Hakeem Atif

Hakeem Atif Hakeem Atif

01/11/2024
15/08/2024

‏*_قادیانی ادویات_*

1- ایف بی (F.B) ہومیو کمپنی
2- کیوریٹیو (Curative) ہومیو کمپنی
3- وارسن (Warson) ہومیو کمپنی
4- لیکسو (Lexo) ہومیو کمپنی
5- خورشید یونانی دواخانہ
6- مطب حمید دواخانہ
7- قاضی دواخانہ چک چھٹہ حافظ آباد

*_دوسری مصنوعات_*
1- ایم ٹی اے کے تمام چینلز
2- شاہ نواز ٹیکسٹائل ملز
3- رومی ٹریولز
4- کلفٹن شوز
5- بیٹا پائپ beta pipe
6- ٹربو پلاسٹک
7- زاہد پیکجز ، ناصر ، خورشید
8 راجہ سوپ
9- سپیڈ انرجی ڈرنکس
10- رحمان کون مہندی
11- ماسٹر ٹیکسٹائل
12- بوبی شوز لاہور
13- تھرمو پلاسٹک
14- یونیورسل اسٹیبلائزر
15- الرجیم جیولرز
16- تمام قائد اعظم لاء کالجز
17- این ای ٹی ایس کالجز
18 سونی سائیکل انڈسٹریز
19- ولٹیکس سٹیبلائزر

*_کھانے پینے والی مصنوعات_*
1- شیزان کی تمام مصنوعات
2- پران کی تمام مصنوعات
3- کنگ بناسپتی
4- کوکنگ آئل
5- پرل بناسپتی
6- ذائقہ گھی
7- کوکنگ آئل
8- مشموم کمپنی کی تمام مصنوعات
9- سنگم دودھ
10- ثمر قند شربت
11- پنجاب آئل ملز کی تمام مصنوعات
12- شاہ تاج شوگر ملز
13- شان آٹا
14- ٹوسٹ جوسز
15-مشموم منرل واٹر

یاد رہے قادیانیوں کا معاملہ دوسرے کافروں سے قدرے مختلف ہیں۔ یہودی، عیسائی، سکھ اور ہندو وغیرہ خود کو مسلمانوں سے الگ سمجھتے ہیں۔جبکہ قادیانی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔ اور یہ بات علم میں آئی ہے کہ قادیانیوں کو جو رقم اپنی مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے وہ مسلمانوں کو مرتد بنانے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ لہذا ان سے خرید و فروخت کرنا سور اور شراب کی خرید وفروخت کی مانند ہے۔
*_نوٹ:- یہ میسج ہر مسلمان تک پہنچنا چاہیے۔_*
*_ختم نبوتﷺ کے مبارک کام میں اپنا حصہ شامل کریں_*

21/01/2020
غصہ اور اسکے بداثرات*غصہ جسم کے اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خون زیادہ مقدار میں گر...
27/08/2019

