک درد بھری لمبی داستان سنائی کہ کیسے وہ اور اس کی بہن واپس پھالیہ پہنچے۔لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ دو دہائیوں کی دوری کے بعد بلآخر وہ سب آپس میں ملے تھے اور چاچا بیٹی کی شادی کے بعد حج پر گیا ہوا تھا۔ اس کے بعد چاچے سے ملاقات نہ ہو پائی لیکن دل کو یہ جان کر سکون ملا کہ چاچے کو صرف نام کی ہی نہیں بلکہ حقیقی خوشی بھی مل گئی تھی۔
ابھی کچھ دن پہلے فیس بک پران کی وفات کا معلوم ہوا تو سوچا “چاچا خوشی” کی محبت اور سخاوت کو مل کر یاد کیا جائے اور اپنے وقت کے حاتم تائی کےلئےمغفرت کی دعا کی جائے۔ ان کی اصل تصویر بھی اس تحریر کے ساتھ شئیر کر رہاہوں۔ اگر آپ نے کبھی چاچے سے ملاقات کی ہے یا چوہنگہ لیا ہو تو اس تحریر کو آگے شئیر کریں۔ شکریہ ، تیمور ساجد