غصہ اور اسکے بداثرات*
غصہ جسم کے اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خون زیادہ مقدار میں گردوں کی طرف جاتا ہے۔ جس کے سبب زیادہ پیشاب آنے لگتا ہے۔ غصے کے وقت دل میں پیدا ہونے والی بائیولوجیکل تبدیلیوں کے تحت دوران خون تیز ہونے کی وجہ سے دل کی دھڑکن اور جلد کی رگوں میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لیئے غصے سے چہرہ سرخ ہوتا ہے۔
غصہ ایک ہیجانی کیفیت کا نام ہے ۔ ماہرین نفسیات نے غصے کو محرومی کا ایک فطری ردعمل قرار دیا ہے۔
الفریڈ ایڈلر نے کہا کہ غصے کا مقصد اپنی راہ میں حائل تمام دشواریوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں بار بار غصے کے اٹیک ہوتے رہتے ہیں۔
اکثر کلینیکل سائیکالوجسٹس کے مطابق دل کا تیزی سے دھڑکنا، سانس کا اکھڑنا، شعلہ بار نگاہیں، مٹھیاں بھینچ لینا، چہرہ سرخ اور عضلات میں اینٹھن کی علامات غصے کو ظاہر کرتی ہیں۔ جگر سے شکر کی ایک بڑی مقدار خون میں شامل ہوجاتی ہے، جس کے سبب ہاضمے کا عمل موقوف ہوجاتا ہے، خون میں ایڈرینالین کی مقدار بڑھ جاتی ہے، یہ ہیجانی کیفیت اسوقت تک کم نہیں ہوتی جب تک زائد قوت خارج اور زائد کاربوہائیڈریٹس صرف نہ ہوجائیں۔
سیگمنڈ فرائیڈ کے مطابق جب انسان اپنے لاشعور سے غلط تصورات اور ناپسندیدہ خیالات کا چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو یہ صورت فطری توانائی یا سائیکک انرجی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جس سے انسان کے جذبات میں غصہ پیدا ہوجاتا ہے۔
فرائز ایلیگزینڈر کے مطابق اگر غصے یا جذبات کا اظہار نہ کیا جائے اور اسے ضبط کی کوشش کی جائے تو جسم کا پورا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ غصے کو برداشت یا ضبط کرنے پر السر معدہ، درد سر، بیخوابی، ڈپریشن، منشیات کی خواہش، پھیپھڑوں کی خرابی اور بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
امریکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر کے 75 فیصد مریض غصے اور جذبات کی گھٹن میں مبتلا تھے۔ جو غصے کو ضبط کرتے تھے جس کے نتیجہ میں شدید جسمانی و ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر پشت کمر رد اور گنٹھیا جیسے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غصے کو مسلسل ضبط کرنے اور اس کا اظہار نہ کرنے سے انسانی توانائیوں کا بہاؤ رک جاتا ہے اور یہ توانائیاں پروان چڑھنے کے بجائے جامد ہونے لگتی ہیں۔ ایسے افراد عوارض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جب غصے کی کیفیت بہت بڑھتی ہے تو خون کے بستگی خلیات چپکنے لگتے ہیں۔ خون کے خلیات میں چپچپاہٹ ہونے لگتی ہے۔ خلیوں کے آپس میں چپکنے سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے یا اس میں کلاٹس بننے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال دل کے دورے کا باعث بنتی ہے۔
ایک تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جارحانہ طبیعت اور غصیلے افراد کی شریانوں کی تنگی ہارٹ اٹیک کا باعث بنتی ہے۔ یہ مرض اگر ایک بار ہوجائے تو بار بار اسی رفتار سے ہوتا رہتا ہے۔
امریکہ کی ایک تحقیق کے درمیانی حصہ میں ڈھائی سو سے زائد مردوں اور عورتوں جن کا غصہ معمول سے زائد تھا اندازہ لگایا گیا کہ ان میں حملہ قلب سے موت کے امکان دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں۔
نیز غصہ انسانی ذہن کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ غصے کی حالت میں انسانی ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ جذباتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ یاداشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔ دیگر دماغی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ غصیلا فرد حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے، اور منفی سوچ کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں دل زور سے دھڑکتا ہے جسم کپکپانے لگتا ہے، طبیعت چڑچڑی ہوجاتی ہے، جسم کے اعضاء سن ہونے لگتے ہیں۔ کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ خلاف مزاج بات پر بھڑک اٹھنا، طیش میں آ کر خود کو نقصان پہنچانا، غصے کے وقت چیخنا چلانا اور رونا، بعض اوقات خود کو مارنا پیٹنا، غصے کی خاص علامات ہیں۔
*نوٹ۔۔ غصے کی حالت میں دل پر انتہائی پریشر سے دل رک کر اچانک موت واقع ہوسکتی ہے*۔
*یونیفیکیشن تھیوری کے مطابق ماہیت مرض*
غصہ کے وقت تحریک قشری عضلاتی ہوتی ہے یعنی مزاج میں گرمی خشکی سے جگر کے فعل میں تیزی آجاتی ہے اور خون میں صفراء بڑھ جاتا ہے۔ بول براز زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ انسان جذباتی ہوجاتا ہے یہاں سے غصہ کی ابتداء ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ مرض سوزش قلب کا دوسرا قشری درجہ ہے۔
جب دل حرارت سے ضعیف ہو جاتا ہے، تو تیسرا تسکین قلب کا درجہ مرض شروع ہوکر اعصابی قشری تحریک ہوجاتی ہے، مستقل ڈپریشن، ہیجانی دورے، رات کو بلڈ پریشر بڑھنا، سر درد، خوف، وسوسے، متلی، کھانسی، سانس پھولنا، بھوک بند جیسی اعصابی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لیکن غصہ اس درجہ میں بھی رہتا ہے۔ مریض یا مریضہ اکثر کڑھتی رہتی ہے اور اچانک پھٹ پڑتی ہے۔ غصے کے بعد دل غمزدہ ہوجاتا ہے۔
طبی علاج۔۔۔۔
مریض کو نہایت محبت و شفقت سے پیش آئیں۔ ہمدردی و دلاسہ دیا جائے، اسے خوشکن خبر سنانے کی کوشش کی جائے، سیر و تفریح پر لے جانا مفید ہے، مریض کی مرضی کے خلاف کوئی بات یا کام نہ کیا جائے، اسے ہر طرح پرسکون رکھنے کی کوشش کی جائے،
نظریہ اربعہ فارماکوپیا میں سے ایم سی ایم اور تریاق67 مفید و مجرب ترین علاج ہے۔
اور جب بھی شدید غصے کا حملہ ہو مریض کو فورا ٹھنڈا پانی دیں اور ایک رتی یاقوتی یا ایک گرام مفرح دیں۔

27/08/2019

غصہ اور اسکے بداثرات*
غصہ جسم کے اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور خون زیادہ مقدار میں گردوں کی طرف جاتا ہے۔ جس کے سبب زیادہ پیشاب آنے لگتا ہے۔ غصے کے وقت دل میں پیدا ہونے والی بائیولوجیکل تبدیلیوں کے تحت دوران خون تیز ہونے کی وجہ سے دل کی دھڑکن اور جلد کی رگوں میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لیئے غصے سے چہرہ سرخ ہوتا ہے۔
غصہ ایک ہیجانی کیفیت کا نام ہے ۔ ماہرین نفسیات نے غصے کو محرومی کا ایک فطری ردعمل قرار دیا ہے۔
الفریڈ ایڈلر نے کہا کہ غصے کا مقصد اپنی راہ میں حائل تمام دشواریوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں بار بار غصے کے اٹیک ہوتے رہتے ہیں۔
اکثر کلینیکل سائیکالوجسٹس کے مطابق دل کا تیزی سے دھڑکنا، سانس کا اکھڑنا، شعلہ بار نگاہیں، مٹھیاں بھینچ لینا، چہرہ سرخ اور عضلات میں اینٹھن کی علامات غصے کو ظاہر کرتی ہیں۔ جگر سے شکر کی ایک بڑی مقدار خون میں شامل ہوجاتی ہے، جس کے سبب ہاضمے کا عمل موقوف ہوجاتا ہے، خون میں ایڈرینالین کی مقدار بڑھ جاتی ہے، یہ ہیجانی کیفیت اسوقت تک کم نہیں ہوتی جب تک زائد قوت خارج اور زائد کاربوہائیڈریٹس صرف نہ ہوجائیں۔
سیگمنڈ فرائیڈ کے مطابق جب انسان اپنے لاشعور سے غلط تصورات اور ناپسندیدہ خیالات کا چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو یہ صورت فطری توانائی یا سائیکک انرجی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جس سے انسان کے جذبات میں غصہ پیدا ہوجاتا ہے۔
فرائز ایلیگزینڈر کے مطابق اگر غصے یا جذبات کا اظہار نہ کیا جائے اور اسے ضبط کی کوشش کی جائے تو جسم کا پورا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ غصے کو برداشت یا ضبط کرنے پر السر معدہ، درد سر، بیخوابی، ڈپریشن، منشیات کی خواہش، پھیپھڑوں کی خرابی اور بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
امریکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر کے 75 فیصد مریض غصے اور جذبات کی گھٹن میں مبتلا تھے۔ جو غصے کو ضبط کرتے تھے جس کے نتیجہ میں شدید جسمانی و ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر پشت کمر رد اور گنٹھیا جیسے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غصے کو مسلسل ضبط کرنے اور اس کا اظہار نہ کرنے سے انسانی توانائیوں کا بہاؤ رک جاتا ہے اور یہ توانائیاں پروان چڑھنے کے بجائے جامد ہونے لگتی ہیں۔ ایسے افراد عوارض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جب غصے کی کیفیت بہت بڑھتی ہے تو خون کے بستگی خلیات چپکنے لگتے ہیں۔ خون کے خلیات میں چپچپاہٹ ہونے لگتی ہے۔ خلیوں کے آپس میں چپکنے سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے یا اس میں کلاٹس بننے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال دل کے دورے کا باعث بنتی ہے۔
ایک تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جارحانہ طبیعت اور غصیلے افراد کی شریانوں کی تنگی ہارٹ اٹیک کا باعث بنتی ہے۔ یہ مرض اگر ایک بار ہوجائے تو بار بار اسی رفتار سے ہوتا رہتا ہے۔
امریکہ کی ایک تحقیق کے درمیانی حصہ میں ڈھائی سو سے زائد مردوں اور عورتوں جن کا غصہ معمول سے زائد تھا اندازہ لگایا گیا کہ ان میں حملہ قلب سے موت کے امکان دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں۔
نیز غصہ انسانی ذہن کو نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ غصے کی حالت میں انسانی ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ جذباتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ یاداشت میں کمی ہونے لگتی ہے۔ دیگر دماغی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ غصیلا فرد حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے، اور منفی سوچ کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں دل زور سے دھڑکتا ہے جسم کپکپانے لگتا ہے، طبیعت چڑچڑی ہوجاتی ہے، جسم کے اعضاء سن ہونے لگتے ہیں۔ کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ خلاف مزاج بات پر بھڑک اٹھنا، طیش میں آ کر خود کو نقصان پہنچانا، غصے کے وقت چیخنا چلانا اور رونا، بعض اوقات خود کو مارنا پیٹنا، غصے کی خاص علامات ہیں۔
*نوٹ۔۔ غصے کی حالت میں دل پر انتہائی پریشر سے دل رک کر اچانک موت واقع ہوسکتی ہے*۔
*یونیفیکیشن تھیوری کے مطابق ماہیت مرض*
غصہ کے وقت تحریک قشری عضلاتی ہوتی ہے یعنی مزاج میں گرمی خشکی سے جگر کے فعل میں تیزی آجاتی ہے اور خون میں صفراء بڑھ جاتا ہے۔ بول براز زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ انسان جذباتی ہوجاتا ہے یہاں سے غصہ کی ابتداء ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ مرض سوزش قلب کا دوسرا قشری درجہ ہے۔
جب دل حرارت سے ضعیف ہو جاتا ہے، تو تیسرا تسکین قلب کا درجہ مرض شروع ہوکر اعصابی قشری تحریک ہوجاتی ہے، مستقل ڈپریشن، ہیجانی دورے، رات کو بلڈ پریشر بڑھنا، سر درد، خوف، وسوسے، متلی، کھانسی، سانس پھولنا، بھوک بند جیسی اعصابی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لیکن غصہ اس درجہ میں بھی رہتا ہے۔ مریض یا مریضہ اکثر کڑھتی رہتی ہے اور اچانک پھٹ پڑتی ہے۔ غصے کے بعد دل غمزدہ ہوجاتا ہے۔
طبی علاج۔۔۔۔
مریض کو نہایت محبت و شفقت سے پیش آئیں۔ ہمدردی و دلاسہ دیا جائے، اسے خوشکن خبر سنانے کی کوشش کی جائے، سیر و تفریح پر لے جانا مفید ہے، مریض کی مرضی کے خلاف کوئی بات یا کام نہ کیا جائے، اسے ہر طرح پرسکون رکھنے کی کوشش کی جائے،
نظریہ اربعہ فارماکوپیا میں سے ایم سی ایم اور تریاق67 مفید و مجرب ترین علاج ہے۔
اور جب بھی شدید غصے کا حملہ ہو مریض کو فورا ٹھنڈا پانی دیں اور ایک رتی یاقوتی یا ایک گرام مفرح دیں۔

میلان الرحم ۔۔۔۔۔۔Displacement of Uterus...رحم کے کسی ایک جانب جھک جانے کو میلان الرحم کہا جاتا ہے رحم اگے سے پیچھے کی ط...
27/08/2019

میلان الرحم ۔۔۔۔۔۔
Displacement of Uterus...
رحم کے کسی ایک جانب جھک جانے کو میلان الرحم کہا جاتا ہے
رحم اگے سے پیچھے کی طرف جھک جانا عام مرض ہے لیکن اگر رحم اگے کی جانب جھک جائے تو اسے Anti verted یوٹرس کہتے ہیں اسی طرح اگر رحم پیچھے کی طرف جھک جائے تو وہ Retroverted یوٹرس کہلائے گا
طبعی حالت میں رحم جوف عانہ کے درمیانی حصہ میں پیڑو کے گوشت اور ہڈی کے درمیان ہوتا ہے اور بہت سی ساختوں ( رباطات اور جھلیوں ) کے سہارے اسی وضع پہ قائم رہتا ہے عنق الرحم، مہبل سے مل کر زاویہ قائمہ بناتا ہے چنانچہ جب یہ زاویہ سامنے کی جانب بنتا ہے تو اسے انٹی ورٹیڈڈ اور جب رحم کا میلان پیچھے کی جانب ہوجائے تو اسے ریٹرو ورٹیڈڈ کہتے ہیں
Anti verted Uterus
اکثر عورتوں کا رحم اینٹی ورٹڈ حالت میں ہی ہوتا ہے لیکن علامات یا تکلیف نہ ہونے کے باعث عموما عورتوں کو اینٹی ورٹڈ رحم کااحساس ہی نہیں ہوتا۔ بہت سی لڑکیاں اینٹی ورٹڈ یوٹرس لے کر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ان کے رحم کی فطری ساخت ہوتی ہے لیکن اگر رحم کا آگے کی جانب جھکاؤ بہت زیادہ ہوتو پیڑو کے سامنے درد یا وزن محسوس ہوتا ہے۔ کچھ مخصوص کیسز میں حمل اور ڈیلیوری کے سبب رحم کی پوزیشن تبدیل ہوکر رحم مزید اینٹی ورٹڈ ہوجاتا ہے۔ جدید تحقیق کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ رحم کی پوزیشن تبدیل ہونے سے حاملہ ہونے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کچھ پیچیدہ کیسز میں رحم کا مڑجانا مانع حمل ہوسکتا ہے۔ مباشرت کے دوران رحم کا اینٹی ورٹڈ ہونا کسی تکلیف درد یا بے آرامی کا باعث نہیں بنتا۔ یہ صورت عموما خلقی ہوتی ہے اس میں رحم عجز کی جانب مڑا ہوتا ہے اس میں عام طور پر رحم کی مکمل نشونما نہیں ہوپاتی۔ طبی لحاظ سے یہ صورتحال تحریک اور تبرید کے درجات یا امزجہ میں پیش آتی ہے۔ سیزیریئن آپریشن کے بعد یا رحم کی ذاتی سوزش اینڈومیٹروسس کے بعد تبرید کے درجہ میں سکر ٹشوز پیدا ہوکر رحم کو بہت زیادہ اینٹی ورٹڈ جھکاؤ دے دیتے ہیں۔
اینٹی ورٹڈ صورت حال وراثتی طور پہ عموما گول چہرے والی خواتین میں ہوتی ہے۔ یہ نوزائیدہ بچیوں میں اگر ہو تو بلوغت تک قائم رہتی ہے۔
Retroverted Uterus
یہ صورت 30 سے 40 فیصد عورتوں میں پائی جاتی ہے اس کے اسباب مختلف ہیں ان میں 5% عورتیں ایسی ہیں جن میں یہ نقص خلقی طور پر پایا جاتا ہے جو کہ بیضوی چہرہ کی ہوتی ہیں۔ لیکن باقی عورتیں اسباب واصلہ کی زد میں اتی ہیں اور یہ مرض لگا بیٹھتی ہیں جبکہ کچھ عیاش طبع مرد غیر فطری پوزیشن اختیار کرکے ج**ع سے لذت حاصل کرتے ہیں اور رحم پر الٹی سیدھی ٹھوکریں پڑنے سے رحم اپنی جگہ سے ہٹ کر پیچھے کی جانب مڑ جاتا ہے ضعف عضلات اور رباطات ڈھیلے ہوجاتے ہیں
طب کے مطابق یہ تحلیل و تسکین رحم کے درجات میں صورتحال پیش آتی ہے۔
اس کے علاوہ انڈو مٹروسز کی سوزش یعنی رحم کی دیواروں کی سوجن رحم کو پیچھے کی طرف دھکیل دیتی ہے اس صورتحال میں کثرت طمث جیسا مرض پیدا ہوجاتا ہے ایسی عورتیں جن کے پیڑو اور پیٹ لٹکے ہوتے ہیں ان میں بھی رحم مسلسل دباو سے پیچھے کی طرف مڑ جاتا ہے میلان الرحم کی سب سے بڑی وجہ غیری فطری ج**ع اور ضعف عضلات ہے اس کے علاوہ حمل کے دورانیہ میں بھی رحم پیچھے کی طرف جھک جاتا ہے
علامات۔۔۔۔۔۔۔
ج**ع کے وقت درد
مسلسل کمر درد
قبض
منہ سے بو انا
پیٹ کا اپھارہ
ج**ع سے بے رغبتی
اعضاء مخصوصہ کا ڈھیلا پن
ٹانگیں درد
اندام نہانی سے پانی کا اخراج
مینسز کا دو سے تین دن انا
لیکوریا بدبودار
بوجھ پڑنا وغیرہ
علاج۔۔۔.
غیر فطری ج**ع سے پرہیز کریں وقت ج**ع کمر کے نیچے تکیہ رکھ لیں محلل اورام دوگرام تین بار دودھ سے دیں
جب مینسز چار سے پانچ دن تک انے لگیں تو عضلاتی مخاطی ادویہ و اغذیہ دیں پیروں کے بل بیٹھنے سے اجتناب برتے پھٹکڑی ملے پانی سے استنجہ کریں
ورم رحم ۔۔۔۔
زمانہ اعضائے تناسلی نازک ترین اعضاء ہیں اور رحم بےشمار جراثمیوں کی اماجگاہ ہے جو عورتیں اپنی شرم گاہ کی صفائی نہیں رکھتیں وہ رحم کی بیماریوں میں جکڑی رہتی ہیں اس کے علاوہ گوشت خوری ، تلی ہوئی اشیاء اور گرم مصالحہ دار فوڈز وغیرہ
جبکہ حیض کا کم انا۔ دوران زچگی کسی الہ کا رحم میں لگ جانا ،کثرت ج**ع ،سوزاک ،آتشک یا سل کا مادہ رحم میں سرایت کرکے ورم رحم کا سبب بن جاتا ہے قشری عضللاتی میں بلخصوص مزمن ورم رحم پایا جاتا ہے بعد ازاں لیکوریا کی رطوبات رحم میں رک کر ورم رحم بن جاتی ہیں ورم جب حاد ہو تو اس میں پلپلی پائی جاتی ہے اسے ورم رخو کہتے ہیں یہ قشری اعصابی حاد مرض ہوتا ہے۔ جبکہ مزمن حالت میں رحم سخت ہوتا ہے اس حالت کو ورم صلب کہتے ہیں اگر ورم رحم کی ساخت میں ہوتو اسے ورم خاص کہتے ہیں اگر ورم رحم کے منہ پر ہو تو اسے ورم فم رحم کہیں گے یہی ورم اگر رحم کی جھلی میں ہو تو اسے ورم غشاء رحم سمجھا جائے گا اس ورم کی خطرناک بات یہ ہے کہ اگر حرارت بدنی ٹوٹ کر مرض آگے تبرید میں چلاجائے تو یہی بڑھ کر رسولیاں اور بعد ازاں کینسر بنتا ہے اور زندگی ختم ہو جاتی ہے
ورم رحم حاد کی علامات۔۔۔۔. قشری اعصابی مزاج ہوگا۔
کمر درد
پیڑو کا درد
لیکوریا
ج**ع میں درد
فم معدہ کا درد
گھبراہٹ
ٹانگوں کا درد
سستی تھکاوٹ
لرزہ اور بخار
شرم گاہ کی جلن
متلی اور قئے
بول براز کی بار بار حاجت
رنگ چہرہ پھیکا
پشاب کے قطرے۔
قشری اعصابی میں اکسیر نمبر 1 صبح شام دیں دن کے کھانے کے بعد تریاق پانچ مگر خیال رہے کہ تسکین قلب بڑھنے نہ پائے اس تحریک کی عورت کا علاج کچھ لمبا ہوتا ہے کیونکہ اسکی وجوھات میں ضعف عضلات، جسم نازک اور ورم ضدی ہوتا ہے اگر دوا تیز دی تو بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے
ورم رحم مزمن کی علامات۔۔۔ قشری عضلاتی مزاج ہوگا
پیڑو کے مقام پہ سخت ابھار
خون امیز لیکوریا
بدبودار پیپ ملا لیکوریا
بعد ازاں رحم میں رسولیاں بننا
وجائنا کی خارش
رحم کے درد سے بےہوشی
وغیرہ
اگر ورم پردہ صفاق تک پھیل جائے تو ہلاکت بھی ہوسکتی ہے
علاج۔۔۔ ۔
محلل اورام دوگرام اور تریاق پانچ ایک گرام دن میں تین بار دیں۔

ڈپریشنDepressionتعارف:وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے می...
27/08/2019

ڈپریشن
Depression
تعارف:
وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہھی شروع ہو جاتی ہے۔ عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات شیئر کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:
• اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو
• اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔
ڈپریشن میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ڈپریشن کی بیماری کی شدت عام اداسی کے مقابلے میں جو ہم سب وقتاً فوقتاً محسوس کرتے ہیں کہیں زیادہ گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کا دورانیہ بھی عام اداسی سے کافی زیادہ ہوتا ہےاور مہینوں تک چلتا ہے۔ درج ذیل ًعلامات ڈپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات مو جود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہیں۔
۱۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ رہنا
۲۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا
۳۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا
۴۔ روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا
۵۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جانا۔
۶۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا
۷۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا
۸۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا
۹۔ نیند خراب ہو جانا
۱۰۔ بھوک خراب ہو جانا
ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟
بعض لوگوں میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ بہت سے لوگوں کو جو اداس رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس کے باوجود ان کا ڈپریشن بعض دفعہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انھیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
•معاملاتَ زندگی
بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے۔ بات کو دل پر لے لیتے ہیں اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
• حالات وواقعات
اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
• جسمانی بیماریاں
جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو زندگی کے لیے خطرناک ہوں مثلا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بہت لمبے عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ ہوں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن مثلاً فلو کے بعد ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن طبی لحاظ سے دل کی کمزوری ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔
• شخصیت
ڈپریشن کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہےلیکن بعض لوگوں کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہماری شخصیت بھی ہو سکتی ہے اور بچپن کے حالات و تجربات بھی۔
• شراب نوشی اور منشیات کا استعمال۔
جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ انسان شراب پینے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے یا ڈپریشن کی وجہ سے شراب زیادہ پینے لگا ہے۔جو لوگ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں یا منشیات استعمال کرتے ہیں ان میں خود کشی کرنے کا خطرہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
• جنس
خواتین میں ڈپریشن ہونے کا امکان مرد حضرات سے زیادہ ہوتا ہے۔
• موروثیت
ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اورلوگوں کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
مینک ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
جن لوگوں کو شدید ڈپریشن ہوتا ہے ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں کو ایسے تیزی کے دورے بھی ہوتے ہیں جب وہ بغیر کسی وجہ کے بہت زیادہ خوش رہتے ہیں اور نارمل سے زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس تیزی کے دورے کو مینیا اور اس بیماری کو بائی پولر ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح مردوں اور عورتوں میں برابر ہے اور یہ بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔
کیا ڈپریشن انسان کی ذاتی کمزوری کا دوسرا نام ہے؟
جس طرح سے ذیابطیس ایک بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بڑھ جانا ایک بیماری ہے اسی طرح سے ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔
ڈپریشن میں آپ کس طرح سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؟
•اپنی جذباتی کیفیات کو راز نہ رکھیں۔
اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہو تو اسے کسی قریبی شخص سے شیئر کر لیں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اکثر دفعہ غم کی باتوں کوکسی قریبی شخص کے سامنے بار بار دہرانے، رو لینے اور اس کے بارے میں بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
•جسمانی کام کریں۔
کچھ نہ کچھ ورزش کرتے رہیں، چاہے یہ صرف آدھہ گھنٹہ روزانہ چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں چاہے یہ گھر کے کام کاج ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے انسان کا ذہن تکلیف دہ خیالات سے ہٹا رہتا ہے۔
•اچھا کھانا کھائیے۔
متوازن غذا کھانا بہت ضروری ہے چاہے آپ کا دل کھانا کھانے کو نہ چاہ رہا ہو۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ڈپریشن میں لوگ کھانا کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے بدن میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے اور طبیعت اور زیادہ خراب لگتی ہے۔
•شراب نوشی اور منشیات سے دور رہیں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب پینے سے ان کے ڈپریشن کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے لیکن یہ وقتی کیفیت ہوتی ہے حقیقت میں شراب پینے سے ڈپریشن اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے وقتی طور پر کچھ گھنٹوں کے لیے تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بعد میں آپ اور زیادہ اداس محسوس کریں گے۔ زیادہ شراب پینے سے آپ کے مسائل اور بڑھتے ہیں، آپ صحیح مدد نہیں لے پاتے اور آپ کی جسمانی صحت بھی خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
•نیند
نیند کے نہ آنے سے پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ سو نہ سکیں تو پھر بھی آرام سے لیٹ کر ٹی وی دیکھنے یا ریڈیو سننے سے آپ کو ذہنی سکون ملے گا اور آپ کی گھبراہٹ بھی کم ہو گی۔
•ڈپریشن کی وجہ کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن کی وجہ معلوم ہے تو اس کو لکھنے اور اس پہ غور کرنے سے کہ اسے کیسے حل کیا جائے ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
•مایوس نہ ہوں۔
اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ:
آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں۔
ایک نہ ایک روز آپ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا نہ لگتا ہو۔
ڈپریشن کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ڈپریشن کا علاج باتوں (سائیکو تھراپی) کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے، اینٹی ڈپریسنٹ اور طب میں مفرح و مقوی قلب ادویات کے ذریعے بھی اور بیک وقت دونوں کے استعمال سے بھی۔ آپ کے ڈپریشن کی علامات کی نوعیت، ان کی شدت اور آپ کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے لیے ادویات کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا سائیکو تھراپی۔ ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں سائیکوتھراپی کے استعمال سے طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اگر ڈپریشن زیادہ شدید ہو تو دوا دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
باتوں کے ذریعے علاج (سائیکوتھراپی)
ڈپریشن میں اکثر لوگوں کو اپنے احساسات کسی با اعتماد شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے۔بعض دفعہ اپنے احساسات رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ بانٹنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) سے بات کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔سائیکوتھراپی کے ذریعے علاج میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے آپ کو ماہر نفسیات سے ہر ہفتے ایک گھنٹے کے لیے ملنا ہوتا ہے اور اسکا دورانیہ ۵ ہفتے سے ۳۰ ہفتے تک ہو سکتا ہے۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات۔
اگر آپ کا ڈپریشن شدید ہو یا کافی عرصے سے چل رہا ہو تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا طبیب آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے طور پر خمیرہ جات، مفرح و مقوی قلب ادویات تجویز کرے۔ ان ادویات سے اداسی کم ہوتی ہے، زندگی بہتر لگنے لگتی ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بہتری ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا فائدہ دوا شروع کرنے کے بعد فوراً نظر آنا شروع ہوتا ہے گاہے اس میں ۲ سے ۳ ہفتے لگ سکتے ہیں۔بعض لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوا شروع کرنے کے بعد چند ہی دنوں میں ان کی نیند بہتر ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کم ہو جاتی ہے لیکن ڈپریشن کم ہونے میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کس طرح کام کرتی ہیں؟
انسانی دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ڈپریشن میں دو خاص کیمیکلز کی کمی ہوتی ہےجنھیں سیروٹونن اور نارایڈرینلین کہا جاتا ہے ۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ان کیمیکلز کی مقدار دماغ میں بڑھانے میں مددگار ہو تی ہیں۔ اکسیر1 المعروف مفرح ایک حصہ اور ایچ_67 چار حصہ ملاکر تین گرام دوا دن میں تین بار دیں ساتھ خمیرہ گاؤ زباں عنبری جدوار عود صلیب والا دیں۔ اگر بلڈ پریشر بھی ہائی ہے تو ایچ67 کی جگہہ ایم سی ڈالیں اور تریاق67 پانچ سو ملی گرام کیپسول صبح شام دیں۔ نیند کی کمی کیلیئے بالچھڑ آدھا سے ایک ماشہ شام کو دینا مفید ہوتا ہے۔ روزانہ صبح مربہ آملہ نہار منہ دیں۔
خاص ہدایت ۔۔۔ نیند پوری کریں اور باقائدہ ورزش کریں۔ یہ بہترین علاج ہے۔
کیا ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانا ہو گا؟
ڈپریشن کے بہت سارے مریض اپنے فیملی ڈاکٹر کے علاج سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت اس سے صحیح نہ ہو تو ہو سکتا ہے آپ کو ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانے کی ضرورت پڑے۔ سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر ہو تے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے نفسیاتی امراض کے علاج میں مزید تربیت حاصل کی ہو تی ہے
علاج نہ کرانے کی صورت میں کیا ہو تا ہے؟
اچھی خبر یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی بیس فیصد مریض بغیر علاج کے اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو انسان کئی مہینو ں تک اتنی شدید تکلیف کیوں برداشت کرتا رہے۔ کچھ لوگوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ اسی لیے اگر آپ کے ڈپریشن کی علامات کی شدت بڑھ گئی ہے اور ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی، آپ کے ڈپریشن نے آپکے کام، دلچسپیوں، اور رشتہ داروں اور دوستوں سے تعقات کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، یا آپ کو اس طرح کے خیالات آنے لگے ہیں کہ آپکے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ مر جائیں، تو آپ کو فوراً اپنا علاج کروانے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا سائکائٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

گوشت کے انسانی صحت پر اثراتمتوازن غذا کیلئے تمام ضروری غذائی اجزاء کو اعتدال میں استعمال کرنا چاہیےاپنی غذائی ضروریات پو...
27/08/2019

گوشت کے انسانی صحت پر اثرات

متوازن غذا کیلئے تمام ضروری غذائی اجزاء کو اعتدال میں استعمال کرنا چاہیے
اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان مختلف اقسام کی خوراک کھاتا ہے، جس میں پھل، سبزیاں، گوشت، مشروبات وغیرہ شامل ہیں۔
ان تمام چیزوں کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے۔ متوازن غذا کھانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عمر، صنف اور صحت کے مطابق ان سب چیزوں کا اعتدال میں استعمال کیا جائے۔
دوسرے غذائی اجزاء کے علاوہ گوشت بھی انسانی خوراک کا اہم جزو ہے، جس سے جسم کو پروٹین، لمحیات، آئرن، وٹامن B وغیرہ حاصل ہوتی ہیں، جوکہ ایک صحت مند جسم کیلئے ضروری ہیں۔ تاہم ہر قسم کی غذا کے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کو عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا چاہیے، گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ مچھلی اور مرغی کے گوشت کو عام طور پر White meat کہا جاتا ہے، اس سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہیں۔
White meat میں کلوریز اور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ اس طرح چوپائیوں اور دودھ پلانے والے جانوروں (Mamals) کا گوشت Red Meat کہلاتا ہے۔ مٹن (چھوٹا گوشت) میں چکنائی کی مقدار، چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ بیف (بڑے گوشت) میں چکنائی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، تاہم اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلاً پروٹین، زنک، فاسفورس،آئرن اور وٹامن B وغیرہ پوری ہوتی ہیں۔ White Meat اور Red Meat دونوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں، اس لیے انہیں ایک حد سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
طب اور غذائیات کے میدان میں ہونے والی ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ عام روٹین میں سرخ گوشت کا زیادہ استعمال مختلف سنگین نوعیت کی بیماریوں مثلاً کینسر، دل کے امراض، ذیابیطس، معدہ، جگر کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے، اس کے علاوہ بعض سٹڈیز کے مطابق اس کے زیادہ استعمال سے وقت سے پہلے اموات (Premature death) بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جو پہلے سے ہی ان بیماریوں میں مبتلا ہیں، انہیں سرخ گوشت کے استعمال میں غیر معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔
ہمارے ہاں شہروں میں ڈبوں میں پیک (Processed) گوشت کی خریدو فروخت کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ Processed سرخ گوشت سے بھی صحت کے مسائل لاحق ہوتے ہیں۔ ہاورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر Processed سرخ گوشت کو روزانہ ایک بار بھی کھانے میں استعمال کیا جائے تو دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات 42% تک، جبکہ ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات 19% تک بڑھ جاتے ہیں۔
ایسے گوشت کو محفوظ کرنے کیلئے نائٹریٹس (Nitrates) کا استعمال کیا جاتا ہے، جوکہ بعض سائنسدانوں کے نزدیک کینسر پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اس لیے اس تحقیق میں لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ کینسر کے خطرے سے بچنے کیلئے Processed سرخ گوشت سے اجتناب کریں۔
جو لوگ صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اگر وہ سرخ گوشت کی مقدار اپنی معمول کی خوراک میں کم کردیں تو سٹڈیز کے مطابق ان کی صحت میں بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہی ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کیلئے تجویز کیا تھا کہ وہ اوسطاً 70 گرام یا (2.5oz)روزانہ، جو ہفتے میں تقریباً 500 گرام (یا17oz) بنتا ہے، سرخ گوشت استعمال کرسکتے ہیں تاکہ بڑی آنت کے کینسر کے خطرے کو کم سے کم کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں شہروں میں فاسٹ فوڈ کلچر بھی جڑ پکڑ چکا ہے۔ نوجوان اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فیملیز بھی بڑی کثرت اور رغبت کے ساتھ اسے کھاتے ہیں۔ ان فاسٹ فوڈ ایٹمز میں بھی چکن یا گوشت کی دوسری اقسام شامل ہوتی ہیں۔ اسے معمول کا حصہ بنا لینے سے سب سے زیادہ موٹاپے کی شکایت پیدا ہوتی ہے، جوکہ خود ایک بیماری ہے اور بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ نیز ان کے استعمال سے صحت کے مختلف دوسرے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس لیے نہایت ضروری ہے کہ فاسٹ فوڈز سمیت گوشت کی دوسری تمام مصنوعات کو بڑی احتیاط کے ساتھ اعتدال میں برتا جائے۔ تاکہ اس سے آپ کے جسم کو نقصان کی بجائے فوائد حاصل ہوسکیں اور آپ ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔
عید کے موقع پر گوشت کھانے میں بے احتیاطی سے بچیں: ڈاکٹر اظہار ہاشمی
عیدالاضحی، جسے بڑی عید بھی کہا جاتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک بڑا تہوار ہے۔ اس دن مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ مختلف مسلم معاشروں کی روایات کے لحاظ سے اس دن کی اپنی منفرد ثقافتی حیثیت بھی ہے۔ عید کے موقع پر تو خیر خاندان کے لوگ اکٹھے ہوتے ہی ہیں، دوست احباب کی محفلیں بھی سجتی ہیں، لیکن عیدالاضحی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس موقع پر گوشت کی مختلف ڈشز تیار کرکے لذت کام و دہن کا بھی بھر پور اہتمام کیا جاتا ہے۔ گوشت کو روسٹ کرایا جاتا ہے، یا بعض گھروں میں باربی کیو پارٹی کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ قیمہ بنایا جاتا ہے، شامی تیار کیئے جاتے ہیں، غرض یہ کہ گوشت کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چیزوں کو اعتدال میں رہتے ہوئے عام دنوں کی طرح کھایا جائے۔ اگر اس سلسلے میں بے احتیاطی کی گئی تو بہت سے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو لوگ پہلے سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں، انہیں خاص طور پر اس موقع پر محتاط رہنا چاہیے اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق گوشت کھانا چاہیے۔ عید کے موقع پر گوشت کو زیادہ عرصہ تک سٹور کرنا بھی درست نہیں ہے۔عیدالاضحی کے موقع پر گوشت کھانے میں بے احتیاطی برتنے کی وجہ سے عام طور پر لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس حوالے سے ہم نے معروف ماہر طب ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی سے گفتگو کی، جس میں ڈاکٹر صاحب نے طبی حوالوں سے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی کا کہنا ہے ’’ایک نارمل انسانی جسم کو متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں لمحیات، پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیں جوکہ گوشت اور دوسری چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ ہر چیز کو اعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیا جائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
عید کے موقع پر احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کو طبی حوالے سے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض لوگ دانتوں کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر گوشت کو اچھی طرح سے صاف کرکے نفاست سے نہیں بنایا گیا ہوتا، گوشت کے چھوٹے چھوٹے ذرے دانتوں میں رہ جاتے ہیں، جوکہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوشت کے ریشے یا ہڈی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی مسوڑھوں یا دانتوں کی تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ مسوڑھوں میں سوجن بھی ہوسکتی ہے یا ان میں Cuts بھی لگ سکتے ہیں۔
پھر یہ کہ چھوٹا یا بڑا گوشت زیادہ مقدار میں کھانے سے معدے کی جھلیوں میں سوزش ہوجاتی ہے۔ زیادہ مقدار میں گوشت کھانے سے، گوشت آسانی سے ہضم نہیں ہوتا اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس سے ڈائریا جیسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، یا Constipation (قبض) بھی ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں کیفیات بہت تکلیف دہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی احتیاط کی جائے اور زیادہ مقدار میں گوشت کھانے سے اجتناب کیا جائے۔ گوشت کو زود ہضم بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اسے بغیر مصالحے کے یا پھر کم مصالحے میں اور شوربے کے ساتھ بنایا جائے۔ نیز انسانی جسم کو مناسب مقدار میں ایسی غذا مثلاً پھل، سبزیاں وغیرہ لیتے رہنا چاہیے، جس سے اس کے جسم کو Fiber ملتا رہے اور غذا ہضم کرنے میں آسانی رہے۔
ایسے لوگ جو پہلے ہی مختلف قسم کی بمیاریوں مثلاً یورک ایسڈ کی زیادتی، جوڑوں میں درد، بلڈ پریشر، شوگر، دل، معدہ یا جگر وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، انہیں اس موقع پر خاص طور پر احتیاط کرنی چاہیے اور گوشت سے پرہیز کرنا چاہیے یا ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق بہت تھوڑی مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر ان کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے یا ان کی بیماری شدید صورت اختیار کرسکتی ہیں۔
جہاں تک گوشت کو فریز (Freeze) کرنے کا سوال ہے، تو کوشش کرنی چاہیے کہ گوشت کو ہفتے، دس دن سے زیادہ فریز نہ کیا جائے اور جلد از جلد استعمال میں لے آیا جائے۔ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ کا بھی مسئلہ ہے، اس لیے گوشت کے خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اگر اس مسئلے کا سامنا نہ ہو، تو بھی گوشت کی Quality (معیار) اور غذائیت میں فرق آنا شروع ہوجاتا ہے۔ گوشت کو محفوظ کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ اسے فریز بھی کیا جاتا ہے یا کچھ لوگ گوشت ابال کر نمک لگاکر اسے خشک بھی کرتے ہیں۔ گوشت خراب ہونے کی علامات میں اس کا رنگ تبدیل ہونا یا بو آنا وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم گوشت کو زیادہ عرصہ تک سٹور کرنے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ عید کے موقع پر مناسب مقدار میں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت خود اپنے استعمال میں لایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق رشتہ داروں اور مستحقین میں بانٹ دیا جائے۔ کیونکہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں مڈل کلاس کا آدمی پھر بھی گھر میں مہینے میں تین چار بار گوشت پکا کر کھالیتا ہے، لیکن پسماندہ اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں بڑی تعداد میں سیلاب متاثرین بھی مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں، ان کی بھی ہر حوالے سے مدد کرنا ضروری ہے

Address


Telephone

03114389409

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hakeem Atif posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Hakeem Atif:

  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram